لنگی امام، پائجامہ امام
محمد یاسین جہازی
شروع رمضان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوا۔
ویڈیو میں ایک لنگی پہنا شخص امامت کرارہا ہے، جب کہ اس کے پیچھے برقعے میں دو عورتیں
اقتدا کر رہی ہیں۔ امام و مقتدیوں کے درمیان میں ایک بچہ امام صاحب کی لنگی سے کھیل
رہا ہے۔ کھیلتے کھیلتے امام صاحب کی لنگی میں گھس جاتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر پیچھے کھڑی
دونوں مقتدیاں ہنسی کو قابو میں نہیں رکھ پاتیں اور نماز دوڑ دیتی ہیں۔ بعد ازاں لنگی
امام بھی نمازتوڑ دیتا ہے، جس کے بعد ایک قہقہ بار ماحول پیدا ہوکرویڈیو ختم ہوجاتا
ہے۔
اب تک تو ’پائجامہ شخص‘، ’پائجامہ امام‘ ہی کا محاورہ سنتے
پڑھتے تھے؛ لیکن اس واقعہ سے ’لنگی امام‘ کا محاورہ بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے۔
اسلام میں ’امامت‘ کا تصور بہت اعلیٰ ہے۔ امام کا حقیقی
مصداق وہی شخص ہوسکتا ہے،جو دینی و سیاسی؛ تمام امور میں مکمل بصیرت رکھتا ہے۔ امامت
کا امتیاز یہ ہے کہ اسی کے فیصلہ پر جملہ دینی امور اور سبھی سیاسی معاملے انجام پذیر
ہوتے ہیں۔ امام کے آوامر اور اس کے نواہی دونوں فیصلے کا درجہ رکھتے ہیں؛ قصہ مختصر
یہ ہے کہ انسان کی دنیوی و اخری زندگی کے لیے امام ہیئت حاکمہ ہوتا ہے۔
لیکن آج ہم نے امامت کا مفہوم اور اس کے کردار کو بالکل
بدل کر رکھ دیا ہے۔آج ہمارے لیے امام محض تنخواہ یافتہ ایک ملازم بن کر رہ گیا ہے،
اماموں کے پاس نہ دینی رہنمائی کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی سیاست کے سین سے واقف
ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ معاشرے میں امام کی حیثیت صرف نماز پڑھانے اور دعا
درودکرنے کی رہ گئی ہے۔امامت کے مقام و مرتبہ کو اس حد تک گرانے میں جہاں مقتدیوں کی
غلطی ہے، وہیں امام بھی اس کے کم ذمہ دار نہیں ہیں۔اور شاید انھیں حالات کی وجہ سے
جمعیت علمائے ہند کوآج سے چھیانوے سال پہلے درج ذیل تجویز پاس کرنی پڑی تھی:
”تجویز نمبر-6۔ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس
اِس امر واقع کو دیکھتے ہوئے کہ قصبات و دیہات میں مساجد کے امام ہی قصبوں اور گاؤں
کے مذہبی مقتدا سمجھے جاتے ہیں اور اِن کی مذہبی ضروریات کے متکفل ہوتے ہیں، لیکن اکثر
امام محض جاہل اور بندہئ زر ہوتے ہیں، اِس وجہ سے مسلمانوں کی مذہبی حالت میں ترقی
ہونے کی بجائے روز بروز تنزل اور انحطاط ہوتا جاتا ہے، تمام قصبات و دیہات کے مسلمانوں
کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ اپنی مساجد میں امام مقرر کرتے وقت مقامی یا اپنے سے قریب تر
دفتر جمعیت علما کے مشورہ اور استصواب کے بعد امام مقرر کیا کریں، تاکہ اِن کو اچھے
واقف کار امام میسر ہوں اور مساجد کے اماموں سے یہ درخواست کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو
نماز اور روزہ اور اسلام کے دیگر ضروری مسائل کی سیدھی سادی تعلیم دیتے رہا کریں۔“
(تجاویز ساتواں اجلاس عام جمعیت علمائے ہند، منعقدہ11 تا 14مارچ1926 ، کلکتہ، جمعیت
علمائے ہند کے سو سال قدم بہ قدم جلد دوم، ص/ 90غیر مطبوعہ)
اسی طرح بعض امام نماز، وقت اور مقتدیوں کی نفسیات سے بالکل
عاری ہوتے ہیں، انھیں یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ کس وقت حدر کی تلاوت سے نماز میں خشوع
و خضوع پیدا ہوتا ہے اور کہاں ترتیل کی ضرورت ہے۔ موسم کی سختی و گرمی کے اعتبار سے
نماز میں اختصار سے کام لینا چاہیے یا لمبی نماز زیادہ مناسب ہوگی۔سری دعا کا موقع
ہے یا جہری دعا ہونی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے امام بالعموم مقتدیوں کی نفسیات اور
مقتضیات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نمازیوں کو مسجد سے متنفر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
دراصل ایسے افراد امام کم ہوتے ہیں اور پائجامہ زیادہ؛ اس
لیے راقم کا بھی یہی مشورہ ہے کہ آپ اپنی مسجد میں امام کا تقرر کرتے وقت درج بالا
تجویز پر ضرور عمل کریں؛ ورنہ آپ جس کی اقتدا کریں گے، وہ امام کم اور پائجامہ زیادہ
ہوگا۔ یہ سطور خودی کے محاسبہ کی بھی دعوت دیتی ہیں کہ اب تک آپ جس کی اقتدا کرتے آئے
ہیں، وہ امام ہیں یا پائجامہ……؟