10 Oct 2018

Sonan-e- Tayammom

سنن تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (16) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے اندر پانچ سنتیں ہیں: 
(۱) بسم اللہ سے شروع کرنا۔
(۲) ترتیب۔ پہلے منھ کا مسح کرے پھر ہاتھ کا۔
(۳) پے درپے کرنا۔ 
(۴) ہاتھ زمین پر رکھ کر پھر آگے لانا اور پیچھے لے جاکر گرد جھاڑنا، تاکہ صورت خراب نہ ہوجائے۔ 
(۵) انگلیوں کا زمین پر ہاتھ مارتے وقت کشادہ رکھنا۔ 
تیمم کی ترکیب یہ ہے کہ انگلیوں کو کشادہ رکھ کر زمین پر ہاتھ مارے ۔ اگر زیادہ گرد لگ گیا ہو تو اس کو جھاڑے اور پورے منھ پر ہاتھ پھیرے جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے ۔ اور دوبارہ ہاتھ زمین پر مارے اور چھنگلیاں کی طرف سے تین انگلیاں بائیں ہاتھ کی لے کے تھوڑی ہتھیلی کے ساتھ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی سرسے کہنی تک ظاہر ہاتھ کا مسح کرے ۔ اس کے بعد شہادت کی انگلی اور انگوٹھے اور باقی ہتھیلی سے باطن ہاتھ کا انگلیوں کے سرے تک مسح کرے۔ اسی طرح دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا مسح کرے ۔ اور انگلیوں کا خلال کرے، بس تیمم ہوگیا۔ تیمم میں سر اور پاؤں کا مسح نہیں ہے۔ 
اگر پانی ملنے کی امید ہو تو تیمم میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔
عن علی قال: اذا لم یجد الماء فلیؤخر التیمم الیٰ الوقت الآخر۔ (رواہ عبد الرزاق، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: جب پانی نہ ملے تو تیمم کو اخیر وقت تک موخر کرے۔
یعنی جب تک مستحب وقت ہے، وہاں تک تاخیر کرے، مکروہ وقت تک تاخیر نہ کرے۔ اگر تیمم کرکے نماز پڑھ لی، پھر وقت ہی کے اندر پانی مل گیا تو نماز کے دوہرانے کی ضرورت نہیں، پہلی نماز کافی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ دو شخص سفر میں نکلے ، پس نماز کا وقت ہوااور ان دونوں کے پاس پانی نہیں تھا ، تو دونوں نے پاک زمین سے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ پھر وقت کے اندر ہی پانی مل گیا ، تو ان دونوں میں سے ایک نے وضو کرکے نماز لوٹائی اور دوسرے نے نماز نہیں لوٹائی۔ پھر دونوں آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا تذکرہ کیا ، تو آپ ﷺ نے اس شخص سے جس نے نماز نہیں لوٹائی فرمایا: 
اصبتَ السنۃ و اجزئتک صلاتک۔ 
تو نے سنت کو پائی اور تیری نماز کافی ہوئی ۔
اور جس نے وضو کیا اور نماز لوٹائی ، اس سے فرمایا: 
لک الاجر مرتین
تجھ کو دوہرا ثواب ہوا۔ یعنی اول فرض کا اور دوسرا نفل کا۔ (ابو داؤد، دارمی)
اگر کسی نے پانی دینے کا وعدہ کیا ہو تو تاخیر کرنا واجب ہے ، اگرچہ قضا کا خوف ہو۔ اگر نزدیک میں پانی کا گمان ہو، جان یا سامان کے ضائع ہونے کا عذر نہ ہو اور امن ہو تو چار سو قدم تک پانی ڈھونڈھنا واجب ہے ، ورنہ واجب نہیں۔ 
اگر کسی کے پاس پانی ہو اور ایسی جگہ میں ہو کہ وہاں پانی دینے میں کوتاہی نہیں کرتا ہو ، اس سے مانگنا واجب ہے۔ مانگنے پر نہ دے تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ اگر قیمت سے دیتا ہو اور پاس ضروری اخراجات سے زائد پیسہ ہو اور واجب قیمت لیتا ہو تو خرید کر وضو کرنا واجب ہے، ورنہ نہیں۔ 
وضو کی طرح ایک تیمم سے کئی وقتوں کی نمازیں اسی طرح فرض، نفل ؛ سب پڑھ سکتا ہے، ہر وقت کے لیے تیمم کرنا ضروری نہیں ۔ تیمم کی آیت میں آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج و لٰکن یرید لیطھرکم و لیتم نعمتہ علیکم لعلکم تشکرون۔ (المائدہ، ۶)
اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہے کہ تم کو تنگی میں ڈالے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم کو پاک صاف رکھے اور یہ کہ تم پر اپنا انعام تام فرمائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ 
معلوم ہوا کہ تیمم سے بھی طہارت کامل حاصل ہوتی ہے اور یہ خدا کی بڑی نعمت ہے، اسی لیے تیمم کرنے والا وضو کرنے والی کی امامت کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح سے طہارت پانی سے حاصل ہوتی ہے، پانی پر قادر نہ ہونے کی صورت میں تیمم سے بھی طہارت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر آدھا یا آدھے سے زیادہ بدن زخمی ہو اور پانی نقصان دیتا ہو تو غسل کے بجائے تیمم کرے ۔ اور اگر آدھے سے زیادہ تندرست ہو تو اس کو دھوئے اور زخم پر مسح کرے۔
قسط (17) کے لیے کلک کریں