4 Jan 2019

Yasmin bint Md Yasin Jahazi

تثلیث حیات
(4جنوری 2016 یعنی یوم پیدائش یاسیمین بنت محمد یاسین جہازی کے لیے ایک خصوصی تحریر)
محمد ابو یاسمین جہازی

آج مورخہ ۴؍ جنوری ۲۰۱۹ء کو میری بٹیا: یاسمین تین سال کی ہوگئی ہے۔ناچیز کا وطن اصلیضلع گڈا کا ایک مشہور علمی گاوں جہاز قطعہ ہے، لیکن وطن خدمت و معیشت دہلیہے۔ ان دونوں وطنوں میں آمد ورفت کل بھی زندگی کے تسلسل کا حصہتھا اور آج بھی ہے؛ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ کل کی زندگی میں بے شعور زبان جدائی کا احساس نہیں دلاتی تھی ، جب کہ آج ایک ننھی پری، لاشعور عشق اور بے ربط زبان ہمہ وقت تار احساس کو چھیڑتے ہوئے کہتی ہے کہ ابو کہاں ہو۔۔۔، میرے ابو دکھتے کیوں نہیں ہے۔۔۔۔
حالیہ آخری مرتبہ گھر سے آٹو سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا، اس معصوم دل و نگاہ نے اس منظر کو کچھ اس طرح قید کرلیا ہے کہ جب بھی کسی گاڑی کی آواز دیکھتی یا سنتی ہے، تو اس لاشعور کے تحت الشعور میں چھپی ہوئی شیفتگی تتلی زبان کی ترجمان بن کر پکار اٹھتی ہے کہ ۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو ۔۔۔ پھر جب وہ آواز اور منظر غائب ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھ انتظار کی پتھراہٹ سے چور ہوکرآنسووں سے سکون حاصل کرلیتی ہے۔
اس کی امی کا موبائل کسی کی یاد آوری کا اعلان کرتا ہے، تو اس سادہ ذہن کی پہلی تخلیق یہی ہوتی ہے کہ ۔۔۔ ابو، ۔۔۔ ابو۔ ایک مرتبہ آنگن میں کھیل رہی تھی ، فون کی گھنٹی بجی، تو امی نے آواز دیتے ہوئے کہا کہ آؤ دیکھو ابو آگئے۔ یہ سننا تھا کہ اس کی بے زبان محبت بے قرار ہوگئی اور کھیل چھوڑ کر دروازے پر چلی گئی اور آواز دینے لگی کہ ۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو کہاں ہو، ہر چند کہ اس کی امی نے سمجھایا کہ ابو دروازے پر نہیں، فون میں آئے ہیں، لیکن نادان عشق کسی نصیحت سے متاثر ہوتا ہے کیا۔۔۔؛ بالآخر نہیں ہوا۔ جب جب بار بار سمجھایا گیا کہ ابو موبائل میں ہے، تو اگلا ری ایکشن یہ تھا کہ ’ میں بھی موبائل میں داخل ہوں گی۔۔۔ ۔
راقم نہ تو کسی کی پیدائش منانے کا قائل ہے اور نہ ہی وفات پر جشن چراغاں کا معتقد؛ البتہ جب کوئی بے لوث محبت پکارتی ہے، تو عشق کو مچلنے و تڑپنے سے روکنا فطرت کے خلاف بغاوت ہی ہوگی، اس لیے یہ سطریں سیاہ جملے نہیں؛ فطرت کی آواز ہیں، اور آج کی یہ تاریخ اسی کی صدائے بازگشت۔ اور آخر ایسا کیوں کر نہ ہو۔۔۔کیوں کہ ۔۔۔
اولاد والدین کی روح کی بکھری ہوئی بیتابی ہے۔
اولاد نئی رگوں میں خون کی جولانی کا عنوان ہے۔
اولاد خون رگ فردا کی پیکر حال ہے ۔
اولادشوق خستگی کی تازہ دمی ہے۔
اولادخفی تخلیق کی جلی روح ہے۔
اولادحسن و عشق کا جذبہ خود افزائی کیمعصوم پیکر ہے۔
اولادکی جہد نمو جنگ مسلسل کی تفسیر ہے ۔
اولاد:راحت ہم سفری، ہم قدمی کا مجسمہ ہے
اولاد گرہ رشتہ پیمان وفا ہے۔
اور اس کی نشو نما کا انداز سفر ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے
اس سفر کا آغاز4 جنوری 2016 رات کے 11 بج کر 33 منٹ پر ہوا ، اور یاسمین موسوم ہوئی۔آج تاریخ کے اسی لمحہ پر خوشی و شادمانی کا جو احساس ہورہا ہے، اس میں آپ کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے پرویز شاہدی کی نظم تثلیث حیات کے چند منتخب بند اس مہمان کے تین سال پورے ہونے پر اس کی نذر کرتے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کی پرورش و پرداخت میں ہمیں کمی و کوتاہی سے محفوظ رکھے اور دین کی داعیہ کا کردار ادا کرنے والی بنے۔ اللھم آمین یا رب العالمین۔
(1)
انگلیاں میری ہیں، لب میرے ہیں، آنکھیں میری
میری پیشانی کا ٹکڑا تری پیشانی ہے
ننھی ننھی یہ بھنویں تیری ہیں یا میری ہیں
تیری رگ رگ میں مرے خون کی جولانی ہے
دست و پا میں جو یہ کیفیت سیمابی ہے
میری ہی روح کی بکھری ہوئی بیتابی ہے
(02)
تجھ کو اپنے ہی خدوخال تری ماں نے دیے
اپنا شاداب چمکتا ہوا چہرہ بخشا
خلوت بطن میں ہر طرح سنوارا تجھ کو 
پیکر حال کو خون رگ فردا بخشا
تجھ کو بخشی ہے تری ماں نے لطافت اپنی
دیکھتی ہے ترے آئینے میں صورت اپنی
(03)
گرہ رشتہ پیمان وفا تیرا وجود
تجھ سے مضبوط ہوا عہد محبت اپنا
ہاتھ میں ہے مرے دل کے دلِ محبوب کا ہاتھ
کتنا بشاش ہے احساس رفاقت اپنا
خستگی شوق کی اب تازہ دمی تک پہنچی
راحتِ ہم سفری ہم قدمی تک پہنچی
(04)
ماں نے موسم کے بدلتے تیور بھانپے
انگلیوں نے مری، کیں نبضِ ہوا سے باتیں
ایک لمحہ بھی نہ چپکے سے گزرنے پایا
دن تو دن آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی ہیں راتیں
آج کی طرح تمنا کبھی بیدار نہ تھی
اتنی دلچسپ تو کل وقت کی رفتار نہ تھی
(05)
گرچہ ہے سخت بہت معرکہ نشو و نما
مامتا صرف سپر ہی نہیں، تلوار بھی ہے 
میری شفقت بھی تری جہد بقا میں ہے شریک
دل جری ہی نہیں، کچھ واقف پیکار بھی ہے
ذہن میں سلسلہ شام و سحر رہتا ہے
تیرا اندازِ سفر پیش نظر رہتا ہے
(06)
یہ تضاداتِ مسلسل، یہ ستیزِ پیہم
یہ تصادم، یہ ہم آویزی اضداد حیات
ساز سے یہ رم آواز، یہ ربط آواز
زندگی کا یہ تسلسل، یہ تغیر، یہ ثبات
روح تخلیق خفی کو بھی جلی کرتی ہے
ہے یہ ثابت کہ نفی اپنی نفی کرتی ہے
(07)
نفی و اثبات کے تاروں کا مسلسل ٹکراؤ
زندگی کی جدلی زمزمہ پروازی ہے
کائنات اتنی خوش آہنگ جو آتی ہے نظر
عمل و رد عمل ہی کی نوا سازی ہے
حسن معنی ہے یہی، جلوہ صورت ہے یہی
نغمہ ہی نغمہ ہے، ہر شئی کی حقیقت ہے یہی
(08)
حسن اور عشق کا یہ جذبہ خود افزائی ہی 
اک نئے پیکرِ معصوم میں ڈھل جاتا ہے
اسی پیکر سے ابھرتا ہوا نقشِ تثلیث
اپنی وسعت میں جہاں ساز نظر آتا ہے
محفل حسن و محبت اسی تثلیث میں ہے
جلوہ گر شاہدِ فطرت اسی تثلیث میں ہے
(09)
کتنی دلکش ہے خوش امکانی تثلیث حیات
اس کی فطرت ہے خود افراز و خود آرا ہونا
وسعت جلوہ سے ہے حسن کی تکمیلِ شباب
قسمتِ ذرہ ہے آئینہ صحرا ہونا
زندگی مست و غزل خواں ہے خود آرائی ہے
ہر کلی جانِ گلستاں ہے خود آرائی ہے
(10)
باپ، ماں، بچے کی فطری سہ رخی وحدت سے
کنبے انسانوں کی تثلیث کی صورت پھیلے
کثرت آرائی فطرت کا یہی مقصد ہے
حسن دنیا میں پھلے پھولے، محبت پھیلے
اور ابھی روشنی مہر مبیں پھیلے گی
گود میں لے کے ستاروں کو زمیں پھیلے گی
(11)
تیری معصوم صدا سے مترنم ہے شعور
علم و حکمت کو بھی موسیقی جذبات ملی
دھڑکنیں دل کی خوش آوازی افکار بنیں
ذہن کو بربط احساس کی سوغات ملی
سازِ ادراک میں نغموں کا تلاطم ہے آج
عقلِ بے لحن ترنم ہی ترنم ہے آج
(12)
سرو قد مجھ کو نظر آتے ہیں ننھے پودے
بڑھ رہا ہے مرا دل بھی ترے قامت کے ساتھ
سامنے آنکھوں کے رہتے ہیں کروڑوں نغمے
جیسے ہر پھول کھلے گا تری صورت کے ساتھ
تجھ سے اے جانِ پدر! میں نے نظر پائی ہے
ساری دنیا مرے پہلو میں سمٹ آئی ہے
(13)
تیری سانسوں سے پگھل کر مرے اعصاب کا موم
سختی آہن و فولاد کو شرماتا ہے
جب ترے ننھے سے پیکر کو اٹھالیتا ہوں
بار آلام سبک مجھ کو نظر آتا ہے
ہے کھلونا غمِ دنیا، مجھے معلوم نہ تھا
میرے بازو ہیں توانا، مجھے معلوم نہ تھا
(14)
رخِ امروز پہ کیوں ہو غم فردا کا غبار
حال کو میرے مبارک ترا ماضی ہونا
نیستی میرے تصور میں نہیں آسکتی
تری ہستی کو ہے بڑھ کر مری ہستی ہونا
تو مری روح، مرا جسم، مرا دل ہے
تیرے چہرے سے درخشاں مرا مستقبل ہے
(15)
ائے مرے پیکرِ نو! ائے مری روحِ پیکار!
پرچم عزم مرا اب تجھے لہرانا ہے
میری آواز نہیں میرے لبوں تک محدود
تیرے ہی ہونٹوں سے کل مجھ کو رجز گانا ہے
ہے تری جہدِ نمو جنگِ مسلسل میری
تیری تکمیل میں ہے فتح مکمل میری
آئیے دعا کریں کہ اللہ ہر ایک والدین کے لعل کو لمبی عمر عطا فرمائے، آمین۔