18 Dec 2023

خطبہ صدارت از: حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ صدر جمعیت علمائے ہند۔

 خطبہ صدارت

از: حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ صدر جمعیت علمائے ہند۔

الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ و نؤمن بہ ونتوکل علیہ، ونعوذباللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیات اعمالنا۔ من یہد اللہ فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ہادی لہ۔ ونشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ ونشہد أن سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وعلی الٰہ وصحبہ اجمعین، و بارک وسلم اما بعد!

محترم حضرات، مہمانان ذی و قار! میرے لیے یہ امر باعث فخر و امتیاز ہے کہ آپ نے اس خاکسار کو ایک ایسی مبارک تقریب کی صدارت کی ذمے داری تفویض فرمائی ہے، جو جنگ آزادی کے عظیم مجاہد، ہندو مسلم اتحاد کے زبردست داعی حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں منعقد ہوئی ہے اور ان کی عظمت و کردار دینی، مذہبی، ملی اور قومی خدمات کے اعتراف میں ہفت روزنامہ ”الجمعیۃ“ نے جو تاریخی نوعیت کا حامل خصوصی نمبر شائع کیا تھا، اس کی اشاعت نو کی رسم اجرا عزت مآب جناب ڈاکٹر شنکر دیال شر ما صاحب کے ہاتھوں ادا ہو گی۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ہمہ جہت شخصیت کی بلندی، جنگ آزادی کی جدو جہد کی قیمت،ملک وملت کے تعلق سے ان کی خدمات و کارنامے اور اس حوالے سے اس خصوصی اشاعت کی جو اہمیت ہے، اس کو اجاگر کرنے کے لیے اس دور کا حوالہ دوں گا، جس نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو ملک کی آزادی اور بر طانوی سامراج کے خلاف جہاد کے لیے آمادہ و بے قرار کر دیا تھا۔ ہندستان کی آزادی اور برطانوی سامراج کے خلاف مسلمانان ہند کی جدو جہدکے سلسلے میں سب سے پہلے نواب سراج الدولہ کا نام قابل ذکر ہے، جو 1700ء سے 1756ء تک انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے۔ جنگ پلاسی میں میر جعفر کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کو بنگال میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ اگر اس واقعہ کو سامنے رکھیں، تو مسلمانوں کی برطانوی سامراج کے خلاف جدو جہد کا عرصہ کم و بیش تین صدیوں کے برابر ہے۔ اس کا نقطہئ آغاز اٹھارھویں صدی کے پہلے نصف میں ہوا تھا، جس وقت یورپ کے تاجر اپنے سامراج کی بنیاد ڈالنے میں ہر سازش اور حیلے سے کام لے رہے تھے اور مغلیہ سلطنت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

1731ء میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مکہ معظمہ میں اپنے ضمیر کی آواز سنی کہ ملک وملت کی فلاح صرف اسی صورت میں ہے کہ دور حاضر کے تمام نظام کی دھجیاں بکھیر دی جائیں اور ایک ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جائے۔ جب آپ اس مقدس سفر سے واپس ہوئے، تو آپ کا نصب العین سیاسی و سماجی زندگی کے ہر ایک شعبہ میں ہمہ گیر انقلاب بن چکا تھا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے ضمیر نے ان کو مکہ معظمہ میں علما ئے کرام کی جس ذمہ داری کا احساس دلایا تھا، وہ بالکل بر محل تھا۔ چنانچہ 4/ مئی 1799ء کو ملک وملت کی بقا اور آزادی کی خاطر انگریزی سامراج کا ی خاطر انگریزی سامراج کا مقابلہ کرتے ہوئے سری رنگا پٹنم کے میدان کارزار میں سلطان ٹیپو شہید نے جام شہادت نوش کیا، ان کے خون میں لتھڑے ہوئے جنازے کو دیکھ کر فاتح انگریز نے انتہائی فخر و مسرت کے ساتھ اعلان کیا کہ”آج ہندستان ہمارا ہے“۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ انگریز علمائے کرام کے جذبہئ حریت سے بہت خائف تھے؛ کیوں کہ ایسے سانچوں سے ان کے حوصلوں میں پستی آنے کے بجائے ان کا جذبہئ جہاد اور زیادہ فروزاں ہو گیا اورانھوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔

علمائے کرام کی آزادی کی جدو جہد کا مرحلہ وار مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ علمائے کرام نے 1831ء سے 1915ء تک صرفچوراسی سال کی قلیل مدت میں تلوار اور دست و بازو کا سہارا لے کر چار بار منظم مزاحمت کی۔ جب 1803ء میں دہلی کے تخت و تاج کو کمزور کر کے سامراجی طاقت نے سازش سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کردی اور اعلان کر دیا: ”خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا، حکم کمپنی بہادر کا“۔ اور یہ بات زبان زد ہو گئی کہ حکومت شاہ عالم ازدہلی تا پالم۔ اس اعلان کے بعد امام حریت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا اور فرمایا کہ آج ہماراملک غلام ہو گیا ہے اور غلامی کو مٹانا اور حصول آزادی کے لیے جدو جہد کرنا ہمارا فریضہ ہے۔

بذریعہئ اسلحہ ملک کو آزاد کرانے کے لیے علمائے کرام کا پہلا اہم دور- جس کی قیادت سید احمد شہیدؒ نے کی- انھوں نے 1818ء سے 1831ء تک ملک کے طول و عرض کا دورہ کیا اور چند سالوں کے اندر ملک میں ہر طرف آزادی کی آگ لگادی۔ پھر 1824ء میں سرحد کے اطراف میں مورچہ لگا کر چھ سال تک پوری جواں مردی کے ساتھ انگریزوں اور ان کے ہم نواؤں کے ساتھ ٹکر لیتے رہے۔ امیر علی خان اور جسونت راؤ ہولکر کی فوجوں کے ساتھ مل کر 10/ جنوری1827ء کو مقبوضہ علاقے میں آزاد عارضی حکومت حضرت سید احمد شہید کی امارت میں قائم ہوئی تھی۔

7/ مئی 1831ء کو بالا کوٹ کے معرکہئ کارزار میں مولانا سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید دہلویؒ نے شہادت کا رتبہئ بلند حاصل کیا۔ ان کی جماعت کے بقیہ مجاہدین 1871ء تک سرحدی علاقوں میں سر بکف رہے۔ ان کے جذبہئ ایثار و قربانی نے ایوان اقتدار کو لرزہ براندام کر رکھا تھا۔ دوسری طرف اسی جماعت کے دیگر افراد پورے ملک میں بغاوت کی لہر پیدا کرنے میں مصروف تھے۔ اس لہر کو طوفان اور اس چنگاری کو شعلہ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ دہلی کے چونتیس علمائے کرام نے جہاد کا فتویٰ دے کر مجاہدین کے لیے راہ عمل متعین کر دی۔ ہر طرف بغاوت کا سیلاب امنڈ نے لگا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی قیادت میں اکابر علما:حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن شہید اور ان کے رفقائے کار نے جرأت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاملی پر قبضہ کر لیا۔

1857ء کی پہلی جنگ آزادی کی تاریخ اگر مجاہدین کی سرفروشانہ جدو جہد کی روئداد ہے، تو اس کے ساتھ ساتھ برطانوی سامراج کی سنگ د لانہ بربریت اور اس کے و حشیانہ مظالم کا ایسا گھناؤ ناریکارڈ ہے، جسے پڑھ کر انسانیت شرم سے سر جھکا لیتی ہے۔

 نواب محمود خان نے نجیب آباد سے بڑھ کر پورے ضلع بجنور پر قبضہ کر لیا تھا۔ بد قسمتی سے سید احمد خان اور دوسرے لوگوں نے انگریزوں کی مدد کی۔ انگریزوں کے دوبارہ قبضہ کے بعدپچیس پچیس کو قطار میں کھڑا کر کے توپ داغ دیتے تھے۔ مظلومین کے چیتھڑے اڑ جاتے تھے۔ اس طرح ہزاروں کو قتل کیا گیا۔ انگریزی فوج نے دیوبند جاتے ہوئے تین دیہاتوں کے سات یا نو افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا۔ دیوبند پہنچ کر انگریزوں نے پینتالیس شہریوں کو گرفتار کر کے ایک آم کے درخت پر لٹکا کر سب کو پھانسی دے دی۔ بریلی میں جہاں حافظ رحمت خاں کے روہیلوں کی حکومت تھی، روہیلوں نے بھی 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا اور بغاوت کی ناکامی کے بعد وہاں بھی ہزارہا مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ لکھنو میں اودھ کے نوابوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ حسن پور ضلع مراد آباد کے نواب کو زندہ جلا دیا گیا۔ پورے ملک میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، جن میں رؤسا اور نوابین بھی شامل تھے۔ جنھوں نے ملک سے غداری کی، ان کو ریاستیں ملیں اور وہ نواب بنائے گئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی جگہوں پر وطن پرست غیر مسلموں کو بھی اسی طرح برباد کیا گیا؛ لیکن ایک عام تخمینے کے مطابق حب الوطنی کی پاداش میں سزا اور نقصان اٹھانے والوں میں نوے فی صدی حصہ مسلمانوں کا تھا اور دس فی صدی غیر مسلم برادران وطن تھے۔

1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریز حاکموں کی نگاہوں میں سب سے زیادہ معتوب علما کی جماعت تھی، یہاں تک کہ مولویت بغاوت کے ہم معنی قرار دے دی گئی تھی۔ ہر وہ شخص جو مولویانہ وضع رکھتا تھا، وہ مشتبہ ہی نہیں؛ بلکہ مجرم سمجھا جاتا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے یہ حکم صادر کر دیا گیا تھا کہ جو داڑھی اور لمبے کرتے والا ملے، اسے تختہئ دار پر چڑھا دیا جائے۔ چنانچہ پورے ملک میں پندرہ دنوں تک اسی طرح لوگوں کے قتل اور پھانسی کاسلسلہ جاری رہا۔تقریبا دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے،جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علما تھے۔ ایک انگریز کی شہادت ہے کہ صرف دہلی میں پانچ سو علمائے کرام کو تختہئ دار پر لٹکایا گیا۔ اس ظلم و تشدد کے باوجود علمائے کرام کا جذبہئ حریت فنا نہیں ہوا اور انھوں نے کسی نہ کسی طرح ملک کی آزادی کے لیے جد و جہد کا سلسلہ جاری رکھا۔1861ء سے1871ء تک انبالہ، راج محل اور مالدہ میں پانچ بڑے سنگین مقدمے چلائے گئے، جن میں نام زد  انیس افراد میں اکثر و بیشتر علما تھے۔ ان مقدمات میں بلا استثنا سب کو پھانسی کی سزادی گئی، یا ساری عمر کے لیے کالے پانی بھیج دیا گیا۔

معزز سامعین! آزادی کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ دین کے تحفظ کی ضرورت بھی سامنے تھی۔ دین کے تحفظ اور آزادی کے مجاہدین کے نئے کارواں کی سالاری کے لیے 30/مئی 1866ء کو مجاہدین1857 ء نے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بانیوں میں مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حاجی عابد حسینؒ اور ان کے رفقائے کار تھے۔ یہ مدرسہ صرف ایک درس گاہ ہی نہیں تھا؛ بلکہ ایک دیرپا اور دور رس تحریک کا گہوارہ بھی تھا۔ اس مدرسے نے ہزاروں ایسے مجاہدین حریت کو میدان میں اتارا، جنھوں نے تحریک آزادی میں آگے بڑھ کر حصہ لیا اور اس کے ساتھ ساتھ مسیحی مشنریوں کی یلغار سے مسلمانوں کے عقائد اور کردار کی حفاظت بھی کی۔ یہ مقام شکر واطمینان ہے کہ علوم اسلامیہ کی اس عالمی معیار کی درس گاہ نے نہ صرف ہندستان؛ بلکہ بیرون ہند کے ہزاروں علمائے کرام کو اپنے دین متین کی خدمت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے حقوق کی مدافعت کے لیے بھی سینہ سپر بنایا۔ دارالعلوم کے بانی یہ شعور رکھتے تھے کہ اسلامی عقائد و شعار کی مدافعت کے لیے ملک کا بیرونی سامراجی طاقت سے آزاد ہو نا ضروری ہے، اس لیے اس درس گاہ نے ملک کی آزادی کے لیے ہزاروں مجاہدین حریت کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔

جمعیت علما کے قیام سے قبل 1871ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒنے اپنے استاد مولانا قاسم نانوتوی کے مشورے سے ”ثمرۃ التربیہ“ کے نام سے مدرسہ کو چندہ دینے والوں کی ایک تنظیم قائم کی؛ لیکن اس انجمن کا مقصد صرف چندہ جمع کرنا نہیں تھا؛ بلکہ اس میں شامل افراد کو ملک کی آزادی کی جد و جہد کے لیے تیار کرنا تھا۔ یہ مشہور تحریک ریشمی رومال کی پہلی کڑی تھی۔ اس انجمن کے ابتدائی اراکین انیس تھے، جو حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے شاگرد تھے۔

 دار العلوم کے قیام کے اٹھارہ سال بعد 1885ء میں آئینی اصلاحات کا مطالبہ لے کر انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔ ملک کی آزادی کے لیے ایک وسیع تر محاذکی تشکیل کے لیے علمائے کرام نے اس تنظیم کا خیر مقدم کیا اور تین سال بعد 1888ء میں تین سو سے زائد علمائے کرام نے حصول آزادی کے لیے کا نگریس میں شامل ہونے کا فتویٰ دیا،  جو”نصرت الابرار“ کے نام سے چھپتا رہا۔ علمائے کرام اپنے طور پر ملک کی آزادی کے لیے منصوبوں کی تشکیل کے لیے مصروف تھے۔1909ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے اس مقصد کے لیے ایک تنظیم ”جمعیۃ الانصار“ قائم کی، جس کے پہلے ناظم مولانا عبید اللہ سندھیؒ منتخب ہوئے۔ تقریباً دو سال کی تیاری کے بعد اس تنظیم کا پہلا اجلاس مؤتمر الانصار مراد آباد میں زیر صدارت مولانا احمد حسن امروہی ہوا۔ یہ تنظیم اس تحریک کا حصہ تھی، جس نے انگریزی سامراج کو مٹانے کا منصوبہ بنایا تھا اور تیس برسوں سے خفیہ کام کر رہی تھی۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے مسلسل چالیس برس خفیہ تیاری کے بعد1915ء میں برطانوی سامراج کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا، اس کے تحت اندرون ملک بغاوت اور بیرون ملک سے حملوں کا پروگرام تھا۔ اس کے لیے 19/ فروری 1917ء کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ جنگ کی تیاری کے لیے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیجا گیا تھا، جو10/ اکتوبر 1915ء کو کابل پہنچے۔وہاں یکم دسمبر 915ء کو ہی آزاد حکومت ہند کا قیام عمل میں آیا، جس کے صدر راجہ مہندر پرتاپ بنائے گئے۔ یہ فیصلہ علمائے کرام کے اپنے ہم وطنوں کے لیے خلوص اور نیک نیتی کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ملک کو آزاد کرا کے صرف مسلمانوں کی حکومت نہیں قائم کرنا چاہتے تھے؛ بلکہ اپنے ہم وطنوں کو ان کا جائز مقام دینا چاہتے تھے۔ اس حکومت نے اپنے نمائندے ترکی، روس اور جاپان بھیجے۔ دوسری طرف خود مولانا محمود حسن دیوبندی 18/ ستمبر 1915ء کو حجاز کے لیے روانہ ہو گئے اور وہاں آپ نے غالب پاشا اور انور پاشا سے معاہدے کیے؛ مگر بد قسمتی سے تحریک کا راز فاش ہو گیا اور تحریک کے دو سو تئیس ذمہ داروں کو ملک کے طول و عرض سے گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف بغاوت کی سازش کے مقدمے دائر کیے گئے اور حضرت شیخ الہند اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے رفقائے کرام کو حجاز سے گرفتار کر کے مالٹا زندان خانے میں ڈال دیا گیا، جہاں سے 1920ء میں ان کی رہائی عمل میں آئی۔ یہ وہ تحریک ہے، جو ”ریشمی رومال“ تحریک کے نام سے معروف و مشہور ہے اور جس میں ملک کے تمام نام ور سیاسی لیڈر شریک تھے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انصاری، مولانا آزاد، پیر غلام مجدد صاحب، خان عبد الغفار خان، مولانا سیف الرحمان و غیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

معزز حاضرین! ریشمی رومال تحریک کی ناکامی سے علمائے کرام مایوس اور بددل نہ ہوئے اور انھوں نے ملک کی آزادی کے لیے نیا طریقہئ کار اور جد و جہد کا نیا پروگرام وضع کرنے کی فکر کی۔ ریشمی رومال تحریک کی ناکامی نے ان کو یہ احساس دلایا تھا کہ ملک کی آزادی صرف بیرونی امداد کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ آئندہ جد و جہد کے لیے انھوں نے اپنے ہم وطنوں کا اشتراک اور تعاون ملک کی آزادی کے کے لیے ضروری سمجھا۔ 1888ء میں ملک کے مقتدر علمائے کرام حصول آزادی کے لیے کانگریس میں شمولیت کی حمایت کرچکے تھے، اس لیے راہ ہموار ہو چکی تھی۔ علمائے ملت نے مشترک جدو جہد کے اصول کو تسلیم کرنے اور کانگریس میں شریک ہونے کے ساتھ ایک ایسی جماعت کے وجود کو ضروری سمجھا، جس کا نصب العین اسلامی عقائد، روایات اور نظام زندگی کا تحفظ ہو اور جو مشترک جماعت کے لائحہئ عمل اور تجاویز دینی شعور کی روشنی میں غور و خوض کر کے مذہبی اصول اور احکام کے بموجب مسلمانوں کی رہنمائی کرتی رہے اور ان کی قیادت اور امامت کے مذہبی اور سیاسی فرائض انجام دیتی رہے۔چنانچہ نومبر 1919ء میں خلافت کا نفرنس کے موقع پر انقلابی علمائے کرام نے ”جمعیت علمائے ہند“ کے نام سے ایک باضابطہ دستوری جماعت قائم کی، جس کے پہلے صدر مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کا قیام علمائے کرام کی انقلابی تحریک کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ اب مسلح انقلاب کی راہ ترک کر کے عدم تشدد اور اہنساکا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس بار علمائے کرام کی دور اندیشی اور بصیرت کارگر ثابت ہوئی اور اسی راہ عمل پر چل کر ملک آزادی کی منزل تک پہنچا۔

8/ جون1920ء کو شیخ الہند مولانا محمود حسن تین برس سات مہینے کے بعد مالٹا سے بمبئی لاکر رہا کیے گئے۔ ان کے ساتھ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عزیر گل اور مولانا وحید احمد بھی مالٹاسے واپس آئے۔ ممبئی میں ان کا استقبال کرنے والوں میں ہزاروں عقیدت مندوں کے ساتھ مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ اور گاندھی جی بھی موجود تھے۔ شیخ الہند اور ان کے رفقائے کار کے وطن لوٹنے سے ملک کی تحریک آزادی میں ایک نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا ہوا۔

علمائے کرام نے مشترک لیڈر، مشترک پلیٹ فارم کو مشترک تحریک کی بنیاد قرار دیا۔ مولانا شیخ الہند نے نوجوان بیرسٹرمسٹر موہن داس کرم چند گاندھی کا نام مشترک لیڈر کی حیثیت سے پیش کیا اور جمعیت علمائے ہند کے اجلاس کے صدر مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے اعلان کیا کہ مسٹر گاندھی کو”مہاتما گاندھی“ کے نام سے پکارا جائے گا۔ علمائے کرام کے اس فیصلے کے مطابق برسوں تک گاندھی جی کے پورے ملک کے دورے کی کفالت صرف مسلمانوں کے فنڈ سے ہوتی تھی۔

اور نہ صرف یہ؛ بلکہ علمائے کرام، مسلمانان ہنداور جمعیت علمائے ہند نے ہر جگہ جد وجہد آزادی کے تابندہ نقوش چھوڑے ہیں۔ جمعیت علمائے ہند، خلافت کمیٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے جلسے مشترک تاریخوں میں ایک شہر ایک میدان میں ہوا کرتے تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے لیڈروں کے درمیان مشترک مسائل اور موضوعات پر تبادلہئ خیال بھی اس روایت کا حصہ تھا۔

19/ جولائی1920ء کو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے ترک موالات کا فتویٰ دیا، جس کو بعد میں ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد بہاریؒ نے مرتب کر کے جمعیت علمائے ہند کی طرف سے چار سو چوراسی علما کے دستخطوں کے ساتھ شائع کیا۔

ترک موالات، یا حکومت برطانیہ سے عدم تعاون کی تحریک 31/اگست 1920ء سے شروع ہوئی، جو5/ فروری1922ء کو چورا چوری کے بھیانک واقعہ کے بعد گاندھی جی کی تجویز کے مطابق بند کر دی گئی۔ اس تحریک میں تیس ہزار افراد جیل گئے، جن میں زیادہ تعداد علمائے کرام اور مسلم مجاہدین حریت کی تھی۔

جمعیت علمائے ہند اس سے پہلے اپنے ساتویں اجلاس منعقدہ 11تا 14/مارچ 1926ء میں بمقام کلکتہ زیر صدارت علامہ سیدسلیمان ندوی مکمل آزادی کی تجویز منظور کر چکی تھی۔

1929ء میں گاندھی جی کے ڈانڈی مارچ اور ان کی نمک سازی کی تحریک میں دس دیگر قومی کارکنوں کے ساتھ جمعیت علمائے ہند کے اکابر: مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا حفظ الرحمانؒ، مولانا سید فخر الدینؒ، مولانا سید محمد میاں ؒ اور مولانا بشیر احمد بھٹا وغیرہ بھی گرفتار ہوئے۔

1930ء کی سول نافرمانی تحریک میں جمعیت علمائے ہندکے صدر مولانا مفتی کفایت اللہ اور ناظم اعلیٰ مولانا احمد سعید دہلوی کو قانون تحفظ عامہ و بغاوت کے جرم میں گرفتار کر کے قید با مشقت کی سزادی گئی۔

1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی، تو جمعیت علمائے ہند نے اعلان کیا کہ جنگ کے سلسلے میں ہم کسی طرح کا تعاون نہیں کریں گے۔ جمعیت علمائے ہند نے فوج میں جبری بھرتی کی پر زور مخالفت کی۔1940ء کی دوسری جنگ عظیم میں تعاون نہ دینے اور جبری بھرتی کی مخالفت کرنے کی وجہ سے جمعیت علمائے ہند کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، مولانا شاہد میاں فاخری، مولانا احمد علی لاہوری اور متعدد علمائے کرام شامل تھے۔

موقر سا معین عظام!جس تاریخ ساز شخصیت حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی یاد میں یہ تقریب سعید منعقد ہوئی ہے، اس نے وطن کی آزادی اور ملک و ملت کی جو خدمات انجام دی ہیں، انھیں کوئی بھی انصاف پسند مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہوش سنبھالتے ہی اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق انگریزوں کے خلاف تحریکوں میں شریک ہونے لگے تھے اور ان کے لیے ہر آنے والا دن ایک نیا ولولہ اور جوش جہاد لے کر آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے دنوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق کی آزادی؛ خصوصا ہندستان کو انگریزوں کے پنجہئ استبداد سے آزاد کرانا آپ کا ایک عظیم مقصد بن گیا۔ مدینہ منورہ کی تدریس حدیث پاک کے دوران حدیث کے رموز و معارف کے ساتھ ساتھ طلبہ کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کے لیے بھی ابھارتے تھے۔

 الجزائر میں استعماری طاقتوں کے خلاف جدو جہد کرنے والے اولین مجاہدین اور سربراہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہی کے تلاندہ تھے۔ محمود البشیرالابراہیمی، عبد الحمید بادیس کے اسمائے گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ان دونوں کو الجزائر میں وہی حیثیت حاصل ہے، جو ہندستان میں گاندھی جی اور جواہر لال نہرو کو حاصل ہے۔ ان دونوں نے 1931ء میں جمعیت علمائے الجزائر قائم کر کے اس کے پلیٹ فارم سے آزادی وطن کے لیے جد و جہد شروع کی، جس میں دس لاکھ افراد شہید ہوئے، جس کے نتیجے میں الجزائر کو آزادی نصیب ہوئی۔

 معزز حاضرین! حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی قیمتی زندگی کے گیارہ سال قید فرنگ میں گزرے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ساتھ مالٹا میں اسارت کے سال بھی شامل ہیں۔ آپ نے کراچی کی عدالت میں جو جرأ ت مندانہ بیان دیا تھا، اسے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کر لیا ہے۔

8/جولائی 1921ء کو کراچی میں خلافت اجلاس میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے پوری قوت کے ساتھ صاف لفظوں میں یہ اعلان کیا:”حکومت برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے۔“ اس جرأت حق گوئی کی پاداش میں کراچی کا مشہور مقدمہ چلا، جس میں آپ کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد، جگت گورو شنکر آچاریہ،کا کا کالیکر رام داس کو دو دو سال قید با مشقت کی سزا ہوئی۔

8/ اگست ۱1921ء کو جمعیت علمائے ہند کا شائع کردہ ترک موالات کا فتویٰ ضبط کر لیا گیا؛ لیکن جمعیت علمائے ہند خلاف قانون اس فتویٰ کو بار بار شائع کرتی رہی۔

11/مارچ 1931ء کو جمعیت علمائے ہند کے پہلے ڈکٹیٹر مفتی اعظم مولانا مفتی کفایت اللہ ایک لاکھ افراد کا جلوس لے کر نکلے اور گر فتار کیے گئے۔ جمعیت علمائے ہند کے دوسرے(چھٹے) ڈکٹیٹر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کو دیو بند سے دہلی آتے ہوئے راستے میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان، مولانا سید محمد میاں اور مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی ڈکٹیٹر منتخب ہوتے رہے اور گرفتاریاں دیتے رہے۔ اس تحریک میں تقریبا تیس ہزار مسلمان گرفتار کیے گئے۔

1935ء میں حکومت ہند نے ایک فار مولا پیش کیا تھا، جو مجلس عاملہ کی میٹنگ منعقدہ  31/اگست 1931ء میں مرتب و منظور ہوا تھا۔ یہ مدنی فارمولہ کے نام سے معروف ہے۔ اگر اس فارمولہ کے مطابق دستور بنایا جاتا، تو بڑی حد تک مسلمانوں کی مشکلات دور ہوجاتیں اور ملک کا بٹوارہ نہ ہوتا۔ بہر حال گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے ذریعے جو مراعات حاصل ہوئیں، وہ اسی فارمولے کے مطابق تھیں۔

 ملک کی تحریک آزادی کی طاقت، وسعت اور اس کے بڑھتے ہوئے اثر کے پیش نظر برطانوی حکمراں اسے کمزور کرنے کی سازشوں میں پوری طرح مصروف تھے اور ان کی سازشوں کو اس بات سے تقویت مل رہی تھی کہ مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کی طرف سے مذہب پر مبنی قومیت کی تصورات پیش کیے جارہے تھے۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نے اس سامر اجی سازش کا سنجیدگی اور گہرائی سے جائزہ لیا اور برطانوی سامراج کے خلاف محاذ آرائی کے لیے بلا تفریق مذہب و ملت ہندستانیوں کے لیے متحدہ قومیت کی وکالت کی اور اس کو قرآن وحدیث سے ثابت کیا۔ یہ انقلابی نظر یہ آزاد ہند ستان کے سیکولر اور جمہوری آئین کا پیش رو کہا جا سکتا ہے۔

بچھر ایوں میں 23 تا 25/ پریل1942ء کو جمعیت علمائے ہند کی کا نفرنس منعقد ہوئی، جس میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی تقریر میں قوت کے ساتھ آزادی کے مسئلے کو اٹھایا۔ جس کی پاداش میں 24/ جون1942ء کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا، جب حضرت اتحاد کا نفرنس پنجاب میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ جب 4/جنوری 1943ء کو چھ مہینے کی سزا پوری ہو گئی، تو جیل ہی میں ڈیفنس آف انڈیارو لس کی دفعہ 44 کا نوٹس تعمیل کرا کے غیر محدود عرصے کے لیے نظر بند کر دیا گیا۔26/ اگست 1944ء کو آپ نینی جیل الٰہ آباد سے بلا شرط رہا کر دیے گئے۔ ان کی نظر بندی کے دوران 5/ اگست 1942ء کو جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے چار مقتدر ارکان: مفتی مولانا کفایت اللہ، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا عبد الحلیم صدیقی کے دستخطوں سے ایک اخباری بیان جاری کیا گیا،جس میں کھلے لفظوں میں کہا گیا تھا کہ:

”انگریزو! ہندستان چھوڑ دو“۔

 اس کے بعد 8/ اگست 1942ء کو کانگریس نے اپنے اجلاس بمبئی میں ”کوئٹ انڈیا“، یعنی ہندستان چھوڑو کی قرارداد پاس کی، جس کی پاداش میں کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے رہنما اور ہزاروں کا رکن گرفتار ہوئے۔ ان میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان، مولانا سید میاں، مولانا نورالدین بہاری وغیرہ کے نام خاص طور قابل ذکر ہیں۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پہلے ہی گرفتار ہو چکے تھے۔

 جیلوں سے باہر آنے کے بعد علمائے کرام کی دور بین نظروں نے مسلمانوں کے مستقبل پر تقسیم ہند کے مطالبے کے مضر اثرات کو دیکھ لیا، اسی لیے جمعیت علمائے ہند نے قیام پاکستان کے مطالبے کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت شروع کی اور مسلم فرقہ پرستی کا انتہائی حوصلہ مندی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا اور ناعاقبت اندیش لوگوں کے ہاتھوں جمعیت علمائے ہند کے اکابر؛ بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے رفقائے کار کو مسلم لیگیوں کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنا پڑا؛ لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ہر طرح کے مصائب و آلام کا جرأت و تحمل سے مقابلہ کیا اور ملک کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرا کر ہی دم لیا۔ اور جب ملک آزاد ہو گیا، تو انھوں نے اپنی جدو جہد کا کوئی صلہ نہیں طلب کیا؛ یہ تاریخ میں نادر مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

معزز حاضرین!تحریک آزادی کے اولین مجاہدین، جمعیت علمائے ہند کے اکابر اور ان کے حامیوں کی عدیم المثال قربانیوں، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کی ہمہ جہت شخصیت،تاریخ ساز خدمات و کارنامے، آزادی وطن میں جرأت مندانہ جدو جہد اور روزنامہ الجمعیۃ کے تاریخی اہمیت کے حامل خصوصی نمبر کی اشاعت نو وغیرہ کا ذکر کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہی وہ روشنی ہے، جس سے ملک وملت نے روشنی حاصل کی ہے۔ اور یہی وہ نقوش ہیں، جن سے ہم اپنے مستقبل کی تصویر میں رنگ بھر سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ نئی نسل کے سامنے ملک اور معماران ملک کی صحیح تصویر و تاریخ رکھی جائے۔ اس کے بغیر فرقہ پرستوں کی غلط ذہنیت پر مبنی تاریخ میں کی جانے والی تحریف کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ ہمارے اسلاف کے نقوش قدم اور قربانیاں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ کیا ہم میں خوب صورت ہندستان کی خوب صورت تاریخ کے تحفظ کی اہمیت و قابلیت ہے؟

اللہ رب العزت سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے عزم وارادے میں بلندی اور استقامت عطا کرے، آمین!

میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے میری معروضات اور بکھرے ہوئے خیالات کو توجہ اور سنجیدگی سے سنا۔ آپ سے میری استدعا ہے کہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنی دینی، ملی، انفرادی، اجتماعی اور تعلیمی حالت سدھارنے میں لگائیں اور ملک کی ترقی و سالمیت کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں میں خلوص عطا فرمائے،آمین!

(ہفت روزہ الجمعیۃ،24-30/جولائی 1998ء)

24 Jan 2022

گاندھی جی اور جمعیت علمائے ہند

 

گاندھی جی اور جمعیت علمائے ہند

محمد یاسین جہازی

موہن داس کرم چند گاندھی، 1918کی سیاسی فضا پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور عدم تشدد کے نظریہ سے ہر کسی کے دل میں اپنا مقام بنالیا تھا۔ گاندھی جی تحریک سول نافرمانی کے ذریعہ انگریزوں کودیس نکالا دینا چاہتے تھے، جو مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے بغیر ناممکن تھی، اس لیے گاندھی جی نے مسلمانوں کی تحریک خلافت  کی بلا شرط تائید و حمایت کی، جس سے پورے ہندستان میں ہندو مسلم اتحاد عروج پر پہنچ گیا۔

”23/ نومبر 1919کو خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس دلی میں ہوا تھا۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس لکھنو کے بعد وزیر اعظم برطانیہ لائڈ جارج نے لارڈ میر کی دعوت میں ایک دل خراش تقریر کی، جس سے یہ انداز ہ ہوا کہ وزیر اعظم سلطنت برطانیہ اب اپنے اور حکومت برطانیہ کے وعدوں سے انحراف کرنے والے ہیں۔ اس تقریر نے مسلمانوں میں بہت جوش بھر دیا اور فورا 23/ نومبر 1919کو خلافت کانفرنس کا ایک جلسہ دلی میں بڑی دھوم دھام سے مسٹر فضل الحق (بنگال) کی صدارت میں منعقد ہوا۔ مہاتما گاندھی بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ ان کے خیر مقدم کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔“ (تحریک خلافت، ص/102)

نون کو اپریشن کا ریزولیوشن آل انڈیا خلافت کانفرنس میں پاس ہوا تھا۔ اِس کانفرنس میں مہاتما گاندھی کے علاوہ سب مسلمان تھے۔ جن میں علما بھی تھے۔ مولانا عبدالباری صاحب کی رائے بھی حاصل کی گئی تھی اور نہایت غور و بحث کے بعد یہ تجویز پاس ہوئی تھی۔“ (خطبہ استقبالیہ دوسرا اجلاس عام جمعیت علمائے ہند، منعقدہ 19، 20، و21/ نومبر1920ء بمقام دہلی)

 23/ نومبر 1919کو منعقد اسی خلافت کانفرنس سے فراغت کے بعد بعد نماز عشا جمعیت علمائے ہند کی تشکیل عمل میں آئی۔

 گاندھی جی نے پہلی مرتبہ پبلک پلیٹ فارم سے 23/ مارچ 1920ء کو میرٹھ میں ہورہی خلافت کانفرنس میں اس نظریہ کو پیش کیا۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ

ہمیں حکومت کی تائید کرنے اور تقویت پہنچانے سے ہر طرح پرہیز کرنا چاہیے۔ یہی طریقہ حکومت کو آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ ہم سے معاملہ کرے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ تمام سرکاری خطابات واپس کردیے جائیں۔ عدالتوں اور درس گاہوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہندستانی سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیں اور جو نئے قانون ساز ادارے بننے والے ہیں، ان میں ہر طرح سے حصہ لینے سے انکار کریں۔“ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/ 103)

جمعیت اور ترک موالات کا فتویٰ

نان کو آپریشن یعنی ترک موالات نے جہاں ہند و مسلم کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، وہیں انگریزوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ثابت ہوئی، اس لیے جمعیت علمائے ہند نے اس فضا کو برقرار رکھنے کے لیے اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر اس سے جوڑنے کے لیے ترک موالات کا فتویٰ دیا۔

”6/ستمبر(1920ء) کو جمعیت علما کا ایک اجلاس کلکتہ میں زیر صدارت مولانا تاج محمود صاحب سندھی (امروٹی) منعقد ہوا، اور8/ ستمبر1920ء کو پانچ سو علما کے دستخط سے ترک موالات کا فتویٰ شائع ہوا۔ یہ فتویٰ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب نائب امیر شریعت بہار نے تحریر فرمایا تھا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/152۔ تحریک خلافت، ص/161)

اس اجلاس میں ترک موالات کے حوالے سے درج ذیل تجویز پاس کی گئی:

جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ چوں کہ ٹرکی کے ساتھ صلح کرنے میں دول یورپ نے صریح طور پر نا انصافی کی اور اسلامی جذبات کو پامال کیا ہے، اور وزرائے برطانیہ نے اپنے صاف و صریح وعدوں کی ا علانیہ خلاف ورزی کی ہے اور خلافت کے اقتدار کو زائل کرنے اور خلیفۃ المسلمین کی مذہبی طاقت کی بیخ کنی کرنے میں اسلام کے ساتھ صریح طور پر مذہبی تعصب کا ثبوت دیا ہے، اس لیے مسلمانوں پر بحیثیت متبع اسلام ہونے کے لازم ہوگیا ہے کہ وہ ان اعدائے اسلام سے ترک موالات کریں۔

محرک: مولانا ابوالکلام آزاد۔مؤید: مولانا عبد الصمد صاحب مقتدری بدایونی۔ مولانا مظہر الدین صاحب۔ مولانا عبد القیوم، عرف نور احمد صاحب۔“ (متفقہ فتویٰ علمائے ہند، ص/14)

اس کے بعدجمعیت کے دوسرے اجلاس عام منعقدہ 19، 20، و21/ نومبر1920ء  کے علاوہ مختلف اجلاس اور پروگراموں میں اس کا اعادہ کیا گیا۔ 

 گاندھی جی،نہرو رپورٹ اور جمعیت

جمعیت علمائے ہند کے نقطہ نظر سے سول نافرمانی کی تحریک مکمل آزادی کے حصول پر مبنی تھی، لیکن سائمن کمیشن کے چیلنج کے جواب میں نہرو رپورٹ پیش کی گئی، جس میں مکمل آزادی کے بجائے ہندستان کو درجہ نو آبادیات دینے کی وکالت کی گئی تھی۔ اس میں سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ کانگریس کے ساتھ ساتھ گاندھی جی نے بھی اس رپورٹ کی تمام تجاویز منظور کرلیں۔

 5/ نومبر1928 کو آل انڈیا کانگریس نے اپنے کلکتہ کے اجلاس میں نہرو رپورٹ کی تمام تجاویز منظور کرتے ہوئے کہا کہ ”موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر کانگریس اس دستور اساسی کو قابل قبول سمجھتی ہے بشرطیکہ 31/ دسمبر1929تک برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ اسے منظور کرلے اور اس کو منظور نہ کرنے کی صورت میں کانگریس پر امن عدم تعاون کی مہم شروع کردے گی اور لوگوں کو مالیہ اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا مشورہ دے گی“۔ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، جلد دوم، ص/ 444)

 اس رپورٹ نے مسلمانوں میں متعدد خدشات کو جنم دیا، جس کے پیش نظر اس کے جائزہ کے لیے 28/ اگست 1928کو جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیااور رپورٹ پر مفصل تبصرہ کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے ”تنقید و تبصرہ“ کے نام سے اپنی مفصل رپورٹ پیش کی۔جس میں جمعیت نے نہرو رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا۔ بعد ازاں جب آخری مدت تک انگریزی حکومت نے کوئی ریسپانس نہیں دیا، تو ایک سال بعد کانگریس نے بھی 31دسمبر1929کواپنے  اجلاس لاہور کے اختتام پراس رپورٹ کو دریائے راوی میں بہا دیا اور مکمل آزادی کی تجویز پاس کی۔اگر روزل اول ہی کانگریس اور گاندھی جی جمعیت کی بات مان لیتے،تو آزادی کی تحریک کا ایک سال ضائع ہونے سے بچ جاتا۔

 گاندھی جی اورجمعیت کا دائرہ حربیہ

نہرو رپورٹ کو دریا برد کرنے کے بعد مکمل آزادی کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے  گاندھی جی نے ڈانڈی مارچ یا نمک مارچ کے ذریعہ سول نافرمانی،یا ترک موالات، یا عدم تعاون یعنی (Civil Disobedience) تحریک کا آغاز 12مارچ 1930کو کیا۔ چنانچہ جمعیت نے بھی عملی اقدام اٹھاتے ہوئے اپریل 1930میں دائرہ حربیہ قائم کیا اور اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ اس تحریک میں اتنی شدت آگئی کہ بالآخر حکومت کو جھکنا پڑا اور اسے روکنے کے لیے گاندھی ارون مفاہمت کرنی پڑی۔یہ مفاہمت5مارچ1931کوہوئی، جس کی وجہ سے عارضی طور پر دائرہ حربیہ کی سرگرمیوں کو موقوف کردیا گیا،لیکن حکومت نے وعدہ خلافی کی تو جمعیت علمائے ہند نے 29فروری 1932سے دوبارہ پوری قوت و شدت کے ساتھدائرہ حربیہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا اور حکومت کو جھکنے پر مجبور کیا۔

گاندھی جی اور مسودہ تحفظ حقوق مسلم

ہندستان کے مجوزہ دستور اساسی میں مسلمانوں کے پرسنل لاء کے تحفظ کے لیے جمعیت علمائے ہند کی تشکیل کردہ ایک کمیٹی نے ایک فارمولہ تیار کیا اور 23 مارچ 1931کو گاندھی جی کے پاس بھیج دیا۔

دہلی25مارچ۔ معلوم ہوا ہے کہ 23مارچ کو جمعیت علمائے ہند کے سربرآوردہ ارکان گاندھی جی سے تنہائی میں ملے اور دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ کن کن مسائل پر گفتگو ہوئی اس کی تفصیل معلوم نہ ہوسکی؛ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی امور اور پرسنل لاء کے تحفظات پر گفتگو ہوئی۔ بعد کی اطلاع سے ظاہر ہوتا ہے کہ گاندھی جی نے جمعیت علمائے ہند سے مذہبی تحفظات کی تحریری یادداشت طلب کی تھی، جس کو صدر جمعیت علمائے ہند نے گاندھی جی کے پاس بھیج دیا، جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئندہ دستور اساسی میں کوئی ایسی دفعہ ہونی چاہیے جس کا مفہوم یہ ہو کہ مسلمانوں کے تمام پرسنل لاء حسب قوانین اسلام نافذ رہیں گے اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اور یہ کہ مسلمانوں کی مذہبی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جن مقدمات میں مسلم حاکم کا ہونا ضروری ہے، ان کے انفصال کے لیے قاضیوں کا تقرر ہوگا۔ جمعیت علمائے ہند کے اس مطالبہ کو تمام مسلمانوں کے تمام گروہوں کی تائید حاصل ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ ہندو اور دوسری اقوام پر چوں کہ اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، اس لیے وہ اس کو منظور کرلیں گے۔ (دہلی انفارمیشن بیورو)۔“ (الجمعیۃ28مارچ1931(

جمعیت کے دسویں اجلاس عام میں گاندھی جی کی تقریر

جمعیت علمائے ہند کا دسواں اجلاس عام کراچی میں ہوا۔ یکم اپریل 1931کی نشست میں گاندھی جی نے شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔ گاندھی جی کے خطاب کے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں:

”کراچی ۲/ اپریل۔ جمعیت علمائے ہند کے سالانہ اجلاس کراچی میں گذشتہ شام گاندھی جی نے اپنی تقریر میں آگرہ، بنارس، مرزا پور، کانپور وغیرہ کے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان شہروں میں ہندو مسلمان دشمنوں کی طرح ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں کسی فرقہ پر الزام عائد نہیں کرسکتا؛ لیکن اخبارات کی اطلاعات سے جو کچھ معلوم ہوا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانپور میں شرارت ہندووں کی طرف سے شروع ہوئی۔ جبریہ ہڑتال کرانا میرے خیال میں گناہ عظیم ہے۔ آپ نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ فسادات کی تحقیقات کے لیے کانگریس نے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی ہے، جو بہت جلد اپنا کام شروع کرنے والی ہے۔

میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بحیثیت ایک ہندو کے میں اپنے ہم مذہبوں کے اس فعل پر بہت شرمندہ ہوں۔ اگر دونوں فرقوں میں سے ایک بھی پوری طرح رواداری سے کام لے، تو فرقہ وارانہ فسادات ہمیشہ کے لیے معدوم ہوسکتے ہیں۔ میں اسلام کے فاضل علما سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے اثر کو کام میں لاکر مسلمانوں کے دلوں سے فسادات کے زہریلے اثرات کو زائل کریں اور باہمی اتحاد اور رواداری کا سبق دیں۔ میں ہندووں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ گھونسے کا جواب مکے سے نہ دیں؛ بلکہ اگر مسلمان کسی غلطی کا ارتکاب بھی کریں، تو ان سے برادرانہ سلوک کریں۔

ہندو مسلم اتحاد اور سوراج

آپ نے فرمایا کہ ہندو مسلم اتحاد ہی سے حاصل ہوسکتا ہے اور جب تک کہ فرقہ وارانہ مسئلہ کی گتھی نہ سلجھ جائے، گول میز کانفرنس میں شرکت کرنا بیکار ہوگا۔

صوبہ سرحد کے باشندوں کی شان دار خدمات کا اعتراف

اس سلسلہ میں آپ نے صوبہ سرحد کے باشندوں کی شان دار خدمات کا اعتراف کیا اور کہا کہ انھوں نے عدم تشدد کے اصول پر پوری طرح عمل کیا ہے اور علما سے درخواست کی کہ وہ دعا کریں کہ خدا مجھے ہندو مسلم حقوق کے تصفیہ میں کامیابی عطا فرمائے، جس کے لیے میں کل دہلی جارہا ہوں۔

اصولی حقوق کے متعلق کانگریس کا بیان

اصولی حقو ق کے متعلق شائع شدہ بیان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہم محصول سوراج کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہ سوراج غربا کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ میں آپ سب صاحبان سے جو یہاں موجود ہیں، درخواست کرتا ہوں کہ آپ کانگریس کے ساتھ اشتراک عمل کرکے سوراج کے حاصل کرنے میں کانگریس کی مدد کریں۔

سندھ کی علاحدگی کا مسئلہ

 میں جس دن سے کراچی آیا ہوں، ہندووں کی طرف سے مسلسل زور دار تار موصول ہورہے ہیں، جس میں مجھ سے سندھ کی علاحدگی کی مخالفت کرنی کی درخواست کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فرقوں میں کشیدگی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندووں کا خیال ہے کہ اگر سندھ ایک علاحدہ صوبہ بنادیا گیا، تو مسلمان انھیں ہڑپ جائیں گے۔ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ مسلمان ہندووں کا اعتماد حاصل کریں اور انھیں بتادیں کہ سندھ کی علاحدگی سے ان کی جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ میں ہندووں سے اپیل کروں گا کہ وہ بزدل نہ بنیں اور اپنے مسلمان بھائیوں پر اعتماد کریں۔ ہندووں کے دلوں سے خوف نکال کر اور آپس میں اتحاد پیدا کرکے ہر دو اقوام کو چاہیے کہ وہ علاحدگی سندھ کا متفقہ مطالبہ کریں اور پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے مسترد نہیں کرسکتی۔

کھدر پہننے کی اپیل

آخر میں آپ نے مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ کھدر پہنیں اور روزانہ سوت کاتیں۔ کھدر کے استعمال میں فرقہ پرستی حائل نہیں ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سوت کاتنے والوں میں سب سے بڑی تعداد مسلمان عورتوں کی ہے، جو کہ کھدر بنانے میں بڑی امداد کر رہی ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان بجائے اپنے ہندو بھائیوں کے، جو انھیں کا گوشت پوست ہیں، لنکاشائر والوں کو فائدہ پہنچائیں۔ مسلمانوں کو حضرت عمر ؓسے سادگی کا سبق لینا چاہیے۔ مجھے تعجب ہے کہ اس حالت میں جب کہ ملک غربت و افلاس میں مبتلا ہے، مسلمان فضول خرچی کی آفت میں مبتلا ہیں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ  ۹/ اپریل 1931)

اردو کے حوالے سے گاندھی جی کے رویہ پر اظہار افسوس

ہندستانی ادبیات کے متعلق 24و 25اپریل1936کو ناگپور میں کئی اجلاس منعقد ہوئے، جس میں اردو کے مقابلہ میں ہندی زبان کو اولیت دینے کی وکالت کی گئی۔ اس کا افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ کانگریس کے دیگر متعصب لیڈروں کی حمایت کرتے ہوئے گاندھی جی نے بھی اس کی تائید کردی، جس پر جمعیت نے گاندھی جی کے رویہ پر افسوس کا اظہار کیا۔

”اور ہم سمجھتے ہیں کہ ناگپور میں قوم پرور ہندو رہنماوں کی طرف سے یہ کھلم کھلا متعصبانہ کارروائی آئندہ قومیت کی تعمیر و تشکیل کے لیے کچھ خوش آئند ثابت نہیں ہوگی؛ بلکہ اور زیادہ پیچیدگیاں اور خرابیاں پیدا کردے گی۔ گاندھی جی ہندی بھاشا کو ہندستان کی زبان بنانے کے لیے جو سعی کر رہے ہیں وہ بے انتہا خطرناک ہے اور اس سے ہندستان کی دو سب سے بڑی قوموں کے درمیان سخت کشمکش پیدا ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے۔…… اور ہمیں حیرت ہے کہ قومی زبان کے موضوع پر اردو کے خلاف گاندھی جی یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ وہ قرآن کے حروف میں لکھے جانے کی وجہ سے ملکی زبان بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی،تو پھر ایک معمولی سمجھ کے ہندو کی ذہنیت اس معاملہ میں کیا ہوگی۔ گاندھی جی،  پنڈت جواہر لال نہرو اور بابو راجندر پرشاد کی شخصیتیں کانگریس جیسی حریت پرور ایثار پیشہ جماعت کے اندر چوٹی کی شخصیتیں ہیں اور ان کا کسی ایسی خالص فرقہ وارانہ تحریک میں شامل ہونا اور اس کو چلانا یقینا بہت زیادہ افسوس ناک ہے۔

 گاندھی جی خواہ پہلے زبان کے معاملہ میں کتنے ہی ہندی پرست کیوں نہ رہے ہوں؛ مگر جب سے انھوں نے ہندستان کی قومی سیاسیات میں قدم رکھا اور یہاں کی قوموں کا مشترک نظریہ ان کے سامنے آیا، انھوں نے قومی زبان کے لیے ہندستانی لفظ کا استعمال کرنا شروع کردیا۔ اور جب کبھی کسی نے اردو کا ذکر کیا، تو انھوں نے یہی کہا کہ ہندستانی کا لفظ اردو اور ہندی دونوں کو شامل ہے اور اسے وہ زبان مقصود ہے جو عموما بولی جاتی ہے۔ مگر اب ایک عرصہ کے بعد گاندھی جی پھر ہندستانی کو چھوڑ کر ہندی کا لفظ اختیار کر رہے ہیں اور اردو کے ساتھ ہندی کا تقابل ان کی سرپرستی میں شروع ہورہا ہے۔ ملکی سیاسیات کے لیے موجودہ مرحلہ پر یہ ایک مہلک قدم ہے جس کی غلطی کا انھیں جلد احساس ہوجائے گا۔ اور اگر انھوں نے محسوس نہ کیا تو آئندہ نسل اس کو تجربہ اور مشاہدہ سے سمجھ لے گی۔“ (الجمعیۃ یکم جون 1936)

گاندھی جی سے ارکان جمعیت کی گفتگو

”بعض ذمہ دار کانگریسی لیڈروں کے ان بیانات کے خلاف جمعیت نے بھی نوٹس لیا اور 17مارچ 1937کو حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحب سیوہاروی اور حضرت مولانا بشیر احمد صاحب کٹھوری ارکان مجلس عاملہ جمعیت علمائے نے گاندھی جی سے ملاقات کرکے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ اسی طرح ارکان جمعیت نے یہ بھی مطالبہ رکھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے سیاسی پیچدگیوں اور سیاسی مفاہمت کے نظریوں سے جدا ایک ایسا ادارہ قائم کردیں، جس کا نصب العین صرف ہندستانی جماعتوں میں مدنی خوشگوار ی پیدا کرنا، فسادات کا سد باب کرنا، زندگی کے تمام پہلووں میں رواداری پھیلانے کی سعی کرنا ہو۔گاندھی نے دونوں مسئلوں کے متعلق فراخ دلی کے ساتھ تبادلہ خیالات کیے اور دونوں پہلووں پر عملی اقدامات کرنے کی بات کہی۔“(الجمعیۃ 20مارچ 1937)

انگریزو! بھارت چھوڑ دو تحریک،گاندھی جی اور جمعیت

کانگریس نے 8/ اگست 1942کو  انگریزو! بھارت چھوڑ دو تحریک کا عملی طور پر آغاز کیا۔جمعیت علمائے ہند نے بھی  17/18/ اگست1942ء کو شانہ بشانہ اس تحریک میں حصہ لینے کا اعلان کیا، جس سے پورے ہندستان میں بھونچال آگیا۔ تحریک شروع ہوتے ہی جہاں کانگریس کے بڑے لیڈران گرفتار کرلیے گئے، وہیں جمعیت علمائے ہند کے رہنماوں کو بھی پابند سلاسل کردیا گیا، جس میں شیخ الاسلامؒ، مجاہد ملتؒ اور سحبان الہندؒ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ اس گرفتاری کیبعد گاندھی جی نے وائسرائے لن لتھ گو سے خط و کتابت کی،لیکن وائسرائے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، جس سے مجبور ہوکر گاندھی جی نے برت رکھنے کا فیصلہ کیا۔ گاندھی جی کے صحت کے پیش نظرجہاں عوام الناس نے اس برت کی مخالفت کی، وہیں جمعیت نے نہ صرف اس کی مخالفت کی؛ بلکہ باقاعدہ اس احتجاج کی قیادت کی۔

”گاندھی جی نے گرفتاری کے بعد وائسرائے سے خط و کتابت شروع کی، جو فروری 1943تک جاری رہی۔ مگر وائسرائے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بالآخر گاندھی جی نے اکیس روز کا برت رکھا جو 10فروری (1943) سے شروع ہوکر ۳/ مارچ 1943کو ختم ہوا۔ دہلی میں اس موقع پر ایک صلح کانفرنس کا انتظام کیا گیا، جس میں گاندھی جی کے اس برت پر احتجاج بھی کیا گیا۔ حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ چوں کہ اس کی قیادت فرمارہے تھے، لہذا مولانا موصوف کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔“ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، جلد، دوم، ص/ 162)

سنٹرل ریلیف کمیٹی جمعیت علمائے ہند کے وفد کا گاندھی جی سے ملاقات

جمعیت علمائے ہند اور دیگر قوم پرور جماعتوں کی مشترکہ کوششوں سے ہندستان آزاد تو ہوگیا، لیکن کچھ لیڈروں کی غلط قیادت کی وجہ سے تقسیم کی بدقسمتی بھی مسلط ہوگئی، جس نے فرقہ وارانہ فسادات کا ایسا خونی سلسلہ شروع کردیا، جس سے انسانیت شرمسار ہوکر رہ گئی۔ ایسے خطرناک اور مہیب حالات میں خدام جمعیت نے انسانیت کی خدمت اور انھیں بسانے کا بیڑا اٹھایا۔ بالخصوص لٹے پٹے مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، جس کے لیے قائدین جمعیت روزانہ گاندھی جی سے ملاقات کرتے تھے اور بالخصوص دہلی کے مسلمانوں کی داستان مظلومیت سے واقف کراتے تھے۔ چنانچہ گاندھی جی نے بھی ہندو مسلم اتحاد کو بحال کرنے اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے جان کی بازی لگادی اور جمعیت کی ہر رپورٹ پر ایکشن لیتے ہوئے امن و اتحاد کی فضا قائم کرنے میں سنہرے کردار ادا کیے۔ اس سلسلے کے چند شواہد درج ذیل ہیں:

”دہلی۔ 24دسمبر۔ چند روز سے دہلی میں تالے توڑنے، دوکانوں اور مکانوں پر زبردستی قبضہ کرنے، لوٹ ماراور خنجر زنی کی وارداتیں ہونے لگی تھیں، جس سے دہلی کے مسلمانوں میں بے چینی اور پریشانی پیدا ہونے لگی تھی۔ چنانچہ سنٹرل ریلیف کمیٹی جمعیت علمائے ہند کا ایک وفد اس سلسلہ میں گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملا۔ اور شہر کے حالات اور اہم انتظامی امور کے بارے میں ضروری گفت وشنید اور مشورے کیے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ 26/ دسمبر1947)

 دہلی۔25/ دسمبر۔ کل سنٹرل ریلیف کمیٹی جمعیت علمائے ہند کا ایک اہم وفد گاندھی سے ملا۔ اس میں حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ، حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحبؒ، مسٹر جعفری صاحب اور حافظ محمد نسیم صاحب بٹن والے شریک تھے۔ گاندھی جی سے گفتگو کے وقت حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل بھی موجود تھے۔

جمعیت علمائے ہند کے اس وفد نے مذکورہ حضرات سے اہم معاملات کے بارے میں گفتگو کی۔ کہاجاتا ہے کہ یہ گفتگو بہت امید افزا رہی۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 27/ دسمبر 1947)۔

”معلوم ہوا ہے کہ اس ملاقات میں مسلمانان دہلی کے امن و تحفظ کا بنیادی مسئلہ زیر بحث رہا اور گفتگو نتیجہ خیز ہوئی۔ اس ضمن میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مرکزی حکومت نے جدید قطعی فیصلہ کیا ہے کہ دہلی کی بھاری اکثریت والے مسلم حلقوں میں غیر مسلم ریفیوجی نہیں بسائے جائیں گے۔ اس فیصلہ کی باضابطہ اطلاعات حکام متعلقہ تک پہنچا دی گئی ہیں۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ اب ان کے متعلقہ افسر اور حکام بالادست مرکزی حکومت کی اس طے شدہ پالیسی پر عمل درآمد کرنے کے لیے اپنی پوری قوت سے کام لیں گے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ  29/ دسمبر1947)

آزاد کانفرنس لکھنو میں گاندھی جی کی تعریف

تقسیم ہند کے نتیجے میں ساڑھے چار کروڑ مسلمانوں کی حیثیت اقلیت میں تبدیل ہوجانے کی وجہ سے پیدا شدہ خطرات اور انڈین یونین میں مسلمانوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے 27-28دسمبر1947کو لکھنو میں امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی صدارت میں ایک عظیم الشان کانفرنس ہوئی، جسے  ”آزاد کانفرنس“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں کئی تجاویز پاس کی گئیں، جن کی ایک تجویز میں آزادی کے لیے اور بھارت میں جمہوری حکومت کے لیے گاندھی جی کی تعریف کی گئی۔

”یہ کانفرنس گاندھی جی اور ان تمام کانگریسی لیڈروں کی شان دار خدمات اور کوششوں کی معترف ہے، جنھوں نے انڈین یونین کے تمام باشندوں کے لیے مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے کام کیا ہے۔“  (روزنامہ الجمعیۃ، ۲/ جنوری 1948)

مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم عمومی جمعیت علمائے ہند نے اس تجویز کو پیش کرتے وقت اپنے خطاب میں گاندھی جی کا شکریہ ادا کیا۔

”تقریر ختم کرتے ہوئے مولانا حفظ الرحمان صاحب نے ایک مرتبہ پھر گاندھی جی کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر دہلی کی حالت سدھارنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ایک حدیث کا حوالہ دے کر کہا کہ جو شخص ایسے انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ خدا کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، ۲/ جنوری 1948) 

مسلم ریلیف کمیٹی کا گاندھی جی سے ملاقات

”دہلی ۴/ جنوری۔ آج صبح ۱۱/ بجے حضرت مولانا احمد سعید صاحب، مولانا حفظ الرحمان صاحب، حافظ نسیم صاحب، سید محمد صاحب جعفری، مسٹر سلطان یار خان صاحب ایڈوکیٹ وغیرہ اراکین سنٹرل مسلم ریلیف کمیٹی جمعیت علمائے ہند نے مہاتما گاندھی سے ملاقات کی اور دہلی کے حالات پر تفصیلی گفتگو کی۔ معلوم ہوا ہے کہ آج کی گفتگو کااہم موضوع یہ تھا کہ ”شرنارتھیوں“ کے لیے آبادی قائم کرنے کی تجویز پر جلد از جلد عمل کیا جائے۔

ہزاروں عورتیں اور بچے شدید سردی کی مصیبت برداشت کر رہے ہیں۔ ہر ایک ہمدرد انسانیت ان کی اس پریشانی سے تکلیف محسوس کر رہی ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اب تک حکومت نے ان کے آباد کرنے اور بسانے میں چستی سے کام نہیں لیا اور جبریہ قبضہ کی اخلاق سے گری ہوئی صورت جو شرنارتھیوں نے اختیار کی؛ اس نے عام طور پر بددلی پیدا کردی ہے۔ اگر یہ شرنارتھی جبر اور دہشت انگیزی کے بجائے رواداری اور اخلاق سے کام لیتے، تو یقینا وہ مسلمانوں کو اپنا بہترین ہمدرد اور مددگار پاتے۔ نامہ نگار۔“ (روزنامہ الجمعیۃ۷/ جنوری 1948)

اجمیر، دہلی کے حالات پر گاندھی جی سے ملاقات

”دہلی۔ ۲ / جنوری۔ معلوم ہوا ہے کہ آج جمعیت علمائے ہند کے معزز ارکان حضرت مولانا احمد سعید صاحب، مولانا حفظ الرحمان صاحب وغیرہ نے ۱۱ بجے کے قریب گاندھی جی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات آدھ گھنٹہ جاری رہی۔ اس ملاقات میں خاص طور سے اجمیر کے حالیہ فسادات اور دہلی میں قیام امن کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔ نامہ نگار“ (روزنامہ الجمعیۃ، ۴/ جنوری 1948) 

گاندھی جی کا مرن برت

بھارت کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات اور قتل و غارت کے بعد دہلی میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ دہشت پسند سکھوں اور ہندووں نے گویا یہ طے کر رکھا تھا کہ دہلی میں ایک مسلمان کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے، جسے روکنے کے لیے گاندھی جی نے 12/ جنوری 1948کو مرن برت رکھنے کا اعلان کردیا۔

”12/ جنوری، نئی دہلی۔ گاندھی جی نے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن کو مطلع کیا کہ حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ حکومت کی کوئی تدبیر اکارگرہوتی نظر نہیں آتی۔ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ میں مرن برت رکھنے جارہا ہوں۔ دہلی میں مکمل امن کے سوا کوئی چیز مجھے اس فیصلے سے نہیں روک سکتی۔“ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، جلدچہارم، ص/601)

ناظم عمومی جمعیت کے تاثرات

”دہلی۔ 12/ جنوری۔ آزاد ہندستان کے لیے یہ بہت ہی بڑا حادثہ ہے۔ حالات خواہ کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں، دنیا کی عظیم ترین شخصیت کی بقا کے لیے ہندو، مسلمان، سکھ، سب ہندستانیوں کا فرض ہے کہ وہ انتقامی جذبات کو پس پشت ڈال کر مہاتماجی کے مقصد کو کامیاب بنائیں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 15/ جنوری 1948)

گاندھی جی کے مرن برت پر جمعیت کے وفد کی ملاقات

”نئی دہلی۔ 14/ جنوری۔ ……اس کے بعد مسلمانوں کے ایک وفد نے گاندھی جی سے ملاقات کی۔ یہ وفد چھ ممبران پر مشتمل تھا۔اور اس کی قیادت مولانا احمد سعید صاحب اور مولانا حفظ الرحمان نے کی۔“ (روزنامہ الجمعیۃ 17/ جنوری 1948)

گاندھی جی کی برت کشائی

گاندھی جی نے برت کشائی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ جب تک سبھی فرقہ کے ذمہ داران دہلی میں امن و امان کے قیام کا اطمینان نہیں دلائیں گے، تب تک برت جاری رہے گا، چنانچہ سبھی فرقوں کی طرف سے اطمینان دلایا گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا حفظ الرحمان صاحب سیوہارویؒ نے یقین دہانی کرائی۔ برت کشائی کے لیے باقاعدہ 21/ جنوری 1948کو ایک جلسہ ہوا، جس میں مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم عمومی جمعیت علمائے ہند نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ

”گاندھی جی کے برت کے سلسلہ میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور فرقہ وارانہ امن و اتحاد کی فضا پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ چوں کہ حکومت کی طرف سے بھی یقین دلایا گیا ہے، اس لیے میں ڈاکٹر راجندر پرشاد کی اس اپیل کی تائید کرتا ہوں کہ گاندھی جی اپنا برت توڑ دیں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 21/ جنوری 1948) 

گاندھی جی سے آخری باتیں

”از حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند

بارہ بجے دوپہر کا وقت، جب میں،مولانا احمد سعید،مسٹر محمد جعفری اور حافظ محمد نسیم روزانہ معمول کے مطابق دنیا کی اس عظیم ترین شخصیت مہاتما گاندھی سے ملاقات کرنے گئے۔ گاندھی جی اس وقت دھوپ میں سو رہے تھے۔ تھوڑا انتظار کرنا پڑا۔ جب سوکر اٹھے، تو موہن لال گوتم اور پنڈت سندر لال جی بھی ہمارے ساتھ مہاتما جی کے پاس چلے۔

 گفتگو شروع ہوئی۔ اول گوتم جی نے ریاستی میواتیوں کو ضلع گوڑگاوں میں بسائے جانے کے متعلق گفتگو کی اور مہاتما جی نے اس سلسلہ میں ان کی حوصلہ افزائی کی اور یقین دلایا کہ میری تمام ہمدردیاں اور کوششیں تمھارے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد ہنس کر مجھ سے فرمایا:

”میں نے کہا تھا کہ مجھے ۳/ فروری کو سیوا گرام جاناہے۔ مگر میں تمھارا قیدی ہوں۔ جب تم اجازت دوگے، جاوں گا۔ تم نے آج جواب دینے کا وعدہ کیا تھا، بتلاؤ کیا کہتے ہو۔“

میں نے کہا: مہاتما جی! ہم سب نے مشورہ کرکے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آپ ضرور سیوا گرام تشریف لے جائیں۔ وہاں بھی ضروری کام ہیں۔ ہم سب بھی یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کے جانے کے بعد آپ کی پیدا کردہ صلح و آشتی کا اثر مضبوط اور پائیدار ہے یا نہیں۔ لیکن آپ کو اپنے وعدہ کے مطابق 14فروری کو ضرور واپس آجانا ہے۔

مہاتما جی نے ہنستے ہوئے فرمایا: ”ضرور14کو واپس آجاؤں گا، اگرکوئی آسمانی یا شیطانی حادثہ پیش نہ آجائے۔‘‘ہم سب نے کہا: خدا تعالیٰ آپ کو سلامت واپس لائے۔ ایسی ہنسی خوشی میں ہم سب رخصت ہوئے۔ آہ! کون جانتا تھا کہ دنیا کی اس بڑی شخصیت کے منھ سے نکلا ہوا یہ جملہ قدرت کے فیصلے کا اظہار ہے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 31/ جنوری 1948)

مہاتما گاندھی کا جمعیت کو مبارک ہدیہ

 30جنوری 1948کو جب جمعیت کا وفد گاندجی سے ملاقات کے بعد واپس آنے لگا تو گاندھی جی نے جمعیت علمائے ہند کو کلام اللہ شریف کو بطور ہدیہ پیش کیا۔

”…… تقریبا ایک بجے ملاقات ختم ہوئی۔ اور جمعیت علمائے ہند کے ارکان برلا ہاوس سے واپس ہونے لگے، تو پنڈت سندر لال صاحب پیچھے سے دوڑتے ہوئے پہنچے کہ مہاتما جی مولانا حفظ الرحمان صاحب کو یاد فرمارہے ہیں۔ جب مولانا موصوف مہاتما کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے، تو قرآن شریف مترجم، جو گاندھی جی کے مطالعہ میں تھا، مولانا حفظ الرحمان صاحب کو عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اس کو ساتھ لیتے جاؤ۔

اس واقعہ سے صرف چار گھنٹے بعد مہاتما گاندھی اس دار فانی سے رخصت ہوگئے، جس طرح وہ جملہ(آسمانی یا شیطانی حادثہ……) حیرت انگیز ہے، اسی طرح یہ فعل بھی تعجب خیز ہے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ 6/ فروری 1948)

گاندھی جی کی موت

21/ جنوری 1948کو باقاعدہ ایک جلسہ میں گاندھی جی کی برت کشائی کی گئی۔لیکن اس کے ۸ دن بعد 30جنوری 1948کو برلا ہاوس میں ناتھو رام گوڈسے نامی شخص نے گولی مارکر  آپ کوقتل کردیا۔

”پانچ بجے کے بعد حسب معمول گاندھی جی اپنے عبادتی جلسے میں جانے کے لیے کوٹھی سے نکلے، راستہ طے کیا۔ پھر چبوترے پر چڑھ کر اپنے تخت کی طرف جارہے تھے کہ حاضرین کی دو رویہ صف میں سے ایک نوجوان نکل کے سامنے آیا، دونوں ہاتھوں سے ڈنڈوت کیا، پھر چرن لینے کے لیے جھکا، جھکتے ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر بھرے ہوئے ریوالور کو سنبھالا اور سیدھا ہوا، تو دفعۃ فائر شروع کردیے۔ پہلی گولی نے سینے کی ہڈی توڑ دی، دوسری اور تیسری گولی پیٹ کو پار کرگئی۔ گاندھی جی زمین پر گر پڑے۔ چند منٹ بعد قفس عنصری سے روح پرواز کرگئی۔

قاتل گرفتار کرلیا گیا۔ قاتل نے اپنا نام ناتھو رام بتایا، ضلع پونہ کا رہنے والا اور پونہ ہندو مہا سبھا کا عہد ہ دار۔“ (شیخ الاسلامؒ کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/630)

جمعیت کا اظہار افسوس

جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کی تاریخ پہلے سے طے تھی، لیکن گاندھی جی کے حادثہ قتل کی وجہ سے یکم فروری تک ملتوی کردی گئی۔ یکم فروری کو مجلس عاملہ نے اپنی پہلی تجویز میں گاندھی جی کے حادثہ قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔ بعد ازاں 20-21مارچ 1948کو منعقد مجلس عاملہ میں اور پھر 26-27/ اپریل 1948کو منعقد پندرھویں اجلاس عام میں بھی اس تجویز کو دوہرایا۔ تجویز کا متن درج ذیل ہے:

”مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس مہاتما گاندھی کے دردانگیز حادثہ قتل پر اپنے انتہائی غم و اندوہ کا اظہار کرتا ہے۔

آپ نے تحریک آزادی کے لیے صداقت، صبر، ضبط وتحمل، پرامن سول نافرمانی اور عدم تشددکے بہترین اصول کے ذریعہ ایثار و خلوص کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہوکر تحریک آزادی کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا۔

آپ جمہوریت، مساوات اور ہندو مسلم اتحاد کے پرخلوص حامی تھے۔ آپ نے ان بلند مقاصد کے لیے بارہا جان کی بازی لگائی۔ اور انھیں مقاصد کی خاطر اپنی جان عزیز کوقربان دی۔

مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس آپ کی عظیم الشان بے نظیر تاریخی خدمات کا اعتراف کرتا ہے اور آپ کو پورے ہندستان کا بہت بڑا محسن تصور کرتا ہے۔ اور تمام جمہوریت پسند آزادی اور ترقی کے حامی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کرکے اس نازک ترین مسئلہ پر پوری سرگرمی اور اتحاد عمل کے ساتھ ہندستان کی صحیح جمہوریت اور ترقی کی منزل مقصود تک پہنچائیں اور جان کی بازی لگاکر مہاتما گاندھی کے مقاصد کو کامیاب کریں۔“

گاندھی جی کے حادثہ قتل پر اکابرین جمعیت کا اظہار رنج

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ صاحب کا پیغام

”گاندھی جی کے غم ناک حادثہ کی ناگہانی خبر وحشت اثر نے جو دل و دماغ پر تباہ کن کیفیت پیدا کی ہے، وہ حدود تحریر و تقریر سے باہر ہے؛ کیوں کہ یہ سانحہ معمولی سانحہ نہیں ہے اور نہ صرف ہندستان سے تعلق رکھتا ہے؛ بلکہ ایک نمونہ قیامت ہے، جس کا تمام انسانی دنیا سے تعلق ہے اور جو کہ تمام عالم کے امن و امان کو بھسم کرنے والا ہے، جس شخص کی بد باطنی اور جس پارٹی کی ناپاک سازش اس میں کام کرنے والی ہے، وہ دھرم اور مذہب کے بھی دشمن ہیں او رعقل و انسانیت اور دیس و ملک کے بھی۔

یقینا ایسے عظیم الشان مصائب کے وقت میں فطری طور پر شدت رنج و الم کی وجہ سے دل اور دماغ؛ بلکہ اعضا و جوارح بیکار اور معطل ہوجاتے ہیں؛ مگر میں اپنے تمام ہندستانی بھائیوں اور بالخصوص قومی لوگوں سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھیں اور صبر واستقلال کو ہرگز ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دیں؛ بلکہ مہاتما جی کی تعلیمات اور اصولوں پر بہ نسبت پہلے کے بہت قوت کے ساتھ عمل پیرا ہوکر مہاتما جی کو اور تمام ملک کو زندہ کردیں اور گوشہ گوشہ میں امن و صلح کا پیغام قول وعمل کے ذریعہ پہنچادیں، جس کی خاطر گاندھی جی نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔“(روزنامہ الجمعیۃ، 31/ جنوری 1948)

مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ؒکا پیغام

”گاندھی جی تیس سال کے میرے رفیق تھے، ان کی موت نے ایک سچے دوست کو مجھ سے جدا کردیا۔ خدا کرے، جو وہ چاہتے تھے، وہ پورا ہو۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، ۲/ فروری 1948)

مولانا نور الدین بہاری صاحب ؒرکن جمعیت علما کا بیان

”مہاتما گاندھی کی عظیم ترین شخصیت آج ہمارے ہاتھوں سے چھین لی گئی اور شیطانی ہاتھ نے اپنا آخری تیر چلا ہی دیا۔ قوم و وطن کے اس ہیرو کو کھودینے والے شیطان نے نہ صرف ہندستان کو؛ بلکہ دنیا کے امن و صلح کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عظیم الشان ہستی کے پیغام صلح و امن اور بھائی چارہ کو کہ جس کی خاطر اس نے اپنی جان کی بازی لگادی- پائدار بناکر اس زندہ جاوید کی طرح روشن کریں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 31/ جنوری 1948)

مولانا حفظ الرحمان صاحب سیوہاروی کا بیان

”جس بدبخت نے یہ فعل کیا ہے، اس نے دنیا کے امن کو چیلنج کیا ہے۔ دنیا کی یہ عظیم الشان شخصیت امن کی سب سے بڑی علم بردار تھی۔ ایسی شخصیت کے ساتھ یہ ناپاک حادثہ رہتی دنیا تک ان پر لعنت کرے گا۔ جنھوں نے اس خبیث فعل کو کیا اور کر رہا ہے، ہم ہندو، مسلمان، سکھ اور ہندستان کے سب باشندوں کا فرض ہے کہ گاندھی جی امن و صلح کے جس پیغام کا پرچار کر رہے تھے، اسے زندہ جاوید بنائیں اور شیطانی طاقتوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں۔ اس طرح گاندھی جی زندہ رہیں گے۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، 31/ جنوری 1948)

حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ کا بیان

”گاندھی جی سچائی اور صداقت کے پیکر تھے۔ وہ ہر انسان کے سچے ہمدرد تھے، ان کی انتھک کوششوں کا یہ نتیجہ تھا کہ اس ملک کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔ آزادی کے بعد انھوں نے اپنی ساری شکتی ہندو مسلم اور سکھ اتحاد میں لگادی تھی۔ ایسے محسن اعظم کو دنیا برسوں روئے گی۔ ہمیں ان کی رہ نمائی کی ابھی اشد ضرورت تھی۔ کاش وہ اور زندہ رہتے؛ لیکن افسوس ایک مدبر، مخلص اور بنی نوع انسان کے ہمدرد کو ان کی ناگہانی موت نے ہم سے چھین لیا۔“ (روزنامہ الجمعیۃ، ۲/ فروری 1948)

 جمعیت کا یوم ماتم کا اعلان

”دہلی۔ ۵/ فروری۔ مولانا حفظ الرحمان ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند نے حسب ذیل اپیل جاری کی ہے۔

مہاتما گاندھی جی نے کم و بیش چالیس سال متواتر جس طرح وطن عزیز کی خدمت انجام دی، وہ ملک اور باشندگان ملک کے حق میں احسانات کا ایک گراں قدر سلسلہ ہے۔ ہندستان کا کوئی بھی متنفس ان احسانات سے مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے انھیں احسانات اور ہر مذہب اور ہر فرقہ کے لیے مساویانہ اور مخلصانہ خدمات نے آپ کو پورے ہندستان کا محبوب اور واجب الاحترام رہنما بنادیا تھا۔

بدنصیبی سے آج وہ دن ہے کہ ہم آپ کے المناک حادثہ وفات پر ماتم کر رہے ہیں۔ مسلمانان ہندستان کو جو تعلق مہاتماگاندھی کے ساتھ رہا ہے، اس کے مظاہرہ کے لیے تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ 13/ فروری کو یوم ماتم منائیں۔

تمام ماتحت جمعیتوں اور تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں اس یوم کا پوری طرح اہتمام کریں۔

یوم ماتم کا پروگرام یہ ہوگا: 13فروری (1948) کو جمعہ کی نماز کے بعد کسی کھلے میدان میں پبلک میٹنگ کی جائے۔ اس جلسہ عام میں مہاتما گاندھی کے حالات زندگی، آپ کے اصول کار اور ہندو مسلم اتحاد کے عظیم الشان مقصد پر تقریریں کی جائیں، جس کے لیے مہاتما گاندھی نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ اور عہد کیا جائے کہ مہاتما جی کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ملک کی آزادی کو برقرار رکھیں گے۔ اس میں جمہوریت اور مساوات کا صحیح نقشہ قائم کرکے ترقی کی بلند ترین سطح پر پہنچائیں گے۔

تقریروں کے بعد تمام حاضرین کھڑے ہوکر مہاتما جی کے احترام میں دو منٹ کے وقفہ کے لیے خاموشی اختیار کریں۔“ (روزنامہ الجمعیۃ۸/ فروری 1948)

شیخ الاسلامؒ کا اظہار غم

پندرھویں اجلاس عام کے خطبہ صدارت میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ صدر جمعیت علمائے ہند نے گاندھی جی کے حادثہ قتل پر ان الفاظ میں ان کی خدمات کا اعتراف اور اپنے غم کا اظہار کیا:  

”مہاتما گاندھی کا حادثہئ قتل

اس خونی ہنگامہ کا سب سے زیادہ شرمناک اور سنگین واقعہ مہاتما گاندھی کا حادثہئ قتل ہے۔ گاندھی جی، تہذیب و انسانیت کے سچّے خادم اور ملک کے حقیقی خیر خواہ تھے۔ آپ نے اپنی تمام علمی اور عملی طاقت انسانوں کی خدمت، ملک کی آزادی اور پست اقوام کو قعر مذلت سے نکالنے کی جدوجہد میں صرف کی اور16/اگست 1946ء یعنی لیگ کے ڈائریکٹ ایکشن کی ابتدائی تاریخ کے بعد سے آپ کی تمام جدوجہد اور حیرت انگیز ایثار و فدائیت اس آگ کے بجھانے اور بربریت کے بحران کو فرو کرنے میں صرف ہوئی، جس کو فتنہ انگیز پوشیدہ طاقتوں کی طرف سے بھڑکایا اور اُبھارا جارہا تھا۔آپ نے نواکھالی پہنچ کر بگڑے ہوئے تعلّقات کو درست کیا۔ ظالم کے دل میں احساس ندامت پیدا کرکے مظلوم کی دستگیری اور امداد پر اس کو آمادہ کیا۔ مظلوم میں جذبہئ خود اعتمادی پیدا کیا۔ نواکھالی کے بعد آپ نے بہار پہنچ کر مظلوم مسلمانوں کی وہی امداد کی جونواکھالی میں مظلوم ہندوؤں کی کی تھی۔ پھر آپ پیکر امن بن کر کلکتہ پہنچے اور صرف چند روز قیام کرکے وہ نسخہ شفا عطا فرمایا کہ قتل و غارت کا ایک سالہ جنون دفعتاً ختم ہوگیا اور پریم و محبت نے عداوت و نفرت کی جگہ لے لی۔ کلکتہ کے بعد آپ دہلی پہنچے اور آپ کی راست بازی اور سچائی نے آپ کو مظلوموں کا پشت پناہ بنا دیا۔

گاندھی جی کو یقین تھا کہ فرقہ پرستی مہلک و با ہے، جو اگر باقی رہ گئی تو ملک کو دسیوں حصّوں میں تقسیم کردے گی اور وطن عزیز کی بلند پیشانی کو استعمار پسند طاقتوں کے آستانوں پر جھکادے گی۔ چنانچہ آپ نے پیرانہ سالی کی تمام کمزوریوں کے باوجود جواں مردی سے اس مہلک وبا کا مقابلہ کیا۔ انتہا یہ کہ اس مقابلہ میں اپنی گراں قدر جان کو، جو ملک کا بہترین سرمایہ تھی، قربان کردیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تقریباً تین ماہ سے ہم اپنے اس سچے رفیق اور دنیا کے عظیم ترین انسان کی رفاقت وقیادت سے محروم ہوچکے ہیں، مگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ گاندھی جی کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ آپ کی سچائی اپنی برقی طاقتوں کا آج بھی یہی مظاہرہ کررہی ہے اور مطالبہ کررہی ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کے تنازعات کو ختم کرنے اور متحدہ قومیت کو ترقی دینے میں جان کی بازی لگاکر اپنے ملک کو ترقی اور عروج کے بلند مقام پر پہنچائیں۔ گاندھی جی کا حادثہ، آزاد ہندستان کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے لیکن اطالوی اخبار ”یونٹا“ کے اس الزام کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کہ یہ سفّاکانہ واردات صرف ایک آدمی کی دیوانگی کا نتیجہ نہیں؛بلکہ اس میں برطانوی استعمار کا ہاتھ کار فرما ہے۔

ہندستان میں برطانوی خفیہ سروس کے آدمی موجود ہیں اور وہ اپنا کام کرنا جانتے ہیں۔ اس واردات میں یقینا ان کا ہاتھ ہے۔

عراق، مصر، فلسطین، موگاڈیشو، (اٹلی) کے مقتولین اور یہ مقتول مہاتما، سب کے سب جارج ششم کے تاج کے ہیرے ہیں۔ یہ سب کچھ اس سوشلسٹ کہلانے والے وزیر مسٹر بیون کی کارگزاریوں کا حسرت انگیز نتیجہ ہے۔ (انقلاب مورخہ ۵/فروری 1948ء بحوالہ ٹائمز لندن ۲/فروری) (خطبہ صدارت پندرھواں اجلاس عام منعقدہ 26-27/ اپریل 1948بمبئی)

مولانا محمود مدنی صاحب صدر جمعیت اور گاندھی جی

مولانا محمو داسعد مدنی صاحب صدر جمعیت علمائے ہند گاندھی جی کو بھارت کا تھامس کارلائل  (Thomas Carlyle)مانتے ہیں۔مولانا مدنی صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں

Gandhiji was, in many ways. the Indian equivalent of Thomas Carlyle who shook the prejudicial attitude of Jews and Christians towards Islam and Muslims through his 1840 lecture titled“The Hero as Prophet”, where he showered praise on Islam and called the Prophet genuine, compassionate and humane. It was Gandhiji’s commitment to communal harmony that led him to engage with great freedom fighters like Maulana Mahmood Hasan and Maulana Husain Ahmed Madani, among many other stalwarts of the Jamiat Ulema-e-Hind.

ترجمہ: گاندھی جی، مختلف جہات سے، ہندستان کے تھامس کارلائل کے ہم پلہ تھے، جس نے اپنے 1840 کے لیکچر بعنوان ''The Hero as Prophet'' میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں یہودیوں اور عیسائیوں کے متعصبانہ رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسلام کی تعریف کی اور پیغمبر اسلام ﷺ کو سچا، رحم دل اور کریم النفس قرار دیا۔ گاندھی جی کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نظریہ کی وجہ سے مولانا محمود حسنؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ اور جمعیت علمائے ہند کی دیگر بہت سی عظیم آزادی پسندشخصیات نے ان کاساتھ دیا۔

اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ

Gandhiji’s ethical concepts and moral universe are capable of dealing with the violent sectarian politics that is being unleashed today.

ترجمہ: گاندھی جی کے اخلاقی تصورات اور مثالی کردار آج کل چل رہی پرتشدد فرقہ وارانہ سیاست سے نمٹنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔

مضمون کے آخری پیراگراف میں رقم طراز ہیں کہ

We must face this onslaught with the moral force Gandhiji employed throughout his political career. Our fight must remain, under all circumstances, non-violent.

)The Indian Express, October 8, 2018, In Good Faith: Sarvodaya for polarised times. Written by Mahmood A. Madani.(

ترجمہ:ہمیں اس خطرناک حملے کا مقابلہ اخلاقی قوت کے ساتھ کرنا چاہیے جو گاندھی جی نے اپنے پورے سیاسی کیریئر میں استعمال کیا۔ ہماری لڑائی ہر حال میں تشدد سے پاک  رہنی چاہیے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بھارت کی آزادی کی تاریخ میں اور مذہب کی کثرت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے گاندھی جی کی زندگی، اخلاق اور نمایاں کردار قابل تقلید ہے۔ آج کچھ شدت پسند اور امن و آزادی کے دشمن لوگ گاندھی جی کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان کے قاتل کو پرنام کر رہے ہیں، ایسا صرف دماغی خلل سے متاثر اور امن کے دشمن لوگ ہی کرسکتے ہیں۔