18 Oct 2018

Ahkam ke itabar se Pani ke Aqsam

احکام کے اعتبار سے پانی کے اقسام 

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (23) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
پانی پانچ طرح کا ہوتا ہے : 
اول: طاہر مطہر غیر مکروہ، یعنی بلا کراہت پاک کرنے والا پانی ۔ اور وہ مطلق پانی ہے جس کا حال اوپر بیان ہوا۔ 
دوسرا: طاہر مطہر مکروہ ہے، یعنی کراہت کے ساتھ پاک کرنے والا۔ اور وہ بلی وغیرہ کا جھوٹا پانی ہے ، اس لیے کہ قاعدہ کے مطابق بلی کا جھوٹا نجس ہونا چاہیے، اس لیے کہ بلی کا گوشت نجس حرام ہے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
السنور سبع۔ (رواہ الحاکم و صححہ)
بلی درندہ ہے۔ 
اور درندہ حرام ہے ، لہذا بلی حرام ہے اور حرام گوشت سے جو لعاب پیدا ہوتا ہے، وہ نجس ہوتا ہے ، اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: 
طھور الاناء اذا ولغ فیہ الھر ان یغسل مرۃ او مرتین۔ (رواہ دار قطنی و صححہ)
جب برتن میں بلی منھ ڈالے تو ایک دو مربتہ دھونے سے برتن پاک ہوجاتا ہے۔ 
مگر بلی چوں کہ اکثر گھروں میں رہتی ہے اور بسا اوقات برتنوں میں منھ ڈالتی ہے ، اس لیے دفع حرج کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا: 
انھا لیست بنجس انھا من الطوافین علیکم ۔ (رواہ مالک و احمد و ترمذی وغیرہ، قال الترمذی حسن صحیح) 
بلی کا جھوٹا نجس نہیں ہے ، یہ گھروں میں پھرنے والی ہے ۔ 
اس لیے طہارت کے ساتھ کراہت کا حکم لگایا۔ 
تیسرا: طاہر غیر مطہر ہے ، یعنی خود پاک مگر دوسرے کو پاک کرنے والا نہ ہو اور وہ مستعمل پانی ہے ۔ مستعمل وہ پانی ہے جس سے حدث کا ازالہ ہوا ہو یا ثواب حاصل ہوا ہو، جب کہ وہ بدن سے جدا ہوگیا ہو۔ جیسے بے وضو والے کا وضو یا وضو پر وضو ثواب کی نیت سے ۔ 
اگر پہلے سے وضو ہو اور پھر بغیر نیت کے وضو کرے تو وہ مستعمل پانی نہ ہوگا، کیوں کہ نہ اس سے حدث کا ازالہ ہوا اور نہ ثواب حاصل ہوا۔ حدث کا ازالہ اس لیے نہیں ہوا کہ پاک ہونے کی وجہ سے حدث کا وجود ہی نہیں ہے، جس سے اس کا ازالہ ہوتا۔ اور نیت نہ ہونے کی وجہ سے ثواب بھی حاصل نہیں ہوا، کیوں کہ ثواب کا مدار نیت پر ہے۔ انما الاعمال بالنیات۔ ثواب کا مدار نیت پر ہے، لہذا وہ مستعمل نہ ہوگا۔ مستعمل پانی اس لیے پاک ہے کہ اگر مستعمل پانی ناپاک ہوتا تو آں حضرت ﷺ کے مستعمل پانی کو صحابہ کرامؓ اس طرح نہ لیتے اور اپنے بدن پر نہ ملتے۔ حضرت ابو جحیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپﷺ کے لیے وضو کا پانی لایا گیا۔ آپ ﷺ نے وضو کیا تو لوگ آپ ﷺ کے وضو کے پانی کو لینے لگے اور اپنے بدن میں ملنے لگے ۔ (بخاری) 
اور بخاری کی ہی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ 
اذا توضأ النبی ﷺ کادوا یقتتلون علیٰ وضوۂ۔ 
جب نبی کریم ﷺ وضو فرماتے تو آپ ﷺ کے وضو کے پانی پر صحابہ کرام ایسا ہجوم کرتے کہ معلوم ہوتا کہ اب لڑ پڑیں گے۔ 
اس سے واضح ہوگیا کہ مستعمل پانی پاک ہے ، مگر پاک کرنے والا نہیں ہے ۔ وہ اس طرح معلوم ہوا کہ آج تک کسی سے نہیں سنا اور نہ کسی حدیث میں دیکھا گیا کہ صحابہ کرامؓ نے مستعمل پانی سے دوبارہ وضو کیا ہو، یا مستمل پانی کو رکھ چھوڑا ہو اور ضرورت کے وقت کھانے پینے یا وضو کرنے میں کام لایا ہو۔ اگر طاہر مطہر ہوتا تو ضرورت کے وقت ایسا ضرور کرتے ، کیوں کہ سفر میں بسااوقات پانی کی قلت کی وجہ سے مجبور ہوجاتے اور دربار نبوت میں شکایت ہوتی اور پھر معجزات کا ظہور ہوتا۔ 
چوتھا: نجس پانی ہے 
ان الماء طھور لاینجسہ شئی۔ 
بے شک پانی پاک ہے کوئی چیز اس کو نجس نہیں کرتی 
اس حدیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ پانی خواہ کتنا ہی قلیل ہو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو آں حضرت ﷺ یہ نہ فرماتے: 
لایبولن احدکم فی الماء الدائم الذی لایجری ثم یغتسل فیہ۔ (بخاری و مسلم)
تم میں سے کوئی رکے ہوئے پانی میں جو کہ بہتا نہیں ہے ہرگز پیشاب نہ کرے ، پھر اس میں نہائے ۔ (یہ حدیث مشہور ہے ، نور الہدایہ)
معلوم ہوا جب کہ پانی جاری نہ ہو تو پیشاب کرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے ، اس لیے آپ ﷺ نے اس میں پیشاب کرنے سے سختی سے منع کیا۔اور بھی آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا استیقظ احدکم من نومہ فلایغمس یدہ فی الاناء حتّٰی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ۔ (بخاری و مسلم) 
جب تم میں سے کوئی سوکر اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، یہاں تک کہ اس کو تین مرتبہ دھو ڈالے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا ہے کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں کہاں پہنچا ہے۔ (اور یہ حدیث بھی مشہور ہے۔ نور الہدایہ۔ اور مسند بزار میں ہے فلا یغمس یدہ فی طھورہ (اپنا ہاتھ پانی میں ہرگز نہ ڈالے)
اس حدیث سے واضح ہوگیا ہے کہ تھوڑی نجاست بھی پانی کو نجس کرنے کے لیے کافی ہے ، اس لیے کہ ڈھیلے سے استنجا کرنے کے بعد مقعد میں نجاست قلیل ہی رہے گی ۔ پھر اس قلیل میں سے ہاتھ میں جو نجاست لگے گی وہ اور بھی بہت زیادہ کم ہوگی۔ مگر اس کے باوجودچوں کہ وہ بھی پانی کو نجس کرنے کے لیے کافی تھا، اس لیے آپ ﷺ نے سوکر اٹھنے کے بعد پانی میں ہاتھ ڈالنے سے منع فرمایا اور اس کو تین بار دھو ڈالنے کا حکم فرمایا۔ اور اس سے یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ پانی میں نجاست کا اثر ظاہر ہو یا نہ ہوپانی ناپاک ہوگا، اس لیے کہ اتنی قلیل نجاست کا اثر جب کہ ہاتھ میں بھی ظاہر نہیں ہورہا ہے تو پانی میں کس طرح ظاہر ہوگا۔ 
معلوم ہوا تھوڑا پانی جیسے برتن کا پانی اور غیر جاری پانی نجاست کے پڑنے سے ناپاک ہوجاتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ رکا ہوا پانی خواہ کتنا ہی ہو نجاست کے پڑنے سے ناپاک ہوجاتا ہے ؛ بلکہ اس سے مراد وہ پانی ہے جو دہ در دہ سے کم ہو۔ اگر دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا پانی پھیلاؤ میں ہو یا اس سے زیادہ ہو اور اتنا گہرا ہو کہ چلو بھرنے سے زمین نہ کھلے تو وہ بڑے حوض اور تالاب میں شمار ہوتا ہے اور وہی پانی کثیر کہلاتا ہے اور اسی پانی کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
ان الماء طھور لاینجسہ شئی۔ 
کثیر پانی ایسا پاک ہے کہ اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ 
چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ 
انتھیت الیٰ غدیر فاذا فیہ حمار میت فکففنا عنہ حتیٰ انتھیٰ الینا رسول اللّٰہ ﷺ فقال: ان الماء لاینجسہ شئی فاستقینا و اروینا و حملنا (ابن ماجہ)
میں ایک تالاب پر پہنچا تو دیکھتا کیا ہوں کہ اس میں ایک گدھا مرا پڑا ہے ، تو ہم اس سے رک گئے ، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ پھر تو ہم نے پیا ، جانوروں کو پلایااور لاد لیا ۔ 
اس حدیث میں گرچہ دہ در دہ کا تذکرہ نہیں ہے ، لیکن اتنا معلوم ہوا کہ تالاب کا پانی نجاست کے پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا۔ اور تالاب کا پانی کثیر پانی میں داخل ہے ، کیوں کہ تالاب حوض سے کہیں بڑا ہوتا ہے ۔ اور دہ در دہ کا ثبوت ایک دوسری حدیث سے ہوتا ہے ۔ اور وہ یہ کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
حریم البئر اربعون ذراعا من جوانبھا کلھا۔ (احمد)
کنواں کا حریم چالیس ہاتھ ہے ہر جانب سے۔ 
حریم ہر وہ جگہ، جس کی حفاظت واجب ہو، یعنی کنویں کی حفاظت ہر طرف سے دس دس ہاتھ ہونی چاہیے۔ اس کے اندر نہ کوئی دوسرا کنواں کھودے اور نہ نجاست کا گڑھا کھودے ، کیوں کہ دس ہاتھ کے اندر کی چیزوں کا اثر کنویں میں پہنچتا ہے ۔ اس سے معلوم ہو اکہ دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑاؤ میں پانی پھیلا ہوا ہو تو اس میں نجاست کا اثر نہ پہنچے گااور اتنا پانی کثیر کہلاتا ہے ۔ اگر دو مٹکے پانی دس ہاتھ لمبائی چوڑائی میں پھیلا ہوا ہو تو اس میں بھی نجاست کا اثر ہر طرف نہ پہنچے گااور وہ بھی کثیر پانی میں شمار ہوگا۔ لیکن اگر دس ہاتھ لمبا چوڑا پانی نہ ہو تو وہ قلیل پانی ہے اور نجاست پڑنے سے نجس ہوگا ۔ اگر ایسی بات نہ ہوئی تو پھر کنواں کبھی ناپاک نہ ہوتا اور نہ اس کے صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ۔ کیوں کہ اس میں دو مٹکے سے کہیں زیادہ پانی ہوتا ہے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے اس کے پاک کرنے کا حکم دیا ہے ، چنانچہ ابن سیرین سے مروی ہے کہ 
ان زنجیا وقع فی بئر زمزم یعنی مات فامر بہ ابن عباس فاخرج و امر بھا ان تنزح قال: فغلبتھم عین جاء ت من الرکن، قال فامر بھا فدست بالقباطی والمطارف حتیٰ نزحوھا فلما نزحوھا انفجرت علیھم۔ (رواہ الدار قطنی مرسلا، قال العلامۃ النیموی اسنادہ صحیح و رواہ ابن ابی شیبہ نحوہ و اسنادہ صحیح) 
ایک حبشی زمزم کے کنویں میں گرا پھر مرگیا، تو حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے پانی نکالنے کا حکم دیا۔ پانی نکالنے لگے تو ایک جھرنے نے جو رکن یمانی کی طرف سے آتا تھا، لوگوں کو پانی نکالنے سے عاجز کردیا، تو کپڑے وغیرہ سے اس کو بند کرنے کا حکم دیا۔ پھر بند کرکے اس کا تمام پانی کھینچا۔ کھینچنے کے بعد وہ جھرنا پھر پھوٹ پڑا۔ 
اور حضرت عطا سے مروی ہے کہ 
ان حبشیا وقع فی زمزم فمات فامر عبد اللہ بن زبیر فنزح ماؤھا فجعل الماء لاینقطع فنظر فاذا ھی عین تجری من قبل الحجر الاسود فقال ابن الزبیر حسبکم (رواہ الطحاوی و اسنادہ صحیح باعتراف الشیخ تقی الدین بن دقیق العید بہ فی الامام)
ایک حبشی زمزم میں گرا، پس وہ مرگیا تو عبد اللہ بن زبیر نے حکم دیا ، پس اس کا پانی کھینچا گیا ، تو پانی ٹوٹتا نہیں تھا، پھر دیکھا کہ حجر اسود کی طرف سے ایک سوت بہہ رہا ہے ، تو حضرت عبد اللہ بن زبیر نے کہا بس کافی ہے ۔ 
بات واضح ہوگئی کہ صرف دو مٹکے پانی جب کہ وہ دس ہاتھ میں پھیلا ہوا نہ ہو تو وہ نجس ہوتا ہے اور جہاں حدیث میں ہے کہ دو مٹکے پانی نجاست کو برداشت نہیں کرتا، اس سے وہی مراد ہے کہ اتنا پانی پھیلا ہوا دہ در دہ میں ہو۔دو چار ہاتھ میں مجتمع نہ ہو، ورنہ کنواں صاف کرنے کی حاجت نہ ہوتی اور نہ اس قدر دقت اٹھائی جاتی۔ بئر بضاعہ سے کسی کو دھوکا نہ ہونا چاہیے ، کیوں کہ اس کا پانی جاری تھا۔ چنانچہ واقدی کا بیان ہے کہ 
ان بئر بضاعۃ کانت فیہ طریقا للماء الیٰ البساطین فکان الماء لایستقر فیھا فکان حکم ماءھا کحکم ماء الانھار۔ (طحاوی) 
بضاعہ کے کنویں میں پانی کا راستہ تھا، جو باغوں کی طرف جاتا تھا، اس لیے اس میں پانی ٹھہرتا نہیں تھا ، لہذا اس کے پانی کا حکم وہی ہوگا جو نہر کے پانی کا حکم ہے۔ 
چنانچہ بضاعہ کے کنویں کے بارے میں سوال کرنے پرکہ اس میں کتے، حیض کے کپڑے اور گندی چیز ڈالی جاتی ہے، آں حضرت ﷺ نے فرمایا: کہ بضاعہ کا پانی پاک ہے اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ لہذا بضاعہ کی حدیث سے کنویں کے پاک رہنے پر دلیل پکڑنا غلط ہے۔ خلاصہ یہ کہ جاری پانی یا جو جاری پانی کے حکم میں ہے ، یعنی بڑے حوض اور تالاب کا پانی جو کم از کم دہ در دہ ہو ، نجاست کے پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا ہے، جب تک کہ نجاست کا پانی پر اثر ظاہر نہ ہو ۔ جو پانی گھاس تنکے پتے کو بہا لے جائے ، وہ بہتا پانی ہے ، خواہ وہ کتنا ہی آہستہ آہستہ بہتا ہو۔ اثر ظاہر ہونے پر بہتا پانی بھی ناپاک ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
الماء لاینجسہ شئی الا ما غلب علیٰ لونہ او طعمہ او ریحہ۔ (رواہ الطحاوی والدار قطنی مرسلا و صح ابو حاتم ارسالہ)
پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی، مگر یہ کہ اس کے رنگ یا مزہ یا اس کی بو پر نجاست غالب آجائے۔
اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ 
الماء طھور الا ان یغیر ریحہ او طعمہ او لونہ بنجاسۃ تحدث فیہ۔ (بلوغ المرام)
پانی پاک ہے مگر یہ کہ بدل جائے اس کی بو یا مزہ یا رنگ اس نجاست کی وجہ سے جو اس میں پڑتی ہے۔ 
پانچواں : مشکوک پانی ہے۔ مشکوک وہ پانی ہے جس کی نجاست اور طہارت دونوں پر دلیل ہو اور کسی ایک دلیل کا رجحان نہ ہو، دونوں دلیلیں برابر ہوں۔ اور وہ گدھے اور خچر کا جھوٹا پانی ہے جو قلیل ہو۔ گدھے کے گوشت کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ، اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ خیبر میں پالتو گدھے کے گوشت سے منع فرمایا، یعنی پہلے گدھے کا گوشت کھانا حلال تھا جنگ خیبر کے موقع پر آپ ﷺ نے اس کے حرام ہونے کا اعلان کیا۔ اور ہانڈیوں میں جو گدھے کا گوشت ابل رہا تھا ، ان ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: گدھے کا گوشت نجس ہے ۔ 
عن انسؓ قال: لما کان یوم خیبر امر رسول اللّٰہ ﷺ ابا طلحۃ فنادیٰ ان اللّٰہ و رسولہ ینھا کم عن لحوم الحمر الاھلیۃ فانھا رجس (متفق علیہ، بلوغ المرام)
مگر شک اس کے جھوٹے میں ہے، اس لیے کہ اس کے گوشت کی نجاست اس کے لعاب کے نجس ہونے پر دلالت کرتی ہے ، کیوں کہ نجس گوشت کا لعاب نجس ہوتا ہے ۔ مگر اس کا گھروں میں رہنا اور آنا جانا، برتنوں میں منھ ڈالنا، اس بات کی دلیل ہے کہ دفع حرج کے لیے اس کا جھوٹا بلی کی طرح پاک ہو، مگر چوں کہ اس کا بلی کی طرح کثرت سے گھروں میں آنا جانا اور برتنوں میں منھ ڈالنا نہیں ہوتا ہے، اس لیے اس کے جھوٹے کے طاہر ہونے میں شک ہوجاتا ہے ، اس لیے اس کا جھوٹا مشکوک ہے۔

17 Oct 2018

Pani ka Bayan

پانی کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (22) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
خواہ پانی سمندر کا ہو یا ندی ، نہر اور تالاب کا ہو ، یا کنویں، جھرنے اور بارش کا ہو ، یا صرف برف ، اولے کا پگھلا ہوا پانی؛ جو پانی ہے اس سے وضو غسل جائز ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ 
فلم یجدوا ماء ا فتیمموا صعیدا طیبا (النساء، آیۃ :۴۳ )
پس تم پانی نہ پاؤ تو پاک زمین سے تیمم کرو۔ 
معلوم ہوا کہ پانی ملنے پر وضو غسل ہے خواہ وہ پانی کہیں کا ہو، جب تک پانی پانی ہے، اس سے وضو غسل ہے اور جب پانی پانی نہ رہے، آگ میں پکانے سے، یا کوئی چیز ملانے سے وہ شوربہ یا شربت وغیرہ بن جائے تو اس سے وضو غسل جائز نہ ہوگا۔ اسی طرح درخت یا پھل یا پتوں سے نچوڑے ہوئے پانی سے وضو غسل جائز نہیں ہے ، اس وقت تیمم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کے پانی کے بارے میں فرمایا: 
و ینزل علیکم من السماء مآء ا لیطھرکم بہ (انفال،۱۱)
اور وہ آسمان سے تم پر پانی برساتا ہے تاکہ تم کو اس سے پاک کرے۔ 
آں حضرت ﷺ کا ایک تالاب پر گذر ہوا، تو صحابہ کرام نے آں حضرت ﷺ سے پوچھا : اس میں کتے اور درندے منھ ڈالتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کتے اور درندے کا وہ ہے جو اس نے اپنے پیٹ میں ڈالے ، تم پیو اور وضو کرو۔ (ابن ابی شیبہ)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آں حضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم بضاعہ کے کنویں کے پانی سے وضو کریں، جس میں کتے اور حیض کے کپڑے اور بدبودار چیزیں ڈالتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: پانی پاک کرنے کی چیز ہے، اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ (ابو داؤد، ترمذی) اور اس حدیث کو ترمذی، ابن قطان اور امام احمد نے حسن کہا ہے (نور الہدایہ، ص؍۳۷)
اور ایک شخص نے پوچھا آں حضرت ﷺ سے کہ ائے اللہ کے رسول! دریا میں سوار ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی رکھتے ہیں ، اگر ہم وضو کریں، تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا دریا کے پانی سے وضو کریں، تو آپﷺ نے فرمایا: 
ھو الطھور ماۂ والحل میتتہ۔ (اخرجہ الاربعۃ و صححہ ابن خزیمہ، از بلوغ المرام) 
سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کی مچھلی حلال ہے۔ امام ترمذی نے کہا میں نے محمد ابن اسماعیل سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍ ۳۷)
قرآن کی آیت اور ان احادیث سے معلوم ہوا کہ پانی سے طہارت حاصل ہوتی ہے ، خواہ آسمان سے اترا ہو یا زمین سے نکلا ہو ، سمندر یا تالاب میں ہو، ندی ، نالے، یا کھیت کیاری میں ہو ، یا کہیں اور جگہ میں ہو۔ جب پانی ہے تو اس سے وضو غسل جائز ہے ۔ اگر اس میں تھوڑی بہت کوئی چیز ملی ہو تو اس سے کچھ حرج نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن ایک برتن سے غسل کیا جس میں آٹے کا اثر تھا۔ (نسائی، نور الہدایہ؍۳۷)۔ معلوم ہوا کہ اگر پانی میں آٹا یا مٹی یا کوئی دوسری منجمد چیز مل جائے ، مگر پانی پتلا یا بہنے والا رہے تو کچھ حرج نہیں ۔ البتہ جب پانی پر دوسری چیزیں غالب آجائیں تو وہ پانی کے حکم سے خارج ہوجاتا ہے اور اس کے غلبے کی چند صورتیں ہیں: 
اول: یہ کہ کوئی منجمد چیز پانی میں ملے اور اتنی ملے کہ پانی گاڑھا ہوجائے ، اس میں رقت اور سیلان نہ رہے ، تو غیر کا غلبہ سمجھا جائے گا۔
دوسری: یہ کہ پانی میں کوئی پانی کی طرح پتلی چیز ملے تو اس چیز کے اوصاف پر نظر ہوگی، اگر اس کے اندر تین وصف ہیں تو وصف کے ظاہر ہونے پر غلبہ ہوگا جیسے سرکہ کہ اس میں رنگ، بو اور مزہ تینوں وصف ہیں۔ اگر اتنا سرکہ پانی میں ملے کہ پانی کا رنگ اور مزہ بدل جائے تو اس وقت وہ سرکہ کے حکم میں ہوگا، پانی نہ کہلائے گا۔ اور اگر اس کے اندر ایک یا دو وصف ہیں تو ایک وصف کے ظاہر ہونے سے اس کا غلبہ سمجھا جائے گا، جیسے کہ دودھ اس میں رنگ اور مزہ ہے ،بو نہیں ہے ، تو پانی میں اتنا دودھ ملے کہ پانی سفید ہوجائے تو وہ دودھ کے حکم میں ہوگا پانی نہ کہلائے گا۔ اور اگر اس کے اندر کوئی وصف نہیں ہے جیسے عرق گلاب جس کی بواڑچکی ہے ، یا مستعمل پانی تو اس صورت میں وزن کا لحاظ ہوگا۔ جب ایک سیر پانی میں سیر بھر سے زائد مستعمل پانی یا عرق گلاب ملے تو اس کا غلبہ سمجھا جائے گا اور وہ پانی کے حکم میں نہ رہے گا، اس لیے کہ قانون ہے کہ للاکثر حکم الکل: اکثر کا وہی حکم ہوتا ہے جو کل کا۔ 
اگر سادہ پانی پکایا یا گرمایا جائے یا اس میں ایک آدھ مٹھی پتے صفائی کے لیے دے دیے جائیں تو اس سے وضو غسل جائز ہے ۔ 
عن ابن عباس قال: لابأس ان یغتسل بالحمیم و یتوضأ منہ۔ (رواہ عبد الرزاق بسند صحیح) 
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا: گرم پانی سے نہانے اور ضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ 
غسل میت کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا: 
بماء و سدر۔ (بخاری و مسلم) 
میت کو پانی اور بیر کے پتے سے غسل دو۔ 
معلوم ہوا مزید صفائی کے لیے بیر کے پتے پانی میں ڈال کر پکایا جائے تو کچھ حرج نہیں۔البتہ اگر پانی میں کوئی چیز ڈال کر اتنا پکایا جائے کہ وہ شوربہ یا عرق کا کاڑھا وغیرہ بن جائے تو پھر اس سے وضو غسل جائز نہ ہوگا۔ اسی طرح درخت اور پھل کے پانی سے وضو غسل جائز نہیں ہے ، کیوں کہ یہ پانی کے حکم میں نہیں ہے۔ اور پہلے بیان ہوچکا کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم ہے۔

16 Oct 2018

Zakham ki Patti par Masah ka Bayan

زخم کی پٹی پر مسح کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (21) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
زخم کو دھونے سے یا اس پر مسح کرنے سے نقصان پہنچتا ہو تو اس زخم پر یا ٹوٹی ہوئی ہڈی پر جو پٹی اور چچری بندھی ہوئی ہو ، اس پر مسح کرنا درست ہے ، خواہ وضو کے بعد اس کو باندھا ہو یا بغیر وضو کے باندھا ہو۔ پٹی کے نیچے زخم ہو یا نہ ہو ہر حال میں پوری پٹی پر مسح کرنا درست ہے ۔ البتہ اگر پٹی کھول کر زخم کے علاوہ جگہ کو دھونا ممکن ہو تو پٹی کو کھول کر باقی جگہ کو دھونا ضروری ہے ، ورنہ پوری پٹی پر مسح کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج ولٰکن یرید لیطھرکم (المائدہ، ۶)
اللہ تعالیٰ تم کو تنگ کرنا نہیں چاہتا ، لیکن تم کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ 
چوں کہ زخم کے دھونے میں یا اس پر مسح کرنے میں حرج ہے ،اس لیے پٹی پر مسح کرنا درست ہے اور اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔ 
عن ابن عمر انہ توضأ و کفہ معصوبۃ فمسح علیھا وعلیٰ العصابۃ و غسل سویٰ ذٰلک۔ (رواہ المنذری باسناد صحیح، زجاجہ ۱۵۰)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے وضو کیا اور آپ ﷺ کی ہتھیلی پر پٹی بندھی ہوئی تھی ، تو آپ ﷺ نے اس پر اور پٹی پر مسح کیا اور باقی عضو کو دھویا۔ 
جب تک زخم اچھا نہ ہوجائے اس وقت تک اس پٹی پر مسح کرنا درست ہے ، خواہ کتنے ہی دن لگ جائیں ۔ اگر اس درمیان میں پٹی کھل بھی جائے تو مسح نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر زخم کے اچھے ہونے پر پٹی کھل جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے ، اس کے بعد عضو کو دھولے۔ 
وضو یا غسل میں زخم دھونے سے نقصان پہنچے، تو زخم پر مسح کرلے۔ اگر مسح کرنا بھی نقصان پہنچائے اور اس پر کوئی پٹی وغیرہ نہ ہو تو اس کو چھوڑ دے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو آں حضرت ﷺ کے زمانہ میں سر میں زخم لگا تھا اور اس کو احتلام ہوا تو اس کو غسل کا حکم کیا گیا، تو اس نے غسل کیا اور اکڑ کے مرگیا اور آں حضرت ﷺ کو اس کی خبر پہنچی۔ عطا نے کہا کہ ہم کو یہ بات پہنچی کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: کاش دھو لیتا اپنا تمام بدن اور اپنا سر جس جگہ زخم لگا تھا اس جگہ کو چھوڑ دیتا ۔ (اس کو ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کی ہے۔ نور الہدایہ؍ ۶۰)
قسط نمبر (22) کے لیے کلک کریں

15 Oct 2018

Nawaqiz-e- Masah

نواقض مسح

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (20) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ

(۱) جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے ، انھیں چیزوں سے مسح بھی ٹوٹتا ہے ۔ 
(۲) کسی ایک پاؤں کو موزہ سے نکال لینے یا پاؤں کے اکثر حصہ کا نکل جانے سے بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے 
(۳) کسی ایک پاؤں میں پانی گھس جائے اور قدم کے اکثر حصہ کو تر کردینے سے بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ 
(۴) مسح کی مدت تمام ہونے سے بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے ۔ 
اگر نواقض وضو سے مسح ٹوٹے تو وضو کرکے دوبارہ موزہ پر مسح کرلے کافی ہے، لیکن بقیہ صورتوں میں اگرپہلے سے وضو ہے تو صرف پاؤں کا دھونا اس پر ضروری ہوگا، باقی وضو کا لوٹانا ضروری نہیں۔ 
عن ابن عمر انہ کان فی غزوۃ فنزع خفیہ و غسل قدمیہ ولم یعد الوضوء (مؤطا امام محمد)
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کسی غزوہ میں شریک تھے تو انھوں نے اپنے دونوں موزوں کو نکالا اور پاؤں کو دھویا اور وضو نہیں دوہرایا۔ 
عمامہ، ٹوپی، دستانے، برقع، اوڑھنی پر مسح جائز نہیں۔
قسط نمبر (21) کے لیے کلک کریں

14 Oct 2018

FARZ MASAH, SUNNAT MASAH

فرض مسح
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (19) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
ہاتھ کی چھوٹی تین انگلی کی مقدار موزہ کے ظاہر حصہ پر مسح کرنا فرض ہے ۔ 
عن علی انہ قال: لو کان الدین بالرأی لکان اسفل الخف اولیٰ بالمسح من اعلاہ و قد رأیت رسول اللّٰہ ﷺ یمسح علیٰ ظاھر خفیہ۔ (رواہ ابو داؤد باسناد حسن و للدارمی معناہ و فی التلخیص اسنادہ صحیح)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اگر دین کا تعلق رائے سے ہوتا تو موزہ کے نچلے حصہ کا مسح کرنا زیادہ مناسب ہوتا اوپر کے حصے کے مسح کرنے سے ، حالاں کہ میں نے موزہ کے اوپر کے حصہ پر رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ 
اگر کسی کے پاؤں کا اگلا حصہ تین انگلی کی مقدار بھی باقی نہ رہے تو اس کے لیے موزہ پر مسح کرنا جائز نہیں ہے، گرچہ ایڑی موجود ہو، کیوں کہ مسح کا محل باقی نہیں رہا۔ 
سنت مسح
اور سنت یہ ہے کہ ہاتھ کی انگلیوں کو پاؤں کی انگلیوں پر رکھے اور کھینچتے ہوئے ٹخنے تک لائے۔ دائیں موزہ پر دایاں ہاتھ اور بائیں موزہ پر بایاں ہاتھ رکھے۔ 
عن المغیرۃ بن شعبۃ قال: رأیت رسولَ اللّٰہ ﷺ بالَ ثم توضأ و مسح علیٰ خفیہ ووضع یدہ الیمنیٰ علیٰ خفہ الیمنیٰ ویدہ الیسریٰ علیٰ خفہ الیسریٰ، ثم مسح اعلاھما مسحۃ واحدۃ حتیٰ کانی انظر الیٰ اصابع رسول اللّٰہ ﷺ علیٰ الخفین۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ و رویٰ البیھقی نحوہ)
حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آں حضرت ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ دائیں موزہ پر رکھا اور بایاں ہاتھ اپنے بائیں موزہ پر رکھا۔ پھر دونوں موزہ کے اوپر والا حصہ پر ایک ہی مرتبہ مسح کیا گویا کہ میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کو موزہ پر دیکھ رہا ہوں ۔

13 Oct 2018

Insan ki insaniat ke taen Zehniat

انسان کی انسانیت کے تئیں ذہنیت
ضرورت ہے کہ انسان اپنی انسانیت کا سبق قرآنی کواکے کردار سے سیکھے
محمد یاسین جہازی، جمعیۃ علماء ہند
9871552408


منطقی اصلاح کے مطابق انسان بھی حیوان کی ہی ایک قسم ہے؛ البتہ حیوان اور انسان میں فرق یہ ہے کہ انسان حیوان ناطق ہے اور حیوان حیوان غیر ناطق۔ اس فرق کے علاوہ ایک اورفرق بھی ہے ، جس کی وجہ سے اسے انسان کہا جاتا ہے۔سماجی ماہرین کا ماننا ہے کہ انسان کی انسانیت کا مظاہرہ اجتماعی زندگی میں ہوتاہے،اور اجتماعیت سماج کی تشکیل کرتی ہے، جس کے باعث حضرت انسان سماجی حیوان بھی کہے جاتے ہیں۔ یہ تینوں(ناطقیت، انسانیت اور سماجیت) خصوصیات انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر تفرق و برتری عطا کرتی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ناطقی صلاحیت کی وجہ سے اپنے ہم جنس اور غیر جنس کے مافی الضمیر کو دیگر کسی بھی مخلوقات کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے ادا بھی کرسکتا ہے اور سمجھ بھی سکتاہے۔ انسانیت کی صفت اسے اپنے بھائیوں اوردوسری مخلوقات کے ساتھ ہمدردی ، غم گساری اور دکھ درد کو برابر سمجھنے اور شریک ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ اور سماجیت اسے دعوت دیتی ہے کہ اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے کے شریک کار اور معاون بن کر زندگی گذاریں، کیوں کہ اس کے بغیر انسانیت اور ناطقیت کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔ 
لیکن جب ہم اپنے آپ کو ان تینوں خصوصیات سے متصف سمجھتے ہوئے اپنی عملی زندگی اورمائنڈ سیٹ کا جائزہ لیتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم صرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے انسان کہے جاتے ہیں، ورنہ انسان پکارے جانے کے لیے کوئی بھی وصف ہمارے اندر باقی نہیں بچا ہے۔ ہمارے اندر کی ناطقیت، انسانیت اور سماجیت سب مرچکی ہے۔ اور ہم اس کوے کے اخلاق سے بھی زیادہ گرچکے ہیں، جس نے تینوں صفتوں سے محروم ہونے کے باوجود ایسی انسانیت اور اعلیٰ کردار کو پیش کیا کہ خوز زبانی ربانی اس کی مدح و توصیف میں رطب اللسان ہوئی اور قرآن میں اس کا ذکر فرماکر ہمیشہ ہمیش کے لیے ہمارے لیے نمونہ بنادیا۔ 
الدر المنثور میں سورہ مائد کی آیت نمبر ۳۱ کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کا قول نقل کیا گیا ہے کہ شادی کے معاملہ کو لے کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ روئے زمین پر چوں کہ پہلا قتل اور پہلی میت تھی، اس لیے قابیل کو سمجھ میں نہیں آیاکہ اس کے ساتھ کیا کریں۔ چنانچہ بہت پریشان ہوا۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے یہ منظر دکھایا کہ ایک کوا ایک دوسرے مردہ کوے کو لے کر آیا،اوراپنے پیر سے زمین کھود کر اس میں چھپا دیا، تاکہ اسے دوسرے چیر پھاڑ کرنے والے پرندے درندے اس کی بے حرمتی نہ کریں۔ اس منظر کو دیکھ کر قابیل بہت شرمندہ ہوا کہ اور کہا کہ 
یا ویلتا اعجزت ان اکون مثل ھذا الغراب فاواری سوء ۃ اخی۔
ہائے افسوس! مجھ سے اتنا نہ ہوسکا کہ میں اس کوے کے برابر ہوسکوں کہ میں اپنے بھائی کی نعش چھپاؤں۔ 
المختصر، اس کوے کی کہانی ہمارے انسان ، انسانیت اور مائنڈ سیٹ کے لیے بہت سبق افروز ہے کہ وہ جانور ہوکر بھی اپنے ہم جنس کے لیے مرنے کے بعد بھی عزت و احترام اور تعاون کا عملی کردار پیش کر رہا ہے، جب کہ ہمارا طرز عمل اس کے بالکل برخلاف ہے۔جانوروں اور پرندوں کو چھوڑ دیجیے،ہم اپنے ہی جنس اور بھائیوں کے ساتھ ایسا وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کرتے ہیں کہ بے شعور مخلوق بھی ہماری اس حرکت پر پشیماں پشیماں ہوجاتی ہے۔ ا ور حیرت و استعجاب میں اس کی زبان حال گویا ہوتی ہے کہ ’’کیا یہ انسان ہے؟!‘‘۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں: 
(۱) برق رفتار لائف کی وجہ سے حادثات زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم اپنی جلدی کے شوق کو پورا کرنے کے لیے کسی دوسرے کی زندگی کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور اسے ٹکر مارتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری اتنی سی بھی انسانیت نہیں جاگتی ہے کہ اگر اتفاقی طور پر حادثہ ہوگیا ہے تو چلو، کم از کم اسے ہاسپٹل پہنچا دیں اور اس کی زندگی بچانے کی کوشش کریں۔ متاثرہ شخص کی زندگی سے زیادہ اپنے تحفظات سامنے آجاتے ہیں اور ہم اسے تڑپتا چھوڑ کر آگے بھاگ جاتے ہیں۔ 
چلو مان لیتے ہیں کہ حادثہ چوں کہ خود سے ہوا تھا، اس لیے ہندستانی سماجی رد عمل اور طول طویل قانونی پروسیس کے خوف سے بھاگنا ہماری مجبوری ہے؛ لیکن ہم اس جذبہ کو کیا نام دیں گے ، جب پیچھے سے آنے والا کوئی دوسرا شخص یہ منظر دیکھ رہا ہوتا ہے اور وہ بھی کوئی پرواہ کیے بغیر تیزی سے آگے بھاگ جاتا ہے۔وہ کتنا پتھر دل ہوجاتا ہے کہ زخموں سے چور چوربدن کو دیکھ کر بھی انسانیت نہیں پھڑکتی اور بھاگنے کو ہی عقل مندی سمجھتا ہے!۔
چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑی سے جارہا ہے، اسے جانے کی جلدی ہے، اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ کسی دوسرے کی نگہہ داشت کرسکے، لیکن پھر اس جذبہ کو کیا کہیں گے کہ درجنوں پیدل چلنے والے افراد آس پاس ہوتے ہیں؛ لیکن یہ بھی دست تعاون دراز نہیں کرتے ۔ منظر دیکھ کر ذرا سا رکتے ہیں، گاڑی والوں کو چند کلموں سے نوازتے ہیں، پھر آگے بڑھ جاتے ہیں، حالاں کہ زخمی شخص زبان حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ بھائیو! میری مدد کرو، بھائیو! میری مدد کرو۔ لیکن اس کی آواز انسانیت کی جنگل میں فنا ہوجاتی ہے اور کوئی بھی نہیں سنتا۔ 
چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ یہ غریب آدمی قانون کے پروسیس سے گھبرا کر قریب نہیں جاتا، حالاں کہ اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کی مدد کرے؛ لیکن پھر اس جذبہ کا کیا مطلب ہوگا کہ راہ گیروں کا جم غفیر تڑپتا منظر کو دیکھ کر لطف اندوز تو ہوتا ہے، اس کی ویڈیو تو بناتا ہے، لیکن یہ کوشش نہیں کرتا کہ اسے جلد از جلد ہاسپیٹل پہنچادیں، تاکہ اس کی زندگی بچ سکے۔ 
چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ ویڈیو گرافی بھی انسانیت نوازی کا ایک حصہ ہے کہ اس خونی منظر کو بعد میں بار بار دیکھیں گے اور اپنی سوئی ہوئی انسانیت کو جگائیں گے، پھر جب انسانیت جاگ جائے گی تو اگلے حادثہ پر پوری انسانیت کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن پہلی بات یہ کہ ہمارا یہ مقصد بالکل نہیں ہوتا؛ بالفرض مان لیتے ہیں کہ ہم انسانیت جگانے کے لیے ہی ویڈیو گرافی کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر اس حرکت کی کیا تاویل کریں گے کہ اسے فورا سوشل میڈیا پر شئر کرتے ہیں اور اس میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ’’ بھائی یہاں حادثہ ہوگیا ہے، اسے زیادہ زیادہ سے شئر کرو۔‘‘ کوئی بھی یہ نہیں کہتا ہے کہ بھائی اس کی مدد کرو، اس کو جلد از جلد ہاسپیٹل پہنچاؤ۔
زیادہ تر حاثات کی رپورٹ کہتی ہے کہ اگر وقت پر اسے فرسٹ ایڈ مل جائے ، اور اسے فورا کسی قریبی ہاسپٹیل میں پہنچا دیا جائے تو شاید زندگی بچ سکتی ہے ۔ لیکن ہماری انسانیت اور مائنڈ سیٹ کوے کے اخلاق و کردار کو بھی شرمندہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہے اور زندگی کا روز مرہ کا حادثہ سمجھ کر بھلا دیتے ہیں۔ کوے نے تو اپنے مردہ بھائی کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کیا اور ہم انسان ہوکر بھی مردہ تو دور؛ زندہ کی تڑپتی زندگی کو بچانے اور سہارا دینے کے لیے آگے نہیں آتے ؛ اس سے زیادہ ہماری انسانیت کے لیے چیلنج کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ 
مثالیں اور بھی ہیں: مساجد و مدارس ، مکاتب اور دیگر اداروں میں ملازمین کو ’’ تن خواہ ‘‘ دی جاتی ہے۔ ہم نے کبھی سوچا کہ ’’تن خواہ‘‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے اور ہم انھیں کیا دیتے ہیں!۔ ہمارا کردار تو یہ بتاتا ہے کہ جن ملازمین کے خون پسینے کی محنت و مشقت کی بدولت ہمارا کاروبار حیات قائم و دائم ہے، ہم کہیں اسے ’’تن خواہ‘‘ کے بجائے ’’سیلری‘‘ تو نہیں دے رہے ہیں ۔ اور پھر کیا سیلری دینا ہماری انسانیت کے ثبوت کے لیے کافی ہے؟؟!!!
شادی کے موقع پر لڑکی والوں سے جہیز کے مطالبات،کسی بھائی سے بھاری رقم قرض لے کر ادائیگی سے بے اعتنائی، حج و عمرہ جیسے مقدس عبادتوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ، ملازمت میں بوس کا منظور نظر بننے کے لیے دوسرے اسٹاف کا شکوہ، شکایت،ایک دوسرے کے اعتماد اور رشتے کو خراب کرنے کے لیے چغل خوری، لگائی بجھائی،ذاتی مفاد کے پیش نظر دھوکہ دہی و جعل سازی اور اس طرح کے سیکڑوں ایسے معاملات ہیں، جہاں ہم انسانیت اور اخلاق سے اتنے نیچے گرجاتے ہیں کہ جانور بھی ہماری ان حرکتوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں اور حیرت و استعجاب کا مجسمہ بن جائے گا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اگرہم انسان سے نہیں؛ توکم از کم جانور اور بالخصوص قرآنی کوے کے اعلیٰ کردار سے ہی سبق حاصل کرتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے ، جو ہماری انسانیت کے لیے چیلنج اور اس نام کے لیے دھبہ ہو۔دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر انسانیت کا جذبہ بیدار کرے، آمین۔ 

Moza pat Masah ka Bayan

موزہ پر مسح کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (18) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
چمڑے کا موزہ یا وہ اونی ، سوتی موزہ جو موٹا اور اتنا گاڑھا ہو کہ اس میں پانی بھر دے تو نہ چھنے اور بغیر باندھے پنڈلی پر قائم رہے اور کم از کم ٹخنے کو چھپائے اور وضو کے بعد پہنا ہو اور اگر بے ترتیب وضو کیا ہو تو کم از کم پاؤں دھوکر پہنا ہو اور اس کے بعد وضو پورا کرلیا ہو ، اس کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو اس دوسرے وضو میں پاؤں دھونے کے بجائے موزہ پر مسح کرلینا درست ہے ۔ اگر مقیم ہے تو موزہ پہننے کے بعد جس وقت حدث ہوا ہے اس وقت سے دوسرے دن اسی وقت تک یعنی چوبیس گھنٹے تک اس موزہ پر مسح کرسکتا ہے ۔ اور اگر مسافر ہے تو اس وقت سے تین دن تین رات تک برابر اس پر مسح کرسکتا ہے ۔ اگر اس درمیان میں ایک موزہ بھی نکال لے گا، یا موزہ کے اندر پانی بھر جائے گا، یا پاؤں کی چھوٹی تین انگلی کی مقدار موزہ پھٹ جائے گا تو مسح ٹوٹ جائے گااور دنوں پاؤں دھونا پڑے گا۔ 
موزہ پر مسح کا ثبوت حدیث مشہورہ ، بلکہ متواترہ سے ہوا ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مجھ سے ستر صحابہ کرامؓ نے بیان کیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے موزہ پر مسح کیا ہے ۔ امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا: مسح کی حدیثیں مشہور ہیں، اس سے کتاب اللہ کا نسخ جائز ہے۔ امام کرخیؒ نے فرمایا: جو شخص موزہ پر مسح کو جائز نہ سمجھے، اس کے کافر ہونے کا خوف ہے ، اس لیے کہ اس کے بارے میں حدیثیں متواتر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: موزہ پر مسح کے بارے میں میرے دل میں کوئی خلجان نہیں ہے ۔ اس بارے میں صحابہ رسول اللہ ﷺ سے چالیس حدیثیں ہیں، کچھ مرفوع کچھ موقوف۔ شیخ الاسلامؒ نے فرمایا: جو شخص موزہ پر مسح کرنے کو جائز نہ سمجھے، تو وہ گمراہ ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ سے اہل سنت والجماعۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو امام صاحبؒ نے فرمایا: جو شیخین کو (یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکو ) باقی صحابہ کرام پر فضیلت دے اور ختنین (یعنی حضرت عثمان اور حضرت علی) سے محبت رکھے اور موزہ پر مسح کو جائز سمجھے ۔ اور امام صاحب کا یہ قول اصل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے قول سے ماخوذ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: 
ان السنۃ ان تفضل الشیخین و تحب الختنین و تریٰ المسح علیٰ الخفین۔ (کبیری)
سنت یہ ہے کہ شیخین کو فضیلت دے اور دونوں داماد سے محبت رکھے اور موزہ پر مسح کو جائز سمجھے۔ 
عن المغیرۃ بن شعبۃ قال: کنتُ مع النبی ﷺ فتوضأ فاھویت لانزع خفیہ، فقال: دعھما فانی ادخلتھما طاھرتین فمسح علیھما (متفق علیہ)
حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا، تو میں آپ ﷺ کے موزے نکالنے کے لیے جھکا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کو چھوڑ دو، میں نے اس کو طہارت کی حالت میں داخل کیا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دونوں پر مسح کیا۔ 
اس حدیث سے دو بات ثابت ہوئی : ایک یہ کہ موزہ پر مسح کرنا جب ہی درست ہے کہ دونوں کو طہارت پر پہنا ہو، یعنی وضو کے بعد پہنا ہو۔ دوسری بات یہ کہ بجائے پاؤں دھونے کے جو وضو میں فرض ہے صرف مسح کرلینا کافی ہے۔ 
عن ابی موسیٰ قال: ان رسول اللّٰہ ﷺ مسح علیٰ جوربیہ و نعلیہ۔ (رواہ الطحاوی رویٰ احمد والترمذی و ابو داؤد وابن ماجہ نحوہ) 
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پاتابے پر اور نعلین پر مسح کیا۔ 
یعنی اصل میں پاتابہ پر مسح کیا اور تبعا نعلین پر بھی کرلیا۔ ورنہ صرف نعلین پر مسح درست نہیں، اس لیے کہ وہ تو صرف اوپر سے فیتے ہوتے ہیں ، وہ پاؤں بالکل نہیں چھپاتے۔ معلوم ہوا کہ نہ صرف موزہ پر مسح جائز ہے ؛ بلکہ پاتابہ پر بھی جائز ہے اسی شرط کے ساتھ جو اوپر مذکور ہوا۔
عن ابی بکرۃ عن النبی ﷺ ، انہ رخص للمسافر ثلاثۃ ایام و لیالیھن و للمقیم یوما و لیلۃ اذا تطھر فلبس خفیہ ان یمسح علیھا۔ (رواہ الاثرم فی سننہ وابن خزیمہ والدار قطنی، و قال الخطابی ھو صحیح الاسناد ھٰکذا فی المنتقیٰ و صححہ ابن خزیمہ)
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے موزہ پر مسح کرنے کی مسافر کو تین دن اور تین رات کی رخصت دی اور مقیم کو ایک دن ایک رات کی، جب کہ پہلے وضو کرلے پھر موزہ پہنے۔ 
جب غسل کی حاجت ہو تو اس وقت موزہ پر مسح درست نہیں ؛ بلکہ موزہ نکال کر پاؤں دھونا ہوگا۔ 
عن صفوان بن عسال قال: کان رسول اللّٰہ یامرنا اذا کنا سفرا ان لانزع خفافنا ثلاثۃ ایام و لیالیھن الا عن جنابۃ و لکن من غائط و بول و نوم (رواہ النسائی والترمذی، و قال الترمذی حدیث صحیح و صححہ ابن خزیمہ) 
حضرت صفوان بن عسال بیان کرتے ہیں کہ ہم جب سفر میں ہوتے تو ہم کو رسول اللہ ﷺ حکم دیتے کہ تین دن اور تین رات موزہ کو نہ نکالیں، مگر جنابت سے ، لیکن پاخانہ پیشاب اور سونے کی وجہ سے موزہ پر مسح کا حکم دیتے۔ 
یعنی جنابت کی حالت میں موزہ کے نکالنے اور پاؤں دھونے کا حکم دیتے، لیکن پیشاب پاخانہ او ر سونے کی حالت میں موزہ پر مسح کا حکم دیتے ۔معلوم ہوا جنابت کی حالت میں موزہ کا نکالنا ضروری ہے۔

12 Oct 2018

Hindustan ke maojodah Halaat min hijrat ki baat


ہندستان کے موجودہ حالات میں ہجرت کی بات
مولانا عظیم اللہ صدیقی قاسمی، میڈیا انچارج جمعیۃ علماء ہند
بھارت کے موجودہ حالات میں  بھی شرعی ہجرت کی بات نہیں آنی چاہیے۔ایسے کوئی کچھ کہہ دے اور لکھ دے تو یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لکھنے والا کون ہے اور اس کی کیا علمی حیثیت ہے ۔ کم ازکم وہ کسی معتبر ادارے سے عالم یا مفتی ہو ۔موجودہ دور میں بات بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور تل کا تاڑ بن جاتی ہے۔لکھنے والا کوئی ہو اگر بات آپ کے من کے مطابق ہے تو آ پ اسے خوب شےئر کرتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ممکن ہے کہ لکھنے والے نے فتنہ کھڑا کرنے کی نیت کی ہو۔
اگر علمی اور تحقیقی پیمانے پر ہجر ت کی بات کی جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انگریزوں کے دور میں بھی کسی عالم نے ہجرت کو لازم قرار نہیں دیا تھا ۔مغلیہ دور کے زوال کے بعد ۱۸۰۶ء میں اُس زمانہ کے فقیہ اعظم، عالم ربانی حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اللہ سرہٗ العزیز نے برملا فتویٰ صادر فرمایا کہ ہندستان دارالحرب ہوگیا ہے145145 (فتاویٰ عزیزی، جلد اوّل، ص۱۷) اسی طرح ۱۸۵۷ء کے بعد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس اللہ سرہٗ العزیز سے استفسار کیا گیا، آپ کا جواب بھی یہی تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان اکابر رحمہم اللہ نے کہیں بھی مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی دعوت نہیں دی ۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تو ہندستان کو اس وقت بھی دارالامان ہی فرماتے تھے ۔حالاں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں کی عزت و آبرو زیادہ خطرے میں تھی اور اس کے مقابلے ترکی اور ایران کے پڑوسی ممالک میں مسلم بادشاہوں اور سلطانوں کی عظیم حکومتیں قائم تھیں اور آزادی وطن کے بعد جب مسلمانوں کو کسی ملکہ کے عطا کردہ مذہبی حقوق نہیں بلکہ خود اس کے اپنے حقوق حاصل ہیں توہجرت کی بات کیسے کی جاسکتی ہے ۔
اس سلسلے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی ہجرت مدینہ کو بنیاد بناتے ہیں اور چند ایسی احادیث بھی پیش کرتے ہیں جن میں غیر مسلم اور مشرکین کے ساتھ رہنے کی نفی کی گئی ہے ، مگر ان احادیث کا ایک پس منظر ہے اور اسے اس پس منظر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ اگر ان کا ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو ان کے استدلال، ہندستان کے موجودہ حالات پر منطبق نہیں ہوتے۔بالخصوص ہجرت رسول کو ہرگز اپنے حوالے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام کا آغاز ایسے وقت ہوا ،جب دنیا میں 146داعی145 کے علاوہ ایک بھی راہِ حق پر نہیں تھا۔ دعوت پر چند حضرات نے لبیک کہا۔ اگرچہ عرصہ تک یہ موقع نہ تھا کہ دوسروں کے سامنے علانیہ دعوت پیش کی جائے ،یا خود اپنے مسلمان ہونے کا کھلم کھلا اعلان کیا جائے، رفتہ رفتہ ۱۳؍ سال کے عرصہ میں یہ موقع آیا کہ دعوت کو قبول کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہوگئی۔ جماعت کے افراد پوری طرح ترتیب پاچکے تھے ،مگر وہ منتشر تھے۔ ان کا کوئی نظم نہیں قائم ہوسکتا تھا۔ تب ایک آزاد مرکز کی ضرورت تھی، جہاں اس منتشر جماعت کی شیرازہ بندی ہوسکے اور اسلام کے اجتماعی احکام پر بھی عمل ہوسکے۔ چنانچہ مدینہ منورہ 146دارالہجرت145 قرار پایا۔ مسلمان یہاں پہنچے۔ تب ان کو اجتماعی احکام کی تلقین کی گئی۔ مثلاً اذان، جماعت، جمعہ، عیدین وغیرہ۔ اسلامی شعائر جو نظام اسلام میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، مدینہ منورہ پہنچ کر مشروع ہوئے۔ مدینہ طیبہ کے علاوہ کسی جگہ نہ اذان ہوسکتی تھی، نہ جماعت، نہ جمعہ اور نہ عیدین کا امکان تھا۔اس دَور میں فرض کیا گیا کہ جو اسلام میں داخل ہو، وہ لامحالہ ہجرت بھی کرے، تاکہ ان فرائض کو بھی ادا کرسکے جن کا تعلق اگرچہ سیاست، معاشرت، یا اقتصادیات سے نہیں؛ بلکہ صرف عبادات سے ہے، لیکن ان کی ادائیگی کے لیے اجتماعی حیثیت کی ضرورت ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ یہ آزاد مرکز ایک جنگی محاذ بھی بن گیا اور سب طرف سے مخالفین اسلام کی کوششیں ہونے لگیں کہ اس محاذ کو صفحہ ہستی سے نیست نابود کردیا جائے۔ اس صورت میں لامحالہ مذہبی، سیاسی اور اخلاقی فرض تھا کہ اس محاذ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔ اور اس کا حامی جہاں بھی کوئی ہو ،سمٹ کر وہاں پہنچ جائے۔ یہی دَور تھا جب ہجرت فرض کی گئی اور ترک ہجرت کو گناہ عظیم قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
فرشتے جن لوگوں کی جان اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کررہے تھے (روح قبض کرنے کے بعد) فرشتے اُن سے پوچھیں گے: 146تم کس حال میں تھے145 (یعنی دین کے لحاظ سے تمھارا کیا حال تھا) وہ جواب میں کہیں گے (ہم کیا کرسکتے تھے!) ہم تو دَبے ہوئے کمزور تھے۔ (نہ آزادانہ غور و فکر کرسکتے تھے اور نہ اپنی رائے اور اعتقاد پر عمل کرسکتے تھے) فرشتے کہیں گے : کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ ہجرت کرکے چلے جاتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ بہت بُرا ٹھکانا ہے، مگر وہ مجبور و بے بس مرد عورتیں اور بچیّ جو کوئی چارہ نہیں رکھتے اور نہ (ہجرت کی) کوئی راہ پاتے ہیں، تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ (ان کی معذوریوں پر نظر فرماتے ہوئے) ان کو معاف فرمادیں گے۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔145145(سورہ: النسا ء، آیت: ۹۹۔۹۷، پ:۵)
تقریبا سات سال تک ایسے حالات رہے لیکن رمضان ۸ھ میں جب مکہ معظمہ فتح ہوا اور مدینہ منورہ کا اسلامی محاذ سارے حجاز پرچھا گیا تو یہ دور ختم ہوگیا۔ اب ہجرت کی فرضیت جو عارضی تھی، وہ بھی ختم ہوگئی۔چنانچہ خاتم الانبیاو المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا:لَاہِجرۃَ بعدَ الفتحِ، ولٰکن جہادٌ و نیۃٌ واذا اسْتُنفِرْتُمْ فَانْفِرُوا۔ (بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب فضل الجھاد والسیر) (فتح مکہ) کے بعد ہجرت نہیں رہی، اب جہاد اور نیت باقی ہے اور جب شرکت جہاد کے اعلان عام کے بعد تم سے مطالبہ کیا جائے، تو تم جہاد میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:لاہجرۃَ الیومَ کان المومنون یَفِرُّ احدُھُم بدینہ الی اللّٰہ ورسولِہ ﷺ مَخافۃَ ان یُفتَنَ فامَّا الیومَ فقد اظْہَرَ اللّٰہُ الاسلامَ والیومَ یعبُدُ ربَّہ حیثُ شاءَ۔(بخاری، کتاب المناقب، باب ھجرۃ النبی ﷺ و اصحابہ الٰی المدینۃ)
(آج ہجرت کا حکم نہیں رہا (ایک دَور ایسا گزرا ہے) کہ مسلمان اپنے دین کو لے کر اللہ اور رسولؐ کی طرف بھاگتے تھے، اس خوف سے کہ اگر وہ وطن میں رہیں، تو کہیں آزمائش میں نہ پڑجائیں (یعنی دُشمنانِ دین کا کوئی منصوبہ کامیاب ہوجائے اور یہ معاذ اللہ ترک دین پر مجبور ہوجائیں) لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو پھیلادیا ہے اورآج مومن جہاں چاہے، اپنے رب کی عبادت کرسکتا ہے۔پہلے ہجرت پر بیعت لی جاتی تھی، لیکن اب حضرت مجاشع بن مسعودؓ حاضر خدمت ہوتے ہیں اور ہجرت پر بیعت کرنا چاہتے ہیں، تو ارشاد ہوتا ہے:لاہجرۃَ بعد فتحِ مکۃَ ولکن اُبایِعُہ علی الاسلامِ (بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب لاھجرۃ بعد الفتح)(فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں رہی ،البتہ اسلام پر میں اُن سے بیعت لوں گا۔)
اس کے بعد جنگ کے سلسلہ میں بھی ہدایت یہ ہوئی:
(جب تمھارا مشرک حریفوں سے مقابلہ ہو،تو ان کو تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دو۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اگر وہ قبول کرلیں، تو تم بھی منظور کرلو۔ اور جنگ کرنے سے باز رہو۔ ان کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ قبول کرلیں، تو تم بھی منظور کرلو۔ اور جنگ کرنے سے باز رہو۔پھریہ کہ وہ اپنے ملک کو (دارالحرب کو) چھوڑ کر دارالمہاجرین میں آجائیں۔ اور ان کو آگاہ کردو کہ اگر انھوں نے ایسا کرلیا، تو ان کو وہی رعایتیں ملیں گی، جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں ہوں گی، جو مہاجرین پر ہیں۔ اور اگر وہ اپنے ملک سے منتقل ہونے پر آمادہ نہ ہوں، تو ان کو بتادو کہ وہ اعراب مسلمانوں کی طرح سے ہوں گے، (جو جہاد وغیرہ میں شریک نہیں ہوتے ؛بلکہ اپنے دیہات میں رہ کر دیہاتی زندگی گزارتے ہیں۔ جو احکام ان اعراب پر جاری ہوتے ہیں، وہ ان پر بھی جاری ہوں گے۔) اور غنیمت اور سرکاری جاگیروں کی آمدنی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا؛ البتہ اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں، تو غنیمت میں وہ حصہ دار ہوں گے۔۱ (ترمذی شریف، ص۱۹۵، ج۱۔ ابو داود، کتاب الجھاد، باب فی دعاء المشرکین)
یہ حدیث واضح کررہی ہے کہ:(۱)دیہاتی مسلمانوں پر لازم نہیں رہتا تھا کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچیں اور اسلامی فوج میں شامل ہوں۔(۲)اسی طرح دارالحرب کے باشندے اگر مسلمان ہوں تو ان پر لازم نہیں ہے کہ وہ ہجرت کرکے دارالمہاجرین میں پہنچیں۔
اب اس کے باوجود یہ ایک عام آدمی یہ سوال کرسکتاہے کہ ہندستان کی ایسی بہت ساری ریاستیں ہیں جہاں ایک طبقہ اس کے درپے ہے کہ ہندو تہذیب کو حاوی کرے، عوام کے رجحانات یہ ہیں کہ ذبیحۂ گاؤ ایک فتنہ بن گیا ہے، جس کے نتیجہ میں فریضۂ قربانی کی ادائیگی میں دشواریاں پیدا ہوتی ہیں، اسی بعض گاؤں میں جیسا کہ ہریانہ وغیرہ کے حالات ہیں نماز پنچگانہ پر پابندی لگادی گئی ہے ، ایسے حالات میں مسلمان کیا کرے ؟ اس کا راست جواب یہ ہے کہ اگر کچھ افراد یا کوئی جماعت ملک کے دستورِ اساسی کے برخلاف کوئی نعرہ لگائے یا حکم جاری کرے تو اعتبار دستورِ اساسی کا ہوگا۔ اس جماعت کے نعرے قابلِ التفات نہ ہوں گے، کیوں کہ اربابِ اقتدار اور اصحابِ حل و عقد کے قول و فعل کا اعتبار ہوتا ہے۔ اَنَّ المُعتَبرَ فی حکمِ الدارِ ہُوَ السلطانُ فی ظُہُورِ الحُکْمِ۔ (ص۱۰، ج۴۔ شرح السیر
الکبیر، ابواب سھمان الخیل والرجالۃ فی الغنائم، باب الموادعۃ) اس لیے ایسی طاقتوں سے گھبرا کریا بزدل ہو کر ہم اپنے وطن کو نہیں چھوڑ سکتے بلکہ صبرو استقلال کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جائے ۔ الحمد للہ ہمارے اکابر رحمہ اللہ نے ہر دور ایسے حالات کا مقابلہ کیا ہے ، بلکہ یہ دین اسلام کی فطرت ہے کہ اسے جتنا دبایا جائے وہ اتناہی پھلتااور پھولتاہے۔صبر واستقلال کی وجہ سے ہی ہم نے اس ملک کو چنا جو دعوتی ناحیہ سے ہماری ذمہ داری بھی تھی اور جتنی اسلام کو ترقی دور ظلمت میں ہوئی،ہندستان میں دیوبند، سہارنپور، دہلی، فرنگی محل، لکھنؤ، رامپور، ٹونک، گنگوہ، تھانہ بھون وغیرہ سے نقلی و عقلی علوم اور طریقت و معرفت کے چشمے جاری کیے۔دارالعلوم دیوبند، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ ملیہ، جامعہ قاسمیہ مراد آباد، شمس الہدیٰ پٹنہ، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالمصنّفین اعظم گڑھ، ندوۃ المصنّفین دہلی، خدا بخش لائبریری پٹنہ اور بہت سے چھوٹے بڑے تعلیمی اور تبلیغی ادارے، کتب خانے اور لائبریریاں ان علاقوں میں قائم ہوئیں، جہاں مسلمان آٹھ دس فی صدی سے زائد نہ تھے۔ اس لیے صبر و استقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا جائے اور اپنے ظاہری و باطنی اعمال و اطوار سے خود کو بطور داعی پیش کیا جائے ، یہی دین اسلام میں مستحسن اور مطلوب ہے

11 Oct 2018

Nawaqiz-e- Tayammom


نواقض تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (17) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
جس سے وضو ٹوٹتا ہے ، اسی سے تیمم بھی ٹوٹتا ہے اور وضو کے لائق پانی پر قادر ہوجانے سے وضو کا تیمم ٹوٹ جاتا ہے ۔ اور اگر غسل کا تیمم ہے تو غسل کے لائق پانی پر قادر ہونے سے غسل کا تیمم ٹوٹے گا۔ اگر پانی کم ملا تو تیمم نہیں ٹوٹے گا۔ 
حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الصعید الطیب وضوء المسلم و ان لم یجد الماء عشر سنین فاذا وجد الماء فلیمسہ بشرہ فان ذٰلک خیر۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد، زجاجہ، ۱۴۷) 
بے شک مسلمان کا وضوپاک زمین ہے ، اگر چہ دس سال تک پانی نہ پائے ۔ پھر جب پانی پایا جائے تو اس کو بدن پر استعمال کرے اور یہ بہتر ہے۔
یعنی پانی ملنے پر تیمم ٹوٹ جاتا ہے ۔ اب پانی سے وضو کرے اور غسل کی حاجت ہے تو غسل کرے ۔ پانی پر قدرت پاتے ہوئے تیمم سے نماز صحیح نہیں۔ اگر درمیان نماز میں پانی مل جائے تو وہ نماز بھی باطل ہوجاتی ہے ۔ وضو کرکے نماز پھر سے پڑھے۔ 
اگر راستہ میں پانی ملے ، لیکن اس کو خبر نہ ہو یا خبر ہو لیکن اس کے استعمال پر قادر نہ ہو، جیسے چلتی ریل سے پانی ، ندی، یا تالاب میں دیکھا تو اس سے تیمم نہیں ٹوٹے گا۔
قسط نمبر(18) کے لیے کلک کریں

10 Oct 2018

Sonan-e- Tayammom

سنن تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (16) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے اندر پانچ سنتیں ہیں: 
(۱) بسم اللہ سے شروع کرنا۔
(۲) ترتیب۔ پہلے منھ کا مسح کرے پھر ہاتھ کا۔
(۳) پے درپے کرنا۔ 
(۴) ہاتھ زمین پر رکھ کر پھر آگے لانا اور پیچھے لے جاکر گرد جھاڑنا، تاکہ صورت خراب نہ ہوجائے۔ 
(۵) انگلیوں کا زمین پر ہاتھ مارتے وقت کشادہ رکھنا۔ 
تیمم کی ترکیب یہ ہے کہ انگلیوں کو کشادہ رکھ کر زمین پر ہاتھ مارے ۔ اگر زیادہ گرد لگ گیا ہو تو اس کو جھاڑے اور پورے منھ پر ہاتھ پھیرے جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے ۔ اور دوبارہ ہاتھ زمین پر مارے اور چھنگلیاں کی طرف سے تین انگلیاں بائیں ہاتھ کی لے کے تھوڑی ہتھیلی کے ساتھ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی سرسے کہنی تک ظاہر ہاتھ کا مسح کرے ۔ اس کے بعد شہادت کی انگلی اور انگوٹھے اور باقی ہتھیلی سے باطن ہاتھ کا انگلیوں کے سرے تک مسح کرے۔ اسی طرح دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا مسح کرے ۔ اور انگلیوں کا خلال کرے، بس تیمم ہوگیا۔ تیمم میں سر اور پاؤں کا مسح نہیں ہے۔ 
اگر پانی ملنے کی امید ہو تو تیمم میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔
عن علی قال: اذا لم یجد الماء فلیؤخر التیمم الیٰ الوقت الآخر۔ (رواہ عبد الرزاق، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: جب پانی نہ ملے تو تیمم کو اخیر وقت تک موخر کرے۔
یعنی جب تک مستحب وقت ہے، وہاں تک تاخیر کرے، مکروہ وقت تک تاخیر نہ کرے۔ اگر تیمم کرکے نماز پڑھ لی، پھر وقت ہی کے اندر پانی مل گیا تو نماز کے دوہرانے کی ضرورت نہیں، پہلی نماز کافی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ دو شخص سفر میں نکلے ، پس نماز کا وقت ہوااور ان دونوں کے پاس پانی نہیں تھا ، تو دونوں نے پاک زمین سے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ پھر وقت کے اندر ہی پانی مل گیا ، تو ان دونوں میں سے ایک نے وضو کرکے نماز لوٹائی اور دوسرے نے نماز نہیں لوٹائی۔ پھر دونوں آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا تذکرہ کیا ، تو آپ ﷺ نے اس شخص سے جس نے نماز نہیں لوٹائی فرمایا: 
اصبتَ السنۃ و اجزئتک صلاتک۔ 
تو نے سنت کو پائی اور تیری نماز کافی ہوئی ۔
اور جس نے وضو کیا اور نماز لوٹائی ، اس سے فرمایا: 
لک الاجر مرتین
تجھ کو دوہرا ثواب ہوا۔ یعنی اول فرض کا اور دوسرا نفل کا۔ (ابو داؤد، دارمی)
اگر کسی نے پانی دینے کا وعدہ کیا ہو تو تاخیر کرنا واجب ہے ، اگرچہ قضا کا خوف ہو۔ اگر نزدیک میں پانی کا گمان ہو، جان یا سامان کے ضائع ہونے کا عذر نہ ہو اور امن ہو تو چار سو قدم تک پانی ڈھونڈھنا واجب ہے ، ورنہ واجب نہیں۔ 
اگر کسی کے پاس پانی ہو اور ایسی جگہ میں ہو کہ وہاں پانی دینے میں کوتاہی نہیں کرتا ہو ، اس سے مانگنا واجب ہے۔ مانگنے پر نہ دے تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ اگر قیمت سے دیتا ہو اور پاس ضروری اخراجات سے زائد پیسہ ہو اور واجب قیمت لیتا ہو تو خرید کر وضو کرنا واجب ہے، ورنہ نہیں۔ 
وضو کی طرح ایک تیمم سے کئی وقتوں کی نمازیں اسی طرح فرض، نفل ؛ سب پڑھ سکتا ہے، ہر وقت کے لیے تیمم کرنا ضروری نہیں ۔ تیمم کی آیت میں آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج و لٰکن یرید لیطھرکم و لیتم نعمتہ علیکم لعلکم تشکرون۔ (المائدہ، ۶)
اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہے کہ تم کو تنگی میں ڈالے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم کو پاک صاف رکھے اور یہ کہ تم پر اپنا انعام تام فرمائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ 
معلوم ہوا کہ تیمم سے بھی طہارت کامل حاصل ہوتی ہے اور یہ خدا کی بڑی نعمت ہے، اسی لیے تیمم کرنے والا وضو کرنے والی کی امامت کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح سے طہارت پانی سے حاصل ہوتی ہے، پانی پر قادر نہ ہونے کی صورت میں تیمم سے بھی طہارت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر آدھا یا آدھے سے زیادہ بدن زخمی ہو اور پانی نقصان دیتا ہو تو غسل کے بجائے تیمم کرے ۔ اور اگر آدھے سے زیادہ تندرست ہو تو اس کو دھوئے اور زخم پر مسح کرے۔
قسط (17) کے لیے کلک کریں

9 Oct 2018

Faraez-e-Tayammom

فرائض تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (15) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے اندر تین فرض ہیں: 
(۱) اول طہارت کی نیت یا جس کے لیے تیمم کر رہا ہو اس کی نیت۔ مگر نماز اسی تیمم سے صحیح ہے جس میں طہارت کی نیت کی جائے، یا پھر ایسی عبادت مقصودہ کی نیت سے کی جائے کہ وہ عبادت بغیر وضو کے صحیح نہ ہو، جیسے سجدہ تلاوت، صلوۃ جنازہ۔
اگر قرآن کو چھونے یا مسجد میں داخل ہونے کے لیے تیمم کرے گا تو اس تیمم سے نماز پڑھنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ عبادت مقصودہ نہیں ۔ اور اگر عبادت مقصودہ تو ہو مگر وہ ایسی عبادت نہ ہو کہ بغیر وضو کے درست نہ ہو جیسے قرآن کی زبانی تلاوت، تو قرآن کی تلاوت کی نیت سے وضو کا تیمم کرے گا تو اس سے بھی نماز پڑھنا درست نہ ہوگا۔ البتہ اگر غسل کا تیمم کرکے قرآن تلاوت کرے ، تو اس سے نماز پڑھنا درست ہے ، کیوں کہ حالت جنابت میں قرآن کا زبانی پڑھنا درست نہیں ہے ۔ 
(۲) ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارکر چہرہ پر وہاں تک ملنا جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے۔ 
(۳) دوبارہ زمین پر ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنا جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے ۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
التیمم ضربۃ للوجہ وضربۃ للذراعین الیٰ المرفقین۔ (رواہ الدارمی، و قال رجالہ کلھم ثقات و رویٰ الحاکم مثلہ و قال صحیح الاسناد، زجاجہ ۱۴۸)
تیمم ایک ضرب چہرہ کے لیے ہے اور دوسرا ضرب دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنے کے لیے ۔ 
اگر چہرہ اور ہاتھوں میں سے کوئی جگہ ناخن کے برابر ایسی رہ جائے جہاں ہاتھ نہ پہنچا تو تیمم صحیح نہیں ہوگا۔
قسط نمبر (16) کے لیے کلک کریں

8 Oct 2018

Tayammom Ka Bayaan

تیمم کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (14) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کے ہیں۔ چوں کہ اس سے طہارت ، ارادہ کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے، اس لیے اس کو تیمم کہتے ہیں۔
وضو و غسل کی حاجت ہو اور وضو و غسل کے لائق پانی پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں وضو و غسل کے بجائے تیمم کرلینے سے انسان پاک ہوجاتا ہے۔ اگر اتنے پانی پر قادر ہو کہ اس سے بعض اعضا تو دھو سکتے ہیں، پورا وضو نہیں ہوسکتا ہے تو بعض اعضا کو نہ دھوئے ؛ بلکہ تیمم کرے ۔ اگر وضو و غسل دونوں کی حاجت ہے اور پانی اتنا ہی ہے کہ اس سے وضو تو کرسکتا ہے؛ مگر غسل نہیں ہوسکتا ہے تو وہ دونوں کا تیمم کرے۔ 
پانی پر قادر نہ ہونے کی مختلف صورتیں ہیں: 
(۱) پانی ہے؛ مگر اس کا استعمال اس کو نقصان پہنچاتا ہے : بیمار ہونے کا ڈر ہے ، یا صحت میں تاخیر کا اندیشہ ہے ، یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہے ، یا ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ 
(۲) پانی ہے ؛ مگر کھانے پینے کی حاجت سے زائد نہیں ہے۔ اگر پانی وضو یا غسل میں استعمال کرتا ہے تو بھوک پیاس سے ہلاک ہوتا ہے۔ 
(۳) پانی پاس نہیں ہے، پانی سے ایک میل یعنی چار ہزار قدم دور ہے ، یا پانی ہے مگر وہاں تک پہنچ نہیں سکتا، اس لیے کہ وہاں دشمن یا درندہ ہے ، یا کنویں میں ہے مگر ڈول رسی نہیں ہے جس سے نکال سکے۔ یا دوسرے کے پاس پانی ہے اور مانگنے پر بھی نہیں دیتا ہے۔ یا نزدیک میں پانی ملنے کا گمان ہے اور اس گمان پر چار سو قدم تک ڈھونڈھتا ہے ، پھر بھی نہیں ملتا ہے ۔ یا کوئی پانی مفت تو نہیں دیتا، وہ بیچتا ہے اور جو قیمت چاہے اسی قیمت میں دیتا ہے، لیکن پاس میں ضرورت سے زائد پیسے نہیں ہیں ۔ یا پیسے تو ہیں، لیکن قیمت واجبی سے زائد مانگتا ہے، ان تمام صورتوں میں ان کے لیے تیمم کرنا درست ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
ان کنتم مرضیٰ او علیٰ سفر او جاء احدمنکم من الغائط او لامستم النساء فلم تجدوا ماء ا، فتیمموا صعیدا طیبا فامسحو بوجوھکم و ایدیکم (النساء، آیۃ:۴۳)
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے فارغ ہوکر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو، پھر پانی نہ پاؤ، تو جنس زمین سے تیمم کرو اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو۔ 
اس آیت کے اندر پانی کا عذر تین صورتوں سے بتایا: 
(۱) مریض ہو، پانی ضرر کرتا ہے۔ 
(۲) سفر درپیش ہے دور تک پانی ملنے کی امید نہیں ہے ۔ پاس میں پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے ہے ، اس لیے کہ مسافر کھانے پینے کے لیے پانی ضرور رکھتا ہے ، ورنہ سفر میں ہلاک ہوجائے گا۔ 
(۳) پانی موجود ہی نہیں۔ 
اور طہارت کا ضروری ہونا دو صورتوں میں بتایا:
(۱) پیشاب پاخانہ سے آیا ہے وضو کی حاجت ہے۔
(۲) عورت سے صحبت کی ہے ، غسل کی حاجت ہے ۔ الغرض اس آیت کے اندر نجاست حکمیہ سے خواہ حدث اصغر ہو یا حدث اکبر ، پانی پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا بتایا ہے ۔ 
اگر وضو میں مشغول ہونے سے کسی ایسی عبادت کے فوت ہونے کا ڈر ہو، جس کا کوئی بدل نہ ہو، یا اس کی قضا نہ ہوتو اس وقت پاس پانی رہتے ہوئے بھی تیمم کرکے اس عبادت میں شریک ہوسکتا ہے ، جیسے عیدین کی نماز ، جنازہ کی نماز غیر ولی کے لیے۔
عن بن عباس قال: قال رسول ﷺ : اذا جاء ت الجنازۃ و انت علیٰ غیر وضوء فتیممْ۔ ( رواہ ابن عدی، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب جنازہ آجائے اور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کرلو۔ 
یعنی تیمم کرکے جنازہ کی نماز میں شریک ہوجاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : جب کہ جنازہ کی نماز فوت ہونے کا ڈر ہواور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کراور نماز پڑھ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و رجالہ رجال مسلم الاالمغیرۃ وھو یحتج بہ قالہ الزیلعی، زجاجہ ۱۴۹)
لیکن ولی کے لیے جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی اجازت کے بغیر دوسرا پڑھا نہیں سکتا ہے ۔ اور اگر پڑھا دے گا تو اس کو دوبارہ پڑھنے کا حق ہے ، اس لیے ولی کی نماز جنازہ فوت ہونے کا احتمال نہیں ہے ۔ اسی طرح جمعہ اور پنج وقت نماز کے لیے وقت تنگ ہونے سے یا جمعہ کے چھوٹنے کے خوف سے تیمم جائز نہیں، اس لیے کہ جمعہ کے بدلے میں ظہر ہے اور ادا کے بدلہ میں قضا ہے۔ 
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ذات السلاسل کی جنگ میں بھیجا۔ مجھے سخت سردی کی رات میں احتلام ہوگیا۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر نہاؤں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا، تو میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ائے عمرو! تونے اپنے ساتھیوں کو ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھائی؟ میں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ!میں سخت سردی کی رات میں محتلم ہوا، میں ڈرا اگر غسل کروں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا اور میں نے اللہ کا قول یاد کیا کہ
لاتقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیما۔ (النساء، ۲۹)
اپنے کو ہلاک مت کرو، اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ 
تو میں نے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ اس پر ہنسے اور کچھ نہ فرمایا( احمد، ابو داود، حاکم ، منذر، ابن ابی حاتم) زجاجہ، ۱۴۸)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر تندرست آدمی کو بھی پانی نقصان پہنچائے تو تیمم کرنا درست ہے ؛اگرچہ غسل کا تیمم ہو۔ اور ایسی عبادت کے لیے بھی تیمم جائز ہے، جس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے، شرط نہیں ہے، جیسے زبانی قرآن شریف پڑھنا، یا سلام کرنا، یا جواب دینا وغیرہ۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص آں حضرت ﷺ کے پاس سے ایک گلی میں گذرا اور نبی ﷺ پیشاب یا پاخانہ سے نکلے تھے کہ اس نے سلام کیا، تو آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ دیوار پر مارے، اس سے چہرہ کا مسح کیا،پھر دوبارہ ہاتھ مارے اور اپنے ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کیا، پھر اس شخص کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تجھے سلام کا جواب دینے سے بے وضو مانع ہوا۔
( اس کو ابو داؤد و طبری نے روایت کیا ہے۔ نور الہدایہ، ۵۲)
تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ جنس زمین سے کوئی چیز ہونا ضروری ہے۔ جنس زمین وہ ہے کہ نہ آگ میں جل کر راکھ ہواور نہ پگھلے، جیسے مٹی، مٹی کی بنی ہوئی کچی پکی اینٹیں، برتن، چونا ،گچ،ہر قسم کے پتھر، بالو وغیرہ۔ 
سونا چاندی، رانگ ، سیسہ وغیرہ دھات سے تیمم جائز نہیں ، کیوں کہ یہ سب چیزیں آگ سے پگھلتی ہیں۔ اور لکڑی کوئلہ وغیرہ سے بھی جائز نہیں ، کیوں کہ یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح راکھ سے بھی تیمم جائز نہیں؛ الغرض جو جنس ارض سے نہیں، اس سے تیمم جائز نہیں، مگر یہ کہ اس پر گرد ہو تو اس گرد سے تیمم جائز ہوگا۔ 
عن علی و عبد اللّٰہ بن عمرو و عن ابی ھریرۃ و جابر و ابن عباس و حذیفۃ و انس و ابی امامۃ و ابی ذر قالوا: ان النبی ﷺ قال: جعلت لی الارض کلھا مسجدا و طھورا۔ (رواہ الترمذی و رویٰ البخاری نحوہ، زجاجہ، ج؍۱، ص؍۱۴۷)
تمام روئے زمین کے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکی کی دو صورتیں بتائیں: 
(۱) پانی کے استعمال پر قدرت ہے تو پانی سے طہارت حاصل کرنا ۔ 
(۲) اگر پانی پر قدرت نہ ہو تو تیمم کرنا۔ 
اب اگر تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری ہوتا تو بہت سے ریگوں اور پہاڑوں کے باشندے جہاں مٹی کا نام و نشان نہیں ہے ، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم سے بھی محروم ہوجاتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تیمم کے لیے ایک ایسا لفظ استعمال فرمایا، جس سے کوئی محروم نہ ہوسکے اور وہ لفظ صعید ہے ۔ صعید کے معنہ وجہ ارض کے ہیں، یعنی زمین کے اوپر کا حصہ، خواہ مٹی ہو یا بالو، یا پتھر، یا کنکر، یا کوئی دوسری چیز جو جنس زمین سے ہے ؛ مگر پاک ہونا شرط ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے صعیدا طیبا فرمایا ہے ۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الصعید الطیب وضوء المسلم و ان لم یجد الماء عشر سنین فاذا وجد الماء فلیمسہ بشرہ فان ذٰلک خیر۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد، زجاجہ، ۱۴۷) 
پاک جنس زمین مسلمان کا وضو ہے ، اگر چہ دس سال تک (کھانے پینے کی حاجت سے زائد) پانی نہ پائے ۔ پھر جب پانی مل جائے اس کا استعمال کرے اور یہ بہتر ہے۔ (اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍ ۵۴)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح پانی سے آدمی پاک ہوتا ہے ، اسی طرح تیمم سے بھی پاک ہوتا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں برسوں تیمم سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور پانی ملنے پر خواہ نماز کی حالت میں ملے یا نماز سے باہر ؛ ہر حال میں تیمم کو توڑ دیتا ہے۔ اب پانی سے وضو غسل کرنا ضروری ہے۔ 
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ کچھ لوگ بادیہ نشین آں حضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور انھوں نے عرض کیا کہ ہم لوگ تین چار ماہ ریگوں میں رہتے ہیں اور ہم میں جنبی و حیض و نفاس والے بھی ہوتے ہیں اور ہم پانی (ضرورت سے زائد) نہیں پاتے، تو آپﷺ نے فرمایا: 
علیکم بالارض، ثم ضرب بید ہ الارض بوجھہ ضربۃ واحدۃ ثم ضرب ضربۃ اخریٰ، فمسح بھا علیٰ یدیہ الیٰ المرفقین۔ 
زمین سے تیمم کرنا تم پر لازم ہے۔ پھر آپ ﷺ نے تیمم کرنا بتایا: ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا چہرہ پر ملنے کے لیے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا اور اس سے دونوں ہاتھوں کو کہنی تک ملا۔ (احمد، طبرانی، ابو یعلی، زجاجہ ۱۴۷)
اس حدیث سے چند امور معلوم ہوئے: 
(۱) تیمم زمین سے کرنا چاہیے۔ اور زمین کا اطلاق صرف مٹی پر نہیں ہوتا؛ بلکہ پتھر، بالو کو بھی زمین کہتے ہیں ۔ 
اور یہ لوگ ریگستان میں رہنے کا حکم دریافت کرتے ہیں ، جہاں مٹی نہیں، بالو ہی بالو ہوتا ہے تو وہاں تیمم بھی بالو ہی پر ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف مٹی سے تیمم جائز ہے؛ بلکہ بالو وغیرہ پر بھی تیمم جائز ہے۔ اب اگر کسی حدیث میں مٹی کا ذکر ہے تو وہ اتفاقی ہے، احترازی نہیں۔ 
(۲) تیمم حدیث اصغر اور حدث اکبر دونوں سے ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ انھوں نے جنابت اور حیض و نفاس کا حکم دریافت فرمایا۔ 
(۳) دونوں کا تیمم ایک ہی طرح سے ہے، یعنی دو بار زمین پر ہاتھ مارنا۔ ایک بار منھ پر ملنا اور دوسری بار دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنا۔
قسط نمبر(15) کے لیے کلک کریں