4 Apr 2018

خصائصِ خطابت یارازہائے مقبولیت

(قسط نمبر (6) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)


یوں تو تقریر کے اسٹیج پر سینکڑوں مقرر آتے ہیں اوراپنی اپنی باتیں بیان کر کے چلے جاتے ہیں ۔ان میں کچھ خطیب ایسے ہو تے ہیں، جن کی کہی ہوئی باتوں کا سامعین پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔وہ ایک کان سے سن لیتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اور پوری تقریر صدا بہ صحرا ہوجاتی ہے۔لیکن بعض ایسے مقرر بھی ہوتے ہیں، جن کا نام آتے ہی سامعین میں کہرام مچ جاتا ہے ،سونے والوں کی نیندیں کافور ہوجاتی ہیں اور ان کی باتوں کو سننے لیے ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں ؛بلکہ دیر گئے رات تک جلسے میں اسی لیے بیٹھے رہتے ہیں کہ ان کو سنے بغیر نہیں جانا ہے۔آخر وہ کیا راز ہیں ،جن کی بناپراول الذکر خطیبوں کی تقریریں صدا بہ صحرا ہوجاتی ہیں ،جب کہ آخر الذکر مقرروں کے ہرہر قول موتی کے تول کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ؟وہ راز یہ ہیں کہ ثانی الذکر مقرروں میں کچھ ایسی خصوصیات وامتیازات پائی جاتی ہیں ،جن سے اول الذکر حضرات عاری اور خالی ہوتے ہیں ۔وہ خصوصیات و اوصاف درجِ ذیل ہیں ۔
صاف وشفاف سیرت
حسنِ سیرت ایک مقرر کی مقبولیت کی اولین شرط اور اس کی پسندیدگی کا بنیادی گر ہے ۔اس صفت کے بغیر ۔خواہ مقرر فن تقریر میں کتنی ہی مہارت کا حامل ہو اور خواہ کتنے ہی جوش وہنگامے بپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔نہ تو اس کی باتیں اثر انگیز ہوسکتی ہیں اور نہ ہی سامعین دل جمعی کے ساتھ سن سکتے ہیں ؛بلکہ ایک داغ دار سیرت مقرر کا نام اناؤنس ہوتے ہی سامعین میں چہ می گوئیاں ہونے لگتی ہیں۔ بعض سامعین تو سخت و سست کہے بغیر نہیں چھوڑتے اور مجلس سے اٹھ کر بھی چلے جاتے ہیں ۔ایک خطیب کے لیے حسن سیرت جتنی اہمیت رکھتا ہے ،اتنی اہمیت کوئی اور چیز نہیں رکھتی ۔ اس حوالے سے شورش کاشمیری رقم طراز ہیں کہ :
’’خطابت کی اصل بنیاد خطیب کی سیرت ہے ۔اگر ایک خطیب کے دامن پر کوئی دھبہ ہے یا وہ اخلاق کی ابدی قدروں میں سے کسی قدر سے محروم ہے ،تو وہ عزت مند نہیں ہوسکتا اور ایک خطیب کے لیے عزت مندی ہی قبول عامہ کی اساس ہے ۔اس اعتبار سے خطابت ایک خاردار وادی ہے ،جس سے صحت مند قدم ہی گزرسکتے ہیں۔اکثر شاعر لہو ولعب کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ہمارے زمانے میں دو چار شاعروں کو چھوڑ کر اکثر شاعروں نے ناؤنوش کی زندگی بسر کی اور بعض نے اس پر فخر کیا ؛لیکن عوام نے کبھی ان سے تعرض نہیں کیا۔اسی طرح مصور و موسیقار اور ادیب انھیں راستوں کے مسافر رہے ہیں ۔انھوں نے معصیت کے لمحوں کو اپنی کلاہِ افتخار میں ٹانکا ہے ؛ لیکن خطیب یا مقرر کسی معصیت یا گناہ کا تصور بھی کریں اور ان کا ذائقہ چکھنا چاہیں اور عوام کے علم میں ہو ،تو وہ عوام میں ایک آدھ پھیر ڈال سکتے ہیں؛لیکن عوام میں ٹھہر نہیں سکتے ۔ان کی شخصیت کا ڈھلنا خارج از امکان اور قبول عامہ کا حصول نا ممکن ہے ۔خطیب کی سیرت اس کی دولت اور اس کا کیریکٹر اس کا خزانہ ہے ۔جو خطیب ومقرر اس سے محروم ہوئے،وہ دماغوں اور دلوں پر کوئی نقش نہیں جما سکے ۔ان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ اس خوش آواز گداگر کی ہوتی ہے ،جو مکانوں کی چوکھٹ پر صدا دیتا اور نا کام لوٹتا ہے یاپھروہ اس ڈھولک کی تھاپ ہے ،جو بالا خانوں پر بجتی ہے اور رات کی چمک دمک گذرنے بعد تماشائی کے لیے منتشر و مضمحل صبح لے کر طلوع ہوتی ہے۔خطابت بدن ہے ، تو سیرت اس کی روح ہے ۔خوب صورت روح ہی تندرست بدن قائم رکھتی ہے ۔کسی فن میں سیرت اس شدت سے معیوب نہیں ہو تی ،جس شدت سے خطابت میں اس کی پرکھ ہوتی ہے اورایک خطیب کے اعمال پر عوام کی نگاہ رہتی ہے ۔اگر کوئی خطیب یا مقرر پبلک لائف بسر کرنا چاہتا ہے ،تو لازم ہے کہ بے داغ کیریکٹر رکھتا ہو اور اس کی سیرت لہو ولعب کے چھینٹوں سے محفوظ۔ ایک خطیب اپنے لیے یہ کلیہ قائم نہیں کر سکتا کہ عوام کی زندگی اور نجی زندگی میں فرق ہے ۔‘‘
(ص؍۳۱و۳۲)
اخلاص وللہیت
مقرر کی مقبولیت کا دوسرا راز ’’اخلاص وللہیت ‘‘ہے ۔گرچہ یہ ایک باطنی اور روحانی چیز ہے ،جس کا مشاہدہ نا ممکن ہے ،تاہم اس کا مقرر کی ذات سے ایک ایسا روحانی اورمعنوی تعلق ہے ،جو غائب از نظر ہونے کے باوجود لوگوں کو نظر آجاتی ہے اور سامعین تقریر سن کر ہی یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ حضرت خطیب کتنے سوزودرد اور خلوص وللہیت کے ساتھ تقریر فرمارہے ہیں ۔چنانچہ مشاہدہ شاہدعدل ہے کہ جو حضرات محض للہی جذبے کے ساتھ تقریر کرتے ہیں ،ہر چند کہ ان کی آواززیادہ شیریں نہیں ہوتی اور نہ ہی بہت زیادہ طلاقت وسلاست کے ساتھ بول پاتے ہیں ،پھر بھی ان کی باتیں دل ودماغ میں اترتی چلی جاتی ہیں اور ان پر عمل کرنے کا فطری جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے ۔اور جوحضرات اس وصف سے عاری ہوکر محض دکھاوے کے لیے صرف اس مقصد سے تقریر کرتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق یہ نظریہ قائم کریں کہ کیا خوب لچھے دار تقریر کرتے ہیں ۔ہر چند کہ وہ انتہائی جوش و ہنگامے کے ساتھ بولتے ہیں اور اپنے زور بیان سے مائک کا گلا پھاڑ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ،ان حضرات کی تقریروں سے وقتی طور پر توسامعین مرعوب ہوجاتے ہیں،اوروہ اس قدر تأثربھی لے لیتے ہیں کہ مقرر موصوف نے کیاخوب تقریر فرمائی۔لیکن تقریر کا جو اصل مقصد ہے ،وہ حاصل نہیں ہوتا۔کیوں کہ ان کی تقریر سے نہ تو سامعین کے اندر عمل کاجذبہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے؛بلکہ وہ ایک کا ن سے سنتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے کان سے نکال بھی دیتے ہیں ۔اور اس کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کے اندراخلاص کی خمیر نہیں ہوتی ۔اس لیے خطیب کو اپنی مقبولیت کا جوہر حاصل کرنے کے لیے اخلاص کا جوہر پیدا کرنا ضروری ہے ۔
’’۔۔۔اس کی اساس عشق و اخلاص پر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عوام مقرر کے اخلاص پر جان چھڑکتے ہیں ۔ اور اخلاص ایک بے میل سچائی کا نام ہے ۔خطابت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مقرر سے لے کر تقریر تک سب کچھ غیر مصنوعی ہو۔کسی پہلو سے کوئی چیزمصنوعی ہوگی ،تو حشو وزوائد ہوگی ۔کسی پبلک جلسے میں عوام تماشہ دیکھنے کے لیے نہیں ؛بلکہ کچھ پانے کے لیے آتے ہیں اور ہمیشہ اخلاص سے مسخر ہوتے ہیں ‘‘۔ (ص؍۷۱)
شخصی وجاہت
کہا جاتا ہے کہ شخصیت کی چھاپ فن کی چھاپ سے زیادہ گہری ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ خواہ کسی قسم کا اسٹیج ہو ،لوگ سب سے پہلے فن کار کا نام دیکھتے ہیں ۔اور فن سے زیادہ فن کار کے قدر داں ہوتے ہیں ۔تقریر کے متعلق بھی لوگوں کی یہی عادت ہے ۔’’تقریر کیسی ہے ؟‘‘ کے بجائے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہیں کہ ’’کس کی تقریر ہے؟‘‘ اس لیے میدان خطابت میں منظورِ نظر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی شخصیت کو استوار کریں ، بنائیں اور سنواریں ۔
شخصی وجاہت سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کے ظاہری حسن و جمال قابل توجہ ہو ں اور پُر تکلف لباس و پوشاک جاذب نظر ؛بلکہ شخصیت سے مراد یہ ہے کہ آپ اخلاقِ حسنہ اور کردارِ عالیہ سے متصف ہوں ،آپ کا اخلاقی برتاؤ ، حسن معاملہ ،حسن سلوک ،حسن عمل اور گفتار وکردار ایسا مسحور کن ہو کہ جو کوئی آپ کو دیکھے ،آپ کو سنے ،آپ سے ملے ؛ وہ آپ کا ہوکر رہ جائے،اور آپ کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگے ۔
بے عیب و شیریں آواز
مقرر کی مقبولیت میں اس کی آواز کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے ۔چنانچہ مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ جس کی آواز شیریں اور بے عیب ہوتی ہے ،سامعین بصد رغبت و شوق اورانتہائی دل جمعی کے ساتھ اس کی تقریر کو سنتے ہیں ۔اور جس کی آواز صاف نہیں ہوتی ہے ،بولتے کچھ ہیں اور سامعین کی سمجھ میں کچھ اور آتا ہے ۔اسی طرح دورانِ خطابت کبھی کھنکھارنے لگتے ہیں ،کبھی گلا کھینچتے ہیں ،کبھی تھکتھکا تے ہیں ،تو ہر چند کہ وہ قیمتی سے قیمتی باتیں بیان کرتے ہیں؛ لیکن ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے سامعین اپنی توجہ ہٹالیتے ہیں ۔بلکہ وہ جب تک کرسیِ خطابت پر بیٹھے رہتے ہیں ، عوام ان گھڑیوں کو مصیبت کی گھڑیاں سمجھتے ہیں اوریہ تمنا کرتے رہتے ہیں کہ یہ صاحب اب جائیں ،تب جائیں ۔ اس لیے آپ ہمیشہ اپنا گلا اور اپنی آوازصاف وشفاف رکھیں ۔ 
دل کش اندازِبیان
مقبولیت کاایک گُر دل کش اور عمدہ انداز بیان بھی ہے ۔بعض لوگوں کا انداز بیان اس قدر شیریں اورعمدہ ہوتا ہے کہ بات ا گرچہ معمولی اور گھسی پٹی ہوتی ہے ،تاہم وہ اپنے حسن بیان سے غیر معمولی بنادیتے ہیں ۔اور مشکل سے مشکل مسئلے کو ا س قدر سہل اور آسان بنا دیتے ہیں کہ انھیں ہر کس وناکس سمجھتا چلاجا تا ہے ۔اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انھیں بیان کی جائیں ،تو سامعین ناگواری محسوس کرسکتے ہیں ؛لیکن ایک دل کش انداز بیان کا حامل مقرر اس سلیقے اور تہذیب کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ سامعین ذرابھی ناگواری محسوس نہیں کرتے ۔بلکہ اگر ان باتوں کا تعلق اصلاح وغیرہ سے ہوتا ہے ،تو انھیں اصلاح کی فکر ہونے لگتی ہے ۔مثال کے طور پر ایک بات یوں کہی جاسکتی ہے کہ’’ مجھے پانی پلائیے ،مہربانی ہوگی‘‘ ۔اسے اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ’’ میرے لیے پانی لاؤ‘‘۔اور اس طرح بھی بول سکتے ہیں کہ’’ ابے او، سنو! جلدی سے پانی لاؤ ‘‘۔یہ سب جملے ایک ہی مفہوم کوا دا کر رہے ہیں ۔لیکن ہر ایک جملے کا انداز بیان ایک دوسرے سے مختلف ہے ،جن میں سے پہلا جملہ سب سے زیادہ پُر کشش ہے ۔اگر کوئی اس انداز سے کہے گا ، تودوست تو دوست ؛دشمن بھی پانی لانے کو ترس جائے گا ؛لیکن اگر آخری جملے کے لہجے سے کہے گا ،تو دشمن تو رہا دشمن ؛ دوست بھی پانی لانے کو تیار نہیں ہوگا ۔اسی لیے اپنی شخصیت کو مسحو رکن اور قابل التفات بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بات کو اچھے نداز میں کہنے کا سلیقہ پیدا کریں ۔
فطری لب ولہجہ(انفرادیت)
فطری لب ولہجے سے مراد یہ ہے کہ آپ ایسی زبان میں تقریر کریں ،جو عوام الناس اور عام بول چال کی زبان ہو۔اور جو آپ کو کار خاأہ قدرت کی طرف سے ملی ہو ۔اسی طرح آپ کا انداز بیان بھی خود اپنا ہو ۔نہ تو زبان میں کسی کی نقل ہو اور نہ ہی انداز بیان میں کسی کی تقلید ۔یہی چیز ایک مقرر کی انفرادیت ہے۔
بعض لوگ اپنی وہبی اور فطر ی انداز سے پہلو تہی کرتے ہیں اور دوسروں کی زبان و بیان کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ،جیسے کہ کچھ لوگ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی اردوئے معلیٰ کو رٹ لیتے ہیں اور انھیں کے اندازبیان میں تقریر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حالاں کہ مولانا آزاد جس زبان میں تقریر کیا کرتے تھے ،وہ ان کی فطری اور روز مرہ کی زبان ہوتی تھی۔اس لیے وہ الفاظ جب ان کی زبان سے ادا ہوتے تھے ،تو اچھے لگتے تھے اور سامعین مبہوت ومرعوب ہوجاتے تھے ؛لیکن وہ الفاظ جب دوسروں کی زبان و بیان سے ادا ہوتے ہیں ،تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کوا بلبل کی بولی بولنے کی کوشش کر رہاہو۔کسی کی نقالی اور تقلید سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں :ایک خرابی تو یہ لازم آتی ہے کہ اس کا فطری لب ولہجہ اور ذاتی انفرادیت متأثر ہوتی ہے ،جس سے نہ توفطری انداز اپنی اصلی حالت پر برقرار رہ پاتا ہے اور نہ ہی اس کے مکسوبی اور نقلی انداز میں کوئی کشش پیدا ہوپاتی ہے ۔دوسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ اس کی تقریر میں اثر انگیزی باقی نہیں رہتی ۔وہ جو کچھ کہتا ہے ،وہ صدا بہ صحرا ہوجاتا ہے ۔اور تیسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ سامعین اس کے متعلق یہ نظریہ قائم کرلیتے ہیں کہ منجملہ جوکروں میں سے ایک جوکر یہ بھی ہے جو دوسرے کی نقالی کر نے کوشش کر رہا ہے ،پرنقالی میں نا کام نظر آرہا ہے ۔
ہم بڑے خطیبوں کو آئڈیل تو بنا سکتے ہیں ،لیکن ان کی ہو بہو نقل نہیں اتار سکتے۔کیوں کہ جس طرح لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے کسی ایک کی شکل وصورت دوسرے سے نہیں ملتی ،اسی طرح ہر خطیب کا لب ولہجہ بھی ایک دوسرے سے مختلف اور جدا ہوتاہے ،جس کی نقل نا ممکن ہے ۔بہ قول شیخ سعدی ؒ ع 
ہرگلے را رنگ و بو ئے دیگر است
’’جس طرح کسی شاعر یا ادیب کی جگہ لینا مشکل ہے ۔غالب غالب تھے ۔اقبال اقبال تھے۔اسی طرح کسی خطیب کی جگہ لینا ممکن نہیں ۔ابوالکلامؒ ،عطاء اللہ شاہ ؒ ،ظفر علی خاں ؒ اور ابوالا علیٰ ؒ سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔لیکن ان کی جگہ نہیں لے سکتے ؛کیوں کہ ہر شمشیر بکف سکندر اعظم نہیں اور نہ ہر صحرانورد کو مجنوں کہ سکتے ہیں ۔‘‘ (ص؍۹۶)
مترادفات کا استعمال
دورانِ تقریر ایک ہی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی تکرار اور بار بار بکثرت مترادف الفاظ کے استعمال کرنے سے بھی اظہار واسلوب میں رونق پیدا ہوتی ہے ،تقریر کا حسن نکھرتا ہے اور اس کی مقبولیت دوچند ہوجاتی ہے۔
’’ایک مقرر وخطیب کے لیے مترادفات (ہم معنی الفاظ )شعلہ نوائی کا ایندھن ہیں۔چند الفاظ ملاحظہ فرمائیے:اچھا ،برا ۔حسن وقبیح ۔خیرو شر۔زیست وخوب۔بہتر و بد تر۔یہ معنوی تفاوت کی باریکی کے استعمال میں انشا و بیان کا فاصلہ ہے ۔اور یہی فاصلہ ان کی معنویت کے یکساں خطوط کوایک دوسرے سے ممیز کرتا ہے ۔اور ایک خطیب وادیب ان کے معنوی استعمال ہی سے منفرد وممتاز ہوتا ہے ‘‘۔
(ص؍۶۳) 
موقع شناسی 
جوہر مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک مقررکو موقع شناس ہونا ضروری ہے ۔اس کے لیے باقاعدہ کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کرنا پڑتا ہے ؛بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے ،جو ایک حساس اور نباض خطیب جلسے کی نوعیت،گردو پیش کے حالات ،زمان ومکان کی خصوصیات ،عوام کی سماجی ومعاشی کیفیات ،عالمی سیاسی منظرنامے اور ان جیسی چیزوں سے خود بخود بھانپ لیتا ہے کہ اس وقت کیا موقع ہے ۔ایسے موقعوں پر کیسی تقریر مقبول ہوگی ؟ مجمع کتنی دیر میرا ساتھ دے سکتا ہے ؟کیسا اندازاور کس طرح کا اسلوب مناسب اور مؤثر ہوگا ۔مثلاََ ایک خطیب کو جلسۂ تعزیت میں مدعو کیا گیا ہے ،تو جلسے کی نوعیت اس بات کا متقاضی ہے کہ یہاں صرف وہی باتیں بیان کی جائیں گی،جو مرحوم کی حیات ،اس کی سوانح عمری ،خطیب کا اس کے ساتھ ذاتی تعلق وتأثر اور جامع تبصرے سے متعلق ہوں ۔اب اگر کوئی مقرر اس موقعے پر جشن بہاراں پر لیکچر دینے لگے اور موسم بہار کی پُر فریب مناظر کی منظر کشی کر نے لگے ،تو اس کے پسماند گان اور اہل مجلس خطیب کوکس مقبولیت سے نوازیں گے ،وہ بالکل عیاں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی مسئلہ میڈیا کے توسط سے خاص و عام کا موضوع بحث بنا ہوا ہو اور اس کاکوئی صحیح رخ واضح نہ ہو رہا ہو ،تو اس موضوع پر مکمل و مفصل روشنی ڈالنا ایک مقرر کے لیے وقت کا تقاضا ہوگا ۔یہ بھی موقع شناسی کے ضمن میں ہی آتا ہے کہ کسی پروگرام میں آپ کے حصے میں کونسا وقت آیا ہے ۔اگر شروع کا وقت ہے ،تو اجمال اور ابہام کے بجائے تفصیلی کلام کرنا زیادہ موزوں ہے ۔اوراگر آخر ی حصہ آیا ہے ،تو سامعین دیگر مقرروں کو سنتے سنتے چوں کہ بوجھل ہوچکے ہوتے ہیں ،ان پر غنودگی اور تھکان کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔وہ اونگھنے اور ٹوگھرنے لگتے ہیں ۔ سب اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اب دعا ہو ،تب دعا ہو ۔تو یہ چیزیں اس پر غماز ہیں کہ جتنی جلدی ہوسکے ،اتنی ہی جلدی تقریر ختم کردی جائے اور دعا کے ساتھ مجلس برخاست کر دی جائے ۔ ایسے موقعے پر تفصیلی کلام کرنا ۔خواہ وہ کتنا ہی اہم اور ضروری ہو۔بے سود اور لاحاصل ہوگا ۔اور سامعین اس سے اکتاہٹ بھی محسوس کریں گے۔اسی طرح یہ بھی موقع شناسی سے ہی متعلق ہے کہ آپ کے سامعین کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔اگر وہ عوام ہیں ،تو ان کے سامنے انتہائی سادہ ،سہل ،شیریں اور ان کی روز مرہ کی گفتگو میں خطاب کرنا ہوگا ۔ ان کے سامنے بوجھل الفاظ ، مشکل ترکیبیں ،پیچیدہ فقرے،گنجلک اسلوب اور دور دراز کی تشبیہات و استعارات استعمال کرنے سے گریز کرنا ہوگا ۔اسی طرح منطقی اسلوب ،فلسفیانہ مباحث اور عقائد و کلام کے مسائل چھیڑنے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
’’جب آپ عوام سے مخاطب ہیں ،تو آپ پر لازم ہے کہ بوجھل ،پیچیدہ ،نامانوس اوران گڑھ الفاظ سے پرہیز کریں ۔اور یہ چیزیں ذہن میں رکھیں کہ دور دراز کے استعارے ،پیچ وخم میں لتھری ہوئی تشبیہیں ،معمہ نما رمزیں،ملفوف کنائے اور محصور محاورے عوام کے لیے پہیلیاں ہیں ۔ان سے مجمع من حیث الکل متمتع نہیں ہوتا اور نہ ان کی معرفت عوام کے ذہنوں میں اترسکتے ہیں ۔‘‘(ص؍۷۳)
ایک مقرر کو عوام کی ذہنی استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے طور پر ضرور طے کر لینا چاہیے کہ وہ جس مجمع سے مخاطب ہے ،اس کو کتنی دیر لے کر ساتھ چل سکتا ہے اور جس اجتماع کا مقرر ہے ،اس کا وہی مقرر ہے یا دوسرے مقرربھی ہیں ۔اور ان کا مقام کیا ہے ۔اکثر مقرر مجمع سے زیادہ اپنے خیالات کو عزیز رکھتے ،عوام کی اکتاہٹ کو مطلقا محسوس نہیں کرتے ،داد کے روپ میں بے داد کا اندازہ نہیں کرپاتے اور کلمات ستائش کی منفی شکلوں کو بھانپ نہیں سکتے کہ ان پر تنقید وتعریض کے چھینٹیں اڑائے جارہے ہیں ،مقرر کا فرض ہے کہ مجمع کا تیور شناس ہو‘ ‘ (ص ؍۱ ۵و ۲ ۵ ) 
المختصر جیسا مجمع ہوگا ،تقریر بھی ویسی ہی کرنی ہوگی ۔
برجستہ گوئی
برجستہ گوئی سے مر اد یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر سابقہ اطلاع کے بغیر اچانک کوئی موضوع آپ کے لیے متعین کر دیا جائے ،تو آپ کسی جھجھک اور کسی خوف و ہراس کے بغیر اس طرح تسلی بخش بیان دے سکیں کہ عوام مبہوت ہوجائے اور اسٹیج پر جلوہ افروز مقررین اس بات کا اندازہ نہ لگا سکیں کہ آپ کا اس موضوع پر کوئی مطالعہ نہیں ہے ۔ اسی طرح آپ کی ہیئت جسمانی اور شکل و صورت سے نہ تو خوف وہراس نمایاں ہو اور نہ ہی آپ کی اعتمادی کیفیت سے بے اعتمادی کا اثر جھلکے ۔انداز خطابت ،لب ولہجہ ،اشارات و حرکات ؛غرض کسی بھی پہلو سے کم علمی اور عدم تیاری کی جھلک دکھائی نہ دے۔ بلکہ آپ اس طرح یقین اور اعتماد کے ساتھ بولیں کہ گویا اس موضوع پر آپ کا بہت گہرا مطالعہ ہے۔
نستعلیق اشارات
ترسیل خیالات کے لیے صرف زبان کا نہیں ؛بلکہ اشارات وحرکات کا بھی سہارا لیا جاتا ہے ۔اگر کوئی بات صرف زبانی طور پر کہہ دی جائے ،توگفتگو کا مطلب تو حاصل ہوجاتا ہے ۔لیکن اگر اس کے ساتھ اشارات بھی کیے جائیں ،تو بات اور اچھی طرح منقح ہوکر ذہن نشیں ہوجاتی ہے۔خطیب کی کامیابی کا بھی یہی راز ہے کہ سامعین اس کی باتوں کو اچھی طرح سمجھ لیں۔اس لیے خطیب کو موقع بہ موقع دوران تقریر اپنے ہاتھوں اور سرکو حرکت دینی چاہیے ۔بالکل بُت بن کر بیٹھے نہیں رہنا چاہیے ؛کیوں کہ 
’’اشارات:۔۔۔۔۔۔ان کی حیثیت خطابت کے ساتھ وہی ہے ،جو نطق کے ساتھ ہونٹوں کی،زبان کے ساتھ بیان کی اور پاؤں کے ساتھ چال کی ۔‘‘(ص؍۴۶)
بعض لوگ تقریر کے دوران اتنی حرکت کرتے ہیں کہ جیسے کوئی مقرر نہیں ؛بلکہ کوئی ایکٹر یا جوکر تماشا کر رہا ہے۔ ان حرکتوں کے باعث مقرر جہاں سامعین کے لیے محض ایک تماشا بن جاتا ہے ،وہیں اس کی شخصیت بھی متأثر ہوتی ہے ۔اس لیے نہ تو باکل جمود کا مجسمہ بن کر بیٹھے رہنا چاہیے اور نہ ہی سراپا حرکت کا نمونہ بن جاناچاہیے ۔ بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے بیچ کی یہ کیفیت اختیار کرنی چاہیے کہ جب اشارے کی ضرورت پڑے اور اس جگہ مقرر مناسب سمجھے ، وہاں پر اشارے کا سہارا لے ۔اور جہاں ضرورت محسوس نہ ،اس جگہ کسی قسم کی حرکت سے گریز کرے۔ 
موقع کے مناسب انداز خطاب 
خطابت کے لیے کوئی ایک انداز پائدار نہیں ہوتا ۔بعض حضرات کتاب پڑھنے کی طرح تسلسل کے ساتھ بولتے چلے جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خطاب کر رہے ہیں ۔حالاں کہ وہ خطاب نہیں ؛بلکہ مکالمت ہے ۔اسی طرح کچھ خطیب موضوع اور زبان و مکان کے تقاضے کو مد نظر نہیں رکھتے اور ایک طرز میں بیان کرتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے ۔صحیح یہ ہے کہ جیسا موضوع اور جس طرح کا ماحول ہو ،اسی کی مناسبت سے لب و لہجے میں نرمی گرمی ، آواز میں اتار چڑھاو،تکلم میں زیرو بم اور الفاظ میں مد وجزر پیدا کرنا چاہیے ۔اور یہی ایک مقرر کی کامیابی و کامرانی کا سربستہ راز ہے ۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’۔۔۔ہر موضوع کے لیے طریق اظہار مختلف ہوتا ہے ،حتیٰ کہ پبلک جلسوں میں بھی ہم موضوع کی رعایت سے طریق اظہار بدلتے ہیں۔مثلا فتح و شکست یا خوشی و غمی کے جلسوں میں اظہار مختلف ہوگا ۔نہ صرف لب و لہجے میں فرق ہوگا ؛بلکہ آوز کے اتار چڑھاو میں تفاوت ہوگا ۔ظاہر ہے کہ تعزیت کے جلسے میں سیرت کا لہجہ اختیار نہیں کرسکتے ۔اسی طرح عوام کے اجتماع اور خواص کی تقریب میں بھی اظہار کی نوعیت بدل جاتی ہے ‘‘۔ (ص؍۴۵)
مزید تفصیلات آگے آئے گی ۔ان شاء اللہ تعالیٰ،ھو الموفق والمعین۔