12 Jun 2020

سیمینار کو ویبینار بنائیں

سیمینار کو ویبینار بنائیں
محمد یاسین جہازی 9891737350
دیگر مخلوقات الہی میں انسان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات وتجربات کا تبادلہ کرکے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاکراور فائدہ حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔تبادلہ خیالات کے طریق عمل زمانے کے اعتبارسے بدلتا رہا ہے۔ کاغذ اور تحریر کی ایجاد سے پہلے تبادلہ خیال کا طریقہ زبانی روایات پر مبنی تھا، جو سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوا کرتی تھیں۔ تحریر کا طریقہ دریافت ہونے کے بعد زبانی روایات کا سلسلہ کمزور ہوتا گیا اور اس کی جگہ کاغذ قلم نے لے لی۔
عصر حاضر میں ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوجانے کی وجہ سے کاغذقلم کی اہمیت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ کاپی پیسٹ کی زبردست طاقت کے وجود میں آجانے کے بعد ماضی کے دور کی بہت سے پریشانیوں کا تصور تک مٹتا جارہاہے۔کاغذ قلم کے دور کی ایک سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ کاپی تیار کرنے میں بھی اصل کے برابر ہی محنت اور وقت درکار ہوا کرتا تھا، لیکن سوشل میڈیا اور کاپی پیسٹ کے آسان طریقہ وجود میں آجانے کی وجہ سے تعلیم و تعلیم اور تجربات کے تبادلہ میں زبردست انقلاب پیدا ہوگیا ہے۔ اب نہ تو اصل بنانے میں مہینوں اور سالوں کا وقت درکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی کاپی بنانے میں لمبی چوڑی محنت صرف کی جاتی ہے؛ بلکہ سب کچھ ایک کلک اور چند کلک سے ہوجاتا ہے۔ بالخصوص یونی کوڈ فارمیٹ کی سہولت ایجاد ہونے کے بعد ایک شخص کی محنت سے سبھی لوگ یکساں فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ آج لوگ گوگلنگ مزاج کے حامل ہوچکے ہیں، سب کچھ چند لمحوں میں حاصل کرکے،اس کی کاپی بناکر پیش کردینا چاہتے ہیں اور جدید ذرائع میں یہ سب آپشن موجود ہے؛ اس لیے ان سہولیات سے فائدہ نہ اٹھانا،اور ماضی کے فرسودہ طریقہ پر ہی قائم رہنا، راقم کے عندیہ میں وقت ضائع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ کچھ مہینے پہلے ایک موقرشیخ الحدیث صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ راقم نے اصلاح کی نیت سے ایک مضمون پیش کیا، تو انھوں نے فرمایا کہ اسے لکھنے میں کتنا وقت لگا؟ میں نے کہا کہ دیگر مصروفیات کے ساتھ تقریبا ایک ہفتہ میں مکمل ہوا۔ یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ اتنے حوالوں کے ساتھ ایک ہفتہ میں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ تو میں نے بتایا کہ قرآن اور احادیث کمپوزشدہ انٹرنیٹ سے مل جاتی ہیں۔ حوالے بھی اسی ذریعہ سے تلاش کرلیتا ہوں۔ باقی دیگر ہزاروں کتابیں مختلف سائٹوں پر موجود ہیں، جہاں سے پڑھ لیا جاتا ہے، کاپی کا آپشن ہوتا ہے، تو کاپی اور پیسٹ کرلیتے ہیں۔ اور اس طرح کم وقت میں مستند و محقق مضمون تیار ہوجاتا ہے۔ پھر میں نے حضرت سے پوچھا کہ آپ کا کیا طریقہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ پہلے کاغذ پر قرآن کی آیتیں لکھتا ہوں، پھر رنگین قلم سے اعراب لگاتا ہوں، پھر کمپوزر کو دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر اس میں مہینوں لگ جاتا ہے۔
بہرحال جدید ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے ماضی کے طریقے کو بدل کر جہاں ہم اپنا وقت اورمحنت بچاسکتے ہیں، وہیں خرچ ہونے والے کثیر صرفے سے بھی بچ سکتے ہیں؛ کیوں کہ ہر شخص سیکڑوں کتابیں نہیں خرید سکتا، البتہ ایک لیپ ٹاپ خرید کر سائٹوں سیمفت میں یا پھر معمولی ممبرشپ پر ہزاروں کتابوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
عصر حاضر میں تبادلہ خیال کا ایک طریقہ سیمینار بھی ہے، لیکن جدید ایجادات سے فائدہ اٹھایا جائے، تو ہم سیمینار کو ویبینار بناسکتے ہیں۔ سیمینار کے مقابلہ میں ویبینار جہاں کم خرچ میں ہوجاتا ہے، وہیں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ اور کاپی کی سہولیات بھی میسر آجاتی ہیں۔ اسی طرح اس میں مجمع اور سامعین و ناظرین کو لامحدود سعت دے سکتے ہیں۔
ویسے تو ویبینار کرنے کے لیے کئی طریقے اور ایپس ہیں؛ لیکن ہم ذیل میں تین آسان طریقوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔
(۱) زوم(Zoom cloud meeting): اس کورونا لاک ڈاون میں اس ایپ کا سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ایپ دوسرے ایپ کے مقابلہ میں قدرے آسان ہے اور زیادہ آپشن سے لیس ہے۔ اس کے استعمال کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لیپ ٹیپ میں انٹرنیٹ سے یا موبائل میں پلے اسٹور یا ایپ اسٹور سے ڈاون لوڈ کریں اور پھر میل آئی ڈی کی طرح آئی ڈی بناکر استعمال کرنا شروع کردیں۔ اگر کوئی آپشن سمجھ میں نہیں آرہا ہے، تو سیکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ سیکھنا ہے وہ یوٹیوب میں سرچ کرکے سیکھ سکتے ہیں۔
(۲) لارک(Lark): یہ ایپ بھی زوم ہی کی طرح ہے۔ البتہ اس میں ایک اضافی آپشن یہ ہے کہ آپ جو کچھ بولتے ہیں، اسے ساتھ ساتھ ٹیکسٹ میں بھی بدل سکتے ہیں۔ تاکہ جو کوئی آپ کی زبان نہیں سمجھتا ہے، وہ اس کا ٹیکسٹ ترجمہ کی شکل میں پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔
(۳) میٹ (Meet): یہ گوگل کا ایپ ہے، جو ہر جی میل کے ساتھ اٹیچ ہے۔ اگر آپ اپنا جی میل لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر میں استعمال کر رہے ہیں، تو کوئی ایپ لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے  اور نہ ہی کوئی آئی ڈی بنانے کی ضرورت ہے۔ جی میل کی آئی ڈی ہی کافی ہے۔ لیکن اگر موبائل میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو پھر پلے اسٹور یا ایپ اسٹور سے میٹ نامی ایپ لوڈ کرنا ہوگا اور اپنی جی میل آئی ڈی استعمال کرکے اس سے ویڈیو کانفرنسنگ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کی ایک خامی یہ ہے کہ اس میں ریکارڈ اور لائیو کا آپشن نہیں ہے، جب کہ زوم میں ریکارڈ اور اسے لائیو کرنے کا بھی آپشن موجود ہے۔
اس کورونا لاک ڈاون میں جب کہ اجتماع سے بیمار ہونے کا خطرہ ہے، ایک دوسرے کے تجربات و خیالات سے فائدہ اٹھانے کا ویبینار ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس میں جہاں آمدو رفت اور قیام و طعام کے اخراجات سے بچ سکتے ہیں، وہیں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ، کاپی اور لائیو کے آپشن سے فائدہ اٹھاکر افادے کے دائرے کو لامحدود وسعت دے سکتے ہیں۔ تو راقم کا یہی مشورہ ہے کہ اب سیمینار نہیں؛ بلکہ ویبینار کو فروغ دیں اور جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افادے و استفادے کے حلقہ اثر کو عالمی بنانے میں ایک موثر کردار ادا کریں۔

5 Jun 2020

وطن معیشت کو وطن اقامت بنائیے

وطن معیشت کو وطن اقامت بنائیے
آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation کے اختیارات کے باوجود سپریم کورٹ کا خاموش رہنا؛ کیا بھارت میں جمہوریت کے خاتمہ کا اعلان نہیں ہے
محمد یاسین جہازی
بھارت میں 25مارچ 2020سے 31مئی 2020یعنی کل 68دنوں کے لیے ا س کے وزیر اعظم مسٹر مودی نے پہلے سے طے شدہ کسی حکمت عملی کے بغیر اچانک لاک ڈون کا فیصلہ کردیا۔ اس فیصلہ کے بعد بھارت کی ایک نئی تصویر ابھر کرسامنے آئی۔ ایک ایسی تصویر، جس میں بے بسی، مجبوری اور مفلوک الحالی کے رنگ نمایاں تھے۔ اس ہوائی جہاز اور راکیٹ کے دور میں بھی ایسی بھیانک تصاویر منظر عام پر آئیں، جہاں لاکھوں مزدور تپتی دھوپ اور گرم سڑکوں پر سروں پر سامان اور کندھوں پر معصوم بچوں کو لادھے ہزاروں کلو میٹر دور بھوکے پیاسے پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سفر کے تمام ذرائع بند کردیے گئے تھے، تو پھر ان مزدوروں کو اپنی جگہ سے سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی، جو جہاں پھنس گیا تھا، وہیں رہتے۔ تو اس سوال کا جواب بھی سوشل میڈیا اور میڈیا کے توسط سے مل گیا ہے کہ وہ جہاں رہتے تھے، وہاں سے مکان مالک نے کرایہ کا مطالبہ کرنا شروع کردیا، کام کاج بند ہونے کی وجہ سے مزدور کرایہ ادا نہ کرسکے، تو مکان مالکوں نے نکالنا شروع کردیا۔ اسی طرح کھانے پینے کی جو بھی چیزیں اور انتظام مزدوروں کے پاس تھا، وہ سب رفتہ رفتہ ختم ہوگیا، جس کے باعث بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر مزدور اپنے گاوں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہوئے اور سواری بند ہونے کی وجہ سے پیدل ہی سفر پر نکل پڑے۔ان کی پریشانیوں کو احساس دلانے والوں نے جب ان سے سوال کیاکہ گھر جانے کے لیے آخر اتنی پریشانیاں کیوں برداشت کر رہے ہیں، تو ان کا سیدھا جواب تھا کہ ویسے بھی بھوک سے مرتے، تو ایسے ہی چل کر اپنوں کے بیچ مریں گے؛ کیوں کہ ہمیں تو آخر مرنا ہی ہے۔
جینے اور زندہ رہنے کا حق  وغیرہ بھارت کے دستورکے مطابق انسان کے بنیادی حقوق کے تحت آتے ہیں، جنھیں مہیا کرانا موجودہ سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر سرکار عوام کے بنیادی حقوق بھی فراہم نہ کرسکے، تو دستور کے آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation کے تحت کورٹ اور سپریم کورٹ کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ سرکار کا محاسبہ کرکے اسے حکم دے کہ وہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کو یقینی بنائے۔
لیکن اس لاک ڈاون میں مزدوروں کے جملہ بنیادی حقوق تو کجا، زندہ رہنے تک کے حق سے محروم کردیا گیا، اس کے باوجود نہ تو کورٹ نے اور نہ ہی سپریم کورٹ نے سرکار کو سرزنش کی اور نہ ہی سرکار کی نیت اور نیتی پر سوال اٹھاکر اسے اپنی ذمہ داری یاد دلائی۔ اس پورے بھیانک منظر نامہ پر سپریم کورٹ بھی بالکل خاموش تماشائی بنا رہا۔
میرے خیال سے   آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation اس بھارت کے دستور کا حصہ تھا، جب سرکار ووٹوں کی طاقت سے بنتی تھی۔ سرکاری پارٹیوں کو ووٹروں کی ضرورت ہوتی تھی، اس لیے ووٹر ووٹ کے وقت ا ن پارٹیوں کا خیال رکھتی تھی، جو پارٹی ووٹروں کا خیال رکھے۔ جب زمانے نے تھوڑی ترقی کی، اور ہر طرح کے اعداد وشمار سامنے آنے لگے، تو اس نے ”ہمارے ووٹر“ اور ”ہمارے ووٹر نہیں“ کی ذہنیت پیدا کی۔ پھر ذرا اور آگے چل کر ”پالیس میکر ووٹر“ اور ”اندھ بھکت ووٹر“ میں معاملہ تقسیم ہوگیا۔ یہاں تک بھی معاملہ کسی قدر غنیمت تھا؛ لیکن جب سے مشینی دور شروع ہوگیا ہے، تب سے حکومت کو ووٹروں کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ جس کا سب سے بھیانک پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ سرکار مطلق العنان ہوکر فیصلہ کرتی ہے۔ وہ اپنے فیصلے میں نہ تو عوام کی خواہشات کا خیال رکھتی ہے اور نہ ہی ضروریات کا؛ اچانک ڈی مونی ٹائزیشن، اچانک لاک ڈاون وغیرہ وغیرہ؛ یہ سب اسی مطلق العنانی کی مثالیں ہیں۔
 ان واقعات کو اگر عبرت کی نگاہ سے دیکھیں، تو جس طرح انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے اہل دانش کو یہ فتویٰ دینا پڑا تھاکہ بھارت اب غلام ہوچکا ہے، جس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے، اسی طرح اہل دانش کو یہ اعلان کرنا ضروری ہے کہ بھارت میں اب جمہوریت کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے؛ لہذا اس کے تحفظ کے لیے، کورٹ، سپریم کورٹ، میڈیا، قلم کار، اہل دانش، اپوزیشن پارٹیوں اور تمام محبان وطن کو بہر قیمت آگے آنا ہوگا۔
اور یاد رکھیے کہ اگر ابھی نہیں اٹھے، اور جان و مال کی پرواہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھے، تو پھر بھارت کو دوبارہ برباد ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
اخیر میں اپنے مزدور بھائیوں کو بھی ایک مشورہ دینا چاہوں گاکہ اس لاک ڈاون کی بے بسی نے ہمیں اچھی طرح بتادیا کہ غریبوں کا مسیحا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی سبق ملا کہ جہاں وطن معیشت ہے، اگر اسی کو وطن اقامت بھی بنالیں، تو اس قسم کے حالات کے دوبارہ شکار نہیں ہوں گے۔ اور یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے؛ بلکہ بہت سے بڑے صاحب ثروت نے وطن معیشت کو وطن اقامت بنایا ہے، شاہ رخ خان، امیتاب بچن اور ہزاروں لوگوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ 

24 May 2020

سرور کائنات ﷺ کی عید

سرور کائنات ﷺ کی عید
محمد یاسین جہازی
رمضان کے آخری دن کا سورج غروب ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کے صحن سے چاند دیکھا اور یہ دعا پڑھی کہ
 اللَّہُمَّ أَہْلِلْہُ عَلَیْنَا بِالیُمْنِ وَالإِیمَانِ وَالسَّلاَمَۃِ وَالإِسْلاَمِ، رَبِّی وَرَبُّکَ اللَّہُ۔
نماز مغرب ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لائے اور تمام ازواج مطہرات سے ملاقات کی۔ پھر اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لائے۔ اتنے میں عشا کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے پہلے عشا کی نماز ادا فرمائی۔ پھر صدقۃ الفطر غریبوں میں تقسیم فرمایا اور لیٹ گئے۔
رات کے آخری پہر میں نماز تہجد کے لیے بیدار ہوئے، تو پہلے غسل فرمایا، ہرے رنگ کا لباس اور سیاہ کلر عمامہ مبارک زیب تن کیا اور مسجد نبوی تشریف لے گئے اور نماز فجر ادا فرمائی۔ نماز فجر کی بعد کی مجلس جلدی ختم فرماکر گھر تشریف لے آئے اور طاق عدد کھجور تناول فرمایا۔ اس کے بعد صحابہ کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے تھوڑی دور پر واقع حضرت سعید بن ابی العاصؓ کے گھر کے راستے سے عیدگاہ تشریف لے آئے۔ راستے میں زبان اطہر پر تکبیر جاری تھی۔یہ ایک کھلی جگہ تھی، جہاں ایک نیزہ گاڑ کر عیدگاہ بنالیا گیا تھا، اس کے پیچھے چند صفیں بنا لی گئی تھیں جہاں بچے، جوان اور بوڑھے سب موجود تھے۔ اور یہاں سے کچھ فاصلہ پر عورتیں بھی موجود تھیں۔ اور سب لوگ رنگ برنگے نئے لباسوں میں ملبوس امام الانبیا ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ سرور کائنات ﷺ سیدھے مصلیٰ پر تشریف لائے، صفیں درست کرنے کا حکم دیا اور عید کی دو رکعت نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا۔
چوں کہ مجمع کافی تھا اور عورتیں بالکل اخیر میں تھیں، اس لیے اس خیال سے کہ خطبہ کی آواز یہاں تک نہیں پہنچی ہوگی، آپ ﷺ عورتوں کے مجمع کے پاس تشریف لائے اور انھیں نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہوگی۔ اس پر ایک خواتین نے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے یا رسول اللہ!تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ عورتیں ناشکری اور شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں۔ اس خطاب کا فوری اثر یہ ہوا کہ صحابیات مطہرات نے اپنے زیورات اور کانوں کی بالیاں تک اتار کر حضرت بلال حبشی ؓ کے حوالے کردیا، جنھیں آپ ﷺ نے مستحقین میں تقسیم کردیا۔ پھر آپ ﷺ بنی زریق کے راستے سے عیدگاہ سے گھر تشریف لے آئے۔
آپ ﷺ کا حجرہ مبارکہ مسجد نبوی سے متصل تھا، یہاں مسجد نبوی میں کچھ حبشی تماشہ دکھا رہے تھے اور آس پاس بچوں کی بھیڑ جمع تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ چوں کہ کم سن تھیں، اس لیے ان کی بھی خواہش ہوئی، تو سرورکائناتﷺنے انھیں اپنے کاندھے کے آڑ سے اس وقت تک دکھاتے رہے، جب تک کہ خود اماں حضرت عائشہ ؓ تھک نہیں گئیں۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ آگئے، انھوں نے دیکھا کہ مسجد نبوی میں تماشہ کیا جارہا ہے، اس لیے حبشیوں کو مارنے کے لیے کنکریاں اٹھانے لگے، تو حضورﷺ نے دیکھ کر فرمایا کہ ائے عمر! چھوڑ دو، دکھانے دو، آج عید کا دن ہے۔
 چوں کہ شب بیداری ہوگئی تھی، اس لیے گھر آکر بستر پر منھ ڈھانپ کر سوگئے۔ کچھ دیر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی نو عمر سہیلیاں آگئیں اور مل کر اشعار گانے لگیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ آگئے۔ انھوں نے سرورکائنات ﷺ کی نیند میں خلل اندازی سمجھ کر بچیوں کو ڈانٹنا شروع کیا، تو چہر انور سے چادر ہٹاکر فرمایا کہ ان بچیوں کو گانے دو، آج عید کا دن ہے۔
اس لیے عید کا پیغام یہ ہے کہ ؎
گلے شکوے مٹاکر مسکراؤ عید کا دن ہے
پرانی رنجشوں کو بھول جاؤ عید کا دن ہے
وہ جن کو بے سبب ٹھکرا دیا ہے دنیا والوں نے
گلے ان بے سہاروں کو لگاؤ عید کا دن ہے
اخوت، بھائی چارہ، دوستی، اخلاص پھیلاؤ
محبت کے دیے گھر گھر جلاؤ عید کا دن ہے
وہ جن بچوں کے بچپن کارخانے چھین لیتے ہیں
وہ بچپن پھر انھیں واپس دلاؤ عید کا دن ہے
کسی کے واسطے نفرت نہ رکھو اپنے سینے میں
جو روٹھے ہیں انھیں چل کر مناؤ عید کا دن ہے
کم از کم آج کے دن ہو ہو خوشی ہر ایک چہرے پر
سبھی مل کر دعا کو ہاتھ اٹھاؤ عید کا دن ہے

22 May 2020

مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ اور جمعیت علمائے ہند

مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ اور جمعیت علمائے ہند
محمد یاسین جہازی
نیا میں آنا ہی درحقیقت یہاں سے جانے کی تمہید ہے۔ اگر آخر الذکرکا تسلسل نہ ہو، تو ایک مومن کے لیے یہ سب سے بڑی سزا ہوگی؛ کیوں کہ ہمیشہ میدان امتحان میں ہی رہنااور اس کا انعام نہ ملنا؛ ایک قسم کی سزا ہے۔ حضرت الاستاذ حضرت مولانا و مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند 19مئی 2020بروز منگل صبح سات و آٹھ کے درمیان قید حیات سے آزاد ہوکر ابدی زندگی کی طرف منتقل ہوگئے۔اور جوگیشوری ممبئی کے اوشیورہ قبرستان میں تدفین کردی گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
راقم زمانہ طالب علمی کے بعد جمعیت علمائے ہند کے شعبہ ”ادارہ مباحثہ فقہیہ“ کے ایک کام کے حوالے سے حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جمعیت نے حالات حاضرہ کے متعلق کچھ عنوانات طے کیے تھے، سیمینار کے لیے کسی ایک عنوان کی تعیین یا تخلیق کی گذارش حضرت کی خدمت میں پیش کی گی۔ بعد العصرکی محفل تھی، درجن کی تعداد میں طلبہ بھی موجود تھے۔ حضرت نے ہر ایک عنوان کو غور سے دیکھا اور کچھ مفید مشورے بھی دیے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ حضرت فدائے ملت ؒ کے دور صدار ت میں جمعیت کے مختلف پروگراموں میں شرکت ہوتی تھی؛ لیکن اب پروگراموں سے یکسو ہوگیا ہوں اور بہت کم ہی شرکت کرتا ہوں۔
حضرت کے انتقال کے اگلے دن یعنی 20مئی 2020بروز بدھ نماز ظہر دفتر جمعیت علمائے ہند کے مدنی ہال میں ایک تعزیتی نشست رکھی گئی، جس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیت علمائے ہند نے حضرت کی زندگی اور کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سال گذشتہ رمضان سے پہلے(اپریل2019) مظفر نگر میں واقع جمعیت یوتھ کلب کے سینٹر پر تشریف لائے۔ یہاں کے منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میدان میں لگے جھولے پر بیٹھ کر بچپنہ احساس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ زمین خریدی گئی تھی، تب بھی  میں یہاں آیا تھا۔ اور آج جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آباد کردیا ہے، تو یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔ مفتی صاحبؒ نے جمعیت یوتھ کلب کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا، بہت ساری دعائیں دیں اور کہا کہ دیوبند کے آس پاس اگر کوئی پروگرام ہو تو مجھے بھی بتانا، میں اس میں شرکت کروں گا۔ مفتی صاحب مرحوم نے مزید بتایا کہ حضرت فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ مجھ سے ہمیشہ مشورہ فرمایا کرتے تھے؛ بالخصوص فرقہ باطلہ کے تعلق سے مجھ سے ضرور صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ مفتی صاحب ؒ نے جمعیت علما سے وابستگی کے تعلق سے بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت گجرا ت میں مدرس تھا، تو حضرت مولانا و مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپپوری ؒ وہاں کے صدر ہواکرتے تھے اور میں ناظم اعلیٰ تھا۔ آپ مارچ 1965سے اگست1973یعنی کل نو سال تک جمعیت علما سورت کے ناظم اعلیٰ رہے۔
قائد جمعیت،جانشین فدائے ملت حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند سے بھی آپ کا خصوصی تعلق تھا۔چنانچہ فدائے ملتؒ کے انتقال کے بعد پروگراموں سے الگ تھلگ ہوجانے کے باوجود قائد جمعیت کی دعوت پرجمعیت کے فقہی اجتماعات میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ اور پچھلی مرتبہ جب رابطہ مدارس اسلامیہ کا اجلاس دیوبند میں ہورہا تھا اور دوران پروگرام قائد جمعیت پروگرام میں شریک ہوئے، تو حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اورگلے لگاکر اپنے بازو میں بٹھایا۔ معلومات کے لیے عرض کردوں کہ قائد جمعیت حضر ت مفتی صاحب مرحوم کے شاگرد ہیں۔ اس کے باوجود آپ کے لیے کھڑے ہوگئے؛ جو بالیقین جمعیت اور خانوادہ مدنی سے عقیدت و محبت کی واضح علامت ہے۔
جمعیت علمائے ہند نے بھی حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کو درج ذیل عبارت میں خراج عقیدت اور اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا:
”جمعیت علمائے ہند کے صدرامیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور ناظم عمومی مولانا محمود مدنی نے دارالعلوم دیوبند کے انتہائی موقر شیخ الحدیث و صدرالمدرسین حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کی وفات حسرت آیات پردلی رنج و الم ظاہرکیا ہے۔دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کے اڑتالیس سالہ دورمیں ہزارہا تشنگان علوم آپ کے سرچشمہ فیض سے بلاواسطہ فیضیا ب ہوئے۔آپ جیسے کریم النفس، صاحب تقوی،مشفق استاذ کا سایہ بہت بڑی سعادت اور ان کی وفات بڑی محرومی اور عظیم نقصان ہے۔ آپ کی ذات ستودہ صفات بہت سی علمی و عملی خوبیوں کا مظہر تھی۔رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ، افادات درس ترمذی ’تحفۃ المعی‘ افادات درس بخاری’تحفۃ القاری‘ زبدۃ الطحاوی،داڑھی اور انبیا کی سنتیں، حرمت مصاہرت، العون الکبیر وغیرہ ان کی بہترین تصنیفات ہیں، ان کے علاوہ انھوں نے متعدد علمی و فقہی کتابیں لکھی ہیں۔
مولانا موصوف کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے ابتدا سے تا حیات ناظم عمومی رہے، انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں بوقت ضرورت فتاوی نویسی فرمائی اور اہم فتاوی کے جوابات کی نگرانی فرماتے۔ آپ نے ہمیشہ جمعیت علمائے ہند اور اکابر جمعیت سے خصوصی تعلق رکھا اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1384 ھ(1965) میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر سورت میں درجہ علیا کے استاذ مقرر ہوئے، تو وہاں جمعیت علما کی سرگرمیوں سے باضابطہ وابستہ ہوئے اور مسلسل نو سال تک جمعیت علمائے راندیر کے ناظم بھی رہے۔حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی ؒ ان سے مشورہ فرماتے اور جب بھی مباحث فقہیہ جمعیت علمائے ہند کے اجتماعات منعقد ہوتے، ان کو خصوصی طور سے مدعو فرماتے۔حضرت مولانا سال گزشتہ بھی مباحث فقہیہ کے اجتماع میں شریک ہوئے، وہ فقہ حنفی کے برصغیر میں نامور عالموں میں تھے اور دلائل کی قوت سے مسلک احناف کو عصر حاضر کے مسائل کا بہتر ین حل کے طور پر پیش کرتے۔
جمعیت علما حضرت مولانا کے پسماندگان سے دلی ہمدرردی ظاہر کرتی ہے اور دست بہ دعا ہے کہ اللہ تعالی آ پ کو زمرہ صالحین میں مقام اعلی عطا فرمائے اور انبیا و صدیقین کا رفیق بنائے، نیز اہل خاندان، اولادو رفقا،ہزارہا تلامذہ اور ہم متوسلین کو صبرو استقامت کے ساتھ اس غم کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جمعیت علمائے ہند اپنے تمام جماعتی احباب،دینی مدارس کے ذمہ داروں سے مولانا مرحوم کے لیے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کے اہتمام کی اپیل کرتی ہے۔ ممبئی میں صبح حضرت مولانا موصوف کی انتقال کی خبر موصول ہوتے ہی جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے دیوبند میں ان کے گھر جا کر برادر خورد حضرت مفتی امین پالن پوری صاحب اور مفتی صاحب مرحوم کے صاحبزادگان و دیگر اہل خانہ سے تعزیت مسنونہ پیش کی۔ نئی دہلی میں جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں بعد نماز ظہر ایک تعزیتی نشست بھی منعقد ہوئی، جس میں دعائے مغفرت کی گئی،اس میں جمعیت علمائے ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا کلیم الدین قاسمی، مولانا عرفان، مولانا نجیب اللہ قاسمی، مولانا ضیاء اللہ قاسمی، مولانا یاسین جہازی،مولانا عظیم اللہ قاسمی سمیت دفتر میں موجود سبھی اسٹاف شریک ہوئے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ جمعیت علمائے ہند سے فکری اور عملی دونوں طور پر وابستہ رہے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت استاذ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیع عنایت کرے۔ آمین۔  

15 May 2020

لنگی امام، پائجامہ امام

لنگی امام، پائجامہ امام
محمد یاسین جہازی
شروع رمضان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوا۔ ویڈیو میں ایک لنگی پہنا شخص امامت کرارہا ہے، جب کہ اس کے پیچھے برقعے میں دو عورتیں اقتدا کر رہی ہیں۔ امام و مقتدیوں کے درمیان میں ایک بچہ امام صاحب کی لنگی سے کھیل رہا ہے۔ کھیلتے کھیلتے امام صاحب کی لنگی میں گھس جاتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر پیچھے کھڑی دونوں مقتدیاں ہنسی کو قابو میں نہیں رکھ پاتیں اور نماز دوڑ دیتی ہیں۔ بعد ازاں لنگی امام بھی نمازتوڑ دیتا ہے، جس کے بعد ایک قہقہ بار ماحول پیدا ہوکرویڈیو ختم ہوجاتا ہے۔
اب تک تو ’پائجامہ شخص‘، ’پائجامہ امام‘ ہی کا محاورہ سنتے پڑھتے تھے؛ لیکن اس واقعہ سے ’لنگی امام‘ کا محاورہ بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے۔
اسلام میں ’امامت‘ کا تصور بہت اعلیٰ ہے۔ امام کا حقیقی مصداق وہی شخص ہوسکتا ہے،جو دینی و سیاسی؛ تمام امور میں مکمل بصیرت رکھتا ہے۔ امامت کا امتیاز یہ ہے کہ اسی کے فیصلہ پر جملہ دینی امور اور سبھی سیاسی معاملے انجام پذیر ہوتے ہیں۔ امام کے آوامر اور اس کے نواہی دونوں فیصلے کا درجہ رکھتے ہیں؛ قصہ مختصر یہ ہے کہ انسان کی دنیوی و اخری زندگی کے لیے امام ہیئت حاکمہ ہوتا ہے۔
لیکن آج ہم نے امامت کا مفہوم اور اس کے کردار کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔آج ہمارے لیے امام محض تنخواہ یافتہ ایک ملازم بن کر رہ گیا ہے، اماموں کے پاس نہ دینی رہنمائی کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی سیاست کے سین سے واقف ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ معاشرے میں امام کی حیثیت صرف نماز پڑھانے اور دعا درودکرنے کی رہ گئی ہے۔امامت کے مقام و مرتبہ کو اس حد تک گرانے میں جہاں مقتدیوں کی غلطی ہے، وہیں امام بھی اس کے کم ذمہ دار نہیں ہیں۔اور شاید انھیں حالات کی وجہ سے جمعیت علمائے ہند کوآج سے چھیانوے سال پہلے درج ذیل تجویز پاس کرنی پڑی تھی:
”تجویز نمبر-6۔ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اِس امر واقع کو دیکھتے ہوئے کہ قصبات و دیہات میں مساجد کے امام ہی قصبوں اور گاؤں کے مذہبی مقتدا سمجھے جاتے ہیں اور اِن کی مذہبی ضروریات کے متکفل ہوتے ہیں، لیکن اکثر امام محض جاہل اور بندہئ زر ہوتے ہیں، اِس وجہ سے مسلمانوں کی مذہبی حالت میں ترقی ہونے کی بجائے روز بروز تنزل اور انحطاط ہوتا جاتا ہے، تمام قصبات و دیہات کے مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ اپنی مساجد میں امام مقرر کرتے وقت مقامی یا اپنے سے قریب تر دفتر جمعیت علما کے مشورہ اور استصواب کے بعد امام مقرر کیا کریں، تاکہ اِن کو اچھے واقف کار امام میسر ہوں اور مساجد کے اماموں سے یہ درخواست کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو نماز اور روزہ اور اسلام کے دیگر ضروری مسائل کی سیدھی سادی تعلیم دیتے رہا کریں۔“ (تجاویز ساتواں اجلاس عام جمعیت علمائے ہند، منعقدہ11 تا 14مارچ1926 ، کلکتہ، جمعیت علمائے ہند کے سو سال قدم بہ قدم جلد دوم، ص/ 90غیر مطبوعہ)

اسی طرح بعض امام نماز، وقت اور مقتدیوں کی نفسیات سے بالکل عاری ہوتے ہیں، انھیں یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ کس وقت حدر کی تلاوت سے نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے اور کہاں ترتیل کی ضرورت ہے۔ موسم کی سختی و گرمی کے اعتبار سے نماز میں اختصار سے کام لینا چاہیے یا لمبی نماز زیادہ مناسب ہوگی۔سری دعا کا موقع ہے یا جہری دعا ہونی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے امام بالعموم مقتدیوں کی نفسیات اور مقتضیات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نمازیوں کو مسجد سے متنفر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
دراصل ایسے افراد امام کم ہوتے ہیں اور پائجامہ زیادہ؛ اس لیے راقم کا بھی یہی مشورہ ہے کہ آپ اپنی مسجد میں امام کا تقرر کرتے وقت درج بالا تجویز پر ضرور عمل کریں؛ ورنہ آپ جس کی اقتدا کریں گے، وہ امام کم اور پائجامہ زیادہ ہوگا۔ یہ سطور خودی کے محاسبہ کی بھی دعوت دیتی ہیں کہ اب تک آپ جس کی اقتدا کرتے آئے ہیں، وہ امام ہیں یا پائجامہ……؟

10 May 2020

میں پوچھتا ہوں وہ تیسرا آدمی کون ہے؟

میں پوچھتا ہوں وہ تیسرا آدمی کون ہے؟
محمد یاسین جہازی
کورونا وائرس کی روک تھام کے بہانے حکمت و مصلحت سے خالی اچانک لاک ڈاون کردینے کی وجہ سے محنت کش اور مزدور طبقے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ پہلی بار جب اکیس دن کا لاک ڈاون لگایا گیا، تو مزدوروں نے کسی طرح صبر کرکے وقت گذار لیا، لیکن اس کے بعد پھر انیس دن کا اضافہ کردیا۔ اور ابھی اضافہ کے یہ دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ پھر چودہ دن اور بڑھادیا۔ اور ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ یہ تیسرا اضافہ آخری اضافہ ہوگا۔ بار بار لاک ڈاون بڑھانے کی وجہ سے مزدوروں کے پیسے اور کھانے پینے کی چیزیں ختم ہوگئیں، تو ان کا صبر ٹوٹنے لگا اور انھوں نے خالی پیٹ اور ننگے پیر سفر کرنا شروع کردیا اور اپنے گاوں پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔ چنانچہ پہلے انھوں نے سڑک اور ہائیوے کا سہارا لیا، تو پولیس کے تشددکے نشانہ بننے لگے۔پھر انھوں نے اپنی جان کو جوکھم میں ڈالتے ہوئے ریل پٹریوں کو راستہ بنایا، تو یہاں بھی پولیس کی لاٹھی ڈنڈوں نے ان کا استقبال کیا۔ان تمام دشواریوں کے باوجود مزدوروں نے اپنی ہمت نہیں ہاری اور اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی سلسلہ کے سترہ مسافروں نے مہاراشٹر کے شہر جالنا سے پٹری پٹری چلتے ہوئے مدھیہ پردیش آنے کا فیصلہ کیا۔ اور ساتھ میں ایک سو پچاس روٹی اور دال زاد سفر رکھ لیا۔ ریل کی پتھریلی زمین پر، بھوک اور دھوپ کی سختی کو برداشت کرتے ہوئے جالنا سے پینتیس کلو میٹر پیدل چلتے چلتے جب تھک کر چور ہوگئے تو کچھ روٹیاں کھاکر ریل کی پٹری کو تکیہ بناکر سو گئے۔
 8مئی 2020کو جمعہ کے دن صبح کاذب کے وقت گڑگڑاتی ہوئی ایک مال ریل گاڑی آئی اور ان پچاس روٹی والے سترہ مزدوروں میں سے سولہ مزدوروں کو روندتی ہوئی چلی گئی۔ ٹرین گذرنے کے بعد کیمرے نے جو مناظر قید کیے، وہ یہ تھے کہ چاروں طرف خون کے چھینٹوں سے زمین لالہ زار ہوچکی تھی،جگہ جگہ گوشت کے لتھڑے بھیانک درندگی کے وحشت انگیزنظارہ پیش کر رہے تھے، چند روٹیاں اوربکھری دال کے دانے مزدوروں کی داستان بے ستون بیان کر رہے تھے۔ یہ مزدور جن روٹیوں کی تلاش کے لیے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دیار غیر گئے تھے، اور وہاں سے ایک سو پچاس روٹیوں کی گھٹری لے کر اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھے، وہ روٹی بھی ان کو نصیب نہ ہوسکی۔
جب سے لاک ڈاون ہوا ہے، تب سے اس قسم کے کئی بھیانک مناظر سامنے آچکے ہیں، جہاں مزدور طبقہ بھوک سے مرجانے کے خوف سے ہزاروں کلو میٹر بھوکا پیاسا پیدل چلنے پر مجبور ہے۔ اس طبقہ کے لیے نہ تو سرکارکی طرف سے دو وقت کھانے کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ان کے گھر تک پہنچانے کے لیے کسی معقول سواری کا انتظام ہے، جس کے نتیجے میں ہائیوے کے کنارے پیدل چلنے کی وجہ سے ٹرک ان کی جان لے رہے ہیں اور ریل پٹری پر چلنے سے ریل گاڑیاں ان کی جان کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ میڈیا کے توسط سے ہزاروں کی تعداد میں فیڈ بیک ملنے کے باوجود سرکار کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر ان مزدور طبقوں کا اصلی دشمن کون ہے، جو ان کے خوفناک حالات کو دیکھنے کے باوجود ان کے تحفظات کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھارہا ہے۔ سوداما پانڈے دھومل لکھتے ہیں کہ
ایک آدمی روٹی بیلتا ہے
ایک آدمی روٹی کھاتا ہے
ایک تیسرا آدمی بھی ہے
جو نہ روٹی بیلتا ہے، نہ روٹی کھاتا ہے
وہ صرف روٹی سے کھیلتا ہے
میں پوچھتا ہوں
یہ تیسرا آدمی کون ہے؟
میرے دیش کی سنسد مون ہے
بس جواب مل گیا کہ ان تمام حادثوں اور خوفناک مناظر کا اصلی ذمہ دار بھارت کا سسٹم ہے۔ بھارت کی موجودہ بی جے پی کی سرکار ہے، جو شہروں کو روٹی فراہم کرنے والے مزدوروں کی روٹیوں سے کھیلواڑ کر رہی ہے۔یہ سرکار حکومت کے نشے میں اتنے چور اور مغرور ہوگئی ہے کہ اسے مزدوروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اتنا غرور بھی اچھا نہیں ہے۔ان مزدوروں اور بے سہاروں کی آہ سے ڈریے اور ان کے کھانے پینے اور آمدورفت کا معقول انتظام کیجیے؛ ورنہ ایک دن ان مظلوموں کی آہ تمھارے وجود کو خاکستر کرکے رکھ دے گی؛ کیوں کہ یہی قانون فطرت ہے۔


8 May 2020

کم تنخواہ والے اور یومیہ مزدوروں کی خدمت میں

کم تنخواہ والے اور یومیہ مزدوروں کی خدمت میں
محمد یاسین جہازی
نومبر 1981میں اوم پرکاش والمیکی نے ’ٹھاکر کا کنواں‘ کے نام سے ایک کویتا لکھی تھی، پہلے آپ بھی اس سے محظوظ ہوجائیں:
چولہا مٹی کا
مٹی تالاب کی
تالاب ٹھاکر کا

بھوک روٹی کی
روٹی باجرے کی
باجرا کھیت کا
کھیت ٹھاکر کا

بیل ٹھاکر کا
ہل ٹھاکر کا
ہل کی مٹھ پر ہتھیلی اپنی
فصل ٹھاکر کی

کنواں ٹھاکر کا
پانی ٹھاکر کا
کھیت کھلیان ٹھاکر کے
گلی محلے ٹھاکر کے
پھر اپنا کیا؟
گاوں؟
شہر؟
دیش؟
بھارت کے وزیر اعظم 24 مارچ 2020 کو رات آٹھ بجے ٹی وی پر آتے ہیں اورکورونا وائرس (Covid-19) کے پھیلاو کو روکنے کا حوالہ دیتے ہوئے اچانک پہلے مرحلہ میں 25مارچ 2020سے 14اپریل کل اکیس دن کے لیے، بعد ازاں 15اپریل سے 3مئی تک اور پھر 4مئی سے 17مئی تک، کل 54دن کے لیے مکمل لاک ڈاون کافرمان جاری کردیتے ہیں۔اور ابھی تک پتہ نہیں کہ یہ آخری تاریخ ہے یا اور آگے بڑھایا جائے گا۔اس اچانک فیصلے کے ایک دو دن کے بعدہی یومیہ کمانے والے مزدور وں کی نقل مکانی اور بھکمری کی جو بھیانک تصاویر سامنے آئیں، انھوں نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک طرف کام بند ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے، وہیں دوسری طرف ہوٹل اور ڈھابہ وغیرہ بند ہونے کی وجہ سے، ان ذرائع پر منحصر افراد دانہ دانہ کو ترسنے لگے۔جن کے پاس پیسے تھے، وہ جب اپنے بچوں کے لیے کھانا اور کھانے کی چیزیں خریدنے کے لیے باہر نکلے تو پولیس نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔کہیں پر کرایہ داروں نے مزدوروں کو اپنے گھروں سے نکال دیا، تو کچھ جگہ پر کام دینے والے مالکوں نے مزدوروں کے کمائے ہوئے پیسے بھی دینے سے انکار کردیا۔ رد عمل کے طور پر مزدوروں نے شہروں سے ہجر ت کرنا شروع کردیا۔ سواری اور دکانیں بند ہونے کی وجہ سے لوگ پیدل اور پیٹ پر پتھر باندھ کر چلنے لگے۔ ان مسافروں میں کچھ معذور بھی تھے، جو رینگنے کی رفتار سے چلتے نظر آئے۔ معصوم بچوں کو تیز دھوپ میں پیٹھ پر لادے کمزور مائیں، سروں پر سامان کی گھٹری لیے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرنے لگیں۔ پیدل پیدل چلتے چلتے ان مزدوروں کے پاوں زخموں سے چور ہوگئے۔ ایک تصویر یہ بھی سامنے آئی کہ ایک شخص اپنی اسی سالہ ماں کو گود میں اٹھائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ کھانے پینے کی دکانیں بند ہونے اور مفلسی کی وجہ سے مزدور کوڑوں میں پھیکے ہوئے کھانے اور نالی کے گندے پانی پینے پر مجبور ہوگئے۔ ایک تصویر نے تو انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا کہ سڑک کے کنارے پھیکے ہوئے کھانے پر انسان اور کتے دونوں جھپٹے اور اپنی اپنی زندگی بچانے کے لیے خوں ریز لڑائی ہوگئی۔
ان حالات اور سچائیوں کو دیکھتے ہوئے کم تنخواہ پر کام کرنے اور یومیہ مزدوروں کو ’ٹھاکر کا کنواں‘ سے سبق لیتے ہوئے درج ذیل سوالات کا جواب ڈھونڈھنا ضروری ہے کہ
(1) کیا وہ شہرآپ کا ہوا، جس کی تعمیر و ترقی کے لیے آپ نے اپنی زندگی کے حسین لمحات وقف کردیے؟
(2)کیا وہ مالک آپ کا ہوا، جس کی اسائش حیات کے لیے آپ نے خون پسینے بہادیے؟
(3) کیا وہ حکومت آپ کی ہوئی، جس کو بنانے کے لیے آپ نے اپنے قیمتی ووٹ دیے؟
(4)کیا وہ سرکار آپ کے لیے سہارا بنی، جس کے شہروں کو چکا چوند بنانے کے لیے آپ نے اپنی بیوی بچوں اور گھر بار کو چھوڑا؟ 
اس لاک ڈاون میں جس طرح کے بھیانک مناظر سامنے آئے ہیں، ان سب کے تناظر میں تو سبھی مزدوروں کا جواب یہی ہوگا کہ ”نہیں“۔ تو پھر یہی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مزدوروں کو کیا کرنا پڑے گا جس کے بعد ان سوالوں کا جواب ”ہاں“ میں آئے۔
اس کا سب سے پہلا جواب تو یہ ہے کہ مزدوروں کو سب سے پہلے اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ ہمارا کوئی نہیں ہے اور ہمیں اپنے ہی سہارے زندگی کی جنگ لڑنی ہے۔ جب یہ احساس پیدا ہوجائے گا، تو پھر اس کا دوسرا جواب یا حکمت عملی یہ اختیار کرنی پڑے گی کہ آپ کی جو بھی کمائی ہے، اس میں سیونگ کا مزاج بنانا ضروری ہے۔ اگر آپ یومیہ سو روپے کماتے ہیں، تو اس میں کم از کم دس پرسینٹ یعنی دس روپے بچانا ضروری ہے۔ اور یہ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا آپ کا ساتھ چھوڑ دے، تو اس وقت آپ کی یہ سیونگ آپ کا سہارا بنے۔
یہ تو خود آپ کے لیے ایک تجویز تھی۔اور دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے خاندان کے لیے ایک لونگ ٹرم پالیسی بنائیے۔ اور وہ پالیسی یہ ہے کہ یہ طے کریں کہ اگر ہم غلامی اور مزدوری کر رہے تھے تو ہماری اگلی نسل غلام اور مزدور نہیں بننا چاہیے؛ بلکہ ملازم یا اسٹاف بننا چاہیے۔ اور اگر دوسری نسل ملازم اور اسٹاف ہے، تو اس سے اگلی نسل تاجر یا مالک بننا چاہیے۔ ہم تیسری نسل میں مالک ہونے کی پوزیشن میں اسی وقت پہنچ پائیں گے، جب کہ ہم اپنی غلامیت کی نسل میں یہ لونگ ٹرم پالیسی بنالیں گے۔
یاد رکھیے کہ اگرایسا نہیں سوچیں گے اور ایسا نہیں کریں گے، تو ہم مزدور پیدا ہوتے آئے ہیں، اگلی نسل مزدور پیدا ہوگی اور قیامت تک مزدور ہی پیدا ہوتی ہی رہے گی۔ اور یاد رکھیے کہ غلاموں اور مزدوروں کا کوئی نہیں ہوتا؛
نہ شہر
نہ گاوں
نہ دیش
نہ مالک

اور نہ حکومت

1 May 2020

نئی نویلی دہلی

نئی نویلی دہلی
محمد یاسین جہازی
ہمہ وقت چلنے والی فیکٹریوں، بحری و فضائی جہازوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھواں اور زہریلی ہوا، جہاں انسان سمیت ہر جاندار مخلوق کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، وہیں طبعی آب وہوا اور فطری حیاتیاتی نظاموں کو بری طرح متاثر کردیتی ہے۔جس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور قدرتی زندگی تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔
 ہوا میں انسان کے ایک بال کے تین فی صد کے برابر(Particulate Matter) یعنی (P.M.2.5) ہوتا ہے، جس کی پیمائش کو (Air quality index) ایر کوالٹی انڈیکس کہاجاتا ہے۔ اگر (P.M.2.5) زیرو سے سو تک ہے، تو اسے ٹھیک کہاجاتا ہے۔ ایک سو ایک سے دو سو تک نارمل سمجھا جاتا ہے، اس سے زیادہ تین سو تک خراب کے زمرہ میں آتا ہے،  چار سو تک پہنچ جائے تو بہت خراب ہوتاہے، لیکن جب چار سوسے اوپر ہوجائے تو وہ خطرناک سطح پر پہنچ جاتا ہے۔
کورونا وائرس (Covid-19) کی وجہ سے 25مارچ 2020سے 3مئی 2020تک مکمل بھارت کو لاک ڈاون کردیا گیا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف یومیہ کمانے والے مزدور اور کم تنخواہ پانے والے تھرڈ گریڈ کے ملازمین کے ساتھ ساتھ مدارس کے اساتذہ بھکمری کے شکار ہوگئے ہیں، جو تالہ بندی کا انتہائی تکلیف دہ پہلو ہے، وہیں دوسری طرف خوشی کی خبر یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر فضائی آلودگی ’خطرناک‘ سطح سے ’ٹھیک‘ اور ’نارمل‘ سطح پر آگئی ہے۔
ہم بھارت کی راجدھانی نئی دہلی کی بات کریں، تو لاک ڈاون سے پہلے؛ بالخصوص دیوالی کے موقع پر(P.M.2.5) چار سو یعنی خطرناک سطح سے بھی اوپر پہنچ جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہوا کی کوالٹی کی پیمائش کرنے والی مشین میں 999تک ہی پیمائش کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ آلودگی ہو تو یہ مشین ریکارڈ نہیں کرپاتی۔ ہر دیوالی کی طرح پچھلی دیوالی اور دہلی کے اڑوس پڑوس علاقوں میں پرالی جلائے جانے کے دنوں میں پیمائش کی یہ مشین 999 تک پہنچ کر جام ہوجاتی ہے؛ یعنی اس سے زیادہ اور کتنا پولیوشن بڑھ جاتا ہے، اسے بتایا نہیں جاسکتا۔ ایسے دنوں میں دیکھا گیا ہے کہ دہلی کی فضا بالکل مسموم ہوجاتی ہے، آسمان میں دھواں کی چادر تن جاتی ہے۔ آنکھ میں جلن، سانس میں گھٹن، دماغی صلاحیت کمزور اور گلابی پھیپھڑے بالکل کالے ہوجاتے ہیں۔درجہ حرارت میں زبردست اضافہ ہوکر دہلی گیس چیمبر بن جاتی ہے۔
دیوالی اور پرالی جلانے کے علاوہ دنوں کی بات کریں، تو چوبیسوں گھنٹے چلنے والی فیکٹریوں اور گاڑیوں کی وجہ سے بعض علاقے ہمیشہ ”خطرناک سطح“ پر ہی رہتے تھے، جس میں آئی ٹی او، آنند وہار اور کئی علاقوں میں (P.M.2.5) پانچ سو یا اس سے زائد رہتا تھا۔ اور یہ ایک ایسا مسئلہ تھا، جس پر قابو پانے کے لیے دہلی حکومت نے اوڈ، اوین فارمولہ بھی جاری کیا، جگہ جگہ پیوری فائے کی مشینیں بھی نصب کیں؛ لیکن اس سے کوئی امید افزا نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
لیکن جب سے لاک ڈاون ہوا ہے، اس سے کچھ دنوں کے بعد ہی دہلی کا  (P.M.2.5) تا دم تحریر(یکم مئی 2020) 85 سے لے 170کے درمیان ہے۔ یعنی فضائی آلودگی ”ٹھیک“ اور ”نارمل“ سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ دہلی کی ماحولیات پر اس کا اثر یہ دکھ رہا ہے کہ آسمان بالکل صاف اور ہرا نظر آرہاہے۔ درختوں اور پیڑ پودوں پر ہریالی مسکرا رہی ہے۔پھولوں پر جوانی ناچ رہی ہے۔ سانس لینے میں تازگی کا احساس ہورہا ہے۔پوری دہلی اتنی خوشنما اور دل کش نظر آرہی ہے کہ میں نے اتنی خوب صورت اور خوش منظر دہلی اس سے پہلی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلی والی دلی نہیں؛ بلکہ نئی نویلی دہلی ہے۔  

رمضان اور تکوینی نظام میں تبدیلیاں

رمضان اور تکوینی نظام میں تبدیلیاں


  ماہ رمضان میں غیر رمضان کی بنسبت تین طرح کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں: (۱) تکوینی نظام میں تبدیلی۔ (۲) اعمال کے ثواب میں اضافہ۔ (۳) روزہ مرہ کے معمولات اور عبادات میں تبدیلیاں۔
(۱) تکوینی نظام میں تبدیلیاں
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتے ہی کائنات کے نظام کا جو سسٹم ہے، اس میں قدرت الٰہی تھوڑی بہت تبدیلی کردیتی ہے۔ پوری تبدیلی نہیں کرتی، مثلا عام دنوں کا تکوینی نظام یہ ہے کہ سورج مشرق سے نکل کرمغرب میں غروب ہوتا ہے، تو رمضان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جو جزوی تغیر ہوتا ہے، وہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے، جس کا اشارہ درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ:
اذا دخل شھر رمضان، غلقت ابواب جھنم، و فتحت ابواب الرحمۃ، و سلسلت الشیاطین (مسند عبد بن حمید، باب اذا دخل)
ترجمہ: جب رمضان کا مہینہ آجاتا ہے تو جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں۔ رحمت و جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف رمضان میں ہوتی ہے۔ دوسرے مہینوں میں ایسا نہیں کیا جاتا؛لیکن لیلۃ القدر میں اس تکوینی نظام میں مزید تبدیلیاں کردی جاتی ہیں، جو کچھ درج ذیل ہیں:
(الف) یہ رات کھلی ہوئی اور چمک دار ہوتی ہے۔
(ب) نہ زیادہ گرم ہوتی ہے اور نہ زیادہ سرد، معتدل رہتی ہے۔
(ج) اس رات صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔
(د) اس صبح کا آفتاب شعاع کی تیزی کے بغیر چودھویں چاند کی طرح نکلتا ہے۔
(ہ) عبدۃ ابن لبابہ ؓ کہتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سمندر کا پانی چکھا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔
(و) ایوب بن خالد کہتے ہیں کہ مجھے نہانے کی ضرورت ہوئی۔ میں نے سمندر کے پانی سے غسل کیا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔
(ز) آسمان تھوڑا بہت ابر آلود ہوتا ہے۔ درخت وغیرہ جھکے جھکے سے نظر آتے ہیں گویا وہ بھی سجدہ ریزی کی کوشش کر رہا ہو۔
(ک) حضرت جبرئیل فرشتوں کی ایک جماعت لے کر دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔
(ل) پوری رات عام راتوں کے بالمقابل شیاطین کی ضرر رسانی سے محفوظ و مامون رہتی ہے۔
(۲) اعمال کے ثواب میں کئی گنا کا اضافہ
رمضان میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ اعمال کا ثواب عام دنوں کے مقابلے کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ:
کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر امثالھا الیٰ سبع ماءۃ ضعف، الا الصوم، فانہ لی و انا اجزی بہ، یدعو شھوتہ و طعامہ من اجلی (مسلم، باب فضل الصیام)
انسان کے ہر عمل کا ثواب بڑھا دیاجاتا ہے۔ ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔ (آگے حدیث قدسی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ)مگر روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ ددں گا، کیوں کہ اس نے کھانا پینا اور خواہشات کو میری خاطر چھوڑا۔ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رمضان کی عبادتوں کا اجر باقی گیارہ مہینے کی عبادتوں سے ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ملتا ہے۔ گویا ثواب ملنے کا نظام یہ ہے کہ بندہ ایک نیکی کرتا ہے، تو اللہ اس پر دس گنا ثواب لکھتے ہیں۔ اور دس ہی تک محدود نہیں رہتا؛ بلکہ رمضان کی وجہ سے اس سے بڑھا کر ستر اور ستر سے بھی اضافہ کرکے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔لیکن روزہ کی جزا اس سے بھی زیادہ ہے۔
(۳) روز مرہ کے بالمقابل عبادات اور معمولات میں تبدیلیاں
(الف)عبادات میں تبدیلیاں
            (الف) تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔
            (ب)نماز وتر جماعت سے ادا کی جاتی ہے۔
            (ج) آخر عشرے کا اعتکاف کیا جاتا ہے۔
            (د) تراویح میں پورا قرآن سننے اور سنانے کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔
(ب)معمولات میں تبدیلیاں
            (الف) دن میں کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکا جاتا ہے۔
            (ب) بطور خاص رمضان میں فحش باتوں اور لایعنی چیزوں سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
            (ج) افطاری کی جاتی ہے۔
            (د) سحری کا کھانا کھایا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے انوارو برکات سے لطف اندوز ہونے کی توفیق بخشے، آمین۔