8 May 2018

قسط نمبر (10) علوم خمسہ


قسط نمبر (10) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 
(۱)توحید و صفات کا علم

اس علم کا تعلق ایسے مضامین سے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اپنے خالق و مالک کو پہچاننے کی دعوت دی جاتی ہے اور صرف پہچاننا ہی کافی نہیں ہے؛ بلکہ اپنے خالق کے سامنے اپنی پوری نیازمندی اور اطاعت شعاری کا اقرار وعمل بھی ضروری ہے۔ اسی طرح تہذیب نفس کے لیے صفات باری تعالیٰ کی معلومات بھی ضروری ہے۔ ایک انسان اپنی خلوت و جلوت میں اسی وقت گناہوں پر قابو پاسکتا ہے، جب اسے اس بات کا یقین ہو گاکہ، جو اس کا خالق و مالک ہے ، وہ ہر وقت اس کی نگاہ میں ہے، اسے اپنے کیے ہر عمل و فعل کا حساب دینا ہے۔جب تک انسان کے ذہن میں یہ تصور و یقین پیدا نہیں ہوگا، تب تک کوئی بھی قانون اور طاقت اسے برائیوں پر آمادگی سے نہیں روک سکتی ۔
(۲)عبادتوں کا علم
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کو یہ سیکھنا ضروری ہے کہ، جو اس کا معبود ہے ، اس کیعبادت کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اس کی بندگی اور اس کے حضور نیازمندی کیسے پیش کی جاتی ہے؟ وہ اعمال کون سے ہیں، جن سے اس کا آتش غضب بھڑک اٹھتا ہے اور وہ کون سے طریقے ہیں، جسے وہ پسند کرتا ہے اور اسے کرنے پر خوش ہوتا ہے؟ جب تک عبادت کا صحیح طریقہ معلوم نہیں ہوگا، تو بندگی کا غلط طریقہ اس کے قرب و رضامندی حاصل کرنے کے بجائے ناراضگی اور دوری کا سبب بن جائے گا۔
(۳) تدبیرات نافعہ کا علم
انسان کی پیدائش کا اصل مقصد گرچہ اللہ کی عبادت کرنا ہی ہے، لیکن اسے ایک مدت تک دنیا میں ہی رہنا ہے ، اس لیے دنیاوی زندگی کے لیے بھی وسائل حیات سے فائدہ اٹھانے کی جان کاری حاصل کرنا ضروری ہے۔دنیاوی علوم و فنون کی تحصیل کی اسی لیے حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ جب تک انسانوں کے پاس زندہ رہنے کے سامان ہی نہ ہوں گے، تو محض عبادت پر زندگی کیسے گذاری جاسکتی ہے، لہذا بقدر ضروریات زندگی ، علم معاش اور وسائل زندگی کے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کو سیکھنا بھی ضروری ہے۔
(۴) استدلال و نتائج کا علم
اس علم کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے پیش رو اور بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان کے واقعات حیات سے عبرت پکڑتے ہوئے زندگی کے مراحل میں آگے قدم بڑھاتا رہے۔ اگر ہمارے بزرگوں نے ایک چیز کا تجربہ کیا اور اس سے ایک نتیجہ اخذ کیا، تو اب ہم اپنا سفر اس نتیجے سے شروع کریں گے، تبھی ہمارے لیے ترقی کی اگلی راہیں کھلیں گی۔ اوراگر ہم بزرگوں کے تجربے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے استدلال و نتائج کو پس پشت ڈال دیں اور پھرسے شروع سے چلنے کی کوشش کریں، تو نتیجۃ ہماری زندگی کے یہ لمحات ایک ہی تجربے میں سمٹ کر رہ جائیں گے اور ترقی کی راہیں مسدود ہوجائیں گی۔ پھر زندگی کا نقشہ کولہو میں گھومنے والے بیل کی طرح نظر آئے گا، جو دن بھر چلنے کے باوجود وہیں کا وہیں کھڑا رہتا ہے، جہاں سے وہ چلا تھا۔مثال کے طور پر تاریخ میں ایک قوم گذری ہے: قوم لوط۔ یہ قوم لواطت جیسے سنگین جرم میں ملوث تھی ، جس کے سبب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور پوری قوم تباہ و برباد کردی گئی۔ اب یہ واقعہ ہمارے لیے یہ استدلال اور نتیجہ فراہم کرتا ہے کہ اگر ہم بھی اس طرح کی نافرمانی میں مبتلا ہوئے ، تو یقیناًہمارا انجام بھی وہی ہوگا، جو پہلے ہوچکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ انجام کی نوعیت اور اس کی شکل اس سے مختلف ہوسکتی ہے، جو پہلے ہوچکی ہے، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ اس گناہ کا عموم بلویٰ ہوجائے اور عذاب الٰہی کی پکڑ نہ ہو۔
(۵) نصیحت کا علم
جن برے کاموں پر عذاب الٰہی نازل ہوا ہے، ان کا تذکرہ کرکے، ان برائیوں سے باز رہنے اوراچھے کاموں پر انعامات کے قصے سنانے کا نام نصیحت ہے۔ تہذیب نفس اور انسان کوگناہوں پر کنٹرول کرنے کے لیے پندو موعظت بھی بہت ضروری ہے۔ دنیاوی مشغولیات سے دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے اور برائیوں کی طرف رغبت پیدا ہونے لگتی ہے، اس سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ وقتا فوقتا وعظ و نصیحت سے زنگ کو دور کریں اور مرضیات الٰہی پر چلنے کی رغبت پیدا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک قصہ سناتے سناتے درمیان کلام میں عبرت و نصیحت کا مضمون بیان کرنے لگتا ہے ۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی طریقہ تھا کہ صحابہ کو وقفہ وقفہ سے وعظ کہا کرتے تھے۔
وعظ میں عموما تین طرح کے مضامین ہونے چاہیں:
(۱) اللہ پاک کی بے پایاں نعمتوں کا تذکرہ ہونا چاہیے ، کیوں کہ قانون فطرت ہے کہ الانسان عبد الاحسان۔ لہذا نعمت الٰہی کے تذکرہ سے اس کا دل موم ہوگا اور شکریہ کا جذبہ پیدا ہوگا۔
(۲)انبیاء و صالحین کے ایسے واقعات بیان کیے جائیں، جہاں حق و باطل میں کشمکش ہوا ہے، جن میں حق کو نجات اور باطل ناکام ہوا ہے۔ ایسے واقعات کو سن کر انسان کا دل پگھلنے لگتا ہے اور تبدیلی کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔پندو موعظت کے سلسلے میں قرآن کریم کا یہی طرز عمل ہے۔
(۳) مرنے کے بعد کے احوال، جنت و جہنم کے مناظر اور قیامت کی ہولناکی بیان کی جائے۔ ایسی باتیں سن کر آدمی کے اندر آخرت کی فکر جوش مارنے لگتی ہے اور اصلاح نفس جذبہ ابھرنے لگتا ہے۔
قسط نمبر (11) پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں