زخم کی پٹی پر مسح کا بیان
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (21)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
زخم کو دھونے سے یا اس پر مسح کرنے سے نقصان پہنچتا ہو تو اس زخم پر یا ٹوٹی ہوئی ہڈی پر جو پٹی اور چچری بندھی ہوئی ہو ، اس پر مسح کرنا درست ہے ، خواہ وضو کے بعد اس کو باندھا ہو یا بغیر وضو کے باندھا ہو۔ پٹی کے نیچے زخم ہو یا نہ ہو ہر حال میں پوری پٹی پر مسح کرنا درست ہے ۔ البتہ اگر پٹی کھول کر زخم کے علاوہ جگہ کو دھونا ممکن ہو تو پٹی کو کھول کر باقی جگہ کو دھونا ضروری ہے ، ورنہ پوری پٹی پر مسح کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج ولٰکن یرید لیطھرکم (المائدہ، ۶)
اللہ تعالیٰ تم کو تنگ کرنا نہیں چاہتا ، لیکن تم کو پاک کرنا چاہتا ہے۔
چوں کہ زخم کے دھونے میں یا اس پر مسح کرنے میں حرج ہے ،اس لیے پٹی پر مسح کرنا درست ہے اور اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔
عن ابن عمر انہ توضأ و کفہ معصوبۃ فمسح علیھا وعلیٰ العصابۃ و غسل سویٰ ذٰلک۔ (رواہ المنذری باسناد صحیح، زجاجہ ۱۵۰)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے وضو کیا اور آپ ﷺ کی ہتھیلی پر پٹی بندھی ہوئی تھی ، تو آپ ﷺ نے اس پر اور پٹی پر مسح کیا اور باقی عضو کو دھویا۔
جب تک زخم اچھا نہ ہوجائے اس وقت تک اس پٹی پر مسح کرنا درست ہے ، خواہ کتنے ہی دن لگ جائیں ۔ اگر اس درمیان میں پٹی کھل بھی جائے تو مسح نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر زخم کے اچھے ہونے پر پٹی کھل جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے ، اس کے بعد عضو کو دھولے۔
وضو یا غسل میں زخم دھونے سے نقصان پہنچے، تو زخم پر مسح کرلے۔ اگر مسح کرنا بھی نقصان پہنچائے اور اس پر کوئی پٹی وغیرہ نہ ہو تو اس کو چھوڑ دے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو آں حضرت ﷺ کے زمانہ میں سر میں زخم لگا تھا اور اس کو احتلام ہوا تو اس کو غسل کا حکم کیا گیا، تو اس نے غسل کیا اور اکڑ کے مرگیا اور آں حضرت ﷺ کو اس کی خبر پہنچی۔ عطا نے کہا کہ ہم کو یہ بات پہنچی کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: کاش دھو لیتا اپنا تمام بدن اور اپنا سر جس جگہ زخم لگا تھا اس جگہ کو چھوڑ دیتا ۔ (اس کو ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کی ہے۔ نور الہدایہ؍ ۶۰)
قسط نمبر (22) کے لیے کلک کریں
قسط نمبر (22) کے لیے کلک کریں