تیمم کا بیان
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (14)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کے ہیں۔ چوں کہ اس سے طہارت ، ارادہ کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے، اس لیے اس کو تیمم کہتے ہیں۔
وضو و غسل کی حاجت ہو اور وضو و غسل کے لائق پانی پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں وضو و غسل کے بجائے تیمم کرلینے سے انسان پاک ہوجاتا ہے۔ اگر اتنے پانی پر قادر ہو کہ اس سے بعض اعضا تو دھو سکتے ہیں، پورا وضو نہیں ہوسکتا ہے تو بعض اعضا کو نہ دھوئے ؛ بلکہ تیمم کرے ۔ اگر وضو و غسل دونوں کی حاجت ہے اور پانی اتنا ہی ہے کہ اس سے وضو تو کرسکتا ہے؛ مگر غسل نہیں ہوسکتا ہے تو وہ دونوں کا تیمم کرے۔
پانی پر قادر نہ ہونے کی مختلف صورتیں ہیں:
(۱) پانی ہے؛ مگر اس کا استعمال اس کو نقصان پہنچاتا ہے : بیمار ہونے کا ڈر ہے ، یا صحت میں تاخیر کا اندیشہ ہے ، یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہے ، یا ہلاکت کا اندیشہ ہے۔
(۲) پانی ہے ؛ مگر کھانے پینے کی حاجت سے زائد نہیں ہے۔ اگر پانی وضو یا غسل میں استعمال کرتا ہے تو بھوک پیاس سے ہلاک ہوتا ہے۔
(۳) پانی پاس نہیں ہے، پانی سے ایک میل یعنی چار ہزار قدم دور ہے ، یا پانی ہے مگر وہاں تک پہنچ نہیں سکتا، اس لیے کہ وہاں دشمن یا درندہ ہے ، یا کنویں میں ہے مگر ڈول رسی نہیں ہے جس سے نکال سکے۔ یا دوسرے کے پاس پانی ہے اور مانگنے پر بھی نہیں دیتا ہے۔ یا نزدیک میں پانی ملنے کا گمان ہے اور اس گمان پر چار سو قدم تک ڈھونڈھتا ہے ، پھر بھی نہیں ملتا ہے ۔ یا کوئی پانی مفت تو نہیں دیتا، وہ بیچتا ہے اور جو قیمت چاہے اسی قیمت میں دیتا ہے، لیکن پاس میں ضرورت سے زائد پیسے نہیں ہیں ۔ یا پیسے تو ہیں، لیکن قیمت واجبی سے زائد مانگتا ہے، ان تمام صورتوں میں ان کے لیے تیمم کرنا درست ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
ان کنتم مرضیٰ او علیٰ سفر او جاء احدمنکم من الغائط او لامستم النساء فلم تجدوا ماء ا، فتیمموا صعیدا طیبا فامسحو بوجوھکم و ایدیکم (النساء، آیۃ:۴۳)
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے فارغ ہوکر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو، پھر پانی نہ پاؤ، تو جنس زمین سے تیمم کرو اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو۔
اس آیت کے اندر پانی کا عذر تین صورتوں سے بتایا:
(۱) مریض ہو، پانی ضرر کرتا ہے۔
(۲) سفر درپیش ہے دور تک پانی ملنے کی امید نہیں ہے ۔ پاس میں پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے ہے ، اس لیے کہ مسافر کھانے پینے کے لیے پانی ضرور رکھتا ہے ، ورنہ سفر میں ہلاک ہوجائے گا۔
(۳) پانی موجود ہی نہیں۔
اور طہارت کا ضروری ہونا دو صورتوں میں بتایا:
(۱) پیشاب پاخانہ سے آیا ہے وضو کی حاجت ہے۔
(۲) عورت سے صحبت کی ہے ، غسل کی حاجت ہے ۔ الغرض اس آیت کے اندر نجاست حکمیہ سے خواہ حدث اصغر ہو یا حدث اکبر ، پانی پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا بتایا ہے ۔
اگر وضو میں مشغول ہونے سے کسی ایسی عبادت کے فوت ہونے کا ڈر ہو، جس کا کوئی بدل نہ ہو، یا اس کی قضا نہ ہوتو اس وقت پاس پانی رہتے ہوئے بھی تیمم کرکے اس عبادت میں شریک ہوسکتا ہے ، جیسے عیدین کی نماز ، جنازہ کی نماز غیر ولی کے لیے۔
عن بن عباس قال: قال رسول ﷺ : اذا جاء ت الجنازۃ و انت علیٰ غیر وضوء فتیممْ۔ ( رواہ ابن عدی، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب جنازہ آجائے اور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کرلو۔
یعنی تیمم کرکے جنازہ کی نماز میں شریک ہوجاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : جب کہ جنازہ کی نماز فوت ہونے کا ڈر ہواور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کراور نماز پڑھ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و رجالہ رجال مسلم الاالمغیرۃ وھو یحتج بہ قالہ الزیلعی، زجاجہ ۱۴۹)
لیکن ولی کے لیے جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی اجازت کے بغیر دوسرا پڑھا نہیں سکتا ہے ۔ اور اگر پڑھا دے گا تو اس کو دوبارہ پڑھنے کا حق ہے ، اس لیے ولی کی نماز جنازہ فوت ہونے کا احتمال نہیں ہے ۔ اسی طرح جمعہ اور پنج وقت نماز کے لیے وقت تنگ ہونے سے یا جمعہ کے چھوٹنے کے خوف سے تیمم جائز نہیں، اس لیے کہ جمعہ کے بدلے میں ظہر ہے اور ادا کے بدلہ میں قضا ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ذات السلاسل کی جنگ میں بھیجا۔ مجھے سخت سردی کی رات میں احتلام ہوگیا۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر نہاؤں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا، تو میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ائے عمرو! تونے اپنے ساتھیوں کو ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھائی؟ میں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ!میں سخت سردی کی رات میں محتلم ہوا، میں ڈرا اگر غسل کروں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا اور میں نے اللہ کا قول یاد کیا کہ
لاتقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیما۔ (النساء، ۲۹)
اپنے کو ہلاک مت کرو، اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔
تو میں نے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ اس پر ہنسے اور کچھ نہ فرمایا( احمد، ابو داود، حاکم ، منذر، ابن ابی حاتم) زجاجہ، ۱۴۸)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر تندرست آدمی کو بھی پانی نقصان پہنچائے تو تیمم کرنا درست ہے ؛اگرچہ غسل کا تیمم ہو۔ اور ایسی عبادت کے لیے بھی تیمم جائز ہے، جس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے، شرط نہیں ہے، جیسے زبانی قرآن شریف پڑھنا، یا سلام کرنا، یا جواب دینا وغیرہ۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص آں حضرت ﷺ کے پاس سے ایک گلی میں گذرا اور نبی ﷺ پیشاب یا پاخانہ سے نکلے تھے کہ اس نے سلام کیا، تو آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ دیوار پر مارے، اس سے چہرہ کا مسح کیا،پھر دوبارہ ہاتھ مارے اور اپنے ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کیا، پھر اس شخص کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تجھے سلام کا جواب دینے سے بے وضو مانع ہوا۔
( اس کو ابو داؤد و طبری نے روایت کیا ہے۔ نور الہدایہ، ۵۲)
تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ جنس زمین سے کوئی چیز ہونا ضروری ہے۔ جنس زمین وہ ہے کہ نہ آگ میں جل کر راکھ ہواور نہ پگھلے، جیسے مٹی، مٹی کی بنی ہوئی کچی پکی اینٹیں، برتن، چونا ،گچ،ہر قسم کے پتھر، بالو وغیرہ۔
سونا چاندی، رانگ ، سیسہ وغیرہ دھات سے تیمم جائز نہیں ، کیوں کہ یہ سب چیزیں آگ سے پگھلتی ہیں۔ اور لکڑی کوئلہ وغیرہ سے بھی جائز نہیں ، کیوں کہ یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح راکھ سے بھی تیمم جائز نہیں؛ الغرض جو جنس ارض سے نہیں، اس سے تیمم جائز نہیں، مگر یہ کہ اس پر گرد ہو تو اس گرد سے تیمم جائز ہوگا۔
عن علی و عبد اللّٰہ بن عمرو و عن ابی ھریرۃ و جابر و ابن عباس و حذیفۃ و انس و ابی امامۃ و ابی ذر قالوا: ان النبی ﷺ قال: جعلت لی الارض کلھا مسجدا و طھورا۔ (رواہ الترمذی و رویٰ البخاری نحوہ، زجاجہ، ج؍۱، ص؍۱۴۷)
تمام روئے زمین کے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکی کی دو صورتیں بتائیں:
(۱) پانی کے استعمال پر قدرت ہے تو پانی سے طہارت حاصل کرنا ۔
(۲) اگر پانی پر قدرت نہ ہو تو تیمم کرنا۔
اب اگر تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری ہوتا تو بہت سے ریگوں اور پہاڑوں کے باشندے جہاں مٹی کا نام و نشان نہیں ہے ، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم سے بھی محروم ہوجاتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تیمم کے لیے ایک ایسا لفظ استعمال فرمایا، جس سے کوئی محروم نہ ہوسکے اور وہ لفظ صعید ہے ۔ صعید کے معنہ وجہ ارض کے ہیں، یعنی زمین کے اوپر کا حصہ، خواہ مٹی ہو یا بالو، یا پتھر، یا کنکر، یا کوئی دوسری چیز جو جنس زمین سے ہے ؛ مگر پاک ہونا شرط ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے صعیدا طیبا فرمایا ہے ۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان الصعید الطیب وضوء المسلم و ان لم یجد الماء عشر سنین فاذا وجد الماء فلیمسہ بشرہ فان ذٰلک خیر۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد، زجاجہ، ۱۴۷)
پاک جنس زمین مسلمان کا وضو ہے ، اگر چہ دس سال تک (کھانے پینے کی حاجت سے زائد) پانی نہ پائے ۔ پھر جب پانی مل جائے اس کا استعمال کرے اور یہ بہتر ہے۔ (اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍ ۵۴)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح پانی سے آدمی پاک ہوتا ہے ، اسی طرح تیمم سے بھی پاک ہوتا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں برسوں تیمم سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور پانی ملنے پر خواہ نماز کی حالت میں ملے یا نماز سے باہر ؛ ہر حال میں تیمم کو توڑ دیتا ہے۔ اب پانی سے وضو غسل کرنا ضروری ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ کچھ لوگ بادیہ نشین آں حضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور انھوں نے عرض کیا کہ ہم لوگ تین چار ماہ ریگوں میں رہتے ہیں اور ہم میں جنبی و حیض و نفاس والے بھی ہوتے ہیں اور ہم پانی (ضرورت سے زائد) نہیں پاتے، تو آپﷺ نے فرمایا:
علیکم بالارض، ثم ضرب بید ہ الارض بوجھہ ضربۃ واحدۃ ثم ضرب ضربۃ اخریٰ، فمسح بھا علیٰ یدیہ الیٰ المرفقین۔
زمین سے تیمم کرنا تم پر لازم ہے۔ پھر آپ ﷺ نے تیمم کرنا بتایا: ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا چہرہ پر ملنے کے لیے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا اور اس سے دونوں ہاتھوں کو کہنی تک ملا۔ (احمد، طبرانی، ابو یعلی، زجاجہ ۱۴۷)
اس حدیث سے چند امور معلوم ہوئے:
(۱) تیمم زمین سے کرنا چاہیے۔ اور زمین کا اطلاق صرف مٹی پر نہیں ہوتا؛ بلکہ پتھر، بالو کو بھی زمین کہتے ہیں ۔
اور یہ لوگ ریگستان میں رہنے کا حکم دریافت کرتے ہیں ، جہاں مٹی نہیں، بالو ہی بالو ہوتا ہے تو وہاں تیمم بھی بالو ہی پر ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف مٹی سے تیمم جائز ہے؛ بلکہ بالو وغیرہ پر بھی تیمم جائز ہے۔ اب اگر کسی حدیث میں مٹی کا ذکر ہے تو وہ اتفاقی ہے، احترازی نہیں۔
(۲) تیمم حدیث اصغر اور حدث اکبر دونوں سے ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ انھوں نے جنابت اور حیض و نفاس کا حکم دریافت فرمایا۔
(۳) دونوں کا تیمم ایک ہی طرح سے ہے، یعنی دو بار زمین پر ہاتھ مارنا۔ ایک بار منھ پر ملنا اور دوسری بار دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنا۔
قسط نمبر(15) کے لیے کلک کریں
وضو و غسل کی حاجت ہو اور وضو و غسل کے لائق پانی پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں وضو و غسل کے بجائے تیمم کرلینے سے انسان پاک ہوجاتا ہے۔ اگر اتنے پانی پر قادر ہو کہ اس سے بعض اعضا تو دھو سکتے ہیں، پورا وضو نہیں ہوسکتا ہے تو بعض اعضا کو نہ دھوئے ؛ بلکہ تیمم کرے ۔ اگر وضو و غسل دونوں کی حاجت ہے اور پانی اتنا ہی ہے کہ اس سے وضو تو کرسکتا ہے؛ مگر غسل نہیں ہوسکتا ہے تو وہ دونوں کا تیمم کرے۔
پانی پر قادر نہ ہونے کی مختلف صورتیں ہیں:
(۱) پانی ہے؛ مگر اس کا استعمال اس کو نقصان پہنچاتا ہے : بیمار ہونے کا ڈر ہے ، یا صحت میں تاخیر کا اندیشہ ہے ، یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہے ، یا ہلاکت کا اندیشہ ہے۔
(۲) پانی ہے ؛ مگر کھانے پینے کی حاجت سے زائد نہیں ہے۔ اگر پانی وضو یا غسل میں استعمال کرتا ہے تو بھوک پیاس سے ہلاک ہوتا ہے۔
(۳) پانی پاس نہیں ہے، پانی سے ایک میل یعنی چار ہزار قدم دور ہے ، یا پانی ہے مگر وہاں تک پہنچ نہیں سکتا، اس لیے کہ وہاں دشمن یا درندہ ہے ، یا کنویں میں ہے مگر ڈول رسی نہیں ہے جس سے نکال سکے۔ یا دوسرے کے پاس پانی ہے اور مانگنے پر بھی نہیں دیتا ہے۔ یا نزدیک میں پانی ملنے کا گمان ہے اور اس گمان پر چار سو قدم تک ڈھونڈھتا ہے ، پھر بھی نہیں ملتا ہے ۔ یا کوئی پانی مفت تو نہیں دیتا، وہ بیچتا ہے اور جو قیمت چاہے اسی قیمت میں دیتا ہے، لیکن پاس میں ضرورت سے زائد پیسے نہیں ہیں ۔ یا پیسے تو ہیں، لیکن قیمت واجبی سے زائد مانگتا ہے، ان تمام صورتوں میں ان کے لیے تیمم کرنا درست ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
ان کنتم مرضیٰ او علیٰ سفر او جاء احدمنکم من الغائط او لامستم النساء فلم تجدوا ماء ا، فتیمموا صعیدا طیبا فامسحو بوجوھکم و ایدیکم (النساء، آیۃ:۴۳)
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے فارغ ہوکر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو، پھر پانی نہ پاؤ، تو جنس زمین سے تیمم کرو اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو۔
اس آیت کے اندر پانی کا عذر تین صورتوں سے بتایا:
(۱) مریض ہو، پانی ضرر کرتا ہے۔
(۲) سفر درپیش ہے دور تک پانی ملنے کی امید نہیں ہے ۔ پاس میں پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے ہے ، اس لیے کہ مسافر کھانے پینے کے لیے پانی ضرور رکھتا ہے ، ورنہ سفر میں ہلاک ہوجائے گا۔
(۳) پانی موجود ہی نہیں۔
اور طہارت کا ضروری ہونا دو صورتوں میں بتایا:
(۱) پیشاب پاخانہ سے آیا ہے وضو کی حاجت ہے۔
(۲) عورت سے صحبت کی ہے ، غسل کی حاجت ہے ۔ الغرض اس آیت کے اندر نجاست حکمیہ سے خواہ حدث اصغر ہو یا حدث اکبر ، پانی پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا بتایا ہے ۔
اگر وضو میں مشغول ہونے سے کسی ایسی عبادت کے فوت ہونے کا ڈر ہو، جس کا کوئی بدل نہ ہو، یا اس کی قضا نہ ہوتو اس وقت پاس پانی رہتے ہوئے بھی تیمم کرکے اس عبادت میں شریک ہوسکتا ہے ، جیسے عیدین کی نماز ، جنازہ کی نماز غیر ولی کے لیے۔
عن بن عباس قال: قال رسول ﷺ : اذا جاء ت الجنازۃ و انت علیٰ غیر وضوء فتیممْ۔ ( رواہ ابن عدی، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب جنازہ آجائے اور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کرلو۔
یعنی تیمم کرکے جنازہ کی نماز میں شریک ہوجاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : جب کہ جنازہ کی نماز فوت ہونے کا ڈر ہواور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کراور نماز پڑھ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و رجالہ رجال مسلم الاالمغیرۃ وھو یحتج بہ قالہ الزیلعی، زجاجہ ۱۴۹)
لیکن ولی کے لیے جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی اجازت کے بغیر دوسرا پڑھا نہیں سکتا ہے ۔ اور اگر پڑھا دے گا تو اس کو دوبارہ پڑھنے کا حق ہے ، اس لیے ولی کی نماز جنازہ فوت ہونے کا احتمال نہیں ہے ۔ اسی طرح جمعہ اور پنج وقت نماز کے لیے وقت تنگ ہونے سے یا جمعہ کے چھوٹنے کے خوف سے تیمم جائز نہیں، اس لیے کہ جمعہ کے بدلے میں ظہر ہے اور ادا کے بدلہ میں قضا ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ذات السلاسل کی جنگ میں بھیجا۔ مجھے سخت سردی کی رات میں احتلام ہوگیا۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر نہاؤں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا، تو میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ائے عمرو! تونے اپنے ساتھیوں کو ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھائی؟ میں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ!میں سخت سردی کی رات میں محتلم ہوا، میں ڈرا اگر غسل کروں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا اور میں نے اللہ کا قول یاد کیا کہ
لاتقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیما۔ (النساء، ۲۹)
اپنے کو ہلاک مت کرو، اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔
تو میں نے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ اس پر ہنسے اور کچھ نہ فرمایا( احمد، ابو داود، حاکم ، منذر، ابن ابی حاتم) زجاجہ، ۱۴۸)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر تندرست آدمی کو بھی پانی نقصان پہنچائے تو تیمم کرنا درست ہے ؛اگرچہ غسل کا تیمم ہو۔ اور ایسی عبادت کے لیے بھی تیمم جائز ہے، جس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے، شرط نہیں ہے، جیسے زبانی قرآن شریف پڑھنا، یا سلام کرنا، یا جواب دینا وغیرہ۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص آں حضرت ﷺ کے پاس سے ایک گلی میں گذرا اور نبی ﷺ پیشاب یا پاخانہ سے نکلے تھے کہ اس نے سلام کیا، تو آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ دیوار پر مارے، اس سے چہرہ کا مسح کیا،پھر دوبارہ ہاتھ مارے اور اپنے ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کیا، پھر اس شخص کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تجھے سلام کا جواب دینے سے بے وضو مانع ہوا۔
( اس کو ابو داؤد و طبری نے روایت کیا ہے۔ نور الہدایہ، ۵۲)
تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ جنس زمین سے کوئی چیز ہونا ضروری ہے۔ جنس زمین وہ ہے کہ نہ آگ میں جل کر راکھ ہواور نہ پگھلے، جیسے مٹی، مٹی کی بنی ہوئی کچی پکی اینٹیں، برتن، چونا ،گچ،ہر قسم کے پتھر، بالو وغیرہ۔
سونا چاندی، رانگ ، سیسہ وغیرہ دھات سے تیمم جائز نہیں ، کیوں کہ یہ سب چیزیں آگ سے پگھلتی ہیں۔ اور لکڑی کوئلہ وغیرہ سے بھی جائز نہیں ، کیوں کہ یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح راکھ سے بھی تیمم جائز نہیں؛ الغرض جو جنس ارض سے نہیں، اس سے تیمم جائز نہیں، مگر یہ کہ اس پر گرد ہو تو اس گرد سے تیمم جائز ہوگا۔
عن علی و عبد اللّٰہ بن عمرو و عن ابی ھریرۃ و جابر و ابن عباس و حذیفۃ و انس و ابی امامۃ و ابی ذر قالوا: ان النبی ﷺ قال: جعلت لی الارض کلھا مسجدا و طھورا۔ (رواہ الترمذی و رویٰ البخاری نحوہ، زجاجہ، ج؍۱، ص؍۱۴۷)
تمام روئے زمین کے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکی کی دو صورتیں بتائیں:
(۱) پانی کے استعمال پر قدرت ہے تو پانی سے طہارت حاصل کرنا ۔
(۲) اگر پانی پر قدرت نہ ہو تو تیمم کرنا۔
اب اگر تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری ہوتا تو بہت سے ریگوں اور پہاڑوں کے باشندے جہاں مٹی کا نام و نشان نہیں ہے ، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم سے بھی محروم ہوجاتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تیمم کے لیے ایک ایسا لفظ استعمال فرمایا، جس سے کوئی محروم نہ ہوسکے اور وہ لفظ صعید ہے ۔ صعید کے معنہ وجہ ارض کے ہیں، یعنی زمین کے اوپر کا حصہ، خواہ مٹی ہو یا بالو، یا پتھر، یا کنکر، یا کوئی دوسری چیز جو جنس زمین سے ہے ؛ مگر پاک ہونا شرط ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے صعیدا طیبا فرمایا ہے ۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان الصعید الطیب وضوء المسلم و ان لم یجد الماء عشر سنین فاذا وجد الماء فلیمسہ بشرہ فان ذٰلک خیر۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد، زجاجہ، ۱۴۷)
پاک جنس زمین مسلمان کا وضو ہے ، اگر چہ دس سال تک (کھانے پینے کی حاجت سے زائد) پانی نہ پائے ۔ پھر جب پانی مل جائے اس کا استعمال کرے اور یہ بہتر ہے۔ (اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍ ۵۴)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح پانی سے آدمی پاک ہوتا ہے ، اسی طرح تیمم سے بھی پاک ہوتا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں برسوں تیمم سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور پانی ملنے پر خواہ نماز کی حالت میں ملے یا نماز سے باہر ؛ ہر حال میں تیمم کو توڑ دیتا ہے۔ اب پانی سے وضو غسل کرنا ضروری ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ کچھ لوگ بادیہ نشین آں حضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور انھوں نے عرض کیا کہ ہم لوگ تین چار ماہ ریگوں میں رہتے ہیں اور ہم میں جنبی و حیض و نفاس والے بھی ہوتے ہیں اور ہم پانی (ضرورت سے زائد) نہیں پاتے، تو آپﷺ نے فرمایا:
علیکم بالارض، ثم ضرب بید ہ الارض بوجھہ ضربۃ واحدۃ ثم ضرب ضربۃ اخریٰ، فمسح بھا علیٰ یدیہ الیٰ المرفقین۔
زمین سے تیمم کرنا تم پر لازم ہے۔ پھر آپ ﷺ نے تیمم کرنا بتایا: ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا چہرہ پر ملنے کے لیے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا اور اس سے دونوں ہاتھوں کو کہنی تک ملا۔ (احمد، طبرانی، ابو یعلی، زجاجہ ۱۴۷)
اس حدیث سے چند امور معلوم ہوئے:
(۱) تیمم زمین سے کرنا چاہیے۔ اور زمین کا اطلاق صرف مٹی پر نہیں ہوتا؛ بلکہ پتھر، بالو کو بھی زمین کہتے ہیں ۔
اور یہ لوگ ریگستان میں رہنے کا حکم دریافت کرتے ہیں ، جہاں مٹی نہیں، بالو ہی بالو ہوتا ہے تو وہاں تیمم بھی بالو ہی پر ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف مٹی سے تیمم جائز ہے؛ بلکہ بالو وغیرہ پر بھی تیمم جائز ہے۔ اب اگر کسی حدیث میں مٹی کا ذکر ہے تو وہ اتفاقی ہے، احترازی نہیں۔
(۲) تیمم حدیث اصغر اور حدث اکبر دونوں سے ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ انھوں نے جنابت اور حیض و نفاس کا حکم دریافت فرمایا۔
(۳) دونوں کا تیمم ایک ہی طرح سے ہے، یعنی دو بار زمین پر ہاتھ مارنا۔ ایک بار منھ پر ملنا اور دوسری بار دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنا۔
قسط نمبر(15) کے لیے کلک کریں