20 Oct 2018

Jhoot ka Bayaan

جھوٹ کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (24) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
کھانے پینے کے بعد جو تھوڑی چیز بچ جاتی ہے، وہ جھوٹ کہلاتی ہے۔ کثیر پانی سے کوئی جانور پی لے تو اس کو جھوٹ نہیں کہتے۔ بہرحال جھوٹ چار طرح کا ہوتا ہے : 
اول: طاہر مطہر غیر مکروہ، یعنی بلاکراہت پاک کرنے والا۔ اور وہ آدمی کا جھوٹ ہے ، خواہ کسی مذہب اور ذات سے تعلق رکھتا ہو، خواہ وہ پاک ہو یا ناپاک ہو۔ جب اس کے منھ میں نجاست نہیں ہے تو اس کا جھوٹ پاک بلاکراہت پاک کرنے والا ہے ۔ اسی طرح تمام حلال گوشت جانور کا جھوٹ ، جیسے گائے، بھینس، بکری، اونٹ، چڑیا، مینا وغیرہ۔ اسی طرح گھوڑے کا جھوٹ پاک ہے، کیوں کہ گھوڑا حلال ہے، اس کے گوشت میں کراہت کرامت کی وجہ سے ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ 
نھیٰ النبی ﷺ یوم خیبر عن لحوم الحمر و رخص فی لحوم الخیل۔ 
نبی کریم ﷺ نے خیبر کی جنگ میں گدھے کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت میں اجازت دی۔
لعاب کی نجاست کی وجہ سے جھوٹ نجس ہوتا ہے اور لعاب گوشت کی نجاست کی وجہ سے نجس ہوتا ہے ، کیوں کہ لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے ۔ جب گوشت نجس نہیں ہے تو لعاب نجس ہوگا نہ جھوٹ نجس ہوگا اور ان تمام چیزوں کا گوشت پاک ہے، اس لیے لعاب اور جھوٹ سب پاک ہوگا۔ 
دوسرا: نجس :اور وہ حرام گوشت چوپایا کا جھوٹ ہے ، جیسے کتا، سور ، شیر، لومڑی، گیدڑ وغیرہ۔ کتے کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
طھور اناء احدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولھن بالتراب۔ (مسلم)
جب برتن میں کتا منھ ڈال دے، تو اس کو سات مرتبہ دھوئے، پہلی مرتبہ مٹی سے ہو۔ 
معلوم ہوا کہ کتے کا جھوٹ نجس ہے جب ہی تو سات مرتبہ دھونے کا حکم ہوا۔ اور کتا حرام ہے، اس لیے باقی حرام گوشت جانوروں کے جھوٹ کا حکم وہی ہوگا جو کتے کے جھوٹ کا حکم ہوا۔ کیوں کہ لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے ، اس لیے لعاب کا وہی حکم ہوگا جو گوشت کا حکم ہوگا، لہذا حرام گوشت جانور کا جھوٹ نجس ہوگا۔ 
تیسرا: طاہر مطہر مکروہ، یعنی کراہت کے ساتھ پاک کرنے والا۔ اوروہ بلی، کھلی ہوئی مرغی ، حرام گوشت پرندہ اور زمین میں رہنے والے جانور یعنی چوہا، نیولا، گھوس، گرگٹ وغیرہ کا جھوٹا ہے ۔ مرغی کے جھوٹ میں کراہت اس وجہ سے ہے کہ وہ نجاست میں منہ ڈالتی ہے ۔ اگر نجاست میں منھ نہ ڈالے تو پھر کوئی کراہت نہیں ہے ۔ اور بلی وغیرہ کے جھوٹ کے مکروہ ہونے کی دلیل اوپر گذر چکی ہے ، اس لیے لوٹائی نہیں جائے گی۔ اگر دوسرا پانی ہو تو اس کو استعمال نہ کرے ، ورنہ پھر اسی پانی سے وضو غسل کرے ۔ آں حضرت ﷺ نے بلی کے جھوٹ سے وضو کیا ہے ۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں ہیں کہ 
انی رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یتوضأ بفضلھا۔ (رواہ ابو داؤد، و قال النیموی اسنادہ حسن) 
میں نے آں حضرت ﷺ کو بلی کے جھوٹ سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ 
چوتھا : مشکوک ہے ۔ اور وہ گدھے اور خچر کا جھوٹ ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔