29 Jun 2020

جمعیت کا آن لائن ممبر اس طرح بنیں

جمعیت کا آن لائن ممبر اس طرح بنیں

محمد یاسین جہازی 9891737350

بھارت کی قدیم اور فعال تنظیم جمعیت علمائے ہند نے سال رواں سے آن لائن ممبر بننے کا سسٹم شروع کیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند سے آن لائن اسکالر شپ حاصل کرنے، یا تصدیق نامہ مدارس لینے یا چندہ دینے کے لیے ممبر بننا ضروری ہے اور اس کا طریقہ بالکل آسان رکھا گیا ہے، جو اس طرح ہے
آپ تین طریقے سے آن لائن ممبر بن سکتے ہیں:
(
۱)سب سے پہلے اس کے ویب سائٹ پر جائیں۔ ایڈریس یہ ہے: https://jamiat.org.in/
(
۲) ہوم پیج کے دائیں جانب Loginآپشن کلک کریں۔ کلک کرتے ہی ایک مینو بار کھلے گا، جس کی اوپر پٹی پر دو آپشن ہوں گے: ایک Loginکا اور دوسرا Registerکا۔ آپ کو دوسرے آپشن پر کلک کرنا ہے۔

(
۳) اس رجسٹرآپشن میں لوگن کے تین آپشن ہیں: ایک FaceBook۔ دوسرا Google۔ اگر آپ کے کمپیوٹر یا موبائل میں فیس بک یا جی میل لوگن ہے، تو صرف اس پر کلک کرنے کے بعد پرمیشن دینے سے لوگن ہوجائے گا۔آپ کو بہت زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا آپشن ہے موبائل نمبر سے۔ اس آپشن میں اپنا موبائل نمبر درج کرنے کے بعد اس کے سامنے موجود آپشن Request Codeپر کلک کریں گے۔ اس پر کلک کرنے سے OTP Sent Successfully… کا باکس ظاہر ہوگا، اس کے Okپر کلک کریں گے۔ اس کے بعد اپنا موبائل کا میسج باکس چیک کریں، چار عدد کا ایک او ٹی پی آیا ہوگا۔ اس کو Enter OTPباکس میں درج کریں اور اس کے سامنے موجود آپشنLoginپر کلک کریں۔ اس کے بعد ایک میسج باکس ظاہر ہوگا، جس پر لکھا ہوگا کہ OTP Verified Successfully۔ یعنی آپ نے صحیح او ٹی پی درج کیا۔ اس کے Okپر کلک کریں گے۔

یہاں کلک کرنے کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، جس پر لکھا ہوگا کہ Please Add Member Information Below….۔ اس پٹی کے نیچے کئی آپشن ہیں، جنھیں بھرنا ضروری ہے، جو علیٰ الترتیب اس طرح ہے۔
(2) Member Type۔ یعنی ممبر کی قسم۔ اس پر لال اسٹار لگا ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کرنا ضروروی ہے۔ اس کے نیچے پٹی میں Select Member Type۔ اس پر کلک کریں گے، تو تین آپشن نظر آئے گا۔
(الف) Associate۔ اس کو سردست چھوڑ دینا ہے۔
(ب) Active Memebr۔ اس کو بھی سردست چھوڑ دینا ہے۔
(ج) Primary Member۔ یعنی ابتدائی ممبر۔ اس پر آپ کو کلک کرنا ہے۔
(2) اس کے نیچے First Nameآپشن میں اپنے نام کا پہلا حصہ لکھنا ہے۔ جیسے محمد۔

(3) Last Name۔ اس میں اپنے نام کا آخری حصہ لکھنا ہے، جیسے یاسین۔
(4)User Nameمیں ای میل، فیس بک وغیرہ کی آئی ڈی بنانے کی طرح یہاں بھی ایک آئی ڈی بنائیں گے۔
(5) چوں کہ ہم موبائل سے رجسٹر کرنے کے بعد یہ فارم بھر رہے ہیں، اس لیے یہاں ہمارا موبائل نمبر پہلے سے درج نظر آئے گا۔ دوبارہ درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(6) Password۔ جی میل، فیس بک وغیرہ کی طرح اس کا بھی پاس ورڈ بنایا جائے گا۔ یہاں پاسورڈ کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:
(الف) کم سے کم چھ تعداد میں ہونا ضروری ہے، اس سے کم سے نہیں بنے گا۔

(ب) کم سے کم ایک حرف بڑا۔ باقی سب چھوٹا، یا ایک چھوٹا باقی بڑے حروف میں ہونا ضروری ہے۔
(ج) کم سے کم ایک کیرکٹر ہندسہ یعنی نمبر میں ہونا ضروری ہے۔
(7)Select Religionکا مطلب ہے کہ اپنا مذہب درج کریں۔ اس میں پانچ مذاہب سکھ، بدھسٹ، کرسچن، ہندو اور اسلام کا آپشن موجود ہے، آپ جو ہیں، اسے منتخب کریں۔
(8) Gender۔ اس میں اپنا جنس حسب حال Maleیا Female پر کلک کریں۔
(9) Date of Birthکے نیچے پٹی پر کلک کرتے ہی کلینڈر ظاہر ہوگا۔ اس سے آپ اپنا دن، تاریخ اور سال منتخب کرتے ہوئے اپنی تاریخ پیدائش درج کریں۔
(10)Pin Code۔ اس میں اپنے علاقے کا پن درج کریں، جس کے بعد پن نمبر سے ویب سائٹ خود بخود آپ کے ضلع کا نام اس کے نیچے شو کردے گا۔
(11) Upload Photo۔ اس میں Choose Fileپر کلک کریں۔ جس کے بعد آپ کے موبائل یا کمپیوٹر کا ایک فائل باکس نظر آئے گا۔ آپ نے جس جگہ اپنی تصویر محفوظ رکھی ہے، وہاں جاکر اپنی تصویر کو سلیکٹ کریں، اور Okیا Openجیسا بھی آپ کے ڈیوائس میں گرین رنگ یا یائی لائٹ نظر آئے اس کو کلک کریں۔ آپ کی تصویر اپلوڈ ہوکر سامنے والے باکس میں نظر آئے گی۔
(12) Select ID Proof: اس میں پین کارڈ، آدھار کارڈ، پاسپورٹ، ووٹر کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس میں سے جو آپ کے پاس ہے، اس پر کلک کریں۔ اس کے نیچے ظاہر ہونے والے میسج Choose Fileپر کلک کرکے اپلوڈ کریں۔
(13) اس کے بعد Emailآئی ڈی درج کریں۔ اس پر لال مارک نہیں ہے، تو یہ ضروری نہیں ہے، اختیاری آپشن ہے۔
(14) Qualification۔ اس آپشن میں آپ اپنی تعلیمی صلاحیت کو منتخب کرکے اس پر کلک کریں۔
(15) Profession۔ یعنی آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے، اسے لسٹ سے منتخب کریں۔
(16)اس کے نیچے نظر والے کیپچا کو اس کے نیچے والی پٹی میں درج کریں۔
(17) Submit۔ اس کے بعد سبمٹ یعنی جمع کرنے کا آپشن ہے۔ لیکن یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ نے پہلے جوپن کوڈ درج کیا ہے، تو اس کے اعتبار سے ایڈریس والے آپشن خود بخود بھر جائیں گے۔اس میں اگر کچھ غلط ایڈریس شو کر رہا ہے، تو Submitکرنے سے پہلے، اسے ٹھیک کرلیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(الف) Select Country: میں اپنے ملک کا نام منتخب کریں۔
(ب) Select State: میں اپنا صوبہ منتخب کریں۔
(ج)Select District: میں اپنا ضلع منتخب کریں
(د) Taluka: میں سب ڈویژن یا پولیس اسٹیشن منتخب کریں۔
(ھ) Residential Address: اس میں اپنا رہائشی پتہ درج کریں۔
(و) Admin: اس جگہ اگر ایڈمن لکھا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ضلعی جمعیت کے ذمہ دار کا نام ویب سائٹ کے ڈیٹا بیس میں ابھی درج نہیں ہے۔ اگر درج ہوگا، تو وہاں پر ان کا نام شو کرے گا۔
اس کے بعد اب Submitپر کلک کردیں۔جس کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، جس میں لکھا ہے کہ پرائمری ممبری فیس دس روپے ادا کریں۔ چنانچہ اس کے لیے آپ Pay Nowکے بٹن پر کلک کریں۔ کلک کرتے ہیں۔ پیمنٹ آپشن کھل کر آئے گا، جس میں ڈیبٹ کارڈ، کریڈیٹ کارڈ،نیٹ بینکنگ اور یو پی آئی کے ذریعہ پیمنٹ کرنے کی سہولیات موجود ہیں۔ان میں سے کسی ایک طریقہ کو سلیکٹ کرنے اور اس کی ضروری تفصیلات درج کرنے کے بعد Make Paymentپر کلک کریں۔ اس کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، اور آپ کے موبائل پر بینک کی طرف سے ایک او ٹی پی آئے گا۔ آپ اس اوٹی پی کو نیچے باکس میں درج کریں اور MakePaymentپر کلک کردیں۔ اس کے بعد ایک پروسیس پیج کھلے گا، جو ویب سائٹ بینک سے پیسے ٹرانسفر کرتا ہے۔ پروسیسنگ کے دوران کچھ نہ کریں۔ کچھ ہی سکنڈ کے بعد ایک میسج ظاہر ہوگا، جس میں بینک سے کٹے پیسے کی آئی ڈی نمبر اور جمعیت علمائے ہند کے آرڈر نمبر آپ کو ملے گا۔ جسے آپ Prntکے آپشن پر کلک کرکے پرنٹ لے سکتے ہیں۔ اس پرنٹ رسید میں آپ کی تفصیلات موجود ملیں گی۔
مبارک ہو، آپ جمعیت علمائے ہند کے پرائمری ممبر بن گئے۔
نمبر(۳) میں آپ نے لوگن کے تین طریقے پڑھے۔ ویب سائٹ کے رجسٹر کے اس آپشن کے نیچے Orکے بعد لوگن کا ایک چوتھا آپشن ہے۔ اور اس چوتھے آپشن سے لوگن ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ ابھی آپ نے ترتیب وار فارم بھرنے کے دوران جو یوزر نام اور پاس ورڈ بنایا ہے، اس کے ذریعہ آپ لوگن ہوجائیں، یعنی
(
۱) Username: اس میں جو یوزر نام بنایا ہے، وہ درج کریں۔
(
۲) Password: اس میں جو پاسور ڈ بنایا ہے وہ درج کریں۔
(
۳) اس کے نیچے جو کیپچا نظر آرہا ہے، اسے نیچے کے باکس میں درج کریں۔
(
۴) اس کے بعد Loginپر کلک کردیں۔ آپ جمعیت علمائے ہند کے ویب سائٹ پر لوگن ہوجائیں گے۔
جمعیت علمائے ہند نے نئے لوگوں سے جڑنے اور ان تک اپنی خدمات پہنچانے کے لیے اپنے ویب سائٹ کو نئے لباس میں پیش کرتے ہوئے، کورونا لاک ڈاون کے باعث پروگرام کی ممانعت کی وجہ سے Premiere کے ذریعہ 26اپریل 2020کو قائد جمعیت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند نے اس کا افتتاح کیا۔ ویب سائٹ آپ حضرات کی خدمت میں ہے۔ آپ حضرات سے یہی گذارش ہے کہ اپنی اس تنظیم سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جڑیں اور اس کے لیے آن لائن ممبر بن کر اپنا ممبر شپ حاصل کریں۔



تغلقی مہتمم

تغلقی مہتمم
محمد یاسین جہازی 9891737350
کووڈ لاک ڈاون نے بھارت کی تاریخ کے وہ تاریک گوشے بھی اجاگر کردیے، جن کی طرف نہ اہل سیاست توجہ دے رہے تھے اور نہ اہل قلم بھارت کو اس نظریے سے دیکھنے کے بارے میں سوچ پارہے تھے۔ سبھی دیس واسی سمجھ رہے تھے کہ بھارت کی جی ڈی پی بہت زیادہ آگے بڑھ  رہی ہے اور اب یہ ملک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ میں شمار کیا جانے لگے گا۔ عوام کے ساتھ ساتھ طبقہ خواص بھی ڈیجیٹل انڈیا اور شائنگ انڈیا کے نعروں میں مدہوش ہوچکے تھے۔
لیکن اچانک کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے ہجرت اور مزدور طبقے کی مظلومیت، بے کسی، بے بسی، بھوک، پیاس اور پیدل اسفار کی جو بھیانک تصویریں سامنے آئیں، انھوں نے سب انسانیت پسند طبقے کو ہلاکر رکھ دیا۔ مودی حکومت کے علاوہ، سیکڑوں تنظیمیں، ہزاروں سماج سیوا اور انسانیت کا مفہوم سمجھنے والے افراد میدان عمل میں آئے اور جن کی جہاں تک وسعت اور گنجائش تھی، انھوں نے وہاں تک ان لوگوں کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بھارت کی سب سے بڑی تنظیم جمعیت علمائے ہند نے براہ راست اور اپنی ریاستی و ضلعی یونٹوں کے تعاون سے مشترکہ طور پر ساٹھ کروڑ روپے کا رفاہی کام انجام دیا، جو اپنے آپ میں ایک بڑی تاریخ ہے اور اس کا سہرا، اس کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے سبھی رضاکاروں کے سر جاتا ہے۔
مدارس-جونبوی تعلیمات اور انسانیت و بھلائی کی تعلیم کی آماجگاہیں ہیں - نے اپنے اسٹاف و ملازمین کے ساتھ ہمدردی اور انھیں تنخواہ دینے کی حتی الامکان کوشش کی۔ بعض چھوٹے مدارس جن کا ذریعہ آمدنی صرف رمضان کا چندہ ہی ہے، انھوں نے بھی مدرسین کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور ان کو تنخواہیں دیتے رہے۔ جو مدارس سردست نہیں دے پارہے ہیں، ان کے ذمہ دار اپنے اساتذہ کے ساتھ یہ معاملہ کر رہے ہیں کہ جہاں تک گنجائش نکل رہی ہے، دے رہیں اور جب گنجائش باقی نہیں رہی، تو ان سے کہا کہ حالات معمول ہونے پر بقیہ تنخواہ بھی رفتہ رفتہ دی جائے گی۔ ایسے ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں مفتی محمد نظام الدین صاحب قاسمی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ۔ انھو ں نے بتایا کہ جب تک گنجائش رہی دیتے رہے، جب گنجائش کم ہونے لگی، تو کہا کہ آدھی تنخواہ ابھی لے لیں۔ بقیہ ان شاء اللہ تھوڑی تھوڑی کرکے بعد میں دی جائے گی۔ اب جب کہ بالکل گنجائش نہیں بچی، تو ان سے کہا کہ آپ کی آدھی تنخواہ حسب معمول جاری رہے گی، تاہم ادائیگی کے لیے حالات کے معمول پر آنے کا انتظار کریں۔ اس قسم کے ذمہ داران مدارس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے۔ یہ حضرات بالیقین نبوی تعلیمات کے عملی مظاہر ہیں۔
اسی لاک ڈاون میں جب اپنے اساتذہ اور اسٹاف کا تعاون کرنا اسوہ نبی کی بہترین تقلید ہے؛ بعض ایسے مدارس جو نہ مجبور ہیں اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی مجبوری ہے اور یہ مدارس سالوں اپنے اساتذہ اور اسٹاف کو تنخواہیں دینے کی اہلیت رکھتے ہیں، اس مصیبت کی گھڑی میں نہ صرف اپنے اساتذہ کی تنخواہ کاٹ رہے ہیں؛ بلکہ انھیں مدرسہ بدر بھی کردے رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک خبر شروع لاک ڈاون میں ہی دارالعلوم نیرل سے آئی تھی کہ اس ادارے نے اپنے آٹھ اساتذہ کو یک قلم مدرسے سے نکال دیا ہے۔ جب یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور مولانا سجاد نعمانی صاحب کو شیخ الاسٹیج کا خطاب دیے جانے لگا تو ادارے کی طرف سے صحیح صورت حال کی وضاحت آئی کہ وہاں ایک سال کے لیے عارضی تقرر ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی استقلال کے بارے میں فیصلہ کیا جاتاہے، جن اساتذہ کو نکالا گیا ہے، وہ اسی قسم کے اساتذہ ہیں، جن کا استقلال نہیں ہوا ہے اور یہ وہاں کے روٹین میں شامل ہے۔
اسی بیچ کئی اور چھوٹے بڑے مدارس کے تعلق سے خبریں آئیں کہ انھوں نے بھی اپنے اساتذہ کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔ ایک خبر دارالعلوم حیدرآباد سے آئی کہ اس نے مدرسہ کھلنے تک اساتذہ کی تنخواہوں کو بند کردیا ہے۔ ان دنوں کی تنخواہیں بعد میں بھی نہیں دی جائیں گی۔ حالاں کہ عوامی رائے یہ ہے کہ یہ ادارہ اتنا غریب نہیں ہے کہ وہ تنخواہیں برداشت نہ کرسکے۔
اسی دوران کچھ لوگوں نے دارالعلوم دیوبند سے یہ فتویٰ بھی حاصل کرلیا کہ لاک ڈاون کی تنخواہیں دینا ضروری ہیں۔ ادارے والے کاٹ نہیں سکتے۔ یہ فتویٰ ابھی وائرل ہو ہی رہا تھا کہ دارالعلوم کنتھاریہ کے مہتمم کا ایک تغلقی فیصلہ وائرل ہوا کہ انھوں نے اپنے یہاں کے دو سو اساتذہ کو یک قلم باہر نکال دیا ہے، تاکہ انھیں تنخواہ نہ دینی پڑے۔ اس ادارے کو قریب سے جاننے والے ایک شخص نے جب راقم کو یہ خبر دی، تو میں نے وہاں کے مالی کیفیت کے بار ے میں سوال کیا، تو ان کا جواب تھا کہ ادارہ اتنا مضبوط ہے کہ سالوں اگر بیٹھا کر تنخواہیں دے، تو بھی ادارہ مفلوک الحال نہیں ہوسکتا۔ یہ حقیقت جان کر ایسا محسوس ہوا کہ جو ادارے ان تعلیمات نبوی کی تعلیم کے لیے شناخت رہکھتے ہیں، جو اپنے ملازمین کو پسینے خشک ہونے سے پہلے حق المحنت دینے کی وکالت کرتے ہیں، جو یہ سکھاتے ہیں کہ تم اہل زمیں پر رحم کروگے، تو خدا عرش بریں پر تمھارے لیے رحم و کرم کے دروازے کھول دیں گے۔ اور اس قسم کی درجنوں تعلیمات کا درس یہ خود دیتے ہیں، اس کے باوجود مہتمم کا ایسا فیصلہ؛ ایک مہتمم کا نہیں؛ بلکہ فرعونی یا تغلقی فرمان ہی ہوسکتا ہے، جو تعلیمات نبوی کے مزاج سے کبھی بھی ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ ایسے مہتمموں کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔  

26 Jun 2020

آہ چچا اطہر!

آہ چچا اطہر!
محمد یاسین جہازی
9891737350
معصوم عمر سے چچا اطہر کا نام سنتے آئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چچا اطہر میری مرحومہ دادی نور اللہ مرقدہا کے سگے بھتیجے تھے۔ چچا اطہر کے والد کا انتقال تقریبا تیس سال کی عمر میں ہوگیا تھا،جب کہ چچا اطہر اس وقت ڈیڑھ دو سال کے تھے۔چچا اطہر کی یتیمی انھیں زندہ رکھنے کے لیے کڑے امتحان لینے لگی اور تلاش معاش میں گھر سے نکلے، تو غائب ہوگئے۔ عرصہ دراز کے بعد ان کے چچا قاری عبد الجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی کوششوں سے دریافت ہوئے، تو گھر لے آئے اور رشتہ ازدواج سے منسلک کردیا۔ لیکن یتیمی کے زخم ابھی نہیں بھرے تھے، اس لیے زندہ رہنے کی ضرورت نے دوبارہ گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا، اور خود کو اپنوں سے روپوش کرلیا۔ نئی نویلی چاچی کے لیے گھر کا بڑا آنگن بیوگی کا احساس دلانے لگا، جس کو مٹانے کے لیے میری دادی مرحومہ اور دادی کے ساتھ ناچیز چچا اطہر کے گھر میں مہینوں قیام پذیر رہتے تھے۔ اور ہمیشہ چچا اطہر کا ذکر لاشعور کانوں سے ٹکراتا رہتا تھا۔
بعد میں بالیدہ شعورنے سمجھا اور جانا کہ یہ چچا اطہر کون تھے۔ان کے والد محترم  حضرت مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری (جون1943-19اپریل1972) استاذ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ تھے، جو تعلیم و تربیت اور تقویٰ و طہارت میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔
چچا اطہر کو جب خانگی ذمہ داری کا احساس ہوا، تو انھوں نے سمجھا کہ زندگی سے بھاگنے کا نام زندگی نہیں؛ بلکہ زندگی کو سہارا دینے کا نام زندگی ہے؛ چنانچہ انھوں نے زندگی کے بارے میں اپنا نظریہ بدلہ اور خانگی زندگی جینا شروع کیا۔ اسی دور میں چچا اطہر سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کو قریب سے جاننے سمجھنے کا موقع ملا۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اس حوالے سے اتنے انسان پسند اور اولو العزم واقع ہوئے تھے کہ اتنا شاید بعض دانش مندبھی نہیں ہوتے۔ایک مرتبہ میں نے ان سے فیملی سے دوری کا سبب پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ میں ایک لمبی چھلانگ میں ہوں، اگر اس میں کامیاب ہوگیا، تو میں اس طرح کی چھوٹی موٹی نوکری سے نجات پاجاوں گا۔ وہ لمبی چھلانگ کیا تھی، مجھ سے شیئر نہیں کیا۔ لیکن ان کے بعد کے حالات شاہد ہیں کہ شاید وہ لمبی چھلانگ  نہیں لگا پائے۔
پہلے وہ ٹرک ڈرائیورتھے۔ پھر فروٹ جوس کا کاروبار کیا۔ بعد ازاں مدرسہ ربانیہ پرشواتم مدراس میں معاون باورچی بنے۔ یہاں کے دینی ماحول میں ایسے گھلے ملے اور چہرے پر ایسی سنت سجائی کہ کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ پہلے یہ ٹرک ڈرائیور رہے ہوں گے۔
پچھلے کئی سالوں سے گھر میں ہی کھیتی باڑی کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا تھا۔ اور صاف ستھری زندگی گزار رہے تھے۔
آج (26جون2020) کو علیٰ الصباح مفتی نظام الدین صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کے فون سے اطلاع ملی کہ چچا اطہر اب دنیا میں نہیں رہے، ان کا صبح تقریبا پانچ اور چھ بجے درمیان انتقال ہوگیا۔ پہلے سے کوئی بیماری نہیں تھی۔ آج بھی بے تکلف احباب کے ساتھ انھوں چائے کی محفل سجائی تھی؛ لیکن اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، چچا اطہر بھی محض تقریبا پچاس سال کی عمر میں اپنی دو بچیوں کو یتیم کرکے چلے گئے۔ رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم بھی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہیں، اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، دعا گو ہیں کہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ تدفین آج ہی(26جون2020، بروز جمعہ)  بعد نماز جمعہ جہازی قبرستان میں کی جائے گی۔ 

12 Jun 2020

ویڈیو کتاب لکھیں

ویڈیو کتاب لکھیں
محمد یاسین جہازی
زبان کی ارتقائی تاریخ میں آپ نے یہ ضرور پڑھا ہوگا کہ جو زبان آج ہم اور آپ بول رہے ہیں، اس میں اور وجودی عہد کی زبان میں بے شمار فرق ہے۔ پہلے ہم شکستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے، لیکن جوں جوں زبان کا ذوق اور مذاق جمالیات بڑھتا گیا، توں توں زبان کی شیرینی، تسلسل اور سائستگی میں خوبصورتی پید اہوتی گئی۔ اور یہ سفر آج بھی جاری ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ زبان کے پیدائشی دور میں اشارات و کنایات ہی زبان ہوا کرتے تھے۔ پھر ترقی کرکے ان میں الفاظ کا اضافہ ہوا۔ الفاظ کو خارجی وجود دینے کے لیے تحریر وجود میں آئی؛ اور اس تثلیث سے زبان کی تکمیل ہوئی۔ الفاظ اورتحریر میں ایک خامی یہ ہے کہ الگ الگ زبانوں اور تحریروں کی ہیئتیں، مصوتے، مصمتے اور رسم الخط الگ الگ ہیں، جو ان سے غیر متعلق افراد کے لیے ناقابل استعمال اور ناقابل فہم ہوتے ہیں۔ اردو والوں کو انگریزی اور انگریزی جاننے والوں کے لیے اردو پڑھنا، بولنا اور سمجھنا فطری تربیت میں مشکل ہوتا ہے۔ دوسری زبان، بولنے، پڑھنے اور سمجھنے کے لیے سیکھنے کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ دنیا کا ہر انسان دنیا کی سبھی زبانیں سیکھ لے۔
علاوہ ازیں ایک زبان والوں کے لیے بولنے، پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے بھی درجے ہوتے ہیں۔ بولنے والا یا سمجھنے والا ضروری نہیں ہے کہ لکھنا بھی جانتا ہو۔ بہت سارے لوگ اردو یا ہندی بولتے یا سمجھتے ہیں، لیکن تحریر سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ خود اپنی زبان والا اپنی زبان میں لکھی ہوئی تحریر سے استفادہ نہیں کرپاتا۔ چنانچہ انسان کے متجسس دماغ نے اس تاریکی پرقابو پانے کے لیے کئی طریقے ایجاد کیے ہیں، جن سے فائدہ اٹھا کر ہم بے زبانوں تک بھی اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔
 کمپیوٹر ایک ایسی مشین ہے، جو دنیا کی ہر زبان کے رسم الخط کو لکھ بھی سکتا ہے اور پڑھ بھی سکتا ہے؛ کیوں کہ کمپیوٹر کی ساخت کسی ایک زبان پر رکھنے کے بجائے بائنری زبان پر رکھی گئی ہے۔ بائنری زبان کے صرف دو حروف تہجی ہیں ایک زیرو (0)اور دوسرا ایک (1)۔ زیرو کو آف اور ایک کو آن کہا جاتا ہے۔ اور انھیں دونوں حروف سے دنیا کی ہر زبان کی سوفٹویر کے ذریعہ کوڈنگ کی جاتی ہے اور اس کا رسم الخط اسکرین پر نظر آتا ہے۔ لیکن یہ کوڈنگ انتہائی مشکل اشاریہ ہوتا ہے، جو صرف انجنیر اور سافٹویر ہی سمجھ پاتا ہے۔ سافٹویرکے کمانڈ کو آسان بنانے کے لیے انجنیر اشاراتی زبان استعمال کرتا ہے، جسے سیمبل لنگویج کہا جاتا ہے۔ یہ سیمبل لنگویج ایک ایسی ایجاد ہے، جس نے رسم الخط سے ناواقف افراد کے لیے تحریر فہمی کو آسان بنا دیا ہے۔ چنانچہ آپ اپنے موبائل میں اس کی لاتعداد مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک بچہ یا ان پڑھ آدمی واٹس ایپ یا فیس بک لکھنا یا پڑھنا نہیں جانتا، لیکن اس کے آئیکن سے یہ سمجھ اور پڑھ لیتا ہے کہ واٹس ایپ اور فیس بک کا ایپ یہی ہے۔
تحریری زبان سے ناواقف افراد کے لیے ایک جدید طریقہ ویڈیو تحریر بھی ہے۔ جس میں مضمون کو سمجھانے کے لیے کسی مخصوص رسم الخط کو استعمال کرنے کے بجائے، اس کی کوریو گرافی اور فریمنگ کی جاتی ہے اور ان دونوں کو سمجھانے کے لیے آواز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور چوں کہ ویڈیو میں آواز سنائی دینے کے ساتھ ساتھ سیمبل لنگویج یعنی تصاویر، گرافکس وغیرہ بھی نظر آتے ہیں، توہر شخص کے لیے مضمون کو سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے؛ اس لیے اس جدید ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں تحریری کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ ویڈیو کتاب لکھنے کا بھی رواج دینا چاہیے۔

سیمینار کو ویبینار بنائیں

سیمینار کو ویبینار بنائیں
محمد یاسین جہازی 9891737350
دیگر مخلوقات الہی میں انسان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات وتجربات کا تبادلہ کرکے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاکراور فائدہ حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔تبادلہ خیالات کے طریق عمل زمانے کے اعتبارسے بدلتا رہا ہے۔ کاغذ اور تحریر کی ایجاد سے پہلے تبادلہ خیال کا طریقہ زبانی روایات پر مبنی تھا، جو سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوا کرتی تھیں۔ تحریر کا طریقہ دریافت ہونے کے بعد زبانی روایات کا سلسلہ کمزور ہوتا گیا اور اس کی جگہ کاغذ قلم نے لے لی۔
عصر حاضر میں ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوجانے کی وجہ سے کاغذقلم کی اہمیت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ کاپی پیسٹ کی زبردست طاقت کے وجود میں آجانے کے بعد ماضی کے دور کی بہت سے پریشانیوں کا تصور تک مٹتا جارہاہے۔کاغذ قلم کے دور کی ایک سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ کاپی تیار کرنے میں بھی اصل کے برابر ہی محنت اور وقت درکار ہوا کرتا تھا، لیکن سوشل میڈیا اور کاپی پیسٹ کے آسان طریقہ وجود میں آجانے کی وجہ سے تعلیم و تعلیم اور تجربات کے تبادلہ میں زبردست انقلاب پیدا ہوگیا ہے۔ اب نہ تو اصل بنانے میں مہینوں اور سالوں کا وقت درکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی کاپی بنانے میں لمبی چوڑی محنت صرف کی جاتی ہے؛ بلکہ سب کچھ ایک کلک اور چند کلک سے ہوجاتا ہے۔ بالخصوص یونی کوڈ فارمیٹ کی سہولت ایجاد ہونے کے بعد ایک شخص کی محنت سے سبھی لوگ یکساں فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ آج لوگ گوگلنگ مزاج کے حامل ہوچکے ہیں، سب کچھ چند لمحوں میں حاصل کرکے،اس کی کاپی بناکر پیش کردینا چاہتے ہیں اور جدید ذرائع میں یہ سب آپشن موجود ہے؛ اس لیے ان سہولیات سے فائدہ نہ اٹھانا،اور ماضی کے فرسودہ طریقہ پر ہی قائم رہنا، راقم کے عندیہ میں وقت ضائع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ کچھ مہینے پہلے ایک موقرشیخ الحدیث صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ راقم نے اصلاح کی نیت سے ایک مضمون پیش کیا، تو انھوں نے فرمایا کہ اسے لکھنے میں کتنا وقت لگا؟ میں نے کہا کہ دیگر مصروفیات کے ساتھ تقریبا ایک ہفتہ میں مکمل ہوا۔ یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ اتنے حوالوں کے ساتھ ایک ہفتہ میں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ تو میں نے بتایا کہ قرآن اور احادیث کمپوزشدہ انٹرنیٹ سے مل جاتی ہیں۔ حوالے بھی اسی ذریعہ سے تلاش کرلیتا ہوں۔ باقی دیگر ہزاروں کتابیں مختلف سائٹوں پر موجود ہیں، جہاں سے پڑھ لیا جاتا ہے، کاپی کا آپشن ہوتا ہے، تو کاپی اور پیسٹ کرلیتے ہیں۔ اور اس طرح کم وقت میں مستند و محقق مضمون تیار ہوجاتا ہے۔ پھر میں نے حضرت سے پوچھا کہ آپ کا کیا طریقہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ پہلے کاغذ پر قرآن کی آیتیں لکھتا ہوں، پھر رنگین قلم سے اعراب لگاتا ہوں، پھر کمپوزر کو دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر اس میں مہینوں لگ جاتا ہے۔
بہرحال جدید ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے ماضی کے طریقے کو بدل کر جہاں ہم اپنا وقت اورمحنت بچاسکتے ہیں، وہیں خرچ ہونے والے کثیر صرفے سے بھی بچ سکتے ہیں؛ کیوں کہ ہر شخص سیکڑوں کتابیں نہیں خرید سکتا، البتہ ایک لیپ ٹاپ خرید کر سائٹوں سیمفت میں یا پھر معمولی ممبرشپ پر ہزاروں کتابوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
عصر حاضر میں تبادلہ خیال کا ایک طریقہ سیمینار بھی ہے، لیکن جدید ایجادات سے فائدہ اٹھایا جائے، تو ہم سیمینار کو ویبینار بناسکتے ہیں۔ سیمینار کے مقابلہ میں ویبینار جہاں کم خرچ میں ہوجاتا ہے، وہیں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ اور کاپی کی سہولیات بھی میسر آجاتی ہیں۔ اسی طرح اس میں مجمع اور سامعین و ناظرین کو لامحدود سعت دے سکتے ہیں۔
ویسے تو ویبینار کرنے کے لیے کئی طریقے اور ایپس ہیں؛ لیکن ہم ذیل میں تین آسان طریقوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔
(۱) زوم(Zoom cloud meeting): اس کورونا لاک ڈاون میں اس ایپ کا سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ایپ دوسرے ایپ کے مقابلہ میں قدرے آسان ہے اور زیادہ آپشن سے لیس ہے۔ اس کے استعمال کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لیپ ٹیپ میں انٹرنیٹ سے یا موبائل میں پلے اسٹور یا ایپ اسٹور سے ڈاون لوڈ کریں اور پھر میل آئی ڈی کی طرح آئی ڈی بناکر استعمال کرنا شروع کردیں۔ اگر کوئی آپشن سمجھ میں نہیں آرہا ہے، تو سیکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ سیکھنا ہے وہ یوٹیوب میں سرچ کرکے سیکھ سکتے ہیں۔
(۲) لارک(Lark): یہ ایپ بھی زوم ہی کی طرح ہے۔ البتہ اس میں ایک اضافی آپشن یہ ہے کہ آپ جو کچھ بولتے ہیں، اسے ساتھ ساتھ ٹیکسٹ میں بھی بدل سکتے ہیں۔ تاکہ جو کوئی آپ کی زبان نہیں سمجھتا ہے، وہ اس کا ٹیکسٹ ترجمہ کی شکل میں پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔
(۳) میٹ (Meet): یہ گوگل کا ایپ ہے، جو ہر جی میل کے ساتھ اٹیچ ہے۔ اگر آپ اپنا جی میل لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر میں استعمال کر رہے ہیں، تو کوئی ایپ لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے  اور نہ ہی کوئی آئی ڈی بنانے کی ضرورت ہے۔ جی میل کی آئی ڈی ہی کافی ہے۔ لیکن اگر موبائل میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو پھر پلے اسٹور یا ایپ اسٹور سے میٹ نامی ایپ لوڈ کرنا ہوگا اور اپنی جی میل آئی ڈی استعمال کرکے اس سے ویڈیو کانفرنسنگ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کی ایک خامی یہ ہے کہ اس میں ریکارڈ اور لائیو کا آپشن نہیں ہے، جب کہ زوم میں ریکارڈ اور اسے لائیو کرنے کا بھی آپشن موجود ہے۔
اس کورونا لاک ڈاون میں جب کہ اجتماع سے بیمار ہونے کا خطرہ ہے، ایک دوسرے کے تجربات و خیالات سے فائدہ اٹھانے کا ویبینار ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس میں جہاں آمدو رفت اور قیام و طعام کے اخراجات سے بچ سکتے ہیں، وہیں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ، کاپی اور لائیو کے آپشن سے فائدہ اٹھاکر افادے کے دائرے کو لامحدود وسعت دے سکتے ہیں۔ تو راقم کا یہی مشورہ ہے کہ اب سیمینار نہیں؛ بلکہ ویبینار کو فروغ دیں اور جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افادے و استفادے کے حلقہ اثر کو عالمی بنانے میں ایک موثر کردار ادا کریں۔

5 Jun 2020

وطن معیشت کو وطن اقامت بنائیے

وطن معیشت کو وطن اقامت بنائیے
آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation کے اختیارات کے باوجود سپریم کورٹ کا خاموش رہنا؛ کیا بھارت میں جمہوریت کے خاتمہ کا اعلان نہیں ہے
محمد یاسین جہازی
بھارت میں 25مارچ 2020سے 31مئی 2020یعنی کل 68دنوں کے لیے ا س کے وزیر اعظم مسٹر مودی نے پہلے سے طے شدہ کسی حکمت عملی کے بغیر اچانک لاک ڈون کا فیصلہ کردیا۔ اس فیصلہ کے بعد بھارت کی ایک نئی تصویر ابھر کرسامنے آئی۔ ایک ایسی تصویر، جس میں بے بسی، مجبوری اور مفلوک الحالی کے رنگ نمایاں تھے۔ اس ہوائی جہاز اور راکیٹ کے دور میں بھی ایسی بھیانک تصاویر منظر عام پر آئیں، جہاں لاکھوں مزدور تپتی دھوپ اور گرم سڑکوں پر سروں پر سامان اور کندھوں پر معصوم بچوں کو لادھے ہزاروں کلو میٹر دور بھوکے پیاسے پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سفر کے تمام ذرائع بند کردیے گئے تھے، تو پھر ان مزدوروں کو اپنی جگہ سے سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی، جو جہاں پھنس گیا تھا، وہیں رہتے۔ تو اس سوال کا جواب بھی سوشل میڈیا اور میڈیا کے توسط سے مل گیا ہے کہ وہ جہاں رہتے تھے، وہاں سے مکان مالک نے کرایہ کا مطالبہ کرنا شروع کردیا، کام کاج بند ہونے کی وجہ سے مزدور کرایہ ادا نہ کرسکے، تو مکان مالکوں نے نکالنا شروع کردیا۔ اسی طرح کھانے پینے کی جو بھی چیزیں اور انتظام مزدوروں کے پاس تھا، وہ سب رفتہ رفتہ ختم ہوگیا، جس کے باعث بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر مزدور اپنے گاوں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہوئے اور سواری بند ہونے کی وجہ سے پیدل ہی سفر پر نکل پڑے۔ان کی پریشانیوں کو احساس دلانے والوں نے جب ان سے سوال کیاکہ گھر جانے کے لیے آخر اتنی پریشانیاں کیوں برداشت کر رہے ہیں، تو ان کا سیدھا جواب تھا کہ ویسے بھی بھوک سے مرتے، تو ایسے ہی چل کر اپنوں کے بیچ مریں گے؛ کیوں کہ ہمیں تو آخر مرنا ہی ہے۔
جینے اور زندہ رہنے کا حق  وغیرہ بھارت کے دستورکے مطابق انسان کے بنیادی حقوق کے تحت آتے ہیں، جنھیں مہیا کرانا موجودہ سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر سرکار عوام کے بنیادی حقوق بھی فراہم نہ کرسکے، تو دستور کے آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation کے تحت کورٹ اور سپریم کورٹ کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ سرکار کا محاسبہ کرکے اسے حکم دے کہ وہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کو یقینی بنائے۔
لیکن اس لاک ڈاون میں مزدوروں کے جملہ بنیادی حقوق تو کجا، زندہ رہنے تک کے حق سے محروم کردیا گیا، اس کے باوجود نہ تو کورٹ نے اور نہ ہی سپریم کورٹ نے سرکار کو سرزنش کی اور نہ ہی سرکار کی نیت اور نیتی پر سوال اٹھاکر اسے اپنی ذمہ داری یاد دلائی۔ اس پورے بھیانک منظر نامہ پر سپریم کورٹ بھی بالکل خاموش تماشائی بنا رہا۔
میرے خیال سے   آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation اس بھارت کے دستور کا حصہ تھا، جب سرکار ووٹوں کی طاقت سے بنتی تھی۔ سرکاری پارٹیوں کو ووٹروں کی ضرورت ہوتی تھی، اس لیے ووٹر ووٹ کے وقت ا ن پارٹیوں کا خیال رکھتی تھی، جو پارٹی ووٹروں کا خیال رکھے۔ جب زمانے نے تھوڑی ترقی کی، اور ہر طرح کے اعداد وشمار سامنے آنے لگے، تو اس نے ”ہمارے ووٹر“ اور ”ہمارے ووٹر نہیں“ کی ذہنیت پیدا کی۔ پھر ذرا اور آگے چل کر ”پالیس میکر ووٹر“ اور ”اندھ بھکت ووٹر“ میں معاملہ تقسیم ہوگیا۔ یہاں تک بھی معاملہ کسی قدر غنیمت تھا؛ لیکن جب سے مشینی دور شروع ہوگیا ہے، تب سے حکومت کو ووٹروں کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ جس کا سب سے بھیانک پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ سرکار مطلق العنان ہوکر فیصلہ کرتی ہے۔ وہ اپنے فیصلے میں نہ تو عوام کی خواہشات کا خیال رکھتی ہے اور نہ ہی ضروریات کا؛ اچانک ڈی مونی ٹائزیشن، اچانک لاک ڈاون وغیرہ وغیرہ؛ یہ سب اسی مطلق العنانی کی مثالیں ہیں۔
 ان واقعات کو اگر عبرت کی نگاہ سے دیکھیں، تو جس طرح انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے اہل دانش کو یہ فتویٰ دینا پڑا تھاکہ بھارت اب غلام ہوچکا ہے، جس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے، اسی طرح اہل دانش کو یہ اعلان کرنا ضروری ہے کہ بھارت میں اب جمہوریت کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے؛ لہذا اس کے تحفظ کے لیے، کورٹ، سپریم کورٹ، میڈیا، قلم کار، اہل دانش، اپوزیشن پارٹیوں اور تمام محبان وطن کو بہر قیمت آگے آنا ہوگا۔
اور یاد رکھیے کہ اگر ابھی نہیں اٹھے، اور جان و مال کی پرواہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھے، تو پھر بھارت کو دوبارہ برباد ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
اخیر میں اپنے مزدور بھائیوں کو بھی ایک مشورہ دینا چاہوں گاکہ اس لاک ڈاون کی بے بسی نے ہمیں اچھی طرح بتادیا کہ غریبوں کا مسیحا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی سبق ملا کہ جہاں وطن معیشت ہے، اگر اسی کو وطن اقامت بھی بنالیں، تو اس قسم کے حالات کے دوبارہ شکار نہیں ہوں گے۔ اور یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے؛ بلکہ بہت سے بڑے صاحب ثروت نے وطن معیشت کو وطن اقامت بنایا ہے، شاہ رخ خان، امیتاب بچن اور ہزاروں لوگوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ 

24 May 2020

سرور کائنات ﷺ کی عید

سرور کائنات ﷺ کی عید
محمد یاسین جہازی
رمضان کے آخری دن کا سورج غروب ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کے صحن سے چاند دیکھا اور یہ دعا پڑھی کہ
 اللَّہُمَّ أَہْلِلْہُ عَلَیْنَا بِالیُمْنِ وَالإِیمَانِ وَالسَّلاَمَۃِ وَالإِسْلاَمِ، رَبِّی وَرَبُّکَ اللَّہُ۔
نماز مغرب ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لائے اور تمام ازواج مطہرات سے ملاقات کی۔ پھر اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لائے۔ اتنے میں عشا کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے پہلے عشا کی نماز ادا فرمائی۔ پھر صدقۃ الفطر غریبوں میں تقسیم فرمایا اور لیٹ گئے۔
رات کے آخری پہر میں نماز تہجد کے لیے بیدار ہوئے، تو پہلے غسل فرمایا، ہرے رنگ کا لباس اور سیاہ کلر عمامہ مبارک زیب تن کیا اور مسجد نبوی تشریف لے گئے اور نماز فجر ادا فرمائی۔ نماز فجر کی بعد کی مجلس جلدی ختم فرماکر گھر تشریف لے آئے اور طاق عدد کھجور تناول فرمایا۔ اس کے بعد صحابہ کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے تھوڑی دور پر واقع حضرت سعید بن ابی العاصؓ کے گھر کے راستے سے عیدگاہ تشریف لے آئے۔ راستے میں زبان اطہر پر تکبیر جاری تھی۔یہ ایک کھلی جگہ تھی، جہاں ایک نیزہ گاڑ کر عیدگاہ بنالیا گیا تھا، اس کے پیچھے چند صفیں بنا لی گئی تھیں جہاں بچے، جوان اور بوڑھے سب موجود تھے۔ اور یہاں سے کچھ فاصلہ پر عورتیں بھی موجود تھیں۔ اور سب لوگ رنگ برنگے نئے لباسوں میں ملبوس امام الانبیا ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ سرور کائنات ﷺ سیدھے مصلیٰ پر تشریف لائے، صفیں درست کرنے کا حکم دیا اور عید کی دو رکعت نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا۔
چوں کہ مجمع کافی تھا اور عورتیں بالکل اخیر میں تھیں، اس لیے اس خیال سے کہ خطبہ کی آواز یہاں تک نہیں پہنچی ہوگی، آپ ﷺ عورتوں کے مجمع کے پاس تشریف لائے اور انھیں نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہوگی۔ اس پر ایک خواتین نے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے یا رسول اللہ!تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ عورتیں ناشکری اور شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں۔ اس خطاب کا فوری اثر یہ ہوا کہ صحابیات مطہرات نے اپنے زیورات اور کانوں کی بالیاں تک اتار کر حضرت بلال حبشی ؓ کے حوالے کردیا، جنھیں آپ ﷺ نے مستحقین میں تقسیم کردیا۔ پھر آپ ﷺ بنی زریق کے راستے سے عیدگاہ سے گھر تشریف لے آئے۔
آپ ﷺ کا حجرہ مبارکہ مسجد نبوی سے متصل تھا، یہاں مسجد نبوی میں کچھ حبشی تماشہ دکھا رہے تھے اور آس پاس بچوں کی بھیڑ جمع تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ چوں کہ کم سن تھیں، اس لیے ان کی بھی خواہش ہوئی، تو سرورکائناتﷺنے انھیں اپنے کاندھے کے آڑ سے اس وقت تک دکھاتے رہے، جب تک کہ خود اماں حضرت عائشہ ؓ تھک نہیں گئیں۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ آگئے، انھوں نے دیکھا کہ مسجد نبوی میں تماشہ کیا جارہا ہے، اس لیے حبشیوں کو مارنے کے لیے کنکریاں اٹھانے لگے، تو حضورﷺ نے دیکھ کر فرمایا کہ ائے عمر! چھوڑ دو، دکھانے دو، آج عید کا دن ہے۔
 چوں کہ شب بیداری ہوگئی تھی، اس لیے گھر آکر بستر پر منھ ڈھانپ کر سوگئے۔ کچھ دیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی نو عمر سہیلیاں آگئیں اور مل کر اشعار گانے لگیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ آگئے۔ انھوں نے سرورکائنات ﷺ کی نیند میں خلل اندازی سمجھ کر بچیوں کو ڈانٹنا شروع کیا، تو چہر انور سے چادر ہٹاکر فرمایا کہ ان بچیوں کو گانے دو، آج عید کا دن ہے۔
اس لیے عید کا پیغام یہ ہے کہ ؎
گلے شکوے مٹاکر مسکراؤ عید کا دن ہے
پرانی رنجشوں کو بھول جاؤ عید کا دن ہے
وہ جن کو بے سبب ٹھکرا دیا ہے دنیا والوں نے
گلے ان بے سہاروں کو لگاؤ عید کا دن ہے
اخوت، بھائی چارہ، دوستی، اخلاص پھیلاؤ
محبت کے دیے گھر گھر جلاؤ عید کا دن ہے
وہ جن بچوں کے بچپن کارخانے چھین لیتے ہیں
وہ بچپن پھر انھیں واپس دلاؤ عید کا دن ہے
کسی کے واسطے نفرت نہ رکھو اپنے سینے میں
جو روٹھے ہیں انھیں چل کر مناؤ عید کا دن ہے
کم از کم آج کے دن ہو ہو خوشی ہر ایک چہرے پر
سبھی مل کر دعا کو ہاتھ اٹھاؤ عید کا دن ہے

22 May 2020

مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ اور جمعیت علمائے ہند

مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ اور جمعیت علمائے ہند
محمد یاسین جہازی
نیا میں آنا ہی درحقیقت یہاں سے جانے کی تمہید ہے۔ اگر آخر الذکرکا تسلسل نہ ہو، تو ایک مومن کے لیے یہ سب سے بڑی سزا ہوگی؛ کیوں کہ ہمیشہ میدان امتحان میں ہی رہنااور اس کا انعام نہ ملنا؛ ایک قسم کی سزا ہے۔ حضرت الاستاذ حضرت مولانا و مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند 19مئی 2020بروز منگل صبح سات و آٹھ کے درمیان قید حیات سے آزاد ہوکر ابدی زندگی کی طرف منتقل ہوگئے۔اور جوگیشوری ممبئی کے اوشیورہ قبرستان میں تدفین کردی گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
راقم زمانہ طالب علمی کے بعد جمعیت علمائے ہند کے شعبہ ”ادارہ مباحثہ فقہیہ“ کے ایک کام کے حوالے سے حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جمعیت نے حالات حاضرہ کے متعلق کچھ عنوانات طے کیے تھے، سیمینار کے لیے کسی ایک عنوان کی تعیین یا تخلیق کی گذارش حضرت کی خدمت میں پیش کی گی۔ بعد العصرکی محفل تھی، درجن کی تعداد میں طلبہ بھی موجود تھے۔ حضرت نے ہر ایک عنوان کو غور سے دیکھا اور کچھ مفید مشورے بھی دیے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ حضرت فدائے ملت ؒ کے دور صدار ت میں جمعیت کے مختلف پروگراموں میں شرکت ہوتی تھی؛ لیکن اب پروگراموں سے یکسو ہوگیا ہوں اور بہت کم ہی شرکت کرتا ہوں۔
حضرت کے انتقال کے اگلے دن یعنی 20مئی 2020بروز بدھ نماز ظہر دفتر جمعیت علمائے ہند کے مدنی ہال میں ایک تعزیتی نشست رکھی گئی، جس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیت علمائے ہند نے حضرت کی زندگی اور کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سال گذشتہ رمضان سے پہلے(اپریل2019) مظفر نگر میں واقع جمعیت یوتھ کلب کے سینٹر پر تشریف لائے۔ یہاں کے منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میدان میں لگے جھولے پر بیٹھ کر بچپنہ احساس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ زمین خریدی گئی تھی، تب بھی  میں یہاں آیا تھا۔ اور آج جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آباد کردیا ہے، تو یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔ مفتی صاحبؒ نے جمعیت یوتھ کلب کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا، بہت ساری دعائیں دیں اور کہا کہ دیوبند کے آس پاس اگر کوئی پروگرام ہو تو مجھے بھی بتانا، میں اس میں شرکت کروں گا۔ مفتی صاحب مرحوم نے مزید بتایا کہ حضرت فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ مجھ سے ہمیشہ مشورہ فرمایا کرتے تھے؛ بالخصوص فرقہ باطلہ کے تعلق سے مجھ سے ضرور صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ مفتی صاحب ؒ نے جمعیت علما سے وابستگی کے تعلق سے بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت گجرا ت میں مدرس تھا، تو حضرت مولانا و مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپپوری ؒ وہاں کے صدر ہواکرتے تھے اور میں ناظم اعلیٰ تھا۔ آپ مارچ 1965سے اگست1973یعنی کل نو سال تک جمعیت علما سورت کے ناظم اعلیٰ رہے۔
قائد جمعیت،جانشین فدائے ملت حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند سے بھی آپ کا خصوصی تعلق تھا۔چنانچہ فدائے ملتؒ کے انتقال کے بعد پروگراموں سے الگ تھلگ ہوجانے کے باوجود قائد جمعیت کی دعوت پرجمعیت کے فقہی اجتماعات میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ اور پچھلی مرتبہ جب رابطہ مدارس اسلامیہ کا اجلاس دیوبند میں ہورہا تھا اور دوران پروگرام قائد جمعیت پروگرام میں شریک ہوئے، تو حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اورگلے لگاکر اپنے بازو میں بٹھایا۔ معلومات کے لیے عرض کردوں کہ قائد جمعیت حضر ت مفتی صاحب مرحوم کے شاگرد ہیں۔ اس کے باوجود آپ کے لیے کھڑے ہوگئے؛ جو بالیقین جمعیت اور خانوادہ مدنی سے عقیدت و محبت کی واضح علامت ہے۔
جمعیت علمائے ہند نے بھی حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کو درج ذیل عبارت میں خراج عقیدت اور اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا:
”جمعیت علمائے ہند کے صدرامیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور ناظم عمومی مولانا محمود مدنی نے دارالعلوم دیوبند کے انتہائی موقر شیخ الحدیث و صدرالمدرسین حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کی وفات حسرت آیات پردلی رنج و الم ظاہرکیا ہے۔دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کے اڑتالیس سالہ دورمیں ہزارہا تشنگان علوم آپ کے سرچشمہ فیض سے بلاواسطہ فیضیا ب ہوئے۔آپ جیسے کریم النفس، صاحب تقوی،مشفق استاذ کا سایہ بہت بڑی سعادت اور ان کی وفات بڑی محرومی اور عظیم نقصان ہے۔ آپ کی ذات ستودہ صفات بہت سی علمی و عملی خوبیوں کا مظہر تھی۔رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ، افادات درس ترمذی ’تحفۃ المعی‘ افادات درس بخاری’تحفۃ القاری‘ زبدۃ الطحاوی،داڑھی اور انبیا کی سنتیں، حرمت مصاہرت، العون الکبیر وغیرہ ان کی بہترین تصنیفات ہیں، ان کے علاوہ انھوں نے متعدد علمی و فقہی کتابیں لکھی ہیں۔
مولانا موصوف کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے ابتدا سے تا حیات ناظم عمومی رہے، انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں بوقت ضرورت فتاوی نویسی فرمائی اور اہم فتاوی کے جوابات کی نگرانی فرماتے۔ آپ نے ہمیشہ جمعیت علمائے ہند اور اکابر جمعیت سے خصوصی تعلق رکھا اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1384 ھ(1965) میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت میں درجہ علیا کے استاذ مقرر ہوئے، تو وہاں جمعیت علما کی سرگرمیوں سے باضابطہ وابستہ ہوئے اور مسلسل نو سال تک جمعیت علمائے راندیر کے ناظم بھی رہے۔حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی ؒ ان سے مشورہ فرماتے اور جب بھی مباحث فقہیہ جمعیت علمائے ہند کے اجتماعات منعقد ہوتے، ان کو خصوصی طور سے مدعو فرماتے۔حضرت مولانا سال گزشتہ بھی مباحث فقہیہ کے اجتماع میں شریک ہوئے، وہ فقہ حنفی کے برصغیر میں نامور عالموں میں تھے اور دلائل کی قوت سے مسلک احناف کو عصر حاضر کے مسائل کا بہتر ین حل کے طور پر پیش کرتے۔
جمعیت علما حضرت مولانا کے پسماندگان سے دلی ہمدرردی ظاہر کرتی ہے اور دست بہ دعا ہے کہ اللہ تعالی آ پ کو زمرہ صالحین میں مقام اعلی عطا فرمائے اور انبیا و صدیقین کا رفیق بنائے، نیز اہل خاندان، اولادو رفقا،ہزارہا تلامذہ اور ہم متوسلین کو صبرو استقامت کے ساتھ اس غم کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جمعیت علمائے ہند اپنے تمام جماعتی احباب،دینی مدارس کے ذمہ داروں سے مولانا مرحوم کے لیے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کے اہتمام کی اپیل کرتی ہے۔ ممبئی میں صبح حضرت مولانا موصوف کی انتقال کی خبر موصول ہوتے ہی جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے دیوبند میں ان کے گھر جا کر برادر خورد حضرت مفتی امین پالن پوری صاحب اور مفتی صاحب مرحوم کے صاحبزادگان و دیگر اہل خانہ سے تعزیت مسنونہ پیش کی۔ نئی دہلی میں جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں بعد نماز ظہر ایک تعزیتی نشست بھی منعقد ہوئی، جس میں دعائے مغفرت کی گئی،اس میں جمعیت علمائے ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا کلیم الدین قاسمی، مولانا عرفان، مولانا نجیب اللہ قاسمی، مولانا ضیاء اللہ قاسمی، مولانا یاسین جہازی،مولانا عظیم اللہ قاسمی سمیت دفتر میں موجود سبھی اسٹاف شریک ہوئے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ جمعیت علمائے ہند سے فکری اور عملی دونوں طور پر وابستہ رہے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت استاذ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیع عنایت کرے۔ آمین۔  

15 May 2020

لنگی امام، پائجامہ امام

لنگی امام، پائجامہ امام
محمد یاسین جہازی
شروع رمضان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوا۔ ویڈیو میں ایک لنگی پہنا شخص امامت کرارہا ہے، جب کہ اس کے پیچھے برقعے میں دو عورتیں اقتدا کر رہی ہیں۔ امام و مقتدیوں کے درمیان میں ایک بچہ امام صاحب کی لنگی سے کھیل رہا ہے۔ کھیلتے کھیلتے امام صاحب کی لنگی میں گھس جاتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر پیچھے کھڑی دونوں مقتدیاں ہنسی کو قابو میں نہیں رکھ پاتیں اور نماز دوڑ دیتی ہیں۔ بعد ازاں لنگی امام بھی نمازتوڑ دیتا ہے، جس کے بعد ایک قہقہ بار ماحول پیدا ہوکرویڈیو ختم ہوجاتا ہے۔
اب تک تو ’پائجامہ شخص‘، ’پائجامہ امام‘ ہی کا محاورہ سنتے پڑھتے تھے؛ لیکن اس واقعہ سے ’لنگی امام‘ کا محاورہ بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے۔
اسلام میں ’امامت‘ کا تصور بہت اعلیٰ ہے۔ امام کا حقیقی مصداق وہی شخص ہوسکتا ہے،جو دینی و سیاسی؛ تمام امور میں مکمل بصیرت رکھتا ہے۔ امامت کا امتیاز یہ ہے کہ اسی کے فیصلہ پر جملہ دینی امور اور سبھی سیاسی معاملے انجام پذیر ہوتے ہیں۔ امام کے آوامر اور اس کے نواہی دونوں فیصلے کا درجہ رکھتے ہیں؛ قصہ مختصر یہ ہے کہ انسان کی دنیوی و اخری زندگی کے لیے امام ہیئت حاکمہ ہوتا ہے۔
لیکن آج ہم نے امامت کا مفہوم اور اس کے کردار کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔آج ہمارے لیے امام محض تنخواہ یافتہ ایک ملازم بن کر رہ گیا ہے، اماموں کے پاس نہ دینی رہنمائی کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی سیاست کے سین سے واقف ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ معاشرے میں امام کی حیثیت صرف نماز پڑھانے اور دعا درودکرنے کی رہ گئی ہے۔امامت کے مقام و مرتبہ کو اس حد تک گرانے میں جہاں مقتدیوں کی غلطی ہے، وہیں امام بھی اس کے کم ذمہ دار نہیں ہیں۔اور شاید انھیں حالات کی وجہ سے جمعیت علمائے ہند کوآج سے چھیانوے سال پہلے درج ذیل تجویز پاس کرنی پڑی تھی:
”تجویز نمبر-6۔ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اِس امر واقع کو دیکھتے ہوئے کہ قصبات و دیہات میں مساجد کے امام ہی قصبوں اور گاؤں کے مذہبی مقتدا سمجھے جاتے ہیں اور اِن کی مذہبی ضروریات کے متکفل ہوتے ہیں، لیکن اکثر امام محض جاہل اور بندہئ زر ہوتے ہیں، اِس وجہ سے مسلمانوں کی مذہبی حالت میں ترقی ہونے کی بجائے روز بروز تنزل اور انحطاط ہوتا جاتا ہے، تمام قصبات و دیہات کے مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ اپنی مساجد میں امام مقرر کرتے وقت مقامی یا اپنے سے قریب تر دفتر جمعیت علما کے مشورہ اور استصواب کے بعد امام مقرر کیا کریں، تاکہ اِن کو اچھے واقف کار امام میسر ہوں اور مساجد کے اماموں سے یہ درخواست کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو نماز اور روزہ اور اسلام کے دیگر ضروری مسائل کی سیدھی سادی تعلیم دیتے رہا کریں۔“ (تجاویز ساتواں اجلاس عام جمعیت علمائے ہند، منعقدہ11 تا 14مارچ1926 ، کلکتہ، جمعیت علمائے ہند کے سو سال قدم بہ قدم جلد دوم، ص/ 90غیر مطبوعہ)

اسی طرح بعض امام نماز، وقت اور مقتدیوں کی نفسیات سے بالکل عاری ہوتے ہیں، انھیں یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ کس وقت حدر کی تلاوت سے نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے اور کہاں ترتیل کی ضرورت ہے۔ موسم کی سختی و گرمی کے اعتبار سے نماز میں اختصار سے کام لینا چاہیے یا لمبی نماز زیادہ مناسب ہوگی۔سری دعا کا موقع ہے یا جہری دعا ہونی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے امام بالعموم مقتدیوں کی نفسیات اور مقتضیات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نمازیوں کو مسجد سے متنفر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
دراصل ایسے افراد امام کم ہوتے ہیں اور پائجامہ زیادہ؛ اس لیے راقم کا بھی یہی مشورہ ہے کہ آپ اپنی مسجد میں امام کا تقرر کرتے وقت درج بالا تجویز پر ضرور عمل کریں؛ ورنہ آپ جس کی اقتدا کریں گے، وہ امام کم اور پائجامہ زیادہ ہوگا۔ یہ سطور خودی کے محاسبہ کی بھی دعوت دیتی ہیں کہ اب تک آپ جس کی اقتدا کرتے آئے ہیں، وہ امام ہیں یا پائجامہ……؟

10 May 2020

میں پوچھتا ہوں وہ تیسرا آدمی کون ہے؟

میں پوچھتا ہوں وہ تیسرا آدمی کون ہے؟
محمد یاسین جہازی
کورونا وائرس کی روک تھام کے بہانے حکمت و مصلحت سے خالی اچانک لاک ڈاون کردینے کی وجہ سے محنت کش اور مزدور طبقے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ پہلی بار جب اکیس دن کا لاک ڈاون لگایا گیا، تو مزدوروں نے کسی طرح صبر کرکے وقت گذار لیا، لیکن اس کے بعد پھر انیس دن کا اضافہ کردیا۔ اور ابھی اضافہ کے یہ دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ پھر چودہ دن اور بڑھادیا۔ اور ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ یہ تیسرا اضافہ آخری اضافہ ہوگا۔ بار بار لاک ڈاون بڑھانے کی وجہ سے مزدوروں کے پیسے اور کھانے پینے کی چیزیں ختم ہوگئیں، تو ان کا صبر ٹوٹنے لگا اور انھوں نے خالی پیٹ اور ننگے پیر سفر کرنا شروع کردیا اور اپنے گاوں پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔ چنانچہ پہلے انھوں نے سڑک اور ہائیوے کا سہارا لیا، تو پولیس کے تشددکے نشانہ بننے لگے۔پھر انھوں نے اپنی جان کو جوکھم میں ڈالتے ہوئے ریل پٹریوں کو راستہ بنایا، تو یہاں بھی پولیس کی لاٹھی ڈنڈوں نے ان کا استقبال کیا۔ان تمام دشواریوں کے باوجود مزدوروں نے اپنی ہمت نہیں ہاری اور اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی سلسلہ کے سترہ مسافروں نے مہاراشٹر کے شہر جالنا سے پٹری پٹری چلتے ہوئے مدھیہ پردیش آنے کا فیصلہ کیا۔ اور ساتھ میں ایک سو پچاس روٹی اور دال زاد سفر رکھ لیا۔ ریل کی پتھریلی زمین پر، بھوک اور دھوپ کی سختی کو برداشت کرتے ہوئے جالنا سے پینتیس کلو میٹر پیدل چلتے چلتے جب تھک کر چور ہوگئے تو کچھ روٹیاں کھاکر ریل کی پٹری کو تکیہ بناکر سو گئے۔
 8مئی 2020کو جمعہ کے دن صبح کاذب کے وقت گڑگڑاتی ہوئی ایک مال ریل گاڑی آئی اور ان پچاس روٹی والے سترہ مزدوروں میں سے سولہ مزدوروں کو روندتی ہوئی چلی گئی۔ ٹرین گذرنے کے بعد کیمرے نے جو مناظر قید کیے، وہ یہ تھے کہ چاروں طرف خون کے چھینٹوں سے زمین لالہ زار ہوچکی تھی،جگہ جگہ گوشت کے لتھڑے بھیانک درندگی کے وحشت انگیزنظارہ پیش کر رہے تھے، چند روٹیاں اوربکھری دال کے دانے مزدوروں کی داستان بے ستون بیان کر رہے تھے۔ یہ مزدور جن روٹیوں کی تلاش کے لیے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دیار غیر گئے تھے، اور وہاں سے ایک سو پچاس روٹیوں کی گھٹری لے کر اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھے، وہ روٹی بھی ان کو نصیب نہ ہوسکی۔
جب سے لاک ڈاون ہوا ہے، تب سے اس قسم کے کئی بھیانک مناظر سامنے آچکے ہیں، جہاں مزدور طبقہ بھوک سے مرجانے کے خوف سے ہزاروں کلو میٹر بھوکا پیاسا پیدل چلنے پر مجبور ہے۔ اس طبقہ کے لیے نہ تو سرکارکی طرف سے دو وقت کھانے کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ان کے گھر تک پہنچانے کے لیے کسی معقول سواری کا انتظام ہے، جس کے نتیجے میں ہائیوے کے کنارے پیدل چلنے کی وجہ سے ٹرک ان کی جان لے رہے ہیں اور ریل پٹری پر چلنے سے ریل گاڑیاں ان کی جان کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ میڈیا کے توسط سے ہزاروں کی تعداد میں فیڈ بیک ملنے کے باوجود سرکار کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر ان مزدور طبقوں کا اصلی دشمن کون ہے، جو ان کے خوفناک حالات کو دیکھنے کے باوجود ان کے تحفظات کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھارہا ہے۔ سوداما پانڈے دھومل لکھتے ہیں کہ
ایک آدمی روٹی بیلتا ہے
ایک آدمی روٹی کھاتا ہے
ایک تیسرا آدمی بھی ہے
جو نہ روٹی بیلتا ہے، نہ روٹی کھاتا ہے
وہ صرف روٹی سے کھیلتا ہے
میں پوچھتا ہوں
یہ تیسرا آدمی کون ہے؟
میرے دیش کی سنسد مون ہے
بس جواب مل گیا کہ ان تمام حادثوں اور خوفناک مناظر کا اصلی ذمہ دار بھارت کا سسٹم ہے۔ بھارت کی موجودہ بی جے پی کی سرکار ہے، جو شہروں کو روٹی فراہم کرنے والے مزدوروں کی روٹیوں سے کھیلواڑ کر رہی ہے۔یہ سرکار حکومت کے نشے میں اتنے چور اور مغرور ہوگئی ہے کہ اسے مزدوروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اتنا غرور بھی اچھا نہیں ہے۔ان مزدوروں اور بے سہاروں کی آہ سے ڈریے اور ان کے کھانے پینے اور آمدورفت کا معقول انتظام کیجیے؛ ورنہ ایک دن ان مظلوموں کی آہ تمھارے وجود کو خاکستر کرکے رکھ دے گی؛ کیوں کہ یہی قانون فطرت ہے۔