6 May 2018

رہنمائے خطابت

حکایاتِ خودی

دارلعلوم دیوبندکی طویل المیعاد طالبِ علمی کی زندگی میں وہاں کی انجمنوں سے منسلک رہنے کی وجہ سے تقریرو خطابت کا شوق پید اہوا ۔اور اسے سیکھنے کے لیے ’’انجمن آئینۂ اسلاف طلبۂ ضلع گڈا جھارکھنڈ ‘‘کے ہفتہ واری پروگراموں میں شرکت کرنے لگا ۔اسی دوران اس فن کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر اس فن کا مطالعہ شروع کردیا اور اس میدان کے ماہرین اور نام ور مقررین سے صلاح ومشورہ کرتا رہا ۔ساتھ ہی مطالعے کا ماحصل لکھتا رہا اور ان حضرات کے تجربات بھی قلم بند کرتا رہا۔پھر ان دونوں کو یک جا کر کے ایک مقالے کی شکل دے دی گئی ،جو اب کتاب کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں موجود ہے ۔
فنی مطالعے کے دوران گرچہ متعدد کتابیں نظر سے گذریں اور ہر ایک کتاب سے بھر پور استفادہ کرنے کی کوشش کی گئی ؛لیکن اس کتاب کے اقتباسات میں صرف ’فنِ خطابت ‘ پر اکتفا کیا گیا ہے اور کبھی کبھار طوالت کے خوف سے گریز کرتے ہوئے کسی قدر طویل اقتباس بھی نقل کر لیا گیا ہے ۔اس کی کئی وجوہات پیش نظر تھیں ۔ایک وجہ تو یہ تھی کہ اگر بعینہ وہی مفہوم اس کتاب میں موجود ہے ،تو اپنی عبارت پیش کرنے کے بجائے اسی کتاب کی عبارت نقل کردی گئی ہے تاکہ اپنی بات کی توثیق میں اقتباس لے کر مضمون کو مزید طویل ہونے سے بچا یا جاسکے ۔اور دوسری وجہ یہ تھی کہ جو فنی جامعیت اور نکتہ آفرینیاں اس کی عبارت میں تھیں دوسری کتابیں ان سے عاری تھیں ۔کتاب کے آخر میں ایک سو ساٹھ نکات ،اشارات اور ہدایات بیان کی گئی ہیں ،جن میں سے کچھ تو راقم الحروف کے تجر بات ہیں اور کچھ اساتذۂ فن کے مشورے ہیں ۔شروع کے چند نکات،اشارات ،ہدایات عبارت کے حذف واضافے اور ترمیم کے ساتھ ’تقریرو خطابت ‘سے لیے گئے ہیں اور آخر کے کچھ ہدایات شورش کاشمیری کے بیان کردہ ہیں ۔اور ان تمام کو ایکٹھا کر کے ایک بہترین گل دستہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس کوشش میں ہم کہاں تک کامیاب ہیں ، اس کا فیصلہ توآپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ البتہ عام مؤلفین کی طرح اس کوشش کے بار آور ہونے پر ہمیں بے حد خوشی ہورہی ہے ۔خوشی کے اس موقعے پر سب سے پہلے رب دوجہاں کا شکریہ ادا کرنا ہمارا واجبی فریضہ ہے ۔اگر اس بے پایاں کرم کا خصوصی فضل وکرم نہ ہوتا ، تو ہمارے اس کام کے سفر کو کبھی بھی منزل نہ مل پاتی ۔لم یشکرالناس؛لم یشکراللہ کے فرمان کے مطابق ہم شکر گزار ہیں تاج دار فکروفن ،نابغۂ عصر جناب مولانامحمد افتخار احمد قاسمی نائب صدر آل انڈیا ملی و تعلیمی فاؤنڈیشن نئی دلی کے ؛جن کی نیک توجہات اور دعائے سحر گاہی نے ہماری زندگی میں بڑا کام کیا اور تقریظ عنایت فرماکر شکریے کا موقع فراہم کیا ۔عظیم سیاسی و صحافی جناب مولانا عبدالحمید نعمانی سیکریٹری جمعیت علمائے ہند کا شکریہ ادا کیے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ،جنھوں نے بندے کی ادنیٰ سی درخواست کو شرفِ قبولیت سے نواز کر مسودے پر نظر ثانی فرمائی ۔دارالعلوم کے مبلغ اعظم جناب مولانا عرفان قاسمی کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے ،جن کی صلاح و اصلاح اور رہ نمائی و رہ بری نے زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کا داعیہ پیداکیا اور توصیفی جملے عنایت فرماکر کتاب کے حسن میں اضافہ کردیا ۔اسی طرح ہم جملہ معاونین،ناشرین قارئین اور کسی نہ کسی اعتبار سے مدد کرنے والے تمام حضرات کے شکر گزار ہیں ۔فجزاہم اللہ تعالیٰ خیر الجزاء۔
اخیر میں ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت تمام حضرات کوان کی خدمات کا بہترین صلہ دیں ،ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں اور اس کتاب کو مقبولِ خاص و عام بنائیں۔آمین ۔ثم آمین۔ یا رب العالمین۔
محمد یاسین قاسمی ۲۴؍رمضان المبارک۱۴۲۹ھ 
۲۵؍ستمبر،۲۰۰۸ 

اس کتاب کو آن لائن مطالعہ کرنے یا ڈاون لوڈ کرنے کے لیے کلک کریں