2 Oct 2018

Nawaaqize Wazoo


نواقض وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (8) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جن چیزوں سے وضو باقی نہیں رہتا ہے اور دوبارہ وضو کرنا ہوتا ہے، اس کو ناقض وضو کہتے ہیں ۔ اس کی جمع نواقض آتی ہے ۔ حسب ذیل چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے: 
(۱) پیشاب کے راستے سے ہوا نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس کے علاوہ پیشاب اور پاخانہ کے راستے سے جتنی چیزیں نکلیں، ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا ینقض الوضوء الا ما خرج من قبل او دبر۔ (رواہ الدار قطنی عن ابن عمر، من طریق مالک، حاشیہ کنز، ص۷)
جو کچھ آگے اور پیچھے کی راہ سے نکلتا ہے، وہی وضو کو توڑتا ہے۔ 
معلوم ہوا کہ ان دونوں راستوں سے جو کچھ بھی نکلے گا، وہ وضو کو توڑ دے گا، جیسے پیشاب، پاخانہ، منی، مذی ، کیڑا، کنکر، خون اور ہوا۔ 
استنجے کے بارے میں تیمم کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
او جاءَ احد منکم من الغائط۔ (النساء، ۴۳)
یا تم سے کوئی استنجے سے آیا ہو۔ 
یعنی اس سے بھی وضو نہیں رہتا ہے، استنجے سے فارغ ہونے کے بعدپانی نہ ملے تو وضو کے بدلہ میں تیمم کرے۔ معلوم ہوا کہ استنجے سے (وضو)ٹوٹ جاتا ہے، جب ہی تو تیمم کی حاجت ہوئی۔ 
حدث کے بارے میں فرمایا: 
عن ابی ھریرۃؓ قال، قال رسول اللّٰہ ﷺ : لاتقبل صلاۃ من احدث حتیٰ یتوضأ۔ (متفق علیہ)
جس نے ہوا خارج کی، اس کی نماز مقبول نہیں، یہاں تک کہ وضو کرلے۔ 
مذی کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
عن علیؓ قال، کنتُ رجلا مذّا ء فکنتُ استحیی ان اسئل رسولَ اللّٰہ ﷺ لمکان ابنتہ فامرتُ المقداد بن الاسود فسئلہ، فقال: یغسل ذکرہ و یتوضأ (متفق علیہ)
ذکر کو دھولے اور ضو کرلے۔ 
(۲) ان دونوں مقام کے علاوہ اگر کہیں اور سے نجاست نکل کر بہہ جائے اور بہہ کر ایسی جگہ پہنچ جائے، جس کا وضو اور غسل میں دھونا ضروری ہو ، تواس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ، جیسے: خون، پیپ، زخم کا پانی وغیرہ۔ 
خون کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: 
الوضوء من کل دم سائلٍ۔ (رواہ الدار قطنی) 
بہتے ہوئے خون سے وضو ہے۔ 
فاطمہ بنت حبیشؓ نے آپ ﷺ سے استحاضہ کے بارے میں سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
توضئی لکل صلاۃٍ، حتیٰ یجئی ذالک الوقت۔ (بخاری) 
ہر نماز کے لیے وضو کرو، جب وقت آجائے۔ 
استحاضہ وہ خون ہے جو رگ کے پھٹنے سے نکلتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، خواہ کہیں سے نکلے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی نماز میں نکسیر پھوٹتی تو جاکر وضو کرتے اور اس نماز کو پوری کرتے اور کلام نہ کرتے۔ (موطا امام مالک، ص۱۴) ۔ 
اسی طرح دوسری نجاستوں کو سمجھو۔ اگر منھ سے خون نکلے اور تھوک کو رنگین کردے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ 
(۳) بھر منھ قے ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اگر ایک ہی متلی سے چند بار تھوڑی تھوڑی قے ہو، مگر مجموعہ بھر منھ کی مقدار ہوجائے تو وہ بھی ناقض وضو ہے ۔ 
عن حسین المعلم بسندہ الیٰ معدان بن ابی طلحۃ عن ابی الدرداء ان النبی ﷺ قاء، فتوضأ، قال: لقیت ثوبانَ فی مسجد دمشق فذکرتُ ذالک لہ، فقال: صدق، و انا صببتُ علیہ وضوۂ۔ (رواہ ابو داؤد، والترمذی، والنسائی)
حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قے کی پس وضو کیا۔ راوی کا بیان ہے کہ دمشق کی مسجد میں حضرت ثوبانؓ سے ملاقات کی اور میں نے اس کا تذکرہ ان سے کیا، تو حضرت ثوبانؓ نے فرمایا : سچ ہے، میں نے آپ ﷺ کو وضو کرایا ہے۔ 
خالص بلغم کی قے ہوتو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ بلکہ اس کے علاوہ جو کچھ قے ہو، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، جب کہ بھر منھ ہو، جیسے: کھانا، پانی ، پت وغیرہ۔ 
(۴) کروٹ یا چت یا کسی چیز سے سہارا لگا کر اس طرح بے خبر سونا کہ اگر اس کو ہٹا لیا جائے تو وہ گر جائے، اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ لیکن نیند حقیقت میں ناقض وضو نہیں ہے؛ بلکہ سونے کی وجہ سے مفاصل ڈھیلے ہوجاتے ہیں، جس سے ہوا خارج ہونے کا امکان رہتا ہے، اس وجہ سے نیند کو ناقض وضو کہا گیا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الوضوء علیٰ من نام مضطجعا، فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد عن بن عباس، زجاجہ ۷۸)
وضو کروٹ سونے والے پر ہے ، اس لیے کہ جب کروٹ سوتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے پڑجاتے ہیں ۔ (جس سے ہوا خارج ہوجایا کرتی ہے ۔ ) 
دوسری حدیث میں ہے کہ 
انما العینان وکاء السہ، فاذا نامت العین استطلق الوکاء (الدارمی) 
آنکھیں پاخانہ کے مقام کی ڈاٹیں ہیں، جب آنکھیں سوجاتی ہیں، تو ڈانٹیں کھل جاتی ہیں۔
اسی لیے اگر مفاصیل ڈھیلے نہ ہوں تو وضو نہیں ٹوٹتا، جیسے کہ کھڑے کھڑے سونا، چوتڑ کے بل بیٹھ کر سونا، سجدہ میں سونا، بیٹھے بیٹھے اونگھنا، نماز کی کسی حالت پر سونا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ 
لیس علیٰ المحتبی النائم و لا علیٰ القائم النائم ولا علیٰ الساجد النائم، حتیٰ یضطجع، فاذا اضطجع توضأ۔ (رواہ البیھقی فی المعرفۃ، و قال الحافظ فی التلخیص اسنادہ جید) 
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ چوتڑ زمین پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں سے پاؤں کا حلقہ باندھ کرسونے والے پر اور کھڑے کھڑے سونے والے پر اور سجد میں سونے والے پر وضو نہیں ہے ، یہاں تک کہ کروٹ لیٹ جائے ۔ جب لیٹ کر سو گیا، تو وضو کرے۔ 
ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ سجدہ میں سو کر خراٹے بھرنے لگے۔ پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے ۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ تو سو گئے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ 
ان الوضوء لایجب الا علیٰ من نام مضطجعا، فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ۔ (رواہ ابو داود والترمذی، زجاجہ، ص؍ ۷۷) 
وضو کروٹ سونے والے پر ہی واجب ہوتا ہے ، اس لیے کہ جب کروٹ سوتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ 
(۵) بیہوش ہوجانے سے ۔ (۶) پاگل ہوجانے سے ۔ (۷) نشہ میں ہوجانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس لیے کہ یہ حالات نیند سے بھی زیادہ بے خبری کے ہیں، اس لیے وضو اس سے بھی جاتا رہے گا۔ 
(۸) رکوع سجدہ والی نماز میں بالغ نمازی کا بیداری کی حالت میں ہنسنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
عن بن عمرؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من ضحک فی الصلاۃ قھقھۃ فلیعد الوضوءَ والصلاۃَ۔ (رواہ ابن عدی فی الکامل)
جو شخص نماز میں کھل کھلا کر ہنسے، وہ وضو اور نماز کو لوٹائے۔ 
معلوم ہوا کہ نماز میں ہنسنے سے وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جاتے ہیں ۔ چوں کہ یہ خلاف قیاس حکم ہوا ہے، اس لیے دوسری حالت کو اس پر قیاس نہیں کریں گے۔ اور یہ حکم آپ ﷺ نے اس وقت دیا، جب کہ آپ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے ، اتنے میں ایک شخص آیا ، جس کی بینائی میں کچھ خرابی تھی۔ مسجد میں ایک گڑھا تھا ، اس میں آگرا ، تو بہت سے لوگ نماز ہی میں ہنس پڑے۔ آں حضرت ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص ہنسا ہے وہ وضو اور نماز دونوں کو لوٹائیں۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر)
اسی لیے نماز سے باہر ہنسنے میں یا جنازہ کی نماز میں ہنسنے سے یا نابالغ بچوں کے ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اسی طرح مسکرانے اور آہستہ ہنسنے سے کہ دوسرا نہ سن سکے، وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اسی طرح اگر نماز میں ہیئت مسنون پر سوگیا اور خواب میں ہنس پڑا تو اس سے بھی وضو نہیں ٹوٹے گا۔ 
(۹) مباشرت فاحشہ سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ مباشر فاحشہ اس کو کہتے ہیں کہ مرد اپنی کھڑی قضیب کو بلا پردہ عورت کی شرم گاہ سے مس کرے اور اندر داخل نہ کرے۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو ایک اجنبی عورت سے ملتا ہے اور جماع کے علاوہ تمام فعل اس سے کر گذرتا ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے 
اقم الصلاۃ طرفی النھار و زلفا من اللیل ان الحسنات یذھبن السیئات ذالک ذکریٰ للذاکرین۔ 
نازل کیا۔ آپ ﷺ نے اس کو وضو کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت معاذؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ خاص حکم اسی کے لیے ہے یا عام ایمان والوں کے لیے ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: عام ایمان والوں کے لیے ہے ۔ 
رواہ الترمذی، قال صاحب البدائع: ھذا حدیث حسن فیہ دلیل علیٰ ان المباشرۃ الفاحشۃ تنقض الوضوء ، زجاجۃ ص۸۲)
چوں کہ اس نے جماع کے علاوہ سب ہی کچھ کرڈالا تھا ، اس لیے التقائے ختانین بھی ہوا۔ اس پر آپ ﷺ نے وضو اور نماز کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہو اکہ یہ ناقض وضو ہے ۔ اس کے سوا یہ بات بھی ہے کہ ایسی حالت میں خروج مذی بھی ہو ہی جاتی ہے ، اس لیے ناقض وضو کہا، اگرچہ مذی نہیں نکلی۔ جیسا کہ نیند میں ریاح خارج ہو ہی جاتی ہے ، اس لیے اس کو ناقض وضو کہا، اگرچہ ریاح خارج نہیں ہوئی۔ 
بلا پردہ ذکر کے چھونے اور عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ حضرت طلق بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی وضو کے بعد اپنا ذکر چھوئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: 
ھل ھو الا بضعۃ منہ۔ (ابو داؤد، والترمذی، والنسائی وابن حبان فی صحیحہ و محمد فی المؤطا و قال الترمذی: ھذا الحدیث احسن شئی یرویٰ فی ھذا الباب) 
وہ بھی تو اس کے بدن کا ایک ٹکڑا ہے ۔ جس طرح بدن کے دوسرے حصے کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اسی طرح اس کے چھونے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ 
حضرت ابن عباسؓ سے ذکر چھونے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ ناک نہ چھوا اس کو چھوا۔ (طحاوی، زجاجہ ، ؍۷۱) ۔ حضرت حذیفہؓ نے فرمایا کہ اس کا چھونا اور سر کا چھونا برابر ہے ۔ (محمد امام محمد، طحاوی، ابن ابی شیبہ، زجاجہ ۷۹) ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا : اسے کاٹ کیوں نہیں دیتے۔ پھر فرمایا: جیسے اور حصہ بدن ہے ، ویسا وہ بھی ہے ۔(موطا امام محمد، زجاجہ ۷۹)۔ حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ نے فرمایا کہ اگر تم اس کو نجس سمجھتے ہو تو کاٹ ڈالو۔ طبرانی فی الکبیر، زجاجہ، ص۷۹)۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ 
ان النبی ﷺ کان یقبل بعض نساۂ فلا یتوضأ۔ (رواہ البزار فی مسندہ باسناد حسن، کبیری ۱۴۲) 
نبی کریم ﷺ اپنی بعض عورتوں کا بوسہ لیتے تھے پھر وضو نہیں کرتے۔
بوسہ جیسے اہم معاملہ میں وضو نہیں کرتے تھے تو اور دوسری طرح چھونے سے وضو کیسے لازم ہوگا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے سامنے پیر پھیلاکر لیٹتی تھی اور میرے دونوں پیر حضور ﷺ کے قبلہ کی طرف ہوتے۔ جب حضور ﷺ سجدہ میں جاتے، تو میرا پاؤں چھوتے تو میں اپنا پیر سمیٹ لیتی اور جب کھڑے ہوتے، تو ان کو پھیلا دیتی۔ اور ان دنوں گھر میں چراغ نہیں تھا۔ 
(رواہ محی السنۃ و رویٰ البخاری و مسلم والنسائی نحوہ و قال الزیلعی : و اسناد النسائی علیٰ شرط الصحیح، زجاجہ، ۸۰)
اور بھی حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں حضورﷺ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی تومیں نے آپ ﷺ کو رات میں نہیں پایا تو میں نے آپ ﷺ کو دونوں ہاتھ سے چھوا تو میرا ہاتھ آپ ﷺ کے دونوں قدموں پر پڑے اور آپ ﷺ سجدہ میں تھے اور دعا کر رہے تھے ۔ (محی السنہ)
پہلی حدیث سے حضورﷺ کا چھونا اور دوسری حدیث سے حضرت عائشہؓ کا چھونا نماز کی حالت میں ہوا۔ اگر ناقض وضو ہوتا تو نماز ہی صحیح نہیں ہوتی۔معلوم ہوا عورت کا چھونا ناقض وضو نہیں ہے۔ اسی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ قرآن میں جو اولامستم النساء ہے، اس سے مراد جماع ہے ، ہاتھ سے چھونا نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ 
اللمس ھو الجماع ولکن اللّٰہ کنیٰ عنہ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ وابن جریر، زجاجہ ۸۰)
لمس سے مراد جماع ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماع کو لمس سے کنایہ کیا ۔ 
مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ عورت کا بوسہ لینا اور خوشبو سونگھنا برابر ہے ۔ (رواہ عبد الرزاق ) اور لامستم النساکے بارے میں فرمایا: اس سے مراد جماع ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و ابن جریر، زجاجہ ۸۰)۔
قسط نمبر (9) کے لیے کلک کریں