مستحاضہ اور معذورین کے احکام
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (30)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
مستحاضہ سے صحبت کرنا جائز ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا:
لاباس ان یجامعھا زوجھا۔ (عبد الرزاق)
کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کا شوہر اس سے صحبت کرے۔
ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حمنہ بنت جحشؓ مستحاضہ ہوتی اور ان کا شوہر ان سے صحبت کرتا۔ نوویؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح، ص۱۵۹)
مستحاضہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ استحاضہ کی حالت میں نماز روزہ معاف نہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کا خون بہتا تھا ،تو حضرت ام سلمہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ عارضہ جو انھیں پیش آیا ، اس سے پہلے مہینے میں کتنے رات دن ان کو حیض آتا تھا، اس کو دیکھے ، پھر مہینے میں اتنے دن کی نماز چھوڑ دے۔ جب وہ دن گذرجائے تو غسل کرے اور کسی کپڑے کی گدی لگائے ، پھر نماز پڑھے۔ اس کو ابو داؤد وغیرہ نے کئی سندوں کے ساتھ بیان کیا۔ اور امام نوویؒ نے فرمایا کہ ابو داؤد کی سند بخاری مسلم کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے۔ (زجاجۃ المصابیح) اور آپ ﷺ نے فرمایا:
تدع الصلاۃ ایام اقواءھا التی کانت تحیض فیھا ثم تغتسل و تتوضأ عند کل صلاۃ و تصوم و تصلی ۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد)
مہینے میں جتنے دن حیض آتا تھا، اتنے دنوں کی نماز چھوڑ دے ، پھر نہائے اور ہر نماز کے وقت وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز پڑھے۔
مستحاضہ حیض سے فارغ ہونے کے بعد بس ایک مرتبہ غسل کرے ، پھر ہر نماز کے لیے وقت پر وضو کرے ۔ اور اس وضو سے جس قدر فرض ، واجب، سنت اور نفل چاہے پڑھے۔ جب تک وقت ہے استحاضہ کے خون کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ وضو وقت نکلنے ہی سے ٹوٹے گا، البتہ دوسرے نواقض وضو سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔
عن عائشۃ قالت: سئل رسول اللّٰہ ﷺ عن المستحاضۃ قال: تدع الصلاۃ ایامھا ثم تغتسل غسلا واحدا ثم تتوضأ عند کل صلاۃ۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ باسناد صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ سے مستحاضہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے ، پھر ایک مرتبہ نہائے ، پھر ہر نماز کے وقت وضو کرے۔
بخاری کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا:
ثم توضأ لکل صلاۃ حتیٰ یجئی ذالک الوقت۔
پھر وضو کر ہر نماز کے لیے ، یہاں تک کہ یہ وقت گذر جائے ۔
یعنی وقت میں صرف ایک وضو کافی ہے ، جب تک وقت ہے وضو باقی ہے۔
مستحاضہ پر باقی معذورین کو خیال کرنا چاہیے ، خواہ برابر پیشاب کے قطرے آنے، یا زخم سے خون یا پیپ، ریح، بہنے، یا دست جاری رہنے ، یا ہوا خارج ہونے کا مرض ہو ، یا کوئی دوسری بات ہو جس سے وضو نہیں ٹھہرتا ہے ، کیوں کہ عذر ایک طرح کا ہے ، یعنی وضو کے ساتھ نواقض وضو پیش آجاتا ہے، جس سے وضو صحیح نہیں ہوتا ہے ، یا باقی نہیں رہتا ہے ، مگر شریعت نے مجبوری کی وجہ سے اس کے وضو کو صحیح اور باقی مانا اور اس کو وقت کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی تو سب معذورین کے لیے اجازت سمجھی جائے گی۔ لہذا معذورین اپنے عذر کی وجہ سے نماز نہ چھوڑے؛ بلکہ وضو کرکے نماز پڑھے ۔ ایک وضو سے پورے وقت میں جس قدر چاہے فرض نفل پڑھ سکتا ہے ۔ دوسرے وقت کے لیے دوسرا وضو کرے۔
لیکن معذور اس وقت ہوگا جب کہ ایک نماز کا پورا وقت اس طرح گذرے کہ اس میں باوضو فرض ادا کرنے کا موقع نہ ملے ۔ اس کے بعد اس وقت تک معذور رہے گا جب تک نماز کا کوئی وقت عذر سے خالی نہ گذرے ، یعنی ہر نماز کے پورے وقت میں کم از کم ایک مرتبہ وہ عذر پیش آجائے ، جس میں وہ معذور سمجھا گیا ہے ۔ جب ایک نماز کاپورا وقت اس طرح گذر جائے کہ اس میں ایک مرتبہ بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو اب معذور نہ رہے گا اور وہ چیز اس کے حق میں ناقض وضو ٹھہرے گی۔
کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کا شوہر اس سے صحبت کرے۔
ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حمنہ بنت جحشؓ مستحاضہ ہوتی اور ان کا شوہر ان سے صحبت کرتا۔ نوویؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح، ص۱۵۹)
مستحاضہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ استحاضہ کی حالت میں نماز روزہ معاف نہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کا خون بہتا تھا ،تو حضرت ام سلمہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ عارضہ جو انھیں پیش آیا ، اس سے پہلے مہینے میں کتنے رات دن ان کو حیض آتا تھا، اس کو دیکھے ، پھر مہینے میں اتنے دن کی نماز چھوڑ دے۔ جب وہ دن گذرجائے تو غسل کرے اور کسی کپڑے کی گدی لگائے ، پھر نماز پڑھے۔ اس کو ابو داؤد وغیرہ نے کئی سندوں کے ساتھ بیان کیا۔ اور امام نوویؒ نے فرمایا کہ ابو داؤد کی سند بخاری مسلم کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے۔ (زجاجۃ المصابیح) اور آپ ﷺ نے فرمایا:
تدع الصلاۃ ایام اقواءھا التی کانت تحیض فیھا ثم تغتسل و تتوضأ عند کل صلاۃ و تصوم و تصلی ۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد)
مہینے میں جتنے دن حیض آتا تھا، اتنے دنوں کی نماز چھوڑ دے ، پھر نہائے اور ہر نماز کے وقت وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز پڑھے۔
مستحاضہ حیض سے فارغ ہونے کے بعد بس ایک مرتبہ غسل کرے ، پھر ہر نماز کے لیے وقت پر وضو کرے ۔ اور اس وضو سے جس قدر فرض ، واجب، سنت اور نفل چاہے پڑھے۔ جب تک وقت ہے استحاضہ کے خون کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ وضو وقت نکلنے ہی سے ٹوٹے گا، البتہ دوسرے نواقض وضو سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔
عن عائشۃ قالت: سئل رسول اللّٰہ ﷺ عن المستحاضۃ قال: تدع الصلاۃ ایامھا ثم تغتسل غسلا واحدا ثم تتوضأ عند کل صلاۃ۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ باسناد صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ سے مستحاضہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے ، پھر ایک مرتبہ نہائے ، پھر ہر نماز کے وقت وضو کرے۔
بخاری کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا:
ثم توضأ لکل صلاۃ حتیٰ یجئی ذالک الوقت۔
پھر وضو کر ہر نماز کے لیے ، یہاں تک کہ یہ وقت گذر جائے ۔
یعنی وقت میں صرف ایک وضو کافی ہے ، جب تک وقت ہے وضو باقی ہے۔
مستحاضہ پر باقی معذورین کو خیال کرنا چاہیے ، خواہ برابر پیشاب کے قطرے آنے، یا زخم سے خون یا پیپ، ریح، بہنے، یا دست جاری رہنے ، یا ہوا خارج ہونے کا مرض ہو ، یا کوئی دوسری بات ہو جس سے وضو نہیں ٹھہرتا ہے ، کیوں کہ عذر ایک طرح کا ہے ، یعنی وضو کے ساتھ نواقض وضو پیش آجاتا ہے، جس سے وضو صحیح نہیں ہوتا ہے ، یا باقی نہیں رہتا ہے ، مگر شریعت نے مجبوری کی وجہ سے اس کے وضو کو صحیح اور باقی مانا اور اس کو وقت کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی تو سب معذورین کے لیے اجازت سمجھی جائے گی۔ لہذا معذورین اپنے عذر کی وجہ سے نماز نہ چھوڑے؛ بلکہ وضو کرکے نماز پڑھے ۔ ایک وضو سے پورے وقت میں جس قدر چاہے فرض نفل پڑھ سکتا ہے ۔ دوسرے وقت کے لیے دوسرا وضو کرے۔
لیکن معذور اس وقت ہوگا جب کہ ایک نماز کا پورا وقت اس طرح گذرے کہ اس میں باوضو فرض ادا کرنے کا موقع نہ ملے ۔ اس کے بعد اس وقت تک معذور رہے گا جب تک نماز کا کوئی وقت عذر سے خالی نہ گذرے ، یعنی ہر نماز کے پورے وقت میں کم از کم ایک مرتبہ وہ عذر پیش آجائے ، جس میں وہ معذور سمجھا گیا ہے ۔ جب ایک نماز کاپورا وقت اس طرح گذر جائے کہ اس میں ایک مرتبہ بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو اب معذور نہ رہے گا اور وہ چیز اس کے حق میں ناقض وضو ٹھہرے گی۔