11 Oct 2018

Nawaqiz-e- Tayammom


نواقض تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (17) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
جس سے وضو ٹوٹتا ہے ، اسی سے تیمم بھی ٹوٹتا ہے اور وضو کے لائق پانی پر قادر ہوجانے سے وضو کا تیمم ٹوٹ جاتا ہے ۔ اور اگر غسل کا تیمم ہے تو غسل کے لائق پانی پر قادر ہونے سے غسل کا تیمم ٹوٹے گا۔ اگر پانی کم ملا تو تیمم نہیں ٹوٹے گا۔ 
حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الصعید الطیب وضوء المسلم و ان لم یجد الماء عشر سنین فاذا وجد الماء فلیمسہ بشرہ فان ذٰلک خیر۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد، زجاجہ، ۱۴۷) 
بے شک مسلمان کا وضوپاک زمین ہے ، اگر چہ دس سال تک پانی نہ پائے ۔ پھر جب پانی پایا جائے تو اس کو بدن پر استعمال کرے اور یہ بہتر ہے۔
یعنی پانی ملنے پر تیمم ٹوٹ جاتا ہے ۔ اب پانی سے وضو کرے اور غسل کی حاجت ہے تو غسل کرے ۔ پانی پر قدرت پاتے ہوئے تیمم سے نماز صحیح نہیں۔ اگر درمیان نماز میں پانی مل جائے تو وہ نماز بھی باطل ہوجاتی ہے ۔ وضو کرکے نماز پھر سے پڑھے۔ 
اگر راستہ میں پانی ملے ، لیکن اس کو خبر نہ ہو یا خبر ہو لیکن اس کے استعمال پر قادر نہ ہو، جیسے چلتی ریل سے پانی ، ندی، یا تالاب میں دیکھا تو اس سے تیمم نہیں ٹوٹے گا۔
قسط نمبر(18) کے لیے کلک کریں

10 Oct 2018

Sonan-e- Tayammom

سنن تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (16) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے اندر پانچ سنتیں ہیں: 
(۱) بسم اللہ سے شروع کرنا۔
(۲) ترتیب۔ پہلے منھ کا مسح کرے پھر ہاتھ کا۔
(۳) پے درپے کرنا۔ 
(۴) ہاتھ زمین پر رکھ کر پھر آگے لانا اور پیچھے لے جاکر گرد جھاڑنا، تاکہ صورت خراب نہ ہوجائے۔ 
(۵) انگلیوں کا زمین پر ہاتھ مارتے وقت کشادہ رکھنا۔ 
تیمم کی ترکیب یہ ہے کہ انگلیوں کو کشادہ رکھ کر زمین پر ہاتھ مارے ۔ اگر زیادہ گرد لگ گیا ہو تو اس کو جھاڑے اور پورے منھ پر ہاتھ پھیرے جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے ۔ اور دوبارہ ہاتھ زمین پر مارے اور چھنگلیاں کی طرف سے تین انگلیاں بائیں ہاتھ کی لے کے تھوڑی ہتھیلی کے ساتھ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی سرسے کہنی تک ظاہر ہاتھ کا مسح کرے ۔ اس کے بعد شہادت کی انگلی اور انگوٹھے اور باقی ہتھیلی سے باطن ہاتھ کا انگلیوں کے سرے تک مسح کرے۔ اسی طرح دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا مسح کرے ۔ اور انگلیوں کا خلال کرے، بس تیمم ہوگیا۔ تیمم میں سر اور پاؤں کا مسح نہیں ہے۔ 
اگر پانی ملنے کی امید ہو تو تیمم میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔
عن علی قال: اذا لم یجد الماء فلیؤخر التیمم الیٰ الوقت الآخر۔ (رواہ عبد الرزاق، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: جب پانی نہ ملے تو تیمم کو اخیر وقت تک موخر کرے۔
یعنی جب تک مستحب وقت ہے، وہاں تک تاخیر کرے، مکروہ وقت تک تاخیر نہ کرے۔ اگر تیمم کرکے نماز پڑھ لی، پھر وقت ہی کے اندر پانی مل گیا تو نماز کے دوہرانے کی ضرورت نہیں، پہلی نماز کافی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ دو شخص سفر میں نکلے ، پس نماز کا وقت ہوااور ان دونوں کے پاس پانی نہیں تھا ، تو دونوں نے پاک زمین سے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ پھر وقت کے اندر ہی پانی مل گیا ، تو ان دونوں میں سے ایک نے وضو کرکے نماز لوٹائی اور دوسرے نے نماز نہیں لوٹائی۔ پھر دونوں آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا تذکرہ کیا ، تو آپ ﷺ نے اس شخص سے جس نے نماز نہیں لوٹائی فرمایا: 
اصبتَ السنۃ و اجزئتک صلاتک۔ 
تو نے سنت کو پائی اور تیری نماز کافی ہوئی ۔
اور جس نے وضو کیا اور نماز لوٹائی ، اس سے فرمایا: 
لک الاجر مرتین
تجھ کو دوہرا ثواب ہوا۔ یعنی اول فرض کا اور دوسرا نفل کا۔ (ابو داؤد، دارمی)
اگر کسی نے پانی دینے کا وعدہ کیا ہو تو تاخیر کرنا واجب ہے ، اگرچہ قضا کا خوف ہو۔ اگر نزدیک میں پانی کا گمان ہو، جان یا سامان کے ضائع ہونے کا عذر نہ ہو اور امن ہو تو چار سو قدم تک پانی ڈھونڈھنا واجب ہے ، ورنہ واجب نہیں۔ 
اگر کسی کے پاس پانی ہو اور ایسی جگہ میں ہو کہ وہاں پانی دینے میں کوتاہی نہیں کرتا ہو ، اس سے مانگنا واجب ہے۔ مانگنے پر نہ دے تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ اگر قیمت سے دیتا ہو اور پاس ضروری اخراجات سے زائد پیسہ ہو اور واجب قیمت لیتا ہو تو خرید کر وضو کرنا واجب ہے، ورنہ نہیں۔ 
وضو کی طرح ایک تیمم سے کئی وقتوں کی نمازیں اسی طرح فرض، نفل ؛ سب پڑھ سکتا ہے، ہر وقت کے لیے تیمم کرنا ضروری نہیں ۔ تیمم کی آیت میں آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج و لٰکن یرید لیطھرکم و لیتم نعمتہ علیکم لعلکم تشکرون۔ (المائدہ، ۶)
اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہے کہ تم کو تنگی میں ڈالے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم کو پاک صاف رکھے اور یہ کہ تم پر اپنا انعام تام فرمائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ 
معلوم ہوا کہ تیمم سے بھی طہارت کامل حاصل ہوتی ہے اور یہ خدا کی بڑی نعمت ہے، اسی لیے تیمم کرنے والا وضو کرنے والی کی امامت کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح سے طہارت پانی سے حاصل ہوتی ہے، پانی پر قادر نہ ہونے کی صورت میں تیمم سے بھی طہارت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر آدھا یا آدھے سے زیادہ بدن زخمی ہو اور پانی نقصان دیتا ہو تو غسل کے بجائے تیمم کرے ۔ اور اگر آدھے سے زیادہ تندرست ہو تو اس کو دھوئے اور زخم پر مسح کرے۔
قسط (17) کے لیے کلک کریں

9 Oct 2018

Faraez-e-Tayammom

فرائض تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (15) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے اندر تین فرض ہیں: 
(۱) اول طہارت کی نیت یا جس کے لیے تیمم کر رہا ہو اس کی نیت۔ مگر نماز اسی تیمم سے صحیح ہے جس میں طہارت کی نیت کی جائے، یا پھر ایسی عبادت مقصودہ کی نیت سے کی جائے کہ وہ عبادت بغیر وضو کے صحیح نہ ہو، جیسے سجدہ تلاوت، صلوۃ جنازہ۔
اگر قرآن کو چھونے یا مسجد میں داخل ہونے کے لیے تیمم کرے گا تو اس تیمم سے نماز پڑھنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ عبادت مقصودہ نہیں ۔ اور اگر عبادت مقصودہ تو ہو مگر وہ ایسی عبادت نہ ہو کہ بغیر وضو کے درست نہ ہو جیسے قرآن کی زبانی تلاوت، تو قرآن کی تلاوت کی نیت سے وضو کا تیمم کرے گا تو اس سے بھی نماز پڑھنا درست نہ ہوگا۔ البتہ اگر غسل کا تیمم کرکے قرآن تلاوت کرے ، تو اس سے نماز پڑھنا درست ہے ، کیوں کہ حالت جنابت میں قرآن کا زبانی پڑھنا درست نہیں ہے ۔ 
(۲) ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارکر چہرہ پر وہاں تک ملنا جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے۔ 
(۳) دوبارہ زمین پر ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنا جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے ۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
التیمم ضربۃ للوجہ وضربۃ للذراعین الیٰ المرفقین۔ (رواہ الدارمی، و قال رجالہ کلھم ثقات و رویٰ الحاکم مثلہ و قال صحیح الاسناد، زجاجہ ۱۴۸)
تیمم ایک ضرب چہرہ کے لیے ہے اور دوسرا ضرب دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنے کے لیے ۔ 
اگر چہرہ اور ہاتھوں میں سے کوئی جگہ ناخن کے برابر ایسی رہ جائے جہاں ہاتھ نہ پہنچا تو تیمم صحیح نہیں ہوگا۔
قسط نمبر (16) کے لیے کلک کریں

8 Oct 2018

Tayammom Ka Bayaan

تیمم کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (14) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کے ہیں۔ چوں کہ اس سے طہارت ، ارادہ کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے، اس لیے اس کو تیمم کہتے ہیں۔
وضو و غسل کی حاجت ہو اور وضو و غسل کے لائق پانی پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں وضو و غسل کے بجائے تیمم کرلینے سے انسان پاک ہوجاتا ہے۔ اگر اتنے پانی پر قادر ہو کہ اس سے بعض اعضا تو دھو سکتے ہیں، پورا وضو نہیں ہوسکتا ہے تو بعض اعضا کو نہ دھوئے ؛ بلکہ تیمم کرے ۔ اگر وضو و غسل دونوں کی حاجت ہے اور پانی اتنا ہی ہے کہ اس سے وضو تو کرسکتا ہے؛ مگر غسل نہیں ہوسکتا ہے تو وہ دونوں کا تیمم کرے۔ 
پانی پر قادر نہ ہونے کی مختلف صورتیں ہیں: 
(۱) پانی ہے؛ مگر اس کا استعمال اس کو نقصان پہنچاتا ہے : بیمار ہونے کا ڈر ہے ، یا صحت میں تاخیر کا اندیشہ ہے ، یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہے ، یا ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ 
(۲) پانی ہے ؛ مگر کھانے پینے کی حاجت سے زائد نہیں ہے۔ اگر پانی وضو یا غسل میں استعمال کرتا ہے تو بھوک پیاس سے ہلاک ہوتا ہے۔ 
(۳) پانی پاس نہیں ہے، پانی سے ایک میل یعنی چار ہزار قدم دور ہے ، یا پانی ہے مگر وہاں تک پہنچ نہیں سکتا، اس لیے کہ وہاں دشمن یا درندہ ہے ، یا کنویں میں ہے مگر ڈول رسی نہیں ہے جس سے نکال سکے۔ یا دوسرے کے پاس پانی ہے اور مانگنے پر بھی نہیں دیتا ہے۔ یا نزدیک میں پانی ملنے کا گمان ہے اور اس گمان پر چار سو قدم تک ڈھونڈھتا ہے ، پھر بھی نہیں ملتا ہے ۔ یا کوئی پانی مفت تو نہیں دیتا، وہ بیچتا ہے اور جو قیمت چاہے اسی قیمت میں دیتا ہے، لیکن پاس میں ضرورت سے زائد پیسے نہیں ہیں ۔ یا پیسے تو ہیں، لیکن قیمت واجبی سے زائد مانگتا ہے، ان تمام صورتوں میں ان کے لیے تیمم کرنا درست ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
ان کنتم مرضیٰ او علیٰ سفر او جاء احدمنکم من الغائط او لامستم النساء فلم تجدوا ماء ا، فتیمموا صعیدا طیبا فامسحو بوجوھکم و ایدیکم (النساء، آیۃ:۴۳)
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے فارغ ہوکر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو، پھر پانی نہ پاؤ، تو جنس زمین سے تیمم کرو اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو۔ 
اس آیت کے اندر پانی کا عذر تین صورتوں سے بتایا: 
(۱) مریض ہو، پانی ضرر کرتا ہے۔ 
(۲) سفر درپیش ہے دور تک پانی ملنے کی امید نہیں ہے ۔ پاس میں پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے ہے ، اس لیے کہ مسافر کھانے پینے کے لیے پانی ضرور رکھتا ہے ، ورنہ سفر میں ہلاک ہوجائے گا۔ 
(۳) پانی موجود ہی نہیں۔ 
اور طہارت کا ضروری ہونا دو صورتوں میں بتایا:
(۱) پیشاب پاخانہ سے آیا ہے وضو کی حاجت ہے۔
(۲) عورت سے صحبت کی ہے ، غسل کی حاجت ہے ۔ الغرض اس آیت کے اندر نجاست حکمیہ سے خواہ حدث اصغر ہو یا حدث اکبر ، پانی پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا بتایا ہے ۔ 
اگر وضو میں مشغول ہونے سے کسی ایسی عبادت کے فوت ہونے کا ڈر ہو، جس کا کوئی بدل نہ ہو، یا اس کی قضا نہ ہوتو اس وقت پاس پانی رہتے ہوئے بھی تیمم کرکے اس عبادت میں شریک ہوسکتا ہے ، جیسے عیدین کی نماز ، جنازہ کی نماز غیر ولی کے لیے۔
عن بن عباس قال: قال رسول ﷺ : اذا جاء ت الجنازۃ و انت علیٰ غیر وضوء فتیممْ۔ ( رواہ ابن عدی، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب جنازہ آجائے اور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کرلو۔ 
یعنی تیمم کرکے جنازہ کی نماز میں شریک ہوجاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : جب کہ جنازہ کی نماز فوت ہونے کا ڈر ہواور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کراور نماز پڑھ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و رجالہ رجال مسلم الاالمغیرۃ وھو یحتج بہ قالہ الزیلعی، زجاجہ ۱۴۹)
لیکن ولی کے لیے جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی اجازت کے بغیر دوسرا پڑھا نہیں سکتا ہے ۔ اور اگر پڑھا دے گا تو اس کو دوبارہ پڑھنے کا حق ہے ، اس لیے ولی کی نماز جنازہ فوت ہونے کا احتمال نہیں ہے ۔ اسی طرح جمعہ اور پنج وقت نماز کے لیے وقت تنگ ہونے سے یا جمعہ کے چھوٹنے کے خوف سے تیمم جائز نہیں، اس لیے کہ جمعہ کے بدلے میں ظہر ہے اور ادا کے بدلہ میں قضا ہے۔ 
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ذات السلاسل کی جنگ میں بھیجا۔ مجھے سخت سردی کی رات میں احتلام ہوگیا۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر نہاؤں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا، تو میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ائے عمرو! تونے اپنے ساتھیوں کو ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھائی؟ میں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ!میں سخت سردی کی رات میں محتلم ہوا، میں ڈرا اگر غسل کروں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا اور میں نے اللہ کا قول یاد کیا کہ
لاتقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیما۔ (النساء، ۲۹)
اپنے کو ہلاک مت کرو، اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ 
تو میں نے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ اس پر ہنسے اور کچھ نہ فرمایا( احمد، ابو داود، حاکم ، منذر، ابن ابی حاتم) زجاجہ، ۱۴۸)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر تندرست آدمی کو بھی پانی نقصان پہنچائے تو تیمم کرنا درست ہے ؛اگرچہ غسل کا تیمم ہو۔ اور ایسی عبادت کے لیے بھی تیمم جائز ہے، جس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے، شرط نہیں ہے، جیسے زبانی قرآن شریف پڑھنا، یا سلام کرنا، یا جواب دینا وغیرہ۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص آں حضرت ﷺ کے پاس سے ایک گلی میں گذرا اور نبی ﷺ پیشاب یا پاخانہ سے نکلے تھے کہ اس نے سلام کیا، تو آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ دیوار پر مارے، اس سے چہرہ کا مسح کیا،پھر دوبارہ ہاتھ مارے اور اپنے ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کیا، پھر اس شخص کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تجھے سلام کا جواب دینے سے بے وضو مانع ہوا۔
( اس کو ابو داؤد و طبری نے روایت کیا ہے۔ نور الہدایہ، ۵۲)
تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ جنس زمین سے کوئی چیز ہونا ضروری ہے۔ جنس زمین وہ ہے کہ نہ آگ میں جل کر راکھ ہواور نہ پگھلے، جیسے مٹی، مٹی کی بنی ہوئی کچی پکی اینٹیں، برتن، چونا ،گچ،ہر قسم کے پتھر، بالو وغیرہ۔ 
سونا چاندی، رانگ ، سیسہ وغیرہ دھات سے تیمم جائز نہیں ، کیوں کہ یہ سب چیزیں آگ سے پگھلتی ہیں۔ اور لکڑی کوئلہ وغیرہ سے بھی جائز نہیں ، کیوں کہ یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح راکھ سے بھی تیمم جائز نہیں؛ الغرض جو جنس ارض سے نہیں، اس سے تیمم جائز نہیں، مگر یہ کہ اس پر گرد ہو تو اس گرد سے تیمم جائز ہوگا۔ 
عن علی و عبد اللّٰہ بن عمرو و عن ابی ھریرۃ و جابر و ابن عباس و حذیفۃ و انس و ابی امامۃ و ابی ذر قالوا: ان النبی ﷺ قال: جعلت لی الارض کلھا مسجدا و طھورا۔ (رواہ الترمذی و رویٰ البخاری نحوہ، زجاجہ، ج؍۱، ص؍۱۴۷)
تمام روئے زمین کے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکی کی دو صورتیں بتائیں: 
(۱) پانی کے استعمال پر قدرت ہے تو پانی سے طہارت حاصل کرنا ۔ 
(۲) اگر پانی پر قدرت نہ ہو تو تیمم کرنا۔ 
اب اگر تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری ہوتا تو بہت سے ریگوں اور پہاڑوں کے باشندے جہاں مٹی کا نام و نشان نہیں ہے ، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم سے بھی محروم ہوجاتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تیمم کے لیے ایک ایسا لفظ استعمال فرمایا، جس سے کوئی محروم نہ ہوسکے اور وہ لفظ صعید ہے ۔ صعید کے معنہ وجہ ارض کے ہیں، یعنی زمین کے اوپر کا حصہ، خواہ مٹی ہو یا بالو، یا پتھر، یا کنکر، یا کوئی دوسری چیز جو جنس زمین سے ہے ؛ مگر پاک ہونا شرط ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے صعیدا طیبا فرمایا ہے ۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الصعید الطیب وضوء المسلم و ان لم یجد الماء عشر سنین فاذا وجد الماء فلیمسہ بشرہ فان ذٰلک خیر۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد، زجاجہ، ۱۴۷) 
پاک جنس زمین مسلمان کا وضو ہے ، اگر چہ دس سال تک (کھانے پینے کی حاجت سے زائد) پانی نہ پائے ۔ پھر جب پانی مل جائے اس کا استعمال کرے اور یہ بہتر ہے۔ (اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍ ۵۴)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح پانی سے آدمی پاک ہوتا ہے ، اسی طرح تیمم سے بھی پاک ہوتا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں برسوں تیمم سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور پانی ملنے پر خواہ نماز کی حالت میں ملے یا نماز سے باہر ؛ ہر حال میں تیمم کو توڑ دیتا ہے۔ اب پانی سے وضو غسل کرنا ضروری ہے۔ 
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ کچھ لوگ بادیہ نشین آں حضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور انھوں نے عرض کیا کہ ہم لوگ تین چار ماہ ریگوں میں رہتے ہیں اور ہم میں جنبی و حیض و نفاس والے بھی ہوتے ہیں اور ہم پانی (ضرورت سے زائد) نہیں پاتے، تو آپﷺ نے فرمایا: 
علیکم بالارض، ثم ضرب بید ہ الارض بوجھہ ضربۃ واحدۃ ثم ضرب ضربۃ اخریٰ، فمسح بھا علیٰ یدیہ الیٰ المرفقین۔ 
زمین سے تیمم کرنا تم پر لازم ہے۔ پھر آپ ﷺ نے تیمم کرنا بتایا: ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا چہرہ پر ملنے کے لیے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا اور اس سے دونوں ہاتھوں کو کہنی تک ملا۔ (احمد، طبرانی، ابو یعلی، زجاجہ ۱۴۷)
اس حدیث سے چند امور معلوم ہوئے: 
(۱) تیمم زمین سے کرنا چاہیے۔ اور زمین کا اطلاق صرف مٹی پر نہیں ہوتا؛ بلکہ پتھر، بالو کو بھی زمین کہتے ہیں ۔ 
اور یہ لوگ ریگستان میں رہنے کا حکم دریافت کرتے ہیں ، جہاں مٹی نہیں، بالو ہی بالو ہوتا ہے تو وہاں تیمم بھی بالو ہی پر ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف مٹی سے تیمم جائز ہے؛ بلکہ بالو وغیرہ پر بھی تیمم جائز ہے۔ اب اگر کسی حدیث میں مٹی کا ذکر ہے تو وہ اتفاقی ہے، احترازی نہیں۔ 
(۲) تیمم حدیث اصغر اور حدث اکبر دونوں سے ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ انھوں نے جنابت اور حیض و نفاس کا حکم دریافت فرمایا۔ 
(۳) دونوں کا تیمم ایک ہی طرح سے ہے، یعنی دو بار زمین پر ہاتھ مارنا۔ ایک بار منھ پر ملنا اور دوسری بار دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنا۔
قسط نمبر(15) کے لیے کلک کریں

7 Oct 2018

Gosol-e-Farz-e-Kifaya, Gosol-e- Wajib, Gosol-e-Masnoon, Gosol-e- Mostahab

غسل فرض کفایہ
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (13) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے ۔ فرض کفایہ وہ ہے کہ اگر ایک آدمی ادا کردے تو سب کے سر سے اتر جائے۔ 
غسل واجب
جنابت کی حالت میں کافر مسلمان ہو تو اب اس پر غسل کرنا واجب ہے ۔
عن ابی ھریرۃ فی قصۃ ثمامۃ بن اثال عند ما اسلم، امرہ النبی ﷺ ان یغتسل۔ (رواہ عبد الرزاق واصلہ متفق علیہ، بلوغ المرام ۲۱)
ثمامہ بن اثال کے قصہ کے بارے میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ان کو نبی کریم ﷺ نے غسل کا حکم دیا، جس وقت انھوں نے اسلام قبول کیا۔ 
غسل مسنون
چار چیز کے لیے غسل کرنا مسنون ہے: 
(۱) جمعہ کے لیے۔ 
(۲) عیدین کے لیے۔ 
(۳) احرام کے لیے۔ 
(۴) وقوف عرفہ کے لیے زوال کے بعد۔ 
جمعہ کے غسل کے بارے میں حضرت سمرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
من توضأ یوم الجمعۃ فبھا و نعمت، و من اغتسل فالغسل افضل۔ (رواہ الخمسۃ و حنسہ الترمذی، بلوغ المرام،ص؍۲۱)
جس شخص نے جمعہ کے دن وضو کیا تو وہ بہت کافی اور اچھا ہے اور جس نے غسل کیا، پس غسل بہتر ہے۔ 
عن الفاکہ قال: کان رسول اللّٰہ ﷺ یغتسل یوم الجمعۃ و یوم الفطر و یوم النحر و یوم عرفۃ۔ (رواہ احمد و الطبرانی)
حضرت فاکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ، عید، بقرعید اور عرفہ کے دن غسل فرماتے تھے۔ شیخ ابن الہمام نے کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (نور الہدایہ، ص؍۳۶)
عن زید بن ثابت انہ رایٰ النبی ﷺ تجرد لاھلالہ واغتسل۔ (رواہ الترمذی والدارمی)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے احرام کے لیے کپڑے اتارے اور غسل فرمائے۔ (زجاجہ، ھذا حدیث حسن ، نور الہدایہ ۳۶) 
عن ابن عمر انہ کان یغتسل یوم الفطر قبل ان یغدو۔ (رواہ مالک، زجاجہ، ص؍ ۱۵۲) 
اور یہ حدیث صحیح ہے۔ 
غسل مستحب
ان حالتوں کے اندر غسل کرنا مستحب ہے: 
(۱) میت کے غسل دینے کے بعد۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
من غسَّل میتا فلیغتسل۔ (ابن ماجہ، زجاجہ ۱۵۳)
جس نے میت کو غسل دیا اس کو غسل کرلینا چاہیے۔ 
(۲) طہارت کی حالت میں اسلام قبول کرنے کے بعد۔ 
عن قیس بن عاصم انہ اسلم، فامرہ النبی ﷺ ان یغتسل بماء سدر۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد والنسائی)
حضرت قیس ابن عاصم نے اسلام قبولا تو نبی کریم ﷺ نے ان کو بیر کے پتہ کے پانی سے غسل کرنے کو فرمایا۔
عن ابی واثلۃبن الاسقع قال: لما اسلمتُ اتیتُ النبی ﷺ فقال: اغتسل بماء سدر واحلق عنک شعر الکفر۔ (رواہ ابو نعیم و رویٰ الطبرانی فی الکبیر عن قتادۃ و ابی ھشام نحوہ رجالہ ثقات قالہ فی مجمع الزوائد، زجاجہ، ۱۵۳)
اسی واثلہ بن اسقع کو اسلام قبول کرنے کے بعد فرمایا : بیر کے پتے کے پانی سے غسل کر اور کفر کے بال مونڈ ڈال۔ 
بال مونڈنا، بیر کے پتے دے کر پانی اونٹاکر نہانا مستحب ہے ۔ اسی طرح خالص پانی سے غسل کرنا بھی مستحب ہے۔ 
(۳) مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے۔ حضرت نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر جب مکہ کے قریب پہنچتے تو ٹھہر جاتے اور ذی طویٰ میں رات گذارتے ، پھر فجر کی نماز پڑھتے اور غسل کرتے اور فرماتے کہ نبی کریم ﷺ ایسا کرتے تھے ۔ (بخاری، زجاجہ، ۱۵۳)
عن نافع قال: ان ابن عمر کان لایقدم مکۃ الا بات بذی طویٰ حتیٰ یصبح و یغتسل و یصلی فیدخل مکۃ نھارا۔ (متفق علیہ) 
(۴) مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لیے۔ 
(۵) مزدلفہ میں وقوف کے لیے۔ 
(۶) طواف زیارت کے لیے۔
(۷) پندرھویں شعبان کی رات۔ 
(۸) لیلۃ القدر معلوم ہونے پر اسی رات میں۔ 
(۹) عمر سے بالغ ہونے پر۔ 
(۱۰) جنون دور ہونے پر۔ 
(۱۱) سورج گرہن کی نماز کے لیے۔ 
(۱۲) استسقا کی نماز کے لیے ۔ 
(۱۳) خوف کے وقت۔ 
(۱۴) سخت تاریکی پھیلنے کی وجہ سے ۔ 
(۱۵) سخت آندھی کے وقت۔ 
(۱۶) پچھنے لگانے کے بعد ۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ چار چیز سے غسل کرتے تھے: جنابت سے۔ جمعہ کے دن۔ پچھنے سے۔ اور غسل میت سے۔ (ابو داؤد)

6 Oct 2018

Muslim Samaj Aur Abrahi Zehniyat

مسلم سماج اور ابرہی ذہنیت
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
امت مسلمہ کا دوسرا نام امت دعوت بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے ہر فرد میں دعوت کا کچھ نہ کچھ فطری جذبہ ضرور پایا جاتا ہے۔ اور اس جذبہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے؛ کیوں کہ سابقہ امتوں میں دعوت و ارشاد کا کام انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والتسلیم کے ساتھ مخصوص تھا، جب کہ اس امت کا ہر فرد براہ راست داعی کا فریضہ ادا کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ گویا دعوت، نبوی فریضہ ادا کرنے کی ایک امتیازی صفت ہے اور یہی وجہ اس کی مدح و توصیف کے لیے کافی ہے۔ چنانچہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جہاں چند جمعہ جمعہ پڑھنے والوں کے درمیان ایک پنج وقتہ نمازی ہوتا ہے، تو وہ ہر صدائے تکبیر کے وقت اپنے جمعہ ساتھیوں کو نماز کی دعوت دینا نہیں بھولتا ، اور یہ قابل تحسین جذبہ ہے۔ 
لیکن سماج کا عمومی تجزیہ ہمیں اس نتیجہ پر بھی پہنچاتا ہے کہ دعوت رسانی کا ہمارا یہ جذبہ بالعموم غیر ضروری اور لایعنی باتوں میں بھی الجھا دیتا ہے اور ہم فرائض و واجبا ت کے ترک پر تو کچھ نہیں کہتے ؛ البتہ مستحبات اور جائز کاموں کی اصلاح میں اپنی ساری توانائیاں صرف کردیتے ہیں۔ گویا ہمارے سوچنے کا انداز زمانہ جاہلیت کے انداز فکر سے کوئی بھی اختلاف نہیں رکھتا ۔ پورا سماج سوچ و فکر کے اسی نہج پر گامزن ہے، جس کی مثال ہمیں ابرہہ کی فکر میں ملتی ہے ، لہذا اگر ہم یہ کہیں کہ اتنے زمانے گذرجانے اورامت اتنی ترقیوں کے باوجود ابھی تک زمانہ جاہلیت کی ابرہی فکر سے آگے نہیں بڑھ پائی ہے تو یہ نہ مبالغہ ہوگا اور نہ ہی خلاف واقعہ حکایت۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ابرہہ کون ہے اور اس کا انداز فکر کیا تھا،تو وہ ذیل میں پیش ہے:
زمانہ جاہلیت میں بھی عرب سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں کعبہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی وابستگی عقیدت کے رشتے سے جڑی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اطراف عالم کے لوگ یہاں کھینچے چلے آتے تھے۔اقتصادی مرکزیت کی بنیاد یہی آمدو رفت کی کثرت تھی، جب کہ کعبہ کی تولیت سیاسی تفوق کا ذریعہ تھی۔عرب کی یہ بالادستی دیکھ کر مسیحیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چوں کہ عربوں کی یہ خصوصیات کعبہ کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں، اس لیے کعبہ کا کوئی متبادل تیار کیا جائے اور لوگوں کو مکہ کے بجائے یہاں اپنی گردن عقیدت خم کرنے کی دعوت دی جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے غالبا ۵۷۰، یا ۵۷۱ء قبل مسیح میں یمن کے گورنر ابرہہ نے اس کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک نہایت خوب صورت کلیسا بنایا اور لوگوں کو اس کے طواف و زیارت کی دعوت دی۔ اہل عرب نے اسے اپنے لیے بے عزتی سمجھی اور انھوں نے اس گرجا کو یا تو نذر آتش کردیا اور یاپاخانہ کرکے اس کے تقدس کو پامال کردیا۔ اس واقعہ سے ابرہہ بہت برہم ہوا اور اس نے کعبہ پر حملہ کی ٹھان لی، چنانچہ اپنی اور دیگر مسیحی سلطنتوں کے فوجی تعاون پر مشتمل تقریبا ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی کا لشکر لے کرمکہ آیا۔ مکہ پہنچتے ہی اس کے مقدمۃ الجیش نے اس کی گھاٹیوں میں چر رہے اونٹوں اور بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ان میں سے دو سو یا چار سو اونٹ آں حضرت ﷺ کے دادا جناب عبد المطلب کے بھی تھے۔ ابرہہ نے گفت و شنید کے لیے سردار قریش کو دعوت دی۔ چنانچہ عبد المطلب یہاں سے گئے۔ ابرہہ نے جب پہلی مرتبہ عبد المطلب کو دیکھا تو وجیہ حیثیت و ہیئت کو دیکھ کر بہت مرعوب ہوا اور بہت عزت و احترام کا معاملہ کیا۔ پھر اصل موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ابرہہ نے جب یہ کہا کہ میں تمھارے کعبہ کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں، اور ہمارے پاس بہت بڑی فوج ہے کیا تم اس کا مقابلہ کر پاؤگے؟ تم خانہ کعبہ کی کس طرح حفاظت کروگے؟ تو عبد المطلب نے کہا کہ تمھاری فوج نے ہمارے جن اونٹوں پر قبضہ کرلیا ہے، وہ مجھے لوٹا دو۔ یہ جواب سن کر ابرہہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ سوچنے لگا کہ جو کعبہ کا متولی ہے اور جس کی وجہ سے مذہبی ، سیاسی و اقتصادی بالادستی حاصل ہے ، وہ شخص کعبہ کی فکر کرنے کے بجائے اپنے چند اونٹوں کے لیے پریشان ہے! یہ کیسا آدمی ہے ، اس کے خیالات کتنے سطحی ہیں! یہ تو لایعنی اور غیر ضروری باتوں کو اہمیت دے رہا ہے۔ چنانچہ حیرت و استعجاب میں ابرہہ نے پوچھا کہ آپ کو اپنے اونٹ کی فکر ہے اور کعبہ کی کوئی فکر نہیں ہے؟ ! اس پر عبد المطلب نے جواب دیا کہ میں اونٹ کا مالک ہوں، اس کا تحفظ میرے ذمہ ہے، اس لیے میں اس کی فکر کر رہا ہوں۔ رہا خانہ کعبہ کو ڈھانے کی تو وہ اللہ کا گھر ہے۔ اللہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرلے گا۔ تم تو مجھے بس میرے اونٹ میرے حوالے کردو۔ چنانچہ ابرہہ نے اسے کعبہ ڈھانے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کی وجہ سے سارے اونٹ واپس کردیے اور اگلے دن اسے نیست و نابود کرنے کا تہیہ کرلیا۔ 
واقعہ اور دور تک جاتا ہے۔لیکن المختصر مضمون کی مناسبت سے اس واقعہ میں جو درس کا پہلو ہے، وہ یہ ہے کہ ابرہہ غیر اہم مطالبہ پرتو تعجب کا اظہار کر رہا ہے اور اونٹ طلبی پر بار بار متوجہ کر رہا ہے، لیکن اس سے بڑی جرات پر کوئی شرمندگی کا اظہار نہیں کر رہا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچ رہا ہے کہ اونٹ کا مالک جب اپنے اونٹ کے لیے اس قدر متفکر ہے ، تو جس قہار و جبار کایہ گھر ہے، وہ اپنے گھر کی حفاظت کے لیے کیا کچھ نہ کرے گا ۔ 
آج پورا مسلم سماج اسی فکر کا اسیر ہے۔ چند کھلی مثالیں پیش خدمت ہیں: 
(۱) مسلم سماج فرض کی ادائیگی سے کوسوں دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ چنانچہ پنج وقتہ نماز چھوڑنے پر آپ کو کوئی بھی نہیں ٹوکے گا۔ گھر میں مائیں بہنیں کھلی بے پردگی کی شکار ہوکر حرام میں مبتلا ہو رہی ہیں، اس پر کبھی نہیں تنبیہہ کی جاتی۔ لیکن اگر آپ کا روزمرہ لباس ٹوپی، کرتا اور پاجامہ ہے، اور اتفاق سے ایک دن دوسرے جائز لباس پہن لیں، تو آپ کی اصلاح و دعوت کے لیے پورا سماج اٹھ کھڑا ہوگا، اور جس گلی و راستہ سے گذریں گے ، ہر جگہ سے ابرہی حیرت و استعجاب میں صدائے دعوت و اصلاح بلند ہوگی کہ ابے میاں ! یہ کیا پہن رکھا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی اصلاح کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، جو خود غیر شرعی لباس میں ملبوس ہوں گے۔ 
(۲) عام افراد اپنی جائز یا ناجائز کمائی سے دنیا کے مزے لوٹیں، تو کوئی بات نہیں،اور نہ ہی انھیں کسی کو یہ کہنے کا حق ہے کہ آپ اپنی عیش کوشی کو جائز حدود تک ہی رکھیں۔ البتہ اگر ایک مولوی یا مولوی نما حضرات اپنی محنت و مشقت اور جائز کمائی سے چمچماتی گاڑیوں میں سیر کریں اور دنیا کی جائز عیش کوشیوں میں حصہ لیں، تو سماج کی عام ذہنیت ابرہی تعجب میں مبتلا ہوکر جملے کسنے لگتی ہے کہ ہوں، کہیں سے چندہ مارا ہوگا، کسی نے ہدیہ دیا ہوگا۔ 
(۳) مدرسے میں پڑھنے والے بالعموم غریب طلبہ ہوتے ہیں، یہ ایک زمین سچ ہے ، اس سے انکار ممکن نہیں۔ غربت کا یہ تصور سماج کو اس نظریے پر پہنچاتا ہے کہ وہ اسکول، کالج اور یونی ور سیٹیوں میں تعلیم پانے کا حق دار نہیں ہے۔ ایسے میں کوئی مولوی عصری اداروں کا رخ کرتا ہے توسماج ابرہی تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ملا کی دوڑ مسجد تک ہونی چاہیے، یونی ورسیٹی تک نہیں۔ 
(۴) کسی جائز مشاعرے میں غزل پر داد و تحسین کی برسات ہور ہی ہو، اور پورا مجمع غزل بدوش ہوجائے۔ اسی درمیان اگرکوئی تبلیغی جماعت سے وابستہ فرد یا ٹوپی کرتا میں ملبوس آدمی صدائے تحسین بلند کرنے لگے تو سماج کہنے لگتا ہے کہ دیکھو! مولوی صاحب غزل پر کتنے فریفتہ ہیں۔ اگر وہ مسکرا رہا ہو تو ، کہے گا کہ دیکھو مولوی مسکرا رہا ہے۔ گویا اس کا مسکرانا بھی سماج کے لیے حیرت و استعجاب کا سامان فراہم کرتا ہے۔ 
امت دعوت ہونے کا صحیح تقاضا یہ ہے کہ ہم فرض ، واجبات اور نفلوں کی پامالی پر خاموش نہ رہ سکیں، ان کی اصلاح و ارشاد کی مکمل کوشش کریں؛ لیکن اس جذبہ میں اس قدر غلو کہ جائز چیزوں پر تو تعجب کا اظہار کریں، لیکن ناجائز اور حرام پر تعجب تو دور ، اس کے حرام اور ناجائز ہونے کا احساس تک نہ ہو، سراسر اس جذبہ دعوت کے منافی ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلائے ، آمین۔

Gosol-e-Farz, Moojibat-e-Gosol

غسل فرض

موجبات غسل
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (12) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
پانچ چیزوں سے غسل کرنا فرض ہوتا ہے: 
اول: جماع سے خواہ قبل میں ہو یا دبر میں۔ صحبت کرنے سے مرد و عورت دونوں پر غسل واجب ہوتا ہے، خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ 
عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: اذا جلس احدکم بین شعبھا الاربع ثم جھدھا فقد وجب الغسل و ان لم ینزل۔ (رواہ مسلم، بلوغ المرام، ص؍۲۰)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب چاروں ہاتھ پاؤں کے درمیان بیٹھ جائے ، پھر کوشش میں لگ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے ، اگرچہ منی نہ نکلے۔ 
یہاں تک کہ اگر مرد صرف اپنی سپاری عورت کی شرم گاہ میں داخل کرکے فورا نکال لے، تو بھی غسل واجب ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا جاوز الختان الختان وجب الغسل۔
جب سپاری فرج میں داخل ہوئی غسل واجب ہوا۔ 
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں : میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے نہائے ہیں۔ البتہ ابتدائے اسلام میں فتح مکہ تک صرف صحبت سے غسل واجب نہیں ہوتا تھاجب تک کہ انزال نہ ہوجائے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ تک رسول اللہ ﷺ صحبت بلا انزال کرتے تھے اور غسل نہیں کرتے تھے ۔ اس کے بعد آپﷺ غسل کرتے تھے اور لوگوں کو اس کا حکم دیتے تھے۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ)
(۲) دوسرا احتلام سے ۔ کبھی انسان صحبت کا خواب دیکھتا ہے ، جس میں منی خارج ہوجاتی ہے ، تو منی خارج ہونے کی صورت میں غسل واجب ہوجاتا ہے ، خواہ یہ خواب مرد دیکھے یا عورت۔ اگر صرف خواب ہوا اور منی خارج نہ ہوئی تو غسل واجب نہ ہوگا۔ اگر خواب یاد نہ رہے ، لیکن کپڑے وغیرہ میں منی کا اثر پائے تو غسل واجب ہوگا۔ 
عن عائشۃ قالت: سئل رسول اللّٰہﷺ عن الرجل یجد البلل و لا یذکر احتلاما قال: یغتسل، و عن الرجل الذی یریٰ انہ قد احتلم و لا یجد بللا، قال: لا غسل علیہ۔ قالت ام سلیم: ھل علیٰ المرأۃ تریٰ ذالک غسل؟ قال: نعم، ان النساء شقائق الرجال۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد و رویٰ الدارمی وابن ماجہ الیٰ قولہ لا غسل علیہ)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو منی کی تری پاتا ہے اور خواب یاد نہیں پڑتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: غسل کرے۔ اور ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو خواب دیکھتا ہے ، لیکن تری نہیں پاتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس پر غسل نہیں ہے۔ حضرت ام سلیم نے عرض کیا : اگر عورت دیکھے تو کیا اس پر غسل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں،عورتیں مردوں کی مانند ہوتی ہیں۔ 
(۳) تیسرا: شہوت کے ساتھ منی نکلنے سے۔ کسی کو شہوت کی نظر سے دیکھا یا چھوا اور منی خارج ہوگئی، یا کسی جانور یا مردار سے صحبت کی اور منی خارج ہوگئی، یا ہاتھ، ران وغیرہ کی رگڑ سے منی خارج ہوگئی، تو ان صورتوں میں غسل واجب ہوگا جب کہ شہوت سے نکلی ہو۔ 
اگر بغیر شہوت کے منی نکلی تو غسل واجب نہ ہوگا۔ کسی نے سر پر مارا اور منی خارج ہوگئی یا گودنے سے یا بوجھ اٹھانے سے نکل گئی یا پیشاب کے ساتھ بلا شہوت نکل آئی تو غسل واجب نہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا خذفت الماء فاغتسل و اذا لم یکن خاذفا فلا تغتسل۔ (رواہ احمد)
جب منی پھینکے تو غسل کر اور جب پھینکنے والا نہ تومت غسل کر۔ 
یعنی منی اچھل کر نکلے تو غسل واجب ہوگا اور اچھل کر اسی وقت نکلتی ہے جب کہ شہوت ہو۔ معلوم ہوا کہ شہوت سے نکلنے سے ہی غسل واجب ہوتا ہے۔ 
(۴) چوتھا حیض سے ۔
(۵) پانچواں نفاس سے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 
و لا تقربوھن حتَّی یطھرن۔ (البقرۃ، ۲۲۲)
مت قریب ہو ان سے یہاں تک کہ خوب پاک ہولیں، یعنی غسل کرلیں۔ 
معلوم ہوا کہ حیض کے بعد غسل فرض ہے اور نفاس کے بعد غسل بالاجماع فرض ہے ۔ 
(حیض و نفاس کا بیان آگے آئے گا)
قسط نمبر (13) کے کلک کریں

5 Oct 2018

Sunan-e-Gosol

سنن غسل

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (11) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
غسل میں یہ چیزیں مسنون ہیں: 
(۱) بسم اللہ سے شروع کرنا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ 
کان رسول اللّٰہ ﷺ اذا مس طھورا سمیٰ اللّٰہ۔ (رواہ الدار قطنی فی سننہ) 
رسول اللہ ﷺ جب پانی کا استعمال فرماتے تو بسم اللہ کہتے تھے۔ 
(۲) غسل کی نیت کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
انما الاعمال بالنیات۔ 
عمل کا اعتبار نیت سے ہے۔ 
(۳) دونوں ہاتھوں کو کلائی تک دھونا۔ 
(۴) اگر کہیں نجاست لگی ہو، اس کو دھونا۔ 
(۵) شرم گاہ کو دھونا۔ 
(۶) وضو کرنا؛ مگر پاؤں نہ دھوئے اگر کھڑے ہونے کی جگہ میں پانی جمع ہوتو یا کیچڑ ہو ، تو پاؤں غسل سے فارغ ہوکر دھوئے ورنہ پہلے دھوئے۔ 
(۷) تین بار سر پر پانی بہانا۔ 
(۸) سارے بدن پر تین بار پانی بہانا۔ 
عن عائشۃ قالت: کان النبی ﷺ یحب التیمن مااستطاعفی شأنہ کلہ فی طھورہ و ترجلہ و تنعلہ (متفق علیہ)
پہلے دائیں مونڈھے پر ڈالے، پھر بائیں مونڈھے پر۔ اگر پانی میں غوطہ لگائے اور ذرا دیر تک پانی میں ڈوبا رہے تو تین بار پانی بہانے کے بجائے ایک ہی غوطہ کافی ہے۔ 
(۹) بدن کو ملنا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکی کے لیے مبالغہ کا صیغہ استعمال کیا ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ 
ان کنتم جنبا فاطھروا۔ (المائدۃ: ۶)
اگر تم جنبی ہو تو اچھی طرح پورے بدن کو پاک کرو۔ 
اور اچھی طرح پاکی ملنے ہی سے ہوسکتی ہے۔ 
(۱۰) پے درپے غسل کرنا۔ 
عن ابن عباس قال: قالت میمونۃ وضعتُ للنبی ﷺ غسلا فسترتہ بثوب فصب علیٰ یدیہ فغسلھا ثم ادخل یمینہ فی الاناء فافرغ بھا علیٰ فرجہ ثم غسلہ بشمالہ، ثم ضرب بشمالہ الارض فدلکھا دلکا شدیدا ثم غسل فمضمض واستنشق و غسل وجھہ و ذراعیہ ثم افرغ رأسہ ثلاث حثیات ملأ کفیہ ثم غسل سائر جسدہ ثم تنحی فغسل قدمیہ فناولتہ ثوبا فلم یاخذہ فانطلق وھو ینفض یدیہ۔ (متفق علیہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ اور میں نے آپ ﷺ کو کپڑے سے پردہ کیا ، تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اس کو دھویا۔ پھر دایاں ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس سے پانی لے کر شرم گاہ پر ڈالا اور بائیں ہاتھ سے اس کو دھویا۔ پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اس کو خوب رگڑا، پھر اس کو دھویا۔ پھر کلی کیا اور ناک میں پانی ڈالا اور منھ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی بھر کر ڈالے ، پھر سارے بدن کو دھویا، پھر ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ میں نے آپ ﷺ کو ایک کپڑا دیا، آپ ﷺ نے اس کو نہیں لیا اور اپنے ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے چلے گئے۔
اس حدیث سے حسب ذیل امور کا ثبوت ہوا: 
(۱) پردہ میں نہانا۔ 
(۲) نہانے سے پہلے دونوں ہاتھوں کا کلائی تک دھونا۔ 
(۳) دائیں ہاتھ پانی ڈالنا اور بائیں سے شرم گاہ کو دھونا۔ 
(۴) ہاتھ کو مٹی میں ملنا اور دھونا۔ 
(۵) وضو کرنا، مگر پاؤں غسل کے بعد اس جگہ سے ہٹ کر دھونا۔
(۶) پہلے سر کو دھونا۔
(۷) تمام بدن پر پانی بہانا۔ 
(۸) پے درپے نہانا۔ 
اس روایت میں سرکے مسح کا ذکر نہیں ہے ۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ 
ثم یتوضأ وضوۂ للصلاۃ۔ (مسلم)
پھر آپ ﷺ وضو کرتے جیسے کہ نماز کے لیے وضو کرتے ہیں۔ 
اور نماز کے لیے جو وضو ہوتا ہے، اس میں سر کا مسح بھی ہوتا ہے ، اس لیے سر کا مسح بھی کرے۔ 
اگر ننگا نہائے تو پردہ کرکے نہائے ، کھلے میدان میں نہانا ممنوع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کھلے میدا ن میں ننگا غسل کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ منبر پر چڑھے، پھر اللہ کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا: 
ان اللّٰہ حی ستیر یحب الحیاء والتستر فاذا اغتسل احدکم فلیستر۔ (رواہ ابو داؤد عن یعلی)
بے شک اللہ تعالیٰ حیا والا پردہ دار ہے، حیا اور پردہ کو دوست رکھتا ہے ، اس لیے جب تم نہاؤ تو پردہ کرلو۔ 
اور جب ننگا نہائے تو کسی قسم کی گفتگو نہ کرے ، نہ دنیا کی باتیں کرے اور نہ ذکر ہی کرے ۔ اگر ستر چھپا کر نہائے تو اس میں بھی کلام نہ کرے کہ سنت کے خلاف ہے ۔ ذکر اللہ اس لیے نہ کرے کہ وہ گندی جگہ ہے ۔ پانی کے استعمال میں نہ حد سے زیادہ کمی کرے نہ اسراف کرے۔ 
عن انس قال: کان النبی ﷺ یتوضأ بالمد و یغتسل بالصاع الیٰ خمسۃ امداد۔ (متفق علیہ) 
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے پانچ مد تک سے غسل فرماتے تھے ۔
اسی تولہ کا ایک مد ہوتاہے اور ایک صاع ساڑھے تین سیر اسی تولہ کے سیر سے ہوتا ہے تو آپﷺ ایک سیر پانی سے وضو اور ساڑھے تین سیر پانی سے پانچ سیر پانی تک سے غسل فرماتے تھے۔ 
غسل کے بعد وضو نہیں کرنا چاہیے ، اس لیے کہ غسل کے ساتھ وضو بھی ہوگیا، اسی وضو سے نماز پڑھے۔ 
عن عائشۃ قالت: کان النبی ﷺ لایتوضأ بعد الغسل۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد والنسائی، وابن ماجہ وا سنادہ صحیح)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔
قسط نمبر (11) کے لیے کلک کریں

4 Oct 2018

Gosol ka Bayan, Fariz-e- Gosol

غسل کا بیان

فرائض غسل
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (10) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
غسل میں تین چیزیں فرض ہیں: 
(۱) کلی کرنا۔ 
(۲) ناک میں پانی ڈالنا۔ 
(۳) ایک مرتبہ سارے بدن پر پانی بہانا۔ 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
و ان کنتم جنبا فاطھروا۔ (المائدہ: ۶)
اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارا بدن پاک کرو۔ 
اور سارے بدن میں منھ اور ناک بھی ہے، اس لیے غرغرہ کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی اس آیت سے فرض ہے۔ حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب جنابت میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول جاؤ تو اپنی نماز کو دوہراؤ۔ (مسند عبد الرزاق ، سعید بن منصور)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
المضمضۃ والاستنشاق للجنب فریضۃ۔ (رواہ الامام ابو برکۃ الخطیب من جھۃ الدار قطنی و لیس فیہ راو ضعیف، زجاجہ ۱۱۲)
کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈال کر سنکنا جنبی کے لیے فرض ہے۔ 
عن علیؓ قال رسول اللّٰہ ﷺ : من ترک موضع شعرہ من جنابۃلم یغسلھا فعل بھا کذا و کذا من النار، قال علیؓ: فمن ثم عادیت راسی فمن ثم عادیت راسی ثلاثا۔ (رواہ ابو داؤد و سکت عنہ ، و فی التلخیص الجیر اسنادہ صحیح) 
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے غسل جنابت میں بال بھر جگہ چھوڑ دی ، جس کو انھوں نہیں دھویا، تو اس کی وجہ سے اس کے ساتھ ایسا ایسا معاملہ آگ کا کیا جائے گا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں اپنے سر کا دشمن ہوں ، اسی وجہ سے میں اپنے سر کا دشمن ہوں ، تین بار فرمایا۔ 
حضرت علیؓ اسی وجہ سے سر میں زلف نہیں رکھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بال کی وجہ سے سر میں کوئی جگہ سوکھی رہ جائے اور پھر عذاب اور دوزخ میں مبتلا ہونا پڑے، اس لیے برابر سر کو منڈواتے رہتے تھے۔ یہی سر کے ساتھ ان کی دشمنی تھی۔ 
معلوم ہوا اگر بدن میں کہیں بھی بال کے برابر خشک جگہ رہ گئی ،تو اس کا غسل صحیح نہیں ہوگا، اس لیے ناف کے اندر انگلیوں کے درمیان ، تمام بالوں کا اور سر اور داڑھی اور مونچھ اور بھؤوں کے بالوں کے اندر کی کھال کو تر کرنا، غیر مختون کے لیے کھال کے نیچے اور فرج خارج تک پانی پہنچانا فرض ہوگا۔ اگر کان میں بالی اور ناک میں نتھ ہو تو ان کے سوراخوں کے اندر بھی پانی پہنچانا فرض ہے ۔ اگر انگوٹھی، چوڑی سخت ہو تو اس کو ہلاکر پانی پہنچانا ضروری ہے ۔ اگر ناخن میں آٹا یا کوئی ایسی چیز جو اندر پانی پہنچنے نہ دے ، تو اس کو چھڑا کر اس جگہ پانی پہنچانا ضروری ہے ، ورنہ غسل نہ ہوگا۔ یا بدن کے کسی حصہ میں کوئی ایسی چیز ہو جو اندر پانی نہ پہنچنے دیتا ہو، تو اس کو دور کرکے دھونا اور پانی پہنچانا ضروری ہے، اس لیے کہ یہ بھی بدن کے حصے ہیں ۔ اور تمام بدن کا دھونا فرض ہے ؛ البتہ عورتوں پر جب کہ بال گوندے ہوئے ہوں تو بالوں کا کھول کر تر کرنا ضروری نہیں، صرف بال کے جڑوں کا تر کرنا ہی کافی ہے۔ 
عن ام سلمۃؓ قالت: قلتُ یا رسولَ اللّٰہ ﷺ انی امرء ۃ اشد ضفرَ راسی افانقضہ لغسل الجنابۃ، فقال: لا انما یکفیک ان تحثی علیٰ راسک ثلاث حثیات ثم تفیضین علیکِ الماء فتطھرین۔ (رواہ مسلم) 
حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! میں اپنے سر کے بالوں کو گوند لیتی ہوں، کیا میں غسل جنابت کے لیے ان کو کھول لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں تجھ کو اپنے سر پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے ۔ پھر اپنے بدن پر پانی بہالو، پاک ہوجاؤ گی ۔ 
بدن پر تیل مالش کرکے غسل کرنا درست ہے۔
قسط نمبر (11) کے لیے کلک کریں

3 Oct 2018

Aqsaame Wazoo

اقسام وضو
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (9) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
وضو کی تین قسمیں ہیں: 
(۱) فرض : اگر وضو نہ ہوتو ہر قسم کی نماز اور سجدہ تلاوت اور قرآن مجید کو چھونے کے لیے خواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو، وضو کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ 
یاایھا الذین اٰمنوا اذا قمتم الیٰ الصلاۃ فاغسلوا (المائدہ، ۶)
ائے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو وضو کرو۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاتقبل صلاۃ بغیر طھور (مسلم)
بغیر طہارت کے نماز نہیں ہوتی۔ 
قرآن کے بارے میں فرمایا
لایمسہ الا المطھرون
بغیر پوری طہارت کے قرآن نہ چھوئے۔ 
(۲) واجب: خانہ کعبہ کے طواف کے لیے وضو کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
الطواف حول البیت مثل الصلاۃ (ترمذی)
نماز کی طرح بیت اللہ کا طواف کرنا ہے۔ 
یعنی نماز کی طرح بیت اللہ کے لیے طہارت شرط ہے ۔مگر چوں کہ خبر واحد سے ثابت ہورہا ہے، اس لیے وجوب کے قائل ہوئے۔ 
(۳) مستحب: سونے کے لیے، سوکر اٹھنے کے بعد، برابر باوضو رہنے کے لیے، وضو پر وضو کرنا، غیبت، جھوٹ، چغلی ؛ ہر قسم کے گناہ اور غزل پڑھنے کے بعد، خارج نماز میں کھل کھلاکر ہنسنے کے بعد، میت کو غسل دینے اور اس کو اٹھانے کے لیے ، ہر نماز کے وقت کے لیے، غسل جنابت سے پہلے، جنابت کی حالت میں کھانے، پینے، سونے اور وطی کرنے کے لیے، غصہ ہونے پر، قرآن وحدیث کے پڑھنے اور اس کی روایت کے لیے، دینی تعلیم دینے کے لیے ، اذان و اقامت اور خطبہ کے لیے، نبی کریم ﷺ کی زیارت کے لیے،وقوف عرفات کے لیے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کے لیے، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد اور علما کے اختلاف سے نکلنے کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔ (نور الایضاح)

2 Oct 2018

Nawaaqize Wazoo


نواقض وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (8) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جن چیزوں سے وضو باقی نہیں رہتا ہے اور دوبارہ وضو کرنا ہوتا ہے، اس کو ناقض وضو کہتے ہیں ۔ اس کی جمع نواقض آتی ہے ۔ حسب ذیل چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے: 
(۱) پیشاب کے راستے سے ہوا نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس کے علاوہ پیشاب اور پاخانہ کے راستے سے جتنی چیزیں نکلیں، ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا ینقض الوضوء الا ما خرج من قبل او دبر۔ (رواہ الدار قطنی عن ابن عمر، من طریق مالک، حاشیہ کنز، ص۷)
جو کچھ آگے اور پیچھے کی راہ سے نکلتا ہے، وہی وضو کو توڑتا ہے۔ 
معلوم ہوا کہ ان دونوں راستوں سے جو کچھ بھی نکلے گا، وہ وضو کو توڑ دے گا، جیسے پیشاب، پاخانہ، منی، مذی ، کیڑا، کنکر، خون اور ہوا۔ 
استنجے کے بارے میں تیمم کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
او جاءَ احد منکم من الغائط۔ (النساء، ۴۳)
یا تم سے کوئی استنجے سے آیا ہو۔ 
یعنی اس سے بھی وضو نہیں رہتا ہے، استنجے سے فارغ ہونے کے بعدپانی نہ ملے تو وضو کے بدلہ میں تیمم کرے۔ معلوم ہوا کہ استنجے سے (وضو)ٹوٹ جاتا ہے، جب ہی تو تیمم کی حاجت ہوئی۔ 
حدث کے بارے میں فرمایا: 
عن ابی ھریرۃؓ قال، قال رسول اللّٰہ ﷺ : لاتقبل صلاۃ من احدث حتیٰ یتوضأ۔ (متفق علیہ)
جس نے ہوا خارج کی، اس کی نماز مقبول نہیں، یہاں تک کہ وضو کرلے۔ 
مذی کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
عن علیؓ قال، کنتُ رجلا مذّا ء فکنتُ استحیی ان اسئل رسولَ اللّٰہ ﷺ لمکان ابنتہ فامرتُ المقداد بن الاسود فسئلہ، فقال: یغسل ذکرہ و یتوضأ (متفق علیہ)
ذکر کو دھولے اور ضو کرلے۔ 
(۲) ان دونوں مقام کے علاوہ اگر کہیں اور سے نجاست نکل کر بہہ جائے اور بہہ کر ایسی جگہ پہنچ جائے، جس کا وضو اور غسل میں دھونا ضروری ہو ، تواس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ، جیسے: خون، پیپ، زخم کا پانی وغیرہ۔ 
خون کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: 
الوضوء من کل دم سائلٍ۔ (رواہ الدار قطنی) 
بہتے ہوئے خون سے وضو ہے۔ 
فاطمہ بنت حبیشؓ نے آپ ﷺ سے استحاضہ کے بارے میں سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
توضئی لکل صلاۃٍ، حتیٰ یجئی ذالک الوقت۔ (بخاری) 
ہر نماز کے لیے وضو کرو، جب وقت آجائے۔ 
استحاضہ وہ خون ہے جو رگ کے پھٹنے سے نکلتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، خواہ کہیں سے نکلے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی نماز میں نکسیر پھوٹتی تو جاکر وضو کرتے اور اس نماز کو پوری کرتے اور کلام نہ کرتے۔ (موطا امام مالک، ص۱۴) ۔ 
اسی طرح دوسری نجاستوں کو سمجھو۔ اگر منھ سے خون نکلے اور تھوک کو رنگین کردے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ 
(۳) بھر منھ قے ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اگر ایک ہی متلی سے چند بار تھوڑی تھوڑی قے ہو، مگر مجموعہ بھر منھ کی مقدار ہوجائے تو وہ بھی ناقض وضو ہے ۔ 
عن حسین المعلم بسندہ الیٰ معدان بن ابی طلحۃ عن ابی الدرداء ان النبی ﷺ قاء، فتوضأ، قال: لقیت ثوبانَ فی مسجد دمشق فذکرتُ ذالک لہ، فقال: صدق، و انا صببتُ علیہ وضوۂ۔ (رواہ ابو داؤد، والترمذی، والنسائی)
حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قے کی پس وضو کیا۔ راوی کا بیان ہے کہ دمشق کی مسجد میں حضرت ثوبانؓ سے ملاقات کی اور میں نے اس کا تذکرہ ان سے کیا، تو حضرت ثوبانؓ نے فرمایا : سچ ہے، میں نے آپ ﷺ کو وضو کرایا ہے۔ 
خالص بلغم کی قے ہوتو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ بلکہ اس کے علاوہ جو کچھ قے ہو، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، جب کہ بھر منھ ہو، جیسے: کھانا، پانی ، پت وغیرہ۔ 
(۴) کروٹ یا چت یا کسی چیز سے سہارا لگا کر اس طرح بے خبر سونا کہ اگر اس کو ہٹا لیا جائے تو وہ گر جائے، اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ لیکن نیند حقیقت میں ناقض وضو نہیں ہے؛ بلکہ سونے کی وجہ سے مفاصل ڈھیلے ہوجاتے ہیں، جس سے ہوا خارج ہونے کا امکان رہتا ہے، اس وجہ سے نیند کو ناقض وضو کہا گیا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الوضوء علیٰ من نام مضطجعا، فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد عن بن عباس، زجاجہ ۷۸)
وضو کروٹ سونے والے پر ہے ، اس لیے کہ جب کروٹ سوتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے پڑجاتے ہیں ۔ (جس سے ہوا خارج ہوجایا کرتی ہے ۔ ) 
دوسری حدیث میں ہے کہ 
انما العینان وکاء السہ، فاذا نامت العین استطلق الوکاء (الدارمی) 
آنکھیں پاخانہ کے مقام کی ڈاٹیں ہیں، جب آنکھیں سوجاتی ہیں، تو ڈانٹیں کھل جاتی ہیں۔
اسی لیے اگر مفاصیل ڈھیلے نہ ہوں تو وضو نہیں ٹوٹتا، جیسے کہ کھڑے کھڑے سونا، چوتڑ کے بل بیٹھ کر سونا، سجدہ میں سونا، بیٹھے بیٹھے اونگھنا، نماز کی کسی حالت پر سونا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ 
لیس علیٰ المحتبی النائم و لا علیٰ القائم النائم ولا علیٰ الساجد النائم، حتیٰ یضطجع، فاذا اضطجع توضأ۔ (رواہ البیھقی فی المعرفۃ، و قال الحافظ فی التلخیص اسنادہ جید) 
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ چوتڑ زمین پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں سے پاؤں کا حلقہ باندھ کرسونے والے پر اور کھڑے کھڑے سونے والے پر اور سجد میں سونے والے پر وضو نہیں ہے ، یہاں تک کہ کروٹ لیٹ جائے ۔ جب لیٹ کر سو گیا، تو وضو کرے۔ 
ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ سجدہ میں سو کر خراٹے بھرنے لگے۔ پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے ۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ تو سو گئے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ 
ان الوضوء لایجب الا علیٰ من نام مضطجعا، فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ۔ (رواہ ابو داود والترمذی، زجاجہ، ص؍ ۷۷) 
وضو کروٹ سونے والے پر ہی واجب ہوتا ہے ، اس لیے کہ جب کروٹ سوتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ 
(۵) بیہوش ہوجانے سے ۔ (۶) پاگل ہوجانے سے ۔ (۷) نشہ میں ہوجانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس لیے کہ یہ حالات نیند سے بھی زیادہ بے خبری کے ہیں، اس لیے وضو اس سے بھی جاتا رہے گا۔ 
(۸) رکوع سجدہ والی نماز میں بالغ نمازی کا بیداری کی حالت میں ہنسنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
عن بن عمرؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من ضحک فی الصلاۃ قھقھۃ فلیعد الوضوءَ والصلاۃَ۔ (رواہ ابن عدی فی الکامل)
جو شخص نماز میں کھل کھلا کر ہنسے، وہ وضو اور نماز کو لوٹائے۔ 
معلوم ہوا کہ نماز میں ہنسنے سے وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جاتے ہیں ۔ چوں کہ یہ خلاف قیاس حکم ہوا ہے، اس لیے دوسری حالت کو اس پر قیاس نہیں کریں گے۔ اور یہ حکم آپ ﷺ نے اس وقت دیا، جب کہ آپ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے ، اتنے میں ایک شخص آیا ، جس کی بینائی میں کچھ خرابی تھی۔ مسجد میں ایک گڑھا تھا ، اس میں آگرا ، تو بہت سے لوگ نماز ہی میں ہنس پڑے۔ آں حضرت ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص ہنسا ہے وہ وضو اور نماز دونوں کو لوٹائیں۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر)
اسی لیے نماز سے باہر ہنسنے میں یا جنازہ کی نماز میں ہنسنے سے یا نابالغ بچوں کے ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اسی طرح مسکرانے اور آہستہ ہنسنے سے کہ دوسرا نہ سن سکے، وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اسی طرح اگر نماز میں ہیئت مسنون پر سوگیا اور خواب میں ہنس پڑا تو اس سے بھی وضو نہیں ٹوٹے گا۔ 
(۹) مباشرت فاحشہ سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ مباشر فاحشہ اس کو کہتے ہیں کہ مرد اپنی کھڑی قضیب کو بلا پردہ عورت کی شرم گاہ سے مس کرے اور اندر داخل نہ کرے۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو ایک اجنبی عورت سے ملتا ہے اور جماع کے علاوہ تمام فعل اس سے کر گذرتا ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے 
اقم الصلاۃ طرفی النھار و زلفا من اللیل ان الحسنات یذھبن السیئات ذالک ذکریٰ للذاکرین۔ 
نازل کیا۔ آپ ﷺ نے اس کو وضو کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت معاذؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ خاص حکم اسی کے لیے ہے یا عام ایمان والوں کے لیے ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: عام ایمان والوں کے لیے ہے ۔ 
رواہ الترمذی، قال صاحب البدائع: ھذا حدیث حسن فیہ دلیل علیٰ ان المباشرۃ الفاحشۃ تنقض الوضوء ، زجاجۃ ص۸۲)
چوں کہ اس نے جماع کے علاوہ سب ہی کچھ کرڈالا تھا ، اس لیے التقائے ختانین بھی ہوا۔ اس پر آپ ﷺ نے وضو اور نماز کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہو اکہ یہ ناقض وضو ہے ۔ اس کے سوا یہ بات بھی ہے کہ ایسی حالت میں خروج مذی بھی ہو ہی جاتی ہے ، اس لیے ناقض وضو کہا، اگرچہ مذی نہیں نکلی۔ جیسا کہ نیند میں ریاح خارج ہو ہی جاتی ہے ، اس لیے اس کو ناقض وضو کہا، اگرچہ ریاح خارج نہیں ہوئی۔ 
بلا پردہ ذکر کے چھونے اور عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ حضرت طلق بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی وضو کے بعد اپنا ذکر چھوئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: 
ھل ھو الا بضعۃ منہ۔ (ابو داؤد، والترمذی، والنسائی وابن حبان فی صحیحہ و محمد فی المؤطا و قال الترمذی: ھذا الحدیث احسن شئی یرویٰ فی ھذا الباب) 
وہ بھی تو اس کے بدن کا ایک ٹکڑا ہے ۔ جس طرح بدن کے دوسرے حصے کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اسی طرح اس کے چھونے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ 
حضرت ابن عباسؓ سے ذکر چھونے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ ناک نہ چھوا اس کو چھوا۔ (طحاوی، زجاجہ ، ؍۷۱) ۔ حضرت حذیفہؓ نے فرمایا کہ اس کا چھونا اور سر کا چھونا برابر ہے ۔ (محمد امام محمد، طحاوی، ابن ابی شیبہ، زجاجہ ۷۹) ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا : اسے کاٹ کیوں نہیں دیتے۔ پھر فرمایا: جیسے اور حصہ بدن ہے ، ویسا وہ بھی ہے ۔(موطا امام محمد، زجاجہ ۷۹)۔ حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ نے فرمایا کہ اگر تم اس کو نجس سمجھتے ہو تو کاٹ ڈالو۔ طبرانی فی الکبیر، زجاجہ، ص۷۹)۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ 
ان النبی ﷺ کان یقبل بعض نساۂ فلا یتوضأ۔ (رواہ البزار فی مسندہ باسناد حسن، کبیری ۱۴۲) 
نبی کریم ﷺ اپنی بعض عورتوں کا بوسہ لیتے تھے پھر وضو نہیں کرتے۔
بوسہ جیسے اہم معاملہ میں وضو نہیں کرتے تھے تو اور دوسری طرح چھونے سے وضو کیسے لازم ہوگا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے سامنے پیر پھیلاکر لیٹتی تھی اور میرے دونوں پیر حضور ﷺ کے قبلہ کی طرف ہوتے۔ جب حضور ﷺ سجدہ میں جاتے، تو میرا پاؤں چھوتے تو میں اپنا پیر سمیٹ لیتی اور جب کھڑے ہوتے، تو ان کو پھیلا دیتی۔ اور ان دنوں گھر میں چراغ نہیں تھا۔ 
(رواہ محی السنۃ و رویٰ البخاری و مسلم والنسائی نحوہ و قال الزیلعی : و اسناد النسائی علیٰ شرط الصحیح، زجاجہ، ۸۰)
اور بھی حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں حضورﷺ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی تومیں نے آپ ﷺ کو رات میں نہیں پایا تو میں نے آپ ﷺ کو دونوں ہاتھ سے چھوا تو میرا ہاتھ آپ ﷺ کے دونوں قدموں پر پڑے اور آپ ﷺ سجدہ میں تھے اور دعا کر رہے تھے ۔ (محی السنہ)
پہلی حدیث سے حضورﷺ کا چھونا اور دوسری حدیث سے حضرت عائشہؓ کا چھونا نماز کی حالت میں ہوا۔ اگر ناقض وضو ہوتا تو نماز ہی صحیح نہیں ہوتی۔معلوم ہوا عورت کا چھونا ناقض وضو نہیں ہے۔ اسی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ قرآن میں جو اولامستم النساء ہے، اس سے مراد جماع ہے ، ہاتھ سے چھونا نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ 
اللمس ھو الجماع ولکن اللّٰہ کنیٰ عنہ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ وابن جریر، زجاجہ ۸۰)
لمس سے مراد جماع ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماع کو لمس سے کنایہ کیا ۔ 
مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ عورت کا بوسہ لینا اور خوشبو سونگھنا برابر ہے ۔ (رواہ عبد الرزاق ) اور لامستم النساکے بارے میں فرمایا: اس سے مراد جماع ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و ابن جریر، زجاجہ ۸۰)۔
قسط نمبر (9) کے لیے کلک کریں

1 Oct 2018

Makroohate Wazoo

مکروہات وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (7) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
ناپسندیدہ فعل کو مکروہ کہتے ہیں ۔ اس کی دو قسمیں ہیں: تحریمی اور تنزیہی۔ 
مکروہ تحریمی: وہ ہے کہ جس کی ممانعت دلیل ظنی سے ثابت ہو۔ اس کا چھوڑنا واجب ہوتا ہے ۔ 
اور مکروہ تنزیہی : وہ ہے کہ جس کے دلیلوں میں تعارض ہو۔ اور اس کا چھوڑنا اولیٰ ہوتا ہے۔ 
وضو میں یہ چیزیں مکروہ ہیں: 
(۱) پانی میں اسراف کرنا، اگرچہ نہر کے کنارہ ہو ۔ یا حد سے زیادہ کمی کرنا کہ دھونے میں صرف دو چار قطرہ پانی ٹپکے، یہ مکروہ تحریمی ہے ۔ 
(۲) منھ پر زور سے پانی مارنا۔ 
(۳) بلاحاجت دنیا کی باتیں کرنا۔ 
(۴) وضو کرنے میں دوسرے سے مدد لینا۔ 
(۵) سر کا مسح تین بار کرنا اور ہر بار نیاپانی لینا۔ 
(۶) خلاف سنت وضو کرنا۔
قسط نمبر (8) کے لیے کلک کریں