(قسط نمبر (3) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)
تقریر وخطابت،دونوں عربی لفظ ہیں۔اول الذکر باب تفعیل کا مصدر ہے ،جس کے لغوی معنی ہیں:کسی معاملے کی وضاحت و تحقیق کرنا ۔اور آخر الذکرباب نصر کا مصدر ہے ،اس کے معنی ہیں :تقریر کرنا ،لیکچر دینا ،وعظ کہنا،بیان دینا ، گفتگو کرنا ،کسی سے ہم کلام ہونا ۔لیکن اب یہ دونوں لفظ اردو میں مترادف کے طور پر ایک مخصوص اصطلاحی معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں ،جس کی مختلف حضرات نے اپنے اپنے الفاظ میں الگ الگ تعریفیں کی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
علامہ ابن رشد تلخیصِ خطابت میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’و فی اصطلاح الحکماء ھی صناعۃ تتکلف الاقناع الممکن فی کل مقولۃ من المقولات۔‘‘
یعنی حکما کی اصطلاح میں خطابت ایسی صناعت کا نام ہے، جس کے ذریعے کسی بھی موضوع پر ممکنہ حد تک تسلی بخش کلام کرنے کی ذمے داری نبھائی جاتی ہے۔ (ص؍۲)
شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’عوام سے اجتماعا ہم کلام ہو نے کانام ’خطابت‘ ہے،اصطلاحا اس فن کا نام ہے، جس کا مقصود و مطمح نظر عوام سے خطاب کرنا اور ان کے دل ودماغ میں اپنی غایت و منشا اتارنا ہے ‘‘۔
(فنِ خطابت ،ص؍۱۵)
صاحبِ’خطابت وتقریر‘ رقم طراز ہیں کہ
اصطلاح میں خطابت اس فن کو کہتے ہیں ،جس سے تمام اصناف گفتگو میں اپنی بات دوسروں سے منوائی جاسکے۔‘‘(ص؍۲)
منطقیوں کی اصطلاح میں
’’خطابت وہ قیاس ہے جو مقبول و مظنون باتوں سے مرکب ہے۔‘‘
موضوع
جس طرح علم ادب کے موضوع کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس علم کا کو ئی موضوع نہیں ہے ،اسی طرح ارسطو کی رائے یہ ہے کہ فنِ خطابت کا بھی کوئی موضوع نہیں ہے ۔کیوں کہ کوئی بھی علم و فن ہو، کسی بھی طرح کا مضمون ہو جس نوعیت کے بھی مسائل ہوں ؛خطابت کا زور ان سب پر چلتا ہے ۔اس کے موضوع کے دائرے سے کائنات کی کوئی بھی چیز خارج نہیں ہے ،ہر موضوع پر تقریر کی جاسکتی ہے اور ہر عنوان کو خطابت کا رنگ دیا جاسکتا ہے۔
غرض و غایت
جب اس فن کا موضوع ہی اپنے دامن میں اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ پوری کائنات اس میں سما سکتی ہے ،تو ظاہر ہے کہ اس کی غرض و غایت بھی اسی قدر متنوع اور مختلف ہوگی ،تاہم عمومیت کے ساتھ اتنی سی حد بندی ضرور کی جاسکتی ہے کہ خطیب اپنی جادو بیانی اور سحر انگیزی سے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے اور سامعین کو اپنی باتوں کے ماننے پر مجبور کردے۔
فنِ خطابت کے لیے لازمی علوم
کچھ علوم و فنون ایسے ہیں،جو موقوف و مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں ،اور ان کو اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے،جب تک کہ موقوف علیہ اور ان کے لیے مُعدِات کی حیثیت رکھنے والے علوم وفنون کو حاصل نہ کرلیا جائے،مثلا علم تفسیر اور علم فقہ کو اس وقت تک حاصل کرنا ناممکن ہے جب تک کہ ان کے لیے علوم مُعدِات :اصول تفسیر اور اصول فقہ میں مہارت نہ پیدا کرلی جائے ۔ فنِ خطابت کا تعلق ان علوم و فنون سے ہے ،جو موقوف اور مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لیے فنِ خطابت میں مہارت تامہ اس وقت تک پیدا نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس کے لیے آلے اور مُعدِات کی حیثیت رکھنے والے علوم وفنون میں کچھ شد بد نہ پیدا کرلی جائے ۔فنِ خطابت کے علوم آلیہ درج ذیل ہیں:(۱)علم ادب(۲)علم النفس(۳)علم منطق وفلسفہ۔
علم ادب
تقریری زبان ادبی زبان سے تعلق رکھتی ہے ،کیوں کہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے ترتیب انداز میں سامعین کے سامنے کوئی بات کہہ لینا ،اس کا نام تقریر نہیں ہے ؛بلکہ یہ ایک عوامی گفتگو اور مکالمت ہے ۔تقریر تو اصل یہ ہے کہ بات کو مؤثر اور دل کش پیرائیہ بیان میں بیان کیا جائے ،طرز ادا دل آویز اور مسحور کن ہو ،موقع بموقع ضرب الامثال ،کہاوتوں اور حکایتوں سے اس میں خوبیاں پیدا کی گئی ہوں ۔اور یہ سب خصوصیات ایک ادبی زبان کی ہوا کرتی ہیں ۔اس لیے فنِ خطابت میں مہارت پیداکرنے کے لیے قواعد زبان ،علم بدیع ،علم بیان،علم لغت اور ان تمام علوم سے واقفیت ضروری ہے جن کے مجموعے پر علم ادب کا اطلاق ہوتا ہے اور جن سے زبان و بیان کی اصلاح اور اظہار میں توانائی و استواری پیدا ہوتی ہے۔
’’سب سے پہلی چیز جومقرر کے لیے خطابت کی روح ہے اور جس سے اس کا جسم نمو پاتا ہے ،وہ زبان ہے ۔ایک خطیب و مقررکے لیے زبان کا حصول اسی طرح ضروری ہے ،جس طرح زندگی کے لیے سانس لینا ۔ جب تک زبان کے نشیب و فراز سے مقرر و خطیب آگاہ نہ ہوں اور اس کے قواعد وضوابط ان کے ذہنوں میں نقش نہ ہوں ،وہ اظہار و اسلوب کی نزاکتوں اور آوازو تلفظ کی نزہتوں سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔ان کے لیے حصول زبان کے بغیر مطالعہ ،مشاہدہ اور استعداد ؛سب بیکار ہیں۔ایک مقرر کے لیے زبان کو بطور زبان جاننا ضروری ہے۔ پہلے زبان پھر موضوع۔جس طرح موضوع کے بغیر زبان محض صدا ہے ،اسی طرح زبان کے بغیر موضوع کوئی چیز نہیں ۔ دونوں میں روح وبدن کا رشتہ ہے،روح بدن چاہتی اور بدن روح چاہتا ہے۔‘‘ (فنِ خطابت ،ص؍۳۵)
علم النفس(psychalogy)
ایک باکمال خطیب بننے کے لیے انسان کی نفسیاتی کیفیات اور لاشعوری احوال سے واقف ہونا ضروری ہے، جسے اصطلاحا علم النفس اور نفسیات سے تعبیر کرتے ہیں ؛کیوں کہ ماہرینِ فن نے ایک مقرر کی کامیابی کے لیے جن رازوں کا انکشاف کیا ہے ،ان میں انسانی طبائع کے ذہنی محرکات اور ان کی بوقلمونیوں سے آگاہی بھی شامل ہیں۔چنانچہ اس حوالے سے شہسوار خطابت جناب شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’ایک مقرر کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ عوام کی نفسیات کیا ہیں؟وہی مقرر کامیاب ہو سکتا ہے ، جو عوام کی نفسیات جانتا اور انسانی طبائع کی بو قلمونیوں سے واقف ہے ،ہر وہ انسان جو مجمع میں شریک ہے،آپ سے کچھ حاصل کرنے آیا ہے ،ہر شخص چاہتا ہے ،اس کی ضرورت ہے ،وہ محسوس کرتا ہے ،اس کی پسند و نا پسند ہے ،بعض چیزوں سے محبت کرتا ۔بعض سے نفرت کرتا ہے،اس کے کچھ خوف ہیں ،کچھ جرأتیں ہیں،اس کی عادت مستمرہ تقلید ہے ،وہ باہم دگر مختلف ہیں ،وہ سوچتا ہے ،اس کے کچھ اعتقدات و معتقدات ہیں،وہ تغیرات کا دل دادہ ہے ، وہ رد وقبول کا جوہر رکھتا ہے ،وہ سیادت وقیادت کا احترام کرتا ہے ،اس کے کچھ تصورات ہیں،اس کا میلان و رجحان ہے،اس کا شعور و لا شعور ہے،ہر انسان کا مطالعہ بہ حیثیت انسان ایک خطیب کا لازمہ ہے۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۹۷و۹۸)
ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں
ایک ایسا شخص کبھی کامیاب مقرر نہیں ہوسکتا ،اگر عوام کی نفسیات کے علم سے محروم ہے ‘‘۔
(ایضا،ص؍۳۵)
چنانچہ جو لوگ عوام کی نفسیات کا خیال نہیں رکھتے اور کرسیِ خطابت پر بیٹھ کر بولے چلے جاتے ہیں ،ان کی تقریر کبھی بھی مقبولیت کے کانوں سے نہیں سنی جاتی ،بلکہ ہمیشہ صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے ۔
’’بعض مقرر عوام کی نفسیات سے اجتناب کرتے اور اپنے ہی خیالات کے ہوکے رہتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے ،لہذا فضا کا احساس کیے بغیر کہے جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اسٹیج پر قابو پانے سے وہ عوام پر قابو نہیں پاسکتے۔۔۔۔اکثر مقرر مجمع سے زیادہ اپنے خیالات کوعزیز رکھتے،عوام کی اکتاہٹ کو مطلقا محسوس نہیں کرتے ۔داد کے روپ میں بے داد کا اندازہ نہیں کرپاتے اور کلماتِ ستائش کی منفی پہلووں کو بھانپ نہیں سکتے کہ ان پر تنقید و تعریض کے چھینٹے اڑائے جارہے ہیں۔۔۔ایک مقررکو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کی خواہش کے خلاف بولے جانا بہت بڑی غلطی ہے ۔اس بے طلب خطابت ہی کا نتیجہ زبردست قہقہے اور تفریحی تالیاں ہوتا ہے ‘‘۔
(فنِ خطابت ، ص؍۵۱و۵۲)
علم منطق وفلسفہ
خطابت کے اجزائے ترکیبی میں دعویٰ اور اثباتِ مدعیٰ بھی ہے۔د عوے کی وضاحت کے بعد ایک مقرر کے لیے جو سب سے مشکل مسئلہ در پیش ہوتا ہے ،وہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعوے کو کس طرح ثابت کرے اور اس کو مدلل و مبرہن کر نے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے ؟منطق وفلسفہ ایسے علوم ہیں ،جن کے مطالعے سے استدلال کے نئے نئے طریقے اجاگر ہوتے ہیں،واقعات سے نتائج و عبر اخذ کرنے کے گر ہاتھ آتے ہیں ،دعووں کو مدلل ومبرہن کرنے کے اصول معلوم ہوتے ہیں ،تحلیل و تجزیہ کی ذہنی قوت پروان چڑھتی ہے،فکر ونظر کی بصیرت کو جلا ملتی ہے اور شعور و ادراک کے مقفل دروازے کھلتے ہیں ۔اس لیے ایک خطیب کے لیے منطق وفلسفہ سے واقفیت رکھنا ضروری ہے۔
’’اس سلسلے میں ایک مقرر کے لیے منطق و فلسفہ کا جاننا ضروری ہے اور یہ خطیب کے منطقی وفلسفی ہو نے کا سوال نہیں ،مطلب ہے کہ ان مضامین سے آشنائی خطیب کے اسلوب و استدلال کی طاقت ہوتی اور اس سے خطابت میں حسن و اہتزاز پیدا ہوتا ہے ۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۶)۔
’’منطق وفلسفہ کی واقفیت بھی نہایت کار آمد اور مناظرہ کی صورت میں نہایت ضروری ہے۔پس اگر زیادہ نہیں ،تو ایک سرسری نظر ان علوم پر بھی ہونی چاہیے۔‘‘ (ایضا،ص؍۹)
یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ یہ تینوں علوم کسی بھی حیثیت سے بالکل علاحدہ علاحدہ نصاب نہیں ہیں کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ کسی کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا جائے ؛ بلکہ یہ تمام علوم مضبوط ارادے ،قلبی شغف، کثرتِ مطالعہ اور ماہرینِ فن سے استفادہ و استفسار سے خود بخود حاصل ہوجاتے ہیں۔کیوں کہ جب کوئی شخص مقرر بننے کا عزمِ مصمم کرلیتا ہے،تو یہ تمام راہیں از خود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ اپنی محنت و لگن اور مشق وتمرین سے منزل مقصود کو پالیتا ہے۔