4 Apr 2018

خصائصِ خطابت یارازہائے مقبولیت

(قسط نمبر (6) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)


یوں تو تقریر کے اسٹیج پر سینکڑوں مقرر آتے ہیں اوراپنی اپنی باتیں بیان کر کے چلے جاتے ہیں ۔ان میں کچھ خطیب ایسے ہو تے ہیں، جن کی کہی ہوئی باتوں کا سامعین پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔وہ ایک کان سے سن لیتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اور پوری تقریر صدا بہ صحرا ہوجاتی ہے۔لیکن بعض ایسے مقرر بھی ہوتے ہیں، جن کا نام آتے ہی سامعین میں کہرام مچ جاتا ہے ،سونے والوں کی نیندیں کافور ہوجاتی ہیں اور ان کی باتوں کو سننے لیے ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں ؛بلکہ دیر گئے رات تک جلسے میں اسی لیے بیٹھے رہتے ہیں کہ ان کو سنے بغیر نہیں جانا ہے۔آخر وہ کیا راز ہیں ،جن کی بناپراول الذکر خطیبوں کی تقریریں صدا بہ صحرا ہوجاتی ہیں ،جب کہ آخر الذکر مقرروں کے ہرہر قول موتی کے تول کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ؟وہ راز یہ ہیں کہ ثانی الذکر مقرروں میں کچھ ایسی خصوصیات وامتیازات پائی جاتی ہیں ،جن سے اول الذکر حضرات عاری اور خالی ہوتے ہیں ۔وہ خصوصیات و اوصاف درجِ ذیل ہیں ۔
صاف وشفاف سیرت
حسنِ سیرت ایک مقرر کی مقبولیت کی اولین شرط اور اس کی پسندیدگی کا بنیادی گر ہے ۔اس صفت کے بغیر ۔خواہ مقرر فن تقریر میں کتنی ہی مہارت کا حامل ہو اور خواہ کتنے ہی جوش وہنگامے بپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔نہ تو اس کی باتیں اثر انگیز ہوسکتی ہیں اور نہ ہی سامعین دل جمعی کے ساتھ سن سکتے ہیں ؛بلکہ ایک داغ دار سیرت مقرر کا نام اناؤنس ہوتے ہی سامعین میں چہ می گوئیاں ہونے لگتی ہیں۔ بعض سامعین تو سخت و سست کہے بغیر نہیں چھوڑتے اور مجلس سے اٹھ کر بھی چلے جاتے ہیں ۔ایک خطیب کے لیے حسن سیرت جتنی اہمیت رکھتا ہے ،اتنی اہمیت کوئی اور چیز نہیں رکھتی ۔ اس حوالے سے شورش کاشمیری رقم طراز ہیں کہ :
’’خطابت کی اصل بنیاد خطیب کی سیرت ہے ۔اگر ایک خطیب کے دامن پر کوئی دھبہ ہے یا وہ اخلاق کی ابدی قدروں میں سے کسی قدر سے محروم ہے ،تو وہ عزت مند نہیں ہوسکتا اور ایک خطیب کے لیے عزت مندی ہی قبول عامہ کی اساس ہے ۔اس اعتبار سے خطابت ایک خاردار وادی ہے ،جس سے صحت مند قدم ہی گزرسکتے ہیں۔اکثر شاعر لہو ولعب کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ہمارے زمانے میں دو چار شاعروں کو چھوڑ کر اکثر شاعروں نے ناؤنوش کی زندگی بسر کی اور بعض نے اس پر فخر کیا ؛لیکن عوام نے کبھی ان سے تعرض نہیں کیا۔اسی طرح مصور و موسیقار اور ادیب انھیں راستوں کے مسافر رہے ہیں ۔انھوں نے معصیت کے لمحوں کو اپنی کلاہِ افتخار میں ٹانکا ہے ؛ لیکن خطیب یا مقرر کسی معصیت یا گناہ کا تصور بھی کریں اور ان کا ذائقہ چکھنا چاہیں اور عوام کے علم میں ہو ،تو وہ عوام میں ایک آدھ پھیر ڈال سکتے ہیں؛لیکن عوام میں ٹھہر نہیں سکتے ۔ان کی شخصیت کا ڈھلنا خارج از امکان اور قبول عامہ کا حصول نا ممکن ہے ۔خطیب کی سیرت اس کی دولت اور اس کا کیریکٹر اس کا خزانہ ہے ۔جو خطیب ومقرر اس سے محروم ہوئے،وہ دماغوں اور دلوں پر کوئی نقش نہیں جما سکے ۔ان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ اس خوش آواز گداگر کی ہوتی ہے ،جو مکانوں کی چوکھٹ پر صدا دیتا اور نا کام لوٹتا ہے یاپھروہ اس ڈھولک کی تھاپ ہے ،جو بالا خانوں پر بجتی ہے اور رات کی چمک دمک گذرنے بعد تماشائی کے لیے منتشر و مضمحل صبح لے کر طلوع ہوتی ہے۔خطابت بدن ہے ، تو سیرت اس کی روح ہے ۔خوب صورت روح ہی تندرست بدن قائم رکھتی ہے ۔کسی فن میں سیرت اس شدت سے معیوب نہیں ہو تی ،جس شدت سے خطابت میں اس کی پرکھ ہوتی ہے اورایک خطیب کے اعمال پر عوام کی نگاہ رہتی ہے ۔اگر کوئی خطیب یا مقرر پبلک لائف بسر کرنا چاہتا ہے ،تو لازم ہے کہ بے داغ کیریکٹر رکھتا ہو اور اس کی سیرت لہو ولعب کے چھینٹوں سے محفوظ۔ ایک خطیب اپنے لیے یہ کلیہ قائم نہیں کر سکتا کہ عوام کی زندگی اور نجی زندگی میں فرق ہے ۔‘‘
(ص؍۳۱و۳۲)
اخلاص وللہیت
مقرر کی مقبولیت کا دوسرا راز ’’اخلاص وللہیت ‘‘ہے ۔گرچہ یہ ایک باطنی اور روحانی چیز ہے ،جس کا مشاہدہ نا ممکن ہے ،تاہم اس کا مقرر کی ذات سے ایک ایسا روحانی اورمعنوی تعلق ہے ،جو غائب از نظر ہونے کے باوجود لوگوں کو نظر آجاتی ہے اور سامعین تقریر سن کر ہی یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ حضرت خطیب کتنے سوزودرد اور خلوص وللہیت کے ساتھ تقریر فرمارہے ہیں ۔چنانچہ مشاہدہ شاہدعدل ہے کہ جو حضرات محض للہی جذبے کے ساتھ تقریر کرتے ہیں ،ہر چند کہ ان کی آواززیادہ شیریں نہیں ہوتی اور نہ ہی بہت زیادہ طلاقت وسلاست کے ساتھ بول پاتے ہیں ،پھر بھی ان کی باتیں دل ودماغ میں اترتی چلی جاتی ہیں اور ان پر عمل کرنے کا فطری جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے ۔اور جوحضرات اس وصف سے عاری ہوکر محض دکھاوے کے لیے صرف اس مقصد سے تقریر کرتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق یہ نظریہ قائم کریں کہ کیا خوب لچھے دار تقریر کرتے ہیں ۔ہر چند کہ وہ انتہائی جوش و ہنگامے کے ساتھ بولتے ہیں اور اپنے زور بیان سے مائک کا گلا پھاڑ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ،ان حضرات کی تقریروں سے وقتی طور پر توسامعین مرعوب ہوجاتے ہیں،اوروہ اس قدر تأثربھی لے لیتے ہیں کہ مقرر موصوف نے کیاخوب تقریر فرمائی۔لیکن تقریر کا جو اصل مقصد ہے ،وہ حاصل نہیں ہوتا۔کیوں کہ ان کی تقریر سے نہ تو سامعین کے اندر عمل کاجذبہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے؛بلکہ وہ ایک کا ن سے سنتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے کان سے نکال بھی دیتے ہیں ۔اور اس کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کے اندراخلاص کی خمیر نہیں ہوتی ۔اس لیے خطیب کو اپنی مقبولیت کا جوہر حاصل کرنے کے لیے اخلاص کا جوہر پیدا کرنا ضروری ہے ۔
’’۔۔۔اس کی اساس عشق و اخلاص پر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عوام مقرر کے اخلاص پر جان چھڑکتے ہیں ۔ اور اخلاص ایک بے میل سچائی کا نام ہے ۔خطابت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مقرر سے لے کر تقریر تک سب کچھ غیر مصنوعی ہو۔کسی پہلو سے کوئی چیزمصنوعی ہوگی ،تو حشو وزوائد ہوگی ۔کسی پبلک جلسے میں عوام تماشہ دیکھنے کے لیے نہیں ؛بلکہ کچھ پانے کے لیے آتے ہیں اور ہمیشہ اخلاص سے مسخر ہوتے ہیں ‘‘۔ (ص؍۷۱)
شخصی وجاہت
کہا جاتا ہے کہ شخصیت کی چھاپ فن کی چھاپ سے زیادہ گہری ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ خواہ کسی قسم کا اسٹیج ہو ،لوگ سب سے پہلے فن کار کا نام دیکھتے ہیں ۔اور فن سے زیادہ فن کار کے قدر داں ہوتے ہیں ۔تقریر کے متعلق بھی لوگوں کی یہی عادت ہے ۔’’تقریر کیسی ہے ؟‘‘ کے بجائے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہیں کہ ’’کس کی تقریر ہے؟‘‘ اس لیے میدان خطابت میں منظورِ نظر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی شخصیت کو استوار کریں ، بنائیں اور سنواریں ۔
شخصی وجاہت سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کے ظاہری حسن و جمال قابل توجہ ہو ں اور پُر تکلف لباس و پوشاک جاذب نظر ؛بلکہ شخصیت سے مراد یہ ہے کہ آپ اخلاقِ حسنہ اور کردارِ عالیہ سے متصف ہوں ،آپ کا اخلاقی برتاؤ ، حسن معاملہ ،حسن سلوک ،حسن عمل اور گفتار وکردار ایسا مسحور کن ہو کہ جو کوئی آپ کو دیکھے ،آپ کو سنے ،آپ سے ملے ؛ وہ آپ کا ہوکر رہ جائے،اور آپ کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگے ۔
بے عیب و شیریں آواز
مقرر کی مقبولیت میں اس کی آواز کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے ۔چنانچہ مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ جس کی آواز شیریں اور بے عیب ہوتی ہے ،سامعین بصد رغبت و شوق اورانتہائی دل جمعی کے ساتھ اس کی تقریر کو سنتے ہیں ۔اور جس کی آواز صاف نہیں ہوتی ہے ،بولتے کچھ ہیں اور سامعین کی سمجھ میں کچھ اور آتا ہے ۔اسی طرح دورانِ خطابت کبھی کھنکھارنے لگتے ہیں ،کبھی گلا کھینچتے ہیں ،کبھی تھکتھکا تے ہیں ،تو ہر چند کہ وہ قیمتی سے قیمتی باتیں بیان کرتے ہیں؛ لیکن ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے سامعین اپنی توجہ ہٹالیتے ہیں ۔بلکہ وہ جب تک کرسیِ خطابت پر بیٹھے رہتے ہیں ، عوام ان گھڑیوں کو مصیبت کی گھڑیاں سمجھتے ہیں اوریہ تمنا کرتے رہتے ہیں کہ یہ صاحب اب جائیں ،تب جائیں ۔ اس لیے آپ ہمیشہ اپنا گلا اور اپنی آوازصاف وشفاف رکھیں ۔ 
دل کش اندازِبیان
مقبولیت کاایک گُر دل کش اور عمدہ انداز بیان بھی ہے ۔بعض لوگوں کا انداز بیان اس قدر شیریں اورعمدہ ہوتا ہے کہ بات ا گرچہ معمولی اور گھسی پٹی ہوتی ہے ،تاہم وہ اپنے حسن بیان سے غیر معمولی بنادیتے ہیں ۔اور مشکل سے مشکل مسئلے کو ا س قدر سہل اور آسان بنا دیتے ہیں کہ انھیں ہر کس وناکس سمجھتا چلاجا تا ہے ۔اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انھیں بیان کی جائیں ،تو سامعین ناگواری محسوس کرسکتے ہیں ؛لیکن ایک دل کش انداز بیان کا حامل مقرر اس سلیقے اور تہذیب کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ سامعین ذرابھی ناگواری محسوس نہیں کرتے ۔بلکہ اگر ان باتوں کا تعلق اصلاح وغیرہ سے ہوتا ہے ،تو انھیں اصلاح کی فکر ہونے لگتی ہے ۔مثال کے طور پر ایک بات یوں کہی جاسکتی ہے کہ’’ مجھے پانی پلائیے ،مہربانی ہوگی‘‘ ۔اسے اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ’’ میرے لیے پانی لاؤ‘‘۔اور اس طرح بھی بول سکتے ہیں کہ’’ ابے او، سنو! جلدی سے پانی لاؤ ‘‘۔یہ سب جملے ایک ہی مفہوم کوا دا کر رہے ہیں ۔لیکن ہر ایک جملے کا انداز بیان ایک دوسرے سے مختلف ہے ،جن میں سے پہلا جملہ سب سے زیادہ پُر کشش ہے ۔اگر کوئی اس انداز سے کہے گا ، تودوست تو دوست ؛دشمن بھی پانی لانے کو ترس جائے گا ؛لیکن اگر آخری جملے کے لہجے سے کہے گا ،تو دشمن تو رہا دشمن ؛ دوست بھی پانی لانے کو تیار نہیں ہوگا ۔اسی لیے اپنی شخصیت کو مسحو رکن اور قابل التفات بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بات کو اچھے نداز میں کہنے کا سلیقہ پیدا کریں ۔
فطری لب ولہجہ(انفرادیت)
فطری لب ولہجے سے مراد یہ ہے کہ آپ ایسی زبان میں تقریر کریں ،جو عوام الناس اور عام بول چال کی زبان ہو۔اور جو آپ کو کار خاأہ قدرت کی طرف سے ملی ہو ۔اسی طرح آپ کا انداز بیان بھی خود اپنا ہو ۔نہ تو زبان میں کسی کی نقل ہو اور نہ ہی انداز بیان میں کسی کی تقلید ۔یہی چیز ایک مقرر کی انفرادیت ہے۔
بعض لوگ اپنی وہبی اور فطر ی انداز سے پہلو تہی کرتے ہیں اور دوسروں کی زبان و بیان کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ،جیسے کہ کچھ لوگ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی اردوئے معلیٰ کو رٹ لیتے ہیں اور انھیں کے اندازبیان میں تقریر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حالاں کہ مولانا آزاد جس زبان میں تقریر کیا کرتے تھے ،وہ ان کی فطری اور روز مرہ کی زبان ہوتی تھی۔اس لیے وہ الفاظ جب ان کی زبان سے ادا ہوتے تھے ،تو اچھے لگتے تھے اور سامعین مبہوت ومرعوب ہوجاتے تھے ؛لیکن وہ الفاظ جب دوسروں کی زبان و بیان سے ادا ہوتے ہیں ،تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کوا بلبل کی بولی بولنے کی کوشش کر رہاہو۔کسی کی نقالی اور تقلید سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں :ایک خرابی تو یہ لازم آتی ہے کہ اس کا فطری لب ولہجہ اور ذاتی انفرادیت متأثر ہوتی ہے ،جس سے نہ توفطری انداز اپنی اصلی حالت پر برقرار رہ پاتا ہے اور نہ ہی اس کے مکسوبی اور نقلی انداز میں کوئی کشش پیدا ہوپاتی ہے ۔دوسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ اس کی تقریر میں اثر انگیزی باقی نہیں رہتی ۔وہ جو کچھ کہتا ہے ،وہ صدا بہ صحرا ہوجاتا ہے ۔اور تیسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ سامعین اس کے متعلق یہ نظریہ قائم کرلیتے ہیں کہ منجملہ جوکروں میں سے ایک جوکر یہ بھی ہے جو دوسرے کی نقالی کر نے کوشش کر رہا ہے ،پرنقالی میں نا کام نظر آرہا ہے ۔
ہم بڑے خطیبوں کو آئڈیل تو بنا سکتے ہیں ،لیکن ان کی ہو بہو نقل نہیں اتار سکتے۔کیوں کہ جس طرح لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے کسی ایک کی شکل وصورت دوسرے سے نہیں ملتی ،اسی طرح ہر خطیب کا لب ولہجہ بھی ایک دوسرے سے مختلف اور جدا ہوتاہے ،جس کی نقل نا ممکن ہے ۔بہ قول شیخ سعدی ؒ ع 
ہرگلے را رنگ و بو ئے دیگر است
’’جس طرح کسی شاعر یا ادیب کی جگہ لینا مشکل ہے ۔غالب غالب تھے ۔اقبال اقبال تھے۔اسی طرح کسی خطیب کی جگہ لینا ممکن نہیں ۔ابوالکلامؒ ،عطاء اللہ شاہ ؒ ،ظفر علی خاں ؒ اور ابوالا علیٰ ؒ سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔لیکن ان کی جگہ نہیں لے سکتے ؛کیوں کہ ہر شمشیر بکف سکندر اعظم نہیں اور نہ ہر صحرانورد کو مجنوں کہ سکتے ہیں ۔‘‘ (ص؍۹۶)
مترادفات کا استعمال
دورانِ تقریر ایک ہی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی تکرار اور بار بار بکثرت مترادف الفاظ کے استعمال کرنے سے بھی اظہار واسلوب میں رونق پیدا ہوتی ہے ،تقریر کا حسن نکھرتا ہے اور اس کی مقبولیت دوچند ہوجاتی ہے۔
’’ایک مقرر وخطیب کے لیے مترادفات (ہم معنی الفاظ )شعلہ نوائی کا ایندھن ہیں۔چند الفاظ ملاحظہ فرمائیے:اچھا ،برا ۔حسن وقبیح ۔خیرو شر۔زیست وخوب۔بہتر و بد تر۔یہ معنوی تفاوت کی باریکی کے استعمال میں انشا و بیان کا فاصلہ ہے ۔اور یہی فاصلہ ان کی معنویت کے یکساں خطوط کوایک دوسرے سے ممیز کرتا ہے ۔اور ایک خطیب وادیب ان کے معنوی استعمال ہی سے منفرد وممتاز ہوتا ہے ‘‘۔
(ص؍۶۳) 
موقع شناسی 
جوہر مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک مقررکو موقع شناس ہونا ضروری ہے ۔اس کے لیے باقاعدہ کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کرنا پڑتا ہے ؛بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے ،جو ایک حساس اور نباض خطیب جلسے کی نوعیت،گردو پیش کے حالات ،زمان ومکان کی خصوصیات ،عوام کی سماجی ومعاشی کیفیات ،عالمی سیاسی منظرنامے اور ان جیسی چیزوں سے خود بخود بھانپ لیتا ہے کہ اس وقت کیا موقع ہے ۔ایسے موقعوں پر کیسی تقریر مقبول ہوگی ؟ مجمع کتنی دیر میرا ساتھ دے سکتا ہے ؟کیسا اندازاور کس طرح کا اسلوب مناسب اور مؤثر ہوگا ۔مثلاََ ایک خطیب کو جلسۂ تعزیت میں مدعو کیا گیا ہے ،تو جلسے کی نوعیت اس بات کا متقاضی ہے کہ یہاں صرف وہی باتیں بیان کی جائیں گی،جو مرحوم کی حیات ،اس کی سوانح عمری ،خطیب کا اس کے ساتھ ذاتی تعلق وتأثر اور جامع تبصرے سے متعلق ہوں ۔اب اگر کوئی مقرر اس موقعے پر جشن بہاراں پر لیکچر دینے لگے اور موسم بہار کی پُر فریب مناظر کی منظر کشی کر نے لگے ،تو اس کے پسماند گان اور اہل مجلس خطیب کوکس مقبولیت سے نوازیں گے ،وہ بالکل عیاں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی مسئلہ میڈیا کے توسط سے خاص و عام کا موضوع بحث بنا ہوا ہو اور اس کاکوئی صحیح رخ واضح نہ ہو رہا ہو ،تو اس موضوع پر مکمل و مفصل روشنی ڈالنا ایک مقرر کے لیے وقت کا تقاضا ہوگا ۔یہ بھی موقع شناسی کے ضمن میں ہی آتا ہے کہ کسی پروگرام میں آپ کے حصے میں کونسا وقت آیا ہے ۔اگر شروع کا وقت ہے ،تو اجمال اور ابہام کے بجائے تفصیلی کلام کرنا زیادہ موزوں ہے ۔اوراگر آخر ی حصہ آیا ہے ،تو سامعین دیگر مقرروں کو سنتے سنتے چوں کہ بوجھل ہوچکے ہوتے ہیں ،ان پر غنودگی اور تھکان کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔وہ اونگھنے اور ٹوگھرنے لگتے ہیں ۔ سب اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اب دعا ہو ،تب دعا ہو ۔تو یہ چیزیں اس پر غماز ہیں کہ جتنی جلدی ہوسکے ،اتنی ہی جلدی تقریر ختم کردی جائے اور دعا کے ساتھ مجلس برخاست کر دی جائے ۔ ایسے موقعے پر تفصیلی کلام کرنا ۔خواہ وہ کتنا ہی اہم اور ضروری ہو۔بے سود اور لاحاصل ہوگا ۔اور سامعین اس سے اکتاہٹ بھی محسوس کریں گے۔اسی طرح یہ بھی موقع شناسی سے ہی متعلق ہے کہ آپ کے سامعین کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔اگر وہ عوام ہیں ،تو ان کے سامنے انتہائی سادہ ،سہل ،شیریں اور ان کی روز مرہ کی گفتگو میں خطاب کرنا ہوگا ۔ ان کے سامنے بوجھل الفاظ ، مشکل ترکیبیں ،پیچیدہ فقرے،گنجلک اسلوب اور دور دراز کی تشبیہات و استعارات استعمال کرنے سے گریز کرنا ہوگا ۔اسی طرح منطقی اسلوب ،فلسفیانہ مباحث اور عقائد و کلام کے مسائل چھیڑنے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
’’جب آپ عوام سے مخاطب ہیں ،تو آپ پر لازم ہے کہ بوجھل ،پیچیدہ ،نامانوس اوران گڑھ الفاظ سے پرہیز کریں ۔اور یہ چیزیں ذہن میں رکھیں کہ دور دراز کے استعارے ،پیچ وخم میں لتھری ہوئی تشبیہیں ،معمہ نما رمزیں،ملفوف کنائے اور محصور محاورے عوام کے لیے پہیلیاں ہیں ۔ان سے مجمع من حیث الکل متمتع نہیں ہوتا اور نہ ان کی معرفت عوام کے ذہنوں میں اترسکتے ہیں ۔‘‘(ص؍۷۳)
ایک مقرر کو عوام کی ذہنی استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے طور پر ضرور طے کر لینا چاہیے کہ وہ جس مجمع سے مخاطب ہے ،اس کو کتنی دیر لے کر ساتھ چل سکتا ہے اور جس اجتماع کا مقرر ہے ،اس کا وہی مقرر ہے یا دوسرے مقرربھی ہیں ۔اور ان کا مقام کیا ہے ۔اکثر مقرر مجمع سے زیادہ اپنے خیالات کو عزیز رکھتے ،عوام کی اکتاہٹ کو مطلقا محسوس نہیں کرتے ،داد کے روپ میں بے داد کا اندازہ نہیں کرپاتے اور کلمات ستائش کی منفی شکلوں کو بھانپ نہیں سکتے کہ ان پر تنقید وتعریض کے چھینٹیں اڑائے جارہے ہیں ،مقرر کا فرض ہے کہ مجمع کا تیور شناس ہو‘ ‘ (ص ؍۱ ۵و ۲ ۵ ) 
المختصر جیسا مجمع ہوگا ،تقریر بھی ویسی ہی کرنی ہوگی ۔
برجستہ گوئی
برجستہ گوئی سے مر اد یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر سابقہ اطلاع کے بغیر اچانک کوئی موضوع آپ کے لیے متعین کر دیا جائے ،تو آپ کسی جھجھک اور کسی خوف و ہراس کے بغیر اس طرح تسلی بخش بیان دے سکیں کہ عوام مبہوت ہوجائے اور اسٹیج پر جلوہ افروز مقررین اس بات کا اندازہ نہ لگا سکیں کہ آپ کا اس موضوع پر کوئی مطالعہ نہیں ہے ۔ اسی طرح آپ کی ہیئت جسمانی اور شکل و صورت سے نہ تو خوف وہراس نمایاں ہو اور نہ ہی آپ کی اعتمادی کیفیت سے بے اعتمادی کا اثر جھلکے ۔انداز خطابت ،لب ولہجہ ،اشارات و حرکات ؛غرض کسی بھی پہلو سے کم علمی اور عدم تیاری کی جھلک دکھائی نہ دے۔ بلکہ آپ اس طرح یقین اور اعتماد کے ساتھ بولیں کہ گویا اس موضوع پر آپ کا بہت گہرا مطالعہ ہے۔
نستعلیق اشارات
ترسیل خیالات کے لیے صرف زبان کا نہیں ؛بلکہ اشارات وحرکات کا بھی سہارا لیا جاتا ہے ۔اگر کوئی بات صرف زبانی طور پر کہہ دی جائے ،توگفتگو کا مطلب تو حاصل ہوجاتا ہے ۔لیکن اگر اس کے ساتھ اشارات بھی کیے جائیں ،تو بات اور اچھی طرح منقح ہوکر ذہن نشیں ہوجاتی ہے۔خطیب کی کامیابی کا بھی یہی راز ہے کہ سامعین اس کی باتوں کو اچھی طرح سمجھ لیں۔اس لیے خطیب کو موقع بہ موقع دوران تقریر اپنے ہاتھوں اور سرکو حرکت دینی چاہیے ۔بالکل بُت بن کر بیٹھے نہیں رہنا چاہیے ؛کیوں کہ 
’’اشارات:۔۔۔۔۔۔ان کی حیثیت خطابت کے ساتھ وہی ہے ،جو نطق کے ساتھ ہونٹوں کی،زبان کے ساتھ بیان کی اور پاؤں کے ساتھ چال کی ۔‘‘(ص؍۴۶)
بعض لوگ تقریر کے دوران اتنی حرکت کرتے ہیں کہ جیسے کوئی مقرر نہیں ؛بلکہ کوئی ایکٹر یا جوکر تماشا کر رہا ہے۔ ان حرکتوں کے باعث مقرر جہاں سامعین کے لیے محض ایک تماشا بن جاتا ہے ،وہیں اس کی شخصیت بھی متأثر ہوتی ہے ۔اس لیے نہ تو باکل جمود کا مجسمہ بن کر بیٹھے رہنا چاہیے اور نہ ہی سراپا حرکت کا نمونہ بن جاناچاہیے ۔ بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے بیچ کی یہ کیفیت اختیار کرنی چاہیے کہ جب اشارے کی ضرورت پڑے اور اس جگہ مقرر مناسب سمجھے ، وہاں پر اشارے کا سہارا لے ۔اور جہاں ضرورت محسوس نہ ،اس جگہ کسی قسم کی حرکت سے گریز کرے۔ 
موقع کے مناسب انداز خطاب 
خطابت کے لیے کوئی ایک انداز پائدار نہیں ہوتا ۔بعض حضرات کتاب پڑھنے کی طرح تسلسل کے ساتھ بولتے چلے جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خطاب کر رہے ہیں ۔حالاں کہ وہ خطاب نہیں ؛بلکہ مکالمت ہے ۔اسی طرح کچھ خطیب موضوع اور زبان و مکان کے تقاضے کو مد نظر نہیں رکھتے اور ایک طرز میں بیان کرتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے ۔صحیح یہ ہے کہ جیسا موضوع اور جس طرح کا ماحول ہو ،اسی کی مناسبت سے لب و لہجے میں نرمی گرمی ، آواز میں اتار چڑھاو،تکلم میں زیرو بم اور الفاظ میں مد وجزر پیدا کرنا چاہیے ۔اور یہی ایک مقرر کی کامیابی و کامرانی کا سربستہ راز ہے ۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’۔۔۔ہر موضوع کے لیے طریق اظہار مختلف ہوتا ہے ،حتیٰ کہ پبلک جلسوں میں بھی ہم موضوع کی رعایت سے طریق اظہار بدلتے ہیں۔مثلا فتح و شکست یا خوشی و غمی کے جلسوں میں اظہار مختلف ہوگا ۔نہ صرف لب و لہجے میں فرق ہوگا ؛بلکہ آوز کے اتار چڑھاو میں تفاوت ہوگا ۔ظاہر ہے کہ تعزیت کے جلسے میں سیرت کا لہجہ اختیار نہیں کرسکتے ۔اسی طرح عوام کے اجتماع اور خواص کی تقریب میں بھی اظہار کی نوعیت بدل جاتی ہے ‘‘۔ (ص؍۴۵)
مزید تفصیلات آگے آئے گی ۔ان شاء اللہ تعالیٰ،ھو الموفق والمعین۔

مقرر کے لیے درکار صلاحیتیں

(قسط نمبر (5) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)


جرأت وخود اعتمادی
ایک اچھا اور با کمال مقررکے لیے جو سب سے بنیا دی اور اولین شرط ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ جرأت مند ہو ، کم ہمت اور پست حوصلہ صفت نہ ہو۔اسی طرح پر اعتماد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر مکمل بھروسہ بھی رکھتا ہو۔ ایک خطیب کے اندر جب تک حد درجے کی جرأت مندی اور خود اعتمادی نہیں پائی جائے گی ،تب تک وہ کامیاب اور با کمال مقرر نہیں بن سکتا ۔جرأت وخود اعتمادی پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ایک ذرا سی کوشش،ہلکی سی توجہ ، تھوڑی سی مشق اور مطالعہ کی معمولی سی لگن سے یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے مزید گفتگو آگے آئے گی ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
باخبر ذہن
اسی طرح ایک با کمال خطیب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ با خبر ذہن کا مالک ہو ،حاضر ذہنی کی صلاحیت سے لیس ہو ،ایسا نہ ہو کہ اسٹیج پر آتے ہی اس پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا ہو ۔اس کا ذہن و دماغ ماؤف ہو جاتا ہو اور دورانِ تقریر اس کا حافظہ ساتھ چھوڑ دیتا ہو ؛کیوں کہ دورانِ تقریر اگر یہ کیفیتیں پیدا ہوجائیں گی ،تووہ مرصع اور مربوط تقریر نہیں کر سکے گا ۔ذہن کو حاضر جواب اور با خبر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کثرت سے مطالعہ کیا جائے ،اسٹیج پر آنے سے پہلے تقریر کی مکمل تیاری کر لی جائے اور مشقِ خطابت کے دوران غور و فکر کرنے کی بھی مشق کی جائے۔مشق خطابت کے عنوان سے مزید باتیں آگے آئیں گی ،ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مجمع کی نفسیات سے آگاہی
ایک خطیب کے اندر یہ صلاحیت بھی ہونی ضروری ہے کہ وہ تقریر کے اسٹیج پر بیٹھتے ہی یہ بھانپ سکے کہ پورا مجمع مجھ سے کس بات کو سننے کا خواہاں ہے ۔جلسے کی نوعیت اور حالاتِ حاضرہ کے اعتبار سے وہ کون سا موضوع اپنا یا جائے ، جس سے عوام قبضے میں آجائے ۔تقریر کا جو وقت ملا ہے وہ مجلس کے کس حصے کا ہے ،جس کی مناسبت سے کتنی دیر اور کس انداز سے تقریر کرنی چاہیے ؛غرض ایک مقرر کے لیے سامعین کی نفسیات سے مکمل طور پر واقف ہونا ضروری ہے ۔اور اس کے لیے علم النفسیات (سائکا لوجی )کا مطالعہ ،بڑے بڑے خطبا کی سماعت و مشاہدہ اور ان دونوں سے حاصل ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے ۔ 
وسیع المطالعہ
ایک اچھا مقرر کے لیے وسیع المطالعہ ہونابھی ضروری ہے؛کیوں کہ اگر وہ وسیع المطالعہ کا حامل نہ ہوگا،تووہ کوئی بھی بات مستحکم،ٹھوس اور پختگی کے ساتھ نہیں کہ سکے گا ۔بسا اوقات مقرر کوپہلے سے کسی اطلاع کے بغیر اچانک کوئی موضوع دے دیا جاتا ہے ،جس پر اس کو فی البدیہہ بولنا پڑتا ہے ۔ایسے موقعے پر اس کی عزت و آبرو اس کا وسیع المطالعہ ہونا اور ہمہ گیر معلومات ہی بچا سکتی ہیں۔ 
ذخیرۂ الفاظ
ایک کامیاب مقرر بننے کے لیے الفاظ کے ایک بڑے ذخیرے کا مالک ہونا بھی ضروری ہے ،کیوں کہ جب تک اس کے پاس الفاظ نہ ہوں گے اس وقت تک اس کے بیان میں ندرت ،بانکپن اور تنوع پیدا نہیں ہوگا ۔اس کے ذہن و دماغ میں خیالات ہوں گے ؛لیکن الفاظ ندارت کی وجہ سے وہ افہام و تفہیم پر قادر نہیں ہوگا ،اور نہ ہی وہ سامعین کی تسکین خاطر کر سکے گا ۔الفاظ کا ذخیرہ بڑھانے سے بڑھتا ہے ۔اس کے لیے شعر وادب کا مطالعہ کیجیے ۔ اور دوران مطالعہ آنے والے الفاظ ومعانی کو ذہن ودماغ میں بار بار دہرائیے۔اسی طرح جہاں کہیں نئے الفاظ نظر سے گذریں ،ان کو حافظے کے نہا خانے میں محفوظ کر لیجیے ۔اس طرح کرنے سے آپ کے پاس الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوجائے گا ۔اور ذخیرہ بڑھتا جائے گا ۔
سلاستِ لسانی
مقرر کے لازمی اوصاف میں سے ایک صفت طلاقتِ لسانی اور فصاحتِ بیانی بھی ہے۔ایک مقرر صحیح معنی میں اسی وقت مقرر کہلانے کا مستحق ہے ،جب کہ وہ اس وصف سے بھی متصف ہو ۔سلاست سے مراد یہ ہے کہ زبان میں طلاقت اور بیان میں روانی ہو ۔کسی جھجھک،اٹکاؤاور تتلاہٹ کے بغیر الفاظ اور جملوں کی ادائیگی اس طرح ہو کہ جو بات کہی جائے ،وہ دل کے ساتھ ساتھ دماغ میں بھی اتر تی چلی جائے،اور سامعین یہ محسوس کریں کہ وہ خطیب سے کچھ حاصل کر رہے ہیں اور اپنی تشنگی بجھا رہے ہیں ۔
’’سلاست :معنی ہیں :زبان کی روانی ۔ایک مربوط آہنگ میں کسی اٹکاؤ کے بغیر اس طرح بولنا کہ دل پر دستک پڑتی رہے اورکان محسوس کریں کہ اپنا دامن بھر رہے ہیں ۔فی الجملہ سلاست صبا کی موج ہے ،جو الفاظ کے غنچے چٹخاتی اور معانی کے پھول کھلاتی ہے ۔سلاست ہی میں نرم،آسان اور ہم وار خطابت کے جوہر ہیں ۔اسی طرح حاضر جوابی ،حاضر کلامی ،برجستہ گوئی اور دوٹوک لہجہ سلاست کا جھومر ہیں ‘‘۔
(فنِ خطابت ،ص؍۴۶)
جس مقررو خطیب میں سلاست و طلاقت اور اناقت و بداہت کا جوہرجس درجہ قوی ہوگا ،اسی درجہ اس کے اندر فصاحت و بلاغت ،بیان میں روانی ورعنائی او ر دل کشی پائی جائے گی ۔سلاست خطابت کا ایک ایسا عنصر ہے کہ اگر دوسرے عناصر میں کچھ کمی بھی ہے ،تو اس کمی کو اس سے چھپا یا جاسکتا ہے ۔لیکن اگر کوئی اسی صفت سے محروم ہے ، تو دوسرے عناصر بدرجۂ اتم پائے جانے کے باوجود پھیکے پڑسکتے ہیں ۔بسااوقات موقع ایسا آپڑتا ہے کہ مقرر کے پاس اس موضوع کے حوالے سے کوئی تیاری ،موادیا کچھ معلومات نہیں ہوتیں۔موقع یا مجمعے کے اصرار پر اس کو فی البدیہہ بولنا پڑجاتا ہے ۔ایسی صورتِ حال میں خطیب کی یہی صلاحیت ہوتی ہے ،جسے بروئے کا ر لاکر اپنی عزت بچاتاہے اور خطابت کی فضا پیدا کر کے سامعین کو مطمئن کردیتا ہے ۔
سلاست پیدا کرنے کے طریقے
سلاست کا ملکہ بعض کے اندر تو فطری ہوتا ہے ،جو وہ اپنی ماں کے پیٹ ہی سے لے کر آتا ہے۔اور بعض کے اندر تو فطری نہیں ہوتا ،البتہ وہ کد وکسب سے حاصل کر لیتا ہے ۔پھر وہ انتہائی شستگی اور روانگی کے ساتھ تقریر کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔اس لیے اگر کوئی فطری طور پر اس ملکہ سے عاری ہے ،تو اسے گھبرانے اور بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔وہ بھی مسلسل جدو جہد اور پیہم کوشش سے یہ ملکہ پیدا کرسکتا ہے اور با کمال مقرربن سکتا ہے ؛لیکن اس کے لیے درج ذیل باتوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا :
(۱)سلاست پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی آواز کو صاف و بے عیب رکھنے اور زبان کی لہروں پر قابو پانے کی کوشش کیجیے ؛کیوں کہ آواز کو خطابت کا لازمہ اور اس کی اساس قرار دی گئی ہے ،اسی لیے ایک مقرر کے اندر شیریں آواز اور صوتی حسن جس اعلیٰ درجے کا ہوگا ،اسی درجہ اس کی فنی مہارت اور چابک دستی بڑھے گی۔
(۲)کبھی چبا کر یا جھجھک کر نہ بولیے ۔بلکہ ہمیشہ ڈٹ کر اور جم کر بولیے ۔اور جو کچھ کہیے ،روانی کے ساتھ پُراعتماد لہجے میں کہیے ۔
(۳)ماہرینِ زبان کا کہنا ہے کہ روزمرہ کی گفتگو کے لیے کم از کم پانچ ہزار الفاظ اور انشاپردازی کے لیے کم از کم دس ہزار الفاظ درکا ر ہوتے ہیں ؛لیکن ایک مقرر کے لیے ان سے زیادہ الفاظ درکا ر ہوتے ہیں ؛کیوں کہ انشاپردازی خلوت میں انجام دیا جانے والا کام ہے ،جہاں پر بوقت ضرورت لغت کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ، لیکن تقریر کا تعلق جلوت اور مجمع عام سے ہے ،جہاں پر بر وقت لغت کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ۔اس لیے خزاأہ الفاظ بڑھاتے رہیے۔اس سے آپ کی قوتِ متخیلہ پروان چڑھے گی،افکارو مطالب کی نئی نئی راہیں کھلیں گی اور سلاست کی بھی جِلا ملے گی ۔
(۴)شعرا،ادبا اور خطبا کے کلام کو بکثرت پڑھیے بھی اور سنیے بھی ۔ان میں اگر کوئی اچھوتے فقرے ، پُرحکمت جملے ،شان دار تعبیرات ،زریں اقوال ،ضرب الامثال اور کہاوتیں نظر سے گذریں یا سننے کو ملیں ،تو انھیں خوب اچھی طرح یاد کر لیجیے اور اپنی تقریر میں استعمال کیجیے۔
(۵) تیزتیز بولنے کی عادت ڈالیے ۔جب بھی کسی سے ہم کلام ہویے ،تو کسی تکلف اور جھجھک کے بغیر رواں دواں کلام کیجیے ؛مگر تیز بولنے میں اس بات کا خاص دھیان رکھیے کہ الفاظ کٹ نہ جائیں اور اٹکاؤ یا تتلاہٹ کو راہ نہ مل سکیں ۔ورنہ فائدہ کے بجائے یہ طریقہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے ۔
(۶)مختلف نام ور مقرروں کی تقریروں کو بار بار سنیے ۔پھر ان کی نقالی اور تقلید کی بھر پور کوشش کیجیے ۔
(۷)بڑے بڑے خطبا کے تقریری مجموعے کو لے کر بیٹھ جائیے اور ان کو بآواز بلند تقریری انداز میں پڑھیے۔ ساتھ ہی الفاظ کے مد و جزر اور لہجے کے زیرو بم کو بھی مد نظر رکھیے ۔ 
(۸)اگر آپ کی زبان میں لکنت ہے اور بولتے بولتے تتلانے ،ہکلانے یا لڑکھڑانے لگتے ہیں ،تو ماہرین اطبا سے مشورہ کیجیے ۔علاوہ ازیں راقم السطور کے اس مجرب نسخے پر بھی ضرور عمل کیجیے کہ روزانہ پابندی کے ساتھ تازہ مسواک سے منھ دھوئیے اور بطور خاص زبان کی صفائی کیجیے ۔اپنی زبان کواندرونی حصے کی جانب اوپر کے تالو سے ملاکر موڑ لیجیے اور کچھ دیر دبائے رکھیے ۔یہ عمل گھڑی گھڑی کرتے رہیے ۔ان شاء اللہ ضرور بالضرور آپ کی لکنت دور ہوجائے گی اور آپ کی زبان بھی کھل جائے گی ۔
(۹)کسی آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر تقریر کی مشق کیجیے اور عکس میں اپنی زبان و دہن کی حرکت پر نگاہ رکھیے۔ غیرضروری اور لایعنی حرکتوں کو پکڑ کر ان سے بچنے کی کوشش کیجیے ۔اور عکسی تصویر کو مخاطب سمجھ کر نئے نئے انداز بیان اور مختلف طریقوں سے سمجھانے کی سعی کیجیے ۔
(۱۰)آوازقید کرنے والی مشینیں ،جیسے :ٹیپ ریکارڈ،موبائل اور ان جیسے دیگر آلات کے ذریعے اپنی تقریر ریکارڈ کر لیجیے اور پھر اسے بار بار سنیے۔ جہاں پر اصلاح کی ضرورت محسوس ہو یا کہیں پر انداز بدلنے کی ضرورت سمجھ میں آئے ، تو دوسری مرتبہ ان اصلاحات کے ساتھ تقریر کیجیے ۔اور مشق کا یہ طریقہ برابر جاری رکھیے ۔ان شاء اللہ ضرور ایک دن کامیابی قدم چومے گی۔ 

خطیب اور مطالعہ


(قسط نمبر (4) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)
محمد یاسین جہازی

کسی بھی علم و فن کو حاصل کرنے کے لیے مطالعہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جس طرح ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے انسان کسی قابل نہیں رہتااور ہر طرح سے دوسروں کے سہارے کا محتاج ہوجاتا ہے ،اسی طرح مطالعے کے بغیر کسی علم وفن کا حصول نا ممکن ہے ،کیوں کہ 
’’یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی علم وفن کا دار ومدارسرا سر مطالعے پر ہے۔اسی وجہ سے کہاگیا ہے کہ’’مطالعہ روح علم کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔(رہ نمائے اردو ادب،ص؍ ۱۱۲)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 
’’مطالعہ سے انسان کا ذہن نشو و نما پاتا اور اس کی فکر کو جلا دیتا ہے ،مطالعہ کے بغیر انسان ایک ریگ زار کی طرح ہے ،اس میں مشاہدہ کی لو ہے تو سراب کی طرح ہے ۔مطالعہ ہی سے انسان کی ذہنی گمراہیاں ختم ہوتی ہیں اور مطالعہ وہ طاقت ہے جس سے انسان کو تہذیب کی توانائی ملتی ہے ۔اگر مطالعہ نہ ہوتا تو انسان دھات اور پتھر کی زندگی بسر کرتا ،وہ محسوس ہی نہ کرسکتا کہ وہ کیا ہے اور اس کی دماغی سر گذشت کیا ہے؟ انسان نے مطالعے ہی کی بدولت ایک دوسرے سے آگاہی حاصل کی اور مطالعہ ہی کے فیوض ہیں کہ ہم مطالعہ کی بدولت یہاں تک پہنچے ہیں۔ مابعد الطبعیاتی پر کمندیں ڈالیں اور انسان و کائنات کے وجوہ معلوم کیے ہیں‘‘۔(فنِ خطابت،ص؍۱۱۳)
اسی لیے مطالعے کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: 
’’مطالعے کی اہمیت و افادیت ہمیشہ اور ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی نقطۂ نظر یا مدرسۂ فکر کو کوئی اختلاف نہیں ، بلکہ مطالعہ ہی سے نقطہ ہائے نظر اور مدارس فکر کی شناخت ہوتی ہے ۔ اور مطالعہ ہی کی مدد سے ان کے روشن یا تاریک پہلو سامنے آتے ہیں ۔سماج یا معاشرہ کی تعمیر و تطہیر میں مطالعہ کا بڑا اہم اور واضح رول ہوتا ہے ۔دنیا کی تمام مخلوقات میں انسان کے شرف و تفوق کی بنیاد علم پر ہے، اور علم صرف مطالعہ ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس صورت میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مطالعہ انسا نی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اور مطالعہ کے بغیر انسان اپنی اس منزل کو نہیں پا سکتا ، جس کے لیے خالق کائنات نے اس کی تخلیق فرمائی ہے ۔ بعض دانش وروں کے نزدیک جو اہمیت انسانی زندگی کے لیے پانی، ہوا اور غذا کی ہے ، وہی اہمیت مطالعے کی بھی ہے۔ اس لیے کہ پانی ،ہوا اور غذا سے جسم انسانی کو نشو و نما ملتی ہے، اور مطالعہ سے ذہن و فکر میں گیرائی و بالیدگی اور روح میں تازگی و روشنی پیدا ہوتی ہے ‘‘
(میرا مطالعہ،ص؍۷)
فنِ خطابت کا حصول بھی مطالعے کے بغیر ممکن نہیں ۔کیوں کہ 
’’ایک خطیب کے لیے مطالعہ اس کی غذا ہے ۔اس کا فرض ہے کہ مطالعہ اس کا معمول ہو اور وہ جس طرح غذا اور پانی کے بغیر دن گذار نہیں سکتا ،اسی طرح مطالعہ کے بغیر یہ محسوس کرے کہ اس کا دماغ آج بھوکا رہا ہے۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۴)
خطیب کو کیا کیا مطالعہ کرنا چاہیے 
یہ سوال کہ ایک خطیب و مقررکو کیا کیا مطالعہ کرنا چاہیے ؟اس کا سیدھا جواب تو یہی ہے کہ جس موضوع پر تقریر کرنی ہو ،اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔لیکن اس کو صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ،کیوں کہ ایک خطیب کو مختلف طبیعتوں کے حامل افراد سے واسطہ پڑتا ہے اور مختلف حالات و مضامین پر تقریر کرنی پڑتی پے،اس لیے مقرر کو شروع میں ہر چیز کا مطالعہ بالعموم اور درج ذیل چیزوں کا مطالعہ بالخصوص کرنا چاہیے ۔
ادبیات کا مطالعہ
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ تقریری زبان ادبی زبان سے تعلق رکھتی ہے،اس لیے تقریر میں مہارت و کمال پیداکرنے کے لیے زبان وادب کو سیکھنا ضروری ہے۔زبان وادب سیکھنے کے لیے جہاں اس کے قواعد و ضوابط اور اصول کو جاننا ضروری ہے ،وہیں ماہرین ادب کے کلام مطالعہ کرنا بھی لابدی ہے ،اسی طرح زبان و ادب کی دونوں صنفوں : نظم و نثر کا مطالعہ بحیثیت حصولِ ادب ضروری ہے ،ان میں بطور خاص اشعار کا مطالعہ نہایت ناگزیر ہے،کیوں کہ شعرا کے کلام کا مطالعہ کئی حیثیتوں سے اہمیت کا حامل ہے ،مثلاََ ان سے زبان کی اصلاح ہوتی ہے،اسلوب کا رنگ نکھرتا ہے ، الفاظ کے صحیح استعمال کا طریقہ معلوم ہوتا ہے،جامع انداز میں کلام کرنے کا ڈھنگ آتاہے ،بیان میں سلاست و روانی پیدا ہوتی ہے،قوت استدلال کو جلا ملتی ہے ،اورنتائج و عبر کا خلاصہ کرنے میں مدد ملتی ہے ،حکمت و دانائی کی باتیں اور اکابر و اسلاف کے تجربات سامنے آتے ہیں،جن سے ذہن و دماغ کو روشنی ملتی ہے ،اور عقل و فکر کے دریچے کھلتے ہیں ۔
’’شاعری (نظم ونثر)کا مطالعہ ہر مقرر و خطیب کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جیسا کہ صحت کے لیے صبح کی سیر یا رات کے بعد صبح کا اجالا ۔اسی غرض سے شاعری کی ہر صنف کا مطالعہ ضروری ہے ۔حمد و نعت ،غزل و نظم،قصیدہ مرثیہ ،مسدس و مخمس،ہجو و ہزل کے مطالعے ۔ذوق اور حظ سے کئی چیزیں حاصل ہوتی ہیں ،مثلاََتلفظ کی صحت ،الفاظ کا استعمال ،مطالب کا عمق،فقروں کی آرائش ،لہجے کی رونق،بیان کی رنگینی ،احساس کی گہرائی ،تخیل کا علو اور ذہنوں پر فتح مندی کا سلیقہ،ایک بر جستہ شعر یا چند بر جستہ شعر کئی دفعہ پوری تقریر پر غالب آجاتے ہیں اور مجمع کے ذہنوں پہ نقش ہوکر دلوں میں تلاطم پیدا کرتے ہیں‘‘۔
(فنِ خطابت،ص؍۴۰و۴۱)
مذہبیات واسلامیات کا مطالعہ
ایک مقرر وخطیب کے لیے تمام مذاہب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے ،کیوں کہ ہر انسان طبعی اور فطری طور پر کسی نہ کسی مذہب کا پیرو ہوتا ہے اور اس کی زندگی پر اس کے مذہب کا راست اثرپڑتاہے۔بایں وجہ مذہبیات کے مطالعے سے لوگوں کے عقائد ،ان کی نفسیات اور طبعی احوال کا جس قدر اندازہ ہوتا ہے ،وہ کسی اور ذرائع سے ممکن نہیں ۔مذاہبِ عالم میں بطور خاص اسلامیات کا مطالعہ تو انتہائی ناگزیر ہے،اس لیے کہ جملہ ادیان و ملل میں اسلام ہی ایک ایسا منفرد اور جامع مذہب ہے ،جس نے حیات انسانی کے تمام گوشوں سے بحث کی ہے اورزندگی میں درپیش چھوٹے بڑے تمام مسائل کا صحیح اور مکمل حل پیش کیا ہے ۔چنانچہ انسانی زندگی کا ہر پہلو۔خواہ اس کا تعلق معاشرت سے ہو یا معاشیات سے ، اخلاق سے ہو یا کردار سے ،سیاسیات سے ہویا عمرانیات سے غرض انسانی زندگی کے ہر قدم پر پیش آنے والے مسائل کو چھیڑا ہے اور ان کی گتھی کو سلجھایا ہے۔
سب سے ضروری اور بنیادی علم،غیر متغیر اور منظم آفاقی اقدار کا سسٹم دینے والا اور اس کے مطابق نظام تہذیب و تمدن کو عملااستوار کرکے دنیا کے سامنے حیرت ناک مظاہرہ کرنے والا اسلام ہے۔اس لیے مطالعہ کا سب سے پہلا دائرہ یہ ہے ۔اس دائرے میں بنیادی طور پر قرآن ا ور حدیث اور ان سے متعلق علوم (علوم قرآن ،علوم حدیث)پر جس حد تک ممکن ہو ،نگاہ ہونی چاہیے ۔سارا قرآن اور پورا دفترحدیث پڑھ ،سمجھ جانے کے بعد بھی اس خزانہٗ اساسی برائے علم کا (جتنا ممکن ہو)مطالعہ ضروری ہے
(میرا مطالعہ،ص؍۹۲)
جغرافیہ کا مطالعہ 
ایک مقرر وخطیب کے لیے جغرافیہ کا مطالعہ بھی ضروری ہے ،کیوں کہ تاریخی واقعات کے زمان و مکان کا صحیح اندازہ اسی علم سے ہوسکتا ہے۔اسی طرح ہر علاقے اور ہرخطے کی آب و ہوا مختلف ہوتی ہے ،ہر جگہ کے لوگ الگ الگ خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں،ان کے طبعی احوال میں بھی زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں؛اس لیے لوگوں کی مختلف المزاجیت کو پرکھنا ،ان کی نفسیات سے با خبر ہونا ،ممالک کے جائے وقوع ،وہاں کی آب و ہوا اور سیاسی ،سماجی و اقتصادی خصوصیات کو سمجھنااورتاریخی واقعات کا صحیح تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت پیدا کرنا اسی علم پر موقوف ہے۔ اس لیے اس علم پر بھی سرسری نگاہ ضروری ہے۔
تاریخ کا مطالعہ 
اگرچہ واقعہ یہ ہے کہ ایک خطیب کے لیے سب سے زیادہ ان موضوعات و مضامین کا مطالعہ ضروری ہے ، جو اس کے پیش نظر ہیں اور جن سے اسے باربار سابقہ پڑتا ہے؛لیکن تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دگر کسی بھی موضوع پر مطالعہ ایک مخصوص ماحول اور ایک خاص مضمون سے تعلق رکھتا ہے،جو ضروری نہیں ہے کہ ہر ماحول اور تمام موضوعات کے لیے بھی کار آمد ثابت ہو ؛لیکن تاریخ اپنے دامن میں بہت وسعت رکھتی ہے۔ اس کے مطالعے کا دائرہ اثر کسی خاص وقت ،کسی ایک جلسہ اور کسی ایک ہی ماحول تک محدود نہیں رہتا ،بلکہ اس کا دائرہ اثر بڑھتا رہتا ہے اور اس کی روشنی میں نقد و نظر کے سلسلے دراز ہی ہوتے رہتے ہیں ۔اس کی افادیت کسی جگہ ماند نہیں پڑتی۔
’’ایک مقرر و خطیب کے لیے تاریخ کا مطالعہ بہت سی وسعتیں پیدا کرتا ہے ۔تاریخ خطابت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے ۔قرآن نے تاریخ کو ایام اللہ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کا نام انسانی حافظہ ہے ۔ گویا تاریخ ان سب کی ،سب سے بڑی میراث ہے،اس کی بدولت ہمیں وہ سب کچھ ملتا ہے ،جو کائنات کی تکوین سے لے کر کائنات کے اس سفر تک کی سر گذشت ہے ۔اس کی معرفت ہم قوموں کے عروج و زوال سے آگاہ ہوتے،انسان کے تجربوں کا علم حاصل کرتے،جہد للبقا کے اسرار و رموز پہچانتے ،فلاسفہ کی وادیوں کو قطع کرتے ،مذاہب کے مرغزاروں میں گھومتے ،عبر و بصائر کی راہوں سے نکلتے اور سوانح و افکار کے چمنستانوں میں گل گشت کرتے ہیں ۔ تاریخ ہمیں ہر دور میں لے جاتی ہے ،وہ پہاڑوں پہ چڑھاتی ،سمندروں میں گھماتی اور صحراؤں میں پھراتی ہے۔ہم تاریخ کے مطالعے سے فکر و نظر کی بصیرت حا صل کرتے اور شعور و ادراک کے معدنوں سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ اس کے مطالعے ہی سے تجزیہ و تحلیل کی ذہنی قوت پیدا ہوتی ہے اور کئی مقفل دروازے کھلتے ہیں ۔غرض تاریخ سے ہم سخن ہائے گفتنی میں استدلال پیدا کرتے ہیں ،خیالات کا وزن بڑھاتے اورنظائر و شواہد اور حکایات و تمثیلات سے کلام میں رونق پیدا کرتے ہیں۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۵و۳۶)
جنرل مطالعہ
عصر حاضر کی نت نئی دریافت ،حیرت ناک ایجادات و انکشافات،سائنسی و ٹکنالوجی کے زبردست انقلابات ، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے بے پناہ اثر و رسوخ کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر ایک کمرے میں تبدیل ہوگئی ہے اور کرۂ ارضی کی طنابیں کھِنچ کرایک عالمی معاشرہ بن گئی ہیں،جس کی وجہ سے انسانی مسائل اس قدر متنوع اور ہمہ گیر ہوچکے ہیں کہ ایک خطیب کے لیے ہر لمحہ اور ہر آن ایک نیا مضمون پیدا ہوتا ہے ۔ہر صبح کا ہر اخبار اتنے احوال لاتے ہیں کہ غور و فکر کے زاویے اور اظہار و بیان کے دائرے وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔بایں وجہ ایک مقرر کے لیے جنرل مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے ۔
’’آج کی دنیا مضامین و موضوعات سے لدی پھدی ہے ،یہی سبب ہے کہ ایک ہی مضمون میں عمر کھپ جاتی ہے اور کوئی انسان تمام موضوعات پر حاوی نہیں ہوسکتا ۔ایک خطیب ومقرر کا بنیادی فرض ہے کہ وہ تمام موضوعات سے ایک حد تک بہرہ یاب ہو اور سیاسی وعمرانی زندگی کے اہم مضامین سے آشنا رہے ۔ہر نوعی معلومات میں افزائش کا تسلسل ہی اظہار و اسلوب میں رونق پیدا کرتا ہے۔‘‘
(فنِ خطابت،ص؍۳۵)
اخبار و رسائل کا مطالعہ
روزنامہ یا ہفت روزہ شائع ہونے والے اخبار و رسائل کا مطالعہ بھی ضروری ہے ،کیوں کہ سائنسی اور ٹکنالوجی کی ترقیوں نے زمان و مکان کے فاصلوں کو یوں سمٹ دیا ہے کہ انسان مختلف جغرافیائی و لسانی اور قومی و وطنی حدود میں تقسیم ہوکر بھی ذہنی وحدت کا شہری ہے ۔آج کا انسان عالمی معلومات سے اتنی ہی دل چسپی لے رہا ہے ،جتنی دل چسپی وہ اپنے علاقائی اور ملکی معلومات سے لیتا ہے۔اور ویسے بھی اخبار و رسائل انسانی زندگی کے لیے ایساجزو لاینفک بن گئے ہیں کہ ان سے کٹ کر زندگی گزارنا اس اندھے کی مانند جینا ہے ،جو سخت تاریک رات میں بے مینڈھ کے کنویں کے پاس سے گذر رہا ہو۔علاوہ ازیں حالات سے سمجھوتہ اور گردو پیش کی سیاسی و سماجی فضا کی صحیح عکاسی اخبار کے مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔
’’مطالعہ ایک فقید المثال گلستاں ہے،اس میں لاتعداد روشیں اور بہت تختے ہیں،ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے ،لیکن ایک خطیب کے لیے ہر روش پہ ٹہلنا ضروری ہے ،جن مضامین کو زندگی میں خصوصیت حاصل ہے اور جو اس کے شب و روز سے مربوط ہوچکے ہیں،ان کا مطالعہ مقرر کی اساسی ضرورت ہے۔‘‘ (فنِ خطابت، ص؍ ۳۶ )
تسلسل مطالعہ 
مذکورہ بالا تمام مطالعوں کا سفر ہمیشہ اور برابر جاری رکھنا ضروری ہے؛کیوں کہ 
’’مطالعہ کے لیے کوئی خاتمہ نہیں ۔اس میں تسلسل ہے ۔جس طرح صبح وشام طلوع غروب ہوتے ہیں اور روزوشب ازل سے ابد کی طرح رواں ہیں ،اسی طرح مطالعہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ہر زمانے میں اس کی نوعیتیں بدل جاتی ہیں ؛لیکن اس کا سفر ختم نہیں ہوتا ۔اس کے لالہ زار میں استیعاب کے ساتھ شگوفے کھلتے اور پھول بنتے ہیں ۔‘‘(ص؍۱۱۴)
جو لوگ شروع میں تو مطالعہ کرتے ہیں ؛لیکن بعد میں چل کر مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں اور اس میں تسلسل برقرار نہیں رکھتے ہیں ،تو اس کی خطابت کی شگفتگی اور چاشنی رفتہ رفتہ معدوم ہوتی چلی جاتی ہے ۔
’’جو مقرر یا خطیب مطالعہ سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ،خواہ اس خیال سے کہ انھیں مطالعہ کی ضرورت نہیں رہی اور وہ خطابت کی معراج پر ہیں ،تو ممکن ہے کچھ عرصہ مطالعاتی خلا کا احساس نہ ہو؛لیکن وہ مطالعہ سے پچھڑ کر خیالات میں ضعف کا شکار ہوتے اور ان کی خطابت کو لونی لگ جاتی ہے ۔‘‘(ص؍۳۴) 
سماعت ومشاہدہ 
چوں کہ تقریر وخطابت قلم کی زبان نہیں ،اس لیے اس فن کو نہ تو تمام تر خصائص کے ساتھ لکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی مذکورہ بالا تمام لازمی علوم کی تکمیل اور جملہ مطالعوں کی وادیوں کو قطع کرکے اسے مکمل طور پر حاصل کیاجاسکتا ہے ؛ کیوں کہ جو چیز سمع سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سن کر ہی صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔اس لیے بڑے خطیبوں کی تقریریں سننا،ان سے زبان ولہجے کے اتار چڑھا و کے راز معلوم کرنا ،جلسے جلوسوں میں حاضر ہو کر ان کے انداز تخاطب ، اظہار و بیان کے طریقے سیکھنا اور ان کی حرکات و سکنات پر نگا ہ رکھنا ضروری ہے ۔
’’چوں کہ خطابت قلم کی نہیں ،زبان کی چیز ہے ،اس لیے اس کا تذکرہ وموازنہ ایک قاری کے ذہن میں صحیح تصور پیدا کرنے سے قاصر ہے ۔جو چیز سمع کی ہے ،وہ سامع ہی کو صحیح تأثر دے سکتی ہے ۔‘‘
(ص؍۲۹)
’’جن نام ور ہستیوں نے خطابت میں نام پیدا کیا ،ان کا مطالعہ ایک نو آموز مقرر اور نووارد خطیب کو فنی کمال تک پہنچانے میں ضرور معاون ہوتا ہے ۔اس کے بغیر فنِ خطابت کی ترتیب ادھوری رہ جاتی ہے۔جب تک دوسرے خطیبوں کو دیکھیں نہیں کہ وہ کیوں کر بولتے ہیں اور دماغوں کو جیتنے کے لیے کس طرح الفاظ ومعانی میں آہنگ پیدا کرتے ہیں ۔خطابت محض کتابوں کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ اس موضوع پر کوئی سی نئی کتاب استاد ہوسکتی ہے ۔اس بارے میں جتنا مطالعہ ضروری ہے ،اتنا مشاہدہ لازم ہے ۔اور مشاہدہ دوسرے مقرروں اور خطیبوں کے سننے ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔اس مشاہدہ کے بعد ہی ہم تجربہ کرسکتے ہیں ۔خطابت کا معمل یہ ہے خطیبوں کو مجمع میں دیکھیں کہ وہ کیوں کر خطاب کرتے ہیں ۔اس مشاہداتی سبق کے بغیر ملکۂ خطابت کاحصول ناممکن ہے ۔‘‘ (ص؍۴۹)
’’اسی طرح نام ور مقرروں کو ضرور سنیے ۔ان کی تقریر سے کئی چیزیں حاصل ہوں گی:نئے الفاظ،تلفظ کی صحت،فقروں کی ترتیب،خیالات کی بوقلمونی،استدلال کے زاویے اور مطالب ومعانی کے خفی و جلی پہلو۔اس کے علاوہ اشارات وحرکات کا مدوجزر معلوم ہوگا اوراظہارواسلوب سے آشنائی ہوگی کہ وہ کون سی چیز ہے ،جو ایک خطیب کے لیے عوام میں تجسس اور مقصد کے لیے جذبہ پیدا کرتی ہے ۔‘‘
(ص؍۶۴) 
سماعت ومشاہدے کی صورتیں
سماعت ومشاہدہ دوطرح سے کیا جاسکتا ہے :ایک تو اس طرح سے کہ علاقہ یا ملک میں جہاں کہیں نام ور مقرروں کے پروگرام کا اعلان ہو ،وہاں حاضر ہونے کی کوشش کی جائے اور جلسے میں شرکت کرکے بہ راہ راست انھیں سنا جائے اور ان کا مشاہدہ کیا جائے۔اور دوم اس طرح کہ ان خطبا کی جو جو کیسٹیں اور سییڈیاں دستیاب ہوں،انھیں حاصل کر کے ان کی سماعت و مشاہدہ کیاجائے ۔اسی طرح بعض بعض پروگرام بر وقت ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں،ان کو بھی سننے اور دیکھنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے ،اس کے بعد ان کی نقالی اور تقلید کی کوشش کرنی چاہیے ۔ 

تقریر و خطابت


(قسط نمبر (3) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)


تقریر وخطابت،دونوں عربی لفظ ہیں۔اول الذکر باب تفعیل کا مصدر ہے ،جس کے لغوی معنی ہیں:کسی معاملے کی وضاحت و تحقیق کرنا ۔اور آخر الذکرباب نصر کا مصدر ہے ،اس کے معنی ہیں :تقریر کرنا ،لیکچر دینا ،وعظ کہنا،بیان دینا ، گفتگو کرنا ،کسی سے ہم کلام ہونا ۔لیکن اب یہ دونوں لفظ اردو میں مترادف کے طور پر ایک مخصوص اصطلاحی معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں ،جس کی مختلف حضرات نے اپنے اپنے الفاظ میں الگ الگ تعریفیں کی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
علامہ ابن رشد تلخیصِ خطابت میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’و فی اصطلاح الحکماء ھی صناعۃ تتکلف الاقناع الممکن فی کل مقولۃ من المقولات۔‘‘
یعنی حکما کی اصطلاح میں خطابت ایسی صناعت کا نام ہے، جس کے ذریعے کسی بھی موضوع پر ممکنہ حد تک تسلی بخش کلام کرنے کی ذمے داری نبھائی جاتی ہے۔ (ص؍۲)
شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’عوام سے اجتماعا ہم کلام ہو نے کانام ’خطابت‘ ہے،اصطلاحا اس فن کا نام ہے، جس کا مقصود و مطمح نظر عوام سے خطاب کرنا اور ان کے دل ودماغ میں اپنی غایت و منشا اتارنا ہے ‘‘۔
(فنِ خطابت ،ص؍۱۵)
صاحبِ’خطابت وتقریر‘ رقم طراز ہیں کہ 
اصطلاح میں خطابت اس فن کو کہتے ہیں ،جس سے تمام اصناف گفتگو میں اپنی بات دوسروں سے منوائی جاسکے۔‘‘(ص؍۲)
منطقیوں کی اصطلاح میں
’’خطابت وہ قیاس ہے جو مقبول و مظنون باتوں سے مرکب ہے۔‘‘
موضوع
جس طرح علم ادب کے موضوع کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس علم کا کو ئی موضوع نہیں ہے ،اسی طرح ارسطو کی رائے یہ ہے کہ فنِ خطابت کا بھی کوئی موضوع نہیں ہے ۔کیوں کہ کوئی بھی علم و فن ہو، کسی بھی طرح کا مضمون ہو جس نوعیت کے بھی مسائل ہوں ؛خطابت کا زور ان سب پر چلتا ہے ۔اس کے موضوع کے دائرے سے کائنات کی کوئی بھی چیز خارج نہیں ہے ،ہر موضوع پر تقریر کی جاسکتی ہے اور ہر عنوان کو خطابت کا رنگ دیا جاسکتا ہے۔
غرض و غایت 
جب اس فن کا موضوع ہی اپنے دامن میں اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ پوری کائنات اس میں سما سکتی ہے ،تو ظاہر ہے کہ اس کی غرض و غایت بھی اسی قدر متنوع اور مختلف ہوگی ،تاہم عمومیت کے ساتھ اتنی سی حد بندی ضرور کی جاسکتی ہے کہ خطیب اپنی جادو بیانی اور سحر انگیزی سے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے اور سامعین کو اپنی باتوں کے ماننے پر مجبور کردے۔
فنِ خطابت کے لیے لازمی علوم 
کچھ علوم و فنون ایسے ہیں،جو موقوف و مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں ،اور ان کو اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے،جب تک کہ موقوف علیہ اور ان کے لیے مُعدِات کی حیثیت رکھنے والے علوم وفنون کو حاصل نہ کرلیا جائے،مثلا علم تفسیر اور علم فقہ کو اس وقت تک حاصل کرنا ناممکن ہے جب تک کہ ان کے لیے علوم مُعدِات :اصول تفسیر اور اصول فقہ میں مہارت نہ پیدا کرلی جائے ۔ فنِ خطابت کا تعلق ان علوم و فنون سے ہے ،جو موقوف اور مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لیے فنِ خطابت میں مہارت تامہ اس وقت تک پیدا نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس کے لیے آلے اور مُعدِات کی حیثیت رکھنے والے علوم وفنون میں کچھ شد بد نہ پیدا کرلی جائے ۔فنِ خطابت کے علوم آلیہ درج ذیل ہیں:(۱)علم ادب(۲)علم النفس(۳)علم منطق وفلسفہ۔
علم ادب
تقریری زبان ادبی زبان سے تعلق رکھتی ہے ،کیوں کہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے ترتیب انداز میں سامعین کے سامنے کوئی بات کہہ لینا ،اس کا نام تقریر نہیں ہے ؛بلکہ یہ ایک عوامی گفتگو اور مکالمت ہے ۔تقریر تو اصل یہ ہے کہ بات کو مؤثر اور دل کش پیرائیہ بیان میں بیان کیا جائے ،طرز ادا دل آویز اور مسحور کن ہو ،موقع بموقع ضرب الامثال ،کہاوتوں اور حکایتوں سے اس میں خوبیاں پیدا کی گئی ہوں ۔اور یہ سب خصوصیات ایک ادبی زبان کی ہوا کرتی ہیں ۔اس لیے فنِ خطابت میں مہارت پیداکرنے کے لیے قواعد زبان ،علم بدیع ،علم بیان،علم لغت اور ان تمام علوم سے واقفیت ضروری ہے جن کے مجموعے پر علم ادب کا اطلاق ہوتا ہے اور جن سے زبان و بیان کی اصلاح اور اظہار میں توانائی و استواری پیدا ہوتی ہے۔
’’سب سے پہلی چیز جومقرر کے لیے خطابت کی روح ہے اور جس سے اس کا جسم نمو پاتا ہے ،وہ زبان ہے ۔ایک خطیب و مقررکے لیے زبان کا حصول اسی طرح ضروری ہے ،جس طرح زندگی کے لیے سانس لینا ۔ جب تک زبان کے نشیب و فراز سے مقرر و خطیب آگاہ نہ ہوں اور اس کے قواعد وضوابط ان کے ذہنوں میں نقش نہ ہوں ،وہ اظہار و اسلوب کی نزاکتوں اور آوازو تلفظ کی نزہتوں سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔ان کے لیے حصول زبان کے بغیر مطالعہ ،مشاہدہ اور استعداد ؛سب بیکار ہیں۔ایک مقرر کے لیے زبان کو بطور زبان جاننا ضروری ہے۔ پہلے زبان پھر موضوع۔جس طرح موضوع کے بغیر زبان محض صدا ہے ،اسی طرح زبان کے بغیر موضوع کوئی چیز نہیں ۔ دونوں میں روح وبدن کا رشتہ ہے،روح بدن چاہتی اور بدن روح چاہتا ہے۔‘‘ (فنِ خطابت ،ص؍۳۵)
علم النفس(psychalogy)
ایک باکمال خطیب بننے کے لیے انسان کی نفسیاتی کیفیات اور لاشعوری احوال سے واقف ہونا ضروری ہے، جسے اصطلاحا علم النفس اور نفسیات سے تعبیر کرتے ہیں ؛کیوں کہ ماہرینِ فن نے ایک مقرر کی کامیابی کے لیے جن رازوں کا انکشاف کیا ہے ،ان میں انسانی طبائع کے ذہنی محرکات اور ان کی بوقلمونیوں سے آگاہی بھی شامل ہیں۔چنانچہ اس حوالے سے شہسوار خطابت جناب شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’ایک مقرر کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ عوام کی نفسیات کیا ہیں؟وہی مقرر کامیاب ہو سکتا ہے ، جو عوام کی نفسیات جانتا اور انسانی طبائع کی بو قلمونیوں سے واقف ہے ،ہر وہ انسان جو مجمع میں شریک ہے،آپ سے کچھ حاصل کرنے آیا ہے ،ہر شخص چاہتا ہے ،اس کی ضرورت ہے ،وہ محسوس کرتا ہے ،اس کی پسند و نا پسند ہے ،بعض چیزوں سے محبت کرتا ۔بعض سے نفرت کرتا ہے،اس کے کچھ خوف ہیں ،کچھ جرأتیں ہیں،اس کی عادت مستمرہ تقلید ہے ،وہ باہم دگر مختلف ہیں ،وہ سوچتا ہے ،اس کے کچھ اعتقدات و معتقدات ہیں،وہ تغیرات کا دل دادہ ہے ، وہ رد وقبول کا جوہر رکھتا ہے ،وہ سیادت وقیادت کا احترام کرتا ہے ،اس کے کچھ تصورات ہیں،اس کا میلان و رجحان ہے،اس کا شعور و لا شعور ہے،ہر انسان کا مطالعہ بہ حیثیت انسان ایک خطیب کا لازمہ ہے۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۹۷و۹۸)
ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں
ایک ایسا شخص کبھی کامیاب مقرر نہیں ہوسکتا ،اگر عوام کی نفسیات کے علم سے محروم ہے ‘‘۔
(ایضا،ص؍۳۵)
چنانچہ جو لوگ عوام کی نفسیات کا خیال نہیں رکھتے اور کرسیِ خطابت پر بیٹھ کر بولے چلے جاتے ہیں ،ان کی تقریر کبھی بھی مقبولیت کے کانوں سے نہیں سنی جاتی ،بلکہ ہمیشہ صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے ۔
’’بعض مقرر عوام کی نفسیات سے اجتناب کرتے اور اپنے ہی خیالات کے ہوکے رہتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے ،لہذا فضا کا احساس کیے بغیر کہے جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اسٹیج پر قابو پانے سے وہ عوام پر قابو نہیں پاسکتے۔۔۔۔اکثر مقرر مجمع سے زیادہ اپنے خیالات کوعزیز رکھتے،عوام کی اکتاہٹ کو مطلقا محسوس نہیں کرتے ۔داد کے روپ میں بے داد کا اندازہ نہیں کرپاتے اور کلماتِ ستائش کی منفی پہلووں کو بھانپ نہیں سکتے کہ ان پر تنقید و تعریض کے چھینٹے اڑائے جارہے ہیں۔۔۔ایک مقررکو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کی خواہش کے خلاف بولے جانا بہت بڑی غلطی ہے ۔اس بے طلب خطابت ہی کا نتیجہ زبردست قہقہے اور تفریحی تالیاں ہوتا ہے ‘‘۔
(فنِ خطابت ، ص؍۵۱و۵۲)
علم منطق وفلسفہ
خطابت کے اجزائے ترکیبی میں دعویٰ اور اثباتِ مدعیٰ بھی ہے۔د عوے کی وضاحت کے بعد ایک مقرر کے لیے جو سب سے مشکل مسئلہ در پیش ہوتا ہے ،وہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعوے کو کس طرح ثابت کرے اور اس کو مدلل و مبرہن کر نے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے ؟منطق وفلسفہ ایسے علوم ہیں ،جن کے مطالعے سے استدلال کے نئے نئے طریقے اجاگر ہوتے ہیں،واقعات سے نتائج و عبر اخذ کرنے کے گر ہاتھ آتے ہیں ،دعووں کو مدلل ومبرہن کرنے کے اصول معلوم ہوتے ہیں ،تحلیل و تجزیہ کی ذہنی قوت پروان چڑھتی ہے،فکر ونظر کی بصیرت کو جلا ملتی ہے اور شعور و ادراک کے مقفل دروازے کھلتے ہیں ۔اس لیے ایک خطیب کے لیے منطق وفلسفہ سے واقفیت رکھنا ضروری ہے۔
’’اس سلسلے میں ایک مقرر کے لیے منطق و فلسفہ کا جاننا ضروری ہے اور یہ خطیب کے منطقی وفلسفی ہو نے کا سوال نہیں ،مطلب ہے کہ ان مضامین سے آشنائی خطیب کے اسلوب و استدلال کی طاقت ہوتی اور اس سے خطابت میں حسن و اہتزاز پیدا ہوتا ہے ۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۶)۔
’’منطق وفلسفہ کی واقفیت بھی نہایت کار آمد اور مناظرہ کی صورت میں نہایت ضروری ہے۔پس اگر زیادہ نہیں ،تو ایک سرسری نظر ان علوم پر بھی ہونی چاہیے۔‘‘ (ایضا،ص؍۹)
یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ یہ تینوں علوم کسی بھی حیثیت سے بالکل علاحدہ علاحدہ نصاب نہیں ہیں کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ کسی کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا جائے ؛ بلکہ یہ تمام علوم مضبوط ارادے ،قلبی شغف، کثرتِ مطالعہ اور ماہرینِ فن سے استفادہ و استفسار سے خود بخود حاصل ہوجاتے ہیں۔کیوں کہ جب کوئی شخص مقرر بننے کا عزمِ مصمم کرلیتا ہے،تو یہ تمام راہیں از خود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ اپنی محنت و لگن اور مشق وتمرین سے منزل مقصود کو پالیتا ہے۔

3 Apr 2018

تقریر کا آغاز، تقریر کی اہمیت و افادیت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں مقرروں کا کردار


(قسط نمبر (2) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کا آغاز


تقریر و خطابت کاآغازکب ،کیسے ،کس سے اور کہاں سے ہوا؟ان حوالوں سے کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، کیوں کہ کسی چیز کی اصلیت و حقیقت کا ادراک اور اس کے آغاز و ارتقا سے بحث علم تاریخ کا موضوع ہے۔اور علم تاریخ کے وجود کا دارو مدار تحریر و کتابت پر ہے ،اور جس وقت تحریر کا فن وجود میں آیا ہے ،اس وقت فنِ خطابت عنفوان شباب پر تھا۔کیوں کہ یورپی ماہرینِ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق فن تحریر کا ایجاد ۳۰۰۰ ق م میں ہو اہے ۔فن تحریر کے ایجاد ہی کی وجہ اس سے پہلے کا زمانہ ’’ماقبل تاریخ انسانی ‘‘اور اس کے بعد کا زمانہ ’’مابعد تاریخ انسانی‘‘ کہلاتا ہے۔اور سائنسی نقطۂ نظر کے مطابق انسان کا وجود ؛بلکہ اس کا مکمل طبعی و فکری اور لسانی ارتقاما قبل تاریخ انسانی کے دور میں ہو چکا تھا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ خطابت کا آغاز ،فن تحریر کے ایجاد سے بہت پہلے ہوچکا تھا ۔عربوں کی ادبی تاریخ سے بھی اس کی تائید و توثیق ہوتی ہے ۔کیوں کہ اہل عرب ۔جو خطابت کے بے تاج بادشاہ اور دنیا کے سب سے بڑے زبان آور تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ غیروں کو عجمی (بے زبان ،گونگا )کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔فن تحریر سے بالکل نا آشنا تھے ،انھوں نے تحریر کا فن بہت بعد میں یمنیوں سے سیکھا تھا۔اس حوالے سے شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ:
’’خطابت کب شروع ہوئی؟مختصرا جب انسان نے بولنا شروع کیا ۔وہ شخص پہلا خطیب تھا، جس نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں سے خطاب کیا ۔یا انسانوں کا ایک مجمع جو اس کے گردو پیش تھا ، اس سے کلام کیا ۔ انسان اور خطابت ہم عمر ہیں ۔دونوں کا ارتقائی سفر یکساں ہے۔اس باب میں اختلاف رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ابلاغ عامہ کا آغاز تقریر سے ہوا اور تحریر سے کہیں زیادہ تقریر کی عمر ہے ، دو نوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔‘‘ (فنِ خطابت ،ص؍۱۵) 
تقریر کی اہمیت و افادیت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں مقرروں کا کردار
تقریر کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، بالخصوص عصر حاضر میں الیکٹرانک میڈیا کا سارا دارو مدار اسی پر ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت و افادیت دو چند ہوگئی ہے ۔انسانوں کی خدمت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں جس طرح دگر جماعتوں اور گروہوں نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں،اسی طرح مقرروں نے بھی زبردست کردار ادا کیے ہیں ۔چنانچہ تاریخ شاہدِ عدل ہے کہ جب بھی کوئی قوم جنگ و حرب جیسی آفات نا گہانی میں مبتلا ہوئی ہے اور ان کے دلوں کو گرمانے اور دفاع کے لیے مقابلے کی ہمت وحوصلہ پید ا کرنے کی ضرورت پڑی ہے ، توخطیبوں نے اپنی شعلہ بیانی اور طوفانی تقریر سے ان کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے،پھر وہ بے خطر میدانِ کارزار میں کود پڑی ہے ۔اسی طرح جب کوئی قوم گناہوں اور برائیوں کے سمندر میں غرق آب ہوئی ہے اور فسق و فجور کے قعر مذلت میں افتادہ ہوئی ہے ،تو ایک مقرر ہی نے اپنی گویائی کے برقی کرشمے اوراپنی جادو بیانی سے برائیوں کو اچھائیوں میں ،گناہوں کو نیکیوں میں ، خطاؤں کو ثوابوں میں اور فسق و فجور کو تقوی و زہد میں تبدیل کردیا ہے ۔غرض ایک مقرر انسانوں کے خیالات و تصورات اور ان کے ارادوں پر جو اقتدار رکھتا ہے اور جس طرح اس کے لب ودہن کی ادنیٰ جنبش آن واحد میں سینکڑوں دلوں کو پھیر دیتی ہے اور ماحول کی کایا پلٹ دیتی ہے ،ایسا دنیا کا بڑا سے بڑا بہادر ،بڑا سے بڑاجادو گر ؛بلکہ بڑا سے بڑا فرماں روائے سلطنت بھی نہیں کر سکتا ۔یہ تو صرف ایک مقرر ہی کا کمال ہوتا ہے ۔اور اس کے اس جیسے بڑے بڑے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
’’خطابت آن واحد میں قرنوں کا سفر کرتی اور کہیں سے کہیں لے جاتی ہے ۔ایکا ایکی پلٹ دے کر ماضی میں پہنچا دیتی،ناگہانی فراٹے بھرتی ہوئی مستقبل کی طرف بڑھ جاتی ہے۔اس کے لیے گردشِ زمانہ نہیں۔وہ لیل ونہار کے طلوع و غروب سے آزاد ہے ۔وہ انسانی مجمعوں کو اکائی میں ڈھالتی اور آوازوں کی لہروں کے ساتھ ماضی ، حال اور مستقبل میں گھماتی پھراتی ہے۔خطابت کی سب سے بڑی خوبی تصور کی پرواز ہے ۔ہم خیالوں کے سیناوں پرچڑھ جاتے اور جذبات کے سمندروں کی تہہ تک اتر جاتے ہیں،بہ الفاظ دیگر خیالات کی پرواز کا نام خطابت ہے کہ ایک انسان کی آواز ان گنت انسانوں کا مافی الضمیر بن جاتی ہے ۔ خطابت لسانی اعجاز کا خمیر ہے ، اس کے ہیولیٰ میں شاعری،موسیقی اور سنگ تراشی کے جوہر ہیں ،اس کی روح ایٹمی توانائی سے کہیں بڑھ کر طاقت ور ہے۔ لارڈ سایسری نے غلط نہیں کہا تھا کہ ’دنیا آج بھی ان کے ساتھ ہے ،جو بول سکتے ہیں‘۔‘‘(فنِ خطابت،ص؍۲۰)

2 Apr 2018

انسان اور زبان


(قسط نمبر (۱) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)   
انسان اور زبان 
بسم اللہ ارحمٰن الرحیم


انسان کی تخلیق کے نظریے
گذشتہ دو سو سالوں سے مغربی مؤرخین اور یورپی ماہرینِ آثار قدیمہ ،انسان کی تخلیق اور اس کی ابتدائی زندگی کے حوالے سے غور وخوض میں مصروف عمل ہیں۔ آثار قدیمہ کی مددسے معلومات اکٹھا کرکے کچھ تخمینی نظریات فراہم کیے ہیں ۔جن میں سے اٹھارویں صدی کے ایک یورپین مؤرخ مسٹر ڈارون کا نظریہ سب سے مقبول نظریہ مانا گیا ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ ’’سارے جان داروں کے ظہور میں آنے کے بعد ،یہاں تک اقلیم حیوانات کے طویل طبعی ارتقا کے بعدآخر میں انسان کا وجود عمل میں آیا ۔‘‘(سماجی علوم،ص؍۱۵)۔ عبدالصمد صاحب ڈارون کے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’انسان ترقی یافتہ بندر ہے۔‘‘(زبان وقلم،ص؍۱۰)
یورپین ماہرین کے اس مضحکہ خیز نظریے کے برخلاف دنیا کے تمام لوگوں کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق بندر سے نہیں ہوئی ؛بلکہ یہ خدائی قدرت کا مظہر ہے ،جسے خود قدرت کاملہ نے پیدا فرمایا ہے ۔البتہ بعض مذہبوں میں اتنا سا اختلاف پایا جاتا ہے کہ دستِ قدرت کا بنا یا ہوا سب سے پہلا انسان کون تھا؟
دنیا کا پہلا انسان
اس سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا انسان مرد حضرت آدم ؑ ہیں ،جن کو رب دوجہاں اور مالک کن فکاں نے عناصر اربعہ (آگ،مٹی،ہوا ،پانی)کے امتزاج سے پیدا فرمایا تھا ۔اور سب سے پہلی عورت حضرت حواؑ ہیں ،جنھیں حضرت آدم ؑ کی بائیں پسلی سے کوئی مادہ لے کر پید ا کیا گیا ہے ۔
اس بات کی تائید دنیا کی سب سے پرانی کتاب ’’توریت ‘‘سے بھی ہوتی ہے کہ ’’خدا نے انسانی پیدائش کا آغاز ایک جوڑے سے کیا ،مرد کا نام آدم اور عورت کا نام حوا تھا ‘‘(بحوالہ :زبان وقلم ص؍۱۸)۔عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی یہی نظریہ ہے ۔البتہ پارسی مذہب کے پیرو’’آباد ‘‘ کو سب سے پہلا انسان مانتے ہیں ۔اس کی داستان حیات اور حضرت آدم ؑ کی سیرت میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ہندووں کے یہاں سب سے پہلا انسان ’’برہما‘‘ تصور کیا جاتا ہے ۔ اس برہما اور حضرت آدم کے واقعات میں بے شمار مماثلت دکھائی دیتی ہے ۔ صاحبِ زبان و قلم لکھتے ہیں کہ ’’جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ حوا ؑ آدمؑ کے پہلو سے نکلیں،ہندووں میں روایت ہے کہ برہما کا سینہ چیرا ،تو ان کی زوجہ شرستی نکلی ۔آدم کے بیٹوں:ہابیل اور قابل کا جو واقعہ ہے ،وہی داستان برہموں کے بیٹوں:سندا اور سند کی ہے۔‘‘ (ص؍۱۹)۔ہندووں کی کی بعض روایتوں میں برہما کے بجائے پہلا انسان ’مہادیو‘اور اس کی بیوی ’پاربتی‘کو مانا گیا ہے۔لالہ رتن لعل نے لکھاہے کہ ’برہما‘،بشن،مہیش۔مہیش یعنی مہادیو کو آدم جانتے ہیں اور ان کی زوجہ جو پاربتی ہے ،وہ حوا ہے ۔(نگارستانِ کشمیر،ص؍۳۴۴،بحوالہ عمدۃ التاریخ،ص؍۱۹۔)
مذکورہ باتوں پر غائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ دنیا کے سب سے پہلے انسان حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ ہی ہیں ۔گردشِ ایام اور زمانے کے تصرفات کی وجہ سے دیگر مذاہب کی روایتوں میں تغیرات واقع ہوگئے ہیں ،جن کی وجہ سے اصل حقیقت گم ہوکر رہ گئی ہے ،تاہم اصلیت کی کچھ نہ کچھ جھلک ان میں اب بھی باقی ہے ،جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہادیو،برہما اور آباد سب کے مصداق حضرت آدم ؑ ہی ہیں زبانوں اور روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے نام میں اختلاف واقع ہوگیا ہے ۔
زبان کی ابتدا کے نظریے
انسانی تخلیق کی طرح ابتدائے زبان کے حوالے سے مغربی مؤرخین نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں ،جن میں ایک یہ ہے کہ اقلیم حیوانات کے طویل طبعی ارتقا کے بعد جب انسان کا وجود عمل میں آیا ،تو اس نے اولاً پہاڑوں کے غاروں اور صحرا و بیابانوں کو اپنا مسکن بنایا۔پھر جب اس کے اندرتہذیب وتمدن کا شعور بیدار ہوا ،تو پہاڑوں اور جنگلوں سے نکل کر ہموار زمین پر آباد ہوا ۔رفتہ رفتہ اس کی تعداد بڑھتی رہی ،جس سے ایک معاشرہ وجود میں آیا ۔ چوں کہ معاشرے میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی ،جس کے اظہار کے لیے پہلے پہل اشاروں سے کام لیا ہوگا ،جیسا کہ ایک گونگا آدمی اپنا کام نکالتا ہے ۔سب سے پہلی آواز وہ وجود میں آئی ہوگی ،جو شروع میں بچہ نکالتا ہے ۔اس طرح سے گویائی اشارات سے اصوات میں تبدیل ہوئی ہوگی ۔پھر انھیں اصوات سے حروف پیدا ہوئے ہوں گے ۔اور حروف سے جملے وجود میں آئے ہوں گے ،علاوہ ازیں پتوں کی سرسراہٹ، جان وروں کی کھڑکھڑاہٹ ، آب شاروں کی سیلانی اور موجوں کی طغیانی سے پیدا ہونے والی صوتی کیفیتوں سے الفاظ بنائے گئے ہوں گے ۔اور خود انسان نے اپنے طور پر ما فی الضمیرکی ادائیگی کے لیے کچھ آوازیں نکالی ہوں گی،جو تدریجی طور پر ترقی کرکے ایک مکمل زبان بن گئی ہوگی۔
زبان کے آغاز کے حوالے سے ڈکٹر گیان چند جین نے بہت طویل اور مفید بحثیں کی ہیں جن میں مزید کچھ نظریے درجِ ذیل ہیں :
(۱)الہامی نظریہ :یعنی زبان ایک الہامی چیز ہے ،جسے خدا نے الہام کے ذریعے انسان کو سکھائی ہے ۔
(۲)قدیم زبان کا نظریہ :یعنی چند افراد نے مل کر کسی زبان کے بارے میں’ازلی قدیم‘ ہونے کا فیصلہ کر دیااور اسی سے زبان کا وجود مان لیا گیا ۔
(۳)فطری نظریہ :شی اور اس کے نام میں فطری تعلق ہوتا ہے ،اس لیے شی کے وجود میں آنے کے ساتھ زبان بھی وجود میں آتی ہے ۔
(۴)معاہدے کا نظریہ :سب لوگوں نے رائے اور مشورے سے زبان بنائی اور چیزوں کے نام متعین کیے ۔ 
(۵)ڈِنگ ڈونگ نظریہ :جس طرح مختلف دھاتوں پر چوٹ لگانے سے الگ الگ طرح کی آوازیں نکلتی ہیں ، اسی طرح انسان کے دماغ پر مختلف بیرونی تأثرات نے مختلف چوٹیں دے کر آوازیں پیدا کیں ،جو رفتہ رفتہ ایک مکمل زبان بن گئی ۔
(۶)فجائی و نغمائی نظریہ :خوشی یا غمی کی شدت کی وجہ سے اضطراری اور بے اختیاری طور پر کچھ آوازیں نکلیں ،جو بعد میں چل کر زبان کا قالب اختیار کرگئیں ۔
(۷)ٹاٹا نظریہ :نادانستہ طور پر انسانی جسم کے اعضا سے کچھ آوازیں نکلیں (جیسے کہ کپڑا دھوتے وقت دھوبی کی زبان سے ایک مخصوص آواز نکلتی ہے )پھروہی آوازیں زبان بن گئیں ۔
(۸)تارا پور والے کا نظریہ :بندر انسان بننے تک جسمانی ارتقا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ زبانی ارتقا بھی حاصل کرتا رہا ،جیسا کہ بچہ جسمانی و زبانی ارتقا حاصل کرتا ہے ۔
(۹)آٹو موٹو پوٹنک نظریہ :انسان نے بعض طبعی آوازوں کو نقل کر کے الفاظ تجویز کیے ۔
(۱۰)باوواو نظریہ :باوواو کتے کی آواز کو کہتے ہیں ،یعنی جس طرح کتا یا کوئی اور جانور مخصوص آواز نکالتے ہیں،اسی طرح اول اول انسانوں نے آوازیں نکالیں ،چوں کہ انسان کے اعضا ئے صوتی زیادہ لچک دار تھے ،اس لیے اس کی زبان سے زیادہ اقسام کی آوازیں نکلیں ۔یہ آوازمختلف مفہوموں کے قائم مقام ہوکر الفاظ بن گئیں ۔ (تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے :لسانی مطالعے،ازص؍۳۳تاص؍۵۵اورزبان وقلم،ص؍۱۳)
مغربی مؤرخین کی یہ تھیوریاں حقیقت سے کس درجہ میل کھاتی ہیں ،یہ اظہر من الشمش ہے؛کیوں کہ ان تھیوریوں پر خود انھیں مفکرین کو کبھی کامل وثوق نہیں رہا ہے ،تابہ دیگر چہ رسد؟۔اور ’جتنے منھ ،اتنی باتیں‘کا مصداق بنی ہوئی ہیں۔
زبان کے آغاز کے حوالے سے اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ زبان ایک توفیقی امر ہے ،جسے خالق کائنات نے انسان کے جد امجد سیدنا حضرت آدم ؑ کوسکھائی تھی۔’’وَعَلم اٰدم الاسماء کلہا‘‘ (سورہ بقرہ،آیت ۳۱) حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ دنیا میں جس قدر انبیائے کرام مبعوث ہوئے ہیں ،ان پر ایک ایک کتاب نازل ہوئی ہے ۔ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ کو الف بے وغیرہ کا علم وحی کے ذریعے عطا کیاگیا ۔(لطائف الاشارات فی اسرارالحروف المعلومات،بحوالہ زبان وقلم،ص؍۲۲و۲۳)
اہل یورپ اور دنیا کے تمام لوگوں کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ زبان بذریعۂ الہام انسانوں کو سکھائی گئی ہے ؛لیکن نام نہاد مغربی مؤرخین نے اس عقیدے کو قائم رہنے نہیں دیا اور اس کے بجائے ایسے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز نظریے پیش کیے ،جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا ،کیوں کہ اشرف المخلوقات کی زبان کتوں اور بندروں کی رہینِ منت نہیں ہوسکتی۔
دنیا کی پہلی زبان
گذشتہ باتوں کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ زبان انسان کے ساتھ آئی ہے ،جس قادر مطلق نے اس کو پیدا کیا ہے ،اسی علیم وخبیر نے اس کو زبان بھی عطا فرمائی ہے ۔لیکن اس میں تین مذاہب کے محققین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی زبان کون سی ہے ۔ہندو محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کی پہلی زبان ’سنسکرت ‘ ہے ، جس میں وید او ر رامائن لکھی گئی ہیں ۔جب کہ بدھسٹوں کا دعویٰ ہے کہ پہلی زبان ’پراکرت ‘ ہے ؛ لیکن حقیقت یہ کہ اولیت کا فخر ’عربی زبان ‘ کو حاصل ہے ،کیوں کہ مؤرخین اور زبان کے ماہرین (جن مین میکس مولر پیش پیش ہیں ) دنیا کی تمام زبانوں کو درجِ ذیل تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:(۱)ایرین یعنی انڈو یورپین (۲)سمٹیک یعنی سامی زبانیں (۳)ٹیرین یعنی تورانی زبانیں۔اور ان تینوں کے مقسم پر لکھتے ہیں ’’ابتدائی گفتگو جو ناپید ہے ‘‘۔(علم الحروف، ج ؍۴ص ؍۲۹ ) 
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ دنیا کا پہلا انسان حضرت آدم ؑ ہیں اور اس بات کی بھی تحقیق ہوچکی ہے کہ زبان عطائے الٰہی ہے ،جو انسان کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے ۔اس لیے اگر اس امر سے پردہ اٹھ جاتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی زبان کیاتھی ،تودنیا کی پہلی زبان کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔چنانچہ اس سلسلے میں ایک روایت ہے کہ ’’جب قالب آدم ؑ میں روح پہنچی،تو سب سے پہلے ان کی زبان سے نکلا ’الحمد للہ رب العالمین‘یہ جملہ عربی زبان کاہے ۔‘‘ (اخبارالاول وآثارالاول،بحوالہ زبان و قلم،ص؍۲۲)۔قال سفیان الثوری :لم ینزل وحی الا باالعربیۃ،ثم ترجمہ کل نبی بلغتہ۔(روح المعانی ،ج؍۱۷،ص؍۱۶۷۳،بحوالہ زبان و قلم،ص؍۲۳)یعنی وحی صرف عربی زبان میں آئی ہے پھر ہر نبی نے اپنی اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کیا ہے ۔ ان روایتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی زبان عربی تھی ، لہذام الالسنہ عربی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک سنسکرت کی ام الالسنہ ہونے کی بات ہے تو زبان کے ماہرین اسے ایرین زبانوں کی ایک شاخ قرار دیتے ہیں ،اصل زبان ہی نہیں مانتے ۔پنڈت دیانند ’اپدیش فنجری ‘ میں نیستری اپنیشد کی عبارت لکھنے کے بعد دینا کی پیدائش کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ ’’ آدمی سرسی میں پانچ ورش چلتی رہی ۔پھر پرماتما نے منشوں کو وید کا گیان دیا۔یعنی دنیا کی پیدائش کو پانچ سال ہوگئی ۔تب جاکر وید کا الہام ہوا ایسا ہی ’سیتیارتھ پرکاش‘ میں بھی ہے ‘‘۔(مذہبی معلومات ، ص؍۴۳و۴۵،بحوالہ زبان و قلم ،ص؍۳۶)۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وید (جو سنسکر ت کی پہلی کتاب ہے) دنیا کی پیدائش کے پانچ سال بعد الہام ہوئی ہے ،تو ظاہر ہے کہ اس پانچ سال کی مدت میں انسان کوئی نہ کوئی زبان ضرور بولتا ہوگا ۔لہذا سنسکرت پہلی زبان نہیں ہوسکتی۔اور جہاں تک ’پراکرت ‘ کی بات ہے،تو اسے بھی پہلی زبان قرار نہیں دی جاسکتی ؛کیوں کہ مؤرخینِ السنہ کی تصریح کے مطابق پراکرت دراوڑیوں کی زبان تھی ۔یہ نسلی اعتبار سے افریقی تھے۔یہ لوگ غذا کی تلاش میں افریقہ کے گرم اور خشک علاقوں کو چھوڑ کر سندھ پہنچے اور یہاں کی شادابی اور زرخیزی کو دیکھ کر یہیں دریا کے کنارے آباد ہوگئے اور یہاں کی معاشرت و سماج میں اس طرح گھل مل گئے کہ اپنی شناخت ،تہذیب اور مادری زبان کو بھی فراموش کربیٹھے،جس کے نتیجے میں ایک نئی تہذیب کے ساتھ ساتھ ایک جدید زبان بھی وجود میں آئی ۔اسی زبان کا نام ’پراکرت‘ ہے ۔گویا پراکرت زبان دراڑیوں کے ہندستانی سماج سے اختلاط کے بعد وجود میں آئی ہے ۔لہذا اسے پہلی زبان کے طور پر کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ۔جب یہ دونوں حریف زبانیں ام الالسنہ نہیں بن سکتیں ،تو یقینی طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کی سب سے پہلی اور اصلی زبان ’عربی زبان‘ ہے۔ جیساکہ ڈاکٹر احمد حسن زیات کی تحقیق ہے کہ 
’’عربی ادب تمام ادبوں میں سب سے زیادہ وسیع ہے ،اس لیے کہ یہ انسان کی طفولیت ہی سے مخلوقِ خدا کی زبان رہی ہے ۔‘‘(تاریخ الادب العربی،ص؍۷) 
زبان کے اختلاف کے اسباب و وجوہات
زبان انسان کی ایک ضرورت ہے اور ضرورت میں تنوع،تبدیلی اور اختلاف کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے ،اس لیے زبان بھی زمانے اور ماحول کے اثرات کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ وروپ اور چولا بدلتی رہتی ہے جو آگے چل کر ہر روپ ایک مستقل زبان کی حیثیت اختیا ر کر لیتا ہے ۔چنانچہ شروع میں تمام انسانوں کی زبان ایک تھی ؛لیکن زمانے کے تقاضوں اور نئی نئی ضرورتوں کے پیشِ نظر نئی نئی زبانیں تشکیل پاتی رہیں ،جن کی مختلف لوگوں نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں ،ان میں چند درجِ ذیل ہیں ۔
(۱)ڈاکٹر سنویس نے لکھا ہے کہ طوفان (نوحؑ ) کے بعد لوگوں نے شہر بابل آباد کیا اور ایک برج تعمیر کیا،جس کو آسمان سے ملانے کا ارادہ تھا ۔خدا کو ان پر غصہ آیا ان کی زبان میں اختلاف پیدا کر دیا ۔وہ ایک دوسرے کی زبان سمجھنے سے معذور ہوگئے ،اس لیے وہا ں سے اطرافِ عالم میں پہنچ گئے۔
(تاریخ ملل قدیمہ، ص؍۱۱۸،بحوالہ زبان و قلم ،ص؍۲۸)
(۲)ڈاکٹر احمد حسن الزیات لکھتے ہیں کہ ’’جب حضرت آدمؑ کی اولاد کی تعداد بڑھی اور سب کا ایک جگہ رہنا دشوار ہوگیا ،تو وہ لوگ سہولت کے خاطر اللہ تعالیٰ کی وسیع و عریض زمین پر پھیل گئے اور مختلف مقامات پر جاکر آباد ہوگئے ، جہاں انھیں ایک نیا ماحول ملا اورنئی نئی ضرورتیں پیش آئیں ،جن کے لیے انھوں نے نئے نئے الفاظ وجود میں لائے ۔ اسی طرح بعد میں آنے والی نسلوں میں (اپنے باپ دادوں سے جدا ہونے اور اجنبی لوگوں سے ملنے جلنے کی وجہ سے ) نئے نئے لہجے ظہور پذیر ہوئے اور رفتہ رفتہ ہر لہجہ ایک مستقل زبان بن گیا ‘‘۔(تاریخ الادب العربی،ص؍۱۵)
(۳)علامہ بغویؒ نے ’معالم التنزیل ‘ میں [و علم اٰدم الاسماء کلہا] کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم ؑ کو تمام زبانوں کا علم عطا کیا تھا۔حضرت آدم ؑ اپنی ہر اولاد سے الگ الگ زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔جب ان کی اولاد مختلف خطوں میں پھیل گئی ،تو ہر ایک نے ایک ایک زبان اختیار کرلی ۔اس طرح سے مختلف زبانیں وجود میں آئیں ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
زبان و ادب کی تعریف و تشریح
قلبِ انسانی پر جب رنج و غم ،مسرت و خوشی ،کامیابی و کامرانی اور ناامیدی و نامرادی کے اثرات پڑتے ہیں ، یا جب انسان اپنے گرد و پیش کے خوش نما منظروں ،قوس و قزح کی رنگینیوں،آبشاروں کی غرغراہٹوں ،جھرنوں کی نغمہ ریزیوں ،بلبلوں کی ترانہ سنجیوں ،باغ وبہار کی رعنائیوں؛غرض مناظرِ قدرت کی دل فریبیوں کا مشاہدہ کرتا ہے ، تو وہ فطری طور پر ان کے اظہار کے لیے مضطرب وملتہب ہوتا ہے ۔جب اظہارِ جذبات اور ترسیلِ خیالات کے لیے باقاعدہ کوئی زبان نہ تھی اور دنیا تہذیب وتمدن سے نا آشنا تھی،تو انسان اپنی ان قلبی کیفیات کو مختلف اشاروں، کنایوں اور بے معنی آوازوں سے ظاہر کرتا تھا ۔لیکن جب اس کے اندر تہذیب وتمدن کا شعور بیدار ہونے لگا ،رفتہ رفتہ ترقی کے منازل طے کرنے لگا اور اشارے و کنایے ، اس کے جذبات کی مکمل ترجمانی سے عاجزی ظاہر کرنے لگے ،تو اس نے مصوری اور سنگ تراشی کا سہارا لیا۔ پھر جب زمانے نے اور ترقی کی اور عقل وفکر کے زاویے وسیع ہوتے گئے،انسانوں کی حسن پرستی اور ذوقِ جمالیات بڑھتا رہا ،تو ان کے احساسات کے اظہار کے لیے مصوری و سنگ تراشی بھی ناکافی ثابت ہونے لگیں،کیوں کہ اس میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مصوری میں جذباتِ انسانی کے ایک پہلو کا نقشہ تو کھینچا جاسکتا ہے؛ لیکن دوسرے پہلو تاریکی میں ہی رہ جاتے ہیں ۔وہ تمام کیفیات کو ایک تصویر میں نہیں سما سکتی۔جب انسان نے اس خامی کو محسوس کیا ،تو اپنے احساسات کے اظہار کے لیے موسیقی کا رخ کیا اور اس میں مختلف راگ راگنیوں ،سُروں اور تالوں کو نکال کر اپنی کیفیات ظاہر کرنے لگے ۔ اس طرح سے فن مصوری اور موسیقی کی بنیادیں پڑیں۔لیکن جب زمانہ اور آگے بڑھا اور موسیقی بھی مکمل طور پر ان کے ذوقِ جمالیات کی تسکین خاطر نہ کرسکی ،تو انھوں نے الفاظ و اصوات کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور مصوری وموسیقی کے لیے بھی الفاظ و اصوات سے کام لینے لگے۔۔۔نتیجہ یہ ہواکہ جذباتِ انسانی کے جتنے پہلو تھے،سب نمایاں ہوگئے۔اسی کا نام زبان اور ادب ہے۔ زبان و ادب کے اسی مفہوم کو مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔چنانچہ رکسن کہتا ہے کہ 
’’قدرت نے انسانی فطرت میں جن سرمدی اشیا کو ودیعت فرمائی ہے ،انھیں کے اظہار کو ادبِ لطیف کہتے ہیں ‘‘ ۔ (بروک انگلش لٹریچر،ص؍۵۰،بحوالہ خلاصہ روحِ تنقید،ص؍۱۰۔)
گوسائیں کا کہنا ہے کہ 
’’انسان جب کسی شی کو دیکھتا ہے ،تو اس کے متعلق اس کے دماغ میں مختلف خیالات پیدا ہوتے ہیں، انھیں خیالات کو اگر ہم مناسب الفاظ میں بیان کریں ،تو یہ ادب ہے‘‘۔(خلاصہ روح تنقید،ص؍۱۴)
ڈاکٹر احمد حسن زیات لکھتے ہیں کہ
’’اد ب اللغۃ ما اثر عن شعراۂا و کتابہا من بدیع القول المشتمل علی تصور الاخیلۃ الدقیقۃ و تصویر المعانی الرقیقۃمما یہذب النفس و یرقق الحس ویثقف اللسان‘‘۔
یعنی شاعروں اور نثر نگاروں کی ان انوکھی کاوشوں کا نام ادب ہے ،جو عمدہ افکار اور لطیف خیالات پر مشتمل ہوتی ہیں ، جن سے تہذیب و شائستگی،احساس میں لطا فت اور زبان میں استواری پیدا ہوتی ہے۔
(تاریخ الادبی العربی،ص؍۷)
کسی اور نے مختصراور جامع لفظوں میں ادب کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ 
’’الادب ہوالمجموع الجید من النظم والنثر‘‘۔یعنی ادب نظم و نثر کے انوکھے اور عمدہ مجموعوں کو کہا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ادب کی شکل میں نظر آنے والی ہر چیز پر ادب کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ، جب تک کہ اس کے اندر تخلیقی انفرادیت،مخصوص اسلوب نگارش، لطیف احساسات و خیالات ،سچے جذبات اور متاثر و مرعوب کرنے کی خوبیاں نہ پائی جاتی ہوں۔ادبی تحریروں کی یہی خصوصیات و امتیازات ،انھیں غیر ادبی تحریروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
ادب کی تقسیم
ادب کی مختلف حیثیتوں سے مختلف تقسیمیں کی گئی ہیں،مثلا:تنقید وتخلیق کے اعتبار سے۔ اسالیبِ بیان اور زبان کی حیثیت سے ۔موزونیت و موسیقیت کے لحاظ سے وغیر ہ وغیرہ۔لیکن عام طور پر اس کی دو قسمیں کی جاتی ہیں:
(۱)نثر (۲)نظم۔
نثر اس کو کہا جاتا ہے ،جس میں وزن اور قافیے کا التزام نہیں کیا جاتا ہے ۔اور نظم اس کوکہا جا تا ہے ،جس میں ان چیزوں کا التزام کیا جاتا ہے اور اس میں لطیف خیالات اور مؤثر مضامین بیان کیے جاتے ہیں۔
شلرازو کا قول ہے کہ 
’’الفاظ بہترین طور پر استعمال کرنا نثر ہے اور بہترین الفاظ کو بہترین طور پر استعمال کرنا نظم کہلاتا ہے۔‘‘ (خلاصہ روحِ تنقید،ص؍۲۳)
زبان وادب اور زندگی
زبان وادب عقل کا مظہر اورافکاروخیالات کا آئینہ ہے ۔انسان کے گرد و پیش کے حالات اور خود اس کی اپنی ضروریات کے اظہار اور دوسروں سے اپنے جذبات واحساسات بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔زبان وادب خدا تعالیٰ کی ایک ایسی بے بہاو بیش قیمت نعمت ہے کہ اس کے بغیر لطفِ زندگی کا حقیقی تصور بے معنی اور نظام کائنات ادھورا اور ناقص نظر آتا ہے۔کیوں کہ اگر زبان نہ ہوتی اور دانائے روز گار اس نعمت سے انسانوں کو بہرہ ور نہ کرتے ، توانسان جانورں اور ارذل ترین مخلوق کی زندگی جینے پر مجبور ہوتا اور ترقی کے اس اوج کمال پر پہنچنے اور ثریاپر کمندیں ڈالنے کے بجائے پستی و انحطاط اس کا مقدر ہوتا ۔اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان اپنے خیالات کا اظہا ر نہ کرپاتا اور نہ ہی وہ تہذیب و تمدن سے آشنا ہوپاتا۔اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان اپنے پیش رو اسلاف کے تجربات و مشاہدات اور ان کے کارناموں سے واقف نہ ہوپاتا۔نتیجۃََ ترقی کے مدارج کو طے کرنا تو دور ،وہ خودایک مجسمۂ جمود بن جاتا ۔آج زندگی کے ہر میدان میں جو ترقیاں بالخصوص سائنسی و ٹکنالوجی کے انقلابات دکھائی دے رہے ہیں ، ان کا وجود؛بلکہ ان کے وجود کا تصور تک نہ ہوتا ۔المختصر اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان کی تخلیق نامکمل معلوم ہوتی۔لہذا کہا جاسکتا ہے کہ زبان وادب زندگی کی روح ، زندگی کا اصلی جوہر اور زندگی کی اساس ہے ۔ترقی کا ذریعہ اور تہذیب وتمدن کی بنیاد ہے۔انسانوں اور حیوانوں میں تفریق وامتیاز پیدا کرنے کا معیار ہے ۔اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جن قوموں نے اپنی زبان وادب ،تاریخی روایات،اسلاف کے کارنامے اور اکابر کے علوم وفنون کی صیانت و حفاظت کی ہے ،آج وہ ترقی اور تہذیب وتمدن میں سب سے آگے اور نام ونمود میں شہرۂ آفاق ہیں۔اور جن قوموں نے اپنی زبان وادب اور تاریخی روایات کو بھلادیا ہے ، اور اپنے اسلاف کے علوم و فنون کو موروثی سمجھ کر ان سے بے اعتنائی و لاپرواہی برتی ہے،یا تو ان کا نام ونشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے اور وہ ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ گئی ہے،یاپھر ذہنی و فکری غلامیت و محکومیت کی ذلت آمیز زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی ہے ،جو سیاسی غلامیت و عبدیت سے بھی زیادہ حقارت خیز زندگی ہے ؛کیوں کہ جسمانی غلامی ایک ایسی بیماری ہے ،جس کا علاج ممکن ہے اور اس سے شفا کی امید کی جاسکتی ہے ؛لیکن روح کی غلامی اور فکری و ذہنی محکومی ایک ایسی بیماری ہے،جو لا علاج ہے۔ کیوں کہ اس میں انسانیت اور ضمیر کی موت ہوجاتی ہے ۔اور دنیا کے ہسپتال میں کوئی ایسا ڈاکٹر اور یہاں کے میڈیکل میں کوئی ایسی دوا نہیں ہے ،جو موت کو حیات میں بدل دے۔اس لیے زبان و ادب کی حفاظت اور اس کی فروغ کاری قوم کا ایک واجبی فریضہ ہے۔
زبان و ادب کو برتنے کی صورتیں
زبان وادب انسانی زندگی کی ایک ضرورت ہے ۔اور انسانوں کی ضرورتوں میں زبردست اختلاف اور تنوع پایا جاتا ہے ۔اس لیے زبان و ادب کے استعمال میں اختلاف کا پایا جانا ایک فطری بات ہے ،جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:(۱)عام بول چال کی زبان (۲)تحریری و کتابی زبان(۳)تقریری و خطابی زبان۔
عام بول چال کی زبان
اس سے مراد وہ زبان ہے ،جسے عوام ،ناخواندہ اور جاہل طبقہ استعمال کرتا ہے اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اس کا سہارا لیتا ہے۔اس میں مہذب وغیر مہذب ،شائستہ و ناشائستہ ہر طرح کے الفاظ ہوتے ہیں ۔اسی طرح یہ زبان تصنع و تکلف ،پیچدہ تراکیب ،گنجلک اسالیب اور فلسفیانہ مضامین سے بالکل پاک ہوتی ہے۔پس جو کچھ کہنا اور بولنا ہوتا ہے ،سیدھے سادے انداز میں کہہ دیاجاتا ہے ۔کوئی مخصوص اسلوب یا لب و لہجے میں انفرادیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔اسے غیر ادبی زبان کہا جاتا ہے۔
تحریری و کتابی زبان
اس سے مراد وہ زبان ہوتی ہے،جوقلم کار حضرات ۔خواہ وہ نثر نگار ہوں یا نظم نگار۔اپنے ذہنی خاکوں اور قلبی کیفیتوں کو بیان کرنے کے لیے مخصوص اسلوب بیان اور منفرد انداز نگارش کے ساتھ استعما ل کرتے ہیں۔اس میں ایک عام فہم بات کو مختلف طریقوں اور دل چسپ پیرائیہ بیان میں بیان کیا جاتاہے۔اور الگ الگ صنائع و بدائع کا سہارا لے کر متنوع خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔المختصر اس میں وہ تمام خصوصیات ہو تی ہیں ،جو ایک ادبی تحریر کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
تقریری و خطابی زبان
زبان و ادب کے استعمال کا تیسرا طریقہ تقریرو خطابت ہے ۔اس کا تعلق بھی ادبی زبان ہے، البتہ دونوں میں صرف اتنا فرق پایاجاتا ہے کہ او ل الذکر کا تعلق زبانِ قلم سے ہے جب کہ آخر الذکرکا تعلق زبانِ لحم سے ہے۔
زبان و ادب کے استعمال کے صرف یہی تین طریقے ہیں ،جن میں سے حسبِ لیاقت کسی ایک کا سہارا لے کر انسان اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ان کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ اگر کوئی اور طریقہ مانا جاتا ہے ،تو درحقیقت وہ زبان ہے ہی نہیں،اس لیے اسے حسبِ واقعہ مثلا اشارات و کنایات وغیرہ کہنا زیادہ بہتر ہے۔