24 May 2020

سرور کائنات ﷺ کی عید

سرور کائنات ﷺ کی عید
محمد یاسین جہازی
رمضان کے آخری دن کا سورج غروب ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کے صحن سے چاند دیکھا اور یہ دعا پڑھی کہ
 اللَّہُمَّ أَہْلِلْہُ عَلَیْنَا بِالیُمْنِ وَالإِیمَانِ وَالسَّلاَمَۃِ وَالإِسْلاَمِ، رَبِّی وَرَبُّکَ اللَّہُ۔
نماز مغرب ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لائے اور تمام ازواج مطہرات سے ملاقات کی۔ پھر اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لائے۔ اتنے میں عشا کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے پہلے عشا کی نماز ادا فرمائی۔ پھر صدقۃ الفطر غریبوں میں تقسیم فرمایا اور لیٹ گئے۔
رات کے آخری پہر میں نماز تہجد کے لیے بیدار ہوئے، تو پہلے غسل فرمایا، ہرے رنگ کا لباس اور سیاہ کلر عمامہ مبارک زیب تن کیا اور مسجد نبوی تشریف لے گئے اور نماز فجر ادا فرمائی۔ نماز فجر کی بعد کی مجلس جلدی ختم فرماکر گھر تشریف لے آئے اور طاق عدد کھجور تناول فرمایا۔ اس کے بعد صحابہ کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے تھوڑی دور پر واقع حضرت سعید بن ابی العاصؓ کے گھر کے راستے سے عیدگاہ تشریف لے آئے۔ راستے میں زبان اطہر پر تکبیر جاری تھی۔یہ ایک کھلی جگہ تھی، جہاں ایک نیزہ گاڑ کر عیدگاہ بنالیا گیا تھا، اس کے پیچھے چند صفیں بنا لی گئی تھیں جہاں بچے، جوان اور بوڑھے سب موجود تھے۔ اور یہاں سے کچھ فاصلہ پر عورتیں بھی موجود تھیں۔ اور سب لوگ رنگ برنگے نئے لباسوں میں ملبوس امام الانبیا ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ سرور کائنات ﷺ سیدھے مصلیٰ پر تشریف لائے، صفیں درست کرنے کا حکم دیا اور عید کی دو رکعت نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا۔
چوں کہ مجمع کافی تھا اور عورتیں بالکل اخیر میں تھیں، اس لیے اس خیال سے کہ خطبہ کی آواز یہاں تک نہیں پہنچی ہوگی، آپ ﷺ عورتوں کے مجمع کے پاس تشریف لائے اور انھیں نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہوگی۔ اس پر ایک خواتین نے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے یا رسول اللہ!تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ عورتیں ناشکری اور شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں۔ اس خطاب کا فوری اثر یہ ہوا کہ صحابیات مطہرات نے اپنے زیورات اور کانوں کی بالیاں تک اتار کر حضرت بلال حبشی ؓ کے حوالے کردیا، جنھیں آپ ﷺ نے مستحقین میں تقسیم کردیا۔ پھر آپ ﷺ بنی زریق کے راستے سے عیدگاہ سے گھر تشریف لے آئے۔
آپ ﷺ کا حجرہ مبارکہ مسجد نبوی سے متصل تھا، یہاں مسجد نبوی میں کچھ حبشی تماشہ دکھا رہے تھے اور آس پاس بچوں کی بھیڑ جمع تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ چوں کہ کم سن تھیں، اس لیے ان کی بھی خواہش ہوئی، تو سرورکائناتﷺنے انھیں اپنے کاندھے کے آڑ سے اس وقت تک دکھاتے رہے، جب تک کہ خود اماں حضرت عائشہ ؓ تھک نہیں گئیں۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ آگئے، انھوں نے دیکھا کہ مسجد نبوی میں تماشہ کیا جارہا ہے، اس لیے حبشیوں کو مارنے کے لیے کنکریاں اٹھانے لگے، تو حضورﷺ نے دیکھ کر فرمایا کہ ائے عمر! چھوڑ دو، دکھانے دو، آج عید کا دن ہے۔
 چوں کہ شب بیداری ہوگئی تھی، اس لیے گھر آکر بستر پر منھ ڈھانپ کر سوگئے۔ کچھ دیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی نو عمر سہیلیاں آگئیں اور مل کر اشعار گانے لگیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ آگئے۔ انھوں نے سرورکائنات ﷺ کی نیند میں خلل اندازی سمجھ کر بچیوں کو ڈانٹنا شروع کیا، تو چہر انور سے چادر ہٹاکر فرمایا کہ ان بچیوں کو گانے دو، آج عید کا دن ہے۔
اس لیے عید کا پیغام یہ ہے کہ ؎
گلے شکوے مٹاکر مسکراؤ عید کا دن ہے
پرانی رنجشوں کو بھول جاؤ عید کا دن ہے
وہ جن کو بے سبب ٹھکرا دیا ہے دنیا والوں نے
گلے ان بے سہاروں کو لگاؤ عید کا دن ہے
اخوت، بھائی چارہ، دوستی، اخلاص پھیلاؤ
محبت کے دیے گھر گھر جلاؤ عید کا دن ہے
وہ جن بچوں کے بچپن کارخانے چھین لیتے ہیں
وہ بچپن پھر انھیں واپس دلاؤ عید کا دن ہے
کسی کے واسطے نفرت نہ رکھو اپنے سینے میں
جو روٹھے ہیں انھیں چل کر مناؤ عید کا دن ہے
کم از کم آج کے دن ہو ہو خوشی ہر ایک چہرے پر
سبھی مل کر دعا کو ہاتھ اٹھاؤ عید کا دن ہے