2 May 2018

انسان ہی مکلف کیوں ہے؟

انسان ہی مکلف کیوں ہے؟

قسط نمبر (7) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

بحث کے شروع میں ایک سوال کیا گیا تھا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ جب خدا تعالیٰ ہی کی مخلوق ہے، تو پھر ان کروڑہا کروڑ مخلوقات میں سے صرف انسان ہی کیوں اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مکلف ہیں، دیگر مخلوقات کیوں نہیں؟ جس کے جواب کی تلاش کے لیے پانچ تمہیدات تحریر کی گئیں۔ قبل اس کے کہ اس کا جواب لکھا جائے ، پہلے تمہیدات کا خلاصہ کو ذہن نشین کرلیتے ہیں کہ 
(۱) اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفتیں ہیں اور ہر صفت کا دائرۂ کار الگ الگ ہے، جیسے مومن کے لیے صفت غفور اور کافر کے لیے صفت منتقم۔ کائنات عالم اللہ تعالیٰ کی تین صفات کی کرشمہ سازیاں ہیں: ابداع، خلق اور تدبیر۔
(۲) عالم فانی (دنیا) کی زندگی کے بعد دائمی زندگی(عالم آخرت) کی شروعات سے قبل روحیں ایک اور عالم سے گذرتی ہیں، جس کا نام عالم مثال ہے۔ اس عالم میں معنویات کے بھی جسم ہوتے ہیں، جیسے قیامت کے دن موت کو مینڈھا کا جسم عطا کردیا جائے گا۔
(۳) کائنات عالم میں تین بنیادی مخلوق ہیں: انسان ، فرشتے اور شیاطین۔ فرشتے خیر مجسم ہیں ،گناہ پر قادر نہیں۔ شیاطین شر محض ہیں، ان میں خیر کا کوئی بھی عنصر موجود نہیں۔اور انسان خیر وشر کا سنگم ہے۔اسی خیر و شر کی مناسبت سے مقام حیات بھی تین ہی ہیں: جنت ، جو سراسر مقام خیر ہے،وہاں شر کا شائبہ تک نہیں۔ جہنم ، عذاب و سزا کا مقام ہے، خیر کی کوئی بھی کرن نہیں ۔ دنیا ، خیر وشر کا مجموعہ ہے۔
(۴) ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے ، خواہ وہ بلاواسطہ ہو یا بالواسطہ۔زمین و آسمان اور جنت و جہنم وغیرہ کی تخلیق بلاواسطہ کی مثالیں ہیں اوربالواسطہ کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب میں تاثیر اور صلاحیت پیدا کردی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے آگ میں جلانے کی صلاحیت رکھی ہے، تو اگر آگ کسی کو جلادے، تو یہ درحقیقت بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی کا جلانا ہوگا۔ اور اللہ چوں کہ حکیم ہے، اس لیے اس کی ہر مخلوق کی پیدائش میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ضرور موجود ہے، کیوں کہ حکیم کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
(۵) عناصر اربعہ کے اختلاط سے پیدا ہونے والے بھاپ سے نسمہ پیدا ہوتاہے۔ یہ نسمہ جس قالب میں پہنچتا ہے، وہاں اس قالب کی صلاحیت کے مطابق زندگی اور اس کی قوت پیدا کرتا ہے۔ نسمہ میں یہ صلاحیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس میں روح ربانی آکر ٹھہرتی ہے، جس کا نام نفس ناطقہ ہے۔تو نفس ناطقہ کا مستقر نسمہ ہے، نسمہ کا مستقر دل ہے اور دل کا مستقر بدن ہے۔نسمہ اور بدن میں تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں، جب کہ روح ربانی میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ نفس ناطقہ ہمیشہ نسمہ ہی کے ساتھ رہتی ہے ، حتیٰ کہ بدن کے مرنے کے بعددونوں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ بدن سے نکلنے کے بعد دونوں عالم مثال پہنچ جاتے ہیں، جہاں انھیں اعمال حسنہ و سئیہ کے پیش نظر نورانی یا ظلمانی جسم عطا کیا جاتا ہے، پھر اسی جسم پر احوال برزخ کی جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔