حیض و نفاس اور استحاضہ کا بیان
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (27)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
عورت کی شرم گاہ سے تین طرح کا خون نکلتا ہے : اول: حیض۔ دوسرا : نفاس۔ تیسرا: استحاضہ کہلاتا ہے۔
حیض
نو سے پچاس سال کی عمر کے اندر تندرستی کی حالت میں جب کہ حمل نہ ہو، رحم سے جو خون تین دن رات یا اس سے زیادہ دس دن دس رات تک آتا ہے ، اس کو حیض کہتے ہیں، بشرطیکہ دونوں خون کے درمیان کم از کم پندرہ دن کا فصل ہو۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
اقل الحیض ثلاث و اکثرہ عشر، و اقل ما بین الحیضتین خمسۃ عشر یوما۔ (رواہ ابن الجوزی)
حیض کی کم مدت تین دن اور اکثر دس دن ہے اور دو حیض کے درمیان پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔
اگرچہ حیض کی مدت کی تعیین کے بارے میں جتنی حدیثیں مرفوع ہیں، سب ضعیف ہیں، لیکن متعدد طریقوں سے چھ صحابیوں سے منقول ہونے کی وجہ سے حدیث حسن لغیرہ ہوکر قابل احتجاج رہتی ہیں۔ (رد المحتار)۔ اور حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا:
الحائض اذا جاوزت عشرۃ ایام فھی بمنزلۃ المستحاضۃ تغتسل و تصلی۔ (رواہ الدار قطنی، قال البیھقی ھذا الاثر لابأس باسنادہ)
ٰؑ یعنی حائضہ کا خون جب دس دن سے تجاوز کرجائے تو وہ مستحاضہ کے حکم میں ہے۔ غسل کرے اور نماز پڑھے۔
اور حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
ادنیٰ الحیض ثلاثۃ ایام۔ (رواہ الدار قطنی فی سننہ رجالہ رجال مسلم)
یعنی حیض کی اقل مدت تین دن ہے ۔
ان آثار اور احادیث کی بنا پر امام صاحب نے فرمایا: حیض کی کم سے کم مدت تین دن تین رات ہے ۔ اگر اس سے کم خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے؛ بلکہ استحاضہ ہے ۔ اسی طرح حیض کی اکثر مدت دس دن ہے ۔ اگر اس سے زیادہ آئے تو استحاضہ ہے۔ اور دو حیض کے درمیان پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اگر اس سے پہلے خون آجائے تو وہ حیض نہیں استحاضہ ہوگا۔
جس کی ماہواری کی ایک عادت ہو، مثلا ہر مہینہ میں سات روز خون آتا ہے ، اب اتفاق سے خون زیادہ آیا، یہاں تک کہ دس روز سے بھی زیادہ آیا تو عادت کے مطابق سات روز حیض ہوگا۔ اور باقی استحاضہ۔ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے حد سے زیادہ خون آتا تھا ، تو میں نبی کریم ﷺ سے دریافت کرنے آئی ، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ تو شیطان کی ٹھوکر ہے۔ (سو عادت کے مطابق) چھ یا سات روز حیض میں گذارو اور پھر نہاؤ۔ پس جب صاف ہوجاؤ تو چوبیس روز یا تئیس روز نماز پڑھو اور روزہ رکھو ، یہی تجھ کو کافی ہے ، پس جیسے عورتیں کرتی ہیں اسی طرح ہر مہینے میں کرو۔ (رواہ الخمسۃ الا النسائی و صححہ الترمذی و حسنہ البخاری)
اوراگر دس روز پر رکا، یا دس روز سے کم میں رکا، لیکن عادت سے زیادہ آیا، تو وہ کل حیض ہوگااور یوں سمجھا جائے گا کہ عادت بدل گئی۔
جس عورت کی کوئی عادت نہ ہواور اس کو دس روز سے زیادہ کسی ماہ میں خون آجائے، تو دس دن تک حیض ہے اور باقی استحاضہ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک دن دو دن خون آیااور ایک دو روز کے لیے پھر بند ہوگیا ، پھر خون جاری ہوا، اگر دو خون کے درمیان پندرہ دن سے کم پاکی ہے تو عادت والی کے لیے عادت کے مطابق حیض ہے باقی استحاضہ ہے۔ اور جس کی عادت نہیں ہے تو اگر دس دن کے اندر یہ چھوڑ باڑ ہوا ہے تو کل حیض ہے ۔ اور اگر دس دن سے زیادہ ہوا ہے تو دس دن حیض ہے باقی استحاضہ ہے۔
حیض کے دنوں میں جس رنگ کا خون آئے وہ سب حیض ہی کا خون ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ڈبہ میں کرسف بند ہوکر آتا تھا ، جس میں حیض کی زردی ہوتی تھی ، تو حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں:
لاتعجلن حتیٰ ترین القصۃ البیضاء۔ (مالک)
جلدی مت کرو، یہاں تک کہ دیکھ لو سفید چونا۔
یعنی سفید رطوبت کے علاوہ جس رنگ کا خون ہو ، وہ سب حیض میں داخل ہے ۔
حیض
نو سے پچاس سال کی عمر کے اندر تندرستی کی حالت میں جب کہ حمل نہ ہو، رحم سے جو خون تین دن رات یا اس سے زیادہ دس دن دس رات تک آتا ہے ، اس کو حیض کہتے ہیں، بشرطیکہ دونوں خون کے درمیان کم از کم پندرہ دن کا فصل ہو۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
اقل الحیض ثلاث و اکثرہ عشر، و اقل ما بین الحیضتین خمسۃ عشر یوما۔ (رواہ ابن الجوزی)
حیض کی کم مدت تین دن اور اکثر دس دن ہے اور دو حیض کے درمیان پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔
اگرچہ حیض کی مدت کی تعیین کے بارے میں جتنی حدیثیں مرفوع ہیں، سب ضعیف ہیں، لیکن متعدد طریقوں سے چھ صحابیوں سے منقول ہونے کی وجہ سے حدیث حسن لغیرہ ہوکر قابل احتجاج رہتی ہیں۔ (رد المحتار)۔ اور حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا:
الحائض اذا جاوزت عشرۃ ایام فھی بمنزلۃ المستحاضۃ تغتسل و تصلی۔ (رواہ الدار قطنی، قال البیھقی ھذا الاثر لابأس باسنادہ)
ٰؑ یعنی حائضہ کا خون جب دس دن سے تجاوز کرجائے تو وہ مستحاضہ کے حکم میں ہے۔ غسل کرے اور نماز پڑھے۔
اور حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
ادنیٰ الحیض ثلاثۃ ایام۔ (رواہ الدار قطنی فی سننہ رجالہ رجال مسلم)
یعنی حیض کی اقل مدت تین دن ہے ۔
ان آثار اور احادیث کی بنا پر امام صاحب نے فرمایا: حیض کی کم سے کم مدت تین دن تین رات ہے ۔ اگر اس سے کم خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے؛ بلکہ استحاضہ ہے ۔ اسی طرح حیض کی اکثر مدت دس دن ہے ۔ اگر اس سے زیادہ آئے تو استحاضہ ہے۔ اور دو حیض کے درمیان پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اگر اس سے پہلے خون آجائے تو وہ حیض نہیں استحاضہ ہوگا۔
جس کی ماہواری کی ایک عادت ہو، مثلا ہر مہینہ میں سات روز خون آتا ہے ، اب اتفاق سے خون زیادہ آیا، یہاں تک کہ دس روز سے بھی زیادہ آیا تو عادت کے مطابق سات روز حیض ہوگا۔ اور باقی استحاضہ۔ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے حد سے زیادہ خون آتا تھا ، تو میں نبی کریم ﷺ سے دریافت کرنے آئی ، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ تو شیطان کی ٹھوکر ہے۔ (سو عادت کے مطابق) چھ یا سات روز حیض میں گذارو اور پھر نہاؤ۔ پس جب صاف ہوجاؤ تو چوبیس روز یا تئیس روز نماز پڑھو اور روزہ رکھو ، یہی تجھ کو کافی ہے ، پس جیسے عورتیں کرتی ہیں اسی طرح ہر مہینے میں کرو۔ (رواہ الخمسۃ الا النسائی و صححہ الترمذی و حسنہ البخاری)
اوراگر دس روز پر رکا، یا دس روز سے کم میں رکا، لیکن عادت سے زیادہ آیا، تو وہ کل حیض ہوگااور یوں سمجھا جائے گا کہ عادت بدل گئی۔
جس عورت کی کوئی عادت نہ ہواور اس کو دس روز سے زیادہ کسی ماہ میں خون آجائے، تو دس دن تک حیض ہے اور باقی استحاضہ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک دن دو دن خون آیااور ایک دو روز کے لیے پھر بند ہوگیا ، پھر خون جاری ہوا، اگر دو خون کے درمیان پندرہ دن سے کم پاکی ہے تو عادت والی کے لیے عادت کے مطابق حیض ہے باقی استحاضہ ہے۔ اور جس کی عادت نہیں ہے تو اگر دس دن کے اندر یہ چھوڑ باڑ ہوا ہے تو کل حیض ہے ۔ اور اگر دس دن سے زیادہ ہوا ہے تو دس دن حیض ہے باقی استحاضہ ہے۔
حیض کے دنوں میں جس رنگ کا خون آئے وہ سب حیض ہی کا خون ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ڈبہ میں کرسف بند ہوکر آتا تھا ، جس میں حیض کی زردی ہوتی تھی ، تو حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں:
لاتعجلن حتیٰ ترین القصۃ البیضاء۔ (مالک)
جلدی مت کرو، یہاں تک کہ دیکھ لو سفید چونا۔
یعنی سفید رطوبت کے علاوہ جس رنگ کا خون ہو ، وہ سب حیض میں داخل ہے ۔