26 Apr 2019

kia aap Allah se Razi hin?

کیا آپ اللہ سے راضی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


انسان کو پیدا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خالق کائنات کی عبادت کرے۔ اور عبادت کا ایک ہی مقصد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ مقررین و واعظین بار باراس مقصد کی یاد دہانی کراتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بھائی اللہ کو راضی کرلو۔ بھائی اللہ کو راضی کرلو۔ 
جس طرح شریعت میں بتائے ہوئے طریقے کو اختیارکرتے ہوئے اللہ کو منانا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں۔ کیوں کہ آپ کے اللہ سے راضی ہوئے بغیر اللہ آپ سے راضی نہیں ہوسکتا۔حدیث قدسی ہے 
عن ابي ھریرۃ، قال:قال رسول اللہ ﷺ:یقول اللہ عز وجل:”انا عند ظن عبدي بي۔“ (سنن الترمذی، کتاب الدعوات، باب فی حسن الظن باللہ عز و جل)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔
اگر آپ اللہ کو راضی کرنے میں شب و روز عبادت کرتے ہیں، لیکن آپ خود اللہ سے نا راض ہیں، تو آپ کا اللہ کے ساتھ معاملہ کے مطابق اللہ کبھی بھی راضی نہیں ہوگا۔ 
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا مشہور مقولہ ہے کہ ”تم اللہ سے راضی ہوجاؤ تو اللہ بھی تم سے راضی ہوجائے گااور جو حقو ق اللہ ہیں، انھیں ادا کرو۔ کیا تم نے اللہ کا قول نہیں سنا ہے کہ ”اللہ ان سے راضی ہوگئے اور لوگ بھی اللہ سے راضی ہوگئے (التوبہ، ۰۰۱)۔ حضرت محمد ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک عالم سے سوال کیا گیا کہ اہل رضا کا مقام کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ تو عالم نے جواب دیا کہ معرفت الٰہی سے۔ اور رضامعرفت کی ایک شاخ ہے۔ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ”رضا اللہ کا بڑا دروازہ، دنیا کی جنت، عبادت گذاروں کے لیے باعث تسکین اوراہل عشق کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ جس شخص کا دل مقدر کی رضا سے بھرا ہوا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو بے نیازی اور سکون سے لبریز کردیتے ہیں، اس کے دل کو اپنی محبت، رجوع اور توکل کے لیے خالص کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے راضی نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پلٹ دیتا ہے اور سعادت و فلاح سے محرومی مقدر کردیتا ہے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ”جو کوئی مقدرات الٰہی سے راضی ہوتا ہے،اسے اجر ملتا ہے، اور جو راضی نہیں ہوتا، اس کے اعمال صالحہ بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ایمان کی تکمیل کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم خیرو شر کی تقدیر پر رضا کا اقرار کریں۔
درج بالا تمام حوالے سند ہیں کہ اگر آپ اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں، تو اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ خود اللہ سے راضی ہوجائیں۔ فرمان نبوی ضامن ہے کہ اگر آپ اللہ سے راضی ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ آپ سے ضرور راضی ہوجائے گا۔

24 Apr 2019

مولانا محمد اسلام مظاہری نور اللہ مرقدہ ( جون ۱۹۴۳ء۔ ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ)

مولانا محمد اسلام مظاہری نور اللہ مرقدہ
( جون ۱۹۴۳ء۔ ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ)محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے بعدجہازی اکابرین میں دوسرا بڑا نام مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ محمد اسلام نام تھا، ساجدؔ تخلص کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مظاہر علوم سہارنپور سے سند فراغت حاصل کی تھی، اس لیے اس نسبت سے کبھی مظاہری اور کبھی مظہری لکھا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم کا نام جناب عبدالرحمٰن تھا، جو نصیرالدین عرف نسو کے فرزند تھے۔ نسو ابن پھیکو، ابن گھولی ابن دروگی تھے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب نہ کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی محفوظ ہے۔ دستیاب نسب نامہ کی تحریر پر ہر نام کے ساتھ شیخ یا مرڑ کا لاحقہ لگا ہوا ہے، جس سے پوری برادری شیخ کہلاتی ہے۔ گرچہ اس حوالے سے کوئی مستند معلومات نہیں ہیں، تاہم قبائلی روایت کو تسلیم کرتے ہوئے مولانا بھی شیخ برادری میں آتے ہیں۔مولانا مرحوم کی پیدائش اور تعلیمی معلومات کے حوالے سے ان کی ایک تحریر موجود ہے، جو انھوں نے ’’حرف آخر ‘‘ نامی کتاب کے شروع میں تعارف کے عنوان سے لکھا ہے ۔ اس تحریر کو من و عن یہاں پیش کیا جارہا ہے: نام: محمد اسلام ساجدؔ پتہ: مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ، ڈاک خانہ اعظم پکڑیا، تھانہ پتھر گاماں، ضلع دمکا بہارتاریخ پیدائش: ماہ جمادی الثانیہ۱۳۶۲ھ، (مطابق جون ۱۹۴۳ء) میں ولادت ہوئی، تاریخ متعین نہ کی جاسکی۔ تعلیم: غالبا ۱۳۶۶ء (مطابق۱۹۴۷ء) سے طفل مکتب بنا۔ ۱۳۷۹ء (مطابق ۱۹۵۹ء) تک مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں تعلیم شرح جامی، کنز الدقائق، اصول الشاشی تک حاصل کی۔ شوال ۱۳۷۹ھ (مطابق مارچ ۱۹۶۰ء) میں مظاہر علوم سہارنپور، بتکمیل تعلیم پہنچا۔ شعبان ۱۳۸۴ھ( مطابق دسمبر ۱۹۶۴ء) فراغت (مدرسہ مذکور سے ) پائی۔ پیشہ: آبائی پیشہ کاشتکاری ہے۔ والد ماجد کے ذمہ ایک ایکڑ چند ڈسمل زمین کاشت ہے۔ فراغت کے بعد مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں بحیثیت مدرس چہارم کام کرنا شروع کیا۔ نوٹ: دنیا مجھے اسلام کے نام سے جانتی ہے۔ گھر، گاوں، مدرسہ، حتیٰ کہ مظاہر علوم سہارنپور میں بھی ’’محمد اسلام دمکوی ہی تھا۔ ساجدؔ ۔مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں درجہ سوم تک کی کتابوں کی تدریس وابستہ کی گئی۔ نور الایضاح،قدوری،میزان و منشعب، نحومیر، گلستاں اور بوستاں کا درس بہت زیادہ مقبول تھا۔ تا دم وفات تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں ایک استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ناظمدارالاقامہ بھی تھے، جس کے ذریعے بچوں کی تربیت پر خاص نگاہ رکھتے تھے ۔ مطبخ کی ذمہ داری بھی وابستہ تھی، جس سے تہذیبی و سماجی تربیت پر بھی خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ وہ ایک باکمال خطیب بھی تھے اور جمعہ کے دن جامع مسجد میں خصوصیت کے ساتھ خطاب فرمایا کرتے تھے۔ وہ کم گو تھے، لیکن طبیعت میں ظرافت تھی۔ساتھ ہی وہ قابل تقلید اخلاق کے بھی مالک تھے۔نرم خوئی ان کی خاص صفت تھی، اس لیے مدرسے کے بچے آپ سے بہت زیادہ بے تکلف رہا کرتے تھے۔ تدریس سے فراغت کے بعد بالعموم تحریر و کتابت میں مصروف رہتے تھے۔اور کئی کتابیں ان کی علمی وراثت کی یادگار ہیں۔ گاؤں میں دو بڑے سیلاب کے حادثے، وارثین کی نااہلی اور کتابوں کے تعلق سے بے حسی کی وجہ سے مولانا مرحوم کی ذاتی لائبریری فنا کے حوالے ہوگئی، تاہم ان حوادث کے باوجود جو سرمایہ محفوظ رہا ہے، اس میں مولانا کے کتابوں کا کچھ مسودہ موجود ہے، جس کا تعارف پیش ہے۔
۱۔ دل کی راہ سےاس کتاب میں اخباری تراشے ہیں ، تراشوں میں چھپے مضامین اور خبروں پر تبصرے کیے گئے ہیں ، جس میں مولانا ؒ نے حالات حاضرہ پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے ، اپنی قیمتی رائے پیش کی ہے ۔ اپنے وقت کا سب سے مشہور اور معیاری اخبار الجمعیۃ کے مضامین بکثرت موجود ہیں۔ جا بجا منظر کشی کے لیے لائنوں کے خاکے بھی بنے ہوئے ہیں، جس میں اشارے اورطنز و مزاح پائے جاتے ہیں۔ اس کا مسودہ اب تک راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے۔۲۔اشعار برجستہاس میں مولانا مرحوم نے اپنی یاد داشت کی بنیاد پر ایک سو تین مختلف عناوین پر بڑے بڑے شاعروں کے شعروں کاانتخاب پیش کیا ہے۔اس کا پورا مسودہ صحیح و سالم ملا۔ الحمد اللہ اس کی کمپوزنگ بھی مکمل ہوگئی ہے اور عن قریب چھپ کر منظر عام پر آجائے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ۳۔ حرف آخراس کتاب میں مولانا مرحوم نے مختلف ممالک کا نقشہ پیش کیا ہے ۔ اور قدیم و جدید جغرافیائی حدود پر عالمانہ و محققانہ بحث کی ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جہاں تحقیق و مراجع کا کوئی جدید ذریعہ موجود نہیں تھا، اور معلومات کا کوئی بھی فاسٹ وسائل مہیا نہیں تھے، ایسے بے سروسامانی کے عالم میں اتنا تحقیقی کام کیسے کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے مسودے میں صرف تین چار صفحات ہی دستیاب ہوسکے۔اور سر دست وہ بھی ناقابل استفادہ ہوچکے ہیں۔ ۴۔ فیض القدیر لمولانا امیرؒ مظاہر علوم سہارنپور کے استاذ حدیث حضرت مولانا امیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ ترمذی کا درس دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد اسلام صاحب نے درس کی تقریر قلم بند کی ہے۔ راقم کے پاس جو کاپی موجود ہے، اس میں کتاب السیر کے باب ما جاء فی الطیرۃ تک کی تقریر موجود ہے۔ اور مسودہ پر پانی نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن بہ مشکل اسے پڑھا جاسکتا ہے۔ اور اسے شائع بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسلوب تحریرمولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ بہت ہی سادہ اور سلیس نثر لکھتے تھے ،جس میں انشا نگاری کا عکس جھلکتا تھا۔ اسلوب میں رنگینی فکر غالب تھی اور کسی بات کو دلچسپ پیرایہ میں بیان کرنے کے ہنر میں کمال رکھتے تھے ۔ ان کے اسلوب کا اندازہ لگانے کے لیے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں: جمعہ کی رات(شب اول) سہانی، خوشگوار پرفضا چاند کی کوثر تسنیم میں دہلی ہوئی چاندنی اور اس پرہولے ہولے جھکولے کھاتی ہوا، کتنا پرسکون ہوتا ہے اور پھر اس پر سونے پر سہاگہ کیوں نہ ہوجائے، جب کہ ایسی حالت میں دوست اور یار غار آجائے!۔ا س پر فضا ماحول میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، بعد نماز مغرب کے آدھ گھنٹے گفتگو میں گذر جانے کے بعد اچانک دروازے کی جانب سے السلام علیکم کی آواز آئی۔ سر اٹھا کر دیکھا، آواز جانی پہچانی تھی۔ خوشی دوبالا ہوگئی۔ رات گفتگو میں گذری۔صبح کو بعد ناشتہ جب مہمان اپنے میزبان کے ساتھ تنہا تھے، نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ بات پیش کی: ’’مولوی اسلام! آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، اکثر چاہا، مگر بھول جاتا ہوں۔ ابھی پھر خیال آیا، دیکھیے آج ہماری، آپ کی اور نہ جانے کتنے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ نہ وہ گھر کا گنا جاتا ہے اور نہ باہر کا۔ اور ان میں سے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں، جو مدارس نظامیہ سے تعلیم حاصل کرکے آتے ہیں اور معمولی سی تنخواہ میں بچوں کو تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اول پیسے کی کمی۔ دوئم وقت سے فراغت کم ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے کسی اور کام کو انجام دے نہیں پاتا۔ اور گھر سے ایک قسم کی بے تعلقی ہوجاتی ہے۔ اور پھر گھر والے اس کو علاحدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا گھاٹ کا‘‘ والی مثال ہوجاتی ہے۔ ایسے عالم میں وہ جاہل مزدور سے بھی گیا گذرا ہوجاتا ہے، جو روزانہ کم از کم دو سیر مزدوری کرلیتا ہے۔ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنستے ہیں اور تماشائی بنتے ہیں۔آج ہمیں ضرورت ہے کہ ایک ایسی انجمن ہو، جس کی کچھ مالی حیثیت ہو اور وہ ایسے لوگوں نیز اور دوسرے غربا و مفلسوں کی وقتی امداد کرسکے اور جب فراغت ہوجائے، وہ شخص اس قرض حسنہ کو ادا کردے۔ میں اس چیز کی اہمیت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ تم کیا کہتے ہو؟؟!‘‘۔اور محمد اسلام نے اپنے دوست کو اپنا دلی ترجمان دیکھ ہاں کہہ کر اپنا وہ منصوبہ پیش کردیا جو ایک مدت سے اپنے دل میں پال رکھا تھا۔ اور۔۔۔ اسی وقت ان دونوں ’’میزبان اور مہمان‘‘ نے ایک انجمن کی داغ بیل ڈال دی! خدا کرے ان دو دوستوں کی دلی تمنا پوری ہو۔ اور دونوں کی کوشش بار آور ہو!!!!۔ملی کارنامےتصنیف و تالیف اور خطابت کے علاوہ مولانا ملی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے ۔ اور سماجی مسائل کے حل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا کرتے تھے۔ علاقہ میں بے پناہ غربت کے پیش نظر ملی و سماجی کاموں کو سہارا دینے کے لیے مولانا نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے ’’تنظیم ملت‘‘ کا نام دیا۔ اس میں لوگوں کو جوڑ کر ملت کے وہ تمام کام انجام دیتے تھے، جو وقت کی ضرورت ہوتی تھی، جو بالیقین مولانا مرحوم کی ملی خدمات پر شاہد عدل ہیں۔ مولانا کے شاگردمولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ تقریبا آٹھ سال تک مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے استاذ رہے۔ درجہ سوم تک تعلیم تھی، آپ سے سبھی درجات کی کتابیں متعلق تھیں، اس لیے آپ کے بہت سے شاگرد تھے، چند مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد یونس صاحب کیتھپورہ، محمد اسلام، فیض الرحمان، محمد عرفان، محمد فاروق رجون، حافظ ظفیر الدین، رحمت علی تلوائی، شوکت علی مرنئی، محمد اکرام الحق صاحبان۔حادثہ فاجعہ مولانا کا شب و روز درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گذر رہا تھا کہ اچانک مولانا مرحوم کو پہلے سردی والا بخار آیا، جو رفتہ رفتہ میعادی بخار میں تبدیل ہوگیا۔گاؤں کے ڈاکٹر جناب ثمیر الدین صاحب نے علاج شروع کیا، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، جس کے پیش نظر جھپنیاں کے ڈاکٹراکرام صاحب سے رجوع کیا گیا، لیکن یہاں بھی کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے کیا گیا کہ حکیمی علاج شروع کیا جائے، چنانچہ گاؤں کے حکیم جناب محمد حسین مرحوم نے علاج شروع کیا، لیکن یہاں بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، بالآخر علاقے کے سب سے مشہور ڈاکٹر جناب شہید پچوا قطعہ سے رابطہ کیا گیا۔ انھوں نے خصوصی توجہ کے ساتھ تقریبا بارہ تیرہ ایام تک علاج کیا اور اپنے گھر پر ہی اپنی نگرانی میں رکھا، لیکن مرضی مولیٰ برہمہ اولیٰ ہوتا ہے، اس لیے اس بیماری سے وہ جاں بر نہ ہوسکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ کر واصل بحق ہوگئے۔والد محترم کی ملی ایک تحریر کے مطابق تاریخ وفات ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ تقریبا دو بجے دن ہے۔ اس کے اگلے دن آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔ پسماندگان میں ایک لڑکا جناب محمد اطہر اور ایک لڑکی مَسُودہ (مسعودہ) خاتون ہے ، جو تا دم تحریر با حیات اور صاحب اولاد ہیں۔ ان کے انتقال کے وقت لڑکی ابھی کچھ ہی مہینوں کی تھی اور بڑی اولاد لڑکے کی عمر کچھ سال کی تھی۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردو س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین۔

12 Apr 2019

Meri Aankhen Faqa Kash hin

اک چھوٹا سا وہ لمحہ، جو کاٹے نہیں کٹتا
میری آنکھیں فاقہ کش ہیں 

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

سماجیات کے ماہرین انسان اور جانور میں ایک فرق یہ بھی بتاتے ہیں کہ جانور صرف جھنڈ بناتا ہے، خاندان اور معاشرہ نہیں، جب کہ یہ دونوں خصوصیات انسان کے ساتھ مخصوص ہیں اور اسی وجہ سے اسے ’’سماجی حیوان‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ 
سماج و معاشرہ میں زندگی گذارنے کے رجحانات کے لیے ایک اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ انسان کے خمیر میں انسیت کا عنصر شامل ہے اور انسیت سوشل لائف گذارنے کی محرک ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو سماجی بائکاٹ اور قید تنہائی کی سزا دی جاتی ہے۔ 
تعلیمی و معاشی ؛ یہ دو ضرورتیں ایسی ہیں، جن کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان سماج و معاشرہ میں رہنے کے باوجود بائکاٹ اور تنہائی کی مجرمانہ قید میں زندگی گذار رہا ہے۔ناچیز جب علم و معرفت کے لیے محو سفر ہوا، تو لاشعوری عہد تھا ۔ تحصیل علم کے مکمل دس برس کے بعد خیال آیا کہ والدین اور اپنے سماج سے اتنے طویل عرصے الگ تھلگ رہنے کے بعد اب اپنے سماج میں اور والدین کے زیر سایہ عاطفت زندگی گذارنی چاہیے؛ لیکن تعلیمی مجبوری کی طرح معاشی مجبوری نے اتنا موقع ہی نہیں دیاکہ اس تجویز پر عمل درآمد کرسکوں۔ اور اس طرح سے تقریباچھ سال کا عرصہ بھی غریب الوطنی کی نذر ہوگیا۔ 
اس کے بعد زندگی میں ایک نجی معاشرتی ذمہ داری کا اضافہ ہوا اور جدائی کے غم میں شریک غم یعنی بیگم بھی شریک ہوگئی۔ پہلے صرف والدین اور معاشرے سے جدائی کا غم تھا ، اب یہ تیسرا غم بھی پابہ رکاب ہوگیا۔ کافی کوشش کی کہ معاشرہ اور والدین نہ سہی، تودنیاوی دستور اور تقاضہ فطرت کے تحت کم از کم شریک زندگی کو ہی ساتھ رکھ لیں؛ لیکن یہ کوشش تا ہنوز بار آور نہیں ہوپائی؛ حتیٰ کہ تا حال دو اورایسے وجود کا اضافہ ہوگیا، جن کی آنکھیں میری دید کے لیے اور میری آنکھیں ان کے دیدار کے لیے مضطرب رہتی ہیں؛ لیکن نوشتہ تقدیر شاید یہی ہے کہ ناچیز سے منسوب ہر آنکھوں کے لیے فاقہ کشی مقدر ہوچکی ہے۔
زمانہ طالب علمی میں چھٹی کا تصور مژدہ جاں فزا ہوا کرتا تھا۔ جمعرات آنے سے ایک دو روز قبل ہی رخصت کی فرحت کا احساس شروع ہوجایا کرتا تھا۔ شب و روز درس و تدریس کے دورانیہ کے تسلسل سے جب آزادی ملتی تھی، تو ایسا لگتا تھا کہ خوشی کا کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے؛ لیکن جب سے جمعرات اتوار میں تبدیل ہوگئی ہے اور اقتصادی زندگی کا آغاز ہوا ہے، تب سے یہ احساس بالکل برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اس زندگی میں چھٹی کا دن آتے ہی خوفناک تنہائی ستانے لگتی ہے۔ روز مرہ کے معمولات کا تسلسل ٹھہرتا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے نبض حیات ٹھہر گئی ہو۔ آفس اور کمرے کے درودیوار بھی سناٹے کے مجسمے نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ ہر روز وہی آفس اور وہی کرسی ہوتی ہے، لیکن چھٹے کے دن آفس آنے سے ایسا لگتا ہے کہ کرسی اور آفس دونوں ہمارے نوشتہ تقدیر پر ہنس رہے ہوں، جس کی برداشت کی تاب نہ لاکر باہر چلا جاتا ہوں، جہاں ہمیں ہزاروں چہرے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے بیچ بھی اکیلا پن کی کیفیت دور نہیں ہوتی، کیوں کہ ان ہزاروں چہروں میں ایک بھی چہرہ شناسائی کا چہرہ نہیں ہوتا ہے۔ ؂ 
آئینہ کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا تھے، سو میں بھی اکیلے ہیں 
اس دن کا چھوٹا لمحہ بھی صدیاں بتانے جیسا لگتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے تصور سے محروم افراد تنہائی میں تفریح طبع کے لیے گانوں ، فلموں، لیونگ ان ریلیشن شپ، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ،کلچرل پروگرام وغیرہ کو ضروریات زندگی میں شمار کرتے ہیں اور غریب الوطنی میں وقت گذارنے کا بہترین ذریعہ حیات سمجھتے ہیں۔ 
حصول تعلیم کے تحت اپنے گھر معاشرے سے دور رہناایک ایسی وجہ ہے، جو سنہرے مستقبل کی ضامن ہے، لیکن معاشی اور ملازمت کی مجبوری کے تحت زندگی کو تنہائی کی سزا دینا انسان کے خمیر انسیت اور سماجی فطرت کے خلاف ہے ، اس لیے یہاں چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جن کو عملہ جامہ پہناکر فطری سماجی زندگی گذار سکتے ہیں: 
(۱) تعلیم کے بعد ملازمت کے بجائے تجارت کو ذریعہ معاش بنانے کی کوشش کریں۔
(۲) سرمایہ یا تجربہ ، یا اور کسی مجبوری کی وجہ سے تجارت کرنا ممکن نہ ہو، تو صلاحیت کے مطابق قرب و جوار میں جوب تلاش کریں۔
(۳) آپ کی صلاحیت کے اعتبار سے گاوں معاشرے کے قریب ملازمت نہ ملے، تو دوردراز بھی ملازمت کرنے سے گریزاں نہیں ہونا چاہیے، البتہ ایسی صورت میں درج ذیل مقاصد کو فراموش نہ کریں: 
(الف) اگر مستحکم ملازمت ہے، تو وطن ملازمت کو ہی وطن اصلی بنالیں۔ 
(ب) بصورت دیگروطن ملازمت کو فیملی کے لیے بھی وطن اقامت بنائیں۔
(۴) اگر درج بالا دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں، جس کی بنیادی وجہ ’’کم تنخواہ‘‘ ہوسکتی ہے، تو وطن اصلی آمد و رفت کرنے کی تعداد بڑھادیں، جو شرعی اعتبار سے ایک سال میں کم از کم تین مرتبہ ہے، یعنی ہر چار ماہ کے اندر ایک مرتبہ والدین کی زیارت اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ضرور سفر کریں۔ 
(۵) اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو، جس کے تین بنیادی اسباب ہوسکتے ہیں، یعنی کم تنخواہ، کم رخصت، یا پھر موقع بہ موقع کام کا اضافی بوجھ، تو ایسی صورت میں ناچیز کا مشورہ یہ ہے کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے ملازمت، چھوٹنے، تنخواہ کٹنے اور اس جیسے اندیشے سے باہر آکر دل اور ارادے کو مضبوط رکھیں اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے تھوڑی بہت آگے پیچھے کرکے اپنا کام نکالنے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ حکمت عملی اور آگے پیچھے کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ضمیر فروشی اور خصیہ برداری تک گر جائیں؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آمدو رفت کے دورانیہ میں کم و بیشی سے کام چلائیں۔ 
(۶) اس موقع پر ، مدارس کے مہتمم، مساجد کے ذمہ داران، اداروں کے نگراں اور کمپنیوں کے مالکان سے بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ اپنے ملازمین کے ساتھ اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مطابق معاملہ کریں، انھیں سیلری نہیں؛ بلکہ اپنی ضروریات کی طرح تن خواہ دیں، ان کی گھریلو ضروریات ، فیملی کی خواہشات اور عید و تہوار جیسے مواقع پر چھٹی، تحفہ وغیرہ کا خصوصی خیال رکھیں۔ اور یہ بھی خیال رکھیں کہ آپ کی زندگی کو کامیاب و شاندار بنانے میں آپ کے ملازم کا خون پسینہ بھی شامل ہے، اس لیے اس کے خونی رشتوں کے ساتھ کچھ لمحات گذارنے اور فیملی کے لیے پسینہ بہانے کے لیے مواقع فراہم کرنا آپ کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے، اور اپنے ملازمین کے حقوق و ضروریا ت کا خاص خیال رکھنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔ 

5 Apr 2019

Dustbin of knowledge

معلومات کا ڈسٹبن

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

سوشل میڈیا کے ایزی ایکسس کی وجہ سے آج ہر شخص واٹس ایپ کالج اور فیس بک یونی ورسٹی میں داخل ہوکراپنے مبلغ فکر کے اعتبار سے گیان بانٹنے اور بٹورنے کوپیدائشی حق سمجھ رہا ہے۔چوں کہ یہاں معلومات کو فلٹر کرنے، یا صحیح یا غلط بتانے والا کوئی استاذ نہیں ہوتا، اس لیے ضروری، غیر ضروری، یا درست اور غلط میں تفریق کیے بغیر ہر قسم کی معلومات ہمارے دماغ میں بھر جاتی ہیں۔ اور ہمارا حافظہ خانہ معلومات کا ڈسٹبن بن جاتا ہے۔ 
ایک مسیج آتا ہے کہ جو شخص رمضان کی آمد کی سب سے پہلے اطلاع دے گا، وہ ایک سال پہلے جنت میں جائے گا۔ اس مسیج میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایسا حدیث میں کہا گیا ہے۔ 
ایک ایسا ویڈیو آتا ہے،جس میں خزاں سے متاثر ایک درخت سے بڑا ناگ لپٹا ہوا ہے، اور ساتھ میں آواز آتی ہے کہ جو شخص اس ویڈیو کو دس گروپ میں نہیں بھیجے گا تو اسے سخت نقصان پہنچے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک صاحب نے اسے جھوٹ سمجھ کر ڈیلیٹ کردیا اور آگے فارورڈ نہیں کیا تو اس کا بیٹا مرگیا ۔ 
ایک آڈیو آتا ہے کہ مدینہ کے شیخ نے ایک خواب دیکھا کہ اس آڈیوکو دس گروپ میں بھیجنے والے کو رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوگی۔ اور جو نہیں بھیجے گا وہ ایمان سے محروم ہوجائے گا۔ 
مکہ کے شیخ کا فرمان لکھا ہوا ٹیکسٹ آتا ہے کہ رسول اللہ نے انھیں پابند کیا ہے کہ بیس گروپ میں اس بات کو پھیلادو ، نہیں تو روز قیامت میری شفاعت سے محروم رہو گے۔ 
ایک شخص یہ پوسٹ وائرل کرتا ہے کہ جو کوئی شب براتمیں روزہ رکھے گا، تو ایک سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ۔ اور جو کوئی اس مسیج کو آگے بھیجے گا، تواس کو دو سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ 
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو تین سال پہلے ایک بچہ لاپتہ ہوگیا تھا، جس کو تلاش کرنے کی خبر پر مشتمل کوئی امیج بنائی گئی تھی۔ دو تین سال بعد کسی نے ایک شخص کو کسی گروپ میں شامل کردیا ، تو اب وہ شخص قدیم و جدید خبر کی تصدیق کیے بغیر لگاتار اسے فارورڈ کرتا رہتا ہے اور اپیل بھی کرتا ہے کہ اسے سارے گروپ میں شئیر کریں، تاکہ کسی کو اپنا گم کردہ لعل مل سکے۔ 
ایک مقرر نے کسی خاص پس منظر میں کوئی تقریر کی تھی۔ کئی سالوں بعد ایک شخص واٹس ایپ کالج میں نیا نیا داخلہ لیتا ہے، تو وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ تقریر حال کی ہے اور اسے آگے بھیجنا ہمارے اوپر فرض ہے۔ 
کہیں گستاخانہ حرکت کی جاتی ہے، تو اس سے باز رہنے یا اس پر لعنت بھیجنے کے لیے ایسے مسیج کواتنا فارورڈ کیا جاتا ہے کہ جتنا تخلیقی سورس سے گستاخی نہیں پھیلتی، اس سے کہیں زیادہ لعنت بھیجنے کی اپیل سے گستاخی پھیل جاتی ہے۔
سالوں پہلے کہیں ٹرین حادثہ ہوا تھا، جس کی تصویریں وائرل ہوئی تھیں۔ ایک نیا شخص یا فارورڈ کے شوقین ان کو سالوں بعد شئیر کرنے کو نیک کام سمجھتا ہے ، جس سے یہ گمراہی پھیلتی ہے کہ شاید یہ کوئی نیا حادثہ پیش آگیا ہے ۔ یا کوئی نیا حادثہ پیش آتا ہے، تو لوگ اول مرحلہ میں یہ سمجھنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ شاید یہ کوئی پرانہ حادثہ ہو۔ 
ایک شخص دنگا فساد برپا کرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور اسے فرقہ وارانہ ذہنیت کے ساتھ پیش کرتا ہے، جس سے قاری یا تو متعصب بن جائے یا نفرت کے پجاری۔ تاریخ سے نا انجان فیس بکیہ اور واٹس ایپیہ ایسے پیغامات سے بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور اپنے دماغ میں غلط معلومات بھر لیتے ہیں۔
کچھ پیغامات کی تمہید میں لکھا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان ہو تو شئیر کرو۔ ۔۔۔ اگر نبی کے سچے عاشق ہو، تو اسے آگے بھیجو۔ کوئی کافر ہی ہوگا، جس اس تصویر کو لائک یا شئیر نہیں کرے گا۔ ۔۔۔ تجھے قسم ہے رب کعبہ کی ، اس مسیج کو ضرور آگے بھیجنا ، وغیرہ وغیرہ۔
یہ جو کچھ بھی پیش کیا گیا ہے، ’’مشتے نمونے از خروارے‘‘ ہے۔ اس قسم کے لاتعداد مسیج اور معلومات اسکرین کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہیں ۔ اور ہمارا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی طرح کی تحقیق کیے بغیر ہم سبھی معلومات کو اپنے دماغ میں جگہ دے رہے ہیں، جس سے ہمارا دماغ حافظہ خانہ نہیں، بلکہ معلومات کے کچرے کا ڈبہ بن جاتا ہے۔ جس سے برین واش ضروری ہے۔
اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ احادیث کی کتابوں میں متن احادیث کے ساتھ ساتھ سندیں بھی ہوتی ہیں۔ سند کا سلسلہ نبی اکرم ﷺ تک ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر متن حدیث کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ سند کی ضرورت و اہمیت بتاتے ہوئے حضرت عبد اللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ ’’ سند بھی دین کا حصہ ہے، کیوں کہ اگر سند نہ ہوتی، تو جس کے جی میں جو آتا، وہ کہہ دیتا کہ یہ رسول اللہ کا فرمان ہے۔ اور پھر ہر شخص اپنے مفاد کی بات کو آگے رکھنے کے لیے رسول اللہ کا فرمان گھڑ لیتا اور ذخیرہ احادیث شکو ک و شبہات اور تحریفات کا پلندہ بن کر رہ جاتے۔ 
الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّینِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ۔( مقدمۃ الإمام مسلم رحمہ اللہ، بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّینِ)
اس سے بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی بلا سند بات مان لینا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔ 
آج سوشل میڈیاجھوٹ ، جعلی خبروں اور افواہوں کو پھیلانے کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن چکا ہے ، اس لیے کوئی بھی بات خواہ وہ قرآن و احادیث کے حوالے سے ہی کیوں نہ کہی گئی ہو ، بلا تحقیق اس کو اپنے دماغ میں محفوظ رکھنا اور اس کو پھیلانا ، خود اپنی نگاہ میں جھوٹا اور بے اعتبار ہونے کے لیے کافی ہے ۔ ایسے ہی مواقع کے لیے نبی اکرم ﷺ کی ہدایت موجود ہے کہ 
کَفی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔(مقدمۃالإمام مسلم رحمہ اللہ بَابُ النّھْيِ عَنِ الْحَدیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)
انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان کردے۔ 
یاد رکھیے کہ ہماری ایک جعلی اور جھوٹی معلومات بانٹنے یا بٹورنے سے ہماری جان بھی جاسکتی ہے۔ جان کیا چیز ہے، ہم ایمان سے بھی محروم ہوسکتے ہیں یا کرسکتے ہیں، جس کے باعث دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت بھی تباہ و برباد کرنے کے مجرم ٹھہریں گے۔ اس سے یہ سبق لینا ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کو معلومات کا کچڑا دان نہ بنائیں اور صرف حقیقی ، مستند اور سچی معلومات کو ہی اپنے حافظہ کے نہاخانہ میں محفوظ رکھیں۔

29 Mar 2019

Gali dena ka Saheeh Tareeqa Daryaft

گالی دینے کا صحیح طریقہ دریافت
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
انسان تو انسان ؛ اور جانور بھی بہت دور کی بات ہے؛ چھوٹے موٹے موذی کیڑے؛ آپ کو کاٹ بھی لیں، تو بھی اسلامی تعلیمات اسے برا بھلا کہنے اور گالی دینے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی محفل میں ایک شخص کو مچھر نے کاٹ لیا تو وہ اس پر لعنت بھیجنے لگا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مچھر کو گالی مت دو،کیوں کہ اس نے ایک نبی کو نماز فجر کے لیے جگایا تھا۔ 
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالکٍ، أَنَّ رَجُلًا لَعَنَ بُرْغُوثًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:لَا تَلْعَنْہُ، فَإِنّہُ أَیْقَظَ نَبِیًّا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ لِلصَّلَاۃِ۔ (الادب المفرد، باب لاتسبوا البرغوث، قال الشیخ الالبانی: ضعیف)
ایک دوسری حدیث میں مرغے کو گالی دینے پر تنبیہہ کی گئی ہے ارشاد نبوی ہے کہ مرغے کو گالی مت دو، کیوں کہ وہ نماز کی دعوت دیتا ہے۔ 
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَسُبُّوا الدِّیکَ فَإِنَّہُ یَدْعُو إِلَیٰ الصَّلَاۃِ۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی، باب اسند عن زید بن خالد)
مچھر، مرغ تو ذی روح مخلوق ہیں؛ نبوی تعلیمات غیر ذی روح کو بھی گالی دینے سے منع کرتی ہیں۔ چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ زمانہ کو برا بھلا مت کہو ، کیوں کہ زمانہ تو میں ہی ہوں۔ ہوا کو گالی مت دو ، کیوں کہ وہ اللہ کے حکم سے چلتی ہے۔ 
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: یُؤْذِینِي ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدّھْرَ وَأَنَا الدَّھْرُ، بِیَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنّھَارَ۔(بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب: وما یھلکنا الا الدھر الجاثیۃ، ۲۴)
لا تَسُبُّوا الرِّیحَ ۔ (الترمذی، ابواب الفتن،باب ما جاء فی النھی عب سب الریح)
ان تعلیمات سے یہ واضح ہوگیا کہ زبان سے گندے الفاظ نکالنا، اور غیر ذی روح کو بھی گالی دینا اسلامی اخلاق و تعلیم کے منافی ہے۔ اور جب ان چیزوں کے ساتھ معاملہ ایسا ہے، تو پھر انسان ، جس کی توقیر و تعظیم ضروری ہے، اسے گالی دینا شرافت و نجابت سے گری ہوئی بے شعور ذہنیت کی ہی اپج ہوسکتی ہے۔ 
ان تعلیمات کے باوجود ہم کبھی کبھار اس بے شعور ذہنیت کے عملی مجسمہ بن جاتے ہیں ، اور اپنی زبان سے ان تمام گندگیوں کو گذار دیتے ہیں، جن کا تصور بھی تعفن خیز ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر گالی دینا ہماری فطرت بن جائے، تو ہم آپ کے لیے ایک نایاب فارمولہ لائے ہیں۔ ہمارا عندیہ ہے کہ اگر اس فارمولہ پر عمل کریں گے، تو بالیقین گالی دینا ، آپ کے لیے عذاب جان بن جائے گا اور آپ ایسی توبہ کرلیں گے کہ اس تو بہ کی تقلید کرنے والے کی بھی گالی دینے کی فطری عادت بدل جائے گی ۔
ڈاکٹر کلیم عاجز نے ہمیں سکھایا ہے کہ 
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
تواس کا فارمولہ یہ ہے کہ گالی کے کسی بھی لفظ سے پہلے، ’’تیری‘‘ کے بجائے ’’ میری ‘‘ لگاکر گالی دیا کریں۔ 
ہمیں امید ہی نہیں؛ یقین ہے کہ گالی دینے کا یہ نایاب طریقہ آپ کی فطرت بدل کر رکھ دے گا۔ اگر ہمیں گالی دینے کی عادت ہے، تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس فارمولہ پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے، اللہم آمین یا رب۔

22 Mar 2019

رمضان میں ووٹنگ۔۔۔ کیا یہ سازش ہے؟ ایک ووٹ ستر ووٹوں کا کرشمہ بھی توکرسکتا ہے

حمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
بہانہ جواور ذمہ داری کی جواب دہی سے بے شعور فرد، اسی طرح فکری مفلوک قوموں کی ہر بے عملی اور ناکامی کے پیچھے غیروں کی سازش نظر آتی ہے۔ راقم نے جب سے ادراک سنبھالا ہے، تب سے یہی سنتا آیا ہے ؛ حتیٰ کہ مثبت اور تعمیری ایجادات میں بھی یہود و نصاریٰ کی سازش کا ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔حقیقی واقعہ ہے کہ ایک مسجد کے صحن میں بیٹھا تھا، قریب میں دو عمر رسیدہ افراد محو گفتگو تھے ۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ وضو کے لیے بنائی گئی یہ ٹوٹیاں بھی یہودی سازش کی تخلیق ہیں، کیوں کہ اس سے لوٹے کی بنسبت پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ ادنی عقل و شعور کا حامل شخص بھی ایسی فکری دو رنگیوں کے مناظر سے اچنبھے میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر سازش ہے، تو اس کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔۔۔ ؟ کیا کسی یہودی نے آپ کو مجبور کیا تھا کہ اپنی مسجد میں آپ ٹوٹی لگائیں۔۔۔ ؟
آ ج کل مسلمانوں کا ایک طبقہ جوفیس بک یونی ور سیٹی اور واٹس ایپ کالجز سے بے سند یافتہ فضیلت کیے ہوئے ہیں، کا ماننا ہے کہ رمضان میں ووٹنگ در اصل بی جے پی ، آر ایس ایس اور ہندو راشٹر واد کے لیے کوشاں افراد کی تخریبی ذہنیت ہے۔ اس میں کتنی سچائی ہے، یہ کہنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ پارلیمنٹری الیکشن کے سسٹم اور تاریخی دورانیہ سے جو لوگ واقفیت رکھتے ہیں، وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ سازش نہیں؛ بلکہ سسٹم کا میعادی دورانیہ ہے، جسے عام حالات میں آگے پیچھے نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے باوجود ، عام لوگ تو عام لوگ ہیں، خود کو موقر کہلانے والے کچھ اخبارات اس عنوان سے مستقل کالم اور مراسلہ لکھواکر مسلمانوں کے جذبات کی خدمت کے نام پر جو صفحات سیاہ کررہے ہیں، آپ اسے کیا کہیں گے۔۔۔ ؟ ۔
حالاں کہ اس موقع پر دیگر کئی اہم مسائل تھے، جنھیں اگرموضوع بحث بناکر خصوصی اشاعتیں کی جاتیں،تو بالیقین امت کو بڑا فائدہ ہوتا۔ مثلا ، رمضان میں مدارس میں چھٹیاں ہوتی ہیں اور اکثر اساتذہ سفارت کے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ حفاظ کی بڑی تعداد تراویح کے لیے دوسری جگہوں پر رمضان گذارتے ہیں۔ حلقہ تصوف سے وابستہ افراد اپنے شیوخ کی خدمت میں اعتکاف کے لیے محو سفر ہوتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد ، گھریلو، معاشی ، چھٹی اور دیگر ضروریات کی وجہ سے اپنے ووٹنگ بوتھ سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور اس قسم کے کئی دیگر مسائل پر بحث و گفتگو کرکے اس کا مناسب حل نکالنے اور ووٹ ڈالنے کی مہم چلاتے، تو یہ زیادہ کارگر بحث ہوتی۔ ۔۔۔ لیکن کیا کریں، ہمارے کچھ وہ مسائل جن کا حل خود ہمارے پاس ہے، ان کے حل کرنے کی باتیں کریں گے، تو سماج کا مفکر طبقہ یہی کہے گا کہ ۔۔۔ارے یہ تو سازش ہے۔۔۔!!۔
راقم کا ماننا ہے کہ رمضان برکتوں کا پربہار موسم لاتا ہے۔ اس میں نوافل فرائض کے درجات حاصل کرلیتے ہیں ۔ اور ہر ایک فرض ستر فرضوں کا عوض بن جاتا ہے۔ تو بھلا کیا پتہ ۔۔۔رمضان میں ایک مسلمان کا ایک ووٹ ۔۔۔ سترووٹوں کا کرشمہ کرجائے ۔ اور اس طرح سے ظالم و جابر حکمراں سے آزاد ہونے کا خوب صورت موقع میسر آجائے۔ اس لیے ناچیز درخواست گذار ہے کہ کسی بھی مسئلے کو لے کر جذباتی ہونے سے پہلے غوروفکر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ صحیح مسئلہ اور فیصلے پر ہمیں اکساکر ہماری غلط شبیہہ بنانے کی منظم سازش ہورہی ہے ۔ اور اس طرح سے ہم سازش سے پاک کام میں ہمیں غلط طور پر شامل کرکے ہمارے خلاف تو سازش نہیں کی جارہی ہے ۔ ۔۔۔ یہ سوچنا ضروری ہے کہ ۔۔۔کیوں کہ قرآن بارہا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ۔۔۔افلا تدبرون۔۔۔ افلا تعقلون۔۔۔۔

15 Mar 2019

مجھے ایک ٹرانسلیٹر چاہیے:خفتہ بزرگ کی کرب آمیز اپیل


مزاروں پہ آویزاں مختلف زبانوں کے خطوط کو سمجھنے کے لیے بزرگ کی فریادمحمد یاسین جہازی
جب کوئی قوم فکری دیوالیہ پن کی شکار ہوجاتی ہے، تو چاہے فکرو دانش میں کتنی ہی لچرو پوچ حرکت کیوں نہ ہو، اسے جذباتیت کی تسکین اور ایمان کی تکمیل کا حصہ سمجھنے لگتی ہے۔ یہ حرکت اور اس کے پیچھے چھپے عقیدے ؛ اسلام کے نقطہ نظر سے دونوں غلط ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر ۷۳ میں ہے کہ و الذین اذا ذکروا بآیات ربھم لم یخروا علیھا صما و عمیانا۔ اور جب انھیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔ اس کی تفسیر میں صاحب تفسیر بغوی اور علامہ طنطاوی تفسیر وسیط میں لکھتے ہیں کہ مومنین کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ محض دین کی بات سن کر اندھے بہرے ہوکر تقلید نہیں کرتے، جب تک کہ وہ یہ نہ دیکھ لیں کہ ایا وہ عقلی طور پر بھی صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ہر کسی سے سنی ہوئی باتوں کو دین سمجھ کر اسے ایمان و تسلیم کا حصہ نہیں بنانا چاہیے ۔ اس میں خود بھی غور کرکے دیکھنا چاہیے کہ ایسی بات صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ایک حدیث میں پیروکاران اسلام کے لیے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔ غیر ضروری چیزوں سے پرہیز مسلمان کے کردار کو خوب صورت بناتا ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے جاننے کے بعدہمارے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ یوں تو زندگی میں ہم کئی لایعنی کام کرتے ہیں، جسے دیکھ کر ادنیٰ شعور و آگہی رکھنے والا فرد یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’ کیا یہی اسلام ہے!‘‘ ۔ ’’ کیا اسلام میں اس کی گنجائش ہوسکتی ہے!‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے ہمارا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہم اپنی حاجت روائی کے لیے اللہ کے علاوہ بزرگ کے مزار پر بھی جاتے ہیں۔ اگر معاملہ صرف جانے تک رہتا تو بھی غنیمت تھی؛ لیکن ہم اس سے آگے کیا کرتے ہیں کہ اللہ سے مانگنے کے بجائے بابا بزرگ سے ہی مانگنے لگتے ہیں۔ چلو کسی حد تک مان لیتے ہیں کہ یہ بھی درست ہوسکتا ہے، لیکن غضب تو تب ڈھاتے ہیں، جب ہم اپنی فریادیں ایک کاغذ پر لکھ کر مزار کی دیوار پر لٹکا آتے ہیں۔ چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ بابا کو جب فرصت ملے گی تو پڑھ کر ہماری حاجت روائی کردیں گے۔ لیکن بزرگ بابا آج تک حیران و پریشان ہے کہ ان چٹھیوں کو پڑھیں کیسے۔۔۔ ؟ کیوں کہ بھارت کی بات کریں، تو اکثر بابا بزرگ کے بارے میں یہی بتاتے ہیں کہ وہ عرب ایران توران سے آئے تھے، تو ان کی زبان تو عربی فارسی وغیرہ تھی، تو یہ بابا تو وہی خطوط پڑھ پائیں گے، جو عربی فارسی میں لکھے ہوئے ہوں۔ یا پھر ان زبانوں میں ہوں، جو زبان ان کے یہاں بھارت میں آبسنے کے وقت رائج تھی اور جو زبان انھوں نے سیکھی تھی۔ اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ اس وقت نہ تو آج کی اردو تھی، نہ ہندی تھی اور انگریزی تو تھی ہی نہیں۔ اور آج ہم جو خطوط بابا کو بھیج رہے ہیں، وہ زیادہ تر ہندی، اس سے کم انگریزی اور اس سے بھی کم اردو میں لکھ کر بھیج رہے ہیں۔ اور بابا ہیں کہ خطوط سمجھنے کے لیے ہی بہت پریشان ہیں ، انھیں کوئی ٹرانسلیٹر ہی نہیں مل رہا ہے ۔ تو جب بابا ہمارے خطوط ہی نہیں سمجھ پار ہے ہیں اور انھیں کوئی ٹرانسلیٹر بھی نہیں مل رہا ہے، تو بھلا بتائیے سہی ۔۔۔ بابا ہماری حاجت روائی کیسے کرے اور ہماری درخواستوں پر کیسے غور کرے۔۔۔۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ بابا مزاری سے کی گئی ہماری کوئی بھی درخواست قبول ہی نہیں ہورہی ہے اور ہم آج بھی اتنے ہی پریشان ہیں، جتنے کہ درخواست بھیجنے سے پہلے تھے۔ اسلامی ہدایت کے مطابق حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے لیے علاوہ کسی اور کو ایسا سمجھنا کفرو شرک کے مترادف ہے، بھلا بتائیے جو انسان زندہ ہونے کی صورت میں ہر ایک کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہر زبان پڑھ سکتا ہے، بھلا وہ مرنے کے بعد ، جب کہ خود کی حرکت کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔۔۔ ہماری حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔۔۔ افلا تعقلون !!!!۔ x

8 Mar 2019

آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔

آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیۃ علماء ہند


ایک دوسرے کی دعوت کرتے رہنا ، اسلامی تعلیمات کا ایک اہم باب ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے یہی جواب دیا کہ کھانا کھلانا بہترین اسلام ہے۔عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَیْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام)ایک مومن کی شان کرم و سخا یہی ہے کہ اپنی ضرورت و خواہش کے باوجود ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتا ہے ۔ اور اس کے بدلے اس کا معاوضہ تو بہت دور کی بات ہے، شکریہ ادا کرنے کی بھی تمنا دل میں نہیں رکھتا ۔وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا ویَتِیمًا وَأَسِیرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیدُ مِنکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا (9)( سورۃ الانسان)کائنات عالم میں سب سے زیادہ سخی خود نبی اکرم ﷺ تھے، بعد ازاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ اسی طرح ان حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت میں بھی ایک دوسرے کی دعوت کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ یوں تو دعوت کرنے کا کوئی وقت معتین نہیں ہے، آپ کا جب جی چاہے، کسی کی دعوت کرسکتے ہیں، اس کے باوجود زندگی کے کچھ اہم موڑ ایسے ہیں، جہاں اسلام یہ رہنمائی کرتا ہے کہ اپنی خوشی کے اظہار یا بھوکے پیاسوں کو کھلانے کے لیے اپنے دوستوں، رشتوں اور ضرورت مندوں کی دعوت کرنا چاہیے۔ فقہی اصطلاحات کے اعتبار سے دعوت کی تین قسمیں ہیں: مستحب، سنت اور واجب۔ (۱) مستحب دعوت(۱) عقیقہ کی دعوت: بچے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار فطرت کا تقاضا ہے ، اس لیے شریعت کہتی ہے کہ اس خوشی میں اپنے احباب کو بھی شامل کرنا چاہیے اور ساتویں دن ان کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ عقیقہ عام دعوت کی طرح ہی ایک دعوت ہے، لیکن ہم نے اپنے بے جا رسوم و رواج کی زنجیروں میں قید کرکے اسے مشکل بنادیا ہے۔ہر علاقے میں الگ الگ رسمیں ہیں، بعض علاقے میں دیکھا گیا ہے کہ عقیقہ اسی وقت درست مانا جاتا ہے،جب تک کہ دعوت میں شریک سبھی افراد کو کپڑے اور قیمتی تحفے نہ دے دیے جائیں۔ یہ سب غلط چیزیں ہیں۔ وسعت کے مطابق محض دعوت کردینا کافی ہے۔(۲) افطاری کی دعوت: رمضان المبارک میں افطاری کی دعوت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس لیے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ روزہ داروں ؛ بالخصوص مسافر روزے داروں کو افطاری کرائیں، اور اس طرح سے روزہ رکھنے کا ڈبل ثواب حاصل کریں۔(۲)سنت دعوتدعوت ولیمہ: ولیمہ کی دعوت کے پیچھے اسلام کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مرد کو عورت پر دو وجہ سے حاکمیت بخشی ہے: (۱) کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے حاکم و محکوم کا رشتہ ضروری ہے، اس لیے ایک کو حاکم اور دوسرے کو محکوم بنادیا گیا ہے۔ (۲) چوں کہ مرد مال خرچ کرتا ہے، اس لیے خرچ کرنے والا خرچ کیے جانے والے سے اونچا مقام رکھتا ہے۔ اخراجات چوں کہ مرد کے ذمہ ہے ، اس لیے ولیمہ کے اخراجات بھی مرد ہی کے ذمہ ہوں گے۔ علاوہ ازیں فرمان نبوی کے بموجب لڑکی رحمت ہے ۔ اور شادی کے بعد جب رحمت لڑکے کے گھر آئی ہے، تو اس کی خوشی کے اظہار کے لیے ولیمہ کرنا مسنون قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ہمیں ولیمہ کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لیکن آج کل ولیمہ کی دعوت ، دعوت کم اور بزنس زیادہ بن چکی ہے، لفافہ کا رواج اور اس میں مقابلہ آرائی کی ذہنیت ، اسی طرح کم لفافہ پیش کرنے والے کو حقیر اور ثانوی حیثیت دینے کے رجحانات سے سنت کے بجائے لعنت کا سبب بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح جب ولیمہ کا کھانا بچ جاتا ہے یا خراب ہونے لگتا ہے، توتب ہم مدرسے کے بچوں کو کھلانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں؛ ایسارویہ عذاب الٰہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ (۳) واجب دعوتدرج بالا تمام دعوتیں اختیاری دعوتیں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دعوت کریں گے، تو اس کا ثواب ملے گا ۔ اور اگر نہیں کریں گے، تو کوئی بات نہیں؛ لیکن اسلام نے کچھ لازمی دعوتیں بھی رکھی ہیں،جنھیں انسان کو کرنا ضروری ہے، تاکہ آپسی ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ فروغ پاسکے ، اس کی تفصیلات پیش ہیں: (۱) مہمان کی دعوتفرمان نبوی علیہ السلام کے مطابق ایک دن اور ایک رات مہمان کا اعزازو اکرام اور دعوت کرنا واجب ہے۔ اس کے بعد تین دن تک سنت ہے۔ بعد ازاں مستحب ہے۔ ( بخاری، کتاب الادب،باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ) (۲) روزہ کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی اتنا بوڑھا ہوگیا ہے کہ رمضان میں روزہ رکھنے کی قدرت باقی نہیں رہی اور نہ ہی یہ امید ہے کہ آگے قدرت لوٹ پائے گی ، تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ ہر روزہ کے بدلہ غریبوں کی دعوت کرے۔ (البقرہ، آیت ۱۸۴) (۳) قسم کے کفارہ کی دعوتکسی نے صحیح قسم کھائی اور اس کو پورا نہیں کرپایا، قسم حانث ہوگیا، تو اس کے کفارہ کے لیے ضروری ہے کہ دس غریبوں کی دعوت کرے۔ (المائدہ، آیت ۸۹) (۳) حالت احرام میں شکار کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی شخص حالت احرام میں تھا اور اس نے کوئی جانور شکار کرلیا، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسی جیسا جانور کی قربانی حرم میں کرکے فقیروں کی دعوت کرے۔(المائدہ، آیت ۹۵) (۴) ظہار کے کفارہ کی دعوتکسی نے اپنی بیوی کو کسی محرمات کی عورت سے تشبیہ دے دی، مثلا یہ کہہ دیا کہ تو میری ماں کی طرح ہے، تو شریعت میں اسے ظہار کہا جاتا ہے۔ اس سے بیوی ماں کی طرح حرام ہوجاتی ہے۔ زوجیت کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اس سے رجوع کرنا ضروری ہے؛ لیکن جب رجوع کریں گے، تو ظہار کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اور وہ کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرے۔ آج کل چوں کہ غلام نہیں ہے، اس لیے دوسرا حکم یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے۔ لیکن اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے، تو دو وقت پیٹ بھر کر ، ساٹھ غریبوں کی دعوت کرنا ضروری ہے۔ (المجادلہ، آیت : ۴) خلاصہ کلام یہ ہے کہ سماجی نفسیات کے تناظر میں اسلام دعوت کرنے کرانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور انسان کے حسب ضرورت مستحب، سنت اور واجب قرار دیتا ہے۔ ان تمام دعوتوں کے پیچھے داعی کا دل اس جذبہ سے لبریز ہونا ضروری ہے کہ وہ محض رضائے الٰہی اور حکم خداوندی کی تعمیل میں دعوت کر رہا ہے۔ اگر دل میں ذرا سا بھی مفاد خوری تو دور ؛شکر طلبی کی تمنا بھی آگئی، تو آپ کی دعوت ، رحمت اور ثواب کے بجائے لعنت اور عذاب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس لیے آئیے ہم سب اپنے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص دل سے ایک دوسرے کے ساتھ یہ کہنے اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ: ’’ آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔‘‘۔ 

28 Feb 2019

Islam Ghalib Aayga

اسلام غالب آئے گا؟
محمد یاسین جہازی، جمعیۃ علماء ہند

جس وقت آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی، اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اس کے ہر بادشاہ کو کسری کہا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے، یعنی آگ کو پوجتے تھے۔ دوسری بڑی طاقت روم کی تھی، جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے، اور اس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی، جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے، اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اور اس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کرلیے تھے، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کرکے رومیوں کو مسلسل پیچھے دھکیلتی جارہی تھی، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہورہا تھا، ایران کی حکومت چوں کہ آتش پرست تھی، اس لیے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، اور جب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی، تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے؛ بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں، مسلسل شکست کھاتے جارہے ہیں، اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے، انھیں برابر فتح نصیب ہورہی ہے، اس موقع پر یہ سورت (الروم) نازل ہوئی، اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھاگئے ہیں، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کرکے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک و قت دو پیشن گوئیاں کی گئیں: ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھاگئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے، یہ دونوں پیشین گوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشین گوئی نہیں کرسکتا تھا، مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے، اس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں، دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا، چنانچہ سلطنت روما کا مشہور مؤرخ ایڈروڈ گبن اس پیشین گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: جس وقت مبینہ طور پر یہ پیشین گوئی کی گئی ،اس وقت کسی بھی پیشین گوئی کا پورا ہونا اس سے زیادہ بعید نہیں ہوسکتا تھا، اس لیے کہ قیصر ہرقل (Hercules)کی حکومت کے پہلے بارہ سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ رومی سلطنت کا خاتمہ بالکل قریب آچکا ہے:
Gibbon: The Decline and Fall of the Roman Epaire, chapter 46, Volume 2, P.125, Great Books, V.38, University of Chicago, 1990 
چنانچہ مکہ مکرمہ کے مشرکین نے اس پیشین گوئی کا بہت مذاق اڑایا، یہاں تک کہ ان کے ایک مشہور سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے یہ شرط لگالی کہ اگر آئندہ نوسال کے درمیان روم کے لوگ ایرانیوں پر غالب آگئے، تو وہ حضرت ابوبکرؓ کو سواونٹ دے گا، اور اگر اس عرصے میں وہ غالب نہ آئے، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اس کو سو اونٹ دیں گے (اس وقت تک اس قسم کی دو طرفہ شرط لگانا حرام نہیں کیا گیا تھا)، چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ قیصر کے پایہ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے اور انھوں نے قیصر ہرقل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انھیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا، لیکن اس کے فوراً بعد حالات نے عجیب و غریب پلٹا کھایا، ہرقل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا، جس میں اسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی، جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا، اس پیشین گوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی، جس وقت یہ خبر پہنچی یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی، اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی، اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشین گوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئی، جس کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، اور اس سے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔ 
( آسان ترجمہ قرآن :مفتی محمد تقی عثمانی)
اس واقعہ کے منظر اور پس منظرپر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوجائیں، پھر بھی سربلندی اور کامرانی مسلمانوں کے لیے ہی مقدر ہے؛ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ وہی کردار پیش کریں، جو کردار اسلام کے مظلومانہ زندگی میں مسلمانان مکہ نے پیش کیا تھا۔
آج ہمارے حالات عہد نبوت کی مکی زندگی سے زیادہ مختلف نہیں ہیں؛ اس کے باوجود ہمارے اعمال و کردارمیں اسلام کے جو عملی مظاہر جھلکنے چاہیے، ہم اس سے کوسوں دور ہیں، تو ایسی صورت میں کیا یہ توقع رکھنا ایک لایعنی تصور نہیں ہوگا کہ ’’ اسلام پھر سے غالب آئے گا۔۔۔؟۔ 
آئیے مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان و عمل کی وہی توانائی عطا فرمائے، جن سے متصف ہونے کے بعد نہ اسلام کا پرچم جھک سکتا ہے اور نہ ہی مسلمان زوال پذیر قوم بن سکتی ہے۔ اللہم آمین۔ 

6 Feb 2019

paki ka falsafa


پاکی کا فلسفہ
محمد یاسین جہازی


اسلام کے فطری دین ہونے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے زندگی میں قدم قدم پر پیش آنے والے تمام حالات و واقعات کے بارے میں انسانوں کی رہ نمائی فرمائی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت اس کے عملی نمونے کے طور پر ہمارے سامنے احادیث کی شکل میں موجود ہے۔ انھیں ہدایات حیات کی ایک کڑی ہے : پاکی اور صفائی۔ پاکی اور صفائی کی دوسرے مذاہب میں جو بھی اہمیت ہو، لیکن اسے پوجا اور عبادت کا مقام حاصل نہیں ہے، لیکن اسلام میں یہ عبادت ؛ بلکہ مدارِ اسلام: ایمان کا نصف حصہ یہی پاکی ہی ہے۔پاک صاف اور صاف ستھرا رہنے والوں کی قرآن نے تعریف و توصیف کی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
فِیْہِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ انْ یَّتَطَھَّرُوا واللّٰہُ یُحِبُّ المُتَطَھِّرِینَ۔ (التوبہ، ۱۰۸)
اس (قبا بستی) میں ایسے لوگ ہیں ، جو (ڈھیلے کے ساتھ پانی سے بھی ) پاکی حاصل کرتے ہیں ۔ پاک صاف بندے اللہ کو پسند ہیں۔ بدن تو انسانی وجود کا جوہر ہے؛ بدن کے ساتھ جو عرض ہے ، یعنی کپڑے کی پاکی صفائی پر بھی توجہ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ
وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرْ، (سورہ المدثر، آیت: ۴، پارہ ۲۹)
اور اپنے کپڑے کو پاک رکھو۔احادیث میں بھی پاکی و صفائی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ
الطَّھُورُنِصْفُ الِایْمَانِ۔ (ترمذی، باب منہ ، کتاب الدعوات)
پاکی آدھا ایمان ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
مِفتَاحُ الصَّلاۃِ الطَّھُورُ،(ابو داود، کتاب الطھارۃ، باب فرض الوضو) 
نماز کی چابی پاکی ہے۔۔المختصر قرآن واحادیث میں پاکی و صفائی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ، اسی وجہ سے یہ صرف زندگی کا مہذب عمل ہی نہیں؛ بلکہ اس کے ساتھ عبادت بھی ہے۔ اس لیے آئیے ہم غور کریں کہ پاکی کی کیا اہمیت اور حقیقت ہے اور اس کے ساتھ اس میں کیا کیا اسرارو حکم پوشیدہ ہیں۔
پاکی کی اہمیت و حقیقت
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے دین اسلام کی بنیادوں کا خلاصہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ شریعت کے اگرچہ بہت سے ابواب ہیں، اور ہر باب کے تحت سیکڑوں احکام ہیں، لیکن اپنی بے پناہ کثرت کے باوجود چار اصولی عنوان کے تحت آجاتے ہیں: طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، جلد اول، القسم الاول، المبحث الرابع، باب ۴، الاصول التی یرجع الیھاتحصیل الطریقۃ الثانیۃ)۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طہارت شریعت کا ایک چوتھائی حصہ ہے اور یہ دین کا ایک اہم شعبہ اور بذات خود مطلوب عبادت ہے۔ 
ابو حامد غزالی ؒ طہارت و پاکیزگی سے متعلق قرآن کی آیتیں اور احادیث لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ ان ارشادات پر غور کرنے والے بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان ارشادات سے صرف ظاہری ہی پاکی مراد نہیں ہے ؛ بلکہ باطنی پاکیزگی بھی مطلوب ہے۔(احیاء علوم الدین، جلد اول،کتاب اسرار الطہارۃ)۔شاہ صاحب نے مذکورہ بالا حوالے کے مقام پر طہارت کی حقیقت بھی بیان فرمائی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکی اور ناپاکی انسانی روح اور طبیعت کی دو الگ الگ حالتوں کا نام ہے ۔ طہارت کی حالت فرشتوں کی حالت سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے ، اس لیے ہر وقت پاک و صاف رہنے سے ملکوتی کمالات و صفات انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ اور ناپاکی کی حالت شیاطین کی حالت ہوتی ہے ، اس لیے جو شخص ہر وقت ناپاکی میں ڈوبا میں رہتا ہے، شیاطینی وساوس اور روح کی ظلمت اس کو گھیر لیتی ہے۔ 
پاکی کی صورتیں
قرآن و احادیث کے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکی و ناپاکی کی چار صورتیں ہیں:
(۱) باطنی پاکی و ناپاکی۔ (۲) معنوی پاکی و ناپاکی۔ (۳)ظاہری پاکی و ناپاکی۔ (۴) دلوں کی پاکی و ناپاکی۔
باطنی پاکی و ناپاکی سے مراد یہ ہے کہ انسان خود کو کفرو شرک کی ناپاکی اور گندگی سے پاک و صاف کرلے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرائے جانے والے بت ناپاکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
فاجتنبوا الرجس من الاوثان (سورہ الحج، آیت : ۳۰، پارہ : ۱۷)
بتوں کی گندگی سے بچو۔ بتوں کی پوجا کرنا پلیدی اور گندگی سے کھیلنا ہے اور جوکوئی پلیدی میں لت پت ہوجائے ، اس سے پاکی و صفائی حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے ، یعنی کفر و بت کی گندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسلام کی پاک دامن میں پناہ لینا چاہتا ہے ، تو سب سے پہلے اسے حکم دیا جاتا ہے کہ پاک کلمہ زبان پرلانے کے لیے غسل کرنا پڑے گا۔ اور انسان کے لیے کفر کی گندگی سے بڑی کوئی اور ناپاکی نہیں ہے اور اسلام کی پاکیزگی سے بہتر کوئی اور پاکیزگی نہیں، انسان خوب نہائے ، سوچھتا کے بڑے بڑے ابھیان چلائے ،لیکن اگر اس باطنی ناپاکی سے خود کو پاکیزہ نہیں بناتا ، وہ کبھی بھی پاک اور صاف نہیں ہوسکتا۔
دوسری پاکی و ناپاکی معنوی پاکی وہ ناپاکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان حدث سے طہارت ، یعنی جن حالتوں میں غسل یا وضو واجب اور مستحب ہے ، ان حالتوں میں غسل یا وضو کرکے شرعی پاکی حاصل کرے۔ اگرچہ بدن پر ظاہری ناپاکی کی کوئی چیز لگی ہوئی نہ ہو۔ مثال کے طور پر نماز پڑھنے کے لیے ، وضو کرنا ضروری ہے ۔اب اگر کسی کے بدن پر ظاہری نجاست لگی ہوئی ہو یا نہ ہو ، وضو نہیں ہے، تو اس کے لیے وضو کرنا ضروری ہوگا۔ خلاصہ کلام یہ کہ ایک مسلمان کے لیے باطنی پاکی حاصل کرنے کی طرح عبادات کو انجام دینے کے لیے معنوی طور پر بھی پاک و صاف رہنا ضروری ہے۔
تیسری پاکی و ناپاکی ہے : ظاہری پاکی و ناپاکی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری نجاست و گندگی سے اپنے جسم ، کپڑے اور جگہ کو پاک و صاف رکھنا۔آپ نے چھوٹا استنجا کیا یا بڑا استنجا کیا ، اس وقت ظاہری بدن پر لگی ناپاکی اور گندگی کو آپ نے دھویا، تو آپ نے یہ ظاہری پاکی حاصل کی۔ اسی طرح جسم کے مختلف حصوں میں خود بخود گندگیاں اور میل و کچیل پیدا ہوتی رہتی ہیں، جیسے دانت ، منھ ، ناک، ناخن وغیرہ میں خود بخود گندگی پیدا ہوتی رہتی ہے، ان چیزوں سے پاکی و صفائی حاصل کرنا بھی انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس تیسری قسم کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی ہدایت ہے کہ
عشر من الفطرۃ: (۱)قص الشارب،(۲)و اعفاء اللحیۃ، (۳) والسواک، (۴)و استنشاق الماء ، (۵) و قص الاظفار، (۶) و غسل البراجم، (۷) و نتف الابط، (۸) و حلق العانۃ، (۹) و انتقاص الماء ، (۱۰) والمضمضۃ۔ (المسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ) 
دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : مونچھ تراشنا۔ داڑھی بڑھانا۔ مسواک کرنا۔ ناک صاف کرنا۔ ناخن تراشنا۔ انگلیوں کے پوروں میں پھنسی گندگیوں کو صاف کرنا۔ بغل کی صفائی کرنا۔ زیر موئے ناف کی صفائی۔ استنجا۔ کلی کرنا۔ایک دوسری حدیث میں ایک اور چیز کااضافہ ہے ختنہ کرانا۔ 
اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ صفائی انسان کے لیے ایک فطری عمل ہے ۔ ایک صاحب عقل، نستعلیق اورسلیم الطبع آدمی کبھی ان صفائیوں سے گریز نہیں کرسکتا۔آئیے اب یہ غور کریں کہ شریعت نے کسی چیز کو تراشنا صفائی کیو ں قرار دیا ہے اور کسی کو بڑھانا پاکیزگی کا ذریعہ کیوں ٹھہرایا ہے۔
(۱)جہاں تک مونچھ تراشنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مونچھ بعینہ ناک کے نیچے اور ہونٹ کے اوپر ہوتی ہے۔ ناک سانس لینے کا ذریعہ ہے اور سانس سے ہی زندگی برقرار رہتی ہے۔ اور نیچے منھ ہے، جو بقائے زندگی یعنی کھانے پینے کی جگہ ہے۔ اب اگر مونچھ میں لمبے لمبے بال رکھے جائیں، تو ظاہر سی بات ہے ، بالوں میں پھنسی گندگی یا تو سانس کے ذریعے اندر پہنچے گی یا پھر منھ کے ذریعے۔ اور اگر اندر گندگی پہنچ جائے ، تو انسان بیماری وغیرہ میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس کا حکم دیا کہ مونچھ کو تو صاف ہی کردو۔
(۲)داڑھی بڑھانا، یہ دوسری فطری بات ہے۔داڑھی مردوں کی شان ہے اور مرد ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے داڑھی مردوں کو اسی لیے عطا کی ہے تاکہ مذکرو مونث میں واضح فرق ہوسکے۔ اس کی فطری چیز ہونے کی ایک وجہ تو یہ تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ داڑھی کے بال چوں کہ نیچے کی طرف لٹکتے ہیں، جہاں نہ تو سانس لینے کی مشین ہے اور نہ کھانا کھانے کی جگہ، لہذا اس کے بالوں کی وجہ سے صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ علاوہ ازیں جب دن رات میں وضو کے لیے پانچ پانچ مرتبہ داڑھی کے بالوں کو دھویا جائے گا ، تو اس میں گندگی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لیے داڑھی بڑھانا ایک فطری امر ہے۔ 
(۳) تیسری چیز مسواک کرنا ہے۔انسان اگر دانت کی صفائی کا خاص خیال نہیں رکھتا ہے، تو کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں: دانت میں کیڑے لگنے لگتے ہیں، اس میں پانی بھی لگتا ہے، گندگی کی وجہ سے مسوڑے کمزور ہوجاتے ہیں اور شدید درد شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے کھانا پینا دشوار ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں منھ کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اس میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بدبو ایسی پیدا ہوجاتی ہے کہ محفل میں بات کرو تو بدبو ، کسی کے سامنے منھ کھولو، تو بدبو، اپنوں سے سے قریب ہو تو بدبو کی وجہ سے پریشانی۔بہر کیف ان تمام پریشانیوں کا واحد علاج ہے کہ انسان منھ کی صفائی کرے اور اس کے لیے مسواک سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔آج کل مارکیٹ میں ایک سے ایک ٹوٹھ پیسٹ بھی دستیاب ہیں، جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسواک سے زیادہ منھ کی صفائی کرتا ہے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ کیمکل اور دوائی کے اثرات کی بنیاد پر وہ زیادہ صفائی کرتے ہیں، لیکن دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ ٹوٹھ پیسٹ کرنے والے کبھی ان کیمکل کے اثرات سے متاثر ہوجاتے ہیں اور دانت میں کئی طرح کی بیماریاں بھی پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اگر فوری طور پر وہ صفائی زیادہ کرتے ہیں، تو کبھی کبھی اس کا سائڈ ایفکٹ بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابل نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بتائے طریقوں میں کبھی بھی سائڈ ایفیکٹ نہیں ہوتا۔
(۴) ناک کی صفائی بھی ایک فطری امر ہے۔ کیوں کہ گردو غبار جب اڑتے ہیں ، تو کہیں پہنچے یا نہ پہنچے ناک کے خیشوم میں ضرور پہنچ جاتی ہے۔ آپ اگر کمرے کی صفائی کر رہے ہیں، تو کہیں دھول کے اثرات دکھے یا نہ دکھے ، ناک میں ضرور پہنچ جاتی ہے، اور چوں کہ یہ سانس لینے کی جگہ ہے، اس لیے اس کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔
(۵) ناخن تراشنا بھی صفائی کی چیز ہے۔ کیوں کہ اس میں گندگی بھی پھنستی ہے اور انسان کو کریہہ المنظر بھی بناتا ہے۔ 
(۶) انگلیوں کے جوڑوں میں بھی گندگی پھنستی ہے ۔ اگر برابر اس کی صفائی نہیں کی جاتی ہے ، تو جلدی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔چمڑے میں خشکی، موٹا پن، کھردرا پن اور کانٹے دار پھنسیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اس لیے ان کی صفائی ضروری ہے۔
(۷) بغل کے بالوں کو اکھاڑنا بھی صفائی کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ گندگی جمع ہونے کی وجہ سے بدبو پیدا ہونے لگتی ہے اور بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں۔
(۸) زیر موئے ناف بھی تراشنا ضروری ہے، کیوں کہ وہاں بھی گندگی جمع ہوتی ہے ، قوت باہ کو کمزور کردیتی ہے۔ اس لیے صفائی ضروری ہے۔
(۹)استنجا کرنا ۔ 
(۱۰) کلی کرنا
(۱۱) ختنہ کرانا
ان ہدایات سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اسلام نے ظاہری و باطنی ہر طرح کی گندگی سے پاکی و صفائی کا کس قدر اہتمام کیا ہے۔

11 Jan 2019

west or invest

ویسٹ یا انویسٹ
محمد یاسین جہازی
واٹس ایپ: 9871552408
وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں نیند مراد نہیں ہے، کیوں کہ سونا خریدا جاسکتا ہیجب کہ وقت بکاؤ نہیں ہوتا؛ زندگی کا جولمحہ نکل گیا،آپ اس کو کبھی واپس نہیں لاسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کی قدرو قیمت پر جب بھی ہم لیکچر دیتے ہیں یا سنتے ہیں، تو اس قول زریں کا اعادہ ضرور کرتے یا سنتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت انمول ہے۔ 
اپنی زندگی کو وقت پر تقسیم کریں، تو اس کے تین اہم حصے ہوتے ہیں:
(۱) بچپن: اس کے لمحات میں ہم خود نہیں؛ بلکہ ہمارے بڑے ہمارے لیے ایکٹیو کردار ادا کرتے ہیں، اور اس توقع سے کرتے ہیں کہ یہ بچے ہی ہمارے پیسیو لائف ، یعنی بڑھاپے کے سہارے ہیں۔ بذات خود ہمارے لیے نہ تو ایکٹیو لائف ہوتی ہے اور نہ ہی پیسیو لائف۔
(۲) جوانی: اس میں ہم اپنے لیے بھی، اپنے متعلقین کے لیے بھی اور مستقبل کے لیے بھی زندگی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دراصل ہماری زندگی کا یہی حصہ سب سے محبوب ترین حصہ ہوتا ہے اورحسین مستقبل کے لیے پیش خیمہ بھی یہی موقع ہوتا ہے۔کیوں کہ اسی میں حال و مستقبل کی زندگی کے لیے ایکٹیو اور پیسیو دونوں کردار ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 
ہر ایک شخص کے لیے زندگی اور اس کی لوازمات کے لیے دو کردار ہوتے ہیں: ایک کو ایکٹیو کہا جاتا ہے اور دوسرے کو پے سیو۔ ایکٹیو کا مطلب ہوتا ہے کہ جو وہ خود کر رہا ہے ، یا جس سے خود گزر رہا ہے۔ جب کہ پے سیو کا مفہوم یہ ہے کہ بذات خود آپ نہ کر رہے ہوں، البتہ اس کا فائدہ آپ کو ملتا رہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی جگہ ملازمت کر رہے ہیں، تو یہ آپ کا ایکٹیو ورک ہے۔ اس کی تنخواہ آپ کو اسی وقت تک ملتی رہے گی، جب تک آپ ملازمت کرتے رہیں گے۔ ملازمت ختم ہوتے ہی آپ کی تنخواہ بھی بند ہوجائے گی۔ لیکن آپ بزنس شروع کرتے ہیں، اور آپ کے ماتحت بہت سارے اسٹاف کام کرتے ہیں، تو آپ بذات خود کام کریں یا نہ کریں، اس کا فائدہ آپ کو ملتا رہے گا ، اسے پے سیو ارننگ (جاری کمائی) کہا جاتا ہے۔ 
یہ جو جوانی کا وقت ہے ، یہ ایکٹیو اور پے سیو دونوں کردار کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے؛ اگرآپ جوانی کو ان دونوں کردار کے لیے انویسٹ (سرمایہ کاری) کرتے ہیں، تو بالیقین ہمارے سنہری مستقبل کی ضمانت کا اشاریہ ہوگا، لیکن اس کے بجائے ہم جوانی کو ویسٹ( ضائع) کردیں گے، تو زندگی کے تیسرے اور آخری مرحلہ (بوڑھاپے) میں پریشان رہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ 
(۳) بوڑھاپا: زندگی کا یہ حصہ دراصل اپنے کرموں کا پھل پانے،یا بھگتنے کا دور ہوتا ہے۔ اس دور میں طاقت کم اور ضروریات بڑھ جاتی ہیں، اس لیے ہمارے لیے درس عبرت یہی ہے کہ ہم اپنی سابقہ زندگی میں ایکٹیو اور پے سیو دونوں معاشی نظام سے جڑ کر انویسٹ کا کردار ادا کریں۔ بصورت ویسٹ جرم ضعیفی کی سزامحرومی، مجبوری اورمرگ مفاجات ہی ہوگی۔ 
ایک دوسری حیثیت سے غور کیجیے، تو ہماری تخلیق سے آخری منزل تک بھی تین مراحل ہیں: عالم دنیا، عالم برزخ اور عالم آخرت۔ پہلی منزل میں اگر ہم اپنی زندگی کے لمحات کو نیک کاموں میں انویسٹ کریں گے اور خلاق عالم کی مرضیات کو پانے کے لیے ایکٹیو و پے سیو دونوں کردار ادا کریں گے،تو بالیقین دوسری زندگی میں سکون و راحت ملے گی اور آخرت میں جنت ہمارا مقدر ہوگا۔ لیکن اگر ہم اس کے برخلاف زندگی گذاریں گے، تو ہم دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بڑے خسارے میں رہیں گے؛ کیوں کہ یہی فلسفہ حیات کی آفاقی سچائی ہے۔ بقول شاعر 
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت سے نہ نوری ہے نہ ناری ہے
درج بالا حقیقتوں کی روشنی میں خود کا جائزہ لیتے ہوئے بتائیے کہ آپ کو خود انویسٹ کر رہے ہیں ؟ ۔۔۔ یاویسٹ۔۔۔؟۔ 

4 Jan 2019

Yasmin bint Md Yasin Jahazi

تثلیث حیات
(4جنوری 2016 یعنی یوم پیدائش یاسیمین بنت محمد یاسین جہازی کے لیے ایک خصوصی تحریر)
محمد ابو یاسمین جہازی

آج مورخہ ۴؍ جنوری ۲۰۱۹ء کو میری بٹیا: یاسمین تین سال کی ہوگئی ہے۔ناچیز کا وطن اصلیضلع گڈا کا ایک مشہور علمی گاوں جہاز قطعہ ہے، لیکن وطن خدمت و معیشت دہلیہے۔ ان دونوں وطنوں میں آمد ورفت کل بھی زندگی کے تسلسل کا حصہتھا اور آج بھی ہے؛ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ کل کی زندگی میں بے شعور زبان جدائی کا احساس نہیں دلاتی تھی ، جب کہ آج ایک ننھی پری، لاشعور عشق اور بے ربط زبان ہمہ وقت تار احساس کو چھیڑتے ہوئے کہتی ہے کہ ابو کہاں ہو۔۔۔، میرے ابو دکھتے کیوں نہیں ہے۔۔۔۔
حالیہ آخری مرتبہ گھر سے آٹو سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا، اس معصوم دل و نگاہ نے اس منظر کو کچھ اس طرح قید کرلیا ہے کہ جب بھی کسی گاڑی کی آواز دیکھتی یا سنتی ہے، تو اس لاشعور کے تحت الشعور میں چھپی ہوئی شیفتگی تتلی زبان کی ترجمان بن کر پکار اٹھتی ہے کہ ۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو ۔۔۔ پھر جب وہ آواز اور منظر غائب ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھ انتظار کی پتھراہٹ سے چور ہوکرآنسووں سے سکون حاصل کرلیتی ہے۔
اس کی امی کا موبائل کسی کی یاد آوری کا اعلان کرتا ہے، تو اس سادہ ذہن کی پہلی تخلیق یہی ہوتی ہے کہ ۔۔۔ ابو، ۔۔۔ ابو۔ ایک مرتبہ آنگن میں کھیل رہی تھی ، فون کی گھنٹی بجی، تو امی نے آواز دیتے ہوئے کہا کہ آؤ دیکھو ابو آگئے۔ یہ سننا تھا کہ اس کی بے زبان محبت بے قرار ہوگئی اور کھیل چھوڑ کر دروازے پر چلی گئی اور آواز دینے لگی کہ ۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو کہاں ہو، ہر چند کہ اس کی امی نے سمجھایا کہ ابو دروازے پر نہیں، فون میں آئے ہیں، لیکن نادان عشق کسی نصیحت سے متاثر ہوتا ہے کیا۔۔۔؛ بالآخر نہیں ہوا۔ جب جب بار بار سمجھایا گیا کہ ابو موبائل میں ہے، تو اگلا ری ایکشن یہ تھا کہ ’ میں بھی موبائل میں داخل ہوں گی۔۔۔ ۔
راقم نہ تو کسی کی پیدائش منانے کا قائل ہے اور نہ ہی وفات پر جشن چراغاں کا معتقد؛ البتہ جب کوئی بے لوث محبت پکارتی ہے، تو عشق کو مچلنے و تڑپنے سے روکنا فطرت کے خلاف بغاوت ہی ہوگی، اس لیے یہ سطریں سیاہ جملے نہیں؛ فطرت کی آواز ہیں، اور آج کی یہ تاریخ اسی کی صدائے بازگشت۔ اور آخر ایسا کیوں کر نہ ہو۔۔۔کیوں کہ ۔۔۔
اولاد والدین کی روح کی بکھری ہوئی بیتابی ہے۔
اولاد نئی رگوں میں خون کی جولانی کا عنوان ہے۔
اولاد خون رگ فردا کی پیکر حال ہے ۔
اولادشوق خستگی کی تازہ دمی ہے۔
اولادخفی تخلیق کی جلی روح ہے۔
اولادحسن و عشق کا جذبہ خود افزائی کیمعصوم پیکر ہے۔
اولادکی جہد نمو جنگ مسلسل کی تفسیر ہے ۔
اولاد:راحت ہم سفری، ہم قدمی کا مجسمہ ہے
اولاد گرہ رشتہ پیمان وفا ہے۔
اور اس کی نشو نما کا انداز سفر ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے
اس سفر کا آغاز4 جنوری 2016 رات کے 11 بج کر 33 منٹ پر ہوا ، اور یاسمین موسوم ہوئی۔آج تاریخ کے اسی لمحہ پر خوشی و شادمانی کا جو احساس ہورہا ہے، اس میں آپ کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے پرویز شاہدی کی نظم تثلیث حیات کے چند منتخب بند اس مہمان کے تین سال پورے ہونے پر اس کی نذر کرتے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کی پرورش و پرداخت میں ہمیں کمی و کوتاہی سے محفوظ رکھے اور دین کی داعیہ کا کردار ادا کرنے والی بنے۔ اللھم آمین یا رب العالمین۔
(1)
انگلیاں میری ہیں، لب میرے ہیں، آنکھیں میری
میری پیشانی کا ٹکڑا تری پیشانی ہے
ننھی ننھی یہ بھنویں تیری ہیں یا میری ہیں
تیری رگ رگ میں مرے خون کی جولانی ہے
دست و پا میں جو یہ کیفیت سیمابی ہے
میری ہی روح کی بکھری ہوئی بیتابی ہے
(02)
تجھ کو اپنے ہی خدوخال تری ماں نے دیے
اپنا شاداب چمکتا ہوا چہرہ بخشا
خلوت بطن میں ہر طرح سنوارا تجھ کو 
پیکر حال کو خون رگ فردا بخشا
تجھ کو بخشی ہے تری ماں نے لطافت اپنی
دیکھتی ہے ترے آئینے میں صورت اپنی
(03)
گرہ رشتہ پیمان وفا تیرا وجود
تجھ سے مضبوط ہوا عہد محبت اپنا
ہاتھ میں ہے مرے دل کے دلِ محبوب کا ہاتھ
کتنا بشاش ہے احساس رفاقت اپنا
خستگی شوق کی اب تازہ دمی تک پہنچی
راحتِ ہم سفری ہم قدمی تک پہنچی
(04)
ماں نے موسم کے بدلتے تیور بھانپے
انگلیوں نے مری، کیں نبضِ ہوا سے باتیں
ایک لمحہ بھی نہ چپکے سے گزرنے پایا
دن تو دن آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی ہیں راتیں
آج کی طرح تمنا کبھی بیدار نہ تھی
اتنی دلچسپ تو کل وقت کی رفتار نہ تھی
(05)
گرچہ ہے سخت بہت معرکہ نشو و نما
مامتا صرف سپر ہی نہیں، تلوار بھی ہے 
میری شفقت بھی تری جہد بقا میں ہے شریک
دل جری ہی نہیں، کچھ واقف پیکار بھی ہے
ذہن میں سلسلہ شام و سحر رہتا ہے
تیرا اندازِ سفر پیش نظر رہتا ہے
(06)
یہ تضاداتِ مسلسل، یہ ستیزِ پیہم
یہ تصادم، یہ ہم آویزی اضداد حیات
ساز سے یہ رم آواز، یہ ربط آواز
زندگی کا یہ تسلسل، یہ تغیر، یہ ثبات
روح تخلیق خفی کو بھی جلی کرتی ہے
ہے یہ ثابت کہ نفی اپنی نفی کرتی ہے
(07)
نفی و اثبات کے تاروں کا مسلسل ٹکراؤ
زندگی کی جدلی زمزمہ پروازی ہے
کائنات اتنی خوش آہنگ جو آتی ہے نظر
عمل و رد عمل ہی کی نوا سازی ہے
حسن معنی ہے یہی، جلوہ صورت ہے یہی
نغمہ ہی نغمہ ہے، ہر شئی کی حقیقت ہے یہی
(08)
حسن اور عشق کا یہ جذبہ خود افزائی ہی 
اک نئے پیکرِ معصوم میں ڈھل جاتا ہے
اسی پیکر سے ابھرتا ہوا نقشِ تثلیث
اپنی وسعت میں جہاں ساز نظر آتا ہے
محفل حسن و محبت اسی تثلیث میں ہے
جلوہ گر شاہدِ فطرت اسی تثلیث میں ہے
(09)
کتنی دلکش ہے خوش امکانی تثلیث حیات
اس کی فطرت ہے خود افراز و خود آرا ہونا
وسعت جلوہ سے ہے حسن کی تکمیلِ شباب
قسمتِ ذرہ ہے آئینہ صحرا ہونا
زندگی مست و غزل خواں ہے خود آرائی ہے
ہر کلی جانِ گلستاں ہے خود آرائی ہے
(10)
باپ، ماں، بچے کی فطری سہ رخی وحدت سے
کنبے انسانوں کی تثلیث کی صورت پھیلے
کثرت آرائی فطرت کا یہی مقصد ہے
حسن دنیا میں پھلے پھولے، محبت پھیلے
اور ابھی روشنی مہر مبیں پھیلے گی
گود میں لے کے ستاروں کو زمیں پھیلے گی
(11)
تیری معصوم صدا سے مترنم ہے شعور
علم و حکمت کو بھی موسیقی جذبات ملی
دھڑکنیں دل کی خوش آوازی افکار بنیں
ذہن کو بربط احساس کی سوغات ملی
سازِ ادراک میں نغموں کا تلاطم ہے آج
عقلِ بے لحن ترنم ہی ترنم ہے آج
(12)
سرو قد مجھ کو نظر آتے ہیں ننھے پودے
بڑھ رہا ہے مرا دل بھی ترے قامت کے ساتھ
سامنے آنکھوں کے رہتے ہیں کروڑوں نغمے
جیسے ہر پھول کھلے گا تری صورت کے ساتھ
تجھ سے اے جانِ پدر! میں نے نظر پائی ہے
ساری دنیا مرے پہلو میں سمٹ آئی ہے
(13)
تیری سانسوں سے پگھل کر مرے اعصاب کا موم
سختی آہن و فولاد کو شرماتا ہے
جب ترے ننھے سے پیکر کو اٹھالیتا ہوں
بار آلام سبک مجھ کو نظر آتا ہے
ہے کھلونا غمِ دنیا، مجھے معلوم نہ تھا
میرے بازو ہیں توانا، مجھے معلوم نہ تھا
(14)
رخِ امروز پہ کیوں ہو غم فردا کا غبار
حال کو میرے مبارک ترا ماضی ہونا
نیستی میرے تصور میں نہیں آسکتی
تری ہستی کو ہے بڑھ کر مری ہستی ہونا
تو مری روح، مرا جسم، مرا دل ہے
تیرے چہرے سے درخشاں مرا مستقبل ہے
(15)
ائے مرے پیکرِ نو! ائے مری روحِ پیکار!
پرچم عزم مرا اب تجھے لہرانا ہے
میری آواز نہیں میرے لبوں تک محدود
تیرے ہی ہونٹوں سے کل مجھ کو رجز گانا ہے
ہے تری جہدِ نمو جنگِ مسلسل میری
تیری تکمیل میں ہے فتح مکمل میری
آئیے دعا کریں کہ اللہ ہر ایک والدین کے لعل کو لمبی عمر عطا فرمائے، آمین۔