22 Oct 2018

Kuwen ka Bayan

کنویں کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (25) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
اگر کنویں کا پانی جاری نہیں ہے اور وہ دس ہاتھ لمبا چوڑا نہیں ہے تو وہ پانی نجاست کے گرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، مگر اس کے پاک کرنے کے مختلف احکام ہیں ، اس لیے یہاں اس کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔ 
گوبر، لید، مینگنی کے علاوہ، اگر کنویں میں کوئی نجس چیز گر جائے، خواہ وہ ایک قطرہ خون ہی کیو ں نہ ہو۔ اسی طرح سور کے گرنے سے گرچہ زندہ نکل آئے ، کیوں کہ اس کا بال نجس العین ہے ۔ کتا اور بکری اور آدمی یا اس کے برابر یا اس سے بڑا جانور گر کر مرجانے سے ، اسی طرح چوہا وغیرہ ، یا اس سے بڑا جانور کنویں میں پھول پھٹ جانے سے کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا۔ جیسا کہ حبشی کے مرجانے سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے زمزم کے پانی کو صاف کرایا ۔ اگر تمام پانی صاف کرنے سے عاجز ہو تو تقریبا دو سو تین سو ڈول پانی نکال لیا جائے ، جیساکہ عبداللہ ابن زبیرؓ نے فرمایا: حسبکم، تم کو اتنا ہی کافی ہے ۔ یہ دونوں حدیثیں اوپر بیان ہوچکی ہیں۔ 
اگر کوئی حرام جانور سور کے کے علاوہ کنویں میں گرجائے اور زندہ نکل آئے اور اس کا منھ پانی میں نہ پڑے تو کنواں ناپاک نہ ہوگا۔ اور اگر کنویں میں اس کا منھ جا پڑا تو اس کے لعاب کی نجاست کی وجہ سے سارا کنواں نجس ہوگا اور سب پانی نکالا جائے گا۔ اور اگر آدمی یا حلال گوشت جانور کنواں میں گرے اور زندہ نکل آئے تو پانی ناپاک نہ ہوگا، اگرچہ منھ پانی میں پڑے، کیوں کہ ان کا جھوٹ پاک ہے۔ 
اگر کنویں میں مرغی یا بلی یا اتنا بڑا کوئی دوسرا جانور گر کر مرجائے تو چالیس ڈول پانی نکالا جائے اور ساٹھ ڈول نکالنا مستحب ہوگا۔ 
عن الشعبی فی الطیر والسنور و نحوھما یقع فی البئر قال: ینزح منھا اربعون دلوا۔ (رواہ الطحاوی و قال الامام بن الھمام سندہ صحیح) 
شعبی سے مروی ہے کہ پرندہ اور بلی اور اس جیسا کوئی جانور کنواں میں پڑے تو فرمایا اس کنواں سے چالیس ڈول نکالا جائے۔ 
اور اگر چوہا یا چڑیایا اس کے برابر کوئی دوسرا جانور گر کر مرجائے تو بیس ڈول پانی نکالے۔ تیس ڈول نکالنا مستحب ہوگا۔ 
عن انس رضی اللّٰہ عنہ انہ قال فی الفارۃ اذا ماتت فی البئر و اخرجت من ساعتھا نزح منھا عشرون دلوا او ثلاثون۔ (طحاوی من طرق غیر شرح الاثار)
حضرت انسؓ نے چوہے کے بارے میں جب کہ کنویں میں مرجائے اور فورا نکال لیا جائے فرمایا: بیس ڈول یا تیس ڈول اس سے پانی نکالا جائے۔ 
اور ڈول سے مراد اوسط ڈول ہے جو کنویں پر پڑا رہتا ہے ، اسی لحاظ سے پانی نکالا جائے۔ پانی نکالنے کے بعد کنواں ، رسی ، ڈول کھینچنے والے کا ہاتھ سب خود بخود پاک ہوجاتا ہے، کسی چیز کے دھونے کی حاجت نہیں۔ 
جس جانورمیں بہتا خون نہ ہو وہ کنویں میں گر کر مرجائے یا وہ پانی کا جانور ہو اور کنویں میں مرجائے تو اس سے کنواں ناپاک نہ ہوگا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
یاسلمان! کل طعام و شراب وقعت فیہ دابۃ لیس لھا دم فماتت فیہ فھو حلال اکلہ و شربہ و وضوۂ۔ (رواہ الدار قطنی، زجاجہ ۱۲۶)
ائے سلمان! جس کھانے پینے میں ایسا جانور پڑجائے جس میں خون نہیں ہے ، اس میں پھر مرجائے تو اس کا کھانا پینا حلال ہے اور اس سے وضو کرنا جائز ہے ۔ 
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فان فی احد جناحیہ داء و فی الاخریٰ شفاء۔ (بخاری، بلوغ المرام)
جب تم میں سے کسی کے پینے کی چیز میں مکھی پڑ جائے تو اس کو ڈبودینا چاہیے ، پھر نکالنا چاہیے ، اس لیے کہ اس کے دونوں پروں میں سے ایک میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں علاج ہوتا ہے ۔ 
معلوم ہوا کہ پانی میں مکھی پڑجانے سے پانی نجس نہیں ہوتا ہے ۔ اور مکھی میں خون نہیں ہے ، پس بے خون کے جانور کا یہی حکم ہوگا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: دو مردے اور دو خون ہمارے لیے حلال ہیں ، دو مردے مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں۔ (احمد)۔ اس سے مری ہوئی مچھلی اور ٹڈی کا پاک ہونا ثابت ہوا۔ اور پاک چیز پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ 
اگر کنویں میں مرا ہوا جانور ہو اور ابھی پھولا پھٹا نہ ہو اور گرنے کا حال معلوم نہ ہو کہ کب گرا ہے ، تو ایک دن رات قبل سے کنواں نجس سمجھا جائے گا اور چوبیس گھنٹے کی نماز دوہرانی ہوگی ، جب کہ اس پانی سے وضو کیا ہے یا کپڑا دھویا ہے ۔ اور پھولنے پھٹنے کی صورت میں تین دن رات کی نماز لوٹانی ہوگی۔