خطبہ صدارت
از: حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ صدر جمعیت
علمائے ہند۔
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ و نؤمن بہ ونتوکل علیہ،
ونعوذباللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیات اعمالنا۔ من یہد اللہ فلا مضل لہ، ومن یضللہ
فلا ہادی لہ۔ ونشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ ونشہد أن سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ
صلی اللہ علیہ وعلی الٰہ وصحبہ اجمعین، و بارک وسلم اما بعد!
محترم حضرات، مہمانان ذی و قار! میرے لیے یہ امر
باعث فخر و امتیاز ہے کہ آپ نے اس خاکسار کو ایک ایسی مبارک تقریب کی صدارت کی ذمے
داری تفویض فرمائی ہے، جو جنگ آزادی کے عظیم مجاہد، ہندو مسلم اتحاد کے زبردست داعی
حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں منعقد ہوئی ہے اور
ان کی عظمت و کردار دینی، مذہبی، ملی اور قومی خدمات کے اعتراف میں ہفت روزنامہ ”الجمعیۃ“
نے جو تاریخی نوعیت کا حامل خصوصی نمبر شائع کیا تھا، اس کی اشاعت نو کی رسم اجرا عزت
مآب جناب ڈاکٹر شنکر دیال شر ما صاحب کے ہاتھوں ادا ہو گی۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ
علیہ کی ہمہ جہت شخصیت کی بلندی، جنگ آزادی کی جدو جہد کی قیمت،ملک وملت کے تعلق سے
ان کی خدمات و کارنامے اور اس حوالے سے اس خصوصی اشاعت کی جو اہمیت ہے، اس کو اجاگر
کرنے کے لیے اس دور کا حوالہ دوں گا، جس نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو ملک کی آزادی اور
بر طانوی سامراج کے خلاف جہاد کے لیے آمادہ و بے قرار کر دیا تھا۔ ہندستان کی آزادی
اور برطانوی سامراج کے خلاف مسلمانان ہند کی جدو جہدکے سلسلے میں سب سے پہلے نواب سراج
الدولہ کا نام قابل ذکر ہے، جو 1700ء سے 1756ء تک انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے۔ جنگ پلاسی
میں میر جعفر کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کو بنگال میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ اگر
اس واقعہ کو سامنے رکھیں، تو مسلمانوں کی برطانوی سامراج کے خلاف جدو جہد کا عرصہ کم
و بیش تین صدیوں کے برابر ہے۔ اس کا نقطہئ آغاز اٹھارھویں صدی کے پہلے نصف میں ہوا
تھا، جس وقت یورپ کے تاجر اپنے سامراج کی بنیاد ڈالنے میں ہر سازش اور حیلے سے کام
لے رہے تھے اور مغلیہ سلطنت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
1731ء میں شاہ ولی اللہ محدث
دہلویؒ نے مکہ معظمہ میں اپنے ضمیر کی آواز سنی کہ ملک وملت کی فلاح صرف اسی صورت میں
ہے کہ دور حاضر کے تمام نظام کی دھجیاں بکھیر دی جائیں اور ایک ہمہ گیر انقلاب برپا
کیا جائے۔ جب آپ اس مقدس سفر سے واپس ہوئے، تو آپ کا نصب العین سیاسی و سماجی زندگی
کے ہر ایک شعبہ میں ہمہ گیر انقلاب بن چکا تھا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے ضمیر نے ان کو مکہ
معظمہ میں علما ئے کرام کی جس ذمہ داری کا احساس دلایا تھا، وہ بالکل بر محل تھا۔ چنانچہ
4/ مئی 1799ء کو ملک وملت کی بقا اور آزادی کی خاطر انگریزی سامراج کا ی خاطر انگریزی
سامراج کا مقابلہ کرتے ہوئے سری رنگا پٹنم کے میدان کارزار میں سلطان ٹیپو شہید نے
جام شہادت نوش کیا، ان کے خون میں لتھڑے ہوئے جنازے کو دیکھ کر فاتح انگریز نے انتہائی
فخر و مسرت کے ساتھ اعلان کیا کہ”آج ہندستان ہمارا ہے“۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ انگریز
علمائے کرام کے جذبہئ حریت سے بہت خائف تھے؛ کیوں کہ ایسے سانچوں سے ان کے حوصلوں میں
پستی آنے کے بجائے ان کا جذبہئ جہاد اور زیادہ فروزاں ہو گیا اورانھوں نے ملک کو آزاد
کرانے کے لیے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔
علمائے کرام کی آزادی کی جدو جہد کا مرحلہ وار مطالعہ
کرنا ضروری ہے۔ علمائے کرام نے 1831ء سے 1915ء تک صرفچوراسی سال کی قلیل مدت میں تلوار
اور دست و بازو کا سہارا لے کر چار بار منظم مزاحمت کی۔ جب 1803ء میں دہلی کے تخت و
تاج کو کمزور کر کے سامراجی طاقت نے سازش سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کردی اور
اعلان کر دیا: ”خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا، حکم کمپنی بہادر کا“۔ اور یہ بات
زبان زد ہو گئی کہ حکومت شاہ عالم ازدہلی تا پالم۔ اس اعلان کے بعد امام حریت شاہ عبد
العزیز محدث دہلویؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا اور فرمایا کہ آج ہماراملک غلام ہو گیا ہے
اور غلامی کو مٹانا اور حصول آزادی کے لیے جدو جہد کرنا ہمارا فریضہ ہے۔
بذریعہئ اسلحہ ملک کو آزاد کرانے کے لیے علمائے
کرام کا پہلا اہم دور- جس کی قیادت سید احمد شہیدؒ نے کی- انھوں نے 1818ء سے 1831ء
تک ملک کے طول و عرض کا دورہ کیا اور چند سالوں کے اندر ملک میں ہر طرف آزادی کی آگ
لگادی۔ پھر 1824ء میں سرحد کے اطراف میں مورچہ لگا کر چھ سال تک پوری جواں مردی کے
ساتھ انگریزوں اور ان کے ہم نواؤں کے ساتھ ٹکر لیتے رہے۔ امیر علی خان اور جسونت راؤ
ہولکر کی فوجوں کے ساتھ مل کر 10/ جنوری1827ء کو مقبوضہ علاقے میں آزاد عارضی حکومت
حضرت سید احمد شہید کی امارت میں قائم ہوئی تھی۔
7/ مئی 1831ء کو بالا کوٹ
کے معرکہئ کارزار میں مولانا سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید دہلویؒ نے شہادت
کا رتبہئ بلند حاصل کیا۔ ان کی جماعت کے بقیہ مجاہدین 1871ء تک سرحدی علاقوں میں سر
بکف رہے۔ ان کے جذبہئ ایثار و قربانی نے ایوان اقتدار کو لرزہ براندام کر رکھا تھا۔
دوسری طرف اسی جماعت کے دیگر افراد پورے ملک میں بغاوت کی لہر پیدا کرنے میں مصروف
تھے۔ اس لہر کو طوفان اور اس چنگاری کو شعلہ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ دہلی کے
چونتیس علمائے کرام نے جہاد کا فتویٰ دے کر مجاہدین کے لیے راہ عمل متعین کر دی۔ ہر
طرف بغاوت کا سیلاب امنڈ نے لگا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی قیادت میں اکابر
علما:حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن
شہید اور ان کے رفقائے کار نے جرأت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاملی پر قبضہ کر
لیا۔
1857ء کی پہلی جنگ آزادی کی
تاریخ اگر مجاہدین کی سرفروشانہ جدو جہد کی روئداد ہے، تو اس کے ساتھ ساتھ برطانوی
سامراج کی سنگ د لانہ بربریت اور اس کے و حشیانہ مظالم کا ایسا گھناؤ ناریکارڈ ہے،
جسے پڑھ کر انسانیت شرم سے سر جھکا لیتی ہے۔
نواب محمود خان نے نجیب آباد سے
بڑھ کر پورے ضلع بجنور پر قبضہ کر لیا تھا۔ بد قسمتی سے سید احمد خان اور دوسرے لوگوں
نے انگریزوں کی مدد کی۔ انگریزوں کے دوبارہ قبضہ کے بعدپچیس پچیس کو قطار میں کھڑا
کر کے توپ داغ دیتے تھے۔ مظلومین کے چیتھڑے اڑ جاتے تھے۔ اس طرح ہزاروں کو قتل کیا
گیا۔ انگریزی فوج نے دیوبند جاتے ہوئے تین دیہاتوں کے سات یا نو افراد کو گولی مار
کر ہلاک کیا۔ دیوبند پہنچ کر انگریزوں نے پینتالیس شہریوں کو گرفتار کر کے ایک آم کے
درخت پر لٹکا کر سب کو پھانسی دے دی۔ بریلی میں جہاں حافظ رحمت خاں کے روہیلوں کی حکومت
تھی، روہیلوں نے بھی 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا اور بغاوت کی ناکامی کے بعد وہاں
بھی ہزارہا مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ لکھنو میں اودھ کے نوابوں کو ظلم و ستم کا نشانہ
بنایا گیا۔ حسن پور ضلع مراد آباد کے نواب کو زندہ جلا دیا گیا۔ پورے ملک میں لاکھوں
مسلمانوں کا قتل عام ہوا، جن میں رؤسا اور نوابین بھی شامل تھے۔ جنھوں نے ملک سے غداری
کی، ان کو ریاستیں ملیں اور وہ نواب بنائے گئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی جگہوں پر
وطن پرست غیر مسلموں کو بھی اسی طرح برباد کیا گیا؛ لیکن ایک عام تخمینے کے مطابق حب
الوطنی کی پاداش میں سزا اور نقصان اٹھانے والوں میں نوے فی صدی حصہ مسلمانوں کا تھا
اور دس فی صدی غیر مسلم برادران وطن تھے۔
1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی
کے بعد انگریز حاکموں کی نگاہوں میں سب سے زیادہ معتوب علما کی جماعت تھی، یہاں تک
کہ مولویت بغاوت کے ہم معنی قرار دے دی گئی تھی۔ ہر وہ شخص جو مولویانہ وضع رکھتا تھا،
وہ مشتبہ ہی نہیں؛ بلکہ مجرم سمجھا جاتا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے یہ حکم صادر
کر دیا گیا تھا کہ جو داڑھی اور لمبے کرتے والا ملے، اسے تختہئ دار پر چڑھا دیا جائے۔
چنانچہ پورے ملک میں پندرہ دنوں تک اسی طرح لوگوں کے قتل اور پھانسی کاسلسلہ جاری رہا۔تقریبا
دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے،جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علما تھے۔ ایک انگریز کی شہادت
ہے کہ صرف دہلی میں پانچ سو علمائے کرام کو تختہئ دار پر لٹکایا گیا۔ اس ظلم و تشدد
کے باوجود علمائے کرام کا جذبہئ حریت فنا نہیں ہوا اور انھوں نے کسی نہ کسی طرح ملک
کی آزادی کے لیے جد و جہد کا سلسلہ جاری رکھا۔1861ء سے1871ء تک انبالہ، راج محل اور
مالدہ میں پانچ بڑے سنگین مقدمے چلائے گئے، جن میں نام زد انیس افراد میں اکثر و بیشتر علما تھے۔ ان مقدمات
میں بلا استثنا سب کو پھانسی کی سزادی گئی، یا ساری عمر کے لیے کالے پانی بھیج دیا
گیا۔
معزز سامعین! آزادی کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ دین
کے تحفظ کی ضرورت بھی سامنے تھی۔ دین کے تحفظ اور آزادی کے مجاہدین کے نئے کارواں کی
سالاری کے لیے 30/مئی 1866ء کو مجاہدین1857 ء نے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بانیوں
میں مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حاجی عابد حسینؒ اور
ان کے رفقائے کار تھے۔ یہ مدرسہ صرف ایک درس گاہ ہی نہیں تھا؛ بلکہ ایک دیرپا اور دور
رس تحریک کا گہوارہ بھی تھا۔ اس مدرسے نے ہزاروں ایسے مجاہدین حریت کو میدان میں اتارا،
جنھوں نے تحریک آزادی میں آگے بڑھ کر حصہ لیا اور اس کے ساتھ ساتھ مسیحی مشنریوں کی
یلغار سے مسلمانوں کے عقائد اور کردار کی حفاظت بھی کی۔ یہ مقام شکر واطمینان ہے کہ
علوم اسلامیہ کی اس عالمی معیار کی درس گاہ نے نہ صرف ہندستان؛ بلکہ بیرون ہند کے ہزاروں
علمائے کرام کو اپنے دین متین کی خدمت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے حقوق کی مدافعت کے
لیے بھی سینہ سپر بنایا۔ دارالعلوم کے بانی یہ شعور رکھتے تھے کہ اسلامی عقائد و شعار
کی مدافعت کے لیے ملک کا بیرونی سامراجی طاقت سے آزاد ہو نا ضروری ہے، اس لیے اس درس
گاہ نے ملک کی آزادی کے لیے ہزاروں مجاہدین حریت کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔
جمعیت علما کے قیام سے قبل 1871ء میں شیخ الہند
مولانا محمود حسن دیوبندی ؒنے اپنے استاد مولانا قاسم نانوتوی کے مشورے سے ”ثمرۃ التربیہ“
کے نام سے مدرسہ کو چندہ دینے والوں کی ایک تنظیم قائم کی؛ لیکن اس انجمن کا مقصد صرف
چندہ جمع کرنا نہیں تھا؛ بلکہ اس میں شامل افراد کو ملک کی آزادی کی جد و جہد کے لیے
تیار کرنا تھا۔ یہ مشہور تحریک ریشمی رومال کی پہلی کڑی تھی۔ اس انجمن کے ابتدائی اراکین
انیس تھے، جو حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے شاگرد تھے۔
دار العلوم کے قیام کے اٹھارہ سال
بعد 1885ء میں آئینی اصلاحات کا مطالبہ لے کر انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں
آیا۔ ملک کی آزادی کے لیے ایک وسیع تر محاذکی تشکیل کے لیے علمائے کرام نے اس تنظیم
کا خیر مقدم کیا اور تین سال بعد 1888ء میں تین سو سے زائد علمائے کرام نے حصول آزادی
کے لیے کا نگریس میں شامل ہونے کا فتویٰ دیا،
جو”نصرت الابرار“ کے نام سے چھپتا رہا۔ علمائے کرام اپنے طور پر ملک کی آزادی
کے لیے منصوبوں کی تشکیل کے لیے مصروف تھے۔1909ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ
نے اس مقصد کے لیے ایک تنظیم ”جمعیۃ الانصار“ قائم کی، جس کے پہلے ناظم مولانا عبید
اللہ سندھیؒ منتخب ہوئے۔ تقریباً دو سال کی تیاری کے بعد اس تنظیم کا پہلا اجلاس مؤتمر
الانصار مراد آباد میں زیر صدارت مولانا احمد حسن امروہی ہوا۔ یہ تنظیم اس تحریک کا
حصہ تھی، جس نے انگریزی سامراج کو مٹانے کا منصوبہ بنایا تھا اور تیس برسوں سے خفیہ
کام کر رہی تھی۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے مسلسل چالیس برس خفیہ تیاری کے بعد1915ء
میں برطانوی سامراج کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا، اس کے تحت اندرون
ملک بغاوت اور بیرون ملک سے حملوں کا پروگرام تھا۔ اس کے لیے 19/ فروری 1917ء کی تاریخ
مقرر کی گئی تھی۔ جنگ کی تیاری کے لیے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیجا گیا تھا،
جو10/ اکتوبر 1915ء کو کابل پہنچے۔وہاں یکم دسمبر 915ء کو ہی آزاد حکومت ہند کا قیام
عمل میں آیا، جس کے صدر راجہ مہندر پرتاپ بنائے گئے۔ یہ فیصلہ علمائے کرام کے اپنے
ہم وطنوں کے لیے خلوص اور نیک نیتی کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ملک کو آزاد کرا کے صرف مسلمانوں
کی حکومت نہیں قائم کرنا چاہتے تھے؛ بلکہ اپنے ہم وطنوں کو ان کا جائز مقام دینا چاہتے
تھے۔ اس حکومت نے اپنے نمائندے ترکی، روس اور جاپان بھیجے۔ دوسری طرف خود مولانا محمود
حسن دیوبندی 18/ ستمبر 1915ء کو حجاز کے لیے روانہ ہو گئے اور وہاں آپ نے غالب پاشا
اور انور پاشا سے معاہدے کیے؛ مگر بد قسمتی سے تحریک کا راز فاش ہو گیا اور تحریک کے
دو سو تئیس ذمہ داروں کو ملک کے طول و عرض سے گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف بغاوت
کی سازش کے مقدمے دائر کیے گئے اور حضرت شیخ الہند اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد
مدنی اور ان کے رفقائے کرام کو حجاز سے گرفتار کر کے مالٹا زندان خانے میں ڈال دیا
گیا، جہاں سے 1920ء میں ان کی رہائی عمل میں آئی۔ یہ وہ تحریک ہے، جو ”ریشمی رومال“
تحریک کے نام سے معروف و مشہور ہے اور جس میں ملک کے تمام نام ور سیاسی لیڈر شریک تھے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر انصاری، مولانا آزاد، پیر غلام مجدد صاحب، خان عبد الغفار خان، مولانا
سیف الرحمان و غیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
معزز حاضرین! ریشمی رومال تحریک کی ناکامی سے علمائے
کرام مایوس اور بددل نہ ہوئے اور انھوں نے ملک کی آزادی کے لیے نیا طریقہئ کار اور
جد و جہد کا نیا پروگرام وضع کرنے کی فکر کی۔ ریشمی رومال تحریک کی ناکامی نے ان کو
یہ احساس دلایا تھا کہ ملک کی آزادی صرف بیرونی امداد کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ آئندہ
جد و جہد کے لیے انھوں نے اپنے ہم وطنوں کا اشتراک اور تعاون ملک کی آزادی کے کے لیے
ضروری سمجھا۔ 1888ء میں ملک کے مقتدر علمائے کرام حصول آزادی کے لیے کانگریس میں شمولیت
کی حمایت کرچکے تھے، اس لیے راہ ہموار ہو چکی تھی۔ علمائے ملت نے مشترک جدو جہد کے
اصول کو تسلیم کرنے اور کانگریس میں شریک ہونے کے ساتھ ایک ایسی جماعت کے وجود کو ضروری
سمجھا، جس کا نصب العین اسلامی عقائد، روایات اور نظام زندگی کا تحفظ ہو اور جو مشترک
جماعت کے لائحہئ عمل اور تجاویز دینی شعور کی روشنی میں غور و خوض کر کے مذہبی اصول
اور احکام کے بموجب مسلمانوں کی رہنمائی کرتی رہے اور ان کی قیادت اور امامت کے مذہبی
اور سیاسی فرائض انجام دیتی رہے۔چنانچہ نومبر 1919ء میں خلافت کا نفرنس کے موقع پر
انقلابی علمائے کرام نے ”جمعیت علمائے ہند“ کے نام سے ایک باضابطہ دستوری جماعت قائم
کی، جس کے پہلے صدر مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کا قیام علمائے
کرام کی انقلابی تحریک کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ اب مسلح انقلاب کی راہ ترک کر کے عدم
تشدد اور اہنساکا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس بار علمائے کرام کی دور اندیشی اور بصیرت
کارگر ثابت ہوئی اور اسی راہ عمل پر چل کر ملک آزادی کی منزل تک پہنچا۔
8/ جون1920ء کو شیخ الہند
مولانا محمود حسن تین برس سات مہینے کے بعد مالٹا سے بمبئی لاکر رہا کیے گئے۔ ان کے
ساتھ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عزیر گل اور مولانا وحید احمد بھی
مالٹاسے واپس آئے۔ ممبئی میں ان کا استقبال کرنے والوں میں ہزاروں عقیدت مندوں کے ساتھ
مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ اور گاندھی جی بھی موجود تھے۔ شیخ الہند اور ان کے رفقائے
کار کے وطن لوٹنے سے ملک کی تحریک آزادی میں ایک نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا ہوا۔
علمائے کرام نے مشترک لیڈر، مشترک پلیٹ فارم کو
مشترک تحریک کی بنیاد قرار دیا۔ مولانا شیخ الہند نے نوجوان بیرسٹرمسٹر موہن داس کرم
چند گاندھی کا نام مشترک لیڈر کی حیثیت سے پیش کیا اور جمعیت علمائے ہند کے اجلاس کے
صدر مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے اعلان کیا کہ مسٹر گاندھی کو”مہاتما گاندھی“ کے
نام سے پکارا جائے گا۔ علمائے کرام کے اس فیصلے کے مطابق برسوں تک گاندھی جی کے پورے
ملک کے دورے کی کفالت صرف مسلمانوں کے فنڈ سے ہوتی تھی۔
اور نہ صرف یہ؛ بلکہ علمائے کرام، مسلمانان ہنداور
جمعیت علمائے ہند نے ہر جگہ جد وجہد آزادی کے تابندہ نقوش چھوڑے ہیں۔ جمعیت علمائے
ہند، خلافت کمیٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے جلسے مشترک تاریخوں میں ایک شہر ایک میدان
میں ہوا کرتے تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے لیڈروں کے درمیان مشترک
مسائل اور موضوعات پر تبادلہئ خیال بھی اس روایت کا حصہ تھا۔
19/ جولائی1920ء کو شیخ الہند
مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے ترک موالات کا فتویٰ دیا، جس کو بعد میں ابوالمحاسن مولانا
محمد سجاد بہاریؒ نے مرتب کر کے جمعیت علمائے ہند کی طرف سے چار سو چوراسی علما کے
دستخطوں کے ساتھ شائع کیا۔
ترک موالات، یا حکومت برطانیہ سے عدم تعاون کی تحریک
31/اگست 1920ء سے شروع ہوئی، جو5/ فروری1922ء کو چورا چوری کے بھیانک واقعہ کے بعد
گاندھی جی کی تجویز کے مطابق بند کر دی گئی۔ اس تحریک میں تیس ہزار افراد جیل گئے،
جن میں زیادہ تعداد علمائے کرام اور مسلم مجاہدین حریت کی تھی۔
جمعیت علمائے ہند اس سے پہلے اپنے ساتویں اجلاس
منعقدہ 11تا 14/مارچ 1926ء میں بمقام کلکتہ زیر صدارت علامہ سیدسلیمان ندوی مکمل آزادی
کی تجویز منظور کر چکی تھی۔
1929ء میں گاندھی جی کے ڈانڈی
مارچ اور ان کی نمک سازی کی تحریک میں دس دیگر قومی کارکنوں کے ساتھ جمعیت علمائے ہند
کے اکابر: مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا حفظ الرحمانؒ، مولانا سید فخر الدینؒ، مولانا
سید محمد میاں ؒ اور مولانا بشیر احمد بھٹا وغیرہ بھی گرفتار ہوئے۔
1930ء کی سول نافرمانی تحریک
میں جمعیت علمائے ہندکے صدر مولانا مفتی کفایت اللہ اور ناظم اعلیٰ مولانا احمد سعید
دہلوی کو قانون تحفظ عامہ و بغاوت کے جرم میں گرفتار کر کے قید با مشقت کی سزادی گئی۔
1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم
شروع ہوئی، تو جمعیت علمائے ہند نے اعلان کیا کہ جنگ کے سلسلے میں ہم کسی طرح کا تعاون
نہیں کریں گے۔ جمعیت علمائے ہند نے فوج میں جبری بھرتی کی پر زور مخالفت کی۔1940ء کی
دوسری جنگ عظیم میں تعاون نہ دینے اور جبری بھرتی کی مخالفت کرنے کی وجہ سے جمعیت علمائے
ہند کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی،
مولانا شاہد میاں فاخری، مولانا احمد علی لاہوری اور متعدد علمائے کرام شامل تھے۔
موقر سا معین عظام!جس تاریخ ساز شخصیت حضرت شیخ
الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی یاد میں یہ تقریب سعید منعقد ہوئی ہے، اس نے وطن
کی آزادی اور ملک و ملت کی جو خدمات انجام دی ہیں، انھیں کوئی بھی انصاف پسند مؤرخ
نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہوش سنبھالتے ہی اپنی طاقت و استطاعت
کے مطابق انگریزوں کے خلاف تحریکوں میں شریک ہونے لگے تھے اور ان کے لیے ہر آنے والا
دن ایک نیا ولولہ اور جوش جہاد لے کر آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے دنوں میں ہم دیکھتے
ہیں کہ مشرق کی آزادی؛ خصوصا ہندستان کو انگریزوں کے پنجہئ استبداد سے آزاد کرانا آپ
کا ایک عظیم مقصد بن گیا۔ مدینہ منورہ کی تدریس حدیث پاک کے دوران حدیث کے رموز و معارف
کے ساتھ ساتھ طلبہ کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کے لیے بھی ابھارتے تھے۔
الجزائر میں استعماری طاقتوں کے
خلاف جدو جہد کرنے والے اولین مجاہدین اور سربراہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہی کے تلاندہ
تھے۔ محمود البشیرالابراہیمی، عبد الحمید بادیس کے اسمائے گرامی خاص طور سے قابل ذکر
ہیں۔ان دونوں کو الجزائر میں وہی حیثیت حاصل ہے، جو ہندستان میں گاندھی جی اور جواہر
لال نہرو کو حاصل ہے۔ ان دونوں نے 1931ء میں جمعیت علمائے الجزائر قائم کر کے اس کے
پلیٹ فارم سے آزادی وطن کے لیے جد و جہد شروع کی، جس میں دس لاکھ افراد شہید ہوئے،
جس کے نتیجے میں الجزائر کو آزادی نصیب ہوئی۔
معزز حاضرین! حضرت شیخ الاسلام
رحمۃ اللہ علیہ کی قیمتی زندگی کے گیارہ سال قید فرنگ میں گزرے۔ حضرت شیخ الہند مولانا
محمود حسن کے ساتھ مالٹا میں اسارت کے سال بھی شامل ہیں۔ آپ نے کراچی کی عدالت میں
جو جرأ ت مندانہ بیان دیا تھا، اسے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کر لیا ہے۔
8/جولائی 1921ء کو کراچی میں
خلافت اجلاس میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے پوری قوت کے ساتھ صاف لفظوں
میں یہ اعلان کیا:”حکومت برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے۔“ اس جرأت حق گوئی کی
پاداش میں کراچی کا مشہور مقدمہ چلا، جس میں آپ کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر، مولانا
شوکت علی، ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد، جگت گورو شنکر آچاریہ،کا کا کالیکر
رام داس کو دو دو سال قید با مشقت کی سزا ہوئی۔
8/ اگست ۱1921ء کو جمعیت علمائے ہند کا شائع کردہ ترک موالات کا فتویٰ ضبط کر لیا گیا؛
لیکن جمعیت علمائے ہند خلاف قانون اس فتویٰ کو بار بار شائع کرتی رہی۔
11/مارچ 1931ء کو جمعیت علمائے
ہند کے پہلے ڈکٹیٹر مفتی اعظم مولانا مفتی کفایت اللہ ایک لاکھ افراد کا جلوس لے کر
نکلے اور گر فتار کیے گئے۔ جمعیت علمائے ہند کے دوسرے(چھٹے) ڈکٹیٹر شیخ الاسلام مولانا
حسین احمد مدنی کو دیو بند سے دہلی آتے ہوئے راستے میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد
سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان، مولانا سید محمد
میاں اور مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی ڈکٹیٹر منتخب ہوتے رہے اور گرفتاریاں دیتے رہے۔
اس تحریک میں تقریبا تیس ہزار مسلمان گرفتار کیے گئے۔
1935ء میں حکومت ہند نے ایک
فار مولا پیش کیا تھا، جو مجلس عاملہ کی میٹنگ منعقدہ 31/اگست 1931ء میں مرتب و منظور ہوا تھا۔ یہ مدنی
فارمولہ کے نام سے معروف ہے۔ اگر اس فارمولہ کے مطابق دستور بنایا جاتا، تو بڑی حد
تک مسلمانوں کی مشکلات دور ہوجاتیں اور ملک کا بٹوارہ نہ ہوتا۔ بہر حال گورنمنٹ آف
انڈیا ایکٹ 1935ء کے ذریعے جو مراعات حاصل ہوئیں، وہ اسی فارمولے کے مطابق تھیں۔
ملک کی تحریک آزادی کی طاقت، وسعت
اور اس کے بڑھتے ہوئے اثر کے پیش نظر برطانوی حکمراں اسے کمزور کرنے کی سازشوں میں
پوری طرح مصروف تھے اور ان کی سازشوں کو اس بات سے تقویت مل رہی تھی کہ مسلم لیگ اور
ہندو مہا سبھا کی طرف سے مذہب پر مبنی قومیت کی تصورات پیش کیے جارہے تھے۔ شیخ الاسلام
مولانا سید حسین احمد مدنی نے اس سامر اجی سازش کا سنجیدگی اور گہرائی سے جائزہ لیا
اور برطانوی سامراج کے خلاف محاذ آرائی کے لیے بلا تفریق مذہب و ملت ہندستانیوں کے
لیے متحدہ قومیت کی وکالت کی اور اس کو قرآن وحدیث سے ثابت کیا۔ یہ انقلابی نظر یہ
آزاد ہند ستان کے سیکولر اور جمہوری آئین کا پیش رو کہا جا سکتا ہے۔
بچھر ایوں میں 23 تا 25/ پریل1942ء کو جمعیت علمائے
ہند کی کا نفرنس منعقد ہوئی، جس میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی تقریر
میں قوت کے ساتھ آزادی کے مسئلے کو اٹھایا۔ جس کی پاداش میں 24/ جون1942ء کو اس وقت
گرفتار کر لیا گیا، جب حضرت اتحاد کا نفرنس پنجاب میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ جب
4/جنوری 1943ء کو چھ مہینے کی سزا پوری ہو گئی، تو جیل ہی میں ڈیفنس آف انڈیارو لس
کی دفعہ 44 کا نوٹس تعمیل کرا کے غیر محدود عرصے کے لیے نظر بند کر دیا گیا۔26/ اگست
1944ء کو آپ نینی جیل الٰہ آباد سے بلا شرط رہا کر دیے گئے۔ ان کی نظر بندی کے دوران
5/ اگست 1942ء کو جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے چار مقتدر ارکان: مفتی مولانا
کفایت اللہ، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا
عبد الحلیم صدیقی کے دستخطوں سے ایک اخباری بیان جاری کیا گیا،جس میں کھلے لفظوں میں
کہا گیا تھا کہ:
”انگریزو! ہندستان چھوڑ دو“۔
اس کے بعد 8/ اگست 1942ء کو کانگریس
نے اپنے اجلاس بمبئی میں ”کوئٹ انڈیا“، یعنی ہندستان چھوڑو کی قرارداد پاس کی، جس کی
پاداش میں کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے رہنما اور ہزاروں کا رکن گرفتار ہوئے۔ ان
میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان، مولانا سید میاں،
مولانا نورالدین بہاری وغیرہ کے نام خاص طور قابل ذکر ہیں۔ شیخ الاسلام مولانا حسین
احمد مدنی پہلے ہی گرفتار ہو چکے تھے۔
جیلوں سے باہر آنے کے بعد علمائے
کرام کی دور بین نظروں نے مسلمانوں کے مستقبل پر تقسیم ہند کے مطالبے کے مضر اثرات
کو دیکھ لیا، اسی لیے جمعیت علمائے ہند نے قیام پاکستان کے مطالبے کی پوری قوت کے ساتھ
مخالفت شروع کی اور مسلم فرقہ پرستی کا انتہائی حوصلہ مندی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ
کیا اور ناعاقبت اندیش لوگوں کے ہاتھوں جمعیت علمائے ہند کے اکابر؛ بالخصوص مولانا
ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے رفقائے کار کو مسلم لیگیوں کی
چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنا پڑا؛ لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ہر طرح کے مصائب و آلام
کا جرأت و تحمل سے مقابلہ کیا اور ملک کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرا کر ہی دم لیا۔
اور جب ملک آزاد ہو گیا، تو انھوں نے اپنی جدو جہد کا کوئی صلہ نہیں طلب کیا؛ یہ تاریخ
میں نادر مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔
معزز حاضرین!تحریک آزادی کے اولین مجاہدین، جمعیت
علمائے ہند کے اکابر اور ان کے حامیوں کی عدیم المثال قربانیوں، حضرت شیخ الاسلام مولانا
سید حسین احمد مدنی کی ہمہ جہت شخصیت،تاریخ ساز خدمات و کارنامے، آزادی وطن میں جرأت
مندانہ جدو جہد اور روزنامہ الجمعیۃ کے تاریخی اہمیت کے حامل خصوصی نمبر کی اشاعت نو
وغیرہ کا ذکر کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہی وہ روشنی ہے، جس سے ملک وملت نے
روشنی حاصل کی ہے۔ اور یہی وہ نقوش ہیں، جن سے ہم اپنے مستقبل کی تصویر میں رنگ بھر
سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ نئی نسل کے سامنے ملک اور معماران
ملک کی صحیح تصویر و تاریخ رکھی جائے۔ اس کے بغیر فرقہ پرستوں کی غلط ذہنیت پر مبنی
تاریخ میں کی جانے والی تحریف کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ ہمارے اسلاف کے نقوش قدم اور
قربانیاں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ کیا ہم میں خوب صورت ہندستان کی خوب صورت تاریخ کے
تحفظ کی اہمیت و قابلیت ہے؟
اللہ رب العزت سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے عزم
وارادے میں بلندی اور استقامت عطا کرے، آمین!
میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے میری معروضات
اور بکھرے ہوئے خیالات کو توجہ اور سنجیدگی سے سنا۔ آپ سے میری استدعا ہے کہ اپنی زندگی
کا ہر لمحہ اپنی دینی، ملی، انفرادی، اجتماعی اور تعلیمی حالت سدھارنے میں لگائیں اور
ملک کی ترقی و سالمیت کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں
میں خلوص عطا فرمائے،آمین!
(ہفت روزہ الجمعیۃ،24-30/جولائی
1998ء)