3 Apr 2018

تقریر کا آغاز، تقریر کی اہمیت و افادیت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں مقرروں کا کردار


(قسط نمبر (2) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کا آغاز


تقریر و خطابت کاآغازکب ،کیسے ،کس سے اور کہاں سے ہوا؟ان حوالوں سے کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، کیوں کہ کسی چیز کی اصلیت و حقیقت کا ادراک اور اس کے آغاز و ارتقا سے بحث علم تاریخ کا موضوع ہے۔اور علم تاریخ کے وجود کا دارو مدار تحریر و کتابت پر ہے ،اور جس وقت تحریر کا فن وجود میں آیا ہے ،اس وقت فنِ خطابت عنفوان شباب پر تھا۔کیوں کہ یورپی ماہرینِ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق فن تحریر کا ایجاد ۳۰۰۰ ق م میں ہو اہے ۔فن تحریر کے ایجاد ہی کی وجہ اس سے پہلے کا زمانہ ’’ماقبل تاریخ انسانی ‘‘اور اس کے بعد کا زمانہ ’’مابعد تاریخ انسانی‘‘ کہلاتا ہے۔اور سائنسی نقطۂ نظر کے مطابق انسان کا وجود ؛بلکہ اس کا مکمل طبعی و فکری اور لسانی ارتقاما قبل تاریخ انسانی کے دور میں ہو چکا تھا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ خطابت کا آغاز ،فن تحریر کے ایجاد سے بہت پہلے ہوچکا تھا ۔عربوں کی ادبی تاریخ سے بھی اس کی تائید و توثیق ہوتی ہے ۔کیوں کہ اہل عرب ۔جو خطابت کے بے تاج بادشاہ اور دنیا کے سب سے بڑے زبان آور تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ غیروں کو عجمی (بے زبان ،گونگا )کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔فن تحریر سے بالکل نا آشنا تھے ،انھوں نے تحریر کا فن بہت بعد میں یمنیوں سے سیکھا تھا۔اس حوالے سے شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ:
’’خطابت کب شروع ہوئی؟مختصرا جب انسان نے بولنا شروع کیا ۔وہ شخص پہلا خطیب تھا، جس نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں سے خطاب کیا ۔یا انسانوں کا ایک مجمع جو اس کے گردو پیش تھا ، اس سے کلام کیا ۔ انسان اور خطابت ہم عمر ہیں ۔دونوں کا ارتقائی سفر یکساں ہے۔اس باب میں اختلاف رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ابلاغ عامہ کا آغاز تقریر سے ہوا اور تحریر سے کہیں زیادہ تقریر کی عمر ہے ، دو نوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔‘‘ (فنِ خطابت ،ص؍۱۵) 
تقریر کی اہمیت و افادیت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں مقرروں کا کردار
تقریر کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، بالخصوص عصر حاضر میں الیکٹرانک میڈیا کا سارا دارو مدار اسی پر ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت و افادیت دو چند ہوگئی ہے ۔انسانوں کی خدمت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں جس طرح دگر جماعتوں اور گروہوں نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں،اسی طرح مقرروں نے بھی زبردست کردار ادا کیے ہیں ۔چنانچہ تاریخ شاہدِ عدل ہے کہ جب بھی کوئی قوم جنگ و حرب جیسی آفات نا گہانی میں مبتلا ہوئی ہے اور ان کے دلوں کو گرمانے اور دفاع کے لیے مقابلے کی ہمت وحوصلہ پید ا کرنے کی ضرورت پڑی ہے ، توخطیبوں نے اپنی شعلہ بیانی اور طوفانی تقریر سے ان کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے،پھر وہ بے خطر میدانِ کارزار میں کود پڑی ہے ۔اسی طرح جب کوئی قوم گناہوں اور برائیوں کے سمندر میں غرق آب ہوئی ہے اور فسق و فجور کے قعر مذلت میں افتادہ ہوئی ہے ،تو ایک مقرر ہی نے اپنی گویائی کے برقی کرشمے اوراپنی جادو بیانی سے برائیوں کو اچھائیوں میں ،گناہوں کو نیکیوں میں ، خطاؤں کو ثوابوں میں اور فسق و فجور کو تقوی و زہد میں تبدیل کردیا ہے ۔غرض ایک مقرر انسانوں کے خیالات و تصورات اور ان کے ارادوں پر جو اقتدار رکھتا ہے اور جس طرح اس کے لب ودہن کی ادنیٰ جنبش آن واحد میں سینکڑوں دلوں کو پھیر دیتی ہے اور ماحول کی کایا پلٹ دیتی ہے ،ایسا دنیا کا بڑا سے بڑا بہادر ،بڑا سے بڑاجادو گر ؛بلکہ بڑا سے بڑا فرماں روائے سلطنت بھی نہیں کر سکتا ۔یہ تو صرف ایک مقرر ہی کا کمال ہوتا ہے ۔اور اس کے اس جیسے بڑے بڑے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
’’خطابت آن واحد میں قرنوں کا سفر کرتی اور کہیں سے کہیں لے جاتی ہے ۔ایکا ایکی پلٹ دے کر ماضی میں پہنچا دیتی،ناگہانی فراٹے بھرتی ہوئی مستقبل کی طرف بڑھ جاتی ہے۔اس کے لیے گردشِ زمانہ نہیں۔وہ لیل ونہار کے طلوع و غروب سے آزاد ہے ۔وہ انسانی مجمعوں کو اکائی میں ڈھالتی اور آوازوں کی لہروں کے ساتھ ماضی ، حال اور مستقبل میں گھماتی پھراتی ہے۔خطابت کی سب سے بڑی خوبی تصور کی پرواز ہے ۔ہم خیالوں کے سیناوں پرچڑھ جاتے اور جذبات کے سمندروں کی تہہ تک اتر جاتے ہیں،بہ الفاظ دیگر خیالات کی پرواز کا نام خطابت ہے کہ ایک انسان کی آواز ان گنت انسانوں کا مافی الضمیر بن جاتی ہے ۔ خطابت لسانی اعجاز کا خمیر ہے ، اس کے ہیولیٰ میں شاعری،موسیقی اور سنگ تراشی کے جوہر ہیں ،اس کی روح ایٹمی توانائی سے کہیں بڑھ کر طاقت ور ہے۔ لارڈ سایسری نے غلط نہیں کہا تھا کہ ’دنیا آج بھی ان کے ساتھ ہے ،جو بول سکتے ہیں‘۔‘‘(فنِ خطابت،ص؍۲۰)