3 May 2018

قسط نمبر (8) تکلیف کی وجہ

تکلیف کی وجہ 

قسط نمبر (8) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

مذکورہ بالا باتوں میں ذہن میں رکھتے ہوئے آپ غور کریں گے ، تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مکلف تو تمام مخلوقات کو بنایا ہے اور ہر مخلوق تعمیل حکم میں لگی ہوئی ہے، چڑیوں کو چہچہانے کا ،ہواوں کو چلنے کا اور سورج کو طلوع و غروب کا حکم ہے۔ یہ سب تعمیل حکم میں مصروف ہیں۔ ان کے اندر خلاف ورزی کرنے کی طاقت بھی نہیں ہے؛ مگر تعمیل پر کوئی جزا و سزا بھی نہیں رکھی گئی ہے۔اس کے برخلاف انسان کو مکلف بنایا ہے تو تعمیل اور عدم تعمیل کا اختیار دے رکھا ہے اوریہی اختیار اس کے لیے جزا و سزا کا سبب بنتا ہے۔شریعت کی اصطلاح میں اسی کو تکلیف کہاجاتا ہے۔ انسانوں کو ایسا کیوں مکلف بنایا گیا ہے، اس پر دلیل نقلی بھی ہے اور عقلی بھی ۔ آئیے دونوں دلیلوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
دلیل عقلی
تمہیدات میں یہ بات آچکی ہے کہ کائنات کی تمام مخلوقات کو کیٹیگری میں تقسیم کریں تو ان کی تین قسمیں سامنے آتی ہیں: جمادات، نباتات اور حیوانات۔ان تینوں میں ذمہ داریاں اور فرائض کی وجوہات کی تلاش کریں، تو تین صفتوں اور قوتوں کا پتہ چلتا ہے۔ وہ تین صفتیں یا قوتیں ہیں: احساس، ارادہ اور ادراک۔انھیں تین قوتوں کی کمی ، زیادتی یا ہونے نہ ہونے کی بنیاد پر مخلوقات مکلف یا غیر مکلف ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے جمادات میں غور کریں ، تو اس میں نہ احساس ہوتا ہے اور نہ ارادہ ۔ اور جب یہی دونوں صفتیں نہ ہوں، تو قوت ادراک کہاں سے ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اینٹ یا پتھر کو کتنا ہی ماریں گے، پیٹیں گے، تو انھیں کوئی احساس نہ ہوگا ۔ ان کے اندر ارادے کی بھی قوت نہیں ہے، وہ جہاں پڑا ہوا ہے، وہیں رہے گا، وہ خود سے ذرا بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ لہذا قدرت نے انھیں کوئی بھی فرض سپرد نہیں کیا ہے ، یہاں تک کہ جینے مرنے کی بنیادی صفت سے بھی عاری ہے۔
دوسری مخلوق نباتات میں غور کریں ، تو اس میں گرچہ ارادہ اور ادارک کی قوت نہیں ہے، لیکن احساس کی صفت سے متصف ہے ، جس سے قدرت کے کچھ فرائض اس سے متعلق ہوجاتے ہیں۔ نباتات میں زندگی ، موت اور نشو ونما کا احساس پایا جاتا ہے۔ آپ اس کی جڑوں میں پانی ڈالتے رہیں، تو لہلہاتا رہے گا۔ اور اگر انھیں پانی نہ ملے یا زمین سے ان کا تعلق ختم ہوجائے ، تو پھر احساس زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں اور مردنی کی شکار ہوجاتے ہیں۔
حیوانات کے احوال پر غور کریں، تو اس کی سینکڑوں نوعیتیں سامنے آتی ہیں۔ اور ہر نوعیت میں انھیں تینوں صفتوں کی کمی ، بیشی یا ہونے نہ ہونے کے اعتبار سے یا تو فرائض سے محروم رہتا ہے ، یا کمی ، بیشی کے ساتھ ذمہ دار ہوتا ہے۔
لفظ حیوان سے جو مخلوق مفہوم ہوتی ہے، اس کے احوال پر غور کریں، تو اس کے اندر دو صفتیں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ اس کے اندر احساس بھی ہوتا ہے اور متحرک بالارادہ بھی ہے۔ اسے تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے اور پنی مرضی سے جدھر چاہتا ہے ، چلتا پھرتا ہے۔ یہ نباتات کی طرح نہ توایک ہی جگہ کھڑے یا ٹکے رہنے پر مجبورہے اور نہ ہی جمادات کی طرح احساس سے زندگی سے بھی محروم ۔ یہی وجہ ہے کہ نباتات کے مقابلے میں اس کے اوپر قدرت کی کچھ زیادہ ذمہ داریاں اور فرائض عائد ہیں۔ 
حیوانات کی سب سے اعلیٰ و اشرف کٹیگری انسان کا مطالعہ کیجیے ، تو وہ فرائض کی پابندیوں سے سراسر جکڑا ہوا نظر آئے گا، کیوں کہ اس کے اندر تینوں صفتوں کی فراوانی ہوتی ہیں۔ پھر انسان کے مختلف افراد پر نظر ڈالیے، تو مجنون، پاگل ، بچے، عقل مند ہوشیار اور عالم و دانا انھیں صفات کی کمی بیشی کے لحاظ سے کچھ فرائض رکھتے یا کم رکھتے یا بہت زیادہ رکھتے ہیں۔
دوسری حیثیت سے غور کیجیے تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جس مخلوق میں احساس ، ارادہ اور ادراک کی جتنی کمی ہے، اتنی ہی پروردگار عالم اس کی پرورش اور نشوونما کے فرائض کی ذمہ داری اپنے اوپر لیے ہوئے ہیں۔ اور جیسے جیسے اس کے اندر احساس، ارادہ اور ادارک کی قوت پروان چڑھتی رہتی ہے، فطرت الہی ذمہ داریوں کو اس کے احساس، ارادہ اور ادارک کے مطابق اس پر ڈالتی رہتی ہے۔ایک جانور کا بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے رزق کا خود کفیل ہوجاتا ہے، جب کہ انسانوں کو کاشتکاری کرنی پڑتی ہے، پھل کھانے کے لیے درخت لگانے کی محنت درکار ہوتی ہے۔ جانوروں کو سردی گرمی سے حفاظت کے لیے انسانوں کی طرح اپنی صنعتوں کا سہارا لینا نہیں پڑتا۔ انسانوں کو اپنی بیماریوں کا علاج خود تلاش کرنا پڑتا ہے، جب کہ جانوروں کو کسی ڈاکٹر کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔دشمنوں سے بچاؤ کے لیے مختلف جانوروں کو مختلف ذریعے اور سامان دے دیے گئے ہیں: کسی کو تیز پنجہ دیا ہے ، تو کسی کو نکیلے دانت۔کسی کو تیز دوڑنے کی صلاحیت دی ہے ، تو کسی کو زہریلا ڈنک۔کسی کو اڑنے کا ہنر دیا ہے، تو کسی کوپانی میں چھپ جانے کا شعور؛ غرض مختلف آلات و اسلحہ سے فطرت نے خود انھیں مسلح کردیا ہے، مگر بے چارے انسان کو دیکھو ، تو نہ اس کے پاس ہاتھی جیسی طاقت اور سونڈ ہیں اور نہ ہی شیروں جیسے پنجے اور نکیلے دانت۔نہ بیل بیکریوں کی طرح سینگ ہے اور نہ ہی سانپوں اور بچھوں جیسا ڈنک؛ غرض وہ ظاہری اعتبار سے بالکل نہتا اور ہر اعتبار سے غیر مسلح بنایا گیا ہے۔مگر ان سب کی جگہ احساس، ارادہ اور ادراک کی زبردست معنوی قوتیں عطا کر دی گئی ہیں، جن سے وہ بڑی بڑی ظاہری قوتوں کو زیر کرلیتا ہے۔یہ انسان کی عقلی قوتوں ہی کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ بڑے بڑے سونڈوں والے ہاتھیوں کو قید کرلیتا ہے، بڑے بڑے جبڑے والے شیر چیتوں اور درندوں پر قابوپالیتا ہے، فضا میں اڑنے والے پرندوں کو گرفتار کرلیتا ہے ، بڑے بڑے پہاڑوں کے سینوں کوچاک اور ظغیانی دریاوں کو پاش پاش کر آگے نکل جاتا ہے اور اپنی حفاظت کے لیے ہزاروں قسم کے اسلحے اور سامان پیدا کرلیتا ہے۔یہ سب کیا ہے؟ یہ اسی قوت ادارک و عقل کی نیرنگیاں ہیں۔
جب معاملہ ایسا ہے ، تو ہمیں اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انسانوں کی تمام تر ذمہ داریوں کا اصلی سبب یہی احساس، ارادہ اور ادارک و تعقل کی صلاحیتیں ہیں، جو انسان کی سرشت میں شامل ہے۔لہذا انسان کے مکلف بنائے جانے کی وجہ صاف لفظوں میں یہی ہوگی کہ فطری طور پر اس کی بیرونی اور اندرونی قوتیں تکلیف کی صلاحیت سے آراستہ تھی ، اس لیے خالق کائنات نے تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو ہی مکلف بنایا اور شریعت کی ساری ذمہ داری انسانوں پر عائد ہوئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
دلیل نقلی
انسانی کی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں، ان کا شرعی نام تکلیف ہے۔ اور تکلیف کے بارے میں خدا کا اصول ہے کہ :
لایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسا ا8لا وُسْعَھا (سورۃ: البقرۃ، آیۃ:۲۸۶، پ: ۳)
اللہ کسی کو(تکلیف) ذمہ داری نہیں دیتا ، مگر اس کی طاقت و صلاحیت کے مطابق۔تکلیف کی اسی ذمہ داری کوکلام پاک میں دوسری جگہ ’’امانت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ امانت بڑے بڑے جمادات، نباتات اور حیوانات کے سامنے پیش کیا گیا ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس ذمہ داری کو اٹھانے کی ہمت نہ کرسکا؛ کیوں کہ وہ اس کو اٹھانے کی جو فطری صلاحیت درکار ہے، اس سے وہ سب عاری تھے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ :
ا8نا عرضنا الأمانۃ علیٰ السموات والأرض والجبال، فأبین أن یحملنھا و أشفقنَ منھا، و حملھا الا8نسان، ا8نہ کان ظلوما جھولا۔ (سورۃ :الأحزاب، آیۃ: ۷۲، پ: ۲۲)
ہم نے یہ امانت(یعنی احکام،جو منزلۂ امانت کے ہیں)آسمان و زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی، سو انھوں نے اس کی ذمہ داری سے انکار کردیااور اس سے ڈر گئے اورانسان نے اس کو اپنے ذمہ لے لیا، وہ ظالم و جاہل ہے۔ ( بیان القرآن)
یہاں امانت سے مراد احکام خداوندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا کہ اس شریعت پر عمل کرو۔ اگر عمل کروگے ، تو انعام ملے گا اور عمل نہیں کروگے، سزا کے مستحق بنوگے۔ کائنات کی ان بڑی بڑی مخلوقوں نے نہ صرف یہ کہا کہ ہم اس امانت کے بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے، بلکہ اس بوجھ کو اٹھانے سے ڈر گئے کہ ہم سے اس شریعت کا جو حق ہے وہ ادا نہ ہوسکے گا، لیکن جب انسان کے سامنے پیش کیا گیا ، تو اس نے اسے اٹھا لیا ۔ انسان اٹھانے پر اس لیے تیار ہوگیا کہ وہ ظالم بھی تھا اور جاہل بھی۔
ظالم اپنی حد سے آگے بڑھ جانے والے کو کہتے ہیں اور جاہل عقلی و ذہنی قوت کی بے اعتدالی کا نام ہے۔ظلم کا متضاد صفت عدل ہے اور جہالت کا علاج علم ہے اور یہ سب صلاحتیں انسان کے اندر موجود ہیں۔وہ عادل بھی ہوسکتا ہے اور ظالم بھی ۔ جہالت کا پتلا بھی ہوسکتا ہے اور زمانے کو مسخر کرنے والے علم سے لیس بھی ، لہذا عدل کا تقاضا ہے کہ اس کی اچھائی پر اسے انعام ملے اور جہل کا انجام یہ ہونا چاہیے کہ اگر علم کے مطابق نہیں چلتا تو اسے سزا دی جائے، تو یہ دونوں صلاحتیں صرف انسان میں تھیں ، اس لیے انسان نے اس بوجھ کو اٹھانے کا فیصلہ کیا۔انسان کے علاوہ کسی اور مخلوق میں اس کی صلاحیت ہی نہیں تھی، کیوں کہ مثلا جمادات : اینٹ، پتھر وغیرہ کو ہم ظالم یا جاہل نہیں کہہ سکتے ، اسی طرح نباتات کو بھی عالم وعادل اور ظالم و جاہل کی صفات سے متصف نہیں کرسکتے، کیوں کہ ان صلاحتیوں سے یہ بالکل عاری ہیں۔ صرف انسان کے اندر یہ صفات تھیں، اس لیے انسان نے اپنی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر کہا کہ ہم اس کے اہل ہیں اور ہم اس بار امانت کو اٹھائیں گے۔
قسط نمبر (9) پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں