19 May 2018

قسط نمبر (1) تقریظ، دعائیہ کلمات مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے حال احوال

قسط نمبر (1) رہ نمائے مسلم 

(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے  موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

تقریظ 
حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب نور اللہ مرقدہ
استاذ دارالعلوم دیوبند
بسم اللہ الرحمان الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات کی رہنمائی اسلام میں موجود ہے ۔ موجودہ دور میں جب بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے ، لیکن یہ ذمہ داری والدین پر ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد سے لے کر سن شعور تک پہنچنے کی حد تک اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی تربیت کا فریضہ انجام دیں۔
ابتدائے زندگی میں والدین کی کیا ذمہ داریاں ہیں، اور وہ کن کن مراحل سے گذر کر حد بلوغ تک پہنچتا ہے اور کس کس مرحلہ میں اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ، کتاب و سنت اور فقہ میں ساری تفصیلات پائی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب مرحوم کو کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’رہنمائے مسلم‘‘ میں یہ ساری چیزیں حوالہ جات کے ساتھ مرتب فرمادی ہیں۔
یہ کتاب مولانا مرحوم کی زندگی میں طبع نہیں ہوسکی، اب ان کے لائق اور ہونہار شاگرد مولانا عبدالجبار صاحب فاضل دیوبند اپنی نگرانی میں اس کی کتابت و طباعت کا انتظام فرما رہے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ یہ کتاب شائع ہوکر بچوں کے والدین کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگی۔ اگر تمام بچوں کے ماں باپ نے اس کتاب کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کی ، تو ان شاء اللہ ان کا بچہ کامیاب زندگی کا مالک بن جائے گا۔
چوں کہ اس کتاب کا تعلق بچوں کی تربیت سے ہے ، اس لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور دوسروں تک اس کو پہنچانے کی سعی کریں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی یہ خدمت قبول فرمائیں اور ان کے لیے زاد آخرت ثابت ہو۔
طالب دعا
(مفتی) محمد ظفیر الدین غفرلہ (نور اللہ مرقدہ)
مفتی دارالعلوم دیوبند
۱۰؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۶ھ ؁ 
دعائیہ کلمات
حضرت مولانا قاری و کاتب عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ
صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند
حامی سنت، ماحی بدعت، حضرت الاستاذ،استاذالاساتذہ، عم محترم حضرت مولانامحمد منیرالدین قدس سرہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ گوناگوں خصوصیات اور علمی وعملی صفات کے حامل ایک پاک نفس عالم ومعلم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی صفات حمیدہ سے نوازاتھا،جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہو تی ہے۔ وہ معلم بھی تھے اور مربی بھی تھے۔ آپ کی پوری زندگی سنت کی اشاعت اور بدعات کی روک تھام میں گزری۔ ہمیشہ اسی کوشش میں گھلتے رہتے کہ کس طرح انسان کا تعلق خالق سے مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے۔ حضرت والا ہمہ وقت زبان وبیان اور قلم سے لوگوں کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے ۔ انھیں کوششوں میں یہ کتاب’’ رہنمائے مسلم‘‘ بھی ہے، جس میں پیدائش سے لے کر بلوغ تک اور مرض و بڑھاپے سے لے کر موت تک، کن کن اوقات اور حالات میں ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے، حضرت والانے وسائل کی قلت کے باوجود بڑی عرق ریزی سے کتاب کی ترتیب دے کر رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ کتاب سالہا میرے پاس رہی اور میں اس کوشش میں رہا کہ کسی طرح حضرت والا کی یہ امانت آپ تک پہونچ سکے؛ مگر وسائل کی قلت مانع رہی ۔اللہ جزائے خیر عطا فرمائیں مولانا محمد یاسین قاسمی اور مفتی نظام الدین صاحبان کو کہ ان کی کوششوں سے یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ اللہ کرے یہ کتاب مقبول عام ہو اور حضرت والا کی روح کو سکون ابدی میسر ہواور ہم سب کے لیے مشعل راہ ہو۔
حضرت نے کئی کتاب تالیف فرمائی اور اکثر ضائع ہو گئی اور بعض موجود بھی ہے؛ مگر اب تک منظر عام پر نہیں آ سکی۔ اگر آپ نے حوصلہ افزائی کی تو دیگرتالیفات کو بھی آپ کے ہاتھوں میں لانے کی کوشش کی جائے گی ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(حضرت مولانا قاری و کاتب ) عبدالجبار قاسمی (صاحب) 
صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند
۲۴؍ اپریل ۲۰۱۸، مطابق ۷؍ شعبان ۱۴۳۹ھ
تصنیف اور صاحب تصنیف
مولانا اظہر الحق صاحب جہازی
استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ
حامدا و مصلیا و مسلما امابعد
از آدم تا ایں دم، اربوں کھربوں اور خدا معلوم کتنے انسان اس دنیائے ناپید میں آکر یہاں سے جاچکے ہیں۔ اور صبح قیامت تک آمدو رفت کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن ان مسافروں میں کچھ مخصوص ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اپنے ملی کارنامے اور علمی خدمات ، ذہنی تعمیرات اور مردم ساز قابلیتوں ، تخلیقی صلاحتیوں اور اعلیٰ سیرتوں و کردار کی بدولت اپنی راہ نوردی کے کچھ ایسے انمٹ نقوشِ قدم اور آثار سفر چھوڑ جاتی ہیں، جو زمانے کی دست و برد کے باوجود محفوظ رہتی ہیں ۔ ؂
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
ایسی ہی ایک درویشی خدا پرست، بے نفس، نابغۂ روزگاراور عبقری شخصیت حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی گذری ہے ۔
وطن عزیز کی آزادی سے کوئی ایک دہائی قبل مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ ضلع میرٹھ سے تدریسی زندگی کا آغاز ہوا، یہاں آپ سے حدیث و فقہ اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں متعلق رہیں۔غالباً ۱۹۴۸ ؁ء میں وہاں سے مستعفی ہوکر وطن عزیز کا قصد کیا اور اپنے گاؤں جہاز قطعہ میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ کی داغ بیل ڈالی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اجراڑہ میں ملازمت ، اور پھر ملازمت سے مستعفی ہوکر خدمت دین کے لیے اپنے علاقہ کو اختیار کرنا بلا مشورہ استاذ و مربی خاص حضرت مولانا اعزاز رحمۃ اللہ علیہ شیخ الادب والفقہ دارالعلوم دیوبند محض حادثاتی و اتفاقی طور پر نہیں ہوا ہوگا؛ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وقفہ وقفہ سے ان بندوں کو جو غفلت کی نیند میں دیر سے سو رہے ہوں، ان کے کانوں میں اذان حق دے کر بیدا ر کرنے کے لیے اور اس امت اور ملت کے بکھرے ہوئے بال و پر کی شیرازہ بندی اور بگڑے ہوئے نظام مے خانہ کو بدلنے کے لیے جن مردان خدا آگاہ اور رندوں کا انتخاب کرتا ہے، ان میں سے ایک حضرت مولانا بھی ہوں۔ اس لیے کہ جو خطہ اور علاقہ علم و فن میں شورہ اور بنجر زمین کی طرح پڑا ہواتھا، اس جگر سوختہ مرد حق کی انتھک کدو کاوش اور جہد مسلسل کے نتیجہ میں ایک لہلہاتا ہوا شاداب چمن بن گیا ۔ اور اس چمن میں نہ جانے کتنے لالہ و گل اگے۔ میری اس تحریر کے حق میں وہ لوگ شہادت دیں گے، جنھوں نے ماضی کی جہالت دیکھی ہے ، یا علم اور تاریخ کی راہ سے یہ جانا ہے کہ ۱۸۵۷ ؁ء کے انگریزوں نے خاص طور سے مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھ کر ہدف بنایا اور ہر میدان میں مات دینے کی ٹھان لی۔ چنانچہ علمی، تمدنی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کو ثریا سے پاتال میں پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ فطری طور پر یہ علاقہ بھی استعماری قوت کی پامالی سے محفوظ نہیں رہ سکا، جب کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی جاں بلب تھا۔
مولانا مرحوم نے جس پر آشوب دور اور جہالت و نا خواندگی کے تاریک زمانہ اور مایوس حوصلہ شکن عہد میں ہوا کے رخ پر علم کا چراغ روشن کرنے کی کوشش شروع کی ہے، کون کہہ سکتا تھا کہ اتنی جلدی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ لیکن واقعاتی دنیا میں ایسا ہی ہوا ، حالاں کہ جہاز قطعہ کوئی بہت شہرت یافتہ مقام نہیں تھا اور نہ ہی رقبہ و عمارت کے لحاظ سے مدرسہ اسلامیہ ہی اتنا بڑا تھا ؛ لیکن خاص افضال خداوندی سے دیکھتے ہی دیکھتے دور و نزدیک سے جوق در جوق طالبان دین اور جویان حق آتے رہے اور حضرت والا طلبہ کی کھیپ در کھیپ تیار کرکے بڑے بڑے مدارس؛ خصوصا دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم روانہ فرماتے رہے ۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم فاضل نظر آنے لگے۔ اسی طرح چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ جہالت اور ناخواندگی کی تاریکی چھٹتی رہی اور علم کی روشنی پھیلتی رہی۔ اور آج ہر قابل ذکر علوم و فنون کے لوگ اس علاقہ میں صرف موجود ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے تقریبا ہر حصہ اور دنیا کے بہت سے گوشوں میں علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًاسی تعلیمی بیداری اور پاکیزہ انقلاب میں حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حصہ و دخل ہے، جس کا انھیں اجر وصلہ مل رہا ہوگا۔ حضرت والا جید عالم ، سادہ مزاج، ولی صفت ، خدا ترس اور قوم وملت کے لیے شب و روز بے انتہا مخلصانہ اور صبرو عظیمت کے ساتھ محنت کرنے والے انسان تھے۔
قسام ازل کی طرف سے حضرت مولانا مرحوم کو تعلیمی ، تدریسی اور تدریبی مہارت وملکہ کے ساتھ ذوق تحریر وتالیف بھی عطا ہوا تھا ۔ خیا ل کیا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنے پیچھے اچھا خاصا تحریری سرمایہ چھوڑا تھا، لیکن وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ منجملہ تصانیف اور ترکہ علمی میں سے ’’رہنمائے مسلم‘‘ کتاب ہے۔کتاب کے تعارف کے حوالے سے صرف اتنی سی بات عرض ہے کہ کتاب اسم با مسمیٰ ہے۔ ایک مسلمان کو پیدائش سے لے کر موت تک کس طرح زندگی گذارنی چاہیے ، یا یوں کہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اپنے نام لیواؤں کے لیے، اس خاکدان ارضی پر چلنے کے لیے جو شاہراہ قائم فرمائی ہے، اسی کی بزبان اردو تعبیر وتشریح اور ترجمانی ہے۔ 
حضرت الاستاذ کس قدر کثیر المطالعہ اور وسیع العلم عالم تھے، اس کتاب کے حوالجات کو دیکھنے ہی سے پتہ چلتا ہے۔ اور ایسے دور افتادہ علاقہ میں جہاں نہ بجلی کی سہولت تھی ، نہ دوسری آسانیاں، دن میں سورج اور رات میں لالٹین اور دیا کے سوا کوئی تیسری روشنی نہیں ہوتی ۔ 
الغرض مولانا مرحوم بہت سی صلاحیتوں اور قابلیتوں ، کمالات اور خوبیوں کے مالک تھے ۔ جن کی گواہی نسلاً بعد نسلٍ لوگ دیتے رہیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے پیچھے اپنے اوصاف وکمالات اور علوم وفنون کے ہزاروں بلا واسطہ اور بالواسطہ شاگرد اور علمی وارثین چھوڑے ہیں۔ خدا بھلا کرے مولانا مرحوم کے برادرزادہ جناب مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی کا ، جنھوں نے سالہا سال تک اپنے نامور مورث کے قیمتی ورثہ کی حفاظت کی ۔ اور یہ خاص فضل ربی ہوا کہ مولانا کی یہ قیمتی تصنیف قاری صاحب موصوف کے قدر داں ہاتھوں میں آگئی، ورنہ دیگر تصانیف کی طرح یہ بھی خرد برد ہوکر ضائع ہوجاتی ؛ بلکہ اس کتاب کے مسودوں کے بھی کچھ اجزا ضائع ہوگئے تھے، جس کو قاری صاحب نے اپنی زر بفت تحریر کے ذریعے انتہائی سلیقہ کے ساتھ مخمل میں ایسی پیوند کاری کی ہے کہ پڑھنے والے کو اس پیوند کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ 
اللہ کرے کہ یہ کتاب جلد از جلد طبع ہوکر عوام و خواص کے ہاتھوں میں پہنچے اور قبول عام حاصل کرے اور مؤلف مرحوم کی روح جنت میں مزید مسرور ہو۔ 
(مولانا ) اظہر الحق (صاحب ) جہازی
استاذ مدرسہ عربیہ رحمانیہ روڑکی 

مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہازقطعہ
ماضی سے حال تک
محمد مفتی نظام الدین صاحب قاسمی
مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ
سورج کی تپش، چاند کی میٹھی روشنی اور جگمگاتے ستاروں کی طرح یہ بات ہرکس و ناکس پر عیاں ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا راز اور خوش حالی کا دارومدار وہاں کے تعلیمی معیار پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک اور قوم میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے ، وہ ہمیشہ زندگی میں لوگوں اور ان کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں ، گویا کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا بنیادی سبب تعلیم ہے، لہذا کسی بھی قوم یا معاشرے کا تعلیم یافتہ ہونا ان کی ترقی کا ضامن ہے ۔ چوں کہ علم ہی کی وجہ سے انسان جہاں دیگر حیوانی مخلوقات سے ممتاز ہوتا ہے ، وہیں ناخواندہ لوگوں اور قوموں سے مرتبہ عظیمی کا پروانہ لیے رہتا ہے ، اور اسی علم کی وجہ سے انسان کی زندگی میں خدا پرستی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات سے سرشار ہوتا ہے۔
چنانچہ مذہب اسلام میں بھی حصول علم کو بہترین علم قرار دیتے ہوئے ، معاشرتی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالنے اور عملی جامہ پہنانے کے لیے بقدر ضرورت تحصیل علم کو ضروری اور لازمی قرار دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ منشاء رب نے ضعیف الخلقت مخلوق انسانی میں اشرف کے دوش ناتواں پر منصب نبوی کے بار گراں کو رکھنے سے قبل غار حرا کی شکل میں دور محمدی اور تکمیل اسلامیہ کا پہلا مکتب اور پہلی یونی ورسیٹی بناکر تعلیم کی ضرورت و اہمیت کو نامٹنے والے نقوش کی طرح تا قیام قیامت قرآن و حدیث کے الفاظ میں ثابت فرمادیا ہے۔اور آقا ﷺ نے بھی بلغوا عنی ولو آیۃ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے آغاز اقراء کو الیوم اکملت لکم دینکم پر انتہا کرنے، بذریعہ وحی حاصل کردہ نور ربی سے سینہ صحابی کو منور کرنے اور وارثین انبیاء کی جماعت کو تیار کرنے کے لیے مسجد نبوی میں چبوترہ ’’اصحاب صفہ‘‘ کا سہارا لیا، تاکہ وحی متلو اور غیر متلو کی ضیا پاش کرنیں دار فانی کی جہالت و گمراہی اور بت پرستی کی تاریکیوں کو ختم کرکے دنیا گیتی کو مینارہ نور بناسکے۔ چنانچہ اسی طرز عمل کو اپناتے ہوئے جگہ جگہ پر مساجد میں مکاتب کا انتظام کیا گیا اور صدیوں تک نور الٰہی کو عام کرنے کا یہی سلسلہ اسی طرزعمل پر چلتا رہا اور مساجد ہی تعلیمی آماجگاہیں بن گئیں۔
لیکن جب مرور ایام کے ساتھ امتداد زمانہ ہوا، لیل و نہار کی گردشوں نے کروٹیں لیں، حصول علم کے طریقۂ کار بدلنے لگے، طریقہ تعلیم کا دامن وسیع ہونے لگا، بحث و مناظرہ کی صدائے بازگشت گونجنے لگی، تو ان وجوہات کی بنا پر مدارس نے مساجد سے نکل کر اپنی شناخت بنالی، اور تاریخ اسلام میں موجودہ عمارتی ڈھانچہ ، اساتذہ اور طلبہ پر خاص تعلیمی نظام کے تحت سب سے پہلے اہل نیشاپور نے وجودی شکل دیتے ہوئے ، وہاں کے مؤقر علمائے کرام کے ہاتھوں مدرسہ بیہقیہ کے نام سے پانچویں صدی ہجری اور گیارھویں عیسوی کی ابتدا میں مدرسہ کی بنیاد رکھوائی اور افادیت کے پیش نظر مدارس اسلامیہ تین قسموں پر مشتمل ہوگئے: پہلا بادشاہوں اور امراء کا ۔ دوسرا: مخیر علمائے کرام کا اور تیسرا عوام کے تعاون سے چلنے والا مدرسہ ۔ آج یہ مدارس اسلامیہ ہدایت کے سرچشمے اور دین کی پناہ گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ جہاں اشاعت دین کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، وہیں یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز بھی ہے کہ جہاں لاکھوں طلبہ اور طالبات کو بلا معاوضہ تعلیمی ، تہذیبی اور اخلاقی زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش، خوراک اور مفت طبی سہولیات فراہم کرنے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہے ۔ چنانچہ موجودہ طریقۂ کار اور رہائشی نظم و انتظام کے ساتھ جن مدارس اسلامیہ کا آغاز آج سے ایک ہزار سال قبل سرزمین نیشاپور سے ہوا تھا ، وہ مختلف ملکوں، صوبوں اور علاقوں میں اپنی زریں زنجیری کڑی کو پھیلاتے ہوئے آسمان کی بلندی کو چھوتا جارہا تھا کہ اسی دوران آج سے سات دہائی قبل تعلیم سے کوسوں دور ہندستانی نقشہ کے مطابق مشرقی بھارت کے اس خطہ پر پڑی،جو اس وقت ۷۹؍ ہزار ۷۱۴ مربع کلو میٹر اور ۳۰ ہزار ۷۷۸ مربع میل پر پھیلی ریاست صوبہ جھارکھنڈ کے نام سے معروف و مشہور ہے۔ صوبہ جھارکھنڈ کے ضلعوں میں سے ایک ضلع شمال مشرق میں ضلع گڈا ہے ، جس کی کل آبادی ۳۱۳۵۵ اور مسلم آبادی ۵۲،۲۳؍ فی صد ہے اور اس سے ۲۱؍ کلو میٹر کے فاصلہ پر بسنت رائے بلاک میں ایک گاوں ’’جہاز قطعہ ‘‘ ہے، جہاں کی نئی نسلوں کے قلب و جگر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی تھی کہ گاوں میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جائے، جس کے لیے انھیں علاقے کی ناگفتہ بہ حالات، جہالت و تاریکی ، رسم و رواج میں غرق، بدعات و خرافات ، نامساعد حالات اور وسائل سے کٹے ہوئے بنجر علاقے کے لیے فرشتہ صفت انسان اور صلاحیت و صالحیت سے لبریز کسی فرد کامل کی ضرورت تھی۔
چنانچہ سب کی نگاہیں مذکورہ صفات کے حامل یکتائے زمانہ، نابغہ روزگار شخصیت، مجددانہ صفات کے حامل حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی اور دعوتی مکتوب کے ذریعہ ہندستان کی مقدس سرزمین دیوبند سے جہاز قطعہ بلا لیے گئے اوریکم ربیع الاول۱۳۶۹ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ء بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۵۴ء کے حالات سے دلبرداشتہ ہوکر مستعفی ہوگئے؛ لیکن اہل جہازی کے اصرار پردوبارہ مدرسہ کا آغاز ہوااور اسی مناسبت سے رحمانیہ بڑھا کر مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کردیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے قلیل مدت میں قاسمی افکار و خیالات کے اس پیکر نے اپنی خداداد صلاحیت اور نور نبوی کی ایمانی بصیرت سے گراں مایہ خدمات کو انجام دیتے ہوئے ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۳ء تک ، ۲۴؍ سالہ زندگی میں متبحر علمائے کرام پر مشتمل اصحاب صفہ کی شکل میں ایک بہت بڑی ٹیم تیار کردی کہ جس سے پورا علاقہ پر نور ہوگیا اور لوگوں کو تاریکی، بدعات، خرافات، سماجی برائیوں اور بد عقیدگی سے نکالنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ حضرت مسلسل اپنی کوشش میں رو بترقی تھے کہ اچانک ۱۹۷۳ء میں فالج کا اثر ہوا، جس کی وجہ سے ہفتہ دس دن کے لیے مدرسہ بالکل بند سا ہوگیا کہ اسی اثنا حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری بعد نماز عصر بغرض عیادت حضرت کی خدمت جلیلہ میں پہنچے، تو حضرت نے روتے ہوئے فرمایا کہ جب میری زندگی میں ہی مدرسہ پر پرخطر حالات آگئے، تناور درخت کی پتیاں مرجھانے لگی ہیں،تو بعد کے حالات کا تصور کرکے ہی روح کانپنے لگتی ہے ۔ اس درد اور فکر انگیز باتوں کو سن کر کبیدہ خاطر ہوئے ، ان کے دل پر یہ بات چھب سی گئی اور شاگرد ہونے کے ناطے استاذ محترم کی وراثت نسل نو کے مابین تقسیم کرنے کا عزم مصمم کیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بند نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ ۱۹۷۴ء میں مدرس اول کے طور پر حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری کا تقرر ہوا، باضابطہ مدرسہ کو کھلے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ شان کریمی ابر رحمت بن کے برسی اور آں حضرت کی طبیعت بالکل سابقہ حالت پر لوٹ آئی۔ اور مدرسہ کی مکمل ذمہ داری خود ہی انجام دینے لگے، لیکن دوبارہ پہلی حالت پر لوٹ گئے، اس مرتبہ پہلے سے کہیں زیادہ حالت خراب ہوگئی، کبھی افاقہ ہوتا، لیکن اس قدر نہیں کہ زینت مسند بن سکیں، بادل ناخواستہ اس مرتبہ آپ کی نظر عنایت فارسی سے کافیہ تک آں حضرت کے پاس پڑھنے والے اور موجودہ وقت میں مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر کے شیخ ثالث کے عہدہ پر فائز حضرت مولانا غلام رسول صاحب اسناہاں پر پڑی اور اپنی حیات میں ہی ۱۹۷۵ء میں مدرسہ کی مکمل ذمہ داری ان کی طرف منتقل فرمادی، اس طرح سے یہ مدرسہ آں حضرت کی سرپرستی اور مولانا غلام رسول صاحب کی نیابت میں ڈگمگاتے قدموں کے سہارے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ماہ جون ۱۹۷۶ء میں شدید فالج کا اثر ہوا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے۔ ماہ جون ۱۹۷۶ء میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ جہاں اپنے حقیقی باغباں اور مجازی مربی کی سرپرستی و نگرانی سے محروم ہوگیا تھا ، وہیں اہل علاقہ اورجہازی ایک اچھے منتظم ، مفکر، مدبر اور مصنف کے سایہ عاطفت سے یتیم بھی ہوگئے، گویا کہ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۶ء تک ڈھائی دھائی پر مشتمل تقریبا ۲۶؍ بہاریں دیکھ کر پہلا عہد مکمل کرچکا ہے ، اور ۱۹۷۷ء سے اپنے دوسرے عہد کا آغاز کرتا ہے، ماہ نومبر ۱۹۷۶ء میں مولانا غلام رسول صاحب بھی ذاتی و وجوہات و اسباب کی بنیاد پر دست بردار ہوجاتے ہیں اور ۱۹۷۷ ء میں اہل بستی مکمل ذمہ داری حضرت قطب الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ حضرت قاری صاحب نے بھی بحسن و خوبی تقریبا تین سال تک خاموش طبیعت کے ساتھ مکمل ذمہ داری نبھائی اور تعلیمی معیار کو بھی گرنے نہیں دیا، تاہم وہ بھی ۱۹۷۹ ء میں مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ منتقل ہوگئے اور مدرسہ ایک مرتبہ پھر آگے بڑھنے کے بجائے زوال کی طرف جانے لگا، اہل بستی متفکر ہوگئے، ہنگامی طور پر اتفاقی میٹنگ بلائی گئی اور ۱۹۸۰ء میں حضرت مولانا شمس الحق صاحب کے کاندھے پر سکریٹری کی ذمہ داری دی گئی اور مولانا ہاشم صاحب کے سر تعلیمی اور تعمیری ذمہ داری سپرد کردی گئی۔ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک وہ اپنی بساط کے بقدر یکسوئی کے ساتھ محنت کرتے رہے اور تعلیمی معیار کو بھی ہر ممکن بچانے کی کوشش میں لگے رہے ، لیکن اخیر میں پیرانہ سالی اور ناسازیۂ طبع میں گرفتار ہونے کی وجہ سے گوشہ نشیں ہوگئے۔
اس وقت کے سکریٹری حاجی حضرت مولانا شمس الحق صاحبؒ نے دیگر لوگوں سے مشورہ کرکے حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری سے درخواست کی کہ مدرسہ خستہ حالی کا شکار ہے ، شجر منیری کو ایک مرتبہ پھر آب پاشی کی سخت ضرورت ہے ، لہذا آپ تشریف لاکر مکمل ذمہ داری قبول کریں ، چنانچہ ۱۹۸۹ء میں مہتمم کی حیثیت سے مسند اہتمام کو زینت بخشی، علاقائی طور پر تقریر کے ذریعے سے لوگوں کو جوڑنے اور انتظامی صلاحیت سے مدرسہ کو ترقی دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ، اسی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ۱۹۹۲ء میں دیوگھر کی جامع مسجد سے حضرت مولانا خورشید صاحب کو لاکر گلشن منیری کا ایک حصہ بنادیا، جوانی کا عالم تھا ، اپنی صلاحیت سے مقامی بچوں میں تہذیبی طور پر تعلیم دینے کی کوشش کی ، چوں کہ جس وقت یہ مدرسہ میں جلوہ نما ہوئے تھے، اس وقت جہاں تعمیری ڈھانچہ نہ کے درجہ میں تھا ، وہیں اقامتی بچے بالکل بھی نہیں تھے، صرف چند مقامی طلبہ و طالبات آکر چلے جانے پر اکتفا کیا کرتے تھے، لیکن مولانا خورشید صاحب نے اپنے تعمیری ذوق، تعلیمی صلاحیت اور انتظامی دلچسپی سے دو سال کی مدت میں جہاں عمارتی ڈھانچہ بنوانے میں کامیابی حاصل کی ، وہیں تعلیمی اعتبار سے بھی عارضی طور پر ہی سہی ، لیکن کافیہ تک کی تعلیم کرانے میں کامیاب ہوئے ۔ یہ تشریف فرما تو ۱۹۹۲ء میں ہوئے تھے ، لیکن باضابطہ صدر مدرس ۱۴؍ جنوری ۱۹۹۳ء میں بنے تھے، جس کے حالات کچھ اس طرح بنے تھے کہ مولانا محمد عرفان صاحب ان کو لانے کے بعد دہلی کے سفر پر نکل گئے، ۶؍ دسمبر۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کا قضیہ پیش آیا، جس کی وجہ سے سفر سے واپسی کرنے میں تاخیر ہوگئی، لیکن ماہ جنوری ۱۹۹۳ء میں واپس ہوئے تو اس سے قبل ہی ۱۴؍ جنوری کو مولانا خورشید صاحب نے ایک ہنگامی میٹنگ بلالی تھی، جس میں اہل جہازی کے علاوہ قرب و جوار کی بستیوں کے لوگ بھی موجود تھے، جس میں قاری عبد الجبار صاحب صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند صدر مدرسہ، مولانا علیم الدین صاحب قاسمی نائب صدر ، جناب نصیرالدین صاحب سکریٹری ، جناب طاہر حسین صاحب مرحوم نائب سکریٹری ، جناب پردھان خورشید صاحب خزانچی اور مولانا خورشید صاحب کا نام صدر مدرس کے طور پر عمل میں آیا، گو کہ ۱۹۹۳ء میں مدرسہ اپنے تیسرے عہد کا آغاز کر رہا تھا، یہاں سے تیسری مرتبہ اپنی پٹری پر سوار ہوکر کامیابی کی طرف رواں دواں ہوتا ہے کہ اچانک ایک طوفان برپا ہوتا ہے ، جس کی رو میں مولانا خورشید صاحب بہہ کر خون کے آنسو روتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ دوسری میٹنگ ۲۲؍ ۱۹۹۷ء میں ہوئی ہے، جس میں قاری عبدالجبار صاحب صدر، حافظ شفیق صاحب نائب صدر، مولانا علیم الدین صاحب سکریٹری، مکھیا ظہیر صاحب مرحوم نائب سکریٹری اور ماسٹر مقبول صاحب کپیٹا خزانچی منتخب ہوئے ، لیکن غالبا مکھیا ظہیر صاحب کے انتقال کی وجہ سے ۲۶؍ اپریل ۱۹۹۸ء میں ایک عمومی میٹنگ ہوئی، جس میں ان کی جگہ پر مولانا اختر حسین صاحب قاسمی نائب سکریٹری بنائے گئے ۔ ۶؍ دسمبر ۲۰۰۴ء کی میٹنگ میں جزوی ترمیم کے ساتھ محمد نصیر الدین صاحب سکریٹری ، مولانا اختر حسین صاحب قاسمی نائب سکریٹری اور ماسٹر نسیم صاحب لوچنی خزانچی کے عہدے کے لیے منتخب ہوئے ۔۱۹۹۳ء سے ۲۰۰۹ء تک کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انتظامی شخصیات میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی، تاہم عزل و نصب اور دیگر انتظامی امور کو ضابطے کی روشنی میں عملی جامہ پہنانے کے لیے ، حضرت مولانا منیر الدین صاحب عثمانی سین پوراستاذ دارالعلوم دیوبند، قاری عبدالجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند اور مولانا اظہر الحق صاحب جہازی استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ نے مل کر دستوری نظام پر مشتمل ایک کتابچہ تیار کیا، جو ۱۷؍ مئی ۲۰۱۰ء کی عمومی میٹنگ میں پیش ہوا۔اس میٹنگ میں قاری عبدالجبار صاحب صدر ، ماسٹر عزیز اللہ صاحب نائب صدر، نصیر الدین صاحب سکریٹری، ڈاکٹر نسیم صاحب نائب سکریٹری اور ماسٹر نسیم صاحب خزانچی بنائے گئے۔ ناگہانی حالات کے پیش نظر نصیر الدین صاحب مستعفی ہوگئے اور اس ٹرم کی بقیہ مدت کی تکمیل کے لیے ۱۳؍ نومبر ۲۰۱۱ء میں ڈاکٹر نسیم صاحب کپیٹا سکریٹری اور مولانا اختر حسین صاحب نائب سکریٹری بنائے گئے ۔ دوسرے ٹرم کی میٹنگ میں تمام ذمہ داریاں علیٰ حالہ باقی رکھی گئیں، جو ۸؍ سمتبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ تک وہی کمیٹی باقی رہی۔ 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی تاریخی ادوار پر تجزیاتی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تاریخ تین ادوار پر مشتمل ہیں: پہلا دور بانی مبانی حضرت مولانامحمد منیر الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جو ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۴ء تک کا ہے۔ حضرت علمی اعتبار سے بہت بھاری بھرکم شخصیت کے عامل تھے، علمی رتبہ اتنا بلند تھا کہ آپ کو مستقل زمین کی ضرورت نہیں تھی۔آپ جہاں کہیں اپنا جسمانی وزن رکھ دیتے، وہ جگہ خود مدرسہ کی شکل اختیار کرلیتی۔ یہی وجہ ہے کہ تعمیری ڈھانچہ نہ ہونے کے باوجود مشکوٰۃ تک کے طلبہ ہوتے تھے۔
آں حضرت روحانی اعتبارسے حضرت مدنی ؒ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے ، اس لیے دنیا و مافیھا سے بے رغبتی یقینی ہے، گویا کہ روحانیت اور علمیت کی وجہ سے چہرہ اس قدر با رعب تھا اور ذاتی طور پر اس قدر باوزن تھے کہ کوئی فرد واحد لڑکھڑاتی زبان بھی حرکت دینے سے قبل سوچتا تھا ، لہذا ان کی ۲۶؍ سالہ خدماتی زندگی میں کوئی حرف شکایت زباں پہ نہ لاسکا۔ دوسرا دور ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۲ء تک کا ہے، اس میں یکے بعد دیگرے حضرت مولانا غلام رسول صاحب اسنہاں ، حضرت مولانا قاری قطب الدین صاحب، حضرت مولانا ہاشم صاحب اور حضرت مولانا محمد عرفان صاحب ہیں۔ مولانا ہاشم صاحب کے اخیر زمانہ میں جب تعلیمی اعتبار سے کمزوری آئی، تومولانا عرفان صاحب نے ذمہ داری قبول کی، لیکن ذاتی مصروفیت کی وجہ سے مولانا خورشید صاحب کو ذمہ دارکی حیثیت سے لائے تاکہ تعلیمی نظام بہتر ہوسکے۔ چنانچہ تیسرا دور ۱۹۹۳ء سے ۲۰۱۸ء تک کا ہے۔ یہ دور دو حصوں پر مشتمل ہے : پہلا حصہ مولانا خورشید صاحب کا ہے ، جو ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۵ء تک رہے۔ اس میں تعلیمی اور تعمیری دونوں اعتبار سے عارضی طور پر ہی سہی کچھ حد تک ترقی ملی۔ دوسرا حصہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۶ء تک کا ہے، جس میں مولانا رئیس عالم صاحب قاسمی عارضی طور پر رہے ، جبکہ غیر استقلالی طریقے پر مولانا ابوالکلام قاسمی مدھورا، مولانا احسان کرما، مولانا صدیق صاحب قاسمی پکڑیا اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب رہے، تاہم ۱۰؍ نومبر ۲۰۰۶ء سے لے کر ۸؍ ستمبر ۲۰۱۷ ء تک مولانا رئیس عالم صاحب باضابطہ صدر مدرس رہے ۔ اگر ہم ۱۹۹۳ء سے ۲۰۱۸ء تک پر نگاہ ڈالتے ہیں ، تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ۲۵؍ یا ۲۱؍ سالہ زندگی میں صدر مدرسہ اور صدر مدرس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ، جب کہ سکریٹری اور خزانچی میں جزوی تبدیلی ہوتی رہی ہے ، تاہم تعلیمی اعتبار سے موجودہ وقت میں مدرسہ کافی انحطاط کا شکار ہے ، جہاں اقامتی طالب علم نہ کے درجے میں ہیں، وہیں مقامی بچوں کی تعداد بھی گاوں کے اعتبار سے کم ہے۔ 
ایسے میں جہاں اہل علاقہ متفکر ہیں، وہیں اراکین عاملہ کے ساتھ ساتھ اہل بستی بھی ضرورت محسوس کر رہے تھے کہ کسی ایسے عالم دین کا انتخاب عمل میں آئے جو ڈوبتی کشتی کو سہارا دے کر ساحل تک اور حضرت مولانا منیر الدین صاحب کے وراثتی یادگارکی حفاظت کرسکے۔ چنانچہ اتفاقی طور پر اندرونی حالات کی وجہ سے خزانچی ماسٹر نسیم صاحب لوچنی نے اپنا استعفیٰ سکریٹری ڈاکٹر نسیم صاحب کو پیش کردیا ، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نسیم صاحب نے بھی صدر مدرسہ قاری عبدالجبار صاحب کے پاس عذر کے ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کیا، تاہم قاری صاحب نے اسی استعفیٰ نامہ کے پشت پر یہ لکھ کر واپس کردیا کہ آپ کو سکریٹری کمیٹی نے بنایا ہے ، لہذا استعفیٰ نامہ بھی اہل کمیٹی کے مابین ہی پیش کریں۔ 
چنانچہ ۸؍ ستمبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ بعد نماز مغرب ڈاکٹر نسیم صاحب کی دعوت پر مجلس عاملہ کی ایک اہم میٹنگ بلائی گئی، جس میں مجلس عاملہ کی ۲۶؍ اراکین میں سے قاری عبدالجبار صاحب، مولانا محمد یونس صاحب، نصیرالدین مکھیا صاحب، پردھان خورشید صاحب، جناب سلیم الدین صاحب، جناب مبارک صاحب، جناب حافظ شفیق صاحب، جناب ماسٹر ظفر الدین صاحب، جناب ماسٹر صدیق صاحب، جناب رئیس اعظم صاحب، جناب ڈاکٹر علیم الدین صاحب، جناب عبدالقیوم صاحب، جناب الحاج طاہر حسن صاحب، جناب ڈاکٹر نسیم صاحب، نمائندہ مدرسہ ہذا کے علاوہ خصوصی طور پر مولانا محمد یاسین قاسمی، مفتی زاہد امان قاسمی، مولانا سرفراز قاسمی، مولانا طلحہ قاسمی، مولانا عبداللہ قاسمی، مفتی نظام الدین قاسمی اور حاجی شمس الحق صاحب وغیرہ شریک مجلس تھے۔ اس میں اتفاق رائے سے سکریٹری ڈاکٹر نسیم صاحب کا استعفیٰ نامہ قبول ہوا ، جب کہ ماسٹر نسیم صاحب کے استعفیٰ نامہ کو نامنظور کرتے ہوئے خزانچی کے عہدے پر باقی رکھا گیا ۔ میٹنگ میں نئے سکریٹری کو منتخب کرنے کی بات چل ہی رہی تھی کہ سکریٹری نظام کو بدل کر اہتمام کے طرز عمل پر چلانے کی بات آئی ، جس پر صدر مدرسہ نے احقر کا نام پیش کیا، جس پر اہل کمیٹی نے اپنی اپنی رائے دے کر صدر مدرسہ کی رائے کواجتماعی طور پر قبول کیا۔ احقر فی الحال سلسلہ تھانوی سے منسلک معروف و مشہور ادارہ جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد ضلع شاملی یوپی میں گذشتہ ۹؍ سال سے استاذ الفقہ و التفسیر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا ، بااختیار اور آزاد ہوکر کام کرنے کی شرط کے ساتھ شعبان میں آکر مکمل ذمہ داری قبول کرنے کی بات کہی، چنانچہ اراکین نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ روایت کے مطابق عارضی طور پر جب تک کام کریں، چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عارضی طور پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دی گئی، جس کے ممبران مولانا محمد یاسین قاسمی، مولانا سرفراز قاسمی، مولانا طلحہ قاسمی اور احقر کے علاوہ ماسٹر نسیم صاحب قرار دیے گئے ۔ اب جب کہ شعبان آچکا ہے ، تو ان شاء اللہ عنقریب ہی اپنی تحویل میں لے کر با ضابطہ کام شروع کردیا جائے گااور اہتمام کے طرز عمل پر شوریٰ بھی تشکیل دے دی جائے گی۔ 
جملہ قارئین سے خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل کام کو آسان بنائے اور غیبی مدد سے کامیابی کی بلندی عطا کرتے ہوئے حاسدین کی حسد اور نظر بد سے حفاظت فرمائے ۔آمین۔
(مفتی)محمد نظام الدین قاسمی 
سابق استاذ الفقہ والتفسیر جامعہ مفتاح العلوم 
قصبہ جلال آباد ضلع شاملی یوپی
۲۸؍ اپریل ۲۰۱۸، مطابق ۱۱؍ شعبان المعظم ۱۴۳۹ بروز ہفتہ
مختصر حالات مصنفؒ 
محمد یاسین جہازی قاسمی
شعبہ دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
حضرت مصنف مرحوم کی زندگی کے حالات سے متعلق کوئی تحریری دستاویز موجودنہیں ہے۔ معاصرین سے ملی زبانی روایات پر مبنی معلومات کے مطابق آپ اپنے گھر کی بھینس چرانے گئے تھے کہ اسی دوران بھینس کو ساتھیوں کے حوالے کرکے وہاں سے نکل گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آپ علاقے کے ایک قدیم ادارہ مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ بھاگل پور پہنچ گئے ہیں۔ یہاں آپ نے درجہ دوم تک تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند آئے۔ دارالعلوم دیوبند میں موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۴؍ مئی ۱۹۱۹ ؁ء، مطابق ۳؍ شعبان ۱۳۳۷ھ ؁ بروز اتوار ہے۔ دارالعلوم میں آپ نے ۳۰؍ نومبر ۱۹۳۸ ؁ء، مطابق ۷؍ شوال ۱۳۵۷ھ ؁ بروز بدھ درجہ سوم میں داخلہ لیااور مکمل چھ سال کی تعلیم کے بعد اگست ۱۹۴۳ ؁ء، مطابق شعبان۱۳۶۲ ؁ھ میں سند فضیلت حاصل کی۔ آپؒ دیوبند میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر تربیت تھے۔ فراغت کے بعد انھیں کے حکم و ارشاد پر مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑھ میرٹھ تشریف لے گئے اور صدر مدرسی کے عہدے پر فائز ہوکر تعلیمی و انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر یہاں سے مستعفی ہوکر دوبارہ اپنے شیخ کی خدمت میں دیوبند لوٹ گئے۔ حضرت شیخ کی محنت سے قریب تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی شعبہ میں آپ کا تقرر عمل میں آتا کہ گاؤں والوں کی طرف سے ایک دعوتی خط موصول ہوا۔ یہ خط آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کیا اور مشورہ طلب کیا۔ حضرت ؒ نے علاقے کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت کے حکم و ارشاد پر آپ اپنے آبائی وطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ لوٹ آئے۔ اور یکم ربیع الاول ۱۳۶۹ ؁ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ ؁ء ، بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ 
از روز قیام تا ۱۹۵۴ ؁ء، آپ کی نظامت میں مدرسہ بحسن و خوبی چلتا رہا ۔ لیکن اسی سال کچھ لوگوں کی گھٹیا قسم کی مخالفت سے دلبراشتہ ہوکر آپ نے اسعفیٰ دیدیا اور مکمل طور پر یکسوئی اختیار کرلی۔ لیکن غیور اہل جہازی کے اصرار و حوصلہ پر گاؤں کے اتری حصے میں جناب عبدالرحمان صاحب کے دروازے پر ایک دوسرے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس کا نام مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ رکھا گیا۔ مولانا کے خلوص و للہیت اوراشاعت دین کے لیے خود کو وقف کردینے کے بے لوث جذبہ کی وجہ سے یہ مدرسہ بہت ترقی کرگیا اور دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی۔ ادھر دوسری طرف قدیم مدرسہ روز بروز زوال پذیر ہوتا رہا، حتیٰ کہ دستیاب دستاویز کے مطابق ۳؍ ستمبر ۱۹۵۷ء ؁ کو بعد نماز جمعہ ایک آخری میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ کے مکمل حساب و کتاب کرنے کے بعد بقیہ سامان کو گاؤں کے ایک نہایت شریف و امین اور بزرگ شخصیت حضرت مولانا شرافت حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالے کرکے مدرسہ بند کردیا گیا ۔
اس اختلاف کو علاقے کے ارباب دانش و بینش نے ایک قضیہ نامرضیہ قرار دیا اور ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۷ء ؁ میں ۱۳؍ افرادپر مشتمل ایک مفاہمت کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ چنانچہ یہ کمیٹی مسلسل جدوجہد کے بعد اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی اور فروری ۱۹۶۹ء ؁ میں دونوں مدرسوں کو ضم کرتے ہوئے دوبارہ مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے حوالے کردیا گیا ۔ انضمام کے بعد مدرسہ کا وقار مزید بلند ہوا۔ طالب علوم نبویہ کے رجوع میں اضافہ ہوگیا اور حضرت کی وفات تک مشکوٰۃ شریف تک تعلیم ہونے لگی۔ اور پورے علاقے کے لیے ایک عظیم علمی آماجگاہ بن گیا۔
مصنف مرحوم مدرسے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے تھے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ چنانچہ دستیاب معلومات کے مطابق ’رہنمائے مسلم‘،’ رہنمائے حج‘، نمازوں کے مسائل و فضائل، اور زجاج المصابیح جیسی علمی کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۹۵ء ؁ کو بھیانک سیلاب اور پھر دوبارہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء ؁ کو آئے قیامت خیز سیلاب نے پورے گاؤں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ، جس سے جہاں امیر ترین، غریب ترین فرد بن گیا، وہیں جہازی اکابرین کی ذاتی لائبریریاں، تواریخ اور تصنیفات بھی فنا کی شکار ہوگئیں۔ ان میں سے حضرت مصنف ؒ کی صرف اول الذکر دو کتابیں ہی، حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی جدوجہد سے محفوظ رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔
مولانا کی بیماری اور انتقال پرملال
آپ پر آخری عمر میں تین مرتبہ فالج کا حملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ جسم کے مکمل آدھے حصہ پر حملہ ہوا، جس میں آپ صحت یاب ہوگئے، پھر دوبارہ اسی طرح کا حملہ ہوا، اس میں بھی صحت یاب ہوگئے، لیکن تیسری مرتبہ دماغ پر حملہ ہوا، اس حملہ میں آپ جاں بر نہ ہوسکے اور اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔وفات کے اگلے دن اپنے آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔حلقہ ارادت مندوں کا جم غفیر نماز جنازہ میں شریک تھا ، جو مولانا کی مقبولیت پر خلق خدا کی گواہی تھی ۔ تاریخ وفات ماہ جون ۱۹۷۶ ؁ تھی۔
مولانا کی ذات نابغہ روزگار ہستی تھی
مولانا کی ذات گرامی ایک نابغہ روزگار ہستی تھی۔ علمی مرتبت بہت بلند تھا۔ دیہات میں جہاں کتابوں کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا، ایک نہیں؛ بلکہ کئی کئی مستند کتابیں لکھنا کسی کرامت سے کم نہیں ہوسکتا۔ وہ مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے، اس لیے تقویٰ و طہارت پر شبہ کرنا ناممکن ہے۔ معاملہ کی صفائی، خوش اخلاقی اور نرم گوئی ان کی خاص شان تھی جن کی گواہی آج بھی ان کو دیکھنے اور جاننے والے دے رہے ہیں۔ باطلانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی اصلاح کے لیے وہ ہمیشہ پابہ جولاں رہتے تھے اور بڑی حکمت عملی سے کام لیتے تھے کہ لوگوں کو برا بھی نہیں لگتا تھا اور مقصد بھی حاصل ہوجاتاتھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود ، اہل ہنر اور اہل قدر لوگوں کے تعلق سے لوگوں کا جو بے قدری والا رویہ ہوتا ہے، وہ مولانا کے ساتھ بھی رہا، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تسلسل ہے۔ ایسا بڑے بڑوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے؛ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ جہاں دنیا اہل قدر کے مرنے کے بعد ان کی اہلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتی ہے، وہاں مولانا کے مرحوم ہونے کے بعد بھی ناقدری کی گئی اور ان کے سارے کارناموں کو فراموش کردیا گیا۔اس لیے قبل ازمرگ اور بعد از مرگ دونوں کے مرثیہ کے لیے مولانا مرحوم ہی کے شعر پر مضمون مکمل کیا جاتا ہے کہ ؂
تیرے ہنر کا کوئی نہیں قدر داں منیرؔ 
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے 
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی تمام خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین ۔ ثم آمین۔

احوال واقعی
کسی بھی تصنیف و تالیف کی اہمیت اور قدروقیمت کا اندازہ دو باتوں سے لگایا جاتا ہے ۔ پہلی تو یہ کہ تصنیف کے مشمولات میں جامعیت و قطعیت ہے اور جو کچھ اس میں پیش کیاگیا ہے ، وہ آخری درجہ کی تحقیق کے بعد ہی شامل کیا گیاہے۔ اور دوسری یہ کہ صاحب تصنیف کی شخصیت ہی جامعیت اور ہمہ گیریت کا عنوان ہے۔ ایسی شخصیت کی طرف رطب و یابس جمع کرنے کی نسبت ہی نہیں کی جاسکتی۔ اور اگر یہ دونوں باتیں کسی تصنیف میں جمع ہوجائیں، تو وہ ایک لازوال شاہکار بن جاتی ہے۔ اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ’’ رہنمائے مسلم‘‘ کو یہ دونوں خصوصیتیں حاصل ہیں۔ اس کے مشمولات میں ۶۵؍ کتابوں کے حوالے شامل ہیں، جن کی فہرست آپ کتاب کے آخر میں دیکھ سکتے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ ایک ایسے دیہات میں جہاں نہ بجلی تھی اور نہ لائبریری، اور نہ ہی تحقیق کے دیگر ذرائع موجود تھے، اس کے باوجود اتنی کتابوں سے استفادہ کرکے ایک حسین اور جامع گلدستہ کیسے تیار کردیا؛ اسے حضرت والا کی کرامت کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔اور صاحب تصنیف کی ہمہ جہت شخصیت کا اندازہ ان کے ایک شاگرد حضرت مولانا اظہر الحق صاحب کے اس قول سے لگاسکتے ہیں کہ ’مولانا اپنے عہد میں کسی بھی مسئلے میں ایک حوالہ اور سند کا درجہ رکھتے تھے؛ حتیٰ کہ علماء میں بھی کسی بات پر اختلاف ہوتا، تو وہ کہتے کہ چلو اس کا فیصلہ اب حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ہی کریں گے۔ اور اگر کسی بات میں آپ کی طرف سے کوئی وضاحت آجاتی، تو پھر کسی اور کی بات تسلیم کرنے کے لیے لوگ تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔ 
مولانا محمد منیر الدین صاحب نور اللہ مرقدہ نے کئی ایک کتاب تصنیف کی، لیکن گاؤں میں آئے پے درپے کئی قیامت خیز سیلاب کی وجہ سے حضرت والا کی ذاتی لائبریری اور سبھی تصنیفات ضائع ہوگئیں، البتہ حضرت کے ہونہار اور قابل رشک شاگرد حضرت مولانا قاری و کاتب عبدالجبار صاحب حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی کوششوں سے مولانا کی دو تصنیف اب تک محفوظ ہیں، جن میں سے ایک تو یہی رہ نمائے مسلم ہے اور دوسری رہنمائے حج ہے۔اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو بھی جزائے خیر دے۔ 
’رہنمائے مسلم‘ کے مسودے کے کچھ صفحات ضائع ہوگئے تھے، جو بسیار تلاش کے باوجود نہ مل سکے، اس لیے اس خلا کو پر کرنے اور مضمون کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ’نماز جنازہ کا بیان‘ سے لے کر’جناز اٹھانے اور دفنانے کا بیان‘ تک ، پھر آخر میں ’میت پر رونے کا بیان‘ میں سورہ قصص کی آیت کی دو چار سطروں کے بعد’ اس لیے اگر ہماری اولاد مرجائے تو اس پر نوحہ کرنا‘ سے لے کر آخر کتاب تک حضرت قاری صاحب حفظہ اللہ کی پیوند کاری ہے ۔ اس پیوندکاری کا کمال یہ ہے کہ استاذ اور شاگرد کے اسلوب بیان میں فرق کرنا مشکل ہے۔ اور کتاب کے آخر میں حوالہ جات کی فہرست راقم کا اضافہ ہے۔ 
یہ کتاب انیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں لکھی گئی ہے۔ حضرت مصنف ؒ کے پاس وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب اس وقت اشاعت پذیر نہ ہوسکی، لیکن مفتی نظام الدین صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی جدوجہد کی وجہ سے اب یہ شائع ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی کاوش کو قبولیت سے نوازے۔ اس اشاعت میں اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے درج ذیل کوششیں کی گئی ہیں۔
(الف) مسودہ میں رموز و اوقاف کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا، لیکن اس میں اس کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
(ب) قواعد املا کی جدید سفارشات کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے۔ 
(ج) ارادہ یہ تھا کہ حضرت مصنف کے دیے گئے حوالے کے قدیم طرز کو جدید طرز کے مطابق کردیا جائے ۔ اور کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ، ابواب کا بھی اضافہ کردیا جائے، لیکن قلت وقت اور حوالوں کی کثرت کی بنیاد پر یہ ارادہ ملتوی کردیا گیا ۔ سردست کتاب میں مولانا ہی کے دیے حوالے موجود ہیں۔ 
ان کوششوں کے ساتھ یہ کتاب اب آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔ یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوئی ہے، اس کی شہادت تو آپ ہی دیں گے ؛ البتہ خوشی کا مقام یہ ہے کہ حضرت مصنف ؒ کی زندگی میں نہ سہی، بعد ازوفات تقریبا چالیس سال بعد شائع ہورہی ہے۔ یہ جہاں حضرت کے لیے اہل جہازی کی طرف سے بہترین خراج عقیدت ہے ،وہیں حضرت مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے ۔کتاب کو کتابت کے اغلاط سے پاک کرنے میں مولانا محمد سرفراز صاحب قاسمی نے انتھک محنت کی ہے، ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو جنت الفرود س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اس کتاب کے ان کے لیے ذریعہ نجات بنائے ، آمین۔ 
محمد یاسین جہازی قاسمی 
دعوت اسلام ، جمعیۃ علماء ہند
۱۳؍ اپریل ۲۰۱۸ء، مطابق ۲۶؍ رجب ۱۴۳۹ھ بروز جمعہ 
پانچ بج کر پندرہ منٹ شام
قسط نمبر (2) پڑھنے کے لیے کلک کریں

18 May 2018

اس فارمولہ پر عمل کریں گے، تو آپ کوکبھی بھی روزہ نہیں لگے گا

اس فارمولہ پر عمل کریں گے، تو آپ کوکبھی بھی روزہ نہیں لگے گا
محمد یاسین جہازی
9871552408
رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے حکیم اور ڈاکٹرہمارے روزہ کے متعلق فکرمند ہوجاتے ہیں۔ انھیں یہ خوف ستانے لگتاہے کہ گرمیوں میں روزہ رکھنا ایک دشوار کام ہے، گرمی کی شدت بھوک پیاس کو بھڑکا دے گی اور روزہ دار کو روزہ لگ جائے گا، اس لیے وہ اپنے خزانہ علم و حکمت سے ہمارے لیے نایاب اور بیش قیمت نسخے تلاش کرکے لاتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ چیز اس طرح کھاو گے، تو بھوک پیاس نہیں لگے گی۔ 
راقم کا عندیہ ہے کہ اگر کوئی شخص روزے کے مقصد کو پیش نظر رکھ کر حصول تقویٰ کی نیت سے روزہ رکھے اور روزہ کے لغوی معنی پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے آداب کو بھی ملحوظ رکھے، تو کبھی بھی روزہ نہیں لگ سکتا ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھے اور اس کے تمام تقاضوں کو انجام دے اور پھر روزہ لگ جائے۔ روزہ اسی کو لگتا ہے، جو اپنا روزہ پھاڑ دیتا ہے۔ پھٹا ہوا روزہ ہمیشہ روزہ دار کو بھوک اور پیاس کی پریشانی میں ڈال دیتا ہے۔ 
نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں دو عورتوں نے روزہ رکھا۔ روزہ میں اس شدت سے بھوک لگی کہ ناقابل برداشت ہو گئیاور مرنے کے قریب پہنچ گئیں۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ کو خبر دی ۔ حضورﷺ نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجوایا اور ان دونوں کو اس میں قے کرنے کا حکم دیا۔ دونوں نے قے کی تو اس میں گوشت کے ٹکڑے اور جما ہوا بدبودارخون نکلا۔ لوگوں کو حیرت ہوئی کہ روزہ کی حالت میں گوشت کے ٹکڑے کیوں نکل رہے ہیں، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انھوں نے حلال روزی سے تو روزہ رکھالیکن دن بھر یہ دونوں عورتیں لوگوں کی غیبت کرتی رہیں۔ 
ایک حدیث میں ہے کہ
الصیام جنۃ مالم یخرقہا۔ قیل بما یخرقہ؟ قال: بکذب او غیبۃ
روزہ ڈھال ہے ، جب تک کہ اسے پھاڑ نہ دے۔ پوچھا گیا کہ ڈھال کس سے پھٹتا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ جھوٹ اور غیبت سے ۔ 
یہ نبوی فارمولہ ہمیں بتاتا ہے کہ ورزہ تو خود ایک تحفظ کا ذریعہ ہے۔ روزہ خود انسان کی حفاظت کرتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس تحفظ کے آلہ کو ہم توڑ پھوڑ نہ دیں۔ جب ہم حفاظت کرنے والے ہتھیار ہی توڑ دیں گے، تو وہ ہمارا تحفظ کیسے کرپائے گا۔ اور یہ ہتھیار جھوٹ بولنے اور غیبت کرنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ 
اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمارا روزہ ہی بھوک پیاس سے ہماری حفاظت کرے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم جھوٹ اور غیبت کرنے سے بچیں اور روزے کے دیگر تمام تقاضوں پر عمل کریں۔ اگر کسی دن ہمیں روزہ لگ جاتا ہے، تو اپنا محاسبہ کریں کہ آج ہم سے کونسا گناہ ہوگیا ہے، جس سے ہماری حفاظت کرنے والا ہتھیار روزہ ٹوٹ گیا ہے اور ہماری حفاظت نہیں کر پارہا ہے۔ 
آج جھوٹ بولنا اور غیبت کرنا ہم نے اپنے روزہ کاٹنے کا ذریعہ بنالیا ہے، جس سے ہمیں روزہ بھی بہت لگتا ہے اور اس مشقت کا کوئی حاصل بھی نہیں نکلتا ، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ 
من لم یدع قول الزور والعمل بہ، فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ و شرابہ
جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹی باتوں پر عمل نہیں چھوڑا، تو اللہ کواپنے نام پر کھانا پینا چھوڑ دینے والے کی کیا ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں روزہ کو اس کے تقاضے کے مطابق رکھنے اوربالخصوص روزہ کی حالت میں جھوٹ اور غیبت سے ہماری حفاظت فرمائے ، آمین۔ 

14 May 2018

رمضان ، میڈیا اور سوشل میڈیا

رمضان ، میڈیا اور سوشل میڈیا 
محمد یاسین جہازی


میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا ، اسی طرح انٹرنیٹ؛ بالخصوص موبائل کے استعمال کے تعلق سے ہمارے اکابر رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔ کچھ کا ماننا ہے کہ یہ وقت اور ایمان کے لیے زہر ہلال ہے، اس کا بالکلیہ استعمال چھوڑ دینا ضروری ہے۔ جب کہ کچھ حضرات انھیں نعمت بتاتے ہوئے مکمل استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک تیسرا نظریہ یہ پایا جاتا ہے کہ احتیاط اور خوف خدا کو پیش نظر رکھتے ہوئے استعمال کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ 
راقم کا بھی ماننا یہی ہے کہ کوئی بھی چیز فی نفسہ اچھی یا بری نہیں ہوتی، ہم اپنے استعمال سے اسے اچھی بری بناتے ہیں۔ اس فکر کی توضیح کرتے ہوئے سید سلیمان ندویؒ یہ مثال دیتے ہیں کہ اگر آگ سے کسی غریب کا کھانا پکادیں، تو یہ اچھی آگ ہے، لیکن کسی جھوپڑی کو جلا دیں، تو یہ بری آگ ہے۔ بعینہ یہی صورت ان چیزوں کی بھی ہے۔ اگر اچھے مقاصد کے لیے ان کا استعمال ہورہا ہے ، تو ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ایک مومن کا حق ہے۔ اور اگر استعمال پر قابو نہیں رکھ پا رہے ہیں، تو یہ ہمارے ایمان کے لیے مہلک اور سم قاتل بھی ہیں۔ 
رمضان کے لمحات کی عظمت وبرکت سے کون واقف نہیں، اس کی ایک ایک گھڑی کو نیک کاموں میں صرف کرنا ایک مسلمان ضروری سمجھتا ہے، لیکن جہاں ایک طرف میڈیا، سوشل میڈیا ، موبائل اور انٹرنیٹ وقت ضائع کرنے کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے، وہیں تقاضائے حیات کے بنیادی ضروریات میں بھی شامل ہیں، جن سے بچنا ناممکن ہے ۔ ؛لہذاایسی صورت حال میں رمضان میں کیا کیا جائے؟ یہ سوال ہر ایک شخص کے ذہن میں گردش کرتا ہے۔ درج ذیل سطور اسی کے جواب پر مشتمل ہیں ، ملاحظہ فرمائیں:
(۱) اگر ممکن ہو تو پورے رمضان انڈورائڈ موبائل کا استعمال ترک کردیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ بہت سارے افراد کے لیے یہ ممکن نہیں ہے، تو کم از کم سوشل میڈیا کا استعمال چھوڑ دیں۔ 
(۲) سوشل میڈیا میں بالخصوص فیس بک ایپ ڈیلیٹ کردیں۔ یا کم از کم پورے رمضان اسے نہ کھولیں۔ 
(۳) واٹس ایپ کا استعمال بقدر ضرورت کریں۔ بالخصوص گروپ سے ایگزٹ ہوجائیں، یا اس کے میسجیز دیکھنا بالکل بند کردیں۔ 
(۴) یوٹیوب کا استعمال بالکل نہ کریں۔ اگر عادت پڑجانے کی مجبوری ہوگئی ہو تو ، صرف اسلامی بیانات: حمد، نعت اور تقاریر ہی سنیں، یا کسی موضوع پر آپ تیاری کر رہے ہیں، اور اس سے متعلق ویڈیو دیکھنا ضروری ہے، تو صرف وہیں دیکھیں۔ اس کے علاوہ بالکلیہ کچھ نہ دیکھیں اور نہ سنیں۔ 
(۵) لوگوں سے رابطہ بالکل کم کردیں۔ بہتر ہے کہ اگر ممکن ہو تو رمضان میں رابطہ کے لیے کوئی وقت مخصوص کردیں اور اس وقت کے علاوہ کسی وقت موبائل کو پاس نہ رکھیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہوتو ، محض ضرورت کے بقدر رابطہ پر اکتفا کریں۔ بلا ضرورت نہ خود بات کرکے اپنا وقت ضائع کریں اور نہ ہی دوسروں کے ضائع کرنے کا سبب بنیں۔ 
(۶) یہ سب سے اہم بات ہے کہ ہمارے کچھ نوجوان ، جو جسمانی کام کرتے ہیں، یا گاڑی وغیرہ چلاتے ہیں، وہ وقت گذاری کے لیے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، جس میں یا تو ایف ایم سنتے رہتے ہیں، جس میں ہمہ وقت گانے ہی بجتے ہیں، یا پھر اسے گانے کی وجہ سے گناہ سمجھتے ہیں اور نہیں سنتے، لیکن سی ڈی ، ڈی وی ڈی پلیر لگالیتے ہیں اور اس میں قوالیوں کو ثواب سمجھ کر سنتے ہیں۔ ساری قوالیاں یا تو عورتوں کی آواز میں ہوتی ہیں، یا پھر میوزک کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اور آج کل کی اکثر قوالیاں دونوں حرام عناصر پر مشتمل ہوتی ہیں۔
یاد رکھیے ! میوزک کے ساتھ خواہ نعت اور حمد ہی کیوں نہ ہو سننا جائز نہیں، تو قوالی چہ معنی دارد؟ اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ثواب سمجھ کر سننا!!! ایں چی بولعجبی است؟؟؟ ۔ اس لیے میوزک کے ساتھ قوالی سننے سے بالکلیہ پرہیز کریں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ روزے کے تقاضے کو پورا نہ کرسکنے کی وجہ سے ہمیں صرف بھوکا پیاسا رہنے کی تکلیف ہو اور ثواب اور رمضان کی برکت سے بالکلیہ محروم ہی ہوجائیں۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان و احتساب کے ساتھ اور روزہ، تلاوت اور تراویح کی پابندی کے ساتھ رمضان گذارنے کی توفیق عطا فرمائے اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے، آمین۔ 

11 May 2018

رمضان اور ہمارے نظریات

رمضان اور ہمارے نظریات

محمد یاسین جہازی 
خطیب الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ 

’’انسانی تہذیب و تربیت کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں: (۱) تخلیہ: یعنی نفس سے بری باتوں کو چھڑانا۔ (۲) تحلیہ: یعنی نفس میں اچھی باتیں پیدا کرنا۔ اور اسی کا دوسرا نام امر و نہی ہے۔ رمضان مین دن کے روزے کے ذریعہ مجموعہ تروک کے ذریعہ نفس کو مانجھا جاتا ہے اور رات کو اس صاف شدہ ظرف پر تلاوت و تراویح سے قلعی کی جاتی ہے، جس سے وہ چمک اٹھتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نفس کی تطہیر و تزکیہ کے لیے رمضان میں دن کو روزہ اور رات میں تراویح کا سسٹم مقرر کیا ہے۔ اس لیے ایک مومن ہمیشہ رمضان کا انتظار کرتا ہے ، تاکہ وہ اس مقدس مہینے کی برکت و سعادت سے فیضیاب ہوسکے۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ 
لو تعلم امتی ما فی رمضان لتمنوا ان تکون السنۃ کلھا رمضان
اگر میری امت کو رمضان کے خیرو برکت معلوم ہوجائے تو اس کی تمنا یہ ہوگی کہ ائے کاش پورا سال ہی رمضان بن جائے۔ صحابہ کرام اور اولیاء عظام کی سیرتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ رمضان کا شدت سے انتظار کرتے تھے اور کئی مہینے پہلے ہی رمضان کے استقبال کی تیاریاں شروع کردیتے تھے۔ استقبال رمضان کے تعلق سے خود حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کی مجلس میں اہمیت کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں کہ 
ماذا یستقبلکم و ماذا تستقبلون؟
کون تمھارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟ آخر حدیث میں اس کا راز بتاتے ہوئے سرورکائنات فرماتے ہیں کہ ایک ایسا مہینہ آرہا ہے ، جس کی پہلی رات کو ہی سب اہل قبلہ کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ اس ارشاد کو سننے کے بعد صحابہ رمضان کے استقبال کے لیے سراپا پرجوش ہوجاتے ہیں ۔ ؂
ماہ صیام پچھلے برس سے ابھی تلک
تو ہی بسا ہوا ہے دل بے قرار میں
دنیا کے طول و عرض میں لاکھوں کروڑوں لوگ
آنکھیں بچھا چکے ہیں تیرے انتظار میں
اور
ہورہا ہے مسجدوں میں رنگ و روغن آج کل
ہر طرف محراب و منبر پر نیا سا نور ہے
پوچھتے ہیں چاند سے گنبد و مینار بھی 
رحمتوں کا وہ مہینہ ہم سے کتنا دور ہے
ایک مومن کی شان یہ ہے کہ اسے رمضان مقدس کے حوالے سے پرجوش اور سراپا استقبال ہوجانا چاہیے، لیکن وائے ناکامی! کہ ہم لوگ اس جذبہ سے محروم نظر آتے ہیں ۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے بہت سے افراد استقبال تو دور ؛ رمضان کو ایک قید اور روٹین لائف کے لیے بوجھ سمجھتے ہیں ۔ بہت سے افراد اس سے آگے کی جرات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا ہمارے گھر میں کھانے کی چیز نہیں ہے ، جو روزہ رکھیں۔ کچھ لوگوں کو اپنے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ ہم روزہ کی شدت برداشت نہیں کرسکتے؛ اس لیے روزہ ہی نہیں رکھتے۔ کچھ لوگ مسجد اور مسلم حلقوں سے دور رہتے ہیں تو اس وجہ سے روزہ نماز پر توجہ نہیں دیتے۔ کچھ لوگوں کا معمول یہ ہے کہ جس دن جی چاہا رکھ لیا، اور تراویح پڑھ لی۔ اور جس دن سستی آئی، دونوں کوچھوڑ دیا؛ خلاصہ کلام یہ ہے کہ رمضان ہمارے شوق و رغبت کے مطابق نہیں؛ بلکہ خواہش نفس کے مطابق گذرتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اس باعظمت اور برکت والے مہینے کی برکتوں اور رحمتوں سے محروم رہتے ہیں ۔ اور پورا رمضان گذرجانے کے باوجود نہ تو ہم اپنے نفس کا تخلیہ کرپاتے ہیں اور نہ ہی تحلیہ۔ 
اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کا استقبال کرنے اور اس کے روزہ و تراویح ادا کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔

10 May 2018

جہاز قطعہ ،جمعیۃ علماء گڈاور جمعیۃ علماء ہند

جہاز قطعہ ،جمعیۃ علماء گڈاور جمعیۃ علماء ہند

محمد یاسین جہازی 
 9871152408
(1)جہاز قطعہ اور جمعیۃ علماء گڈا
ریاست جھارکھنڈ کے ضلع گڈا میں واقع ایک بستی کا نام ’’جہاز قطعہ ‘‘ ہے۔ ایک طرف جہاں یہ نام بذات خود ایک تاریخ کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہیں دوسری طرف یہ گاوں تاریخ میں بڑا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ یوں تو اس کے کئی تاریخی پہلو ہیں، لیکن سردست عنوان کی مناسبت سے چند حقائق و تواریخ پیش کی جارہی ہیں۔ 
راقم کا ماننا ہے کہ اس گاوں کا ہر فرد پیدائشی طور پر جمعیتی ہے ، کیوں کہ جمعیۃ علماء کے حوالے سے یہاں کے اہالیان ہمیشہ پرجوش اور مستعد نظر آتے ہیں اور یہ یقیناًمرکزی ، ریاستی اور ضلعی اکابرین جمعیۃ کی نگاہ کرم ، خصوصی توجہ، بہت قدیم اورمضبوط و مستحکم تعلق کی برکت ہے۔ اس تعلق کے تاریخی سلسلہ پر نظر ڈالیں تو ۱۱؍ جون ۱۹۶۵ء کو منعقد ہونے والے اجلاس عام میں سالار جہازی حضرت مولانا محمد منیر الدینؒ اور مولانا شمس الحق صاحبان کومجلس عاملہ کا رکن اورمولانا قاری قطب الدین ؒ کو مجلس منتظمہ کا رکن بنایا گیا ۔ لیکن حضرت مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ نے کسر نفسی اور مدرسے: مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کی مکمل ذمہ داری کی وجہ سے رکنیت قبول نہیں کی، لیکن عملی طور پر مکمل ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اس کا اندازہ حضرت کے اس مکتوب سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
محترم المقام جناب مولانا شمس الضحیٰ صاحب زیدت عنایتکم 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بندہ بخیر ہے ، امید ہے کہ مزاج اچھے ہوں گے ۔ بندہ نہایت ناکارہ ہے۔ میرا نام جو رکن میں دے دیا گیا ہے ، کچھ مناسب نہیں ہے ۔ بندہ ہر حال میں جو کچھ بن پڑے گا ، خدمت کرے گا۔ میرے نزدیک نہایت مناسب یہ بات ہے کہ مولوی سراج الدین صاحب میری جگہ پر ممبری رکھ لیجیے۔ اور ضلع کے لیے قاری قطب الدین کے بجائے مولوی سراج الدین کو نامزد کرلیجیے۔ یہ آپ سے قریب بھی ہیں۔ آپ کی جمعیۃ کی کمیٹی میں شرکت فرمائیں گے اور جمعیۃ کو مضبوط کرنے میں زیادہ سے زیادہ مدد دیں گے ۔ مدرسہ کی کمیٹی بدھ کو ۱۲؍ بجے دن کو ہوگی۔ اس میں ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء ہند کو مدعو کرنے پر غور ہوگا۔ اس فیصلہ کے بعد سرگرمی سے جلسہ کا انتظام ہوگا۔ 
والسلام محمد منیر الدین غفرلہ مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ ، بتاریخ ۹؍ رمضان ۱۳۵۸ھ (۳۱؍ دسمبر ۱۹۶۵ء)
۲۰؍ مئی ۱۹۶۶ء کو جب پورے سنتھال پرگنہ کے دورہ کا پروگرام بنایا گیا ، تو مولانا شمس الحقؒ نے پاکوڑ سب ڈویژن کے لیے ہر ہفتہ دو روز جمعیۃ کے کاموں کے لیے وقف کردیا۔ 
۱۲؍ نومبر ۱۹۶۷ء مطابق ۹؍ شعبان ۱۳۸۶ھ بروز اتوار کو منعقد مجلس عاملہ و منتظمہ کے اجلاس میں مولانا عبدالقدوس صاحب کو منتظمہ کا رکن بنایا گیا۔ پھر مورخہ ۷ا؍ مئی ۱۹۷۳ء بروز جمعرات کی انتخابی میٹنگ میں مولانا محمد مظہر الحق صاحب کو جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ اور اسی میٹنگ میں مولانا محمد عرفان مظاہری صاحب کو ناظم دفتر چنا گیا۔ ۲۴؍ مئی ۱۹۷۵ء کی شام مجلس عاملہ کی ایک نشست ہوئی، جس میں حسب سابق مولانا محمد مظہر الحق صاحب ناظم اعلیٰ برقرار رہے ۔ علاوہ ازیں مولانا محمد شمس الحق اورمولانا محمد عرفان مظاہری صاحبان کونائب ناظم بنایا گیا۔ بتاریخ ۱۲؍ مئی ۲۹۷۸ء کو ہونے والی ایک خصوصی میٹنگ میں جمعیۃ علماء کے زیر اہتمام شرعی پنچایت کا قیام عمل میں آیا جس کے بنیادی اراکین میں مولانا محمد مظہر الحق قاسمی ناظم اعلیٰ ضلع جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ اورمولانا محمد عرفان مظاہری کے نام شامل رہے۔ 
مرکزی حکومت نے اقلیتی کمیشن قائم کرنے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ ’’حکومت اقلیتوں کے مسائل پر ہمدردانہ غور وخوض کرکے شکایات کو دور کرے گی‘‘۔ اس اعلان کے تحت صدر ضلع جمعیۃ کو یہ اختیار دیا گیا کہ ضلع کے کارکنوں ، ذمہ داروں اور ہمدردوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ، جو اقلیتوں کے مسائل پر رپورٹ تیار کرے اور حکومت کے سامنے پیش کرے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے مختلف اضلاع کی طرح جمعیۃ علماء ضلع سنتھال پرگنہ نے بھی اہم شخصیات پر مشتمل ایک ’’ضلع اقلیتی کمیٹی‘‘ تشکیل دی ، جس میں مولانا محمد مظہر الحق صاحب بھی کمیٹی کے ممبر چنے گئے۔ 
مورخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۸۱ء بروز اتوار بوقت ۴؍ بجے شام زیر صدارت جناب ماسٹر شمس الضحیٰ صاحب صدر جمعیۃ علماء ضلع سنتھال پرگنہ، بمقام مسجد و مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ مجلس عاملہ و مجلس منتظمہ کا مشترکہ اجلاس ہوا۔جس کی تجویز نمبر (۶) میں آئندہ سال (۱۹۸۲ء) میں جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے تنظیمی ، اصلاحی اور مالیاتی دورے کا پروگرام بنایا گیا، جس میں اہالیان جہازی میں سے مولانا محمد مظہر الحقصاحب نیپچاس روز حسب سہولت، مولانا محمد عرفان مظاہری نے چالیس روز حسب سہولت، مولوی محمد حبیب الرحمان صاحب نے پندرہ روز اپریل میں۔ مولانا عبدالقدوس صاحب نے سات روز حسب ضرورت اپنا قیمتی وقت جمعیۃ علماء کے لیے وقف کیا۔ اور مختلف مقامات پر دورے کرکے جمعیۃ کے کاز کو تقویت پہنچائی۔ اس اجلاس میں انتخابی کارروائی بھی ہوئی جس میں مولانا محمد مظہر الحق قاسمی نائب صدر،مولانا محمد عرفان مظاہری اور مولانا محمد شمس الحق صدیقی صاحبان نائب ناظم چنے گئے۔ اسی طرح مولانا محمد مظہر الحق قاسمی کو جمعیۃ علماء ریاست بہار کا نمائندہ رکن اور مولانا محمد عرفان مظاہری کو رکن عاملہ مقرر کیا گیا۔ 
مورخہ ۲۱؍ دسمبر ۱۹۸۱ء بروز سوموار شام کو کھٹنئی میں مجلس عاملہ کی خصوصی نشست بلائی گئی۔ اس میں مختلف تجاویز پاس کی گئیں، جن میں سے ایک تعمیری پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف مقامات کا خصوصی دورہ بھی شامل تھا۔ اس کے لیے مولانا محمد عرفان مظاہری، ریسمبا اورکپیٹہ کے لیے،مولانا محمد حبیب الرحمان کدما اورجھپنیاں کے لیے تعمیری پروگرام کا نمائندہ بنے۔ ۱۴؍ جنوری ۱۹۸۲ء بروز جمعرات شام ۷؍ بجے جامع مسجد جہاز قطعہ میں مجلس عاملہ کی ایک خصوصی میٹنگ ہوئی ۔ جس میں جہازیوں نے مہمانی کا فریضہ انجام دیا۔ ۶؍ مئی ۱۹۸۴ء بروز اتوار بعد نماز ظہر بمقام روپنی مدرسہ ،عاملہ و منتظمہ کی مشترکہ میٹنگ ہوئی۔اس کی ایک تجویز میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جمعیۃ علماء علاقہ روپنی کی دعوت پر کانفرنس کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے دو روزہ تعلیمی کانفرنس منعقد کیا جائے ۔ اور اس کے لیے ایک مجلس استقبالیہ تشکیل دی گئی، جس کے سکریٹری مولانا محمد عرفان مظاہری تھے۔ 
اس میٹنگ کی تجویز نمبر (۳) کے تحت تعلیم ؛بالخصوص دینی تعلیم کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے تعلیمی بورڈ کے سلسلہ میں ایڈھاک کمیٹی کی تشکیل کی گئی ، تاکہ آئندہ باضابطہ بورڈ کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ اس کمیٹی کے ممبر میں بھی جہازی کی نمائندگی رہی اور مولانا محمد مظہر الحق قاسمی و مولانا محمد عرفان مظاہر ی کا نام شامل کیا گیا۔ اس میٹنگ کی آخری نشست میں انتخاب ہوا، جس میں مولانا محمد عرفان مظاہری ناظم اعلیٰ اور مولانا محمد مظہر الحق قاسمی نائب صدر چنے گئے۔ 
مورخہ ۱۳ ، و ۱۴؍ اپریل ۱۹۸۶ء بروز اتوار، سوموار بمقام روپنی (کھروا بلتھر) تھانہ موہن پور ضلع دیو گھر تعلیمی و ملی کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کے لیے ناظم اعلیٰ مولانا محمد عرفان مظاہری صاحب نے قبل از کانفرنس اس کو کامیاب بنانے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ جدوجہد کی انتہا کا اندازہ آپ اس تجویز سے لگاسکتے ہیں، جو قبل از کانفرنس ، کانفرنس کی تیاریوں کے جائزہ کے لیے ایک میٹنگ منعقدہ ۱۴؍ فروری ۱۹۸۶ء بروزجمعہ میں پاس کی گئی، جس کا متن یہ ہے کہ : مولانا محمد عرفان مظاہری جہاز قطعہ ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء گڈا قابل مبارک باد ہیں، جنھوں نے محمد نجم الہدیٰ کھٹنوی کے ساتھ بذریعہ سائکل سب ڈویژن دیوگھر، دمکااور پاکوڑ کا دورہ کیا اور مالیات کی فراہمی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی۔
جمعیۃ علماء ضلع گڈا کی مرکزی عہدوں کا تجزیہ کیا جائے تو ، مولانا مظہر الحق صاحب جہاز قطعہ از ۲۵؍ مئی ۱۹۷۵ء تا۱۷؍ مئی ۱۹۸۱ء اور مولانا محمد عرفان مظاہری صاحب از۶؍ مئی ۱۹۸۴ء تا۱۲؍ اپریل۱۹۸۷ء ناظم اعلیٰ جیسے باوقار اور ذمہ دار عہدے پر فائز رہے ۔ اسی طرح مولانا محمد مظہر الحق صاحب از۱۷؍ مئی ۱۹۸۱ء تا ۱۲؍ اپریل۱۹۸۷ء نائب صدر رہے ۔ اسی طرح از ۲۴؍ مئی ۱۹۷۵ء تا ۱۷؍ مئی ۱۹۸۱ء، پھر تا ۶؍ مئی ۱۹۸۴ء مولانا شمس الحق و مولانا محمد عرفان مظاہری صاحبان نائب ناظم کے فرائض انجام دیتے رہے۔۲۲؍ اگست ۱۹۹۹ء میں مولانا ثناء الحق صاحب نائب ناظم مقرر کیے گئے اور ۱۹؍ جون ۲۰۰۴ ء میں مولانا محمد مظہر الحق صاحب قاسمی ریاستی جمعیۃ علماء بہار کے رکن منتخب ہوئے۔ 
اس سے جہاز قطعہ اور جمعیۃ علماء گڈا کے درمیان مضبوط رشتے کا بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ اب آئیے جہاز قطعہ اور جمعیۃ علماء ہند کے رشتہ پر گفتگو کرتے ہیں۔
(2) جہاز قطعہ اور جمعیۃ علماء ہند
براہ راست جہاز قطعہ اور جمعیۃ علماء ہند کے درمیان بھی ربط و تعلق رہا ہے۔ چنانچہ۱۹۵۴ء میں جہاز قطعہ میں ایک عظیم الشان اجلاس کیا گیا، جس میں مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحب سیوہارویؒ ، ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، مولانا سید نور اللہ رحمانیؒ صدر جمعیۃ علماء بہار اور نائب صدر جمعیۃ ریاست بہار حضرت مولانا فخر الدین گیاویؒ بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ سولہ من کی تندوری پکائی گئی تھی۔ اس پروگرام نے علاقے میں انقلاب پیدا کردیا، جن کے اثرات اس کے مشاہدین اور شرکت کنندگان میں آج بھی موجود ہیں اور اس جلسہ کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ حضرت فدائے ملت ؒ بارہا اس گاوں میں تشریف لاچکے ہیں، چنانچہ جب گیا میں بائیسویں اجلاس عام طے کیا گیا، تو ضلع گڈا میں حضرت فدائے ملت نے تیرہ ایام تک دورے کیے ، جس میں ۳؍ شوال ۱۳۸۵ء مطابق ۲۶؍ جنوری ۱۹۶۶ء بروز بدھ بعد ظہر جمنی کولہ سے جہاز قطعہ تشریف لائے اور رات قیام فرمایا۔۱۵؍ تا ۱۷؍ اپریل ۱۹۶۶ء گیا میں اہل جہازی نے اپنی وسعت کے مطابق تعاون پیش کیا اور دستیاب ریکارڈ کے مطابق اہالیان جہازی کی طرف سے بمعرفت مولانا عبدالقدوس صاحب ۵۰۵؍روپیے ، مولانا مظہر الحق صاحب نے ۵۰، روپے، عبدالغفور صاحب ۴؍ روپے، کوثر اور کرامت علی وغیرہ نے ۵؍ روپیے ، مولانا حبیب الرحمان نے۱۰؍ روپے ،کوثر صاحب نے ۱۴؍ روپے، کل ۵۸۳؍ روپے کا ہدیہ پیش کیا۔ 
فروری ۱۹۶۹ء کو پورے گاوں والوں نے مل کر ایک بڑا جلسہ کیا، جس میں جہاں مولانا ابوالوفا شاہ جہاں پوریؒ ، مولانا محمد سالم صاحب ؒ صدر مہتمم دارالعلوم وقف دیوبنداور مشہور شاعر جناب ساجد لکھنوی نے شرکت کی وہیں، جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ نے بھی شرکت فرمائی اور اس گاوں کی عظمت میں اضافہ فرمایا۔ اسی سفر میں حضرت نے اہل جہازی کو بیعت ہونے کا شرف بخشا اور گاوں کے درجنوں مرد و عورت نے حضرت سے بیعت ہوکر اپنی اخروی زندگی کو سنوارا۔ مشاہرین جہازی کی زبانی روایات کے مطابق حضرت فدائے ملتؒ درجنوں مرتبہ جہاز قطعہ تشریف لائے اور جہازیوں کو میزبانی کا موقع فراہم کیا، جو اہل جہازی کے لیے فخریہ کی بات ہے۔  اسی طرح۲۵؍ مئی ۲۰۰۷ء کو جانشین فدائے ملت ؒ ،قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے گڈا و اطراف کا تنظیمی و اصلاحی دورہ کیا، جس میں ۲۶؍ مئی ۲۰۰۷ء کو آپ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ تشریف لائے اور بعد نماز عصر مختصر خطاب کے بعد ارادت مندوں کو اپنے سلسلہ سلوک سے وابستہ فرمایا۔ اس سفر میں مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند سے مولانا غیور احمد قاسمی شریک سفر تھے۔
جناب قاری صالح صاحبؒ کی تعزیت کے لیے ۱۳؍ ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۶ء بروز جمعہ امیر الہند رابع و صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند ، ضلع بھاگلپور بہار میں واقع کروڈیہہ تشریف لائے۔ ان دونوں معزز مہمانوں کی آمد کو علاقہ کے لیے باعث غنیمت سمجھتے ہوئے اس جگہ سے محض ۳۵؍ کلو میٹر دور جہاز قطعہ بھی تشریف آوری کی درخواست کی گئی۔ چنانچہ دونوں محترم نے قبول فرمایا ۔ اہل جہازی اور بالخصوص جہازی طلبہ دارالعلوم دیوبند نے آمد کی خوشی میں ۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۶ء کو جلسہ استقبالیہ رکھا۔ امیر الہند طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے تو تشریف نہ لاسکے ؛ البتہ مجاہد دوراں حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے اپنی آمد سے اہل جہازی کو سرفراز فرمایا۔ 
اس گاوں کو یہ نسبت بھی حاصل ہے کہ یہاں کے فرزند جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی آفس میں اپنی خدمات پیش کرچکے ہیں اور تاحال کررہا ہے۔ چنانچہغالبا۱۹۸۹ء میں مولانا محمد اختر صاحب جہازی تاجر کتب جمعیۃ علماء ہند کا ترجمان الجمعیۃ کی کتابت کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔اور ناچیز محمد یاسین قاسمی( ابن جناب محمد مظفر صاحب دام ظلہ ) ۲۰۰۸ء کے آواخر سے تا حال ملازمت گیر ہے۔ پہلے تین سال تک شعبہ میڈیا سے وابستہ رہا، پھر ادارہ مباحثہ فقہیہ کا کام کیا۔ بعد ازاں لائبریرین بنا۔ اور اب مستقل کچھ سالوں سے مرکز دعوت اسلام کے ساتھ ساتھ جمعیۃ یوتھ کلب کی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔
دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی جہازیوں اور جمعیۃ علماء کے درمیان یہ تعلق برقرار رکھے اور قوم وملت کی خدمات میں جہازیوں کو ہمیشہ آگے رہنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔

9 May 2018

قسط نمبر (11) تکلیف شرعی اور جزا وسزا

تکلیف شرعی اور جزا وسزا

قسط نمبر (11) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی تکلیف شرعی کی صلاحیت رکھتا ہے، تو شریعت کی اطاعت میں جزا اور اس کی خلاف ورزی ضرور سزا کی مستحق ہونی چاہیے؛ کیوں کہ اگر ایسا نہیں ہوا، تو اطاعت ، نافرمانی اور مکلف بنانے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔ اب انسان کو اچھے اعمال پر اچھا بدلہ اور برے اعمال پرجو سزادی جاتی ہیں، اس کی چار وجوہات ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(۱) اس لیے کہ وہ انسان ہےانسان کے اعمال پر اس کو بدلہ اس لیے ملنا ضروری ہے کہ وہ انسان ہے، صاحب عقل و ادراک ہے۔ اگر یہ صاحب عقل و ادراک نہ ہوتا، تو پھر جزا وسزا کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ اور یہ معاملہ ایسا ہی ہے کہ جیسے انسان گھاس نہیں کھاتا اور چرنے والے جانور گوشت نہیں کھاتے؛ کیوں کہ دونوں کی فطری تخلیق اسی بات کی مقتضی ہے کہ جو جس فطرت اور نوعی صورت پر پیدا کیا گیا ہے، وہ وہی کام کرے۔ اگر کوئی اس کے خلاف کام کرے گا ، مثلا انسان گھاس کھانا شروع کردے اور چرند جانوروں کو گوشت کھلایا جانے لگے، تو دونوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ لہذا انسان کو تکلیف کی ذمہ داری سونپنے کے بعد اور اس وجہ سے کہ وہ انسان ہے ، عقلی قوت کا مالک ہے، انھیں امتثال امر پر جزا اور خلاف شریعت کام کرنے پر جزا دینا ضروری ہے۔
(۲) عالم بالا کے فرشتے کی دعائیں اور لعنتیں
انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقت فرشتے متوجہ رہتے ہیں ۔ فرشتوں کی دو جماعتیں ہر وقت انسانوں کے ساتھ ساتھ رہتی ہیں، جو ان کی حفاظت کرتی رہتی ہیں ،یہ فرشتے جہاں ان کی دنیاوی مصیبتوں سے حفاظت کرتے ہیں ، وہیں انھیں گناہوں سے بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر بندہ نیک کام کرتا ہے، تو اس کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں ۔ اگر برے کاموں میں لگا رہتا ہے، تو پھر اس کے لیے بد دعائیں کرتے ہیں ۔ فرشتوں کے یہ دونوں عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ انسانوں کے ذریعے انجام دیے جانے والے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جانا نظام کائنات کے فطری نہج پر چلنے کے لیے ضروری ہے ؛ ورنہ انسانوں کے لیے فرشتے کی تخلیق اور انسانوں کے اچھے کاموں پر دعاوں اور برے کاموں پر بد دعاوں کاجو نظام خداوندی ہے، وہ بے معنی ہوجائے گا۔ 
اس مضمون کے ثبوت کے لیے بے شمار احادیث ہیں، جن میں دعاوں اور بد دعاوں کا تذکرہ ہے۔ اختصار کے پیش نظر ایک دو حدیث ہی پیش کی جاتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا کہ :
الملائکۃُ یتعاقبون فیکم ملائکۃ باللیل، و ملائکۃ بالنھار،ویجتمعون فی صلاۃ الفجر و صلاۃ العصر،ثم یعرجون الذین باتو فیکم ، فیسألھم ، وھو أعلم بھم، کیف ترکتم عبادی؟ قالوا: ترکنا ھم وھم یصلون ، أتیناھم و ھم یصلون،قال: وقال رسول اللہ ﷺ: الملائکۃ تصلی علیٰ أحدکم ما دام فی مصلاہ الذی صلیٰ فیہ، تقول: اللھم اغفر لہ اللھم ارحمہ مالم یحدث (شعب الا8یمان للبیھقی، الحادی و العشرون من شعب الا8یمان وھو باب فی الصلاۃ، فصل فی الصلاۃ الخمس فی الجماعۃ آہ)
دن اور رات کے فرشتے تمھاری نگرانی کرتے ہیں اور نماز فجر و عصر کے وقت اکٹھا ہوجاتے ہیں۔ پھر رات گزارنے والے فرشتے اوپرچلے جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرتے ہیں ، حالاں کہ اللہ کو سب کو معلوم ہوتا ہے : میرے بندے کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم انھیں اس حال میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ وہ نماز میں مشغول تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے ، تب بھی وہ نماز میں ہی تھے۔ راوی ارشاد نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے تمھارے لیے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں، جب تک تم اپنی نماز کی جگہ پر رہتے ہو۔ فرشتہ کہتا ہے کہ ائے اس کی مغفرت فرما، ائے اللہ اس پر رحم کا معاملہ فرما۔ یہ دعا بندے کے وضو ختم ہونے تک جاری رہتی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ 
المدینۃ حرمٌ مِن کذا ا8لیٰ کذا،لایُقطعُ شجرُھا، ولایُحدثُ فیھا حدثٌ، من أحدث حدثا ، فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین (صحیح البخاری،کتاب الحج، باب حرم المدینۃ)
شہر مدینہ یہاں سے وہاں تک حرم ہے،اس کے درختوں کو نہ کاٹا جائے اور نہ اس میں کوئی نئی چیز پیدا کی جائے، جو اس میں نئی چیز پیدا کرے گا، تو اس پر اللہ، فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مجازات اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسانوں کے اعمال پر فرشتوں کی دعائیں یا بد دعائیں ساتھ لگی رہتی ہیں۔
(۳) نزول شریعت 
ہر زمانے میں اس دور کے تقاضے کے مطابق شریعتیں آتی رہی ہیں۔ زمانے کے مقتضیات کے مطابق میں ان میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ شریعتوں پر عمل کرنا باعث اجر اور ان کی خلاف ورزی موجب سزا ہونا ضروری ہے، ورنہ شریعت کو نازل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اطاعت و خلاف ورزی پر جزا و سزا کو معیار نہ بنایا جائے گا، تو مکلف بنانے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا، لہذا شریعت بھی چاہتی ہے کہ امتثال امر پر جزا کا مستحق بنے اور خلاف ورزی کرنے پر اسے سزا دی جائے۔
(۴)انبیا علیہم السلام کی تعلیمات
دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی یا رسول نہ بھیجا ہو۔ نبی لوگوں کو خیر و فلاح کی دعوت دیتے ہیں اور پیغام خداوندی کو پہنچاکر انھیں نیک بننے اور مرضیات الہی کے مطابق زندگی گذارنے کے طریقے سکھاتے ہیں۔ انبیا کی محنت اور اللہ کے پیغامات کا لازمی تقاضا ہے کہ جو ان کے بات مانے اور ان پر عمل کرے، ان کی تحسین کی جائے اور انھیں اس کا بہترین بدلہ ملے۔ اور جو لوگ ایسا نہ کریں، انھیں سخت سے سخت عذاب دیا جائے۔ 

8 May 2018

قسط نمبر (10) علوم خمسہ


قسط نمبر (10) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 
(۱)توحید و صفات کا علم

اس علم کا تعلق ایسے مضامین سے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اپنے خالق و مالک کو پہچاننے کی دعوت دی جاتی ہے اور صرف پہچاننا ہی کافی نہیں ہے؛ بلکہ اپنے خالق کے سامنے اپنی پوری نیازمندی اور اطاعت شعاری کا اقرار وعمل بھی ضروری ہے۔ اسی طرح تہذیب نفس کے لیے صفات باری تعالیٰ کی معلومات بھی ضروری ہے۔ ایک انسان اپنی خلوت و جلوت میں اسی وقت گناہوں پر قابو پاسکتا ہے، جب اسے اس بات کا یقین ہو گاکہ، جو اس کا خالق و مالک ہے ، وہ ہر وقت اس کی نگاہ میں ہے، اسے اپنے کیے ہر عمل و فعل کا حساب دینا ہے۔جب تک انسان کے ذہن میں یہ تصور و یقین پیدا نہیں ہوگا، تب تک کوئی بھی قانون اور طاقت اسے برائیوں پر آمادگی سے نہیں روک سکتی ۔
(۲)عبادتوں کا علم
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کو یہ سیکھنا ضروری ہے کہ، جو اس کا معبود ہے ، اس کیعبادت کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اس کی بندگی اور اس کے حضور نیازمندی کیسے پیش کی جاتی ہے؟ وہ اعمال کون سے ہیں، جن سے اس کا آتش غضب بھڑک اٹھتا ہے اور وہ کون سے طریقے ہیں، جسے وہ پسند کرتا ہے اور اسے کرنے پر خوش ہوتا ہے؟ جب تک عبادت کا صحیح طریقہ معلوم نہیں ہوگا، تو بندگی کا غلط طریقہ اس کے قرب و رضامندی حاصل کرنے کے بجائے ناراضگی اور دوری کا سبب بن جائے گا۔
(۳) تدبیرات نافعہ کا علم
انسان کی پیدائش کا اصل مقصد گرچہ اللہ کی عبادت کرنا ہی ہے، لیکن اسے ایک مدت تک دنیا میں ہی رہنا ہے ، اس لیے دنیاوی زندگی کے لیے بھی وسائل حیات سے فائدہ اٹھانے کی جان کاری حاصل کرنا ضروری ہے۔دنیاوی علوم و فنون کی تحصیل کی اسی لیے حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ جب تک انسانوں کے پاس زندہ رہنے کے سامان ہی نہ ہوں گے، تو محض عبادت پر زندگی کیسے گذاری جاسکتی ہے، لہذا بقدر ضروریات زندگی ، علم معاش اور وسائل زندگی کے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کو سیکھنا بھی ضروری ہے۔
(۴) استدلال و نتائج کا علم
اس علم کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے پیش رو اور بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان کے واقعات حیات سے عبرت پکڑتے ہوئے زندگی کے مراحل میں آگے قدم بڑھاتا رہے۔ اگر ہمارے بزرگوں نے ایک چیز کا تجربہ کیا اور اس سے ایک نتیجہ اخذ کیا، تو اب ہم اپنا سفر اس نتیجے سے شروع کریں گے، تبھی ہمارے لیے ترقی کی اگلی راہیں کھلیں گی۔ اوراگر ہم بزرگوں کے تجربے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے استدلال و نتائج کو پس پشت ڈال دیں اور پھرسے شروع سے چلنے کی کوشش کریں، تو نتیجۃ ہماری زندگی کے یہ لمحات ایک ہی تجربے میں سمٹ کر رہ جائیں گے اور ترقی کی راہیں مسدود ہوجائیں گی۔ پھر زندگی کا نقشہ کولہو میں گھومنے والے بیل کی طرح نظر آئے گا، جو دن بھر چلنے کے باوجود وہیں کا وہیں کھڑا رہتا ہے، جہاں سے وہ چلا تھا۔مثال کے طور پر تاریخ میں ایک قوم گذری ہے: قوم لوط۔ یہ قوم لواطت جیسے سنگین جرم میں ملوث تھی ، جس کے سبب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور پوری قوم تباہ و برباد کردی گئی۔ اب یہ واقعہ ہمارے لیے یہ استدلال اور نتیجہ فراہم کرتا ہے کہ اگر ہم بھی اس طرح کی نافرمانی میں مبتلا ہوئے ، تو یقیناًہمارا انجام بھی وہی ہوگا، جو پہلے ہوچکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ انجام کی نوعیت اور اس کی شکل اس سے مختلف ہوسکتی ہے، جو پہلے ہوچکی ہے، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ اس گناہ کا عموم بلویٰ ہوجائے اور عذاب الٰہی کی پکڑ نہ ہو۔
(۵) نصیحت کا علم
جن برے کاموں پر عذاب الٰہی نازل ہوا ہے، ان کا تذکرہ کرکے، ان برائیوں سے باز رہنے اوراچھے کاموں پر انعامات کے قصے سنانے کا نام نصیحت ہے۔ تہذیب نفس اور انسان کوگناہوں پر کنٹرول کرنے کے لیے پندو موعظت بھی بہت ضروری ہے۔ دنیاوی مشغولیات سے دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے اور برائیوں کی طرف رغبت پیدا ہونے لگتی ہے، اس سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ وقتا فوقتا وعظ و نصیحت سے زنگ کو دور کریں اور مرضیات الٰہی پر چلنے کی رغبت پیدا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک قصہ سناتے سناتے درمیان کلام میں عبرت و نصیحت کا مضمون بیان کرنے لگتا ہے ۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی طریقہ تھا کہ صحابہ کو وقفہ وقفہ سے وعظ کہا کرتے تھے۔
وعظ میں عموما تین طرح کے مضامین ہونے چاہیں:
(۱) اللہ پاک کی بے پایاں نعمتوں کا تذکرہ ہونا چاہیے ، کیوں کہ قانون فطرت ہے کہ الانسان عبد الاحسان۔ لہذا نعمت الٰہی کے تذکرہ سے اس کا دل موم ہوگا اور شکریہ کا جذبہ پیدا ہوگا۔
(۲)انبیاء و صالحین کے ایسے واقعات بیان کیے جائیں، جہاں حق و باطل میں کشمکش ہوا ہے، جن میں حق کو نجات اور باطل ناکام ہوا ہے۔ ایسے واقعات کو سن کر انسان کا دل پگھلنے لگتا ہے اور تبدیلی کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔پندو موعظت کے سلسلے میں قرآن کریم کا یہی طرز عمل ہے۔
(۳) مرنے کے بعد کے احوال، جنت و جہنم کے مناظر اور قیامت کی ہولناکی بیان کی جائے۔ ایسی باتیں سن کر آدمی کے اندر آخرت کی فکر جوش مارنے لگتی ہے اور اصلاح نفس جذبہ ابھرنے لگتا ہے۔
قسط نمبر (11) پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

6 May 2018

رہنمائے خطابت

حکایاتِ خودی

دارلعلوم دیوبندکی طویل المیعاد طالبِ علمی کی زندگی میں وہاں کی انجمنوں سے منسلک رہنے کی وجہ سے تقریرو خطابت کا شوق پید اہوا ۔اور اسے سیکھنے کے لیے ’’انجمن آئینۂ اسلاف طلبۂ ضلع گڈا جھارکھنڈ ‘‘کے ہفتہ واری پروگراموں میں شرکت کرنے لگا ۔اسی دوران اس فن کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر اس فن کا مطالعہ شروع کردیا اور اس میدان کے ماہرین اور نام ور مقررین سے صلاح ومشورہ کرتا رہا ۔ساتھ ہی مطالعے کا ماحصل لکھتا رہا اور ان حضرات کے تجربات بھی قلم بند کرتا رہا۔پھر ان دونوں کو یک جا کر کے ایک مقالے کی شکل دے دی گئی ،جو اب کتاب کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں موجود ہے ۔
فنی مطالعے کے دوران گرچہ متعدد کتابیں نظر سے گذریں اور ہر ایک کتاب سے بھر پور استفادہ کرنے کی کوشش کی گئی ؛لیکن اس کتاب کے اقتباسات میں صرف ’فنِ خطابت ‘ پر اکتفا کیا گیا ہے اور کبھی کبھار طوالت کے خوف سے گریز کرتے ہوئے کسی قدر طویل اقتباس بھی نقل کر لیا گیا ہے ۔اس کی کئی وجوہات پیش نظر تھیں ۔ایک وجہ تو یہ تھی کہ اگر بعینہ وہی مفہوم اس کتاب میں موجود ہے ،تو اپنی عبارت پیش کرنے کے بجائے اسی کتاب کی عبارت نقل کردی گئی ہے تاکہ اپنی بات کی توثیق میں اقتباس لے کر مضمون کو مزید طویل ہونے سے بچا یا جاسکے ۔اور دوسری وجہ یہ تھی کہ جو فنی جامعیت اور نکتہ آفرینیاں اس کی عبارت میں تھیں دوسری کتابیں ان سے عاری تھیں ۔کتاب کے آخر میں ایک سو ساٹھ نکات ،اشارات اور ہدایات بیان کی گئی ہیں ،جن میں سے کچھ تو راقم الحروف کے تجر بات ہیں اور کچھ اساتذۂ فن کے مشورے ہیں ۔شروع کے چند نکات،اشارات ،ہدایات عبارت کے حذف واضافے اور ترمیم کے ساتھ ’تقریرو خطابت ‘سے لیے گئے ہیں اور آخر کے کچھ ہدایات شورش کاشمیری کے بیان کردہ ہیں ۔اور ان تمام کو ایکٹھا کر کے ایک بہترین گل دستہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس کوشش میں ہم کہاں تک کامیاب ہیں ، اس کا فیصلہ توآپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ البتہ عام مؤلفین کی طرح اس کوشش کے بار آور ہونے پر ہمیں بے حد خوشی ہورہی ہے ۔خوشی کے اس موقعے پر سب سے پہلے رب دوجہاں کا شکریہ ادا کرنا ہمارا واجبی فریضہ ہے ۔اگر اس بے پایاں کرم کا خصوصی فضل وکرم نہ ہوتا ، تو ہمارے اس کام کے سفر کو کبھی بھی منزل نہ مل پاتی ۔لم یشکرالناس؛لم یشکراللہ کے فرمان کے مطابق ہم شکر گزار ہیں تاج دار فکروفن ،نابغۂ عصر جناب مولانامحمد افتخار احمد قاسمی نائب صدر آل انڈیا ملی و تعلیمی فاؤنڈیشن نئی دلی کے ؛جن کی نیک توجہات اور دعائے سحر گاہی نے ہماری زندگی میں بڑا کام کیا اور تقریظ عنایت فرماکر شکریے کا موقع فراہم کیا ۔عظیم سیاسی و صحافی جناب مولانا عبدالحمید نعمانی سیکریٹری جمعیت علمائے ہند کا شکریہ ادا کیے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ،جنھوں نے بندے کی ادنیٰ سی درخواست کو شرفِ قبولیت سے نواز کر مسودے پر نظر ثانی فرمائی ۔دارالعلوم کے مبلغ اعظم جناب مولانا عرفان قاسمی کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے ،جن کی صلاح و اصلاح اور رہ نمائی و رہ بری نے زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کا داعیہ پیداکیا اور توصیفی جملے عنایت فرماکر کتاب کے حسن میں اضافہ کردیا ۔اسی طرح ہم جملہ معاونین،ناشرین قارئین اور کسی نہ کسی اعتبار سے مدد کرنے والے تمام حضرات کے شکر گزار ہیں ۔فجزاہم اللہ تعالیٰ خیر الجزاء۔
اخیر میں ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت تمام حضرات کوان کی خدمات کا بہترین صلہ دیں ،ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں اور اس کتاب کو مقبولِ خاص و عام بنائیں۔آمین ۔ثم آمین۔ یا رب العالمین۔
محمد یاسین قاسمی ۲۴؍رمضان المبارک۱۴۲۹ھ 
۲۵؍ستمبر،۲۰۰۸ 

اس کتاب کو آن لائن مطالعہ کرنے یا ڈاون لوڈ کرنے کے لیے کلک کریں

5 May 2018

قسط نمبر (9) انسان کی تربیت کے لیے شریعت ضروری ہے

انسان کی تربیت کے لیے شریعت ضروری ہے

قسط نمبر (9) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

مذکورہ بالا آیت میں انسان کو مکلف بنائے جانے والی صلاحتیوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے اندر ظلم اور جہل کی صفتیں ہیں۔ظلم انسان کی عملی قوت کی بے اعتدالی کا نام ہے اور جہل ذہنی و عقلی قوتوں کی بے اعتدالی کو کہاجاتا ہے۔ ظلم کی کیفیت میں اعتدال پیدا کرنے کا ذریعہ عدل ہے اور جہالت کو دور کرنے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاح میں علم کا دوسرا نام ’’ایمان‘‘ اور عدل کا دوسرا نام ’’عمل صالح‘‘ ہے۔ ارشاد ہے کہ :
وَالعَصْرِ۔ ا8نَّ الا8نْسانَ لَفی خُسْرِِ۔ ا8لَّا الَّذینَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ۔ (سورۃ: العصر، پ: ۳۰)۔
زمانے کی قسم۔بے شک تمام انسان گھاٹے میں ہیں؛ مگر وہ لوگ ، جو ایمان لائے اور نیک کام کیے۔
یہ گھاٹا اور نقصان کیا ہے ، وہی ظلم عملی اور علمی جہالت ہے، جس کا علاج علم یعنی ایمان اور عدل یعنی نیک اعمال ہیں۔ اور اس کی شہادت کے لیے قرآن نے زمانے کی قسم کھائی ہے۔ یہ زمانہ کیا ہے؟زمانے کی شروعات سے لے کر اب تک جتنے حوادث وواقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں اور تاریخ کے سینوں میں جو ماضی کے آثار روایات محفوظ ہیں، انھیں کا نام زمانہ ہے۔زمانے کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی جتنی قومیں علم و عدل اور ایمان و عمل صالح سے دور رہی ہیں، وہ ہمیشہ ٹوٹے اور خسارے میں رہی ہیں اورہمیشہ تباہ و برباد ہوئی ہیں ۔
ایک دوسری حیثیت سے دیکھیں، تو دنیا میں جتنی بھی مذہبی کتابیں اور آسمانی صحیفے ہیں، ان کے مضامین کا بیشتر حصہ میں اسی کا بیان ہے کہ جن لوگوں نے راہ حق و اعتدال کو اختیار کیا، وہ فلاح و بہبود سے ہمکنار ہوئے اور جن لوگوں نے حق سے روگردانی کی وہ صفحۂ ہستی سے مٹ مٹا گئے۔تورات(Torah)، زبور(Zabur)، انجیل(Gospel،Injil) اور قرآن پاک(The Holy Quraan) کے بیشتر مضامین میں کیا ہیں؟ ہندستان کی مہابھارت(Mahabharata) ، رمائن (Ramayana)اور گیتا (Bhagavad Gita)میں کس چیز کا تذکرہ ہے؟ ایران کا شاہ نامہ (Shahnameh)، روم کا پیر لل لاؤز (Parallel Lives)اور یونان کے الیڈ (Iliad)میں کس چیز کا بیان ہے؟ہر قوم کے سامنے اس کے بڑے افراد اور بزرگ ہستیوں کی زندگی اور سوانح عمریوں کو پیش کیا گیا ہے تاکہ انھیں پڑھ کر ان کی اچھائیوں کو اختیار کریں اور غلط راستوں سے خود کو بچائیں۔ ظلم و کفر کی ہلاکت سے عبرت پکڑیں اور ایمان و عمل صالح کو اختیار کرکے سعادت وفلاح حاصل کریں۔
اسی لیے قرآن کی شہادت ہے کہ ہر امت میں ایک ایک نبی بھیجا گیا ہے، جن کی زندگی ان کی قوم کے لیے نمونہ اور ہدایت کا ذریعہ رہی ہے۔اور ہر نبی کے ساتھ کوئی نہ کوئی شریعت رہی ہے، لہذا انسان کی ہدایت شریعت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔انبیائے کرام نے انسانوں کی صلاح و فلاح کے پانچ قسم کے علوم سکھائے۔ اور انھیں علوم کے ذریعے ان کی تربیت نفس کی۔ انھیں ہدایت و کامرانی کا راستہ بتایا ۔ وہ پانچ علوم درج ذیل ہیں:
قسط نمبر (10) کا مطالعہ کرنے کے لیے کلک کریں

4 May 2018

رمضان سے ایک دن پہلے رسول اللہ ﷺ کا خطاب

رمضان سے ایک دن پہلے رسول اللہ ﷺ کا خطاب

محمد یاسین قاسمی جہازی
واٹس ایپ: 9871552408


حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آخری شعبان کو خطاب فرمایا، جس میں بارہ باتوں کا تذکرہ کیا۔ اس کا خلاصہ پیش ہے:
(۱) رمضان کا مہینہ عظمت و تقدس والا بھی ہے اور بہت زیادہ خیروبرکت کا بھی حامل ہے۔
(۲)اس مہینہ میں ایک رات ہوتی ہے، جس کانام شب قدر ہے۔ یہ ایک رات ہزار مہینے سے بہتر ہوتی ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جو کوئی صرف اس ایک رات میں عبادت کرے گا، اس کو ایک ہزار مہینے تک عبادت کرنے کا ثواب ملے گا۔ 
(۳)اس پورے مہینہ کا روزہ رکھنا فرض ہے اور تراویح پڑھنا سنت ہے۔ 
(۴) اس مہینے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب غیر رمضان کے ستر فرضوں کے برابر دیا جاتا ہے۔ یہ آفر خدا کا خاص فضل و انعام ہے، جو اس مہینے کے ساتھ مخصوص ہے۔
(۵) یہ مہینہ صبر کا عملی درس دیتا ہے۔ جب انسان خود بھوک پیاس سے لڑتا ہے، تو کھانے کی چیزیں فراہم ہونے کے باوجود محض حکم ربی کی وجہ سے بھوک برداشت کرتا ہے، تو اس سے صبر کی عملی مشق ہوتی ہے۔
(۶) یہ مہینہ غم خواری بھی سکھلاتا ہے اور بتلاتا ہے کہ یہ تو محض ایک مہینہ ہے، لیکن جس کے پاس سالہا سال کھانے پینے کی چیزیں نہیں ہوتیں، تو اس کی زندگی کا کیا عالم ہوتا ہوگا؛ اس طرح نفس دوسرے کی تکلیف کو براہ راست محسوس کرتا ہے اور پھر غریبوں کے تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
(۷) اس صبر و غم خواری کی برکت یہ ہوتی ہے کہ مومنین کے رزق کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ عملی مشاہدہ ہے کہ جو حضرات سالوں سال تک جن انواع و اقسام کی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں، وہ نعمتیں خود بخود رمضان میں ان کا استقبال کرتی نظر آتی ہیں اور خوب سیر ہوکر کھاتے ہیں، بلکہ کھلانے والے ان کے کھالینے کو اپنے لیے سعادت مندی سمجھتے ہیں۔
(۸)روزہ دار کو افطاری کرانے والوں کی مغفرت اور دوزخ سے نجات کا پروانہ مل جاتا ہے، جو ایک مومن کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے۔ 
(۹) اس مہینے کے تین حصے ہوتے ہیں۔ پہلا عشرہ خدائے لم یزل ولایزال کی رحمتوں کی موسلا دھار بارش کی ہوتی ہے۔ جب سب لوگ رحمت سے شرابور ہوجاتے ہیں تو دوسرا عشرہ شروع ہوتے ہی مغفرت کا اعلان عام کردیا جاتا ہے۔ رحمت و مغفرت کے بعد نتیجے کے طور پر دوزخ سے نجات کی سند بھی دے دی جاتی ہے اور یہی مومن کا مطلوب و مقصود ہے۔ 
(۱۰) اس مہینہ میں جو کوئی اپنے ملازم کے کاموں کو عام دنوں کے کام سے کم کردے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت بھی کر ے گا اور جہنم سے آزادی بھی دیدے گا۔
(۱۱) اس میں مہینے چار کام کثرت سے کرنا چاہیے: 
(۱) لاالٰہ الا اللہ کو کثرت سے پڑھنا چاہیے۔ 
(۲) کثرت سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی چاہیے۔
(۳) دعا میں ہمیشہ جنت مانگیں۔
(۴) اسی طرح دوزخ سے چھٹکارے کی دعا بھی ضرور کریں۔
(۱۲) جو شخص روزہ دار کو پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اسے حوض کوثر سے ایسا جام پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس ہی نہیں لگے گی۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں ماہ رمضان کا استقبال کرنے اور اس کی قدر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ، آمین۔ 
حوالہ 
خطبنا رسول اللہ ﷺ في آخر یوم من شعبان فقال: یا أیھا الناس قد أظلکم شھر عظیم مبارک شھر فیہ لیلۃ خیر من ألف شھر، شھر جعل اللّٰہ صیامہ فریضۃ، وقیام لیلہ تطوعا، من تقرب فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن أدیٰ فریضۃ فیما سواہ، ومن أدیٰ فریضۃ فیہ کان کمن أدیٰ سبعین فریضۃ فیما سواہ، وھو شھر الصبر، والصبر ثوابہ الجنۃ، وشھر المواساۃ، وشھر یزاد في رزق المؤمن فیہ، من فطر فیہ صائما کان مغفرۃ لذنوبہ، وعتق رقبتہ من النار، وکان لہ مثل أجرہ من غیر أن ینقص من أجرہ شيء، قالوا: یا رسول اللّٰہ لیس کلنا یجد ما یفطر الصائم، قال ﷺ: یعطي اللہ ھذا الثواب من فطر صائما علیٰ تمرۃ أو شربۃ ماء أو مذقۃ لبن، وھو شھر أولہ رحمۃ وأوسطہ مغفرۃ وآخرہ عتق من النار، من خفف عن مملوکہ فیہ غفر اللّٰہ لہ وأعتقہ من النار، واستکثروا فیہ من أربع خصال: خصلتین ترضون بھما ربکم وخصلتین لا غنیٰ بکم عنھما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بھما ربکم: فشھادۃ أن لا إلہ إلا اللّٰہ وتستغفرونہ، وأما الخصلتان اللتان لا غنیٰ بکم عنھما: فتسألون اللّٰہ الجنۃ وتتعوذون بہ من النار، ومن سقیٰ صائما سقاہ اللّٰہ من حوضي شربۃ لا یظمأ بعدہا أبدا۔

3 May 2018

قسط نمبر (8) تکلیف کی وجہ

تکلیف کی وجہ 

قسط نمبر (8) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

مذکورہ بالا باتوں میں ذہن میں رکھتے ہوئے آپ غور کریں گے ، تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مکلف تو تمام مخلوقات کو بنایا ہے اور ہر مخلوق تعمیل حکم میں لگی ہوئی ہے، چڑیوں کو چہچہانے کا ،ہواوں کو چلنے کا اور سورج کو طلوع و غروب کا حکم ہے۔ یہ سب تعمیل حکم میں مصروف ہیں۔ ان کے اندر خلاف ورزی کرنے کی طاقت بھی نہیں ہے؛ مگر تعمیل پر کوئی جزا و سزا بھی نہیں رکھی گئی ہے۔اس کے برخلاف انسان کو مکلف بنایا ہے تو تعمیل اور عدم تعمیل کا اختیار دے رکھا ہے اوریہی اختیار اس کے لیے جزا و سزا کا سبب بنتا ہے۔شریعت کی اصطلاح میں اسی کو تکلیف کہاجاتا ہے۔ انسانوں کو ایسا کیوں مکلف بنایا گیا ہے، اس پر دلیل نقلی بھی ہے اور عقلی بھی ۔ آئیے دونوں دلیلوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
دلیل عقلی
تمہیدات میں یہ بات آچکی ہے کہ کائنات کی تمام مخلوقات کو کیٹیگری میں تقسیم کریں تو ان کی تین قسمیں سامنے آتی ہیں: جمادات، نباتات اور حیوانات۔ان تینوں میں ذمہ داریاں اور فرائض کی وجوہات کی تلاش کریں، تو تین صفتوں اور قوتوں کا پتہ چلتا ہے۔ وہ تین صفتیں یا قوتیں ہیں: احساس، ارادہ اور ادراک۔انھیں تین قوتوں کی کمی ، زیادتی یا ہونے نہ ہونے کی بنیاد پر مخلوقات مکلف یا غیر مکلف ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے جمادات میں غور کریں ، تو اس میں نہ احساس ہوتا ہے اور نہ ارادہ ۔ اور جب یہی دونوں صفتیں نہ ہوں، تو قوت ادراک کہاں سے ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اینٹ یا پتھر کو کتنا ہی ماریں گے، پیٹیں گے، تو انھیں کوئی احساس نہ ہوگا ۔ ان کے اندر ارادے کی بھی قوت نہیں ہے، وہ جہاں پڑا ہوا ہے، وہیں رہے گا، وہ خود سے ذرا بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ لہذا قدرت نے انھیں کوئی بھی فرض سپرد نہیں کیا ہے ، یہاں تک کہ جینے مرنے کی بنیادی صفت سے بھی عاری ہے۔
دوسری مخلوق نباتات میں غور کریں ، تو اس میں گرچہ ارادہ اور ادارک کی قوت نہیں ہے، لیکن احساس کی صفت سے متصف ہے ، جس سے قدرت کے کچھ فرائض اس سے متعلق ہوجاتے ہیں۔ نباتات میں زندگی ، موت اور نشو ونما کا احساس پایا جاتا ہے۔ آپ اس کی جڑوں میں پانی ڈالتے رہیں، تو لہلہاتا رہے گا۔ اور اگر انھیں پانی نہ ملے یا زمین سے ان کا تعلق ختم ہوجائے ، تو پھر احساس زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں اور مردنی کی شکار ہوجاتے ہیں۔
حیوانات کے احوال پر غور کریں، تو اس کی سینکڑوں نوعیتیں سامنے آتی ہیں۔ اور ہر نوعیت میں انھیں تینوں صفتوں کی کمی ، بیشی یا ہونے نہ ہونے کے اعتبار سے یا تو فرائض سے محروم رہتا ہے ، یا کمی ، بیشی کے ساتھ ذمہ دار ہوتا ہے۔
لفظ حیوان سے جو مخلوق مفہوم ہوتی ہے، اس کے احوال پر غور کریں، تو اس کے اندر دو صفتیں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ اس کے اندر احساس بھی ہوتا ہے اور متحرک بالارادہ بھی ہے۔ اسے تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے اور پنی مرضی سے جدھر چاہتا ہے ، چلتا پھرتا ہے۔ یہ نباتات کی طرح نہ توایک ہی جگہ کھڑے یا ٹکے رہنے پر مجبورہے اور نہ ہی جمادات کی طرح احساس سے زندگی سے بھی محروم ۔ یہی وجہ ہے کہ نباتات کے مقابلے میں اس کے اوپر قدرت کی کچھ زیادہ ذمہ داریاں اور فرائض عائد ہیں۔ 
حیوانات کی سب سے اعلیٰ و اشرف کٹیگری انسان کا مطالعہ کیجیے ، تو وہ فرائض کی پابندیوں سے سراسر جکڑا ہوا نظر آئے گا، کیوں کہ اس کے اندر تینوں صفتوں کی فراوانی ہوتی ہیں۔ پھر انسان کے مختلف افراد پر نظر ڈالیے، تو مجنون، پاگل ، بچے، عقل مند ہوشیار اور عالم و دانا انھیں صفات کی کمی بیشی کے لحاظ سے کچھ فرائض رکھتے یا کم رکھتے یا بہت زیادہ رکھتے ہیں۔
دوسری حیثیت سے غور کیجیے تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جس مخلوق میں احساس ، ارادہ اور ادراک کی جتنی کمی ہے، اتنی ہی پروردگار عالم اس کی پرورش اور نشوونما کے فرائض کی ذمہ داری اپنے اوپر لیے ہوئے ہیں۔ اور جیسے جیسے اس کے اندر احساس، ارادہ اور ادارک کی قوت پروان چڑھتی رہتی ہے، فطرت الہی ذمہ داریوں کو اس کے احساس، ارادہ اور ادارک کے مطابق اس پر ڈالتی رہتی ہے۔ایک جانور کا بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے رزق کا خود کفیل ہوجاتا ہے، جب کہ انسانوں کو کاشتکاری کرنی پڑتی ہے، پھل کھانے کے لیے درخت لگانے کی محنت درکار ہوتی ہے۔ جانوروں کو سردی گرمی سے حفاظت کے لیے انسانوں کی طرح اپنی صنعتوں کا سہارا لینا نہیں پڑتا۔ انسانوں کو اپنی بیماریوں کا علاج خود تلاش کرنا پڑتا ہے، جب کہ جانوروں کو کسی ڈاکٹر کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔دشمنوں سے بچاؤ کے لیے مختلف جانوروں کو مختلف ذریعے اور سامان دے دیے گئے ہیں: کسی کو تیز پنجہ دیا ہے ، تو کسی کو نکیلے دانت۔کسی کو تیز دوڑنے کی صلاحیت دی ہے ، تو کسی کو زہریلا ڈنک۔کسی کو اڑنے کا ہنر دیا ہے، تو کسی کوپانی میں چھپ جانے کا شعور؛ غرض مختلف آلات و اسلحہ سے فطرت نے خود انھیں مسلح کردیا ہے، مگر بے چارے انسان کو دیکھو ، تو نہ اس کے پاس ہاتھی جیسی طاقت اور سونڈ ہیں اور نہ ہی شیروں جیسے پنجے اور نکیلے دانت۔نہ بیل بیکریوں کی طرح سینگ ہے اور نہ ہی سانپوں اور بچھوں جیسا ڈنک؛ غرض وہ ظاہری اعتبار سے بالکل نہتا اور ہر اعتبار سے غیر مسلح بنایا گیا ہے۔مگر ان سب کی جگہ احساس، ارادہ اور ادراک کی زبردست معنوی قوتیں عطا کر دی گئی ہیں، جن سے وہ بڑی بڑی ظاہری قوتوں کو زیر کرلیتا ہے۔یہ انسان کی عقلی قوتوں ہی کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ بڑے بڑے سونڈوں والے ہاتھیوں کو قید کرلیتا ہے، بڑے بڑے جبڑے والے شیر چیتوں اور درندوں پر قابوپالیتا ہے، فضا میں اڑنے والے پرندوں کو گرفتار کرلیتا ہے ، بڑے بڑے پہاڑوں کے سینوں کوچاک اور ظغیانی دریاوں کو پاش پاش کر آگے نکل جاتا ہے اور اپنی حفاظت کے لیے ہزاروں قسم کے اسلحے اور سامان پیدا کرلیتا ہے۔یہ سب کیا ہے؟ یہ اسی قوت ادارک و عقل کی نیرنگیاں ہیں۔
جب معاملہ ایسا ہے ، تو ہمیں اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انسانوں کی تمام تر ذمہ داریوں کا اصلی سبب یہی احساس، ارادہ اور ادارک و تعقل کی صلاحیتیں ہیں، جو انسان کی سرشت میں شامل ہے۔لہذا انسان کے مکلف بنائے جانے کی وجہ صاف لفظوں میں یہی ہوگی کہ فطری طور پر اس کی بیرونی اور اندرونی قوتیں تکلیف کی صلاحیت سے آراستہ تھی ، اس لیے خالق کائنات نے تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو ہی مکلف بنایا اور شریعت کی ساری ذمہ داری انسانوں پر عائد ہوئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
دلیل نقلی
انسانی کی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں، ان کا شرعی نام تکلیف ہے۔ اور تکلیف کے بارے میں خدا کا اصول ہے کہ :
لایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسا ا8لا وُسْعَھا (سورۃ: البقرۃ، آیۃ:۲۸۶، پ: ۳)
اللہ کسی کو(تکلیف) ذمہ داری نہیں دیتا ، مگر اس کی طاقت و صلاحیت کے مطابق۔تکلیف کی اسی ذمہ داری کوکلام پاک میں دوسری جگہ ’’امانت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ امانت بڑے بڑے جمادات، نباتات اور حیوانات کے سامنے پیش کیا گیا ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس ذمہ داری کو اٹھانے کی ہمت نہ کرسکا؛ کیوں کہ وہ اس کو اٹھانے کی جو فطری صلاحیت درکار ہے، اس سے وہ سب عاری تھے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ :
ا8نا عرضنا الأمانۃ علیٰ السموات والأرض والجبال، فأبین أن یحملنھا و أشفقنَ منھا، و حملھا الا8نسان، ا8نہ کان ظلوما جھولا۔ (سورۃ :الأحزاب، آیۃ: ۷۲، پ: ۲۲)
ہم نے یہ امانت(یعنی احکام،جو منزلۂ امانت کے ہیں)آسمان و زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی، سو انھوں نے اس کی ذمہ داری سے انکار کردیااور اس سے ڈر گئے اورانسان نے اس کو اپنے ذمہ لے لیا، وہ ظالم و جاہل ہے۔ ( بیان القرآن)
یہاں امانت سے مراد احکام خداوندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا کہ اس شریعت پر عمل کرو۔ اگر عمل کروگے ، تو انعام ملے گا اور عمل نہیں کروگے، سزا کے مستحق بنوگے۔ کائنات کی ان بڑی بڑی مخلوقوں نے نہ صرف یہ کہا کہ ہم اس امانت کے بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے، بلکہ اس بوجھ کو اٹھانے سے ڈر گئے کہ ہم سے اس شریعت کا جو حق ہے وہ ادا نہ ہوسکے گا، لیکن جب انسان کے سامنے پیش کیا گیا ، تو اس نے اسے اٹھا لیا ۔ انسان اٹھانے پر اس لیے تیار ہوگیا کہ وہ ظالم بھی تھا اور جاہل بھی۔
ظالم اپنی حد سے آگے بڑھ جانے والے کو کہتے ہیں اور جاہل عقلی و ذہنی قوت کی بے اعتدالی کا نام ہے۔ظلم کا متضاد صفت عدل ہے اور جہالت کا علاج علم ہے اور یہ سب صلاحتیں انسان کے اندر موجود ہیں۔وہ عادل بھی ہوسکتا ہے اور ظالم بھی ۔ جہالت کا پتلا بھی ہوسکتا ہے اور زمانے کو مسخر کرنے والے علم سے لیس بھی ، لہذا عدل کا تقاضا ہے کہ اس کی اچھائی پر اسے انعام ملے اور جہل کا انجام یہ ہونا چاہیے کہ اگر علم کے مطابق نہیں چلتا تو اسے سزا دی جائے، تو یہ دونوں صلاحتیں صرف انسان میں تھیں ، اس لیے انسان نے اس بوجھ کو اٹھانے کا فیصلہ کیا۔انسان کے علاوہ کسی اور مخلوق میں اس کی صلاحیت ہی نہیں تھی، کیوں کہ مثلا جمادات : اینٹ، پتھر وغیرہ کو ہم ظالم یا جاہل نہیں کہہ سکتے ، اسی طرح نباتات کو بھی عالم وعادل اور ظالم و جاہل کی صفات سے متصف نہیں کرسکتے، کیوں کہ ان صلاحتیوں سے یہ بالکل عاری ہیں۔ صرف انسان کے اندر یہ صفات تھیں، اس لیے انسان نے اپنی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر کہا کہ ہم اس کے اہل ہیں اور ہم اس بار امانت کو اٹھائیں گے۔
قسط نمبر (9) پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

2 May 2018

یہ امت خرافات میں کھوگئی۔۔۔؟

یہ امت خرافات میں کھوگئی۔۔۔؟
محمد یاسین قاسمی جہازی 
رابطہ9871552408

شعبان کی پندرھویں رات کو مختلف پروگراموں میں شرکت کی مناسبت سے دہلی اور نئی دہلی کی سڑکوں پر آمدو رفت ہوئی۔ سڑکوں پر امت مسلمہ کی نئی نسلوں اور جواں خونوں کا جو نظارہ دیکھنے کو ملا، اس سے بے ساختہ علامہ اقبال کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگا کہ ؂
حقیقت روایات میں کھو گئی
یہ امت خرافات میں کھوگئی
چند مناظر آپ بھی دیکھتے چلیے
(۱) جو افراد جمعہ تک کی نماز کے لیے بمشکل مسجد میں آتا ہے، وہ آج عشا میں پہلی صف پانے کے لیے اس قدر بے چین نظر آئے کہ جیسے زندگی میں کبھی اس کی پہلی صف اور تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی ہے، تو آج کیسے فوت ہونے دیں۔ امت مسلمہ کا یہ ایمانی جذبہ واقعتا قابل قدر و تحسین ہے؛ لیکندیکھا گیا کہ سلام پھیرتے ہی یہ جذبہ کافور ہوگیا اورپہلی صف میں جگہ لینے کے لیے جس شدید خواہش کو دکھایا جارہا تھا ، معا سلام بعد مسجد سے بھاگنے کی بھی اتنی ہی خواہش نظر آئی۔ 
اب اس جذبہ کو کیا کہیں گے؟ پندرھویں شعبان کی خرافات یا مسلمانوں کا ایمانی جذبہ؟؟؟؟
(۲) جو لوگ عام دنوں میں ایک کلو میٹر بھی پیدل نہیں چلتے، وہ آج کی رات سڑکوں پر مٹر گشتی میں گذارتے نظر آئے۔ جگہ جگہ جمگھٹا بناکر گول گپے مارتے دکھے۔ بعض بعض جگہ یہ بھی دکھا گیا کہ سڑکوں پر غول کی شکل میں چل رہے ہیں اور بلا ضرورت نعرہ تکبیر بلند کرتے جارہے ہیں۔ نعرہ لگاتے ہوئے کچھ اس طرح کے جوش کا اظہار ہورہا ہے، گویا کوئی انہونی ہوگئی ہے۔
اس جذبہ کو بھی آپ کیا نام دیں گے؟۔۔۔ ایمانی حرارت؟۔۔۔ یا پھر خرافات شب۔۔۔؟
(۳) ٹرافک رول ماننا سب کے لیے اور ہر وقت ضروری ہے اور جس وقت ٹرافک کا نظام بگڑنے کا زیادہ امکان ہو اس وقت اس کی ضرورت مزید سوا ہوجاتی ہے۔ لیکن اس رات کو دیکھا گیا کہ نوجوانان نسل ا س کی بالکل بھی پرواہ نہیں کر رہے ہیں، نہ خود کی اورنہ دوسروں کی ۔ نتیجۃ بڑے بڑے حادثے پیش آتے ہیں اور کچھ تو اپنی جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔
اب بھلا بتائیے کہ اس عمل کو کیا کہیں گے۔۔۔؟ ایمان کا جوش وخروش ۔۔۔؟ یا پھر پندرھویں شب کی بے قدری؟
(۴)کثیر مذاہب والے ملک میں مختلف مذاہب کی شناخت کی مختلف علامتیں ہیں۔ مسلمانوں کی آئے جین ٹیٹی میں ایک ٹوپی بھی ہے۔ امت مسلمہ کا عام افراد نماز تک میں ٹوپی پہننا ضروری نہیں سمجھتے ، لیکن اس رات میں خرافات کرنے کے لیے اس کو لازم و واجب گردانتے ہیں۔ 
کیا مسلمانوں کی شناخت اورآئے جین ٹیٹی کا تحفظ صرف ایک رات کو ٹوپی پہن لینے سے ہوجائے گا۔۔۔؟ یا پھر یہ صرف محض ایک خرافات ہے۔۔۔؟
(۵) دہلی کا جمنا کتنا بدبودار ہوگیا ہے، اس سے ہر شخص واقف ہے ۔ اس کے پانی کی سطح سے تقریبا تیس چالیس فٹ بلند پل پر سے گذریے تو بھی جمنا اپنی حالت بد کا احساس دلا دے گا۔ اس رات کو دیکھا کہ کچھ لوگ اپنے امام غائب کو تلاش کرنے کے لیے اس کے نام چھٹی لکھ کر جمنا کے حوالے کرتے ہیں ہیں اوراس کے بدبودار پانی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کے اپنے امام غائب تک پہنچا دے گا اور پھر اس کا امام غائب حاضر ہوکر اس کے تمام دکھوں کا مداوا کردے گا۔ 
ایسے لوگوں کے خود اپنے عقیدے کے مطابق امام غائب اس وقت خود ہی حاضر ہوجائیں گے جس وقت بدری مجاہدین یعنی تین سو تیرہ کی تعداد میں اس کے پکے جانشین دنیا میں موجود رہیں گے۔ یہ عقیدہ شاہد عدل ہے کہ اب تک ایسے لوگوں کی تعداد اتنی بھی نہیں ہوپائی ہے، جب کہ آبادی کروڑوں میں ہے۔ بہرکیف یہ لوگ امام کے خود بخود حاضری والی صلاحیت تو پیدا نہیں کرپارہے ہیں؛ لیکن جمنا کے بدبودار پانی کو خط دے کر توقع رکھتے ہیں کہ اس مقدس رات کی فریاد رائیگاں نہیں جائے گی ۔ صدیوں سے جاری یہ عمل بالیقین نتیجہ سے خالی ہے، کیوں کہ امام غائب نہیں آرہے ہیں۔ اس طرح کے عمل کو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پندرھویں شب کی قدر کرنے والا عمل ہے ۔۔۔؟ یا پھر عقل و شعور سے خالی لایعنی عمل کا ایک تسلسل ہے جو ثواب کے نام پر کیا جارہا ہے ۔۔۔؟ 
امت کے پرجوش مومنین کی طرف سے اس رات کی قدر کرنے کے اور بھی کارنامے مشاہدہ میں آئے، جسے طوالت کے پیش نظر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ درج بالاواقعات کی روشنی میں کیا یہ کہنا خلاف واقعہ ہوگا کہ 
امت خرافات میں کھوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہمیں عقل و بصیرت سے نوازے اور حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھنے ، کہنے اور دکھانے والا بنائے آمین۔

انسان ہی مکلف کیوں ہے؟

انسان ہی مکلف کیوں ہے؟

قسط نمبر (7) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

بحث کے شروع میں ایک سوال کیا گیا تھا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ جب خدا تعالیٰ ہی کی مخلوق ہے، تو پھر ان کروڑہا کروڑ مخلوقات میں سے صرف انسان ہی کیوں اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مکلف ہیں، دیگر مخلوقات کیوں نہیں؟ جس کے جواب کی تلاش کے لیے پانچ تمہیدات تحریر کی گئیں۔ قبل اس کے کہ اس کا جواب لکھا جائے ، پہلے تمہیدات کا خلاصہ کو ذہن نشین کرلیتے ہیں کہ 
(۱) اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفتیں ہیں اور ہر صفت کا دائرۂ کار الگ الگ ہے، جیسے مومن کے لیے صفت غفور اور کافر کے لیے صفت منتقم۔ کائنات عالم اللہ تعالیٰ کی تین صفات کی کرشمہ سازیاں ہیں: ابداع، خلق اور تدبیر۔
(۲) عالم فانی (دنیا) کی زندگی کے بعد دائمی زندگی(عالم آخرت) کی شروعات سے قبل روحیں ایک اور عالم سے گذرتی ہیں، جس کا نام عالم مثال ہے۔ اس عالم میں معنویات کے بھی جسم ہوتے ہیں، جیسے قیامت کے دن موت کو مینڈھا کا جسم عطا کردیا جائے گا۔
(۳) کائنات عالم میں تین بنیادی مخلوق ہیں: انسان ، فرشتے اور شیاطین۔ فرشتے خیر مجسم ہیں ،گناہ پر قادر نہیں۔ شیاطین شر محض ہیں، ان میں خیر کا کوئی بھی عنصر موجود نہیں۔اور انسان خیر وشر کا سنگم ہے۔اسی خیر و شر کی مناسبت سے مقام حیات بھی تین ہی ہیں: جنت ، جو سراسر مقام خیر ہے،وہاں شر کا شائبہ تک نہیں۔ جہنم ، عذاب و سزا کا مقام ہے، خیر کی کوئی بھی کرن نہیں ۔ دنیا ، خیر وشر کا مجموعہ ہے۔
(۴) ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے ، خواہ وہ بلاواسطہ ہو یا بالواسطہ۔زمین و آسمان اور جنت و جہنم وغیرہ کی تخلیق بلاواسطہ کی مثالیں ہیں اوربالواسطہ کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب میں تاثیر اور صلاحیت پیدا کردی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے آگ میں جلانے کی صلاحیت رکھی ہے، تو اگر آگ کسی کو جلادے، تو یہ درحقیقت بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی کا جلانا ہوگا۔ اور اللہ چوں کہ حکیم ہے، اس لیے اس کی ہر مخلوق کی پیدائش میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ضرور موجود ہے، کیوں کہ حکیم کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
(۵) عناصر اربعہ کے اختلاط سے پیدا ہونے والے بھاپ سے نسمہ پیدا ہوتاہے۔ یہ نسمہ جس قالب میں پہنچتا ہے، وہاں اس قالب کی صلاحیت کے مطابق زندگی اور اس کی قوت پیدا کرتا ہے۔ نسمہ میں یہ صلاحیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس میں روح ربانی آکر ٹھہرتی ہے، جس کا نام نفس ناطقہ ہے۔تو نفس ناطقہ کا مستقر نسمہ ہے، نسمہ کا مستقر دل ہے اور دل کا مستقر بدن ہے۔نسمہ اور بدن میں تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں، جب کہ روح ربانی میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ نفس ناطقہ ہمیشہ نسمہ ہی کے ساتھ رہتی ہے ، حتیٰ کہ بدن کے مرنے کے بعددونوں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ بدن سے نکلنے کے بعد دونوں عالم مثال پہنچ جاتے ہیں، جہاں انھیں اعمال حسنہ و سئیہ کے پیش نظر نورانی یا ظلمانی جسم عطا کیا جاتا ہے، پھر اسی جسم پر احوال برزخ کی جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔