4 Apr 2018

خطیب اور مطالعہ


(قسط نمبر (4) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)
محمد یاسین جہازی

کسی بھی علم و فن کو حاصل کرنے کے لیے مطالعہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جس طرح ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے انسان کسی قابل نہیں رہتااور ہر طرح سے دوسروں کے سہارے کا محتاج ہوجاتا ہے ،اسی طرح مطالعے کے بغیر کسی علم وفن کا حصول نا ممکن ہے ،کیوں کہ 
’’یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی علم وفن کا دار ومدارسرا سر مطالعے پر ہے۔اسی وجہ سے کہاگیا ہے کہ’’مطالعہ روح علم کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔(رہ نمائے اردو ادب،ص؍ ۱۱۲)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 
’’مطالعہ سے انسان کا ذہن نشو و نما پاتا اور اس کی فکر کو جلا دیتا ہے ،مطالعہ کے بغیر انسان ایک ریگ زار کی طرح ہے ،اس میں مشاہدہ کی لو ہے تو سراب کی طرح ہے ۔مطالعہ ہی سے انسان کی ذہنی گمراہیاں ختم ہوتی ہیں اور مطالعہ وہ طاقت ہے جس سے انسان کو تہذیب کی توانائی ملتی ہے ۔اگر مطالعہ نہ ہوتا تو انسان دھات اور پتھر کی زندگی بسر کرتا ،وہ محسوس ہی نہ کرسکتا کہ وہ کیا ہے اور اس کی دماغی سر گذشت کیا ہے؟ انسان نے مطالعے ہی کی بدولت ایک دوسرے سے آگاہی حاصل کی اور مطالعہ ہی کے فیوض ہیں کہ ہم مطالعہ کی بدولت یہاں تک پہنچے ہیں۔ مابعد الطبعیاتی پر کمندیں ڈالیں اور انسان و کائنات کے وجوہ معلوم کیے ہیں‘‘۔(فنِ خطابت،ص؍۱۱۳)
اسی لیے مطالعے کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: 
’’مطالعے کی اہمیت و افادیت ہمیشہ اور ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی نقطۂ نظر یا مدرسۂ فکر کو کوئی اختلاف نہیں ، بلکہ مطالعہ ہی سے نقطہ ہائے نظر اور مدارس فکر کی شناخت ہوتی ہے ۔ اور مطالعہ ہی کی مدد سے ان کے روشن یا تاریک پہلو سامنے آتے ہیں ۔سماج یا معاشرہ کی تعمیر و تطہیر میں مطالعہ کا بڑا اہم اور واضح رول ہوتا ہے ۔دنیا کی تمام مخلوقات میں انسان کے شرف و تفوق کی بنیاد علم پر ہے، اور علم صرف مطالعہ ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس صورت میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مطالعہ انسا نی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اور مطالعہ کے بغیر انسان اپنی اس منزل کو نہیں پا سکتا ، جس کے لیے خالق کائنات نے اس کی تخلیق فرمائی ہے ۔ بعض دانش وروں کے نزدیک جو اہمیت انسانی زندگی کے لیے پانی، ہوا اور غذا کی ہے ، وہی اہمیت مطالعے کی بھی ہے۔ اس لیے کہ پانی ،ہوا اور غذا سے جسم انسانی کو نشو و نما ملتی ہے، اور مطالعہ سے ذہن و فکر میں گیرائی و بالیدگی اور روح میں تازگی و روشنی پیدا ہوتی ہے ‘‘
(میرا مطالعہ،ص؍۷)
فنِ خطابت کا حصول بھی مطالعے کے بغیر ممکن نہیں ۔کیوں کہ 
’’ایک خطیب کے لیے مطالعہ اس کی غذا ہے ۔اس کا فرض ہے کہ مطالعہ اس کا معمول ہو اور وہ جس طرح غذا اور پانی کے بغیر دن گذار نہیں سکتا ،اسی طرح مطالعہ کے بغیر یہ محسوس کرے کہ اس کا دماغ آج بھوکا رہا ہے۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۴)
خطیب کو کیا کیا مطالعہ کرنا چاہیے 
یہ سوال کہ ایک خطیب و مقررکو کیا کیا مطالعہ کرنا چاہیے ؟اس کا سیدھا جواب تو یہی ہے کہ جس موضوع پر تقریر کرنی ہو ،اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔لیکن اس کو صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ،کیوں کہ ایک خطیب کو مختلف طبیعتوں کے حامل افراد سے واسطہ پڑتا ہے اور مختلف حالات و مضامین پر تقریر کرنی پڑتی پے،اس لیے مقرر کو شروع میں ہر چیز کا مطالعہ بالعموم اور درج ذیل چیزوں کا مطالعہ بالخصوص کرنا چاہیے ۔
ادبیات کا مطالعہ
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ تقریری زبان ادبی زبان سے تعلق رکھتی ہے،اس لیے تقریر میں مہارت و کمال پیداکرنے کے لیے زبان وادب کو سیکھنا ضروری ہے۔زبان وادب سیکھنے کے لیے جہاں اس کے قواعد و ضوابط اور اصول کو جاننا ضروری ہے ،وہیں ماہرین ادب کے کلام مطالعہ کرنا بھی لابدی ہے ،اسی طرح زبان و ادب کی دونوں صنفوں : نظم و نثر کا مطالعہ بحیثیت حصولِ ادب ضروری ہے ،ان میں بطور خاص اشعار کا مطالعہ نہایت ناگزیر ہے،کیوں کہ شعرا کے کلام کا مطالعہ کئی حیثیتوں سے اہمیت کا حامل ہے ،مثلاََ ان سے زبان کی اصلاح ہوتی ہے،اسلوب کا رنگ نکھرتا ہے ، الفاظ کے صحیح استعمال کا طریقہ معلوم ہوتا ہے،جامع انداز میں کلام کرنے کا ڈھنگ آتاہے ،بیان میں سلاست و روانی پیدا ہوتی ہے،قوت استدلال کو جلا ملتی ہے ،اورنتائج و عبر کا خلاصہ کرنے میں مدد ملتی ہے ،حکمت و دانائی کی باتیں اور اکابر و اسلاف کے تجربات سامنے آتے ہیں،جن سے ذہن و دماغ کو روشنی ملتی ہے ،اور عقل و فکر کے دریچے کھلتے ہیں ۔
’’شاعری (نظم ونثر)کا مطالعہ ہر مقرر و خطیب کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جیسا کہ صحت کے لیے صبح کی سیر یا رات کے بعد صبح کا اجالا ۔اسی غرض سے شاعری کی ہر صنف کا مطالعہ ضروری ہے ۔حمد و نعت ،غزل و نظم،قصیدہ مرثیہ ،مسدس و مخمس،ہجو و ہزل کے مطالعے ۔ذوق اور حظ سے کئی چیزیں حاصل ہوتی ہیں ،مثلاََتلفظ کی صحت ،الفاظ کا استعمال ،مطالب کا عمق،فقروں کی آرائش ،لہجے کی رونق،بیان کی رنگینی ،احساس کی گہرائی ،تخیل کا علو اور ذہنوں پر فتح مندی کا سلیقہ،ایک بر جستہ شعر یا چند بر جستہ شعر کئی دفعہ پوری تقریر پر غالب آجاتے ہیں اور مجمع کے ذہنوں پہ نقش ہوکر دلوں میں تلاطم پیدا کرتے ہیں‘‘۔
(فنِ خطابت،ص؍۴۰و۴۱)
مذہبیات واسلامیات کا مطالعہ
ایک مقرر وخطیب کے لیے تمام مذاہب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے ،کیوں کہ ہر انسان طبعی اور فطری طور پر کسی نہ کسی مذہب کا پیرو ہوتا ہے اور اس کی زندگی پر اس کے مذہب کا راست اثرپڑتاہے۔بایں وجہ مذہبیات کے مطالعے سے لوگوں کے عقائد ،ان کی نفسیات اور طبعی احوال کا جس قدر اندازہ ہوتا ہے ،وہ کسی اور ذرائع سے ممکن نہیں ۔مذاہبِ عالم میں بطور خاص اسلامیات کا مطالعہ تو انتہائی ناگزیر ہے،اس لیے کہ جملہ ادیان و ملل میں اسلام ہی ایک ایسا منفرد اور جامع مذہب ہے ،جس نے حیات انسانی کے تمام گوشوں سے بحث کی ہے اورزندگی میں درپیش چھوٹے بڑے تمام مسائل کا صحیح اور مکمل حل پیش کیا ہے ۔چنانچہ انسانی زندگی کا ہر پہلو۔خواہ اس کا تعلق معاشرت سے ہو یا معاشیات سے ، اخلاق سے ہو یا کردار سے ،سیاسیات سے ہویا عمرانیات سے غرض انسانی زندگی کے ہر قدم پر پیش آنے والے مسائل کو چھیڑا ہے اور ان کی گتھی کو سلجھایا ہے۔
سب سے ضروری اور بنیادی علم،غیر متغیر اور منظم آفاقی اقدار کا سسٹم دینے والا اور اس کے مطابق نظام تہذیب و تمدن کو عملااستوار کرکے دنیا کے سامنے حیرت ناک مظاہرہ کرنے والا اسلام ہے۔اس لیے مطالعہ کا سب سے پہلا دائرہ یہ ہے ۔اس دائرے میں بنیادی طور پر قرآن ا ور حدیث اور ان سے متعلق علوم (علوم قرآن ،علوم حدیث)پر جس حد تک ممکن ہو ،نگاہ ہونی چاہیے ۔سارا قرآن اور پورا دفترحدیث پڑھ ،سمجھ جانے کے بعد بھی اس خزانہٗ اساسی برائے علم کا (جتنا ممکن ہو)مطالعہ ضروری ہے
(میرا مطالعہ،ص؍۹۲)
جغرافیہ کا مطالعہ 
ایک مقرر وخطیب کے لیے جغرافیہ کا مطالعہ بھی ضروری ہے ،کیوں کہ تاریخی واقعات کے زمان و مکان کا صحیح اندازہ اسی علم سے ہوسکتا ہے۔اسی طرح ہر علاقے اور ہرخطے کی آب و ہوا مختلف ہوتی ہے ،ہر جگہ کے لوگ الگ الگ خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں،ان کے طبعی احوال میں بھی زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں؛اس لیے لوگوں کی مختلف المزاجیت کو پرکھنا ،ان کی نفسیات سے با خبر ہونا ،ممالک کے جائے وقوع ،وہاں کی آب و ہوا اور سیاسی ،سماجی و اقتصادی خصوصیات کو سمجھنااورتاریخی واقعات کا صحیح تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت پیدا کرنا اسی علم پر موقوف ہے۔ اس لیے اس علم پر بھی سرسری نگاہ ضروری ہے۔
تاریخ کا مطالعہ 
اگرچہ واقعہ یہ ہے کہ ایک خطیب کے لیے سب سے زیادہ ان موضوعات و مضامین کا مطالعہ ضروری ہے ، جو اس کے پیش نظر ہیں اور جن سے اسے باربار سابقہ پڑتا ہے؛لیکن تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دگر کسی بھی موضوع پر مطالعہ ایک مخصوص ماحول اور ایک خاص مضمون سے تعلق رکھتا ہے،جو ضروری نہیں ہے کہ ہر ماحول اور تمام موضوعات کے لیے بھی کار آمد ثابت ہو ؛لیکن تاریخ اپنے دامن میں بہت وسعت رکھتی ہے۔ اس کے مطالعے کا دائرہ اثر کسی خاص وقت ،کسی ایک جلسہ اور کسی ایک ہی ماحول تک محدود نہیں رہتا ،بلکہ اس کا دائرہ اثر بڑھتا رہتا ہے اور اس کی روشنی میں نقد و نظر کے سلسلے دراز ہی ہوتے رہتے ہیں ۔اس کی افادیت کسی جگہ ماند نہیں پڑتی۔
’’ایک مقرر و خطیب کے لیے تاریخ کا مطالعہ بہت سی وسعتیں پیدا کرتا ہے ۔تاریخ خطابت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے ۔قرآن نے تاریخ کو ایام اللہ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کا نام انسانی حافظہ ہے ۔ گویا تاریخ ان سب کی ،سب سے بڑی میراث ہے،اس کی بدولت ہمیں وہ سب کچھ ملتا ہے ،جو کائنات کی تکوین سے لے کر کائنات کے اس سفر تک کی سر گذشت ہے ۔اس کی معرفت ہم قوموں کے عروج و زوال سے آگاہ ہوتے،انسان کے تجربوں کا علم حاصل کرتے،جہد للبقا کے اسرار و رموز پہچانتے ،فلاسفہ کی وادیوں کو قطع کرتے ،مذاہب کے مرغزاروں میں گھومتے ،عبر و بصائر کی راہوں سے نکلتے اور سوانح و افکار کے چمنستانوں میں گل گشت کرتے ہیں ۔ تاریخ ہمیں ہر دور میں لے جاتی ہے ،وہ پہاڑوں پہ چڑھاتی ،سمندروں میں گھماتی اور صحراؤں میں پھراتی ہے۔ہم تاریخ کے مطالعے سے فکر و نظر کی بصیرت حا صل کرتے اور شعور و ادراک کے معدنوں سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ اس کے مطالعے ہی سے تجزیہ و تحلیل کی ذہنی قوت پیدا ہوتی ہے اور کئی مقفل دروازے کھلتے ہیں ۔غرض تاریخ سے ہم سخن ہائے گفتنی میں استدلال پیدا کرتے ہیں ،خیالات کا وزن بڑھاتے اورنظائر و شواہد اور حکایات و تمثیلات سے کلام میں رونق پیدا کرتے ہیں۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۵و۳۶)
جنرل مطالعہ
عصر حاضر کی نت نئی دریافت ،حیرت ناک ایجادات و انکشافات،سائنسی و ٹکنالوجی کے زبردست انقلابات ، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے بے پناہ اثر و رسوخ کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر ایک کمرے میں تبدیل ہوگئی ہے اور کرۂ ارضی کی طنابیں کھِنچ کرایک عالمی معاشرہ بن گئی ہیں،جس کی وجہ سے انسانی مسائل اس قدر متنوع اور ہمہ گیر ہوچکے ہیں کہ ایک خطیب کے لیے ہر لمحہ اور ہر آن ایک نیا مضمون پیدا ہوتا ہے ۔ہر صبح کا ہر اخبار اتنے احوال لاتے ہیں کہ غور و فکر کے زاویے اور اظہار و بیان کے دائرے وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔بایں وجہ ایک مقرر کے لیے جنرل مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے ۔
’’آج کی دنیا مضامین و موضوعات سے لدی پھدی ہے ،یہی سبب ہے کہ ایک ہی مضمون میں عمر کھپ جاتی ہے اور کوئی انسان تمام موضوعات پر حاوی نہیں ہوسکتا ۔ایک خطیب ومقرر کا بنیادی فرض ہے کہ وہ تمام موضوعات سے ایک حد تک بہرہ یاب ہو اور سیاسی وعمرانی زندگی کے اہم مضامین سے آشنا رہے ۔ہر نوعی معلومات میں افزائش کا تسلسل ہی اظہار و اسلوب میں رونق پیدا کرتا ہے۔‘‘
(فنِ خطابت،ص؍۳۵)
اخبار و رسائل کا مطالعہ
روزنامہ یا ہفت روزہ شائع ہونے والے اخبار و رسائل کا مطالعہ بھی ضروری ہے ،کیوں کہ سائنسی اور ٹکنالوجی کی ترقیوں نے زمان و مکان کے فاصلوں کو یوں سمٹ دیا ہے کہ انسان مختلف جغرافیائی و لسانی اور قومی و وطنی حدود میں تقسیم ہوکر بھی ذہنی وحدت کا شہری ہے ۔آج کا انسان عالمی معلومات سے اتنی ہی دل چسپی لے رہا ہے ،جتنی دل چسپی وہ اپنے علاقائی اور ملکی معلومات سے لیتا ہے۔اور ویسے بھی اخبار و رسائل انسانی زندگی کے لیے ایساجزو لاینفک بن گئے ہیں کہ ان سے کٹ کر زندگی گزارنا اس اندھے کی مانند جینا ہے ،جو سخت تاریک رات میں بے مینڈھ کے کنویں کے پاس سے گذر رہا ہو۔علاوہ ازیں حالات سے سمجھوتہ اور گردو پیش کی سیاسی و سماجی فضا کی صحیح عکاسی اخبار کے مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔
’’مطالعہ ایک فقید المثال گلستاں ہے،اس میں لاتعداد روشیں اور بہت تختے ہیں،ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے ،لیکن ایک خطیب کے لیے ہر روش پہ ٹہلنا ضروری ہے ،جن مضامین کو زندگی میں خصوصیت حاصل ہے اور جو اس کے شب و روز سے مربوط ہوچکے ہیں،ان کا مطالعہ مقرر کی اساسی ضرورت ہے۔‘‘ (فنِ خطابت، ص؍ ۳۶ )
تسلسل مطالعہ 
مذکورہ بالا تمام مطالعوں کا سفر ہمیشہ اور برابر جاری رکھنا ضروری ہے؛کیوں کہ 
’’مطالعہ کے لیے کوئی خاتمہ نہیں ۔اس میں تسلسل ہے ۔جس طرح صبح وشام طلوع غروب ہوتے ہیں اور روزوشب ازل سے ابد کی طرح رواں ہیں ،اسی طرح مطالعہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ہر زمانے میں اس کی نوعیتیں بدل جاتی ہیں ؛لیکن اس کا سفر ختم نہیں ہوتا ۔اس کے لالہ زار میں استیعاب کے ساتھ شگوفے کھلتے اور پھول بنتے ہیں ۔‘‘(ص؍۱۱۴)
جو لوگ شروع میں تو مطالعہ کرتے ہیں ؛لیکن بعد میں چل کر مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں اور اس میں تسلسل برقرار نہیں رکھتے ہیں ،تو اس کی خطابت کی شگفتگی اور چاشنی رفتہ رفتہ معدوم ہوتی چلی جاتی ہے ۔
’’جو مقرر یا خطیب مطالعہ سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ،خواہ اس خیال سے کہ انھیں مطالعہ کی ضرورت نہیں رہی اور وہ خطابت کی معراج پر ہیں ،تو ممکن ہے کچھ عرصہ مطالعاتی خلا کا احساس نہ ہو؛لیکن وہ مطالعہ سے پچھڑ کر خیالات میں ضعف کا شکار ہوتے اور ان کی خطابت کو لونی لگ جاتی ہے ۔‘‘(ص؍۳۴) 
سماعت ومشاہدہ 
چوں کہ تقریر وخطابت قلم کی زبان نہیں ،اس لیے اس فن کو نہ تو تمام تر خصائص کے ساتھ لکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی مذکورہ بالا تمام لازمی علوم کی تکمیل اور جملہ مطالعوں کی وادیوں کو قطع کرکے اسے مکمل طور پر حاصل کیاجاسکتا ہے ؛ کیوں کہ جو چیز سمع سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سن کر ہی صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔اس لیے بڑے خطیبوں کی تقریریں سننا،ان سے زبان ولہجے کے اتار چڑھا و کے راز معلوم کرنا ،جلسے جلوسوں میں حاضر ہو کر ان کے انداز تخاطب ، اظہار و بیان کے طریقے سیکھنا اور ان کی حرکات و سکنات پر نگا ہ رکھنا ضروری ہے ۔
’’چوں کہ خطابت قلم کی نہیں ،زبان کی چیز ہے ،اس لیے اس کا تذکرہ وموازنہ ایک قاری کے ذہن میں صحیح تصور پیدا کرنے سے قاصر ہے ۔جو چیز سمع کی ہے ،وہ سامع ہی کو صحیح تأثر دے سکتی ہے ۔‘‘
(ص؍۲۹)
’’جن نام ور ہستیوں نے خطابت میں نام پیدا کیا ،ان کا مطالعہ ایک نو آموز مقرر اور نووارد خطیب کو فنی کمال تک پہنچانے میں ضرور معاون ہوتا ہے ۔اس کے بغیر فنِ خطابت کی ترتیب ادھوری رہ جاتی ہے۔جب تک دوسرے خطیبوں کو دیکھیں نہیں کہ وہ کیوں کر بولتے ہیں اور دماغوں کو جیتنے کے لیے کس طرح الفاظ ومعانی میں آہنگ پیدا کرتے ہیں ۔خطابت محض کتابوں کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ اس موضوع پر کوئی سی نئی کتاب استاد ہوسکتی ہے ۔اس بارے میں جتنا مطالعہ ضروری ہے ،اتنا مشاہدہ لازم ہے ۔اور مشاہدہ دوسرے مقرروں اور خطیبوں کے سننے ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔اس مشاہدہ کے بعد ہی ہم تجربہ کرسکتے ہیں ۔خطابت کا معمل یہ ہے خطیبوں کو مجمع میں دیکھیں کہ وہ کیوں کر خطاب کرتے ہیں ۔اس مشاہداتی سبق کے بغیر ملکۂ خطابت کاحصول ناممکن ہے ۔‘‘ (ص؍۴۹)
’’اسی طرح نام ور مقرروں کو ضرور سنیے ۔ان کی تقریر سے کئی چیزیں حاصل ہوں گی:نئے الفاظ،تلفظ کی صحت،فقروں کی ترتیب،خیالات کی بوقلمونی،استدلال کے زاویے اور مطالب ومعانی کے خفی و جلی پہلو۔اس کے علاوہ اشارات وحرکات کا مدوجزر معلوم ہوگا اوراظہارواسلوب سے آشنائی ہوگی کہ وہ کون سی چیز ہے ،جو ایک خطیب کے لیے عوام میں تجسس اور مقصد کے لیے جذبہ پیدا کرتی ہے ۔‘‘
(ص؍۶۴) 
سماعت ومشاہدے کی صورتیں
سماعت ومشاہدہ دوطرح سے کیا جاسکتا ہے :ایک تو اس طرح سے کہ علاقہ یا ملک میں جہاں کہیں نام ور مقرروں کے پروگرام کا اعلان ہو ،وہاں حاضر ہونے کی کوشش کی جائے اور جلسے میں شرکت کرکے بہ راہ راست انھیں سنا جائے اور ان کا مشاہدہ کیا جائے۔اور دوم اس طرح کہ ان خطبا کی جو جو کیسٹیں اور سییڈیاں دستیاب ہوں،انھیں حاصل کر کے ان کی سماعت و مشاہدہ کیاجائے ۔اسی طرح بعض بعض پروگرام بر وقت ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں،ان کو بھی سننے اور دیکھنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے ،اس کے بعد ان کی نقالی اور تقلید کی کوشش کرنی چاہیے ۔