قسط نمبر (1) رہ نمائے مسلم
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
تقریظ
حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب نور اللہ مرقدہ
استاذ دارالعلوم دیوبند
بسم اللہ الرحمان الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات کی رہنمائی اسلام میں موجود ہے ۔ موجودہ دور میں جب بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے ، لیکن یہ ذمہ داری والدین پر ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد سے لے کر سن شعور تک پہنچنے کی حد تک اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی تربیت کا فریضہ انجام دیں۔
ابتدائے زندگی میں والدین کی کیا ذمہ داریاں ہیں، اور وہ کن کن مراحل سے گذر کر حد بلوغ تک پہنچتا ہے اور کس کس مرحلہ میں اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ، کتاب و سنت اور فقہ میں ساری تفصیلات پائی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب مرحوم کو کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’رہنمائے مسلم‘‘ میں یہ ساری چیزیں حوالہ جات کے ساتھ مرتب فرمادی ہیں۔
یہ کتاب مولانا مرحوم کی زندگی میں طبع نہیں ہوسکی، اب ان کے لائق اور ہونہار شاگرد مولانا عبدالجبار صاحب فاضل دیوبند اپنی نگرانی میں اس کی کتابت و طباعت کا انتظام فرما رہے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ یہ کتاب شائع ہوکر بچوں کے والدین کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگی۔ اگر تمام بچوں کے ماں باپ نے اس کتاب کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کی ، تو ان شاء اللہ ان کا بچہ کامیاب زندگی کا مالک بن جائے گا۔
چوں کہ اس کتاب کا تعلق بچوں کی تربیت سے ہے ، اس لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور دوسروں تک اس کو پہنچانے کی سعی کریں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی یہ خدمت قبول فرمائیں اور ان کے لیے زاد آخرت ثابت ہو۔
طالب دعا
(مفتی) محمد ظفیر الدین غفرلہ (نور اللہ مرقدہ)
مفتی دارالعلوم دیوبند
۱۰؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۶ھ
حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب نور اللہ مرقدہ
استاذ دارالعلوم دیوبند
بسم اللہ الرحمان الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات کی رہنمائی اسلام میں موجود ہے ۔ موجودہ دور میں جب بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے ، لیکن یہ ذمہ داری والدین پر ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد سے لے کر سن شعور تک پہنچنے کی حد تک اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی تربیت کا فریضہ انجام دیں۔
ابتدائے زندگی میں والدین کی کیا ذمہ داریاں ہیں، اور وہ کن کن مراحل سے گذر کر حد بلوغ تک پہنچتا ہے اور کس کس مرحلہ میں اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ، کتاب و سنت اور فقہ میں ساری تفصیلات پائی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب مرحوم کو کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’رہنمائے مسلم‘‘ میں یہ ساری چیزیں حوالہ جات کے ساتھ مرتب فرمادی ہیں۔
یہ کتاب مولانا مرحوم کی زندگی میں طبع نہیں ہوسکی، اب ان کے لائق اور ہونہار شاگرد مولانا عبدالجبار صاحب فاضل دیوبند اپنی نگرانی میں اس کی کتابت و طباعت کا انتظام فرما رہے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ یہ کتاب شائع ہوکر بچوں کے والدین کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگی۔ اگر تمام بچوں کے ماں باپ نے اس کتاب کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کی ، تو ان شاء اللہ ان کا بچہ کامیاب زندگی کا مالک بن جائے گا۔
چوں کہ اس کتاب کا تعلق بچوں کی تربیت سے ہے ، اس لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور دوسروں تک اس کو پہنچانے کی سعی کریں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی یہ خدمت قبول فرمائیں اور ان کے لیے زاد آخرت ثابت ہو۔
طالب دعا
(مفتی) محمد ظفیر الدین غفرلہ (نور اللہ مرقدہ)
مفتی دارالعلوم دیوبند
۱۰؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۶ھ
دعائیہ کلمات
حضرت مولانا قاری و کاتب عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ
صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند
حامی سنت، ماحی بدعت، حضرت الاستاذ،استاذالاساتذہ، عم محترم حضرت مولانامحمد منیرالدین قدس سرہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ گوناگوں خصوصیات اور علمی وعملی صفات کے حامل ایک پاک نفس عالم ومعلم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی صفات حمیدہ سے نوازاتھا،جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہو تی ہے۔ وہ معلم بھی تھے اور مربی بھی تھے۔ آپ کی پوری زندگی سنت کی اشاعت اور بدعات کی روک تھام میں گزری۔ ہمیشہ اسی کوشش میں گھلتے رہتے کہ کس طرح انسان کا تعلق خالق سے مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے۔ حضرت والا ہمہ وقت زبان وبیان اور قلم سے لوگوں کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے ۔ انھیں کوششوں میں یہ کتاب’’ رہنمائے مسلم‘‘ بھی ہے، جس میں پیدائش سے لے کر بلوغ تک اور مرض و بڑھاپے سے لے کر موت تک، کن کن اوقات اور حالات میں ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے، حضرت والانے وسائل کی قلت کے باوجود بڑی عرق ریزی سے کتاب کی ترتیب دے کر رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ کتاب سالہا میرے پاس رہی اور میں اس کوشش میں رہا کہ کسی طرح حضرت والا کی یہ امانت آپ تک پہونچ سکے؛ مگر وسائل کی قلت مانع رہی ۔اللہ جزائے خیر عطا فرمائیں مولانا محمد یاسین قاسمی اور مفتی نظام الدین صاحبان کو کہ ان کی کوششوں سے یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ اللہ کرے یہ کتاب مقبول عام ہو اور حضرت والا کی روح کو سکون ابدی میسر ہواور ہم سب کے لیے مشعل راہ ہو۔
حضرت نے کئی کتاب تالیف فرمائی اور اکثر ضائع ہو گئی اور بعض موجود بھی ہے؛ مگر اب تک منظر عام پر نہیں آ سکی۔ اگر آپ نے حوصلہ افزائی کی تو دیگرتالیفات کو بھی آپ کے ہاتھوں میں لانے کی کوشش کی جائے گی ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(حضرت مولانا قاری و کاتب ) عبدالجبار قاسمی (صاحب)
صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند
۲۴؍ اپریل ۲۰۱۸، مطابق ۷؍ شعبان ۱۴۳۹ھ
تصنیف اور صاحب تصنیف
مولانا اظہر الحق صاحب جہازی
استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ
حامدا و مصلیا و مسلما امابعد
از آدم تا ایں دم، اربوں کھربوں اور خدا معلوم کتنے انسان اس دنیائے ناپید میں آکر یہاں سے جاچکے ہیں۔ اور صبح قیامت تک آمدو رفت کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن ان مسافروں میں کچھ مخصوص ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اپنے ملی کارنامے اور علمی خدمات ، ذہنی تعمیرات اور مردم ساز قابلیتوں ، تخلیقی صلاحتیوں اور اعلیٰ سیرتوں و کردار کی بدولت اپنی راہ نوردی کے کچھ ایسے انمٹ نقوشِ قدم اور آثار سفر چھوڑ جاتی ہیں، جو زمانے کی دست و برد کے باوجود محفوظ رہتی ہیں ۔
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
ایسی ہی ایک درویشی خدا پرست، بے نفس، نابغۂ روزگاراور عبقری شخصیت حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی گذری ہے ۔
وطن عزیز کی آزادی سے کوئی ایک دہائی قبل مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ ضلع میرٹھ سے تدریسی زندگی کا آغاز ہوا، یہاں آپ سے حدیث و فقہ اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں متعلق رہیں۔غالباً ۱۹۴۸ ء میں وہاں سے مستعفی ہوکر وطن عزیز کا قصد کیا اور اپنے گاؤں جہاز قطعہ میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ کی داغ بیل ڈالی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اجراڑہ میں ملازمت ، اور پھر ملازمت سے مستعفی ہوکر خدمت دین کے لیے اپنے علاقہ کو اختیار کرنا بلا مشورہ استاذ و مربی خاص حضرت مولانا اعزاز رحمۃ اللہ علیہ شیخ الادب والفقہ دارالعلوم دیوبند محض حادثاتی و اتفاقی طور پر نہیں ہوا ہوگا؛ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وقفہ وقفہ سے ان بندوں کو جو غفلت کی نیند میں دیر سے سو رہے ہوں، ان کے کانوں میں اذان حق دے کر بیدا ر کرنے کے لیے اور اس امت اور ملت کے بکھرے ہوئے بال و پر کی شیرازہ بندی اور بگڑے ہوئے نظام مے خانہ کو بدلنے کے لیے جن مردان خدا آگاہ اور رندوں کا انتخاب کرتا ہے، ان میں سے ایک حضرت مولانا بھی ہوں۔ اس لیے کہ جو خطہ اور علاقہ علم و فن میں شورہ اور بنجر زمین کی طرح پڑا ہواتھا، اس جگر سوختہ مرد حق کی انتھک کدو کاوش اور جہد مسلسل کے نتیجہ میں ایک لہلہاتا ہوا شاداب چمن بن گیا ۔ اور اس چمن میں نہ جانے کتنے لالہ و گل اگے۔ میری اس تحریر کے حق میں وہ لوگ شہادت دیں گے، جنھوں نے ماضی کی جہالت دیکھی ہے ، یا علم اور تاریخ کی راہ سے یہ جانا ہے کہ ۱۸۵۷ ء کے انگریزوں نے خاص طور سے مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھ کر ہدف بنایا اور ہر میدان میں مات دینے کی ٹھان لی۔ چنانچہ علمی، تمدنی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کو ثریا سے پاتال میں پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ فطری طور پر یہ علاقہ بھی استعماری قوت کی پامالی سے محفوظ نہیں رہ سکا، جب کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی جاں بلب تھا۔
مولانا مرحوم نے جس پر آشوب دور اور جہالت و نا خواندگی کے تاریک زمانہ اور مایوس حوصلہ شکن عہد میں ہوا کے رخ پر علم کا چراغ روشن کرنے کی کوشش شروع کی ہے، کون کہہ سکتا تھا کہ اتنی جلدی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ لیکن واقعاتی دنیا میں ایسا ہی ہوا ، حالاں کہ جہاز قطعہ کوئی بہت شہرت یافتہ مقام نہیں تھا اور نہ ہی رقبہ و عمارت کے لحاظ سے مدرسہ اسلامیہ ہی اتنا بڑا تھا ؛ لیکن خاص افضال خداوندی سے دیکھتے ہی دیکھتے دور و نزدیک سے جوق در جوق طالبان دین اور جویان حق آتے رہے اور حضرت والا طلبہ کی کھیپ در کھیپ تیار کرکے بڑے بڑے مدارس؛ خصوصا دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم روانہ فرماتے رہے ۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم فاضل نظر آنے لگے۔ اسی طرح چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ جہالت اور ناخواندگی کی تاریکی چھٹتی رہی اور علم کی روشنی پھیلتی رہی۔ اور آج ہر قابل ذکر علوم و فنون کے لوگ اس علاقہ میں صرف موجود ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے تقریبا ہر حصہ اور دنیا کے بہت سے گوشوں میں علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًاسی تعلیمی بیداری اور پاکیزہ انقلاب میں حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حصہ و دخل ہے، جس کا انھیں اجر وصلہ مل رہا ہوگا۔ حضرت والا جید عالم ، سادہ مزاج، ولی صفت ، خدا ترس اور قوم وملت کے لیے شب و روز بے انتہا مخلصانہ اور صبرو عظیمت کے ساتھ محنت کرنے والے انسان تھے۔
قسام ازل کی طرف سے حضرت مولانا مرحوم کو تعلیمی ، تدریسی اور تدریبی مہارت وملکہ کے ساتھ ذوق تحریر وتالیف بھی عطا ہوا تھا ۔ خیا ل کیا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنے پیچھے اچھا خاصا تحریری سرمایہ چھوڑا تھا، لیکن وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ منجملہ تصانیف اور ترکہ علمی میں سے ’’رہنمائے مسلم‘‘ کتاب ہے۔کتاب کے تعارف کے حوالے سے صرف اتنی سی بات عرض ہے کہ کتاب اسم با مسمیٰ ہے۔ ایک مسلمان کو پیدائش سے لے کر موت تک کس طرح زندگی گذارنی چاہیے ، یا یوں کہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اپنے نام لیواؤں کے لیے، اس خاکدان ارضی پر چلنے کے لیے جو شاہراہ قائم فرمائی ہے، اسی کی بزبان اردو تعبیر وتشریح اور ترجمانی ہے۔
حضرت الاستاذ کس قدر کثیر المطالعہ اور وسیع العلم عالم تھے، اس کتاب کے حوالجات کو دیکھنے ہی سے پتہ چلتا ہے۔ اور ایسے دور افتادہ علاقہ میں جہاں نہ بجلی کی سہولت تھی ، نہ دوسری آسانیاں، دن میں سورج اور رات میں لالٹین اور دیا کے سوا کوئی تیسری روشنی نہیں ہوتی ۔
الغرض مولانا مرحوم بہت سی صلاحیتوں اور قابلیتوں ، کمالات اور خوبیوں کے مالک تھے ۔ جن کی گواہی نسلاً بعد نسلٍ لوگ دیتے رہیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے پیچھے اپنے اوصاف وکمالات اور علوم وفنون کے ہزاروں بلا واسطہ اور بالواسطہ شاگرد اور علمی وارثین چھوڑے ہیں۔ خدا بھلا کرے مولانا مرحوم کے برادرزادہ جناب مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی کا ، جنھوں نے سالہا سال تک اپنے نامور مورث کے قیمتی ورثہ کی حفاظت کی ۔ اور یہ خاص فضل ربی ہوا کہ مولانا کی یہ قیمتی تصنیف قاری صاحب موصوف کے قدر داں ہاتھوں میں آگئی، ورنہ دیگر تصانیف کی طرح یہ بھی خرد برد ہوکر ضائع ہوجاتی ؛ بلکہ اس کتاب کے مسودوں کے بھی کچھ اجزا ضائع ہوگئے تھے، جس کو قاری صاحب نے اپنی زر بفت تحریر کے ذریعے انتہائی سلیقہ کے ساتھ مخمل میں ایسی پیوند کاری کی ہے کہ پڑھنے والے کو اس پیوند کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
اللہ کرے کہ یہ کتاب جلد از جلد طبع ہوکر عوام و خواص کے ہاتھوں میں پہنچے اور قبول عام حاصل کرے اور مؤلف مرحوم کی روح جنت میں مزید مسرور ہو۔
(مولانا ) اظہر الحق (صاحب ) جہازی
استاذ مدرسہ عربیہ رحمانیہ روڑکی
مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہازقطعہ
ماضی سے حال تک
محمد مفتی نظام الدین صاحب قاسمی
مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ
سورج کی تپش، چاند کی میٹھی روشنی اور جگمگاتے ستاروں کی طرح یہ بات ہرکس و ناکس پر عیاں ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا راز اور خوش حالی کا دارومدار وہاں کے تعلیمی معیار پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک اور قوم میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے ، وہ ہمیشہ زندگی میں لوگوں اور ان کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں ، گویا کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا بنیادی سبب تعلیم ہے، لہذا کسی بھی قوم یا معاشرے کا تعلیم یافتہ ہونا ان کی ترقی کا ضامن ہے ۔ چوں کہ علم ہی کی وجہ سے انسان جہاں دیگر حیوانی مخلوقات سے ممتاز ہوتا ہے ، وہیں ناخواندہ لوگوں اور قوموں سے مرتبہ عظیمی کا پروانہ لیے رہتا ہے ، اور اسی علم کی وجہ سے انسان کی زندگی میں خدا پرستی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات سے سرشار ہوتا ہے۔
چنانچہ مذہب اسلام میں بھی حصول علم کو بہترین علم قرار دیتے ہوئے ، معاشرتی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالنے اور عملی جامہ پہنانے کے لیے بقدر ضرورت تحصیل علم کو ضروری اور لازمی قرار دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ منشاء رب نے ضعیف الخلقت مخلوق انسانی میں اشرف کے دوش ناتواں پر منصب نبوی کے بار گراں کو رکھنے سے قبل غار حرا کی شکل میں دور محمدی اور تکمیل اسلامیہ کا پہلا مکتب اور پہلی یونی ورسیٹی بناکر تعلیم کی ضرورت و اہمیت کو نامٹنے والے نقوش کی طرح تا قیام قیامت قرآن و حدیث کے الفاظ میں ثابت فرمادیا ہے۔اور آقا ﷺ نے بھی بلغوا عنی ولو آیۃ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے آغاز اقراء کو الیوم اکملت لکم دینکم پر انتہا کرنے، بذریعہ وحی حاصل کردہ نور ربی سے سینہ صحابی کو منور کرنے اور وارثین انبیاء کی جماعت کو تیار کرنے کے لیے مسجد نبوی میں چبوترہ ’’اصحاب صفہ‘‘ کا سہارا لیا، تاکہ وحی متلو اور غیر متلو کی ضیا پاش کرنیں دار فانی کی جہالت و گمراہی اور بت پرستی کی تاریکیوں کو ختم کرکے دنیا گیتی کو مینارہ نور بناسکے۔ چنانچہ اسی طرز عمل کو اپناتے ہوئے جگہ جگہ پر مساجد میں مکاتب کا انتظام کیا گیا اور صدیوں تک نور الٰہی کو عام کرنے کا یہی سلسلہ اسی طرزعمل پر چلتا رہا اور مساجد ہی تعلیمی آماجگاہیں بن گئیں۔
لیکن جب مرور ایام کے ساتھ امتداد زمانہ ہوا، لیل و نہار کی گردشوں نے کروٹیں لیں، حصول علم کے طریقۂ کار بدلنے لگے، طریقہ تعلیم کا دامن وسیع ہونے لگا، بحث و مناظرہ کی صدائے بازگشت گونجنے لگی، تو ان وجوہات کی بنا پر مدارس نے مساجد سے نکل کر اپنی شناخت بنالی، اور تاریخ اسلام میں موجودہ عمارتی ڈھانچہ ، اساتذہ اور طلبہ پر خاص تعلیمی نظام کے تحت سب سے پہلے اہل نیشاپور نے وجودی شکل دیتے ہوئے ، وہاں کے مؤقر علمائے کرام کے ہاتھوں مدرسہ بیہقیہ کے نام سے پانچویں صدی ہجری اور گیارھویں عیسوی کی ابتدا میں مدرسہ کی بنیاد رکھوائی اور افادیت کے پیش نظر مدارس اسلامیہ تین قسموں پر مشتمل ہوگئے: پہلا بادشاہوں اور امراء کا ۔ دوسرا: مخیر علمائے کرام کا اور تیسرا عوام کے تعاون سے چلنے والا مدرسہ ۔ آج یہ مدارس اسلامیہ ہدایت کے سرچشمے اور دین کی پناہ گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ جہاں اشاعت دین کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، وہیں یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز بھی ہے کہ جہاں لاکھوں طلبہ اور طالبات کو بلا معاوضہ تعلیمی ، تہذیبی اور اخلاقی زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش، خوراک اور مفت طبی سہولیات فراہم کرنے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہے ۔ چنانچہ موجودہ طریقۂ کار اور رہائشی نظم و انتظام کے ساتھ جن مدارس اسلامیہ کا آغاز آج سے ایک ہزار سال قبل سرزمین نیشاپور سے ہوا تھا ، وہ مختلف ملکوں، صوبوں اور علاقوں میں اپنی زریں زنجیری کڑی کو پھیلاتے ہوئے آسمان کی بلندی کو چھوتا جارہا تھا کہ اسی دوران آج سے سات دہائی قبل تعلیم سے کوسوں دور ہندستانی نقشہ کے مطابق مشرقی بھارت کے اس خطہ پر پڑی،جو اس وقت ۷۹؍ ہزار ۷۱۴ مربع کلو میٹر اور ۳۰ ہزار ۷۷۸ مربع میل پر پھیلی ریاست صوبہ جھارکھنڈ کے نام سے معروف و مشہور ہے۔ صوبہ جھارکھنڈ کے ضلعوں میں سے ایک ضلع شمال مشرق میں ضلع گڈا ہے ، جس کی کل آبادی ۳۱۳۵۵ اور مسلم آبادی ۵۲،۲۳؍ فی صد ہے اور اس سے ۲۱؍ کلو میٹر کے فاصلہ پر بسنت رائے بلاک میں ایک گاوں ’’جہاز قطعہ ‘‘ ہے، جہاں کی نئی نسلوں کے قلب و جگر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی تھی کہ گاوں میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جائے، جس کے لیے انھیں علاقے کی ناگفتہ بہ حالات، جہالت و تاریکی ، رسم و رواج میں غرق، بدعات و خرافات ، نامساعد حالات اور وسائل سے کٹے ہوئے بنجر علاقے کے لیے فرشتہ صفت انسان اور صلاحیت و صالحیت سے لبریز کسی فرد کامل کی ضرورت تھی۔
چنانچہ سب کی نگاہیں مذکورہ صفات کے حامل یکتائے زمانہ، نابغہ روزگار شخصیت، مجددانہ صفات کے حامل حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی اور دعوتی مکتوب کے ذریعہ ہندستان کی مقدس سرزمین دیوبند سے جہاز قطعہ بلا لیے گئے اوریکم ربیع الاول۱۳۶۹ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ء بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۵۴ء کے حالات سے دلبرداشتہ ہوکر مستعفی ہوگئے؛ لیکن اہل جہازی کے اصرار پردوبارہ مدرسہ کا آغاز ہوااور اسی مناسبت سے رحمانیہ بڑھا کر مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کردیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے قلیل مدت میں قاسمی افکار و خیالات کے اس پیکر نے اپنی خداداد صلاحیت اور نور نبوی کی ایمانی بصیرت سے گراں مایہ خدمات کو انجام دیتے ہوئے ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۳ء تک ، ۲۴؍ سالہ زندگی میں متبحر علمائے کرام پر مشتمل اصحاب صفہ کی شکل میں ایک بہت بڑی ٹیم تیار کردی کہ جس سے پورا علاقہ پر نور ہوگیا اور لوگوں کو تاریکی، بدعات، خرافات، سماجی برائیوں اور بد عقیدگی سے نکالنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ حضرت مسلسل اپنی کوشش میں رو بترقی تھے کہ اچانک ۱۹۷۳ء میں فالج کا اثر ہوا، جس کی وجہ سے ہفتہ دس دن کے لیے مدرسہ بالکل بند سا ہوگیا کہ اسی اثنا حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری بعد نماز عصر بغرض عیادت حضرت کی خدمت جلیلہ میں پہنچے، تو حضرت نے روتے ہوئے فرمایا کہ جب میری زندگی میں ہی مدرسہ پر پرخطر حالات آگئے، تناور درخت کی پتیاں مرجھانے لگی ہیں،تو بعد کے حالات کا تصور کرکے ہی روح کانپنے لگتی ہے ۔ اس درد اور فکر انگیز باتوں کو سن کر کبیدہ خاطر ہوئے ، ان کے دل پر یہ بات چھب سی گئی اور شاگرد ہونے کے ناطے استاذ محترم کی وراثت نسل نو کے مابین تقسیم کرنے کا عزم مصمم کیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بند نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ ۱۹۷۴ء میں مدرس اول کے طور پر حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری کا تقرر ہوا، باضابطہ مدرسہ کو کھلے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ شان کریمی ابر رحمت بن کے برسی اور آں حضرت کی طبیعت بالکل سابقہ حالت پر لوٹ آئی۔ اور مدرسہ کی مکمل ذمہ داری خود ہی انجام دینے لگے، لیکن دوبارہ پہلی حالت پر لوٹ گئے، اس مرتبہ پہلے سے کہیں زیادہ حالت خراب ہوگئی، کبھی افاقہ ہوتا، لیکن اس قدر نہیں کہ زینت مسند بن سکیں، بادل ناخواستہ اس مرتبہ آپ کی نظر عنایت فارسی سے کافیہ تک آں حضرت کے پاس پڑھنے والے اور موجودہ وقت میں مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر کے شیخ ثالث کے عہدہ پر فائز حضرت مولانا غلام رسول صاحب اسناہاں پر پڑی اور اپنی حیات میں ہی ۱۹۷۵ء میں مدرسہ کی مکمل ذمہ داری ان کی طرف منتقل فرمادی، اس طرح سے یہ مدرسہ آں حضرت کی سرپرستی اور مولانا غلام رسول صاحب کی نیابت میں ڈگمگاتے قدموں کے سہارے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ماہ جون ۱۹۷۶ء میں شدید فالج کا اثر ہوا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے۔ ماہ جون ۱۹۷۶ء میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ جہاں اپنے حقیقی باغباں اور مجازی مربی کی سرپرستی و نگرانی سے محروم ہوگیا تھا ، وہیں اہل علاقہ اورجہازی ایک اچھے منتظم ، مفکر، مدبر اور مصنف کے سایہ عاطفت سے یتیم بھی ہوگئے، گویا کہ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۶ء تک ڈھائی دھائی پر مشتمل تقریبا ۲۶؍ بہاریں دیکھ کر پہلا عہد مکمل کرچکا ہے ، اور ۱۹۷۷ء سے اپنے دوسرے عہد کا آغاز کرتا ہے، ماہ نومبر ۱۹۷۶ء میں مولانا غلام رسول صاحب بھی ذاتی و وجوہات و اسباب کی بنیاد پر دست بردار ہوجاتے ہیں اور ۱۹۷۷ ء میں اہل بستی مکمل ذمہ داری حضرت قطب الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ حضرت قاری صاحب نے بھی بحسن و خوبی تقریبا تین سال تک خاموش طبیعت کے ساتھ مکمل ذمہ داری نبھائی اور تعلیمی معیار کو بھی گرنے نہیں دیا، تاہم وہ بھی ۱۹۷۹ ء میں مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ منتقل ہوگئے اور مدرسہ ایک مرتبہ پھر آگے بڑھنے کے بجائے زوال کی طرف جانے لگا، اہل بستی متفکر ہوگئے، ہنگامی طور پر اتفاقی میٹنگ بلائی گئی اور ۱۹۸۰ء میں حضرت مولانا شمس الحق صاحب کے کاندھے پر سکریٹری کی ذمہ داری دی گئی اور مولانا ہاشم صاحب کے سر تعلیمی اور تعمیری ذمہ داری سپرد کردی گئی۔ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک وہ اپنی بساط کے بقدر یکسوئی کے ساتھ محنت کرتے رہے اور تعلیمی معیار کو بھی ہر ممکن بچانے کی کوشش میں لگے رہے ، لیکن اخیر میں پیرانہ سالی اور ناسازیۂ طبع میں گرفتار ہونے کی وجہ سے گوشہ نشیں ہوگئے۔
اس وقت کے سکریٹری حاجی حضرت مولانا شمس الحق صاحبؒ نے دیگر لوگوں سے مشورہ کرکے حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری سے درخواست کی کہ مدرسہ خستہ حالی کا شکار ہے ، شجر منیری کو ایک مرتبہ پھر آب پاشی کی سخت ضرورت ہے ، لہذا آپ تشریف لاکر مکمل ذمہ داری قبول کریں ، چنانچہ ۱۹۸۹ء میں مہتمم کی حیثیت سے مسند اہتمام کو زینت بخشی، علاقائی طور پر تقریر کے ذریعے سے لوگوں کو جوڑنے اور انتظامی صلاحیت سے مدرسہ کو ترقی دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ، اسی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ۱۹۹۲ء میں دیوگھر کی جامع مسجد سے حضرت مولانا خورشید صاحب کو لاکر گلشن منیری کا ایک حصہ بنادیا، جوانی کا عالم تھا ، اپنی صلاحیت سے مقامی بچوں میں تہذیبی طور پر تعلیم دینے کی کوشش کی ، چوں کہ جس وقت یہ مدرسہ میں جلوہ نما ہوئے تھے، اس وقت جہاں تعمیری ڈھانچہ نہ کے درجہ میں تھا ، وہیں اقامتی بچے بالکل بھی نہیں تھے، صرف چند مقامی طلبہ و طالبات آکر چلے جانے پر اکتفا کیا کرتے تھے، لیکن مولانا خورشید صاحب نے اپنے تعمیری ذوق، تعلیمی صلاحیت اور انتظامی دلچسپی سے دو سال کی مدت میں جہاں عمارتی ڈھانچہ بنوانے میں کامیابی حاصل کی ، وہیں تعلیمی اعتبار سے بھی عارضی طور پر ہی سہی ، لیکن کافیہ تک کی تعلیم کرانے میں کامیاب ہوئے ۔ یہ تشریف فرما تو ۱۹۹۲ء میں ہوئے تھے ، لیکن باضابطہ صدر مدرس ۱۴؍ جنوری ۱۹۹۳ء میں بنے تھے، جس کے حالات کچھ اس طرح بنے تھے کہ مولانا محمد عرفان صاحب ان کو لانے کے بعد دہلی کے سفر پر نکل گئے، ۶؍ دسمبر۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کا قضیہ پیش آیا، جس کی وجہ سے سفر سے واپسی کرنے میں تاخیر ہوگئی، لیکن ماہ جنوری ۱۹۹۳ء میں واپس ہوئے تو اس سے قبل ہی ۱۴؍ جنوری کو مولانا خورشید صاحب نے ایک ہنگامی میٹنگ بلالی تھی، جس میں اہل جہازی کے علاوہ قرب و جوار کی بستیوں کے لوگ بھی موجود تھے، جس میں قاری عبد الجبار صاحب صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند صدر مدرسہ، مولانا علیم الدین صاحب قاسمی نائب صدر ، جناب نصیرالدین صاحب سکریٹری ، جناب طاہر حسین صاحب مرحوم نائب سکریٹری ، جناب پردھان خورشید صاحب خزانچی اور مولانا خورشید صاحب کا نام صدر مدرس کے طور پر عمل میں آیا، گو کہ ۱۹۹۳ء میں مدرسہ اپنے تیسرے عہد کا آغاز کر رہا تھا، یہاں سے تیسری مرتبہ اپنی پٹری پر سوار ہوکر کامیابی کی طرف رواں دواں ہوتا ہے کہ اچانک ایک طوفان برپا ہوتا ہے ، جس کی رو میں مولانا خورشید صاحب بہہ کر خون کے آنسو روتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ دوسری میٹنگ ۲۲؍ ۱۹۹۷ء میں ہوئی ہے، جس میں قاری عبدالجبار صاحب صدر، حافظ شفیق صاحب نائب صدر، مولانا علیم الدین صاحب سکریٹری، مکھیا ظہیر صاحب مرحوم نائب سکریٹری اور ماسٹر مقبول صاحب کپیٹا خزانچی منتخب ہوئے ، لیکن غالبا مکھیا ظہیر صاحب کے انتقال کی وجہ سے ۲۶؍ اپریل ۱۹۹۸ء میں ایک عمومی میٹنگ ہوئی، جس میں ان کی جگہ پر مولانا اختر حسین صاحب قاسمی نائب سکریٹری بنائے گئے ۔ ۶؍ دسمبر ۲۰۰۴ء کی میٹنگ میں جزوی ترمیم کے ساتھ محمد نصیر الدین صاحب سکریٹری ، مولانا اختر حسین صاحب قاسمی نائب سکریٹری اور ماسٹر نسیم صاحب لوچنی خزانچی کے عہدے کے لیے منتخب ہوئے ۔۱۹۹۳ء سے ۲۰۰۹ء تک کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انتظامی شخصیات میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی، تاہم عزل و نصب اور دیگر انتظامی امور کو ضابطے کی روشنی میں عملی جامہ پہنانے کے لیے ، حضرت مولانا منیر الدین صاحب عثمانی سین پوراستاذ دارالعلوم دیوبند، قاری عبدالجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند اور مولانا اظہر الحق صاحب جہازی استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ نے مل کر دستوری نظام پر مشتمل ایک کتابچہ تیار کیا، جو ۱۷؍ مئی ۲۰۱۰ء کی عمومی میٹنگ میں پیش ہوا۔اس میٹنگ میں قاری عبدالجبار صاحب صدر ، ماسٹر عزیز اللہ صاحب نائب صدر، نصیر الدین صاحب سکریٹری، ڈاکٹر نسیم صاحب نائب سکریٹری اور ماسٹر نسیم صاحب خزانچی بنائے گئے۔ ناگہانی حالات کے پیش نظر نصیر الدین صاحب مستعفی ہوگئے اور اس ٹرم کی بقیہ مدت کی تکمیل کے لیے ۱۳؍ نومبر ۲۰۱۱ء میں ڈاکٹر نسیم صاحب کپیٹا سکریٹری اور مولانا اختر حسین صاحب نائب سکریٹری بنائے گئے ۔ دوسرے ٹرم کی میٹنگ میں تمام ذمہ داریاں علیٰ حالہ باقی رکھی گئیں، جو ۸؍ سمتبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ تک وہی کمیٹی باقی رہی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی تاریخی ادوار پر تجزیاتی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تاریخ تین ادوار پر مشتمل ہیں: پہلا دور بانی مبانی حضرت مولانامحمد منیر الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جو ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۴ء تک کا ہے۔ حضرت علمی اعتبار سے بہت بھاری بھرکم شخصیت کے عامل تھے، علمی رتبہ اتنا بلند تھا کہ آپ کو مستقل زمین کی ضرورت نہیں تھی۔آپ جہاں کہیں اپنا جسمانی وزن رکھ دیتے، وہ جگہ خود مدرسہ کی شکل اختیار کرلیتی۔ یہی وجہ ہے کہ تعمیری ڈھانچہ نہ ہونے کے باوجود مشکوٰۃ تک کے طلبہ ہوتے تھے۔
آں حضرت روحانی اعتبارسے حضرت مدنی ؒ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے ، اس لیے دنیا و مافیھا سے بے رغبتی یقینی ہے، گویا کہ روحانیت اور علمیت کی وجہ سے چہرہ اس قدر با رعب تھا اور ذاتی طور پر اس قدر باوزن تھے کہ کوئی فرد واحد لڑکھڑاتی زبان بھی حرکت دینے سے قبل سوچتا تھا ، لہذا ان کی ۲۶؍ سالہ خدماتی زندگی میں کوئی حرف شکایت زباں پہ نہ لاسکا۔ دوسرا دور ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۲ء تک کا ہے، اس میں یکے بعد دیگرے حضرت مولانا غلام رسول صاحب اسنہاں ، حضرت مولانا قاری قطب الدین صاحب، حضرت مولانا ہاشم صاحب اور حضرت مولانا محمد عرفان صاحب ہیں۔ مولانا ہاشم صاحب کے اخیر زمانہ میں جب تعلیمی اعتبار سے کمزوری آئی، تومولانا عرفان صاحب نے ذمہ داری قبول کی، لیکن ذاتی مصروفیت کی وجہ سے مولانا خورشید صاحب کو ذمہ دارکی حیثیت سے لائے تاکہ تعلیمی نظام بہتر ہوسکے۔ چنانچہ تیسرا دور ۱۹۹۳ء سے ۲۰۱۸ء تک کا ہے۔ یہ دور دو حصوں پر مشتمل ہے : پہلا حصہ مولانا خورشید صاحب کا ہے ، جو ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۵ء تک رہے۔ اس میں تعلیمی اور تعمیری دونوں اعتبار سے عارضی طور پر ہی سہی کچھ حد تک ترقی ملی۔ دوسرا حصہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۶ء تک کا ہے، جس میں مولانا رئیس عالم صاحب قاسمی عارضی طور پر رہے ، جبکہ غیر استقلالی طریقے پر مولانا ابوالکلام قاسمی مدھورا، مولانا احسان کرما، مولانا صدیق صاحب قاسمی پکڑیا اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب رہے، تاہم ۱۰؍ نومبر ۲۰۰۶ء سے لے کر ۸؍ ستمبر ۲۰۱۷ ء تک مولانا رئیس عالم صاحب باضابطہ صدر مدرس رہے ۔ اگر ہم ۱۹۹۳ء سے ۲۰۱۸ء تک پر نگاہ ڈالتے ہیں ، تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ۲۵؍ یا ۲۱؍ سالہ زندگی میں صدر مدرسہ اور صدر مدرس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ، جب کہ سکریٹری اور خزانچی میں جزوی تبدیلی ہوتی رہی ہے ، تاہم تعلیمی اعتبار سے موجودہ وقت میں مدرسہ کافی انحطاط کا شکار ہے ، جہاں اقامتی طالب علم نہ کے درجے میں ہیں، وہیں مقامی بچوں کی تعداد بھی گاوں کے اعتبار سے کم ہے۔
ایسے میں جہاں اہل علاقہ متفکر ہیں، وہیں اراکین عاملہ کے ساتھ ساتھ اہل بستی بھی ضرورت محسوس کر رہے تھے کہ کسی ایسے عالم دین کا انتخاب عمل میں آئے جو ڈوبتی کشتی کو سہارا دے کر ساحل تک اور حضرت مولانا منیر الدین صاحب کے وراثتی یادگارکی حفاظت کرسکے۔ چنانچہ اتفاقی طور پر اندرونی حالات کی وجہ سے خزانچی ماسٹر نسیم صاحب لوچنی نے اپنا استعفیٰ سکریٹری ڈاکٹر نسیم صاحب کو پیش کردیا ، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نسیم صاحب نے بھی صدر مدرسہ قاری عبدالجبار صاحب کے پاس عذر کے ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کیا، تاہم قاری صاحب نے اسی استعفیٰ نامہ کے پشت پر یہ لکھ کر واپس کردیا کہ آپ کو سکریٹری کمیٹی نے بنایا ہے ، لہذا استعفیٰ نامہ بھی اہل کمیٹی کے مابین ہی پیش کریں۔
چنانچہ ۸؍ ستمبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ بعد نماز مغرب ڈاکٹر نسیم صاحب کی دعوت پر مجلس عاملہ کی ایک اہم میٹنگ بلائی گئی، جس میں مجلس عاملہ کی ۲۶؍ اراکین میں سے قاری عبدالجبار صاحب، مولانا محمد یونس صاحب، نصیرالدین مکھیا صاحب، پردھان خورشید صاحب، جناب سلیم الدین صاحب، جناب مبارک صاحب، جناب حافظ شفیق صاحب، جناب ماسٹر ظفر الدین صاحب، جناب ماسٹر صدیق صاحب، جناب رئیس اعظم صاحب، جناب ڈاکٹر علیم الدین صاحب، جناب عبدالقیوم صاحب، جناب الحاج طاہر حسن صاحب، جناب ڈاکٹر نسیم صاحب، نمائندہ مدرسہ ہذا کے علاوہ خصوصی طور پر مولانا محمد یاسین قاسمی، مفتی زاہد امان قاسمی، مولانا سرفراز قاسمی، مولانا طلحہ قاسمی، مولانا عبداللہ قاسمی، مفتی نظام الدین قاسمی اور حاجی شمس الحق صاحب وغیرہ شریک مجلس تھے۔ اس میں اتفاق رائے سے سکریٹری ڈاکٹر نسیم صاحب کا استعفیٰ نامہ قبول ہوا ، جب کہ ماسٹر نسیم صاحب کے استعفیٰ نامہ کو نامنظور کرتے ہوئے خزانچی کے عہدے پر باقی رکھا گیا ۔ میٹنگ میں نئے سکریٹری کو منتخب کرنے کی بات چل ہی رہی تھی کہ سکریٹری نظام کو بدل کر اہتمام کے طرز عمل پر چلانے کی بات آئی ، جس پر صدر مدرسہ نے احقر کا نام پیش کیا، جس پر اہل کمیٹی نے اپنی اپنی رائے دے کر صدر مدرسہ کی رائے کواجتماعی طور پر قبول کیا۔ احقر فی الحال سلسلہ تھانوی سے منسلک معروف و مشہور ادارہ جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد ضلع شاملی یوپی میں گذشتہ ۹؍ سال سے استاذ الفقہ و التفسیر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا ، بااختیار اور آزاد ہوکر کام کرنے کی شرط کے ساتھ شعبان میں آکر مکمل ذمہ داری قبول کرنے کی بات کہی، چنانچہ اراکین نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ روایت کے مطابق عارضی طور پر جب تک کام کریں، چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عارضی طور پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دی گئی، جس کے ممبران مولانا محمد یاسین قاسمی، مولانا سرفراز قاسمی، مولانا طلحہ قاسمی اور احقر کے علاوہ ماسٹر نسیم صاحب قرار دیے گئے ۔ اب جب کہ شعبان آچکا ہے ، تو ان شاء اللہ عنقریب ہی اپنی تحویل میں لے کر با ضابطہ کام شروع کردیا جائے گااور اہتمام کے طرز عمل پر شوریٰ بھی تشکیل دے دی جائے گی۔
جملہ قارئین سے خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل کام کو آسان بنائے اور غیبی مدد سے کامیابی کی بلندی عطا کرتے ہوئے حاسدین کی حسد اور نظر بد سے حفاظت فرمائے ۔آمین۔
(مفتی)محمد نظام الدین قاسمی
سابق استاذ الفقہ والتفسیر جامعہ مفتاح العلوم
قصبہ جلال آباد ضلع شاملی یوپی
۲۸؍ اپریل ۲۰۱۸، مطابق ۱۱؍ شعبان المعظم ۱۴۳۹ بروز ہفتہ
مختصر حالات مصنفؒ
محمد یاسین جہازی قاسمی
شعبہ دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
حضرت مصنف مرحوم کی زندگی کے حالات سے متعلق کوئی تحریری دستاویز موجودنہیں ہے۔ معاصرین سے ملی زبانی روایات پر مبنی معلومات کے مطابق آپ اپنے گھر کی بھینس چرانے گئے تھے کہ اسی دوران بھینس کو ساتھیوں کے حوالے کرکے وہاں سے نکل گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آپ علاقے کے ایک قدیم ادارہ مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ بھاگل پور پہنچ گئے ہیں۔ یہاں آپ نے درجہ دوم تک تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند آئے۔ دارالعلوم دیوبند میں موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۴؍ مئی ۱۹۱۹ ء، مطابق ۳؍ شعبان ۱۳۳۷ھ بروز اتوار ہے۔ دارالعلوم میں آپ نے ۳۰؍ نومبر ۱۹۳۸ ء، مطابق ۷؍ شوال ۱۳۵۷ھ بروز بدھ درجہ سوم میں داخلہ لیااور مکمل چھ سال کی تعلیم کے بعد اگست ۱۹۴۳ ء، مطابق شعبان۱۳۶۲ ھ میں سند فضیلت حاصل کی۔ آپؒ دیوبند میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر تربیت تھے۔ فراغت کے بعد انھیں کے حکم و ارشاد پر مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑھ میرٹھ تشریف لے گئے اور صدر مدرسی کے عہدے پر فائز ہوکر تعلیمی و انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر یہاں سے مستعفی ہوکر دوبارہ اپنے شیخ کی خدمت میں دیوبند لوٹ گئے۔ حضرت شیخ کی محنت سے قریب تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی شعبہ میں آپ کا تقرر عمل میں آتا کہ گاؤں والوں کی طرف سے ایک دعوتی خط موصول ہوا۔ یہ خط آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کیا اور مشورہ طلب کیا۔ حضرت ؒ نے علاقے کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت کے حکم و ارشاد پر آپ اپنے آبائی وطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ لوٹ آئے۔ اور یکم ربیع الاول ۱۳۶۹ ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ ء ، بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
از روز قیام تا ۱۹۵۴ ء، آپ کی نظامت میں مدرسہ بحسن و خوبی چلتا رہا ۔ لیکن اسی سال کچھ لوگوں کی گھٹیا قسم کی مخالفت سے دلبراشتہ ہوکر آپ نے اسعفیٰ دیدیا اور مکمل طور پر یکسوئی اختیار کرلی۔ لیکن غیور اہل جہازی کے اصرار و حوصلہ پر گاؤں کے اتری حصے میں جناب عبدالرحمان صاحب کے دروازے پر ایک دوسرے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس کا نام مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ رکھا گیا۔ مولانا کے خلوص و للہیت اوراشاعت دین کے لیے خود کو وقف کردینے کے بے لوث جذبہ کی وجہ سے یہ مدرسہ بہت ترقی کرگیا اور دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی۔ ادھر دوسری طرف قدیم مدرسہ روز بروز زوال پذیر ہوتا رہا، حتیٰ کہ دستیاب دستاویز کے مطابق ۳؍ ستمبر ۱۹۵۷ء کو بعد نماز جمعہ ایک آخری میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ کے مکمل حساب و کتاب کرنے کے بعد بقیہ سامان کو گاؤں کے ایک نہایت شریف و امین اور بزرگ شخصیت حضرت مولانا شرافت حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالے کرکے مدرسہ بند کردیا گیا ۔
اس اختلاف کو علاقے کے ارباب دانش و بینش نے ایک قضیہ نامرضیہ قرار دیا اور ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۷ء میں ۱۳؍ افرادپر مشتمل ایک مفاہمت کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ چنانچہ یہ کمیٹی مسلسل جدوجہد کے بعد اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی اور فروری ۱۹۶۹ء میں دونوں مدرسوں کو ضم کرتے ہوئے دوبارہ مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے حوالے کردیا گیا ۔ انضمام کے بعد مدرسہ کا وقار مزید بلند ہوا۔ طالب علوم نبویہ کے رجوع میں اضافہ ہوگیا اور حضرت کی وفات تک مشکوٰۃ شریف تک تعلیم ہونے لگی۔ اور پورے علاقے کے لیے ایک عظیم علمی آماجگاہ بن گیا۔
مصنف مرحوم مدرسے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے تھے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ چنانچہ دستیاب معلومات کے مطابق ’رہنمائے مسلم‘،’ رہنمائے حج‘، نمازوں کے مسائل و فضائل، اور زجاج المصابیح جیسی علمی کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۹۵ء کو بھیانک سیلاب اور پھر دوبارہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو آئے قیامت خیز سیلاب نے پورے گاؤں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ، جس سے جہاں امیر ترین، غریب ترین فرد بن گیا، وہیں جہازی اکابرین کی ذاتی لائبریریاں، تواریخ اور تصنیفات بھی فنا کی شکار ہوگئیں۔ ان میں سے حضرت مصنف ؒ کی صرف اول الذکر دو کتابیں ہی، حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی جدوجہد سے محفوظ رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔
مولانا کی بیماری اور انتقال پرملال
آپ پر آخری عمر میں تین مرتبہ فالج کا حملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ جسم کے مکمل آدھے حصہ پر حملہ ہوا، جس میں آپ صحت یاب ہوگئے، پھر دوبارہ اسی طرح کا حملہ ہوا، اس میں بھی صحت یاب ہوگئے، لیکن تیسری مرتبہ دماغ پر حملہ ہوا، اس حملہ میں آپ جاں بر نہ ہوسکے اور اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔وفات کے اگلے دن اپنے آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔حلقہ ارادت مندوں کا جم غفیر نماز جنازہ میں شریک تھا ، جو مولانا کی مقبولیت پر خلق خدا کی گواہی تھی ۔ تاریخ وفات ماہ جون ۱۹۷۶ تھی۔
مولانا کی ذات نابغہ روزگار ہستی تھی
مولانا کی ذات گرامی ایک نابغہ روزگار ہستی تھی۔ علمی مرتبت بہت بلند تھا۔ دیہات میں جہاں کتابوں کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا، ایک نہیں؛ بلکہ کئی کئی مستند کتابیں لکھنا کسی کرامت سے کم نہیں ہوسکتا۔ وہ مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے، اس لیے تقویٰ و طہارت پر شبہ کرنا ناممکن ہے۔ معاملہ کی صفائی، خوش اخلاقی اور نرم گوئی ان کی خاص شان تھی جن کی گواہی آج بھی ان کو دیکھنے اور جاننے والے دے رہے ہیں۔ باطلانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی اصلاح کے لیے وہ ہمیشہ پابہ جولاں رہتے تھے اور بڑی حکمت عملی سے کام لیتے تھے کہ لوگوں کو برا بھی نہیں لگتا تھا اور مقصد بھی حاصل ہوجاتاتھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود ، اہل ہنر اور اہل قدر لوگوں کے تعلق سے لوگوں کا جو بے قدری والا رویہ ہوتا ہے، وہ مولانا کے ساتھ بھی رہا، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تسلسل ہے۔ ایسا بڑے بڑوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے؛ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ جہاں دنیا اہل قدر کے مرنے کے بعد ان کی اہلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتی ہے، وہاں مولانا کے مرحوم ہونے کے بعد بھی ناقدری کی گئی اور ان کے سارے کارناموں کو فراموش کردیا گیا۔اس لیے قبل ازمرگ اور بعد از مرگ دونوں کے مرثیہ کے لیے مولانا مرحوم ہی کے شعر پر مضمون مکمل کیا جاتا ہے کہ
تیرے ہنر کا کوئی نہیں قدر داں منیرؔ
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی تمام خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین ۔ ثم آمین۔
احوال واقعی
کسی بھی تصنیف و تالیف کی اہمیت اور قدروقیمت کا اندازہ دو باتوں سے لگایا جاتا ہے ۔ پہلی تو یہ کہ تصنیف کے مشمولات میں جامعیت و قطعیت ہے اور جو کچھ اس میں پیش کیاگیا ہے ، وہ آخری درجہ کی تحقیق کے بعد ہی شامل کیا گیاہے۔ اور دوسری یہ کہ صاحب تصنیف کی شخصیت ہی جامعیت اور ہمہ گیریت کا عنوان ہے۔ ایسی شخصیت کی طرف رطب و یابس جمع کرنے کی نسبت ہی نہیں کی جاسکتی۔ اور اگر یہ دونوں باتیں کسی تصنیف میں جمع ہوجائیں، تو وہ ایک لازوال شاہکار بن جاتی ہے۔ اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ’’ رہنمائے مسلم‘‘ کو یہ دونوں خصوصیتیں حاصل ہیں۔ اس کے مشمولات میں ۶۵؍ کتابوں کے حوالے شامل ہیں، جن کی فہرست آپ کتاب کے آخر میں دیکھ سکتے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ ایک ایسے دیہات میں جہاں نہ بجلی تھی اور نہ لائبریری، اور نہ ہی تحقیق کے دیگر ذرائع موجود تھے، اس کے باوجود اتنی کتابوں سے استفادہ کرکے ایک حسین اور جامع گلدستہ کیسے تیار کردیا؛ اسے حضرت والا کی کرامت کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔اور صاحب تصنیف کی ہمہ جہت شخصیت کا اندازہ ان کے ایک شاگرد حضرت مولانا اظہر الحق صاحب کے اس قول سے لگاسکتے ہیں کہ ’مولانا اپنے عہد میں کسی بھی مسئلے میں ایک حوالہ اور سند کا درجہ رکھتے تھے؛ حتیٰ کہ علماء میں بھی کسی بات پر اختلاف ہوتا، تو وہ کہتے کہ چلو اس کا فیصلہ اب حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ہی کریں گے۔ اور اگر کسی بات میں آپ کی طرف سے کوئی وضاحت آجاتی، تو پھر کسی اور کی بات تسلیم کرنے کے لیے لوگ تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔
مولانا محمد منیر الدین صاحب نور اللہ مرقدہ نے کئی ایک کتاب تصنیف کی، لیکن گاؤں میں آئے پے درپے کئی قیامت خیز سیلاب کی وجہ سے حضرت والا کی ذاتی لائبریری اور سبھی تصنیفات ضائع ہوگئیں، البتہ حضرت کے ہونہار اور قابل رشک شاگرد حضرت مولانا قاری و کاتب عبدالجبار صاحب حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی کوششوں سے مولانا کی دو تصنیف اب تک محفوظ ہیں، جن میں سے ایک تو یہی رہ نمائے مسلم ہے اور دوسری رہنمائے حج ہے۔اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو بھی جزائے خیر دے۔
’رہنمائے مسلم‘ کے مسودے کے کچھ صفحات ضائع ہوگئے تھے، جو بسیار تلاش کے باوجود نہ مل سکے، اس لیے اس خلا کو پر کرنے اور مضمون کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ’نماز جنازہ کا بیان‘ سے لے کر’جناز اٹھانے اور دفنانے کا بیان‘ تک ، پھر آخر میں ’میت پر رونے کا بیان‘ میں سورہ قصص کی آیت کی دو چار سطروں کے بعد’ اس لیے اگر ہماری اولاد مرجائے تو اس پر نوحہ کرنا‘ سے لے کر آخر کتاب تک حضرت قاری صاحب حفظہ اللہ کی پیوند کاری ہے ۔ اس پیوندکاری کا کمال یہ ہے کہ استاذ اور شاگرد کے اسلوب بیان میں فرق کرنا مشکل ہے۔ اور کتاب کے آخر میں حوالہ جات کی فہرست راقم کا اضافہ ہے۔
یہ کتاب انیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں لکھی گئی ہے۔ حضرت مصنف ؒ کے پاس وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب اس وقت اشاعت پذیر نہ ہوسکی، لیکن مفتی نظام الدین صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی جدوجہد کی وجہ سے اب یہ شائع ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی کاوش کو قبولیت سے نوازے۔ اس اشاعت میں اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے درج ذیل کوششیں کی گئی ہیں۔
(الف) مسودہ میں رموز و اوقاف کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا، لیکن اس میں اس کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
(ب) قواعد املا کی جدید سفارشات کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے۔
(ج) ارادہ یہ تھا کہ حضرت مصنف کے دیے گئے حوالے کے قدیم طرز کو جدید طرز کے مطابق کردیا جائے ۔ اور کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ، ابواب کا بھی اضافہ کردیا جائے، لیکن قلت وقت اور حوالوں کی کثرت کی بنیاد پر یہ ارادہ ملتوی کردیا گیا ۔ سردست کتاب میں مولانا ہی کے دیے حوالے موجود ہیں۔
ان کوششوں کے ساتھ یہ کتاب اب آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔ یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوئی ہے، اس کی شہادت تو آپ ہی دیں گے ؛ البتہ خوشی کا مقام یہ ہے کہ حضرت مصنف ؒ کی زندگی میں نہ سہی، بعد ازوفات تقریبا چالیس سال بعد شائع ہورہی ہے۔ یہ جہاں حضرت کے لیے اہل جہازی کی طرف سے بہترین خراج عقیدت ہے ،وہیں حضرت مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے ۔کتاب کو کتابت کے اغلاط سے پاک کرنے میں مولانا محمد سرفراز صاحب قاسمی نے انتھک محنت کی ہے، ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو جنت الفرود س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اس کتاب کے ان کے لیے ذریعہ نجات بنائے ، آمین۔
محمد یاسین جہازی قاسمی
دعوت اسلام ، جمعیۃ علماء ہند
۱۳؍ اپریل ۲۰۱۸ء، مطابق ۲۶؍ رجب ۱۴۳۹ھ بروز جمعہ