2 Apr 2018

انسان اور زبان


(قسط نمبر (۱) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)   
انسان اور زبان 
بسم اللہ ارحمٰن الرحیم


انسان کی تخلیق کے نظریے
گذشتہ دو سو سالوں سے مغربی مؤرخین اور یورپی ماہرینِ آثار قدیمہ ،انسان کی تخلیق اور اس کی ابتدائی زندگی کے حوالے سے غور وخوض میں مصروف عمل ہیں۔ آثار قدیمہ کی مددسے معلومات اکٹھا کرکے کچھ تخمینی نظریات فراہم کیے ہیں ۔جن میں سے اٹھارویں صدی کے ایک یورپین مؤرخ مسٹر ڈارون کا نظریہ سب سے مقبول نظریہ مانا گیا ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ ’’سارے جان داروں کے ظہور میں آنے کے بعد ،یہاں تک اقلیم حیوانات کے طویل طبعی ارتقا کے بعدآخر میں انسان کا وجود عمل میں آیا ۔‘‘(سماجی علوم،ص؍۱۵)۔ عبدالصمد صاحب ڈارون کے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’انسان ترقی یافتہ بندر ہے۔‘‘(زبان وقلم،ص؍۱۰)
یورپین ماہرین کے اس مضحکہ خیز نظریے کے برخلاف دنیا کے تمام لوگوں کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق بندر سے نہیں ہوئی ؛بلکہ یہ خدائی قدرت کا مظہر ہے ،جسے خود قدرت کاملہ نے پیدا فرمایا ہے ۔البتہ بعض مذہبوں میں اتنا سا اختلاف پایا جاتا ہے کہ دستِ قدرت کا بنا یا ہوا سب سے پہلا انسان کون تھا؟
دنیا کا پہلا انسان
اس سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا انسان مرد حضرت آدم ؑ ہیں ،جن کو رب دوجہاں اور مالک کن فکاں نے عناصر اربعہ (آگ،مٹی،ہوا ،پانی)کے امتزاج سے پیدا فرمایا تھا ۔اور سب سے پہلی عورت حضرت حواؑ ہیں ،جنھیں حضرت آدم ؑ کی بائیں پسلی سے کوئی مادہ لے کر پید ا کیا گیا ہے ۔
اس بات کی تائید دنیا کی سب سے پرانی کتاب ’’توریت ‘‘سے بھی ہوتی ہے کہ ’’خدا نے انسانی پیدائش کا آغاز ایک جوڑے سے کیا ،مرد کا نام آدم اور عورت کا نام حوا تھا ‘‘(بحوالہ :زبان وقلم ص؍۱۸)۔عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی یہی نظریہ ہے ۔البتہ پارسی مذہب کے پیرو’’آباد ‘‘ کو سب سے پہلا انسان مانتے ہیں ۔اس کی داستان حیات اور حضرت آدم ؑ کی سیرت میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ہندووں کے یہاں سب سے پہلا انسان ’’برہما‘‘ تصور کیا جاتا ہے ۔ اس برہما اور حضرت آدم کے واقعات میں بے شمار مماثلت دکھائی دیتی ہے ۔ صاحبِ زبان و قلم لکھتے ہیں کہ ’’جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ حوا ؑ آدمؑ کے پہلو سے نکلیں،ہندووں میں روایت ہے کہ برہما کا سینہ چیرا ،تو ان کی زوجہ شرستی نکلی ۔آدم کے بیٹوں:ہابیل اور قابل کا جو واقعہ ہے ،وہی داستان برہموں کے بیٹوں:سندا اور سند کی ہے۔‘‘ (ص؍۱۹)۔ہندووں کی کی بعض روایتوں میں برہما کے بجائے پہلا انسان ’مہادیو‘اور اس کی بیوی ’پاربتی‘کو مانا گیا ہے۔لالہ رتن لعل نے لکھاہے کہ ’برہما‘،بشن،مہیش۔مہیش یعنی مہادیو کو آدم جانتے ہیں اور ان کی زوجہ جو پاربتی ہے ،وہ حوا ہے ۔(نگارستانِ کشمیر،ص؍۳۴۴،بحوالہ عمدۃ التاریخ،ص؍۱۹۔)
مذکورہ باتوں پر غائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ دنیا کے سب سے پہلے انسان حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ ہی ہیں ۔گردشِ ایام اور زمانے کے تصرفات کی وجہ سے دیگر مذاہب کی روایتوں میں تغیرات واقع ہوگئے ہیں ،جن کی وجہ سے اصل حقیقت گم ہوکر رہ گئی ہے ،تاہم اصلیت کی کچھ نہ کچھ جھلک ان میں اب بھی باقی ہے ،جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہادیو،برہما اور آباد سب کے مصداق حضرت آدم ؑ ہی ہیں زبانوں اور روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے نام میں اختلاف واقع ہوگیا ہے ۔
زبان کی ابتدا کے نظریے
انسانی تخلیق کی طرح ابتدائے زبان کے حوالے سے مغربی مؤرخین نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں ،جن میں ایک یہ ہے کہ اقلیم حیوانات کے طویل طبعی ارتقا کے بعد جب انسان کا وجود عمل میں آیا ،تو اس نے اولاً پہاڑوں کے غاروں اور صحرا و بیابانوں کو اپنا مسکن بنایا۔پھر جب اس کے اندرتہذیب وتمدن کا شعور بیدار ہوا ،تو پہاڑوں اور جنگلوں سے نکل کر ہموار زمین پر آباد ہوا ۔رفتہ رفتہ اس کی تعداد بڑھتی رہی ،جس سے ایک معاشرہ وجود میں آیا ۔ چوں کہ معاشرے میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی ،جس کے اظہار کے لیے پہلے پہل اشاروں سے کام لیا ہوگا ،جیسا کہ ایک گونگا آدمی اپنا کام نکالتا ہے ۔سب سے پہلی آواز وہ وجود میں آئی ہوگی ،جو شروع میں بچہ نکالتا ہے ۔اس طرح سے گویائی اشارات سے اصوات میں تبدیل ہوئی ہوگی ۔پھر انھیں اصوات سے حروف پیدا ہوئے ہوں گے ۔اور حروف سے جملے وجود میں آئے ہوں گے ،علاوہ ازیں پتوں کی سرسراہٹ، جان وروں کی کھڑکھڑاہٹ ، آب شاروں کی سیلانی اور موجوں کی طغیانی سے پیدا ہونے والی صوتی کیفیتوں سے الفاظ بنائے گئے ہوں گے ۔اور خود انسان نے اپنے طور پر ما فی الضمیرکی ادائیگی کے لیے کچھ آوازیں نکالی ہوں گی،جو تدریجی طور پر ترقی کرکے ایک مکمل زبان بن گئی ہوگی۔
زبان کے آغاز کے حوالے سے ڈکٹر گیان چند جین نے بہت طویل اور مفید بحثیں کی ہیں جن میں مزید کچھ نظریے درجِ ذیل ہیں :
(۱)الہامی نظریہ :یعنی زبان ایک الہامی چیز ہے ،جسے خدا نے الہام کے ذریعے انسان کو سکھائی ہے ۔
(۲)قدیم زبان کا نظریہ :یعنی چند افراد نے مل کر کسی زبان کے بارے میں’ازلی قدیم‘ ہونے کا فیصلہ کر دیااور اسی سے زبان کا وجود مان لیا گیا ۔
(۳)فطری نظریہ :شی اور اس کے نام میں فطری تعلق ہوتا ہے ،اس لیے شی کے وجود میں آنے کے ساتھ زبان بھی وجود میں آتی ہے ۔
(۴)معاہدے کا نظریہ :سب لوگوں نے رائے اور مشورے سے زبان بنائی اور چیزوں کے نام متعین کیے ۔ 
(۵)ڈِنگ ڈونگ نظریہ :جس طرح مختلف دھاتوں پر چوٹ لگانے سے الگ الگ طرح کی آوازیں نکلتی ہیں ، اسی طرح انسان کے دماغ پر مختلف بیرونی تأثرات نے مختلف چوٹیں دے کر آوازیں پیدا کیں ،جو رفتہ رفتہ ایک مکمل زبان بن گئی ۔
(۶)فجائی و نغمائی نظریہ :خوشی یا غمی کی شدت کی وجہ سے اضطراری اور بے اختیاری طور پر کچھ آوازیں نکلیں ،جو بعد میں چل کر زبان کا قالب اختیار کرگئیں ۔
(۷)ٹاٹا نظریہ :نادانستہ طور پر انسانی جسم کے اعضا سے کچھ آوازیں نکلیں (جیسے کہ کپڑا دھوتے وقت دھوبی کی زبان سے ایک مخصوص آواز نکلتی ہے )پھروہی آوازیں زبان بن گئیں ۔
(۸)تارا پور والے کا نظریہ :بندر انسان بننے تک جسمانی ارتقا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ زبانی ارتقا بھی حاصل کرتا رہا ،جیسا کہ بچہ جسمانی و زبانی ارتقا حاصل کرتا ہے ۔
(۹)آٹو موٹو پوٹنک نظریہ :انسان نے بعض طبعی آوازوں کو نقل کر کے الفاظ تجویز کیے ۔
(۱۰)باوواو نظریہ :باوواو کتے کی آواز کو کہتے ہیں ،یعنی جس طرح کتا یا کوئی اور جانور مخصوص آواز نکالتے ہیں،اسی طرح اول اول انسانوں نے آوازیں نکالیں ،چوں کہ انسان کے اعضا ئے صوتی زیادہ لچک دار تھے ،اس لیے اس کی زبان سے زیادہ اقسام کی آوازیں نکلیں ۔یہ آوازمختلف مفہوموں کے قائم مقام ہوکر الفاظ بن گئیں ۔ (تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے :لسانی مطالعے،ازص؍۳۳تاص؍۵۵اورزبان وقلم،ص؍۱۳)
مغربی مؤرخین کی یہ تھیوریاں حقیقت سے کس درجہ میل کھاتی ہیں ،یہ اظہر من الشمش ہے؛کیوں کہ ان تھیوریوں پر خود انھیں مفکرین کو کبھی کامل وثوق نہیں رہا ہے ،تابہ دیگر چہ رسد؟۔اور ’جتنے منھ ،اتنی باتیں‘کا مصداق بنی ہوئی ہیں۔
زبان کے آغاز کے حوالے سے اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ زبان ایک توفیقی امر ہے ،جسے خالق کائنات نے انسان کے جد امجد سیدنا حضرت آدم ؑ کوسکھائی تھی۔’’وَعَلم اٰدم الاسماء کلہا‘‘ (سورہ بقرہ،آیت ۳۱) حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ دنیا میں جس قدر انبیائے کرام مبعوث ہوئے ہیں ،ان پر ایک ایک کتاب نازل ہوئی ہے ۔ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ کو الف بے وغیرہ کا علم وحی کے ذریعے عطا کیاگیا ۔(لطائف الاشارات فی اسرارالحروف المعلومات،بحوالہ زبان وقلم،ص؍۲۲و۲۳)
اہل یورپ اور دنیا کے تمام لوگوں کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ زبان بذریعۂ الہام انسانوں کو سکھائی گئی ہے ؛لیکن نام نہاد مغربی مؤرخین نے اس عقیدے کو قائم رہنے نہیں دیا اور اس کے بجائے ایسے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز نظریے پیش کیے ،جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا ،کیوں کہ اشرف المخلوقات کی زبان کتوں اور بندروں کی رہینِ منت نہیں ہوسکتی۔
دنیا کی پہلی زبان
گذشتہ باتوں کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ زبان انسان کے ساتھ آئی ہے ،جس قادر مطلق نے اس کو پیدا کیا ہے ،اسی علیم وخبیر نے اس کو زبان بھی عطا فرمائی ہے ۔لیکن اس میں تین مذاہب کے محققین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی زبان کون سی ہے ۔ہندو محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کی پہلی زبان ’سنسکرت ‘ ہے ، جس میں وید او ر رامائن لکھی گئی ہیں ۔جب کہ بدھسٹوں کا دعویٰ ہے کہ پہلی زبان ’پراکرت ‘ ہے ؛ لیکن حقیقت یہ کہ اولیت کا فخر ’عربی زبان ‘ کو حاصل ہے ،کیوں کہ مؤرخین اور زبان کے ماہرین (جن مین میکس مولر پیش پیش ہیں ) دنیا کی تمام زبانوں کو درجِ ذیل تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:(۱)ایرین یعنی انڈو یورپین (۲)سمٹیک یعنی سامی زبانیں (۳)ٹیرین یعنی تورانی زبانیں۔اور ان تینوں کے مقسم پر لکھتے ہیں ’’ابتدائی گفتگو جو ناپید ہے ‘‘۔(علم الحروف، ج ؍۴ص ؍۲۹ ) 
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ دنیا کا پہلا انسان حضرت آدم ؑ ہیں اور اس بات کی بھی تحقیق ہوچکی ہے کہ زبان عطائے الٰہی ہے ،جو انسان کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے ۔اس لیے اگر اس امر سے پردہ اٹھ جاتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی زبان کیاتھی ،تودنیا کی پہلی زبان کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔چنانچہ اس سلسلے میں ایک روایت ہے کہ ’’جب قالب آدم ؑ میں روح پہنچی،تو سب سے پہلے ان کی زبان سے نکلا ’الحمد للہ رب العالمین‘یہ جملہ عربی زبان کاہے ۔‘‘ (اخبارالاول وآثارالاول،بحوالہ زبان و قلم،ص؍۲۲)۔قال سفیان الثوری :لم ینزل وحی الا باالعربیۃ،ثم ترجمہ کل نبی بلغتہ۔(روح المعانی ،ج؍۱۷،ص؍۱۶۷۳،بحوالہ زبان و قلم،ص؍۲۳)یعنی وحی صرف عربی زبان میں آئی ہے پھر ہر نبی نے اپنی اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کیا ہے ۔ ان روایتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی زبان عربی تھی ، لہذام الالسنہ عربی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک سنسکرت کی ام الالسنہ ہونے کی بات ہے تو زبان کے ماہرین اسے ایرین زبانوں کی ایک شاخ قرار دیتے ہیں ،اصل زبان ہی نہیں مانتے ۔پنڈت دیانند ’اپدیش فنجری ‘ میں نیستری اپنیشد کی عبارت لکھنے کے بعد دینا کی پیدائش کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ ’’ آدمی سرسی میں پانچ ورش چلتی رہی ۔پھر پرماتما نے منشوں کو وید کا گیان دیا۔یعنی دنیا کی پیدائش کو پانچ سال ہوگئی ۔تب جاکر وید کا الہام ہوا ایسا ہی ’سیتیارتھ پرکاش‘ میں بھی ہے ‘‘۔(مذہبی معلومات ، ص؍۴۳و۴۵،بحوالہ زبان و قلم ،ص؍۳۶)۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وید (جو سنسکر ت کی پہلی کتاب ہے) دنیا کی پیدائش کے پانچ سال بعد الہام ہوئی ہے ،تو ظاہر ہے کہ اس پانچ سال کی مدت میں انسان کوئی نہ کوئی زبان ضرور بولتا ہوگا ۔لہذا سنسکرت پہلی زبان نہیں ہوسکتی۔اور جہاں تک ’پراکرت ‘ کی بات ہے،تو اسے بھی پہلی زبان قرار نہیں دی جاسکتی ؛کیوں کہ مؤرخینِ السنہ کی تصریح کے مطابق پراکرت دراوڑیوں کی زبان تھی ۔یہ نسلی اعتبار سے افریقی تھے۔یہ لوگ غذا کی تلاش میں افریقہ کے گرم اور خشک علاقوں کو چھوڑ کر سندھ پہنچے اور یہاں کی شادابی اور زرخیزی کو دیکھ کر یہیں دریا کے کنارے آباد ہوگئے اور یہاں کی معاشرت و سماج میں اس طرح گھل مل گئے کہ اپنی شناخت ،تہذیب اور مادری زبان کو بھی فراموش کربیٹھے،جس کے نتیجے میں ایک نئی تہذیب کے ساتھ ساتھ ایک جدید زبان بھی وجود میں آئی ۔اسی زبان کا نام ’پراکرت‘ ہے ۔گویا پراکرت زبان دراڑیوں کے ہندستانی سماج سے اختلاط کے بعد وجود میں آئی ہے ۔لہذا اسے پہلی زبان کے طور پر کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ۔جب یہ دونوں حریف زبانیں ام الالسنہ نہیں بن سکتیں ،تو یقینی طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کی سب سے پہلی اور اصلی زبان ’عربی زبان‘ ہے۔ جیساکہ ڈاکٹر احمد حسن زیات کی تحقیق ہے کہ 
’’عربی ادب تمام ادبوں میں سب سے زیادہ وسیع ہے ،اس لیے کہ یہ انسان کی طفولیت ہی سے مخلوقِ خدا کی زبان رہی ہے ۔‘‘(تاریخ الادب العربی،ص؍۷) 
زبان کے اختلاف کے اسباب و وجوہات
زبان انسان کی ایک ضرورت ہے اور ضرورت میں تنوع،تبدیلی اور اختلاف کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے ،اس لیے زبان بھی زمانے اور ماحول کے اثرات کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ وروپ اور چولا بدلتی رہتی ہے جو آگے چل کر ہر روپ ایک مستقل زبان کی حیثیت اختیا ر کر لیتا ہے ۔چنانچہ شروع میں تمام انسانوں کی زبان ایک تھی ؛لیکن زمانے کے تقاضوں اور نئی نئی ضرورتوں کے پیشِ نظر نئی نئی زبانیں تشکیل پاتی رہیں ،جن کی مختلف لوگوں نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں ،ان میں چند درجِ ذیل ہیں ۔
(۱)ڈاکٹر سنویس نے لکھا ہے کہ طوفان (نوحؑ ) کے بعد لوگوں نے شہر بابل آباد کیا اور ایک برج تعمیر کیا،جس کو آسمان سے ملانے کا ارادہ تھا ۔خدا کو ان پر غصہ آیا ان کی زبان میں اختلاف پیدا کر دیا ۔وہ ایک دوسرے کی زبان سمجھنے سے معذور ہوگئے ،اس لیے وہا ں سے اطرافِ عالم میں پہنچ گئے۔
(تاریخ ملل قدیمہ، ص؍۱۱۸،بحوالہ زبان و قلم ،ص؍۲۸)
(۲)ڈاکٹر احمد حسن الزیات لکھتے ہیں کہ ’’جب حضرت آدمؑ کی اولاد کی تعداد بڑھی اور سب کا ایک جگہ رہنا دشوار ہوگیا ،تو وہ لوگ سہولت کے خاطر اللہ تعالیٰ کی وسیع و عریض زمین پر پھیل گئے اور مختلف مقامات پر جاکر آباد ہوگئے ، جہاں انھیں ایک نیا ماحول ملا اورنئی نئی ضرورتیں پیش آئیں ،جن کے لیے انھوں نے نئے نئے الفاظ وجود میں لائے ۔ اسی طرح بعد میں آنے والی نسلوں میں (اپنے باپ دادوں سے جدا ہونے اور اجنبی لوگوں سے ملنے جلنے کی وجہ سے ) نئے نئے لہجے ظہور پذیر ہوئے اور رفتہ رفتہ ہر لہجہ ایک مستقل زبان بن گیا ‘‘۔(تاریخ الادب العربی،ص؍۱۵)
(۳)علامہ بغویؒ نے ’معالم التنزیل ‘ میں [و علم اٰدم الاسماء کلہا] کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم ؑ کو تمام زبانوں کا علم عطا کیا تھا۔حضرت آدم ؑ اپنی ہر اولاد سے الگ الگ زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔جب ان کی اولاد مختلف خطوں میں پھیل گئی ،تو ہر ایک نے ایک ایک زبان اختیار کرلی ۔اس طرح سے مختلف زبانیں وجود میں آئیں ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
زبان و ادب کی تعریف و تشریح
قلبِ انسانی پر جب رنج و غم ،مسرت و خوشی ،کامیابی و کامرانی اور ناامیدی و نامرادی کے اثرات پڑتے ہیں ، یا جب انسان اپنے گرد و پیش کے خوش نما منظروں ،قوس و قزح کی رنگینیوں،آبشاروں کی غرغراہٹوں ،جھرنوں کی نغمہ ریزیوں ،بلبلوں کی ترانہ سنجیوں ،باغ وبہار کی رعنائیوں؛غرض مناظرِ قدرت کی دل فریبیوں کا مشاہدہ کرتا ہے ، تو وہ فطری طور پر ان کے اظہار کے لیے مضطرب وملتہب ہوتا ہے ۔جب اظہارِ جذبات اور ترسیلِ خیالات کے لیے باقاعدہ کوئی زبان نہ تھی اور دنیا تہذیب وتمدن سے نا آشنا تھی،تو انسان اپنی ان قلبی کیفیات کو مختلف اشاروں، کنایوں اور بے معنی آوازوں سے ظاہر کرتا تھا ۔لیکن جب اس کے اندر تہذیب وتمدن کا شعور بیدار ہونے لگا ،رفتہ رفتہ ترقی کے منازل طے کرنے لگا اور اشارے و کنایے ، اس کے جذبات کی مکمل ترجمانی سے عاجزی ظاہر کرنے لگے ،تو اس نے مصوری اور سنگ تراشی کا سہارا لیا۔ پھر جب زمانے نے اور ترقی کی اور عقل وفکر کے زاویے وسیع ہوتے گئے،انسانوں کی حسن پرستی اور ذوقِ جمالیات بڑھتا رہا ،تو ان کے احساسات کے اظہار کے لیے مصوری و سنگ تراشی بھی ناکافی ثابت ہونے لگیں،کیوں کہ اس میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مصوری میں جذباتِ انسانی کے ایک پہلو کا نقشہ تو کھینچا جاسکتا ہے؛ لیکن دوسرے پہلو تاریکی میں ہی رہ جاتے ہیں ۔وہ تمام کیفیات کو ایک تصویر میں نہیں سما سکتی۔جب انسان نے اس خامی کو محسوس کیا ،تو اپنے احساسات کے اظہار کے لیے موسیقی کا رخ کیا اور اس میں مختلف راگ راگنیوں ،سُروں اور تالوں کو نکال کر اپنی کیفیات ظاہر کرنے لگے ۔ اس طرح سے فن مصوری اور موسیقی کی بنیادیں پڑیں۔لیکن جب زمانہ اور آگے بڑھا اور موسیقی بھی مکمل طور پر ان کے ذوقِ جمالیات کی تسکین خاطر نہ کرسکی ،تو انھوں نے الفاظ و اصوات کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور مصوری وموسیقی کے لیے بھی الفاظ و اصوات سے کام لینے لگے۔۔۔نتیجہ یہ ہواکہ جذباتِ انسانی کے جتنے پہلو تھے،سب نمایاں ہوگئے۔اسی کا نام زبان اور ادب ہے۔ زبان و ادب کے اسی مفہوم کو مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔چنانچہ رکسن کہتا ہے کہ 
’’قدرت نے انسانی فطرت میں جن سرمدی اشیا کو ودیعت فرمائی ہے ،انھیں کے اظہار کو ادبِ لطیف کہتے ہیں ‘‘ ۔ (بروک انگلش لٹریچر،ص؍۵۰،بحوالہ خلاصہ روحِ تنقید،ص؍۱۰۔)
گوسائیں کا کہنا ہے کہ 
’’انسان جب کسی شی کو دیکھتا ہے ،تو اس کے متعلق اس کے دماغ میں مختلف خیالات پیدا ہوتے ہیں، انھیں خیالات کو اگر ہم مناسب الفاظ میں بیان کریں ،تو یہ ادب ہے‘‘۔(خلاصہ روح تنقید،ص؍۱۴)
ڈاکٹر احمد حسن زیات لکھتے ہیں کہ
’’اد ب اللغۃ ما اثر عن شعراۂا و کتابہا من بدیع القول المشتمل علی تصور الاخیلۃ الدقیقۃ و تصویر المعانی الرقیقۃمما یہذب النفس و یرقق الحس ویثقف اللسان‘‘۔
یعنی شاعروں اور نثر نگاروں کی ان انوکھی کاوشوں کا نام ادب ہے ،جو عمدہ افکار اور لطیف خیالات پر مشتمل ہوتی ہیں ، جن سے تہذیب و شائستگی،احساس میں لطا فت اور زبان میں استواری پیدا ہوتی ہے۔
(تاریخ الادبی العربی،ص؍۷)
کسی اور نے مختصراور جامع لفظوں میں ادب کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ 
’’الادب ہوالمجموع الجید من النظم والنثر‘‘۔یعنی ادب نظم و نثر کے انوکھے اور عمدہ مجموعوں کو کہا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ادب کی شکل میں نظر آنے والی ہر چیز پر ادب کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ، جب تک کہ اس کے اندر تخلیقی انفرادیت،مخصوص اسلوب نگارش، لطیف احساسات و خیالات ،سچے جذبات اور متاثر و مرعوب کرنے کی خوبیاں نہ پائی جاتی ہوں۔ادبی تحریروں کی یہی خصوصیات و امتیازات ،انھیں غیر ادبی تحریروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
ادب کی تقسیم
ادب کی مختلف حیثیتوں سے مختلف تقسیمیں کی گئی ہیں،مثلا:تنقید وتخلیق کے اعتبار سے۔ اسالیبِ بیان اور زبان کی حیثیت سے ۔موزونیت و موسیقیت کے لحاظ سے وغیر ہ وغیرہ۔لیکن عام طور پر اس کی دو قسمیں کی جاتی ہیں:
(۱)نثر (۲)نظم۔
نثر اس کو کہا جاتا ہے ،جس میں وزن اور قافیے کا التزام نہیں کیا جاتا ہے ۔اور نظم اس کوکہا جا تا ہے ،جس میں ان چیزوں کا التزام کیا جاتا ہے اور اس میں لطیف خیالات اور مؤثر مضامین بیان کیے جاتے ہیں۔
شلرازو کا قول ہے کہ 
’’الفاظ بہترین طور پر استعمال کرنا نثر ہے اور بہترین الفاظ کو بہترین طور پر استعمال کرنا نظم کہلاتا ہے۔‘‘ (خلاصہ روحِ تنقید،ص؍۲۳)
زبان وادب اور زندگی
زبان وادب عقل کا مظہر اورافکاروخیالات کا آئینہ ہے ۔انسان کے گرد و پیش کے حالات اور خود اس کی اپنی ضروریات کے اظہار اور دوسروں سے اپنے جذبات واحساسات بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔زبان وادب خدا تعالیٰ کی ایک ایسی بے بہاو بیش قیمت نعمت ہے کہ اس کے بغیر لطفِ زندگی کا حقیقی تصور بے معنی اور نظام کائنات ادھورا اور ناقص نظر آتا ہے۔کیوں کہ اگر زبان نہ ہوتی اور دانائے روز گار اس نعمت سے انسانوں کو بہرہ ور نہ کرتے ، توانسان جانورں اور ارذل ترین مخلوق کی زندگی جینے پر مجبور ہوتا اور ترقی کے اس اوج کمال پر پہنچنے اور ثریاپر کمندیں ڈالنے کے بجائے پستی و انحطاط اس کا مقدر ہوتا ۔اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان اپنے خیالات کا اظہا ر نہ کرپاتا اور نہ ہی وہ تہذیب و تمدن سے آشنا ہوپاتا۔اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان اپنے پیش رو اسلاف کے تجربات و مشاہدات اور ان کے کارناموں سے واقف نہ ہوپاتا۔نتیجۃََ ترقی کے مدارج کو طے کرنا تو دور ،وہ خودایک مجسمۂ جمود بن جاتا ۔آج زندگی کے ہر میدان میں جو ترقیاں بالخصوص سائنسی و ٹکنالوجی کے انقلابات دکھائی دے رہے ہیں ، ان کا وجود؛بلکہ ان کے وجود کا تصور تک نہ ہوتا ۔المختصر اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان کی تخلیق نامکمل معلوم ہوتی۔لہذا کہا جاسکتا ہے کہ زبان وادب زندگی کی روح ، زندگی کا اصلی جوہر اور زندگی کی اساس ہے ۔ترقی کا ذریعہ اور تہذیب وتمدن کی بنیاد ہے۔انسانوں اور حیوانوں میں تفریق وامتیاز پیدا کرنے کا معیار ہے ۔اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جن قوموں نے اپنی زبان وادب ،تاریخی روایات،اسلاف کے کارنامے اور اکابر کے علوم وفنون کی صیانت و حفاظت کی ہے ،آج وہ ترقی اور تہذیب وتمدن میں سب سے آگے اور نام ونمود میں شہرۂ آفاق ہیں۔اور جن قوموں نے اپنی زبان وادب اور تاریخی روایات کو بھلادیا ہے ، اور اپنے اسلاف کے علوم و فنون کو موروثی سمجھ کر ان سے بے اعتنائی و لاپرواہی برتی ہے،یا تو ان کا نام ونشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے اور وہ ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ گئی ہے،یاپھر ذہنی و فکری غلامیت و محکومیت کی ذلت آمیز زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی ہے ،جو سیاسی غلامیت و عبدیت سے بھی زیادہ حقارت خیز زندگی ہے ؛کیوں کہ جسمانی غلامی ایک ایسی بیماری ہے ،جس کا علاج ممکن ہے اور اس سے شفا کی امید کی جاسکتی ہے ؛لیکن روح کی غلامی اور فکری و ذہنی محکومی ایک ایسی بیماری ہے،جو لا علاج ہے۔ کیوں کہ اس میں انسانیت اور ضمیر کی موت ہوجاتی ہے ۔اور دنیا کے ہسپتال میں کوئی ایسا ڈاکٹر اور یہاں کے میڈیکل میں کوئی ایسی دوا نہیں ہے ،جو موت کو حیات میں بدل دے۔اس لیے زبان و ادب کی حفاظت اور اس کی فروغ کاری قوم کا ایک واجبی فریضہ ہے۔
زبان و ادب کو برتنے کی صورتیں
زبان وادب انسانی زندگی کی ایک ضرورت ہے ۔اور انسانوں کی ضرورتوں میں زبردست اختلاف اور تنوع پایا جاتا ہے ۔اس لیے زبان و ادب کے استعمال میں اختلاف کا پایا جانا ایک فطری بات ہے ،جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:(۱)عام بول چال کی زبان (۲)تحریری و کتابی زبان(۳)تقریری و خطابی زبان۔
عام بول چال کی زبان
اس سے مراد وہ زبان ہے ،جسے عوام ،ناخواندہ اور جاہل طبقہ استعمال کرتا ہے اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اس کا سہارا لیتا ہے۔اس میں مہذب وغیر مہذب ،شائستہ و ناشائستہ ہر طرح کے الفاظ ہوتے ہیں ۔اسی طرح یہ زبان تصنع و تکلف ،پیچدہ تراکیب ،گنجلک اسالیب اور فلسفیانہ مضامین سے بالکل پاک ہوتی ہے۔پس جو کچھ کہنا اور بولنا ہوتا ہے ،سیدھے سادے انداز میں کہہ دیاجاتا ہے ۔کوئی مخصوص اسلوب یا لب و لہجے میں انفرادیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔اسے غیر ادبی زبان کہا جاتا ہے۔
تحریری و کتابی زبان
اس سے مراد وہ زبان ہوتی ہے،جوقلم کار حضرات ۔خواہ وہ نثر نگار ہوں یا نظم نگار۔اپنے ذہنی خاکوں اور قلبی کیفیتوں کو بیان کرنے کے لیے مخصوص اسلوب بیان اور منفرد انداز نگارش کے ساتھ استعما ل کرتے ہیں۔اس میں ایک عام فہم بات کو مختلف طریقوں اور دل چسپ پیرائیہ بیان میں بیان کیا جاتاہے۔اور الگ الگ صنائع و بدائع کا سہارا لے کر متنوع خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔المختصر اس میں وہ تمام خصوصیات ہو تی ہیں ،جو ایک ادبی تحریر کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
تقریری و خطابی زبان
زبان و ادب کے استعمال کا تیسرا طریقہ تقریرو خطابت ہے ۔اس کا تعلق بھی ادبی زبان ہے، البتہ دونوں میں صرف اتنا فرق پایاجاتا ہے کہ او ل الذکر کا تعلق زبانِ قلم سے ہے جب کہ آخر الذکرکا تعلق زبانِ لحم سے ہے۔
زبان و ادب کے استعمال کے صرف یہی تین طریقے ہیں ،جن میں سے حسبِ لیاقت کسی ایک کا سہارا لے کر انسان اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ان کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ اگر کوئی اور طریقہ مانا جاتا ہے ،تو درحقیقت وہ زبان ہے ہی نہیں،اس لیے اسے حسبِ واقعہ مثلا اشارات و کنایات وغیرہ کہنا زیادہ بہتر ہے۔