9 May 2018

قسط نمبر (11) تکلیف شرعی اور جزا وسزا

تکلیف شرعی اور جزا وسزا

قسط نمبر (11) 
(محمد یاسین قاسمی جہازی کا مقالہ فلسفہ اسلام سے ماخوذ) 

تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی تکلیف شرعی کی صلاحیت رکھتا ہے، تو شریعت کی اطاعت میں جزا اور اس کی خلاف ورزی ضرور سزا کی مستحق ہونی چاہیے؛ کیوں کہ اگر ایسا نہیں ہوا، تو اطاعت ، نافرمانی اور مکلف بنانے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔ اب انسان کو اچھے اعمال پر اچھا بدلہ اور برے اعمال پرجو سزادی جاتی ہیں، اس کی چار وجوہات ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(۱) اس لیے کہ وہ انسان ہےانسان کے اعمال پر اس کو بدلہ اس لیے ملنا ضروری ہے کہ وہ انسان ہے، صاحب عقل و ادراک ہے۔ اگر یہ صاحب عقل و ادراک نہ ہوتا، تو پھر جزا وسزا کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ اور یہ معاملہ ایسا ہی ہے کہ جیسے انسان گھاس نہیں کھاتا اور چرنے والے جانور گوشت نہیں کھاتے؛ کیوں کہ دونوں کی فطری تخلیق اسی بات کی مقتضی ہے کہ جو جس فطرت اور نوعی صورت پر پیدا کیا گیا ہے، وہ وہی کام کرے۔ اگر کوئی اس کے خلاف کام کرے گا ، مثلا انسان گھاس کھانا شروع کردے اور چرند جانوروں کو گوشت کھلایا جانے لگے، تو دونوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ لہذا انسان کو تکلیف کی ذمہ داری سونپنے کے بعد اور اس وجہ سے کہ وہ انسان ہے ، عقلی قوت کا مالک ہے، انھیں امتثال امر پر جزا اور خلاف شریعت کام کرنے پر جزا دینا ضروری ہے۔
(۲) عالم بالا کے فرشتے کی دعائیں اور لعنتیں
انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقت فرشتے متوجہ رہتے ہیں ۔ فرشتوں کی دو جماعتیں ہر وقت انسانوں کے ساتھ ساتھ رہتی ہیں، جو ان کی حفاظت کرتی رہتی ہیں ،یہ فرشتے جہاں ان کی دنیاوی مصیبتوں سے حفاظت کرتے ہیں ، وہیں انھیں گناہوں سے بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر بندہ نیک کام کرتا ہے، تو اس کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں ۔ اگر برے کاموں میں لگا رہتا ہے، تو پھر اس کے لیے بد دعائیں کرتے ہیں ۔ فرشتوں کے یہ دونوں عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ انسانوں کے ذریعے انجام دیے جانے والے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جانا نظام کائنات کے فطری نہج پر چلنے کے لیے ضروری ہے ؛ ورنہ انسانوں کے لیے فرشتے کی تخلیق اور انسانوں کے اچھے کاموں پر دعاوں اور برے کاموں پر بد دعاوں کاجو نظام خداوندی ہے، وہ بے معنی ہوجائے گا۔ 
اس مضمون کے ثبوت کے لیے بے شمار احادیث ہیں، جن میں دعاوں اور بد دعاوں کا تذکرہ ہے۔ اختصار کے پیش نظر ایک دو حدیث ہی پیش کی جاتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا کہ :
الملائکۃُ یتعاقبون فیکم ملائکۃ باللیل، و ملائکۃ بالنھار،ویجتمعون فی صلاۃ الفجر و صلاۃ العصر،ثم یعرجون الذین باتو فیکم ، فیسألھم ، وھو أعلم بھم، کیف ترکتم عبادی؟ قالوا: ترکنا ھم وھم یصلون ، أتیناھم و ھم یصلون،قال: وقال رسول اللہ ﷺ: الملائکۃ تصلی علیٰ أحدکم ما دام فی مصلاہ الذی صلیٰ فیہ، تقول: اللھم اغفر لہ اللھم ارحمہ مالم یحدث (شعب الا8یمان للبیھقی، الحادی و العشرون من شعب الا8یمان وھو باب فی الصلاۃ، فصل فی الصلاۃ الخمس فی الجماعۃ آہ)
دن اور رات کے فرشتے تمھاری نگرانی کرتے ہیں اور نماز فجر و عصر کے وقت اکٹھا ہوجاتے ہیں۔ پھر رات گزارنے والے فرشتے اوپرچلے جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرتے ہیں ، حالاں کہ اللہ کو سب کو معلوم ہوتا ہے : میرے بندے کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم انھیں اس حال میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ وہ نماز میں مشغول تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے ، تب بھی وہ نماز میں ہی تھے۔ راوی ارشاد نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے تمھارے لیے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں، جب تک تم اپنی نماز کی جگہ پر رہتے ہو۔ فرشتہ کہتا ہے کہ ائے اس کی مغفرت فرما، ائے اللہ اس پر رحم کا معاملہ فرما۔ یہ دعا بندے کے وضو ختم ہونے تک جاری رہتی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ 
المدینۃ حرمٌ مِن کذا ا8لیٰ کذا،لایُقطعُ شجرُھا، ولایُحدثُ فیھا حدثٌ، من أحدث حدثا ، فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین (صحیح البخاری،کتاب الحج، باب حرم المدینۃ)
شہر مدینہ یہاں سے وہاں تک حرم ہے،اس کے درختوں کو نہ کاٹا جائے اور نہ اس میں کوئی نئی چیز پیدا کی جائے، جو اس میں نئی چیز پیدا کرے گا، تو اس پر اللہ، فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مجازات اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسانوں کے اعمال پر فرشتوں کی دعائیں یا بد دعائیں ساتھ لگی رہتی ہیں۔
(۳) نزول شریعت 
ہر زمانے میں اس دور کے تقاضے کے مطابق شریعتیں آتی رہی ہیں۔ زمانے کے مقتضیات کے مطابق میں ان میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ شریعتوں پر عمل کرنا باعث اجر اور ان کی خلاف ورزی موجب سزا ہونا ضروری ہے، ورنہ شریعت کو نازل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اطاعت و خلاف ورزی پر جزا و سزا کو معیار نہ بنایا جائے گا، تو مکلف بنانے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا، لہذا شریعت بھی چاہتی ہے کہ امتثال امر پر جزا کا مستحق بنے اور خلاف ورزی کرنے پر اسے سزا دی جائے۔
(۴)انبیا علیہم السلام کی تعلیمات
دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی یا رسول نہ بھیجا ہو۔ نبی لوگوں کو خیر و فلاح کی دعوت دیتے ہیں اور پیغام خداوندی کو پہنچاکر انھیں نیک بننے اور مرضیات الہی کے مطابق زندگی گذارنے کے طریقے سکھاتے ہیں۔ انبیا کی محنت اور اللہ کے پیغامات کا لازمی تقاضا ہے کہ جو ان کے بات مانے اور ان پر عمل کرے، ان کی تحسین کی جائے اور انھیں اس کا بہترین بدلہ ملے۔ اور جو لوگ ایسا نہ کریں، انھیں سخت سے سخت عذاب دیا جائے۔