4 Apr 2018

خطیب اور مطالعہ


(قسط نمبر (4) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)
محمد یاسین جہازی

کسی بھی علم و فن کو حاصل کرنے کے لیے مطالعہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جس طرح ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے انسان کسی قابل نہیں رہتااور ہر طرح سے دوسروں کے سہارے کا محتاج ہوجاتا ہے ،اسی طرح مطالعے کے بغیر کسی علم وفن کا حصول نا ممکن ہے ،کیوں کہ 
’’یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی علم وفن کا دار ومدارسرا سر مطالعے پر ہے۔اسی وجہ سے کہاگیا ہے کہ’’مطالعہ روح علم کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔(رہ نمائے اردو ادب،ص؍ ۱۱۲)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 
’’مطالعہ سے انسان کا ذہن نشو و نما پاتا اور اس کی فکر کو جلا دیتا ہے ،مطالعہ کے بغیر انسان ایک ریگ زار کی طرح ہے ،اس میں مشاہدہ کی لو ہے تو سراب کی طرح ہے ۔مطالعہ ہی سے انسان کی ذہنی گمراہیاں ختم ہوتی ہیں اور مطالعہ وہ طاقت ہے جس سے انسان کو تہذیب کی توانائی ملتی ہے ۔اگر مطالعہ نہ ہوتا تو انسان دھات اور پتھر کی زندگی بسر کرتا ،وہ محسوس ہی نہ کرسکتا کہ وہ کیا ہے اور اس کی دماغی سر گذشت کیا ہے؟ انسان نے مطالعے ہی کی بدولت ایک دوسرے سے آگاہی حاصل کی اور مطالعہ ہی کے فیوض ہیں کہ ہم مطالعہ کی بدولت یہاں تک پہنچے ہیں۔ مابعد الطبعیاتی پر کمندیں ڈالیں اور انسان و کائنات کے وجوہ معلوم کیے ہیں‘‘۔(فنِ خطابت،ص؍۱۱۳)
اسی لیے مطالعے کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: 
’’مطالعے کی اہمیت و افادیت ہمیشہ اور ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی نقطۂ نظر یا مدرسۂ فکر کو کوئی اختلاف نہیں ، بلکہ مطالعہ ہی سے نقطہ ہائے نظر اور مدارس فکر کی شناخت ہوتی ہے ۔ اور مطالعہ ہی کی مدد سے ان کے روشن یا تاریک پہلو سامنے آتے ہیں ۔سماج یا معاشرہ کی تعمیر و تطہیر میں مطالعہ کا بڑا اہم اور واضح رول ہوتا ہے ۔دنیا کی تمام مخلوقات میں انسان کے شرف و تفوق کی بنیاد علم پر ہے، اور علم صرف مطالعہ ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس صورت میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مطالعہ انسا نی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اور مطالعہ کے بغیر انسان اپنی اس منزل کو نہیں پا سکتا ، جس کے لیے خالق کائنات نے اس کی تخلیق فرمائی ہے ۔ بعض دانش وروں کے نزدیک جو اہمیت انسانی زندگی کے لیے پانی، ہوا اور غذا کی ہے ، وہی اہمیت مطالعے کی بھی ہے۔ اس لیے کہ پانی ،ہوا اور غذا سے جسم انسانی کو نشو و نما ملتی ہے، اور مطالعہ سے ذہن و فکر میں گیرائی و بالیدگی اور روح میں تازگی و روشنی پیدا ہوتی ہے ‘‘
(میرا مطالعہ،ص؍۷)
فنِ خطابت کا حصول بھی مطالعے کے بغیر ممکن نہیں ۔کیوں کہ 
’’ایک خطیب کے لیے مطالعہ اس کی غذا ہے ۔اس کا فرض ہے کہ مطالعہ اس کا معمول ہو اور وہ جس طرح غذا اور پانی کے بغیر دن گذار نہیں سکتا ،اسی طرح مطالعہ کے بغیر یہ محسوس کرے کہ اس کا دماغ آج بھوکا رہا ہے۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۴)
خطیب کو کیا کیا مطالعہ کرنا چاہیے 
یہ سوال کہ ایک خطیب و مقررکو کیا کیا مطالعہ کرنا چاہیے ؟اس کا سیدھا جواب تو یہی ہے کہ جس موضوع پر تقریر کرنی ہو ،اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔لیکن اس کو صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ،کیوں کہ ایک خطیب کو مختلف طبیعتوں کے حامل افراد سے واسطہ پڑتا ہے اور مختلف حالات و مضامین پر تقریر کرنی پڑتی پے،اس لیے مقرر کو شروع میں ہر چیز کا مطالعہ بالعموم اور درج ذیل چیزوں کا مطالعہ بالخصوص کرنا چاہیے ۔
ادبیات کا مطالعہ
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ تقریری زبان ادبی زبان سے تعلق رکھتی ہے،اس لیے تقریر میں مہارت و کمال پیداکرنے کے لیے زبان وادب کو سیکھنا ضروری ہے۔زبان وادب سیکھنے کے لیے جہاں اس کے قواعد و ضوابط اور اصول کو جاننا ضروری ہے ،وہیں ماہرین ادب کے کلام مطالعہ کرنا بھی لابدی ہے ،اسی طرح زبان و ادب کی دونوں صنفوں : نظم و نثر کا مطالعہ بحیثیت حصولِ ادب ضروری ہے ،ان میں بطور خاص اشعار کا مطالعہ نہایت ناگزیر ہے،کیوں کہ شعرا کے کلام کا مطالعہ کئی حیثیتوں سے اہمیت کا حامل ہے ،مثلاََ ان سے زبان کی اصلاح ہوتی ہے،اسلوب کا رنگ نکھرتا ہے ، الفاظ کے صحیح استعمال کا طریقہ معلوم ہوتا ہے،جامع انداز میں کلام کرنے کا ڈھنگ آتاہے ،بیان میں سلاست و روانی پیدا ہوتی ہے،قوت استدلال کو جلا ملتی ہے ،اورنتائج و عبر کا خلاصہ کرنے میں مدد ملتی ہے ،حکمت و دانائی کی باتیں اور اکابر و اسلاف کے تجربات سامنے آتے ہیں،جن سے ذہن و دماغ کو روشنی ملتی ہے ،اور عقل و فکر کے دریچے کھلتے ہیں ۔
’’شاعری (نظم ونثر)کا مطالعہ ہر مقرر و خطیب کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جیسا کہ صحت کے لیے صبح کی سیر یا رات کے بعد صبح کا اجالا ۔اسی غرض سے شاعری کی ہر صنف کا مطالعہ ضروری ہے ۔حمد و نعت ،غزل و نظم،قصیدہ مرثیہ ،مسدس و مخمس،ہجو و ہزل کے مطالعے ۔ذوق اور حظ سے کئی چیزیں حاصل ہوتی ہیں ،مثلاََتلفظ کی صحت ،الفاظ کا استعمال ،مطالب کا عمق،فقروں کی آرائش ،لہجے کی رونق،بیان کی رنگینی ،احساس کی گہرائی ،تخیل کا علو اور ذہنوں پر فتح مندی کا سلیقہ،ایک بر جستہ شعر یا چند بر جستہ شعر کئی دفعہ پوری تقریر پر غالب آجاتے ہیں اور مجمع کے ذہنوں پہ نقش ہوکر دلوں میں تلاطم پیدا کرتے ہیں‘‘۔
(فنِ خطابت،ص؍۴۰و۴۱)
مذہبیات واسلامیات کا مطالعہ
ایک مقرر وخطیب کے لیے تمام مذاہب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے ،کیوں کہ ہر انسان طبعی اور فطری طور پر کسی نہ کسی مذہب کا پیرو ہوتا ہے اور اس کی زندگی پر اس کے مذہب کا راست اثرپڑتاہے۔بایں وجہ مذہبیات کے مطالعے سے لوگوں کے عقائد ،ان کی نفسیات اور طبعی احوال کا جس قدر اندازہ ہوتا ہے ،وہ کسی اور ذرائع سے ممکن نہیں ۔مذاہبِ عالم میں بطور خاص اسلامیات کا مطالعہ تو انتہائی ناگزیر ہے،اس لیے کہ جملہ ادیان و ملل میں اسلام ہی ایک ایسا منفرد اور جامع مذہب ہے ،جس نے حیات انسانی کے تمام گوشوں سے بحث کی ہے اورزندگی میں درپیش چھوٹے بڑے تمام مسائل کا صحیح اور مکمل حل پیش کیا ہے ۔چنانچہ انسانی زندگی کا ہر پہلو۔خواہ اس کا تعلق معاشرت سے ہو یا معاشیات سے ، اخلاق سے ہو یا کردار سے ،سیاسیات سے ہویا عمرانیات سے غرض انسانی زندگی کے ہر قدم پر پیش آنے والے مسائل کو چھیڑا ہے اور ان کی گتھی کو سلجھایا ہے۔
سب سے ضروری اور بنیادی علم،غیر متغیر اور منظم آفاقی اقدار کا سسٹم دینے والا اور اس کے مطابق نظام تہذیب و تمدن کو عملااستوار کرکے دنیا کے سامنے حیرت ناک مظاہرہ کرنے والا اسلام ہے۔اس لیے مطالعہ کا سب سے پہلا دائرہ یہ ہے ۔اس دائرے میں بنیادی طور پر قرآن ا ور حدیث اور ان سے متعلق علوم (علوم قرآن ،علوم حدیث)پر جس حد تک ممکن ہو ،نگاہ ہونی چاہیے ۔سارا قرآن اور پورا دفترحدیث پڑھ ،سمجھ جانے کے بعد بھی اس خزانہٗ اساسی برائے علم کا (جتنا ممکن ہو)مطالعہ ضروری ہے
(میرا مطالعہ،ص؍۹۲)
جغرافیہ کا مطالعہ 
ایک مقرر وخطیب کے لیے جغرافیہ کا مطالعہ بھی ضروری ہے ،کیوں کہ تاریخی واقعات کے زمان و مکان کا صحیح اندازہ اسی علم سے ہوسکتا ہے۔اسی طرح ہر علاقے اور ہرخطے کی آب و ہوا مختلف ہوتی ہے ،ہر جگہ کے لوگ الگ الگ خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں،ان کے طبعی احوال میں بھی زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں؛اس لیے لوگوں کی مختلف المزاجیت کو پرکھنا ،ان کی نفسیات سے با خبر ہونا ،ممالک کے جائے وقوع ،وہاں کی آب و ہوا اور سیاسی ،سماجی و اقتصادی خصوصیات کو سمجھنااورتاریخی واقعات کا صحیح تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت پیدا کرنا اسی علم پر موقوف ہے۔ اس لیے اس علم پر بھی سرسری نگاہ ضروری ہے۔
تاریخ کا مطالعہ 
اگرچہ واقعہ یہ ہے کہ ایک خطیب کے لیے سب سے زیادہ ان موضوعات و مضامین کا مطالعہ ضروری ہے ، جو اس کے پیش نظر ہیں اور جن سے اسے باربار سابقہ پڑتا ہے؛لیکن تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دگر کسی بھی موضوع پر مطالعہ ایک مخصوص ماحول اور ایک خاص مضمون سے تعلق رکھتا ہے،جو ضروری نہیں ہے کہ ہر ماحول اور تمام موضوعات کے لیے بھی کار آمد ثابت ہو ؛لیکن تاریخ اپنے دامن میں بہت وسعت رکھتی ہے۔ اس کے مطالعے کا دائرہ اثر کسی خاص وقت ،کسی ایک جلسہ اور کسی ایک ہی ماحول تک محدود نہیں رہتا ،بلکہ اس کا دائرہ اثر بڑھتا رہتا ہے اور اس کی روشنی میں نقد و نظر کے سلسلے دراز ہی ہوتے رہتے ہیں ۔اس کی افادیت کسی جگہ ماند نہیں پڑتی۔
’’ایک مقرر و خطیب کے لیے تاریخ کا مطالعہ بہت سی وسعتیں پیدا کرتا ہے ۔تاریخ خطابت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے ۔قرآن نے تاریخ کو ایام اللہ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کا نام انسانی حافظہ ہے ۔ گویا تاریخ ان سب کی ،سب سے بڑی میراث ہے،اس کی بدولت ہمیں وہ سب کچھ ملتا ہے ،جو کائنات کی تکوین سے لے کر کائنات کے اس سفر تک کی سر گذشت ہے ۔اس کی معرفت ہم قوموں کے عروج و زوال سے آگاہ ہوتے،انسان کے تجربوں کا علم حاصل کرتے،جہد للبقا کے اسرار و رموز پہچانتے ،فلاسفہ کی وادیوں کو قطع کرتے ،مذاہب کے مرغزاروں میں گھومتے ،عبر و بصائر کی راہوں سے نکلتے اور سوانح و افکار کے چمنستانوں میں گل گشت کرتے ہیں ۔ تاریخ ہمیں ہر دور میں لے جاتی ہے ،وہ پہاڑوں پہ چڑھاتی ،سمندروں میں گھماتی اور صحراؤں میں پھراتی ہے۔ہم تاریخ کے مطالعے سے فکر و نظر کی بصیرت حا صل کرتے اور شعور و ادراک کے معدنوں سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ اس کے مطالعے ہی سے تجزیہ و تحلیل کی ذہنی قوت پیدا ہوتی ہے اور کئی مقفل دروازے کھلتے ہیں ۔غرض تاریخ سے ہم سخن ہائے گفتنی میں استدلال پیدا کرتے ہیں ،خیالات کا وزن بڑھاتے اورنظائر و شواہد اور حکایات و تمثیلات سے کلام میں رونق پیدا کرتے ہیں۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۵و۳۶)
جنرل مطالعہ
عصر حاضر کی نت نئی دریافت ،حیرت ناک ایجادات و انکشافات،سائنسی و ٹکنالوجی کے زبردست انقلابات ، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے بے پناہ اثر و رسوخ کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر ایک کمرے میں تبدیل ہوگئی ہے اور کرۂ ارضی کی طنابیں کھِنچ کرایک عالمی معاشرہ بن گئی ہیں،جس کی وجہ سے انسانی مسائل اس قدر متنوع اور ہمہ گیر ہوچکے ہیں کہ ایک خطیب کے لیے ہر لمحہ اور ہر آن ایک نیا مضمون پیدا ہوتا ہے ۔ہر صبح کا ہر اخبار اتنے احوال لاتے ہیں کہ غور و فکر کے زاویے اور اظہار و بیان کے دائرے وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔بایں وجہ ایک مقرر کے لیے جنرل مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے ۔
’’آج کی دنیا مضامین و موضوعات سے لدی پھدی ہے ،یہی سبب ہے کہ ایک ہی مضمون میں عمر کھپ جاتی ہے اور کوئی انسان تمام موضوعات پر حاوی نہیں ہوسکتا ۔ایک خطیب ومقرر کا بنیادی فرض ہے کہ وہ تمام موضوعات سے ایک حد تک بہرہ یاب ہو اور سیاسی وعمرانی زندگی کے اہم مضامین سے آشنا رہے ۔ہر نوعی معلومات میں افزائش کا تسلسل ہی اظہار و اسلوب میں رونق پیدا کرتا ہے۔‘‘
(فنِ خطابت،ص؍۳۵)
اخبار و رسائل کا مطالعہ
روزنامہ یا ہفت روزہ شائع ہونے والے اخبار و رسائل کا مطالعہ بھی ضروری ہے ،کیوں کہ سائنسی اور ٹکنالوجی کی ترقیوں نے زمان و مکان کے فاصلوں کو یوں سمٹ دیا ہے کہ انسان مختلف جغرافیائی و لسانی اور قومی و وطنی حدود میں تقسیم ہوکر بھی ذہنی وحدت کا شہری ہے ۔آج کا انسان عالمی معلومات سے اتنی ہی دل چسپی لے رہا ہے ،جتنی دل چسپی وہ اپنے علاقائی اور ملکی معلومات سے لیتا ہے۔اور ویسے بھی اخبار و رسائل انسانی زندگی کے لیے ایساجزو لاینفک بن گئے ہیں کہ ان سے کٹ کر زندگی گزارنا اس اندھے کی مانند جینا ہے ،جو سخت تاریک رات میں بے مینڈھ کے کنویں کے پاس سے گذر رہا ہو۔علاوہ ازیں حالات سے سمجھوتہ اور گردو پیش کی سیاسی و سماجی فضا کی صحیح عکاسی اخبار کے مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔
’’مطالعہ ایک فقید المثال گلستاں ہے،اس میں لاتعداد روشیں اور بہت تختے ہیں،ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے ،لیکن ایک خطیب کے لیے ہر روش پہ ٹہلنا ضروری ہے ،جن مضامین کو زندگی میں خصوصیت حاصل ہے اور جو اس کے شب و روز سے مربوط ہوچکے ہیں،ان کا مطالعہ مقرر کی اساسی ضرورت ہے۔‘‘ (فنِ خطابت، ص؍ ۳۶ )
تسلسل مطالعہ 
مذکورہ بالا تمام مطالعوں کا سفر ہمیشہ اور برابر جاری رکھنا ضروری ہے؛کیوں کہ 
’’مطالعہ کے لیے کوئی خاتمہ نہیں ۔اس میں تسلسل ہے ۔جس طرح صبح وشام طلوع غروب ہوتے ہیں اور روزوشب ازل سے ابد کی طرح رواں ہیں ،اسی طرح مطالعہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ہر زمانے میں اس کی نوعیتیں بدل جاتی ہیں ؛لیکن اس کا سفر ختم نہیں ہوتا ۔اس کے لالہ زار میں استیعاب کے ساتھ شگوفے کھلتے اور پھول بنتے ہیں ۔‘‘(ص؍۱۱۴)
جو لوگ شروع میں تو مطالعہ کرتے ہیں ؛لیکن بعد میں چل کر مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں اور اس میں تسلسل برقرار نہیں رکھتے ہیں ،تو اس کی خطابت کی شگفتگی اور چاشنی رفتہ رفتہ معدوم ہوتی چلی جاتی ہے ۔
’’جو مقرر یا خطیب مطالعہ سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ،خواہ اس خیال سے کہ انھیں مطالعہ کی ضرورت نہیں رہی اور وہ خطابت کی معراج پر ہیں ،تو ممکن ہے کچھ عرصہ مطالعاتی خلا کا احساس نہ ہو؛لیکن وہ مطالعہ سے پچھڑ کر خیالات میں ضعف کا شکار ہوتے اور ان کی خطابت کو لونی لگ جاتی ہے ۔‘‘(ص؍۳۴) 
سماعت ومشاہدہ 
چوں کہ تقریر وخطابت قلم کی زبان نہیں ،اس لیے اس فن کو نہ تو تمام تر خصائص کے ساتھ لکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی مذکورہ بالا تمام لازمی علوم کی تکمیل اور جملہ مطالعوں کی وادیوں کو قطع کرکے اسے مکمل طور پر حاصل کیاجاسکتا ہے ؛ کیوں کہ جو چیز سمع سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سن کر ہی صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔اس لیے بڑے خطیبوں کی تقریریں سننا،ان سے زبان ولہجے کے اتار چڑھا و کے راز معلوم کرنا ،جلسے جلوسوں میں حاضر ہو کر ان کے انداز تخاطب ، اظہار و بیان کے طریقے سیکھنا اور ان کی حرکات و سکنات پر نگا ہ رکھنا ضروری ہے ۔
’’چوں کہ خطابت قلم کی نہیں ،زبان کی چیز ہے ،اس لیے اس کا تذکرہ وموازنہ ایک قاری کے ذہن میں صحیح تصور پیدا کرنے سے قاصر ہے ۔جو چیز سمع کی ہے ،وہ سامع ہی کو صحیح تأثر دے سکتی ہے ۔‘‘
(ص؍۲۹)
’’جن نام ور ہستیوں نے خطابت میں نام پیدا کیا ،ان کا مطالعہ ایک نو آموز مقرر اور نووارد خطیب کو فنی کمال تک پہنچانے میں ضرور معاون ہوتا ہے ۔اس کے بغیر فنِ خطابت کی ترتیب ادھوری رہ جاتی ہے۔جب تک دوسرے خطیبوں کو دیکھیں نہیں کہ وہ کیوں کر بولتے ہیں اور دماغوں کو جیتنے کے لیے کس طرح الفاظ ومعانی میں آہنگ پیدا کرتے ہیں ۔خطابت محض کتابوں کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ اس موضوع پر کوئی سی نئی کتاب استاد ہوسکتی ہے ۔اس بارے میں جتنا مطالعہ ضروری ہے ،اتنا مشاہدہ لازم ہے ۔اور مشاہدہ دوسرے مقرروں اور خطیبوں کے سننے ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔اس مشاہدہ کے بعد ہی ہم تجربہ کرسکتے ہیں ۔خطابت کا معمل یہ ہے خطیبوں کو مجمع میں دیکھیں کہ وہ کیوں کر خطاب کرتے ہیں ۔اس مشاہداتی سبق کے بغیر ملکۂ خطابت کاحصول ناممکن ہے ۔‘‘ (ص؍۴۹)
’’اسی طرح نام ور مقرروں کو ضرور سنیے ۔ان کی تقریر سے کئی چیزیں حاصل ہوں گی:نئے الفاظ،تلفظ کی صحت،فقروں کی ترتیب،خیالات کی بوقلمونی،استدلال کے زاویے اور مطالب ومعانی کے خفی و جلی پہلو۔اس کے علاوہ اشارات وحرکات کا مدوجزر معلوم ہوگا اوراظہارواسلوب سے آشنائی ہوگی کہ وہ کون سی چیز ہے ،جو ایک خطیب کے لیے عوام میں تجسس اور مقصد کے لیے جذبہ پیدا کرتی ہے ۔‘‘
(ص؍۶۴) 
سماعت ومشاہدے کی صورتیں
سماعت ومشاہدہ دوطرح سے کیا جاسکتا ہے :ایک تو اس طرح سے کہ علاقہ یا ملک میں جہاں کہیں نام ور مقرروں کے پروگرام کا اعلان ہو ،وہاں حاضر ہونے کی کوشش کی جائے اور جلسے میں شرکت کرکے بہ راہ راست انھیں سنا جائے اور ان کا مشاہدہ کیا جائے۔اور دوم اس طرح کہ ان خطبا کی جو جو کیسٹیں اور سییڈیاں دستیاب ہوں،انھیں حاصل کر کے ان کی سماعت و مشاہدہ کیاجائے ۔اسی طرح بعض بعض پروگرام بر وقت ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں،ان کو بھی سننے اور دیکھنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے ،اس کے بعد ان کی نقالی اور تقلید کی کوشش کرنی چاہیے ۔ 

تقریر و خطابت


(قسط نمبر (3) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)


تقریر وخطابت،دونوں عربی لفظ ہیں۔اول الذکر باب تفعیل کا مصدر ہے ،جس کے لغوی معنی ہیں:کسی معاملے کی وضاحت و تحقیق کرنا ۔اور آخر الذکرباب نصر کا مصدر ہے ،اس کے معنی ہیں :تقریر کرنا ،لیکچر دینا ،وعظ کہنا،بیان دینا ، گفتگو کرنا ،کسی سے ہم کلام ہونا ۔لیکن اب یہ دونوں لفظ اردو میں مترادف کے طور پر ایک مخصوص اصطلاحی معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں ،جس کی مختلف حضرات نے اپنے اپنے الفاظ میں الگ الگ تعریفیں کی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
علامہ ابن رشد تلخیصِ خطابت میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’و فی اصطلاح الحکماء ھی صناعۃ تتکلف الاقناع الممکن فی کل مقولۃ من المقولات۔‘‘
یعنی حکما کی اصطلاح میں خطابت ایسی صناعت کا نام ہے، جس کے ذریعے کسی بھی موضوع پر ممکنہ حد تک تسلی بخش کلام کرنے کی ذمے داری نبھائی جاتی ہے۔ (ص؍۲)
شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’عوام سے اجتماعا ہم کلام ہو نے کانام ’خطابت‘ ہے،اصطلاحا اس فن کا نام ہے، جس کا مقصود و مطمح نظر عوام سے خطاب کرنا اور ان کے دل ودماغ میں اپنی غایت و منشا اتارنا ہے ‘‘۔
(فنِ خطابت ،ص؍۱۵)
صاحبِ’خطابت وتقریر‘ رقم طراز ہیں کہ 
اصطلاح میں خطابت اس فن کو کہتے ہیں ،جس سے تمام اصناف گفتگو میں اپنی بات دوسروں سے منوائی جاسکے۔‘‘(ص؍۲)
منطقیوں کی اصطلاح میں
’’خطابت وہ قیاس ہے جو مقبول و مظنون باتوں سے مرکب ہے۔‘‘
موضوع
جس طرح علم ادب کے موضوع کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس علم کا کو ئی موضوع نہیں ہے ،اسی طرح ارسطو کی رائے یہ ہے کہ فنِ خطابت کا بھی کوئی موضوع نہیں ہے ۔کیوں کہ کوئی بھی علم و فن ہو، کسی بھی طرح کا مضمون ہو جس نوعیت کے بھی مسائل ہوں ؛خطابت کا زور ان سب پر چلتا ہے ۔اس کے موضوع کے دائرے سے کائنات کی کوئی بھی چیز خارج نہیں ہے ،ہر موضوع پر تقریر کی جاسکتی ہے اور ہر عنوان کو خطابت کا رنگ دیا جاسکتا ہے۔
غرض و غایت 
جب اس فن کا موضوع ہی اپنے دامن میں اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ پوری کائنات اس میں سما سکتی ہے ،تو ظاہر ہے کہ اس کی غرض و غایت بھی اسی قدر متنوع اور مختلف ہوگی ،تاہم عمومیت کے ساتھ اتنی سی حد بندی ضرور کی جاسکتی ہے کہ خطیب اپنی جادو بیانی اور سحر انگیزی سے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے اور سامعین کو اپنی باتوں کے ماننے پر مجبور کردے۔
فنِ خطابت کے لیے لازمی علوم 
کچھ علوم و فنون ایسے ہیں،جو موقوف و مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں ،اور ان کو اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے،جب تک کہ موقوف علیہ اور ان کے لیے مُعدِات کی حیثیت رکھنے والے علوم وفنون کو حاصل نہ کرلیا جائے،مثلا علم تفسیر اور علم فقہ کو اس وقت تک حاصل کرنا ناممکن ہے جب تک کہ ان کے لیے علوم مُعدِات :اصول تفسیر اور اصول فقہ میں مہارت نہ پیدا کرلی جائے ۔ فنِ خطابت کا تعلق ان علوم و فنون سے ہے ،جو موقوف اور مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لیے فنِ خطابت میں مہارت تامہ اس وقت تک پیدا نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس کے لیے آلے اور مُعدِات کی حیثیت رکھنے والے علوم وفنون میں کچھ شد بد نہ پیدا کرلی جائے ۔فنِ خطابت کے علوم آلیہ درج ذیل ہیں:(۱)علم ادب(۲)علم النفس(۳)علم منطق وفلسفہ۔
علم ادب
تقریری زبان ادبی زبان سے تعلق رکھتی ہے ،کیوں کہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے ترتیب انداز میں سامعین کے سامنے کوئی بات کہہ لینا ،اس کا نام تقریر نہیں ہے ؛بلکہ یہ ایک عوامی گفتگو اور مکالمت ہے ۔تقریر تو اصل یہ ہے کہ بات کو مؤثر اور دل کش پیرائیہ بیان میں بیان کیا جائے ،طرز ادا دل آویز اور مسحور کن ہو ،موقع بموقع ضرب الامثال ،کہاوتوں اور حکایتوں سے اس میں خوبیاں پیدا کی گئی ہوں ۔اور یہ سب خصوصیات ایک ادبی زبان کی ہوا کرتی ہیں ۔اس لیے فنِ خطابت میں مہارت پیداکرنے کے لیے قواعد زبان ،علم بدیع ،علم بیان،علم لغت اور ان تمام علوم سے واقفیت ضروری ہے جن کے مجموعے پر علم ادب کا اطلاق ہوتا ہے اور جن سے زبان و بیان کی اصلاح اور اظہار میں توانائی و استواری پیدا ہوتی ہے۔
’’سب سے پہلی چیز جومقرر کے لیے خطابت کی روح ہے اور جس سے اس کا جسم نمو پاتا ہے ،وہ زبان ہے ۔ایک خطیب و مقررکے لیے زبان کا حصول اسی طرح ضروری ہے ،جس طرح زندگی کے لیے سانس لینا ۔ جب تک زبان کے نشیب و فراز سے مقرر و خطیب آگاہ نہ ہوں اور اس کے قواعد وضوابط ان کے ذہنوں میں نقش نہ ہوں ،وہ اظہار و اسلوب کی نزاکتوں اور آوازو تلفظ کی نزہتوں سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔ان کے لیے حصول زبان کے بغیر مطالعہ ،مشاہدہ اور استعداد ؛سب بیکار ہیں۔ایک مقرر کے لیے زبان کو بطور زبان جاننا ضروری ہے۔ پہلے زبان پھر موضوع۔جس طرح موضوع کے بغیر زبان محض صدا ہے ،اسی طرح زبان کے بغیر موضوع کوئی چیز نہیں ۔ دونوں میں روح وبدن کا رشتہ ہے،روح بدن چاہتی اور بدن روح چاہتا ہے۔‘‘ (فنِ خطابت ،ص؍۳۵)
علم النفس(psychalogy)
ایک باکمال خطیب بننے کے لیے انسان کی نفسیاتی کیفیات اور لاشعوری احوال سے واقف ہونا ضروری ہے، جسے اصطلاحا علم النفس اور نفسیات سے تعبیر کرتے ہیں ؛کیوں کہ ماہرینِ فن نے ایک مقرر کی کامیابی کے لیے جن رازوں کا انکشاف کیا ہے ،ان میں انسانی طبائع کے ذہنی محرکات اور ان کی بوقلمونیوں سے آگاہی بھی شامل ہیں۔چنانچہ اس حوالے سے شہسوار خطابت جناب شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’ایک مقرر کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ عوام کی نفسیات کیا ہیں؟وہی مقرر کامیاب ہو سکتا ہے ، جو عوام کی نفسیات جانتا اور انسانی طبائع کی بو قلمونیوں سے واقف ہے ،ہر وہ انسان جو مجمع میں شریک ہے،آپ سے کچھ حاصل کرنے آیا ہے ،ہر شخص چاہتا ہے ،اس کی ضرورت ہے ،وہ محسوس کرتا ہے ،اس کی پسند و نا پسند ہے ،بعض چیزوں سے محبت کرتا ۔بعض سے نفرت کرتا ہے،اس کے کچھ خوف ہیں ،کچھ جرأتیں ہیں،اس کی عادت مستمرہ تقلید ہے ،وہ باہم دگر مختلف ہیں ،وہ سوچتا ہے ،اس کے کچھ اعتقدات و معتقدات ہیں،وہ تغیرات کا دل دادہ ہے ، وہ رد وقبول کا جوہر رکھتا ہے ،وہ سیادت وقیادت کا احترام کرتا ہے ،اس کے کچھ تصورات ہیں،اس کا میلان و رجحان ہے،اس کا شعور و لا شعور ہے،ہر انسان کا مطالعہ بہ حیثیت انسان ایک خطیب کا لازمہ ہے۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۹۷و۹۸)
ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں
ایک ایسا شخص کبھی کامیاب مقرر نہیں ہوسکتا ،اگر عوام کی نفسیات کے علم سے محروم ہے ‘‘۔
(ایضا،ص؍۳۵)
چنانچہ جو لوگ عوام کی نفسیات کا خیال نہیں رکھتے اور کرسیِ خطابت پر بیٹھ کر بولے چلے جاتے ہیں ،ان کی تقریر کبھی بھی مقبولیت کے کانوں سے نہیں سنی جاتی ،بلکہ ہمیشہ صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے ۔
’’بعض مقرر عوام کی نفسیات سے اجتناب کرتے اور اپنے ہی خیالات کے ہوکے رہتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے ،لہذا فضا کا احساس کیے بغیر کہے جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اسٹیج پر قابو پانے سے وہ عوام پر قابو نہیں پاسکتے۔۔۔۔اکثر مقرر مجمع سے زیادہ اپنے خیالات کوعزیز رکھتے،عوام کی اکتاہٹ کو مطلقا محسوس نہیں کرتے ۔داد کے روپ میں بے داد کا اندازہ نہیں کرپاتے اور کلماتِ ستائش کی منفی پہلووں کو بھانپ نہیں سکتے کہ ان پر تنقید و تعریض کے چھینٹے اڑائے جارہے ہیں۔۔۔ایک مقررکو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کی خواہش کے خلاف بولے جانا بہت بڑی غلطی ہے ۔اس بے طلب خطابت ہی کا نتیجہ زبردست قہقہے اور تفریحی تالیاں ہوتا ہے ‘‘۔
(فنِ خطابت ، ص؍۵۱و۵۲)
علم منطق وفلسفہ
خطابت کے اجزائے ترکیبی میں دعویٰ اور اثباتِ مدعیٰ بھی ہے۔د عوے کی وضاحت کے بعد ایک مقرر کے لیے جو سب سے مشکل مسئلہ در پیش ہوتا ہے ،وہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعوے کو کس طرح ثابت کرے اور اس کو مدلل و مبرہن کر نے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے ؟منطق وفلسفہ ایسے علوم ہیں ،جن کے مطالعے سے استدلال کے نئے نئے طریقے اجاگر ہوتے ہیں،واقعات سے نتائج و عبر اخذ کرنے کے گر ہاتھ آتے ہیں ،دعووں کو مدلل ومبرہن کرنے کے اصول معلوم ہوتے ہیں ،تحلیل و تجزیہ کی ذہنی قوت پروان چڑھتی ہے،فکر ونظر کی بصیرت کو جلا ملتی ہے اور شعور و ادراک کے مقفل دروازے کھلتے ہیں ۔اس لیے ایک خطیب کے لیے منطق وفلسفہ سے واقفیت رکھنا ضروری ہے۔
’’اس سلسلے میں ایک مقرر کے لیے منطق و فلسفہ کا جاننا ضروری ہے اور یہ خطیب کے منطقی وفلسفی ہو نے کا سوال نہیں ،مطلب ہے کہ ان مضامین سے آشنائی خطیب کے اسلوب و استدلال کی طاقت ہوتی اور اس سے خطابت میں حسن و اہتزاز پیدا ہوتا ہے ۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۶)۔
’’منطق وفلسفہ کی واقفیت بھی نہایت کار آمد اور مناظرہ کی صورت میں نہایت ضروری ہے۔پس اگر زیادہ نہیں ،تو ایک سرسری نظر ان علوم پر بھی ہونی چاہیے۔‘‘ (ایضا،ص؍۹)
یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ یہ تینوں علوم کسی بھی حیثیت سے بالکل علاحدہ علاحدہ نصاب نہیں ہیں کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ کسی کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا جائے ؛ بلکہ یہ تمام علوم مضبوط ارادے ،قلبی شغف، کثرتِ مطالعہ اور ماہرینِ فن سے استفادہ و استفسار سے خود بخود حاصل ہوجاتے ہیں۔کیوں کہ جب کوئی شخص مقرر بننے کا عزمِ مصمم کرلیتا ہے،تو یہ تمام راہیں از خود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ اپنی محنت و لگن اور مشق وتمرین سے منزل مقصود کو پالیتا ہے۔

3 Apr 2018

تقریر کا آغاز، تقریر کی اہمیت و افادیت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں مقرروں کا کردار


(قسط نمبر (2) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کا آغاز


تقریر و خطابت کاآغازکب ،کیسے ،کس سے اور کہاں سے ہوا؟ان حوالوں سے کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، کیوں کہ کسی چیز کی اصلیت و حقیقت کا ادراک اور اس کے آغاز و ارتقا سے بحث علم تاریخ کا موضوع ہے۔اور علم تاریخ کے وجود کا دارو مدار تحریر و کتابت پر ہے ،اور جس وقت تحریر کا فن وجود میں آیا ہے ،اس وقت فنِ خطابت عنفوان شباب پر تھا۔کیوں کہ یورپی ماہرینِ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق فن تحریر کا ایجاد ۳۰۰۰ ق م میں ہو اہے ۔فن تحریر کے ایجاد ہی کی وجہ اس سے پہلے کا زمانہ ’’ماقبل تاریخ انسانی ‘‘اور اس کے بعد کا زمانہ ’’مابعد تاریخ انسانی‘‘ کہلاتا ہے۔اور سائنسی نقطۂ نظر کے مطابق انسان کا وجود ؛بلکہ اس کا مکمل طبعی و فکری اور لسانی ارتقاما قبل تاریخ انسانی کے دور میں ہو چکا تھا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ خطابت کا آغاز ،فن تحریر کے ایجاد سے بہت پہلے ہوچکا تھا ۔عربوں کی ادبی تاریخ سے بھی اس کی تائید و توثیق ہوتی ہے ۔کیوں کہ اہل عرب ۔جو خطابت کے بے تاج بادشاہ اور دنیا کے سب سے بڑے زبان آور تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ غیروں کو عجمی (بے زبان ،گونگا )کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔فن تحریر سے بالکل نا آشنا تھے ،انھوں نے تحریر کا فن بہت بعد میں یمنیوں سے سیکھا تھا۔اس حوالے سے شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ:
’’خطابت کب شروع ہوئی؟مختصرا جب انسان نے بولنا شروع کیا ۔وہ شخص پہلا خطیب تھا، جس نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں سے خطاب کیا ۔یا انسانوں کا ایک مجمع جو اس کے گردو پیش تھا ، اس سے کلام کیا ۔ انسان اور خطابت ہم عمر ہیں ۔دونوں کا ارتقائی سفر یکساں ہے۔اس باب میں اختلاف رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ابلاغ عامہ کا آغاز تقریر سے ہوا اور تحریر سے کہیں زیادہ تقریر کی عمر ہے ، دو نوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔‘‘ (فنِ خطابت ،ص؍۱۵) 
تقریر کی اہمیت و افادیت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں مقرروں کا کردار
تقریر کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، بالخصوص عصر حاضر میں الیکٹرانک میڈیا کا سارا دارو مدار اسی پر ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت و افادیت دو چند ہوگئی ہے ۔انسانوں کی خدمت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں جس طرح دگر جماعتوں اور گروہوں نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں،اسی طرح مقرروں نے بھی زبردست کردار ادا کیے ہیں ۔چنانچہ تاریخ شاہدِ عدل ہے کہ جب بھی کوئی قوم جنگ و حرب جیسی آفات نا گہانی میں مبتلا ہوئی ہے اور ان کے دلوں کو گرمانے اور دفاع کے لیے مقابلے کی ہمت وحوصلہ پید ا کرنے کی ضرورت پڑی ہے ، توخطیبوں نے اپنی شعلہ بیانی اور طوفانی تقریر سے ان کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے،پھر وہ بے خطر میدانِ کارزار میں کود پڑی ہے ۔اسی طرح جب کوئی قوم گناہوں اور برائیوں کے سمندر میں غرق آب ہوئی ہے اور فسق و فجور کے قعر مذلت میں افتادہ ہوئی ہے ،تو ایک مقرر ہی نے اپنی گویائی کے برقی کرشمے اوراپنی جادو بیانی سے برائیوں کو اچھائیوں میں ،گناہوں کو نیکیوں میں ، خطاؤں کو ثوابوں میں اور فسق و فجور کو تقوی و زہد میں تبدیل کردیا ہے ۔غرض ایک مقرر انسانوں کے خیالات و تصورات اور ان کے ارادوں پر جو اقتدار رکھتا ہے اور جس طرح اس کے لب ودہن کی ادنیٰ جنبش آن واحد میں سینکڑوں دلوں کو پھیر دیتی ہے اور ماحول کی کایا پلٹ دیتی ہے ،ایسا دنیا کا بڑا سے بڑا بہادر ،بڑا سے بڑاجادو گر ؛بلکہ بڑا سے بڑا فرماں روائے سلطنت بھی نہیں کر سکتا ۔یہ تو صرف ایک مقرر ہی کا کمال ہوتا ہے ۔اور اس کے اس جیسے بڑے بڑے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
’’خطابت آن واحد میں قرنوں کا سفر کرتی اور کہیں سے کہیں لے جاتی ہے ۔ایکا ایکی پلٹ دے کر ماضی میں پہنچا دیتی،ناگہانی فراٹے بھرتی ہوئی مستقبل کی طرف بڑھ جاتی ہے۔اس کے لیے گردشِ زمانہ نہیں۔وہ لیل ونہار کے طلوع و غروب سے آزاد ہے ۔وہ انسانی مجمعوں کو اکائی میں ڈھالتی اور آوازوں کی لہروں کے ساتھ ماضی ، حال اور مستقبل میں گھماتی پھراتی ہے۔خطابت کی سب سے بڑی خوبی تصور کی پرواز ہے ۔ہم خیالوں کے سیناوں پرچڑھ جاتے اور جذبات کے سمندروں کی تہہ تک اتر جاتے ہیں،بہ الفاظ دیگر خیالات کی پرواز کا نام خطابت ہے کہ ایک انسان کی آواز ان گنت انسانوں کا مافی الضمیر بن جاتی ہے ۔ خطابت لسانی اعجاز کا خمیر ہے ، اس کے ہیولیٰ میں شاعری،موسیقی اور سنگ تراشی کے جوہر ہیں ،اس کی روح ایٹمی توانائی سے کہیں بڑھ کر طاقت ور ہے۔ لارڈ سایسری نے غلط نہیں کہا تھا کہ ’دنیا آج بھی ان کے ساتھ ہے ،جو بول سکتے ہیں‘۔‘‘(فنِ خطابت،ص؍۲۰)

2 Apr 2018

انسان اور زبان


(قسط نمبر (۱) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)   
انسان اور زبان 
بسم اللہ ارحمٰن الرحیم


انسان کی تخلیق کے نظریے
گذشتہ دو سو سالوں سے مغربی مؤرخین اور یورپی ماہرینِ آثار قدیمہ ،انسان کی تخلیق اور اس کی ابتدائی زندگی کے حوالے سے غور وخوض میں مصروف عمل ہیں۔ آثار قدیمہ کی مددسے معلومات اکٹھا کرکے کچھ تخمینی نظریات فراہم کیے ہیں ۔جن میں سے اٹھارویں صدی کے ایک یورپین مؤرخ مسٹر ڈارون کا نظریہ سب سے مقبول نظریہ مانا گیا ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ ’’سارے جان داروں کے ظہور میں آنے کے بعد ،یہاں تک اقلیم حیوانات کے طویل طبعی ارتقا کے بعدآخر میں انسان کا وجود عمل میں آیا ۔‘‘(سماجی علوم،ص؍۱۵)۔ عبدالصمد صاحب ڈارون کے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’انسان ترقی یافتہ بندر ہے۔‘‘(زبان وقلم،ص؍۱۰)
یورپین ماہرین کے اس مضحکہ خیز نظریے کے برخلاف دنیا کے تمام لوگوں کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق بندر سے نہیں ہوئی ؛بلکہ یہ خدائی قدرت کا مظہر ہے ،جسے خود قدرت کاملہ نے پیدا فرمایا ہے ۔البتہ بعض مذہبوں میں اتنا سا اختلاف پایا جاتا ہے کہ دستِ قدرت کا بنا یا ہوا سب سے پہلا انسان کون تھا؟
دنیا کا پہلا انسان
اس سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا انسان مرد حضرت آدم ؑ ہیں ،جن کو رب دوجہاں اور مالک کن فکاں نے عناصر اربعہ (آگ،مٹی،ہوا ،پانی)کے امتزاج سے پیدا فرمایا تھا ۔اور سب سے پہلی عورت حضرت حواؑ ہیں ،جنھیں حضرت آدم ؑ کی بائیں پسلی سے کوئی مادہ لے کر پید ا کیا گیا ہے ۔
اس بات کی تائید دنیا کی سب سے پرانی کتاب ’’توریت ‘‘سے بھی ہوتی ہے کہ ’’خدا نے انسانی پیدائش کا آغاز ایک جوڑے سے کیا ،مرد کا نام آدم اور عورت کا نام حوا تھا ‘‘(بحوالہ :زبان وقلم ص؍۱۸)۔عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی یہی نظریہ ہے ۔البتہ پارسی مذہب کے پیرو’’آباد ‘‘ کو سب سے پہلا انسان مانتے ہیں ۔اس کی داستان حیات اور حضرت آدم ؑ کی سیرت میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ہندووں کے یہاں سب سے پہلا انسان ’’برہما‘‘ تصور کیا جاتا ہے ۔ اس برہما اور حضرت آدم کے واقعات میں بے شمار مماثلت دکھائی دیتی ہے ۔ صاحبِ زبان و قلم لکھتے ہیں کہ ’’جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ حوا ؑ آدمؑ کے پہلو سے نکلیں،ہندووں میں روایت ہے کہ برہما کا سینہ چیرا ،تو ان کی زوجہ شرستی نکلی ۔آدم کے بیٹوں:ہابیل اور قابل کا جو واقعہ ہے ،وہی داستان برہموں کے بیٹوں:سندا اور سند کی ہے۔‘‘ (ص؍۱۹)۔ہندووں کی کی بعض روایتوں میں برہما کے بجائے پہلا انسان ’مہادیو‘اور اس کی بیوی ’پاربتی‘کو مانا گیا ہے۔لالہ رتن لعل نے لکھاہے کہ ’برہما‘،بشن،مہیش۔مہیش یعنی مہادیو کو آدم جانتے ہیں اور ان کی زوجہ جو پاربتی ہے ،وہ حوا ہے ۔(نگارستانِ کشمیر،ص؍۳۴۴،بحوالہ عمدۃ التاریخ،ص؍۱۹۔)
مذکورہ باتوں پر غائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ دنیا کے سب سے پہلے انسان حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ ہی ہیں ۔گردشِ ایام اور زمانے کے تصرفات کی وجہ سے دیگر مذاہب کی روایتوں میں تغیرات واقع ہوگئے ہیں ،جن کی وجہ سے اصل حقیقت گم ہوکر رہ گئی ہے ،تاہم اصلیت کی کچھ نہ کچھ جھلک ان میں اب بھی باقی ہے ،جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہادیو،برہما اور آباد سب کے مصداق حضرت آدم ؑ ہی ہیں زبانوں اور روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے نام میں اختلاف واقع ہوگیا ہے ۔
زبان کی ابتدا کے نظریے
انسانی تخلیق کی طرح ابتدائے زبان کے حوالے سے مغربی مؤرخین نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں ،جن میں ایک یہ ہے کہ اقلیم حیوانات کے طویل طبعی ارتقا کے بعد جب انسان کا وجود عمل میں آیا ،تو اس نے اولاً پہاڑوں کے غاروں اور صحرا و بیابانوں کو اپنا مسکن بنایا۔پھر جب اس کے اندرتہذیب وتمدن کا شعور بیدار ہوا ،تو پہاڑوں اور جنگلوں سے نکل کر ہموار زمین پر آباد ہوا ۔رفتہ رفتہ اس کی تعداد بڑھتی رہی ،جس سے ایک معاشرہ وجود میں آیا ۔ چوں کہ معاشرے میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی ،جس کے اظہار کے لیے پہلے پہل اشاروں سے کام لیا ہوگا ،جیسا کہ ایک گونگا آدمی اپنا کام نکالتا ہے ۔سب سے پہلی آواز وہ وجود میں آئی ہوگی ،جو شروع میں بچہ نکالتا ہے ۔اس طرح سے گویائی اشارات سے اصوات میں تبدیل ہوئی ہوگی ۔پھر انھیں اصوات سے حروف پیدا ہوئے ہوں گے ۔اور حروف سے جملے وجود میں آئے ہوں گے ،علاوہ ازیں پتوں کی سرسراہٹ، جان وروں کی کھڑکھڑاہٹ ، آب شاروں کی سیلانی اور موجوں کی طغیانی سے پیدا ہونے والی صوتی کیفیتوں سے الفاظ بنائے گئے ہوں گے ۔اور خود انسان نے اپنے طور پر ما فی الضمیرکی ادائیگی کے لیے کچھ آوازیں نکالی ہوں گی،جو تدریجی طور پر ترقی کرکے ایک مکمل زبان بن گئی ہوگی۔
زبان کے آغاز کے حوالے سے ڈکٹر گیان چند جین نے بہت طویل اور مفید بحثیں کی ہیں جن میں مزید کچھ نظریے درجِ ذیل ہیں :
(۱)الہامی نظریہ :یعنی زبان ایک الہامی چیز ہے ،جسے خدا نے الہام کے ذریعے انسان کو سکھائی ہے ۔
(۲)قدیم زبان کا نظریہ :یعنی چند افراد نے مل کر کسی زبان کے بارے میں’ازلی قدیم‘ ہونے کا فیصلہ کر دیااور اسی سے زبان کا وجود مان لیا گیا ۔
(۳)فطری نظریہ :شی اور اس کے نام میں فطری تعلق ہوتا ہے ،اس لیے شی کے وجود میں آنے کے ساتھ زبان بھی وجود میں آتی ہے ۔
(۴)معاہدے کا نظریہ :سب لوگوں نے رائے اور مشورے سے زبان بنائی اور چیزوں کے نام متعین کیے ۔ 
(۵)ڈِنگ ڈونگ نظریہ :جس طرح مختلف دھاتوں پر چوٹ لگانے سے الگ الگ طرح کی آوازیں نکلتی ہیں ، اسی طرح انسان کے دماغ پر مختلف بیرونی تأثرات نے مختلف چوٹیں دے کر آوازیں پیدا کیں ،جو رفتہ رفتہ ایک مکمل زبان بن گئی ۔
(۶)فجائی و نغمائی نظریہ :خوشی یا غمی کی شدت کی وجہ سے اضطراری اور بے اختیاری طور پر کچھ آوازیں نکلیں ،جو بعد میں چل کر زبان کا قالب اختیار کرگئیں ۔
(۷)ٹاٹا نظریہ :نادانستہ طور پر انسانی جسم کے اعضا سے کچھ آوازیں نکلیں (جیسے کہ کپڑا دھوتے وقت دھوبی کی زبان سے ایک مخصوص آواز نکلتی ہے )پھروہی آوازیں زبان بن گئیں ۔
(۸)تارا پور والے کا نظریہ :بندر انسان بننے تک جسمانی ارتقا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ زبانی ارتقا بھی حاصل کرتا رہا ،جیسا کہ بچہ جسمانی و زبانی ارتقا حاصل کرتا ہے ۔
(۹)آٹو موٹو پوٹنک نظریہ :انسان نے بعض طبعی آوازوں کو نقل کر کے الفاظ تجویز کیے ۔
(۱۰)باوواو نظریہ :باوواو کتے کی آواز کو کہتے ہیں ،یعنی جس طرح کتا یا کوئی اور جانور مخصوص آواز نکالتے ہیں،اسی طرح اول اول انسانوں نے آوازیں نکالیں ،چوں کہ انسان کے اعضا ئے صوتی زیادہ لچک دار تھے ،اس لیے اس کی زبان سے زیادہ اقسام کی آوازیں نکلیں ۔یہ آوازمختلف مفہوموں کے قائم مقام ہوکر الفاظ بن گئیں ۔ (تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے :لسانی مطالعے،ازص؍۳۳تاص؍۵۵اورزبان وقلم،ص؍۱۳)
مغربی مؤرخین کی یہ تھیوریاں حقیقت سے کس درجہ میل کھاتی ہیں ،یہ اظہر من الشمش ہے؛کیوں کہ ان تھیوریوں پر خود انھیں مفکرین کو کبھی کامل وثوق نہیں رہا ہے ،تابہ دیگر چہ رسد؟۔اور ’جتنے منھ ،اتنی باتیں‘کا مصداق بنی ہوئی ہیں۔
زبان کے آغاز کے حوالے سے اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ زبان ایک توفیقی امر ہے ،جسے خالق کائنات نے انسان کے جد امجد سیدنا حضرت آدم ؑ کوسکھائی تھی۔’’وَعَلم اٰدم الاسماء کلہا‘‘ (سورہ بقرہ،آیت ۳۱) حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ دنیا میں جس قدر انبیائے کرام مبعوث ہوئے ہیں ،ان پر ایک ایک کتاب نازل ہوئی ہے ۔ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ کو الف بے وغیرہ کا علم وحی کے ذریعے عطا کیاگیا ۔(لطائف الاشارات فی اسرارالحروف المعلومات،بحوالہ زبان وقلم،ص؍۲۲و۲۳)
اہل یورپ اور دنیا کے تمام لوگوں کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ زبان بذریعۂ الہام انسانوں کو سکھائی گئی ہے ؛لیکن نام نہاد مغربی مؤرخین نے اس عقیدے کو قائم رہنے نہیں دیا اور اس کے بجائے ایسے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز نظریے پیش کیے ،جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا ،کیوں کہ اشرف المخلوقات کی زبان کتوں اور بندروں کی رہینِ منت نہیں ہوسکتی۔
دنیا کی پہلی زبان
گذشتہ باتوں کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ زبان انسان کے ساتھ آئی ہے ،جس قادر مطلق نے اس کو پیدا کیا ہے ،اسی علیم وخبیر نے اس کو زبان بھی عطا فرمائی ہے ۔لیکن اس میں تین مذاہب کے محققین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی زبان کون سی ہے ۔ہندو محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کی پہلی زبان ’سنسکرت ‘ ہے ، جس میں وید او ر رامائن لکھی گئی ہیں ۔جب کہ بدھسٹوں کا دعویٰ ہے کہ پہلی زبان ’پراکرت ‘ ہے ؛ لیکن حقیقت یہ کہ اولیت کا فخر ’عربی زبان ‘ کو حاصل ہے ،کیوں کہ مؤرخین اور زبان کے ماہرین (جن مین میکس مولر پیش پیش ہیں ) دنیا کی تمام زبانوں کو درجِ ذیل تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:(۱)ایرین یعنی انڈو یورپین (۲)سمٹیک یعنی سامی زبانیں (۳)ٹیرین یعنی تورانی زبانیں۔اور ان تینوں کے مقسم پر لکھتے ہیں ’’ابتدائی گفتگو جو ناپید ہے ‘‘۔(علم الحروف، ج ؍۴ص ؍۲۹ ) 
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ دنیا کا پہلا انسان حضرت آدم ؑ ہیں اور اس بات کی بھی تحقیق ہوچکی ہے کہ زبان عطائے الٰہی ہے ،جو انسان کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے ۔اس لیے اگر اس امر سے پردہ اٹھ جاتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی زبان کیاتھی ،تودنیا کی پہلی زبان کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔چنانچہ اس سلسلے میں ایک روایت ہے کہ ’’جب قالب آدم ؑ میں روح پہنچی،تو سب سے پہلے ان کی زبان سے نکلا ’الحمد للہ رب العالمین‘یہ جملہ عربی زبان کاہے ۔‘‘ (اخبارالاول وآثارالاول،بحوالہ زبان و قلم،ص؍۲۲)۔قال سفیان الثوری :لم ینزل وحی الا باالعربیۃ،ثم ترجمہ کل نبی بلغتہ۔(روح المعانی ،ج؍۱۷،ص؍۱۶۷۳،بحوالہ زبان و قلم،ص؍۲۳)یعنی وحی صرف عربی زبان میں آئی ہے پھر ہر نبی نے اپنی اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کیا ہے ۔ ان روایتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی زبان عربی تھی ، لہذام الالسنہ عربی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک سنسکرت کی ام الالسنہ ہونے کی بات ہے تو زبان کے ماہرین اسے ایرین زبانوں کی ایک شاخ قرار دیتے ہیں ،اصل زبان ہی نہیں مانتے ۔پنڈت دیانند ’اپدیش فنجری ‘ میں نیستری اپنیشد کی عبارت لکھنے کے بعد دینا کی پیدائش کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ ’’ آدمی سرسی میں پانچ ورش چلتی رہی ۔پھر پرماتما نے منشوں کو وید کا گیان دیا۔یعنی دنیا کی پیدائش کو پانچ سال ہوگئی ۔تب جاکر وید کا الہام ہوا ایسا ہی ’سیتیارتھ پرکاش‘ میں بھی ہے ‘‘۔(مذہبی معلومات ، ص؍۴۳و۴۵،بحوالہ زبان و قلم ،ص؍۳۶)۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وید (جو سنسکر ت کی پہلی کتاب ہے) دنیا کی پیدائش کے پانچ سال بعد الہام ہوئی ہے ،تو ظاہر ہے کہ اس پانچ سال کی مدت میں انسان کوئی نہ کوئی زبان ضرور بولتا ہوگا ۔لہذا سنسکرت پہلی زبان نہیں ہوسکتی۔اور جہاں تک ’پراکرت ‘ کی بات ہے،تو اسے بھی پہلی زبان قرار نہیں دی جاسکتی ؛کیوں کہ مؤرخینِ السنہ کی تصریح کے مطابق پراکرت دراوڑیوں کی زبان تھی ۔یہ نسلی اعتبار سے افریقی تھے۔یہ لوگ غذا کی تلاش میں افریقہ کے گرم اور خشک علاقوں کو چھوڑ کر سندھ پہنچے اور یہاں کی شادابی اور زرخیزی کو دیکھ کر یہیں دریا کے کنارے آباد ہوگئے اور یہاں کی معاشرت و سماج میں اس طرح گھل مل گئے کہ اپنی شناخت ،تہذیب اور مادری زبان کو بھی فراموش کربیٹھے،جس کے نتیجے میں ایک نئی تہذیب کے ساتھ ساتھ ایک جدید زبان بھی وجود میں آئی ۔اسی زبان کا نام ’پراکرت‘ ہے ۔گویا پراکرت زبان دراڑیوں کے ہندستانی سماج سے اختلاط کے بعد وجود میں آئی ہے ۔لہذا اسے پہلی زبان کے طور پر کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ۔جب یہ دونوں حریف زبانیں ام الالسنہ نہیں بن سکتیں ،تو یقینی طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کی سب سے پہلی اور اصلی زبان ’عربی زبان‘ ہے۔ جیساکہ ڈاکٹر احمد حسن زیات کی تحقیق ہے کہ 
’’عربی ادب تمام ادبوں میں سب سے زیادہ وسیع ہے ،اس لیے کہ یہ انسان کی طفولیت ہی سے مخلوقِ خدا کی زبان رہی ہے ۔‘‘(تاریخ الادب العربی،ص؍۷) 
زبان کے اختلاف کے اسباب و وجوہات
زبان انسان کی ایک ضرورت ہے اور ضرورت میں تنوع،تبدیلی اور اختلاف کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے ،اس لیے زبان بھی زمانے اور ماحول کے اثرات کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ وروپ اور چولا بدلتی رہتی ہے جو آگے چل کر ہر روپ ایک مستقل زبان کی حیثیت اختیا ر کر لیتا ہے ۔چنانچہ شروع میں تمام انسانوں کی زبان ایک تھی ؛لیکن زمانے کے تقاضوں اور نئی نئی ضرورتوں کے پیشِ نظر نئی نئی زبانیں تشکیل پاتی رہیں ،جن کی مختلف لوگوں نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں ،ان میں چند درجِ ذیل ہیں ۔
(۱)ڈاکٹر سنویس نے لکھا ہے کہ طوفان (نوحؑ ) کے بعد لوگوں نے شہر بابل آباد کیا اور ایک برج تعمیر کیا،جس کو آسمان سے ملانے کا ارادہ تھا ۔خدا کو ان پر غصہ آیا ان کی زبان میں اختلاف پیدا کر دیا ۔وہ ایک دوسرے کی زبان سمجھنے سے معذور ہوگئے ،اس لیے وہا ں سے اطرافِ عالم میں پہنچ گئے۔
(تاریخ ملل قدیمہ، ص؍۱۱۸،بحوالہ زبان و قلم ،ص؍۲۸)
(۲)ڈاکٹر احمد حسن الزیات لکھتے ہیں کہ ’’جب حضرت آدمؑ کی اولاد کی تعداد بڑھی اور سب کا ایک جگہ رہنا دشوار ہوگیا ،تو وہ لوگ سہولت کے خاطر اللہ تعالیٰ کی وسیع و عریض زمین پر پھیل گئے اور مختلف مقامات پر جاکر آباد ہوگئے ، جہاں انھیں ایک نیا ماحول ملا اورنئی نئی ضرورتیں پیش آئیں ،جن کے لیے انھوں نے نئے نئے الفاظ وجود میں لائے ۔ اسی طرح بعد میں آنے والی نسلوں میں (اپنے باپ دادوں سے جدا ہونے اور اجنبی لوگوں سے ملنے جلنے کی وجہ سے ) نئے نئے لہجے ظہور پذیر ہوئے اور رفتہ رفتہ ہر لہجہ ایک مستقل زبان بن گیا ‘‘۔(تاریخ الادب العربی،ص؍۱۵)
(۳)علامہ بغویؒ نے ’معالم التنزیل ‘ میں [و علم اٰدم الاسماء کلہا] کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم ؑ کو تمام زبانوں کا علم عطا کیا تھا۔حضرت آدم ؑ اپنی ہر اولاد سے الگ الگ زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔جب ان کی اولاد مختلف خطوں میں پھیل گئی ،تو ہر ایک نے ایک ایک زبان اختیار کرلی ۔اس طرح سے مختلف زبانیں وجود میں آئیں ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
زبان و ادب کی تعریف و تشریح
قلبِ انسانی پر جب رنج و غم ،مسرت و خوشی ،کامیابی و کامرانی اور ناامیدی و نامرادی کے اثرات پڑتے ہیں ، یا جب انسان اپنے گرد و پیش کے خوش نما منظروں ،قوس و قزح کی رنگینیوں،آبشاروں کی غرغراہٹوں ،جھرنوں کی نغمہ ریزیوں ،بلبلوں کی ترانہ سنجیوں ،باغ وبہار کی رعنائیوں؛غرض مناظرِ قدرت کی دل فریبیوں کا مشاہدہ کرتا ہے ، تو وہ فطری طور پر ان کے اظہار کے لیے مضطرب وملتہب ہوتا ہے ۔جب اظہارِ جذبات اور ترسیلِ خیالات کے لیے باقاعدہ کوئی زبان نہ تھی اور دنیا تہذیب وتمدن سے نا آشنا تھی،تو انسان اپنی ان قلبی کیفیات کو مختلف اشاروں، کنایوں اور بے معنی آوازوں سے ظاہر کرتا تھا ۔لیکن جب اس کے اندر تہذیب وتمدن کا شعور بیدار ہونے لگا ،رفتہ رفتہ ترقی کے منازل طے کرنے لگا اور اشارے و کنایے ، اس کے جذبات کی مکمل ترجمانی سے عاجزی ظاہر کرنے لگے ،تو اس نے مصوری اور سنگ تراشی کا سہارا لیا۔ پھر جب زمانے نے اور ترقی کی اور عقل وفکر کے زاویے وسیع ہوتے گئے،انسانوں کی حسن پرستی اور ذوقِ جمالیات بڑھتا رہا ،تو ان کے احساسات کے اظہار کے لیے مصوری و سنگ تراشی بھی ناکافی ثابت ہونے لگیں،کیوں کہ اس میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مصوری میں جذباتِ انسانی کے ایک پہلو کا نقشہ تو کھینچا جاسکتا ہے؛ لیکن دوسرے پہلو تاریکی میں ہی رہ جاتے ہیں ۔وہ تمام کیفیات کو ایک تصویر میں نہیں سما سکتی۔جب انسان نے اس خامی کو محسوس کیا ،تو اپنے احساسات کے اظہار کے لیے موسیقی کا رخ کیا اور اس میں مختلف راگ راگنیوں ،سُروں اور تالوں کو نکال کر اپنی کیفیات ظاہر کرنے لگے ۔ اس طرح سے فن مصوری اور موسیقی کی بنیادیں پڑیں۔لیکن جب زمانہ اور آگے بڑھا اور موسیقی بھی مکمل طور پر ان کے ذوقِ جمالیات کی تسکین خاطر نہ کرسکی ،تو انھوں نے الفاظ و اصوات کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور مصوری وموسیقی کے لیے بھی الفاظ و اصوات سے کام لینے لگے۔۔۔نتیجہ یہ ہواکہ جذباتِ انسانی کے جتنے پہلو تھے،سب نمایاں ہوگئے۔اسی کا نام زبان اور ادب ہے۔ زبان و ادب کے اسی مفہوم کو مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔چنانچہ رکسن کہتا ہے کہ 
’’قدرت نے انسانی فطرت میں جن سرمدی اشیا کو ودیعت فرمائی ہے ،انھیں کے اظہار کو ادبِ لطیف کہتے ہیں ‘‘ ۔ (بروک انگلش لٹریچر،ص؍۵۰،بحوالہ خلاصہ روحِ تنقید،ص؍۱۰۔)
گوسائیں کا کہنا ہے کہ 
’’انسان جب کسی شی کو دیکھتا ہے ،تو اس کے متعلق اس کے دماغ میں مختلف خیالات پیدا ہوتے ہیں، انھیں خیالات کو اگر ہم مناسب الفاظ میں بیان کریں ،تو یہ ادب ہے‘‘۔(خلاصہ روح تنقید،ص؍۱۴)
ڈاکٹر احمد حسن زیات لکھتے ہیں کہ
’’اد ب اللغۃ ما اثر عن شعراۂا و کتابہا من بدیع القول المشتمل علی تصور الاخیلۃ الدقیقۃ و تصویر المعانی الرقیقۃمما یہذب النفس و یرقق الحس ویثقف اللسان‘‘۔
یعنی شاعروں اور نثر نگاروں کی ان انوکھی کاوشوں کا نام ادب ہے ،جو عمدہ افکار اور لطیف خیالات پر مشتمل ہوتی ہیں ، جن سے تہذیب و شائستگی،احساس میں لطا فت اور زبان میں استواری پیدا ہوتی ہے۔
(تاریخ الادبی العربی،ص؍۷)
کسی اور نے مختصراور جامع لفظوں میں ادب کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ 
’’الادب ہوالمجموع الجید من النظم والنثر‘‘۔یعنی ادب نظم و نثر کے انوکھے اور عمدہ مجموعوں کو کہا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ادب کی شکل میں نظر آنے والی ہر چیز پر ادب کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ، جب تک کہ اس کے اندر تخلیقی انفرادیت،مخصوص اسلوب نگارش، لطیف احساسات و خیالات ،سچے جذبات اور متاثر و مرعوب کرنے کی خوبیاں نہ پائی جاتی ہوں۔ادبی تحریروں کی یہی خصوصیات و امتیازات ،انھیں غیر ادبی تحریروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
ادب کی تقسیم
ادب کی مختلف حیثیتوں سے مختلف تقسیمیں کی گئی ہیں،مثلا:تنقید وتخلیق کے اعتبار سے۔ اسالیبِ بیان اور زبان کی حیثیت سے ۔موزونیت و موسیقیت کے لحاظ سے وغیر ہ وغیرہ۔لیکن عام طور پر اس کی دو قسمیں کی جاتی ہیں:
(۱)نثر (۲)نظم۔
نثر اس کو کہا جاتا ہے ،جس میں وزن اور قافیے کا التزام نہیں کیا جاتا ہے ۔اور نظم اس کوکہا جا تا ہے ،جس میں ان چیزوں کا التزام کیا جاتا ہے اور اس میں لطیف خیالات اور مؤثر مضامین بیان کیے جاتے ہیں۔
شلرازو کا قول ہے کہ 
’’الفاظ بہترین طور پر استعمال کرنا نثر ہے اور بہترین الفاظ کو بہترین طور پر استعمال کرنا نظم کہلاتا ہے۔‘‘ (خلاصہ روحِ تنقید،ص؍۲۳)
زبان وادب اور زندگی
زبان وادب عقل کا مظہر اورافکاروخیالات کا آئینہ ہے ۔انسان کے گرد و پیش کے حالات اور خود اس کی اپنی ضروریات کے اظہار اور دوسروں سے اپنے جذبات واحساسات بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔زبان وادب خدا تعالیٰ کی ایک ایسی بے بہاو بیش قیمت نعمت ہے کہ اس کے بغیر لطفِ زندگی کا حقیقی تصور بے معنی اور نظام کائنات ادھورا اور ناقص نظر آتا ہے۔کیوں کہ اگر زبان نہ ہوتی اور دانائے روز گار اس نعمت سے انسانوں کو بہرہ ور نہ کرتے ، توانسان جانورں اور ارذل ترین مخلوق کی زندگی جینے پر مجبور ہوتا اور ترقی کے اس اوج کمال پر پہنچنے اور ثریاپر کمندیں ڈالنے کے بجائے پستی و انحطاط اس کا مقدر ہوتا ۔اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان اپنے خیالات کا اظہا ر نہ کرپاتا اور نہ ہی وہ تہذیب و تمدن سے آشنا ہوپاتا۔اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان اپنے پیش رو اسلاف کے تجربات و مشاہدات اور ان کے کارناموں سے واقف نہ ہوپاتا۔نتیجۃََ ترقی کے مدارج کو طے کرنا تو دور ،وہ خودایک مجسمۂ جمود بن جاتا ۔آج زندگی کے ہر میدان میں جو ترقیاں بالخصوص سائنسی و ٹکنالوجی کے انقلابات دکھائی دے رہے ہیں ، ان کا وجود؛بلکہ ان کے وجود کا تصور تک نہ ہوتا ۔المختصر اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان کی تخلیق نامکمل معلوم ہوتی۔لہذا کہا جاسکتا ہے کہ زبان وادب زندگی کی روح ، زندگی کا اصلی جوہر اور زندگی کی اساس ہے ۔ترقی کا ذریعہ اور تہذیب وتمدن کی بنیاد ہے۔انسانوں اور حیوانوں میں تفریق وامتیاز پیدا کرنے کا معیار ہے ۔اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جن قوموں نے اپنی زبان وادب ،تاریخی روایات،اسلاف کے کارنامے اور اکابر کے علوم وفنون کی صیانت و حفاظت کی ہے ،آج وہ ترقی اور تہذیب وتمدن میں سب سے آگے اور نام ونمود میں شہرۂ آفاق ہیں۔اور جن قوموں نے اپنی زبان وادب اور تاریخی روایات کو بھلادیا ہے ، اور اپنے اسلاف کے علوم و فنون کو موروثی سمجھ کر ان سے بے اعتنائی و لاپرواہی برتی ہے،یا تو ان کا نام ونشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے اور وہ ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ گئی ہے،یاپھر ذہنی و فکری غلامیت و محکومیت کی ذلت آمیز زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی ہے ،جو سیاسی غلامیت و عبدیت سے بھی زیادہ حقارت خیز زندگی ہے ؛کیوں کہ جسمانی غلامی ایک ایسی بیماری ہے ،جس کا علاج ممکن ہے اور اس سے شفا کی امید کی جاسکتی ہے ؛لیکن روح کی غلامی اور فکری و ذہنی محکومی ایک ایسی بیماری ہے،جو لا علاج ہے۔ کیوں کہ اس میں انسانیت اور ضمیر کی موت ہوجاتی ہے ۔اور دنیا کے ہسپتال میں کوئی ایسا ڈاکٹر اور یہاں کے میڈیکل میں کوئی ایسی دوا نہیں ہے ،جو موت کو حیات میں بدل دے۔اس لیے زبان و ادب کی حفاظت اور اس کی فروغ کاری قوم کا ایک واجبی فریضہ ہے۔
زبان و ادب کو برتنے کی صورتیں
زبان وادب انسانی زندگی کی ایک ضرورت ہے ۔اور انسانوں کی ضرورتوں میں زبردست اختلاف اور تنوع پایا جاتا ہے ۔اس لیے زبان و ادب کے استعمال میں اختلاف کا پایا جانا ایک فطری بات ہے ،جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:(۱)عام بول چال کی زبان (۲)تحریری و کتابی زبان(۳)تقریری و خطابی زبان۔
عام بول چال کی زبان
اس سے مراد وہ زبان ہے ،جسے عوام ،ناخواندہ اور جاہل طبقہ استعمال کرتا ہے اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اس کا سہارا لیتا ہے۔اس میں مہذب وغیر مہذب ،شائستہ و ناشائستہ ہر طرح کے الفاظ ہوتے ہیں ۔اسی طرح یہ زبان تصنع و تکلف ،پیچدہ تراکیب ،گنجلک اسالیب اور فلسفیانہ مضامین سے بالکل پاک ہوتی ہے۔پس جو کچھ کہنا اور بولنا ہوتا ہے ،سیدھے سادے انداز میں کہہ دیاجاتا ہے ۔کوئی مخصوص اسلوب یا لب و لہجے میں انفرادیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔اسے غیر ادبی زبان کہا جاتا ہے۔
تحریری و کتابی زبان
اس سے مراد وہ زبان ہوتی ہے،جوقلم کار حضرات ۔خواہ وہ نثر نگار ہوں یا نظم نگار۔اپنے ذہنی خاکوں اور قلبی کیفیتوں کو بیان کرنے کے لیے مخصوص اسلوب بیان اور منفرد انداز نگارش کے ساتھ استعما ل کرتے ہیں۔اس میں ایک عام فہم بات کو مختلف طریقوں اور دل چسپ پیرائیہ بیان میں بیان کیا جاتاہے۔اور الگ الگ صنائع و بدائع کا سہارا لے کر متنوع خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔المختصر اس میں وہ تمام خصوصیات ہو تی ہیں ،جو ایک ادبی تحریر کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
تقریری و خطابی زبان
زبان و ادب کے استعمال کا تیسرا طریقہ تقریرو خطابت ہے ۔اس کا تعلق بھی ادبی زبان ہے، البتہ دونوں میں صرف اتنا فرق پایاجاتا ہے کہ او ل الذکر کا تعلق زبانِ قلم سے ہے جب کہ آخر الذکرکا تعلق زبانِ لحم سے ہے۔
زبان و ادب کے استعمال کے صرف یہی تین طریقے ہیں ،جن میں سے حسبِ لیاقت کسی ایک کا سہارا لے کر انسان اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ان کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ اگر کوئی اور طریقہ مانا جاتا ہے ،تو درحقیقت وہ زبان ہے ہی نہیں،اس لیے اسے حسبِ واقعہ مثلا اشارات و کنایات وغیرہ کہنا زیادہ بہتر ہے۔

کفاح علماء دیوبند فی قمع الشرک والبدع واصلاح المجتمع


کفاح علماء دیوبند فی قمع الشرک والبدع واصلاح المجتمع 
التقدیم
بمناسبۃ الاحتفال السنوی للنادی العربی الذی انعقد یو م الخمیس اِثْرَ صلاۃ العشاء فی احد وعشرین من جمادی الثانی عام سبعۃ وعشرین وأربع ماءۃٍ بعد الألف المصادف لأربعۃ آیام بقین من شہر جولائی سنۃ ست وعشرین ماءۃ فی قاعۃ الحدیث التحتانیۃ بدارالعلوم دیوبند۔


التوضیحات 
الممثلون دور
(۱)محمداکرم أمین الملکۃوکتوریہ 
(۲)مستقیم باللہ عضوالبرلمان الأول 
(۳)آفتاب عالم عضو البرلمان الثانی 
(۴)عبدالجلیل عضوالبرلمان الثالث 
(۵)محمد مصطفی الأب فندر
(۶)محمد أزھر المسلم العامی 
(۷)حبیب اللہ محمود الشیخ النانوتوی 
(۸) محمدزاہد الاب نولس 
(۹)محمد نظام الدین الأب محی الدین 
(۱۰) محمد سفیان الأسقف دیانند سرسوتی
(۱۱)محمد تفصیل المبلغ دیانند سرسوتی
(۱۲)محمد خلیق رجل عامی (من البر یلوی )
(۱۳)محمد احمد حشمت علی (البریلوی)
(۱۴)محمد خالد الشیخ نعیم الدین (البریلوی) 
(۱۵)محمد شوکت غلام دستغیر (البریلوی)
(۱۶)عبدالواحد رجل عامی (من البریلوی)
(۱۷)سراج الدین ا لشیخ سرد ا ر علی خان (الد یوبند ی )
(۱۸)آمان اللہ الشیخ النعمانی (الدیوبندی)
(۱۹)محمد قاسم الشیخ عبد اللطیف (الد یوبندی)
(۲۰)صغیر احمد الشیخ محمد امین (الدیوبندی ) 



( دورۃ البرلمان البریطانی)
الملک البریطانی:اخوانی الأجلاء! قد أتانی نبأ سارّ ان الملک المغولی النہائی ’’بہادر شاہ ظفر‘‘ قد أُلقِیَ القبضُ علیہ وسجنَ فی سجن’’رنگوں‘‘ مما أسفر عن استیلائنا علی الہند بشکل کامل۔ فالآن أنا أعلن بکل فخر: أن الخلق للہ، والملک للملک، والحکم للشرکۃ، ولکن أنا أخشی المسلین أن ینہضوا من النوم وأن یکافحوا أمارتنا واحتلالنا کالسابق، وہذا خطر عظیم لنظامنا، لذلک جمعتُکم لنُبحث تدبیر المؤامرات لتکریس الاحتلال واستقرارہ، فمارأیکم فی ہذا الأمر الخطیر؟
عضو البرلمان الأول: أری أن نجبر جمیع المسلمین الہنود علی التبشیر بالدین المسیحی،ومن انکر منہم فنحن نقضی علیہ أونحبسہ،ونکسب الہندوس أیضا الی صفنا ضدہم، 
عضو البرلمان الثانی:انا تَبْعٌ لما یہوی صدیقی، ولکن ہذا من المؤامرات الخارجیۃ، لعلہ لا ینال التاثیر الجدیر بہ، فاضف الی ذلک ان نفکک تفکیکاً داخلیا بین المسلمین، بأن نُبْعِثْ ونُقیم بینہم نبیا بصورۃ ’’مرزا غلام أحمد القادیانی‘‘ ففائدتہ علی الأقل ان لم یقوموا بالتبشیر أن یُفسدَ دینہم وایمانہم، وأیضا نُلہب الفتن الشیعیۃ والبریلویۃ وغیرہا من الفتن الداخلیۃ، حتی تحیط بہم الفتنُ من جمیع النواحی۔
عضو البرلمان الثالث: أنا أتفق معکم علی ہذہ الأمور، ولکن ان شئنا ان نحصل علی مرامنا غایۃ الحصول، فیجب علینا أن نفسد عقائد ہم بنشر الأفعال القبیحۃ غیر الا سلامیۃ کالسجدۃ علی الرموس و الاستغاثۃ منہم، فان لم یتأثروا بالفتن السابقۃ، یتطرق الیہم الضلال و الزیغ بہذا الشکل وہم لا یعلمون، ولن یکون الفلاح حلیفنا حتی نُنَفِّرَ الشعوب الہندیۃ الاسلامیۃ من العلماء، لاسیما من العلماء الدیوبندین، فانہم قد لعبوا دورا ملموسا فی اقامۃ الشعب الہندی ضد نظامنا، والیہم یرجع المسلمون فی أمورہم کلہا۔
الملک البریطانی: (بعد أن کتب شیئا) قد اتخذ المجلس البرلمانی قرارات فی شان تضلیل المسلین فی الہند واستقلال نظامنا فیہا، وہی: الأول: أن تدعم الفتن الخارجیۃ، الثانی: أن تلہب الفتن الدخلیۃ، الثالث: أن ترحل وأن تبعث طائفۃ من الأساقف الکبار الی الہند لتقوم بہا خیر قیام، الرابع: ان نختار سبلا أخری حیثما یقتضیہ المقام،(وعلی ہذاینتہی ہذا المجلس الیوم، ویعقد عند ما نضطر الیہ)
(قدوم الأساقف فی الہندای علیٰ المنصۃ)
الأب فندر:أیہا المستمعون الکرام! اسمعوا وعُوا؛ ان الدین المسیحی ہو الدین الحق ولا نجاۃ ولا فلاح الا بہ، فأبشروا بالدین المسیحی،واعلموا أن المرء لایأثم وان ارتکب الکبائر؛ لأن اللہ۔عزوجل۔ حینما رأی أن جمیع الانسان محاطون بالذنوب ومستغرقون فی بحر الآثام، فتَمَثَّلَ سیدنا عیسی ۔علیہ السلام۔ وشنق نفسہ علی المِشْنَقَۃِ وکَفَّرَ عن خطایا جمیع الناس، فلا ذنب فی المسیحیۃ۔
أما مذہب الاسلام فہو کبیر شاقٌ علی النفوس، لا یمکن اجتناب المعاصی فیہ بدون العقاب، ولا سبیل الی الغفران سوی التوبۃ، فعلیکم أن تبشروا بالمسیحیۃ واِلا ستُعذّبون عذابا شدیدا أو تُسْجنون۔
المسلم العامی: أیہا الاسقف! لا یناسب لک أن تُشَوِّہَ صورۃ الاسلام وأن تبالغ فی مدح المسیحیۃ، وکیف تنفث السموم ضد الاسلام وأبناۂ وأہلہ؟ مع ان الاسلام ہو الدین الحق الناسخ لجمیع الأدیان السابقۃ۔
الأب فندر: ان مذہبی حق صادق، ودینک الاسلام مزور باطل،لا صلۃ لہ بالحق، فأن شئتَ فادع علمائک لأباحث معہم عن ذلک۔
المسلم: نعم! أنا مستعد للمناقشۃ حول ہذا الموضوع، فادع أنت اساقفک الکبار، وأنا أدعو علمائی الدیوبندیین۔
(یتکلمان بالجوال)
المسلم: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،قدخطبنی أمر جسیم، بأن ہنا أسقفًا لحیمَ الجسیمِ، ضخیمَ البطنِ، یُصِرُّ علٰی المناظرۃ، فألتمس أن تتشرف بالقدوم مع صَفوتک فی أقرب وقت۔
سماحۃ الشیخ القاسمی: طیب، سنصل ہناک علی الفور۔
الأب فندر: غدمور ننغ، أیہا الأساقف! اسرعوا نصرتی، فانی تعرضتُ لمشکلۃ کبیرۃ بدعوۃ مسلم الی المبارزۃ۔ فاتوا وأنقذوا الدین المسیحی من الخذلان۔
احد الأساقف: لماذا تحدیت المسلم وتحمقت؟
الاب فندر: لا تفضحنی مزیدا من ذاک، فما کان مقدراحَدَثَ،والأن فَکِّرُوا فیما یأتی ونَمُرُّ علیہ، وساعدونی علی ہذا الأمر الخطیر۔
أساقف: اذاً ننصرکْ، فانتظر اننا ننتقل ہنا فورا۔
(بعد الحضور)
الأب فندر: أیہا المسلمون! تعالوا نقرر مواصفات المناظرۃ۔
المسلم: لکم سماحۃ تامۃ بالتعیین، ونحن نرضی بما تقررون من المواد والمیعاد والعدد للمساہمین۔
الاب فندر: شکرا لک، أقرأ ما قررت من المواصفات:الأول: تدور المبارزۃ أولا حول عقیدۃ التثلیث، وثانیا حول حقیقۃ النجاۃ، الثانی: یساہم فی البحث ثلاثۃ أشخاص من الفریقین، الثالث: یفسح المجال لکل من یحاور خمس دقائق فحسب۔ الرابع: یجب علی الطائفۃ المنہزمۃ أن یؤمنوا بدین الفاتح بعد أن یتوبوا جہاراً وعلنا۔ً
المسلم: قد تمت المواصفات، فلنبدأ ما اجتمعنا لأجلہ 
الأب نولس: ابد ؤاأنتم أولا۔
سماحۃ الشیخ النانوتوی:الحمد لأھلہ والصلاۃ لأھلہاوبعد،أیہا المستمعون الکرام ! ان عقیدۃ التثلیث مع عقیدۃ التوحید مثیر للسخریۃ؛لأن الشئی الواحد لایکون الاواحدا والثلاثۃ لاتکون الاثلاثۃ، فکیف یمکن للنصاریٰ أن یقولوا بالتثلیث والتوحید معا؟ کمایقول الشاعر الأردی :؂
تثلیث کے قائل نے خالق کو کہا ایک 
سوئی تھی تین پر حیرت سے بجا ایک 
وأما قولہم بأن عیسی علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام الہ وابنہ أیضا باطل ۔
أمابطلان کونہ الہا،فلأنہ کان محتاجا الی الطعام والشراب والبول والغائط،ومن کان فی شانہٖ احتیاج الی شئی لایکون الہا، وأما کونہ ابن اللہ فباطل عیانا؛لأن اللہ تعالٰی لم یلدولم یولد، وان سلمنا فمن ھوجدعیسیٰ علیہ السلام ؟ فبانتفاء ہذا ینتفی ذالک وللہ درما قال الشاعرالأردی :؂
معاذ اللہ فر زند خدا کہتے ہو عیسیٰ کو 
تو دادا کو ن ہے اس کو بتائے جس کا جی چاہے
أیہا االسادۃ ! ۔۔۔۔۔۔
ألأب نولس:أیہا الشیخ انتھی وقتک فاجلس ۔
الشیخ النانوتوی:ان کان فی خواطر کم اعتراض علی ماقلت فقدموا۔
ألأب فندر:أنا لاأتمکن من الاعتراض علی خطبۃ الشیخ أیہاألأب۔
ألأب نولس:أنا أیضا لاأستطیع الردعلی قولہ، فأمرغیری للاجابۃ 
الأب محی الدین : فی خاطری شبہۃ وہی ۔۔۔۔۔۔
ألاب فندر : اجلس یاأخی !لأننا لانجد مانردبہ علی الشیخ فلا تسئل شیئا لکیلا نتعرض للخذلان والخنوع، ولأن من صمت نجا ، والاٰن نأخذ فی الموضوع الثانی،وھوحقیقۃ النجاۃ ۔
الأسقف اسکات: النجاۃ ھی الاجتناب عن الاثم ، ولکن لایأثم الانسان بارتکاب معصیۃ ؛لأن اللہ تعالٰی لما رأیٰ العالم کلہ مُمَثلا بالذنوب، نزل الی الدنیاممتلاً بصورۃ عیسیٰ علیہ السلام وکَفَّرَعن جمیع الناس فشنق نفسہ ، فعلی الناس جمیعاً أن یومنوا بألوھیۃ عیسیٰ ویدخلوا فی المسیحیۃ ، فلانجاۃ بدونہا۔
الہندوکیۃ دیانند سرسوتی: النجاۃ ھی کماقال الأسقف اسکات، ولکن قولہ: ان اللہ قدتمثل وکفر عن ذنوب الانسان کلہا،معارض للحقیقۃ،کیف یمکن ھذا أن تجمع الذات التی لاحد لہا ولانہایۃ فی جسم رجل محدود؟
الشیخ أبو المنصور القاسمی:النجاۃ عبارۃ عن التورع عن عذاب اللہ وعقابہ فی الأخرۃ ویمکن التحرز من عذاب اللہ بالتجنب من المعاصی ، ولایحذرمنھا حتی یعلم الاثم۔ والأسقف والہند وکی لم یصرحا بہ ۔
الأسقف اسکات: قد انتہی میعاد المناظرۃ فلانسمع شیئا بل نرتحل الی أوطاننا 
الشیخ أبو المنصور: قفوابرہۃ ، قد یبقی من المیعاد خمس عشرۃ دقیقۃ فاِن لم تستطیعواعلی الاجابۃ فاستمعوا لخطبتی
الہندوکی: لا، لا نحن ، لانستمع الی شئی، أیہا الأساقف العظماء ! اخرجوا من ہنا مسرعین۔(یفرون تارکین کتابالہم )
الشیخ أبو المنصور: لماذا تہربون فزعین؛ ہذا کتابکم قد نسیتم وترکتم ، خذوہ واذھبوابہ۔(الأسقف اسکات یأخذہ ویشکر علیہ ، ویخرجون کلہم من القاعۃ )
الشیخ النانوتوی: نشکر اللہ تعالٰی أجزل الشکر علی أنہ أَیَّدَنَا فأصبحنا ظاہرین علی الأساقف والہنادکۃ، ویہزمہم ہزیمۃ فاحشۃ ، فغَلَبَ العلماء الدیوبندیون علی أعداء الاسلام والمسلمین ۔فلہ الحمد کلہ۔
(المناقشۃ بین الدیوبندیین والبر یلویین )
(أربعۃ من العلماء البریلویین یجلسون، وہنا رجل عامی، کلہم ینشدون)یانبی سلام علیک ، یارسول سلام علیک یاحبیب سلام علیک ۔۔۔۔۔۔ 
رجل عامی: یا بابا صابر! یاخواجہ صابر! أعطنی ولداصالحا، فان لم تعطنی فلاأرجع الی أھلی ولا أردیک رداء ، یاغوث ! المدد ، یابابا!المدد۔(من وراء البرنامج)
السیدالنعمانی القاسمی:من أین ہذا الصوت المنکر؟
السیدعبد اللطیف القاسمی :لعل قبریایستغیث من صاحب القبر المیت ۔
السید محمد امین القاسمی :سیدی ! أیستطلب طِلْبَتَہٗ من المیت ؟ ھذا قول عجیب وعمل معارض للشریعۃ الاسلامیۃ ۔
السیدالنعمانی: ھیأ ندھب الیہم،لنخبرہم بالحق،و نہدیہم الی صراط مستقیم 
السید عبداللطیف : نعم،نعم، نحن نمشی نحوہم۔
(مخاطبا للقبریین ) ماذا تصنعون؟ أتستغیثون من الموتیٰ؟ وتنادون بیا رسول اللہ من ہہنا بصیغۃ ’’یاء‘‘ التی لاینادیٰ بہا الاالقریب ؟ لِمَ تستنجدون من أصحاب القبور؟ ألم تعلمواأن المعطی ھو اللہ؟ فاسئلوامنہ ماتشاؤون دون أھل القبور ۔
السیدحشمت علی البریلوی:أیہا الحضور! ھؤلاء الوھابیون الذین یکسرون اأمثلۃ الأضرحۃ ،و یحدون عن الاستجابۃ من الأولیاء والصلحاء الکبار، ویمنعون عن الحضور العرسَ والمیلادَ، وعن اضاء ۃ المصابیح علی القبور، ھؤلاء کافرون ومن شک فی کفر ھم فھو أیضاً کافر۔
السید النعمانی : یا ھذا ! ماذا اتثرثر فینا ؟ أنحن کافرون؟مع أن عقائدنا کعقائد الصحابۃ والتابعین والأئمۃ المجتھدین، الموافقۃ بالکتاب والسنۃ۔ 
السید غلام دستغیر: ان أیقنتم علی سلامۃ عقائد م، فتعالوا نبارزکم ، لیظھرعلی رؤوس الأشھاد من ھو علی الحق ومن ھو علی الباطل ۔
محمد امین القاسمی:نحن نستعد للبحث، ولنناظرن لتستھد وا أنتم وھذا الشعب الی صراط مستقیم ۔
السیدنعیم الدین المرادآبادی: لی حاجۃ مُلِحَۃٌ ، ووصولی الی مدینۃ مرادآباد مُحَتَّمٌ، فسوف انتقل بالقطار لدی الثانیۃ عشرۃ ، فلاأقدر علی حضور المبارزۃ ۔
السیدغلام دستغیر:مولای!لاتذھب؛لأن ذھابک یأتی علینا بالھزیمۃ ضرورۃً 
السیدنعیم الدین المرادآبادی:لا،أنا لاأتمکن من المناظرۃ مع الدیوبندیین لأن أعلم جیداً أننا علی الباطل، والحق حلیفہم ، ولایفلح الباطل من حیث یأتی ، وأنا لاأریدأن افتضح علی رؤوس الأشھاد، فاسمح لی بالارتحال ۔(ثم یفر مسرعا)
السید سردارعلی خان:ان الد یوبند یین لایتیسر لہم الحلاوی القبریۃ و دواجن النذورمثلنا۔ومن لم یحصل علی ھذہ الأشیاء ،یکون سئی الحظ ، فہم کذلک لذلک یحسدون رزقارَزَقَنَا اللہٗ بدخل القبور والنذور۔
السیدالنعمانی:لاشک أن حلاویٰ ودواجین النذور لاتتوفرلنا مثلکم ، فنحن قلیل البخت وأنتم سعداء حظاًحسب قاعدتکم المخترعۃ ،فأنتم تغترون بالحلاویٰ والدواجن المشویۃ المحرمۃ، ونحن نفتخزبمجاعتنا؛ لأنہا سنۃ لنبینا ،صلی اللہ علیہ وسلم ۔فأناأجوع کماکان یجوع سیدنا ،صلی اللہ علیہ وسلم، اللھم ابعثنامعہ ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
السیدسردارعلی خان:أیھاالنعمانی القاسمی ! تب،تب قدارتددتَ وصِرتَ مباح الدم لأنک قلتَ:ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یجوع ، معاذ اللہ من ذالک۔
(جمیع العلماء البریلویین یر فعون أصواتہم ) ۔
السیدالنعمانی: أیھاالبریلویون ! من شعارکم أنکم اذاتکادون تنہزمون،جعلتم تثیرون الضوضاء، أنتم لاتریدون الہدایۃ الی الحق والاصلاح فیما بینکم،بل ترغبون فی الاضطرابات لتفروافراراًلِٰابِقٍ۔
السیدحشمت: نعم ! نحن نتفحص سبیل الھرب والفرار؛ لکیلا نخزیٰ فوق ذالک، فخلواسبیلنا۔
السیدالنعمانی:فروامسرعین حتی لایأخذکم الناس، فیضربواکم 
السیدغلام دستگیر:لکم منا وافرالشکروالثناء علی أنکم تَحْتُمُ لنا فرصۃ الفرار۔(ھنا یخرج الریلیون)۔
السیدالنعمانی: نشکر اللہ ،عزوجل ،شکراجزیلا علی أن یغلبنا علی الطائفۃ البریلویۃویوفق کثیرا من الناس للتوبۃ من الأعمال السیءۃ المشرکۃ ،بسعی العلماء الدیوبندیین، فالحمد للہ أولاواٰخرا۔

عددُرکعاتِ التراویحِ : عشرون ام ثمانی؟



التقدیم 
فی فُر صۃِ الاحتفال النصف السنوی للنادی العر بی، المُنعقدِ بعد العشاء من یوم الخمیس احد وعشرین من جمادی الثانی عام سبعۃ وعشرین واربع ماءۃ بعد الالف من الہجرۃ النبویۃ المصادفۃلاربع لیال بقین من جولائی سنۃ ست والفین من المیلاد فی قاعۃ الحدیث التحتانیۃ بدارالعلوم بدیوبند۔ 
الخلفیۃ
المحادثۃ ھذہٖ والتی تتلو بعدھا کلتا ھما اللتان سبقتا فی الاردویۃ، ووُضِعتا ھنا للمُتَشَوِّقِیْنَ باللغۃ العر بیۃ نموذ جتین ۔
التوضیحات
الممثلون ادوار
(۱) محمدنسیم المؤذن 
(۲) عبدالرشید العامی الدیوبندی 
(۳) عبد الحمید العامی السلفی 
(۴) محمد نہال انور العالم السلفی 
(۵) محمد سہیل العالم السلفی 
(۶) محمد امان اللہ العالم الدیوبندی 
(۷) محمد اللہ العربی العالم الدیوبندی 
(أولا یطلع مؤ ذن علیٰ المنصۃ ویعلق الساعۃ التی معہ، بالمذیاع، یجعل الساعۃ تُنَبِّہٗ موعد الأ ذان للعشاء ثم یقول ناظراً الٰی الساعۃ)
محمد نسیم(المؤذن): قد حان مُوعدُ أذان العشاء فیناسب لی أ ن أ رفع صوتی بالأ ذان ۔
(ثم یذھب الٰی وراء القاعۃ وبدأ یؤذن ھنا، مخفیا عن المستعمین، علٰی ھذا النمط
المؤذن:اللہ اکبر اللہ أکبر ۔۔۔۔۔۔(ھنا یمتنع عن رفع الصوت مشیراالی انقطاع التیارالکھربائی،وبعد ھُنَیْہۃٍیقول)الہ الاللہ۔
(ثم یرجع الی المنصۃ ویُقَدِّمُ الساعۃَ خمسین دقیقۃ،ثم یستترویظہررجلان عامیان دیوبندی وسلفی،من ناحیتین یجری الحدیث بینہمابعد التحیۃ بالکلمات التالیۃ:) 
الدیوبندی : ھذا الشھرشہررمضان الذی أنزل فیہ القرآن، وقد اأذِّنَ للعشاء ، تعال،یاأخی! لنؤ دی صلوۃ العشا، والتراویح ۔
السلفی: عجبالک! أَمَاصلیتَ العشاء لحد الأ ن، فضلاعن التراویح؟وقد تَفرّغتُ من العشاء بالاضافۃالی التراویح ۔
الدیوبندی: یا صدیقی!کیف تَمکنتَ من تأدیۃ صلوۃ العشاء کلھا بعدمضی أقل من ساعۃ واحدۃ علٰی الأ ذان ؟ وکیف أمکن أن تؤدی فی مثل ھذا الوقت القصیر عشررکعات للعشاء مع السنن وعشرین للتراویح وثلاث للوتروختامارکعتین للنفل علٰی الأ قل،أی:خمسا وثلاثین رکعۃ بمجموعھا ؟ 
السلفی:(متعجباً) ماتقول یاصدیقی!أصلاۃ التراویح عشرون رکعۃ أم ثمان فحسب؟وقد أخبرنا شیخُنا الجلیل حفظہ اللہ،أن عدد الرکعات فی التراویح المنقول عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،ھو ثمان فقط، فلذا لانؤدی نحن السلفین اِ لَّا ثمان رکعات؛لأن الصلوٰۃ،وان کانت عبادۃً فی ذاتھا؛لکنھا یؤدی الٰی مخالفۃ الشریعۃ فیما لم ینقل فیہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ذالک الِا کْثَارَ۔
ھذا الٰی أن اللہ عزوجل،یقول:’’یرید اللہ بکم الیسرولا یرید بکم العسر‘‘وأنت تحیط علما بأ ن ثمانی رکعات أسہل وأیسر من العشرین ۔
الدیوبندی:عجبالک ولکم أحشفًا وسوءَ کیلۃ ؟ أنکم تَتَّبِعُونَ الأھواءَ وتُؤَدُّوْنَ ثمانی رکعات ثم تستدلون استدلالافاسداًبالقرآن الکریم،والأ فضح من ذالک أن قائدکم الدینی یُعَلِمُکُمْ ھذا،فیاللعجب والتحسر ۔
السلفی:أتعجب لعمل عمل بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأمربہ وجَمَعَ عَلَیْہٖ أمیرُ المؤ منین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ویتوارث الأمۃ ۔
الدیوبندی:یاصدیقی !لستُ بمتعجب لأ مر فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأمر بہ صاحب الجلیل سیدنا ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، بل یعجبنی ماتعملون بہ من مخالفۃ عمل الر سول صلی اللہ علیہ وسلم وقولہ، وعمل الصحابۃ والتابعین وجمھور الأمۃ والأ ئمۃ ، أنتم تفترون علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ ۔
السلفی: صہ!صہ! و اسْکُتْ یاصدیقی ! ولا تَقُلْ کلمۃ لاعلاقۃ لھا بأمر من أمور الدین ، وأخافُ أن یتخلل بعض الخلل بعقید تک فلا أقول قولا یزیدک اِصراراً علی ماتمیل الیہ، فتکون من الخاسرین ، بل أری أن أدعو لک عالماکبیراً یُفْہِمُکَ ما ہو الصواب فی ھذا الباب، ( ھنایتحدث باالجوال)۔
السلفی: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
العالم السلفی:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ما الذی حملک علی الأتصال معی بالجوال ؟ 
السلفی:سیدی! قددعانی خطب جسیم الی الحوارمعک وھو أن صدیقالی دیوبندیا یصر علیٰ أن رکعات التراویح ھی عشرون ماعدا الوتر،بعشر تسلیمات وخمس ترویحات ، وقد بذلتُ فی تفھیمہ کل ما أستطیع أن الرکعات للتراویح لاتزید علی الثمانی،ولکنہ لایسلم،فأرجوجنابکم المیمون أن تشرفونا بمقدمکم السعید؛لنتمکن من الحاق الدیوبندی بجماعتنا۔
العالم السلفی: طیب حسن الیکم،سأحضر ھنا علیٰ متنِ طائرۃ خاصۃ ، فانتظرونی الی اللقاء ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
السلفی:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (ثم یتوجہ الی الدیوبندی ویقول)ھو سیجئ فی أقرب وقتٍ ممکن ویُجِیْبُکَ باِجابۃ مُقْنِعَۃٍ ویبرد غلتک شافیا ۔
(ھنا یجئ العالم السلفی ویلقی ھذہٖ الخطبۃ بعد التحیۃ والتسلیم)۔
العالم السلفی الاول:حامدًاومصلیاً،امابعد!أولا أشکرکم علی أن دعوتمونی لِاصْلَاحٍ رجل یعتقد اعتقاد الدیوبندیین الضالین الذین ھم فی غفلۃ شدیدۃ منذ قرن ونصف؛فانھم یقولون بعشرین رکعۃ للتراویح مع انہ جاء فی الحدیث النبوی صلی اللہ علیہ وسلم أن صحابیا سأل عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا:کیف کانت صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،فی رمضان؟ فقالت: ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علٰی احدیٰ عشرۃ رکعۃ ،یصلی أربعا (رواہ الأمام البخاری فی جامعہ الصحیح علی صفحۃٍ ماءۃ وأربع وخمسین ) فعُلِمَ من ھذا الحدیث الشریف أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان اِحدیٰ عشرۃ رکعۃ فحسب، ثمان منھا للتراویح وثلاث للوتر ۔
وھکذا روی عن جابر رضی اللہ عنہ، وفیہ :’’صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان لیلۃ ثمان رکعات والوتر ‘‘ وأمر بالثمانی أمیرُالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کمافی الموطأ للامام مالک رحمہ اللہ ’’ أمر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ أبی بن کعب وتمیماً الدارمی أن یقوما للناس احدیٰ عشرۃ رکعۃ ‘‘۔
فثبت مما ألقیت أما مکم من الأحادیث النبویۃ ان التراویح ثمان رکعاتٍ دون عشرین۔فالآن ایہا الصدیق الدیوبندی!الم تبق فی خاطرک ایَّّ شبہۃضد عملنا ہذا ؟
الدیوبندی:ایہا السادۃ! ماقد مت الیی من الاحادیث النبویۃ فھی علیٰ الرأس والعین،ولکننی رجل عامیٌ،لاأتمکن أن أحکم أن ماقلتَہ حق أم مایقولہ شیخنا المکرم؟ لأنہ یثبت مانحن علیہ من أن عددالرکعات للتراویح عشرون فی ضوء الأحادیث الشریفۃ کماأنک تدعی أنہ ثمانی رکعات ، فأدعو شیخَنا جلیلا عبقریا،لہ باع طویل وقِدَمٌ راسخۃ ونظرۃ ناقبۃ فی مثل ھذا المسائل وھو شیخ الحدیث فی جامعۃ کبیرۃ عریقۃ لیحق الحق ویبطل الباطل ویکشف القِناع عن الحقیقۃ ۔
العالم السلفی الأول: یا أخی ! قدأوضحت أمامک کاملا بالأحادیث الشریفۃ أن التراویح ثمانی رکعات فقط ،فلاتتجشم دعوۃَ سیدِکم، بل فَکِّر فیما قلتُ تفکراً تَفْھَمْ 
السلفی العامی: صدیقی صادق فی قولہ فالجدیر أن تُتَاحَ لہ الفرصۃ أن یدعو عالمہ الدیوبندی ،لنسمع قولہ ایضا(ثم یقول لصدیقہ الدیوبندی) أدع سیدَکَ یاصدیقی۔
الدیوبندی العامی:متحدثابالجوالۃ )السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
العالم الدیندی:(من خلف المنصۃ)وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،لماذاا تصلت معی بالجوالۃ؟ 
الدیوبندی:قد تعرضتُ لمشکلۃ کبیرۃ أن ھناک عالماً سلفیاً یقول : ان التراویح ثمان رکعات فحسب ویستدل بالأحادیث ویحاول أن یُضِّلَنِی عن الصراط المستقیم ،فألتمس منک أن تسرع اِلَیَّ کی یتمیز الباطل۔
العالم الدیوبندی:طیبا،أنا سأصل ھناک فوراً، وألْقِ القبضَ علیہ،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الدیوبندی العامی:طیبا یاسیدی! وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
العالم السلفی الثانی:أیجئ ھناک ؟ 
الدیوبندی:(واضعاجوالتہ فی الجیب ) نعم ،وہو سیتشرف بالحضور وسیصل الینا بعد برھۃ لا تزید علیٰ دقائق ۔
العالم السلفی الثانی:(فزعاً)صدیقی الحمیم ! أنا أوُدُّ الذھابَ ، لأن الأفعال العدیدۃ تنتظر نی فی البیت ۔
الدیوبندی العامی: قف،لما ذا تفزع ولماذا بدأت تسعی الھرب؟ 
(العالم الدیوبندی مع صدیقہ یطلع علی المنصۃ فجأۃًویسلم، وھما یر دان علیہ، ثم یقول :)
العالم الدیوبندی الاول: قد نُبِّئتُ أنک تقول بأن التراویح ثمان رکعات لاعشرون ،وانک تستدل علیہ بالأحادیث المبارکۃ؟ 
العالم السلفی الثانی:أترُکْنا وشاننا ،لأن المباحثۃ حول ھذا الموضوع لاتجدی فتیلاً،فأن الناس کما أنت تعلم،أصبحوامولعین بالسھولۃ والسرعۃ فی العصر الراھن، وروایاتُ التراویح وردت علی عدۃ وجوہ، فیسوغ لنا أن نختار أحدھما علیٰ حسب مقتضیات العصر ۔
العالمالدیوبندی الأول:أیھا السید السلفی !ان دین الاسلام لیس بلُعْبَۃٍ یلعب بھا من یشاء کما یشاء ، قو لک ھذا من أخطأ أفکارک،وان لم تجتنبوامثل ھذہٖ الأفعال والأقوال الخطیرۃ،فلا تأمنواأن یخرج الایمان من قلوبکم وھا !أنا أصرح ھذہ المسئلۃ أن التراویح المسنونۃ ھی عشرون رکعۃ دون الثمانی،لأن الأحادیث النبویۃ تُنَبہٗ بیانا وافیاً ،واأدِّیَتْ التراویح وتُؤدیٰ علیٰ ھذا المنوال منذ القرن الاول حتی الآن کما فی آثار السنن لشیخ النیموی :’’ أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ أمر رجلا ان یصلی بھم عشرین رکعۃ ‘‘ وکذاالصحابۃ کلھم کانوالا یصلون التراویح الا عشرین رکعۃ ، ویدل علی ماقلتُ مارواہ ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ عن عطا ء’’ قال : أدرکتُ الناسَ وھم یصلون عشرین رکعۃ ‘‘ وما فی اٰثار السنن ’’عن سعید بن عبید أن علی بن ربیعۃ کان یصلی فی رمضان خمس ترویحات ویوتر بثلاث ، ھذا الی أن الأئمۃ الأربعۃ ، رحمہم اللہ لایقولون بأقل من عشرین رکعۃ۔
فعصارۃ القول أن مِنْ عھدِ البنی صلی اللہ علیہ وسلم والصحابۃ والتابعین الی حد الاٰن یجری تعامل جمیعھم والتوارث أن التراویح عشرون رکعۃ ،کما ینص علیہ الامام النووی الشافعیؒ ’’ثم استقر الأمر علی عشرین فأنہ المتوارث ’’ ویر قم الحافظ بن الحجر الشافعی ‘‘ اجتمعت الصحابۃ علیٰ أن التراویح عشرون رکعۃ ‘‘ ویقول الامام ابن التیمیۃ ’’ہوالذی یعمل بہ اکثر المسلمین ‘‘ فلووردت التراویح بالثمانی لَمَاخالفوہ ، وفی ھذا الأوان معظم المسلمین یعملون بالعشرین فی مساجدھم بالاضافۃ الی الحرمین الشریفین ،فعُلِمَ ان التراویح انما عشرون رکعۃ ، ومذھب القائلین بالثمانی یخالف الأحادیث وتعامل الصحابۃ وسائر المسلمین ۔
العالم السلفی الاول:یاسیدی !ماتقول(متعجبا )أقولُنَا بالثمانی مخالف للأحادیث؟ فما ظنک فیما ورد فی الحدیث الثمانی ؟ وماکان جوابک عن أمرسیدنا عمرا لفاروقؓ بثمانی رکعات ؟ أھذہ کلھا أکذوبۃ مخترعۃ ؟ ۔
العالم الدیوبندی الثانی: یاأخی السلفی !اِن الحدیث المروی عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ھو فی صلاۃ التھجد،لا صلۃ لہ بالتراویح ، تدل علیہ کلمۃ الحدیث ’’ولافی غیرہ‘‘ أنھا سُءِلَتْ عن التھجد لا التراویح؛ لأن التھجد ھو یُصلیٰ طوال السنۃ رمضان کان أو غیرہ ،أما التراویح فانما ھی تؤدیٰ فی شھر رمضان فقط،وان سُلِّمَ علیٰ الفرض أن المراد بالحدیث ھی التراویح، فأیضا لا یصح أن یحد د عددھا بالثمانی،لأنہ روی عن عائشۃ رضی اللہ عنھانفسھا حدیثا اٰخروفیہ ’’کان یصلی ثلاث عشرۃ رکعۃ ‘‘بل ان تُمْعِنَ النظر فی کتب الحدیث تجد أن الروایات علیٰ خمسۃ وجوہ أربعۃ منھا ترویٰ بالأسانید القویۃ،وھی: احدی عشرۃ رکعۃ ،ثلاث عشرۃ رکعۃ ،احدی وعشرون رکعۃ ثلاث وعشرون رکعۃ ،فکیف یصح التحدید بالمثانی ؟ بالاضافۃ الیٰ أن الامام القرطبی یقول فی حدیثھا: ’’أشکلت روایات عائشۃؓ علی کثیر من أھل العلم ،حتی نسب بعضہم حدیثھا الی الا ضطراب ‘‘فلا یصح الاستدلال بھذا الحدیث۔
العالم السلفی الثانی: لکن یاسیدی ! فی حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شرح مستفیض لقولنا ولا مساغ لک أن تقول ھو یتعلق بالتھجد،لأن فیہ ذکراواضحا للتراویح وشھر رمضان ،کذٰلک حدیث عمرؓ واضح دال علی موقفنا ۔
العالم الدیوبندی الثانی:نحن نسلم ھذا القول،ولکن فی اسناد حدیث جابرؓ راوٍ یتھم بمنکر الحدیث والمتروک عند أئمۃ الجرح والتعدیل ،وقد تقررت القاعدۃ لدی الامام البخاری ’’ أن منکر الحدیث وصف فی الرجل یستحق بہ الترک لحدیثہ فلا یصح الاستدلال بہ۔
وحدیث عمرؓ اشد اضطراباً فی السند والمتن فلذا لایجوز الا ستدلال بہ، وبالجملۃ عشرون رکعۃ من التراویح ھو قدر متفق علیہ الأمۃ والأئمۃ من غیر خلاف، وصح ذالک من روایۃ سائب بن یزید عن عمرؓ ،رواہ البیھقی بالاسناد الصحیح،وفیہ کانوا یقومون علیٰ عھد عمر بن الخطابؓ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ وکذا فی عھد عثمانؓ وھذا کالاجماع وسنۃ الخلفاء الراشدین ۔
أرجو أنک تبلغ بالغ الفھم فی ضوء ماطولتُ ان التراویح عشرون رکعۃ الکلام أن التراویح عشرون رکعۃ لاالثمانی۔
العالم السلفی الاول:أخی الکریم !قبل أن تُنَبِّھَنِی کنتُ فی غفلۃ وضلالۃ ولکن ھدانی کلامُک الطویل الی ما ھو الحق وانکشف الغطاء عن عینیی والان حصحص الحق أن التراویح ھی عشرون رکعۃ دون ثمان رکعات،أنا أشکرک علیٰ کشف القناع عن ھذہ الحقیقۃ فجزاک اللہ احسن الجزاء۔
العالم السلفی الثانی:أنا أیضا کنتُ علی خطاٍ کبیرٍ، لخطا سیدی ومولای ، وما زِلْتُ قائلا بثمان رکعات ولم أزل أحرم من ثواب اثنتی عشرۃ رکعۃ ،ولکن الأن علمتُ ماھو الحقیقۃ،وأعزم ان أودی کل یو م عشرین رکعۃ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
الدیوبندی العامی: (ناظراً الی الساعۃ )ھذا أوان التراویح فتعالوالنؤدی صلاۃ التراویح کاملۃ وفق السنۃ المطہرۃ۔ 
السلفی العامی:نعم ،نعم ،کلنا نتحرک لأداء التراویح عشرین رکعۃ کاملۃ ۔
(یخرج الجمیع من البر نامج)
ھنا یجئی المؤذن ویجعل أولا الساعۃ وقت السحر ،وثم یُعْلِنُ بصوت جھوری)
أیھا السادۃ !قد حان موعد تناول السحورواأزِفَ وقتُہ ،فاستیقظوامن منا مکم وبادرواالی السحور ۔(مرتین)