نجاست حقیقیہ سے پاکی حاصل کرنے کا بیان
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط ( 32)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
نجاست حکمیہ تو صرف پانی سے پاک ہوتی ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی نہ ملنے پر تیمم کا حکم دیا ہے ؛ لیکن نجاست حقیقیہ پانی سے بھی پاک ہوتی ہے اور ان چیزوں سے بھی پاک ہوتی ہے جو بہنے والی نجاست کو دور کرنے والی ہوں، جیسے کہ سرکہ، عرق گلاب، درخت اور پھل پانی وغیرہ۔ تیل، گھی، دودھ سے پاک نہیں ہوتی ہے ، اس لیے کہ وہ بہنے والی تو ہے، مگر نجاست دور کرنے والی نہیں ہے۔
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: ماکانت لاحدانا الا ثوب واحد تحیض فیہ فاذا اصابہ شئی من دم قالت: (ای فعلت) بریقھا فمصعتعہ بظفرھا و یرویٰ فقصعتہ۔ (رواہ البخاری فی باب ھل تصلی المرأۃ فی ثوب حاضت فیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم میں سے بعض عورتیں ایسی ہوتیں ، جس کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہوتا ، جس میں اس کو حیض آتا، پس جب اس کپڑے میں خون لگ جاتا تو اس میں تھوک ڈالتی اور اس کو ناخن سے ملتی اور صاف کرتی ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نجاست تھوک سے بھی پاک ہوتی ہے ، حالاں کہ تھوک پانی نہیں ہے ، اسی لیے فقہا نے فرمایا: ہر بہنے اور نجاست دور کرنے والی چیز سے نجاست حقیقیہ دور ہوسکتی ہے۔
اگر نجاست حقیقیہ مرئیہ ہو، یعنی دیکھنے میں آتی ہو، تو اس کو اتنا دھوئے کہ نجاست دور ہوجائے ، خواہ ایک ہی مرتبہ میں دور ہو یا دوچار مرتبہ میں ۔ جب نجاست دور ہوگئی تو وہ چیز پاک ہوگئی ۔
اگر نجاست کا داغ لگ جائے تو داغ کا دور کرنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خولہ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر خون کا اثر نہ جائے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کو پانی سے دھو دینا کافی ہے ، اس کا اثر رہ جائے تو اس سے تجھ کو کوئی نقصان نہیں ہے ۔ (ترمذی)
اگر نجاست غیر مرئیہ ہو یعنی دیکھنے میں نہیں آتی ہو جیسے کہ پیشاب تو اس کے پاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے اور ہر مرتبہ نچوڑے۔ اور اخیر مرتبہ میں پوری طاقت سے نچوڑے۔ اگر ایسی چیز ہو جو نچوڑی نہیں جاسکتی ہے تو دھوکر اس کو چھوڑ دے ، یہاں تک کہ قطرہ ٹپکنا بند ہوجائے ، پھر دھوئے اور چھوڑے اسی طرح تین مرتبہ کرے، وہ چیز پاک ہوجائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
اذا استیقظ احدکم من نومہ فلایغمس یدہ فی الاناء حتّٰی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ۔ (رواہ مسلم)
جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کہ اس کو تین مرتبہ دھو ڈالے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ رات اس کے ہاتھ نے کہاں گذاری۔
عرب لوگ عموما پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے صفائی پر اکتفا کرتے تھے اور اسی حالت میں سوتے تھے ، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ممکن ہے کہ بے خبری کی حالت میں رات کو مقعد کھجلایا ہو اور ہاتھ میں نجاست لگ گئی ہو، لہذا پانی میں ہاتھ نہ ڈالے، پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھولے ، تب پانی میں ہاتھ ڈالے، تاکہ پانی نجس نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا نجاست کے احتمال کو دور کرنے کے لیے تین مرتبہ کا دھونا کافی ہے ۔ جس برتن میں کتے نے منھ ڈالا، وہ برتن بھی تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے ، چنانچہ حضرت عطا کی روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اذا ولغ الکلب فی الاناء فاھرقہ ثم اغسلہ ثلاث مرات۔ (رواہ الدار قطنی موقوفا ، و فی نصب الرایۃ قال الشیخ تقی الدین فی الامام و ھذا سند صحیح)
یہی ابو ہریرہؓ ہیں جن کی روایت ہے کہ جس برتن میں کتا منھ ڈالے تو اس کو سات مرتبہ دھوئے اور ایک مرتبہ مٹی سے مانجھے اور یہی فرماتے ہیں کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ سات مرتبہ دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ کتے کے بارے میں آپ ﷺ کا سخت حکم تھا۔
اگر موزہ جوتا وغیرہ چمڑے کی کوئی چیز ہو اور اس پر نجاست دلدارلگ جائے تو اس کو زمین پر رگڑنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اذا وطی احدکم بنعلہ الاذیٰ فان التراب لہ طھور۔ (رواہ ابوداؤد باسناد صحیح)
جب تم میں سے کوئی اپنے جوتے سے گندی چیز کو روندے تو اس کو مٹی پاک کرنے والی ہے ۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
فان رأی فی نعلہ اذیٰ او قذرا فلیمسہ و لیصل فیھما۔ (ابو داؤد)
پس اگر دیکھے اپنے جوتے میں نجاست تو اس کو پوچھ ڈالے اور ان دونوں جوتوں میں نماز پڑھے۔
لیکن اگر نجاست دلدار نہ ہوجیسے پیشاب ، تو پھر جوتے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک نہ ہوں گے؛ بلکہ اس کو دھونا ہوگا، کیوں کہ وہ پوچھنے میں نہیں آئے گا۔
اگر کپڑے وغیرہ میں منی لگ جائے اور وہ اتنی غلیظ ہو کہ سوکھنے پر کھرچنے اور رگڑنے سے دور ہوسکتی ہے تو خشک منی بغیر دھوئے صرف کھرچنے اور رگڑنے سے پاک ہوجائے گی۔ لیکن اگر منی پتلی ہو اور سوکھنے پر کھرچنے سے دور نہیں ہوتی ہو، یا منی تر ہو تو ان دونوں صورتوں میں دھونا پڑے گا۔ بغیر دھوئے کپڑا وغیرہ پاک نہ ہوگا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
کنت افرک المنی من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ اذا کان یابسا واغسلہ اذا کان رطبا۔ (رواہ الدار قطنی و البیھقی والطحاوی و ابو عوانۃ فی صحیحہ، و قال النیموی اسنادہ صحیح )
میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو رگڑتی تھی جب کہ خشک ہوتی اور میں دھوتی تھی جب کہ تر ہوتی ۔
اگر نجاست ایسی چیز کو لگے جو ٹھوس ہو اورنجاست کا اثر اندر نہ پہنچتا ہو جیسے چھری، چاقو وغیرہ اور کھردری اور منقش نہ ہو، پوچھنے سے صاف ہوتی ہو تو زمین پر رگڑنے یا کپڑے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔
اگر کھردری یا منقش ہے پوچھنے پر گہری جگہ سے نجاست نہیں نکل سکتی ہے تو اس صورت میں دھونے ہی سے پاک ہوگا۔
نجس زمین اور زمین پر لگے ہوئے پودے اور درخت، بچھی ہوئی اینٹیں بغیر دھوئے ہوئے محض سوکھنے اور نجاست کے اثر دور ہوجانے سے پاک ہوجاتی ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں رات گذارا کرتا تھا اور میں جوان بے شادی شدہ تھا ، کتے مسجد میں پیشاب کرتے اور آتے جاتے تھے اور اس میں سے کوئی چیز دھوئی نہیں جاتی تھی۔ (ابو داؤد) امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ زمین سوکھنے سے پاک ہوجاتی ہے۔
کٹی ہوئی گھاس، یا درخت یا پودے، اکھڑی ہوئی اینٹیں وغیرہ بغیر دھوئے پاک نہ ہوں گی، اس کو زمین کا حکم نہیں دیا جاسکتا ، اس لیے کہ یہ زمین سے الگ ہیں۔
سور کے سوا باقی تمام مردار جانوروں کی کھال جو دباغت قبول کرتی ہے ، دباغت دینے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
ایما اھاب دبغ فقد طھر۔ (رواہ الاربعۃ)
جونسی کچی کھال پکائی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
یعنی ہر قسم کے جانور کی کچی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے۔ کھال سے نجاست دور کرنے کو دباغت کہتے ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
استمتعوا بجلود المیتۃ اذا ھی دبغت ترابا کان او رمادا او ملحا او ماکان بعد ان یظھر صلاحہ۔ (رواہ الدار قطنی)
فائدہ اٹھاؤ مردار کی کھال سے جب کہ وہ دباغت دی جائے مٹی سے یا راکھ سے یا نمک سے یا کسی اور چیز سے ، اس کے بعد اس کا ٹھیک ہونا ظاہر ہوجائے۔
یعنی اس کی بدبو دور ہوجائے اور وہ قابل استعمال ہوجائے ، خواہ صرف دھوپ میں سکھانے سے ہو یا مٹی ڈالنے یا راکھ ڈالنے سے ہو یا نمک سے، یا مسالہ کے ذریعہ سے ہو۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
اذا دبغ الاھاب فقد طھر۔
جب کچی کھال دباغت دی جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
ابو داؤد میں لکھا ہے کہ نضر بن شمیل نے فرمایا: اھاب اسی وقت تک بولتے ہیں جب تک دباغت نہ دیا گیا ہو۔ جب دباغت دیا جائے تو اس کو اھاب نہیں بولتے ، اس کو شَنَّ اور قِرْبہ بولتے ہیں۔
مردار کی کچی کھال اور اس کا پٹھا نجس ہے ، اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ
ان لا تنتفعوا من المیتۃ باھاب و لاعصب۔ (رواہ الترمذی وابو داؤد والنسائی وابن ماجۃ والطحاوی)
یعنی مردار کی کچی کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔
امام بیہقی نے فرمایا کہ اس میں دلیل ہے کہ مردار کی کھال سے دباغت سے پہلے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ ؛ لیکن دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا درست ہے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک باندی کو صدقہ میں ایک بکری ملی ، پس وہ مرگئی، اس طرف سے رسول اللہ ﷺ کا گذر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ھلا اخذتم باھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ، فقالوا انھا میتۃ فقال انما حرم اکلھا۔ (بخاری و مسلم)
تم نے اس کی کھال کیوں نہ چھڑالی، پھر تم اس کو دباغت دیتے اور اس سے نفع اٹھاتے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : وہ تو مری ہوئی ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: مرے ہوئے جانور کا صرف کھانا حرام ہے۔
یعنی گوشت تو نجس اور حرام ہے ، لیکن اس کی کھال دباغت کے بعد استعمال کرنا درست ہے۔
نجاست جل کر راکھ ہونے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح حقیقت بدلنے سے پاک ہوجاتی ہے ، جیسے شراب سرکہ بن جائے ، نمک میں گر کر چوہا وغیرہ نمک بن جائے۔
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: ماکانت لاحدانا الا ثوب واحد تحیض فیہ فاذا اصابہ شئی من دم قالت: (ای فعلت) بریقھا فمصعتعہ بظفرھا و یرویٰ فقصعتہ۔ (رواہ البخاری فی باب ھل تصلی المرأۃ فی ثوب حاضت فیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم میں سے بعض عورتیں ایسی ہوتیں ، جس کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہوتا ، جس میں اس کو حیض آتا، پس جب اس کپڑے میں خون لگ جاتا تو اس میں تھوک ڈالتی اور اس کو ناخن سے ملتی اور صاف کرتی ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نجاست تھوک سے بھی پاک ہوتی ہے ، حالاں کہ تھوک پانی نہیں ہے ، اسی لیے فقہا نے فرمایا: ہر بہنے اور نجاست دور کرنے والی چیز سے نجاست حقیقیہ دور ہوسکتی ہے۔
اگر نجاست حقیقیہ مرئیہ ہو، یعنی دیکھنے میں آتی ہو، تو اس کو اتنا دھوئے کہ نجاست دور ہوجائے ، خواہ ایک ہی مرتبہ میں دور ہو یا دوچار مرتبہ میں ۔ جب نجاست دور ہوگئی تو وہ چیز پاک ہوگئی ۔
اگر نجاست کا داغ لگ جائے تو داغ کا دور کرنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خولہ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر خون کا اثر نہ جائے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کو پانی سے دھو دینا کافی ہے ، اس کا اثر رہ جائے تو اس سے تجھ کو کوئی نقصان نہیں ہے ۔ (ترمذی)
اگر نجاست غیر مرئیہ ہو یعنی دیکھنے میں نہیں آتی ہو جیسے کہ پیشاب تو اس کے پاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے اور ہر مرتبہ نچوڑے۔ اور اخیر مرتبہ میں پوری طاقت سے نچوڑے۔ اگر ایسی چیز ہو جو نچوڑی نہیں جاسکتی ہے تو دھوکر اس کو چھوڑ دے ، یہاں تک کہ قطرہ ٹپکنا بند ہوجائے ، پھر دھوئے اور چھوڑے اسی طرح تین مرتبہ کرے، وہ چیز پاک ہوجائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
اذا استیقظ احدکم من نومہ فلایغمس یدہ فی الاناء حتّٰی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ۔ (رواہ مسلم)
جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کہ اس کو تین مرتبہ دھو ڈالے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ رات اس کے ہاتھ نے کہاں گذاری۔
عرب لوگ عموما پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے صفائی پر اکتفا کرتے تھے اور اسی حالت میں سوتے تھے ، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ممکن ہے کہ بے خبری کی حالت میں رات کو مقعد کھجلایا ہو اور ہاتھ میں نجاست لگ گئی ہو، لہذا پانی میں ہاتھ نہ ڈالے، پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھولے ، تب پانی میں ہاتھ ڈالے، تاکہ پانی نجس نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا نجاست کے احتمال کو دور کرنے کے لیے تین مرتبہ کا دھونا کافی ہے ۔ جس برتن میں کتے نے منھ ڈالا، وہ برتن بھی تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے ، چنانچہ حضرت عطا کی روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اذا ولغ الکلب فی الاناء فاھرقہ ثم اغسلہ ثلاث مرات۔ (رواہ الدار قطنی موقوفا ، و فی نصب الرایۃ قال الشیخ تقی الدین فی الامام و ھذا سند صحیح)
یہی ابو ہریرہؓ ہیں جن کی روایت ہے کہ جس برتن میں کتا منھ ڈالے تو اس کو سات مرتبہ دھوئے اور ایک مرتبہ مٹی سے مانجھے اور یہی فرماتے ہیں کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ سات مرتبہ دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ کتے کے بارے میں آپ ﷺ کا سخت حکم تھا۔
اگر موزہ جوتا وغیرہ چمڑے کی کوئی چیز ہو اور اس پر نجاست دلدارلگ جائے تو اس کو زمین پر رگڑنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اذا وطی احدکم بنعلہ الاذیٰ فان التراب لہ طھور۔ (رواہ ابوداؤد باسناد صحیح)
جب تم میں سے کوئی اپنے جوتے سے گندی چیز کو روندے تو اس کو مٹی پاک کرنے والی ہے ۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
فان رأی فی نعلہ اذیٰ او قذرا فلیمسہ و لیصل فیھما۔ (ابو داؤد)
پس اگر دیکھے اپنے جوتے میں نجاست تو اس کو پوچھ ڈالے اور ان دونوں جوتوں میں نماز پڑھے۔
لیکن اگر نجاست دلدار نہ ہوجیسے پیشاب ، تو پھر جوتے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک نہ ہوں گے؛ بلکہ اس کو دھونا ہوگا، کیوں کہ وہ پوچھنے میں نہیں آئے گا۔
اگر کپڑے وغیرہ میں منی لگ جائے اور وہ اتنی غلیظ ہو کہ سوکھنے پر کھرچنے اور رگڑنے سے دور ہوسکتی ہے تو خشک منی بغیر دھوئے صرف کھرچنے اور رگڑنے سے پاک ہوجائے گی۔ لیکن اگر منی پتلی ہو اور سوکھنے پر کھرچنے سے دور نہیں ہوتی ہو، یا منی تر ہو تو ان دونوں صورتوں میں دھونا پڑے گا۔ بغیر دھوئے کپڑا وغیرہ پاک نہ ہوگا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
کنت افرک المنی من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ اذا کان یابسا واغسلہ اذا کان رطبا۔ (رواہ الدار قطنی و البیھقی والطحاوی و ابو عوانۃ فی صحیحہ، و قال النیموی اسنادہ صحیح )
میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو رگڑتی تھی جب کہ خشک ہوتی اور میں دھوتی تھی جب کہ تر ہوتی ۔
اگر نجاست ایسی چیز کو لگے جو ٹھوس ہو اورنجاست کا اثر اندر نہ پہنچتا ہو جیسے چھری، چاقو وغیرہ اور کھردری اور منقش نہ ہو، پوچھنے سے صاف ہوتی ہو تو زمین پر رگڑنے یا کپڑے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔
اگر کھردری یا منقش ہے پوچھنے پر گہری جگہ سے نجاست نہیں نکل سکتی ہے تو اس صورت میں دھونے ہی سے پاک ہوگا۔
نجس زمین اور زمین پر لگے ہوئے پودے اور درخت، بچھی ہوئی اینٹیں بغیر دھوئے ہوئے محض سوکھنے اور نجاست کے اثر دور ہوجانے سے پاک ہوجاتی ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں رات گذارا کرتا تھا اور میں جوان بے شادی شدہ تھا ، کتے مسجد میں پیشاب کرتے اور آتے جاتے تھے اور اس میں سے کوئی چیز دھوئی نہیں جاتی تھی۔ (ابو داؤد) امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ زمین سوکھنے سے پاک ہوجاتی ہے۔
کٹی ہوئی گھاس، یا درخت یا پودے، اکھڑی ہوئی اینٹیں وغیرہ بغیر دھوئے پاک نہ ہوں گی، اس کو زمین کا حکم نہیں دیا جاسکتا ، اس لیے کہ یہ زمین سے الگ ہیں۔
سور کے سوا باقی تمام مردار جانوروں کی کھال جو دباغت قبول کرتی ہے ، دباغت دینے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
ایما اھاب دبغ فقد طھر۔ (رواہ الاربعۃ)
جونسی کچی کھال پکائی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
یعنی ہر قسم کے جانور کی کچی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے۔ کھال سے نجاست دور کرنے کو دباغت کہتے ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
استمتعوا بجلود المیتۃ اذا ھی دبغت ترابا کان او رمادا او ملحا او ماکان بعد ان یظھر صلاحہ۔ (رواہ الدار قطنی)
فائدہ اٹھاؤ مردار کی کھال سے جب کہ وہ دباغت دی جائے مٹی سے یا راکھ سے یا نمک سے یا کسی اور چیز سے ، اس کے بعد اس کا ٹھیک ہونا ظاہر ہوجائے۔
یعنی اس کی بدبو دور ہوجائے اور وہ قابل استعمال ہوجائے ، خواہ صرف دھوپ میں سکھانے سے ہو یا مٹی ڈالنے یا راکھ ڈالنے سے ہو یا نمک سے، یا مسالہ کے ذریعہ سے ہو۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
اذا دبغ الاھاب فقد طھر۔
جب کچی کھال دباغت دی جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
ابو داؤد میں لکھا ہے کہ نضر بن شمیل نے فرمایا: اھاب اسی وقت تک بولتے ہیں جب تک دباغت نہ دیا گیا ہو۔ جب دباغت دیا جائے تو اس کو اھاب نہیں بولتے ، اس کو شَنَّ اور قِرْبہ بولتے ہیں۔
مردار کی کچی کھال اور اس کا پٹھا نجس ہے ، اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ
ان لا تنتفعوا من المیتۃ باھاب و لاعصب۔ (رواہ الترمذی وابو داؤد والنسائی وابن ماجۃ والطحاوی)
یعنی مردار کی کچی کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔
امام بیہقی نے فرمایا کہ اس میں دلیل ہے کہ مردار کی کھال سے دباغت سے پہلے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ ؛ لیکن دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا درست ہے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک باندی کو صدقہ میں ایک بکری ملی ، پس وہ مرگئی، اس طرف سے رسول اللہ ﷺ کا گذر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ھلا اخذتم باھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ، فقالوا انھا میتۃ فقال انما حرم اکلھا۔ (بخاری و مسلم)
تم نے اس کی کھال کیوں نہ چھڑالی، پھر تم اس کو دباغت دیتے اور اس سے نفع اٹھاتے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : وہ تو مری ہوئی ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: مرے ہوئے جانور کا صرف کھانا حرام ہے۔
یعنی گوشت تو نجس اور حرام ہے ، لیکن اس کی کھال دباغت کے بعد استعمال کرنا درست ہے۔
نجاست جل کر راکھ ہونے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح حقیقت بدلنے سے پاک ہوجاتی ہے ، جیسے شراب سرکہ بن جائے ، نمک میں گر کر چوہا وغیرہ نمک بن جائے۔