(قسط نمبر (5) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)
جرأت وخود اعتمادی
ایک اچھا اور با کمال مقررکے لیے جو سب سے بنیا دی اور اولین شرط ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ جرأت مند ہو ، کم ہمت اور پست حوصلہ صفت نہ ہو۔اسی طرح پر اعتماد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر مکمل بھروسہ بھی رکھتا ہو۔ ایک خطیب کے اندر جب تک حد درجے کی جرأت مندی اور خود اعتمادی نہیں پائی جائے گی ،تب تک وہ کامیاب اور با کمال مقرر نہیں بن سکتا ۔جرأت وخود اعتمادی پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ایک ذرا سی کوشش،ہلکی سی توجہ ، تھوڑی سی مشق اور مطالعہ کی معمولی سی لگن سے یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے مزید گفتگو آگے آئے گی ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
باخبر ذہن
اسی طرح ایک با کمال خطیب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ با خبر ذہن کا مالک ہو ،حاضر ذہنی کی صلاحیت سے لیس ہو ،ایسا نہ ہو کہ اسٹیج پر آتے ہی اس پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا ہو ۔اس کا ذہن و دماغ ماؤف ہو جاتا ہو اور دورانِ تقریر اس کا حافظہ ساتھ چھوڑ دیتا ہو ؛کیوں کہ دورانِ تقریر اگر یہ کیفیتیں پیدا ہوجائیں گی ،تووہ مرصع اور مربوط تقریر نہیں کر سکے گا ۔ذہن کو حاضر جواب اور با خبر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کثرت سے مطالعہ کیا جائے ،اسٹیج پر آنے سے پہلے تقریر کی مکمل تیاری کر لی جائے اور مشقِ خطابت کے دوران غور و فکر کرنے کی بھی مشق کی جائے۔مشق خطابت کے عنوان سے مزید باتیں آگے آئیں گی ،ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مجمع کی نفسیات سے آگاہی
ایک خطیب کے اندر یہ صلاحیت بھی ہونی ضروری ہے کہ وہ تقریر کے اسٹیج پر بیٹھتے ہی یہ بھانپ سکے کہ پورا مجمع مجھ سے کس بات کو سننے کا خواہاں ہے ۔جلسے کی نوعیت اور حالاتِ حاضرہ کے اعتبار سے وہ کون سا موضوع اپنا یا جائے ، جس سے عوام قبضے میں آجائے ۔تقریر کا جو وقت ملا ہے وہ مجلس کے کس حصے کا ہے ،جس کی مناسبت سے کتنی دیر اور کس انداز سے تقریر کرنی چاہیے ؛غرض ایک مقرر کے لیے سامعین کی نفسیات سے مکمل طور پر واقف ہونا ضروری ہے ۔اور اس کے لیے علم النفسیات (سائکا لوجی )کا مطالعہ ،بڑے بڑے خطبا کی سماعت و مشاہدہ اور ان دونوں سے حاصل ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے ۔
وسیع المطالعہ
ایک اچھا مقرر کے لیے وسیع المطالعہ ہونابھی ضروری ہے؛کیوں کہ اگر وہ وسیع المطالعہ کا حامل نہ ہوگا،تووہ کوئی بھی بات مستحکم،ٹھوس اور پختگی کے ساتھ نہیں کہ سکے گا ۔بسا اوقات مقرر کوپہلے سے کسی اطلاع کے بغیر اچانک کوئی موضوع دے دیا جاتا ہے ،جس پر اس کو فی البدیہہ بولنا پڑتا ہے ۔ایسے موقعے پر اس کی عزت و آبرو اس کا وسیع المطالعہ ہونا اور ہمہ گیر معلومات ہی بچا سکتی ہیں۔
ذخیرۂ الفاظ
ایک کامیاب مقرر بننے کے لیے الفاظ کے ایک بڑے ذخیرے کا مالک ہونا بھی ضروری ہے ،کیوں کہ جب تک اس کے پاس الفاظ نہ ہوں گے اس وقت تک اس کے بیان میں ندرت ،بانکپن اور تنوع پیدا نہیں ہوگا ۔اس کے ذہن و دماغ میں خیالات ہوں گے ؛لیکن الفاظ ندارت کی وجہ سے وہ افہام و تفہیم پر قادر نہیں ہوگا ،اور نہ ہی وہ سامعین کی تسکین خاطر کر سکے گا ۔الفاظ کا ذخیرہ بڑھانے سے بڑھتا ہے ۔اس کے لیے شعر وادب کا مطالعہ کیجیے ۔ اور دوران مطالعہ آنے والے الفاظ ومعانی کو ذہن ودماغ میں بار بار دہرائیے۔اسی طرح جہاں کہیں نئے الفاظ نظر سے گذریں ،ان کو حافظے کے نہا خانے میں محفوظ کر لیجیے ۔اس طرح کرنے سے آپ کے پاس الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوجائے گا ۔اور ذخیرہ بڑھتا جائے گا ۔
سلاستِ لسانی
مقرر کے لازمی اوصاف میں سے ایک صفت طلاقتِ لسانی اور فصاحتِ بیانی بھی ہے۔ایک مقرر صحیح معنی میں اسی وقت مقرر کہلانے کا مستحق ہے ،جب کہ وہ اس وصف سے بھی متصف ہو ۔سلاست سے مراد یہ ہے کہ زبان میں طلاقت اور بیان میں روانی ہو ۔کسی جھجھک،اٹکاؤاور تتلاہٹ کے بغیر الفاظ اور جملوں کی ادائیگی اس طرح ہو کہ جو بات کہی جائے ،وہ دل کے ساتھ ساتھ دماغ میں بھی اتر تی چلی جائے،اور سامعین یہ محسوس کریں کہ وہ خطیب سے کچھ حاصل کر رہے ہیں اور اپنی تشنگی بجھا رہے ہیں ۔
’’سلاست :معنی ہیں :زبان کی روانی ۔ایک مربوط آہنگ میں کسی اٹکاؤ کے بغیر اس طرح بولنا کہ دل پر دستک پڑتی رہے اورکان محسوس کریں کہ اپنا دامن بھر رہے ہیں ۔فی الجملہ سلاست صبا کی موج ہے ،جو الفاظ کے غنچے چٹخاتی اور معانی کے پھول کھلاتی ہے ۔سلاست ہی میں نرم،آسان اور ہم وار خطابت کے جوہر ہیں ۔اسی طرح حاضر جوابی ،حاضر کلامی ،برجستہ گوئی اور دوٹوک لہجہ سلاست کا جھومر ہیں ‘‘۔
(فنِ خطابت ،ص؍۴۶)
جس مقررو خطیب میں سلاست و طلاقت اور اناقت و بداہت کا جوہرجس درجہ قوی ہوگا ،اسی درجہ اس کے اندر فصاحت و بلاغت ،بیان میں روانی ورعنائی او ر دل کشی پائی جائے گی ۔سلاست خطابت کا ایک ایسا عنصر ہے کہ اگر دوسرے عناصر میں کچھ کمی بھی ہے ،تو اس کمی کو اس سے چھپا یا جاسکتا ہے ۔لیکن اگر کوئی اسی صفت سے محروم ہے ، تو دوسرے عناصر بدرجۂ اتم پائے جانے کے باوجود پھیکے پڑسکتے ہیں ۔بسااوقات موقع ایسا آپڑتا ہے کہ مقرر کے پاس اس موضوع کے حوالے سے کوئی تیاری ،موادیا کچھ معلومات نہیں ہوتیں۔موقع یا مجمعے کے اصرار پر اس کو فی البدیہہ بولنا پڑجاتا ہے ۔ایسی صورتِ حال میں خطیب کی یہی صلاحیت ہوتی ہے ،جسے بروئے کا ر لاکر اپنی عزت بچاتاہے اور خطابت کی فضا پیدا کر کے سامعین کو مطمئن کردیتا ہے ۔
سلاست پیدا کرنے کے طریقے
سلاست کا ملکہ بعض کے اندر تو فطری ہوتا ہے ،جو وہ اپنی ماں کے پیٹ ہی سے لے کر آتا ہے۔اور بعض کے اندر تو فطری نہیں ہوتا ،البتہ وہ کد وکسب سے حاصل کر لیتا ہے ۔پھر وہ انتہائی شستگی اور روانگی کے ساتھ تقریر کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔اس لیے اگر کوئی فطری طور پر اس ملکہ سے عاری ہے ،تو اسے گھبرانے اور بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔وہ بھی مسلسل جدو جہد اور پیہم کوشش سے یہ ملکہ پیدا کرسکتا ہے اور با کمال مقرربن سکتا ہے ؛لیکن اس کے لیے درج ذیل باتوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا :
(۱)سلاست پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی آواز کو صاف و بے عیب رکھنے اور زبان کی لہروں پر قابو پانے کی کوشش کیجیے ؛کیوں کہ آواز کو خطابت کا لازمہ اور اس کی اساس قرار دی گئی ہے ،اسی لیے ایک مقرر کے اندر شیریں آواز اور صوتی حسن جس اعلیٰ درجے کا ہوگا ،اسی درجہ اس کی فنی مہارت اور چابک دستی بڑھے گی۔
(۲)کبھی چبا کر یا جھجھک کر نہ بولیے ۔بلکہ ہمیشہ ڈٹ کر اور جم کر بولیے ۔اور جو کچھ کہیے ،روانی کے ساتھ پُراعتماد لہجے میں کہیے ۔
(۳)ماہرینِ زبان کا کہنا ہے کہ روزمرہ کی گفتگو کے لیے کم از کم پانچ ہزار الفاظ اور انشاپردازی کے لیے کم از کم دس ہزار الفاظ درکا ر ہوتے ہیں ؛لیکن ایک مقرر کے لیے ان سے زیادہ الفاظ درکا ر ہوتے ہیں ؛کیوں کہ انشاپردازی خلوت میں انجام دیا جانے والا کام ہے ،جہاں پر بوقت ضرورت لغت کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ، لیکن تقریر کا تعلق جلوت اور مجمع عام سے ہے ،جہاں پر بر وقت لغت کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ۔اس لیے خزاأہ الفاظ بڑھاتے رہیے۔اس سے آپ کی قوتِ متخیلہ پروان چڑھے گی،افکارو مطالب کی نئی نئی راہیں کھلیں گی اور سلاست کی بھی جِلا ملے گی ۔
(۴)شعرا،ادبا اور خطبا کے کلام کو بکثرت پڑھیے بھی اور سنیے بھی ۔ان میں اگر کوئی اچھوتے فقرے ، پُرحکمت جملے ،شان دار تعبیرات ،زریں اقوال ،ضرب الامثال اور کہاوتیں نظر سے گذریں یا سننے کو ملیں ،تو انھیں خوب اچھی طرح یاد کر لیجیے اور اپنی تقریر میں استعمال کیجیے۔
(۵) تیزتیز بولنے کی عادت ڈالیے ۔جب بھی کسی سے ہم کلام ہویے ،تو کسی تکلف اور جھجھک کے بغیر رواں دواں کلام کیجیے ؛مگر تیز بولنے میں اس بات کا خاص دھیان رکھیے کہ الفاظ کٹ نہ جائیں اور اٹکاؤ یا تتلاہٹ کو راہ نہ مل سکیں ۔ورنہ فائدہ کے بجائے یہ طریقہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے ۔
(۶)مختلف نام ور مقرروں کی تقریروں کو بار بار سنیے ۔پھر ان کی نقالی اور تقلید کی بھر پور کوشش کیجیے ۔
(۷)بڑے بڑے خطبا کے تقریری مجموعے کو لے کر بیٹھ جائیے اور ان کو بآواز بلند تقریری انداز میں پڑھیے۔ ساتھ ہی الفاظ کے مد و جزر اور لہجے کے زیرو بم کو بھی مد نظر رکھیے ۔
(۸)اگر آپ کی زبان میں لکنت ہے اور بولتے بولتے تتلانے ،ہکلانے یا لڑکھڑانے لگتے ہیں ،تو ماہرین اطبا سے مشورہ کیجیے ۔علاوہ ازیں راقم السطور کے اس مجرب نسخے پر بھی ضرور عمل کیجیے کہ روزانہ پابندی کے ساتھ تازہ مسواک سے منھ دھوئیے اور بطور خاص زبان کی صفائی کیجیے ۔اپنی زبان کواندرونی حصے کی جانب اوپر کے تالو سے ملاکر موڑ لیجیے اور کچھ دیر دبائے رکھیے ۔یہ عمل گھڑی گھڑی کرتے رہیے ۔ان شاء اللہ ضرور بالضرور آپ کی لکنت دور ہوجائے گی اور آپ کی زبان بھی کھل جائے گی ۔
(۹)کسی آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر تقریر کی مشق کیجیے اور عکس میں اپنی زبان و دہن کی حرکت پر نگاہ رکھیے۔ غیرضروری اور لایعنی حرکتوں کو پکڑ کر ان سے بچنے کی کوشش کیجیے ۔اور عکسی تصویر کو مخاطب سمجھ کر نئے نئے انداز بیان اور مختلف طریقوں سے سمجھانے کی سعی کیجیے ۔
(۱۰)آوازقید کرنے والی مشینیں ،جیسے :ٹیپ ریکارڈ،موبائل اور ان جیسے دیگر آلات کے ذریعے اپنی تقریر ریکارڈ کر لیجیے اور پھر اسے بار بار سنیے۔ جہاں پر اصلاح کی ضرورت محسوس ہو یا کہیں پر انداز بدلنے کی ضرورت سمجھ میں آئے ، تو دوسری مرتبہ ان اصلاحات کے ساتھ تقریر کیجیے ۔اور مشق کا یہ طریقہ برابر جاری رکھیے ۔ان شاء اللہ ضرور ایک دن کامیابی قدم چومے گی۔