29 Oct 2018

Haiz wa Nifaas aur Janabat ke ahkam ka bayan

حیض و نفاس اور جنابت کے احکام کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (29) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
حیض و نفاس کی وجہ سے آٹھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں : 
اول: نماز۔ دوسرا: روزہ۔ جب عورتوں نے آں حضرت ﷺ سے اپنے دین کے نقصان کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
الیس اذا حاضت المرأۃ لم تصل ولم تصم۔ (بخاری و مسلم)
کیا یہ بات نہیں ہے کہ جب عورت کو حیض آتا ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے ، تو عورتوں نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمھارے دین کا نقصان ہے۔ 
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ 
کانت النفساء تقعد علیٰ عھد رسول اللّٰہ ﷺ بعد نفاسھا اربعین یوما۔ (رواہ الخمسۃ الا النسائی واللفظ لابی داؤد و فی لفظ لہ : ولم یامرھا النبی ﷺ بقضاء صلوٰۃ النفاس، و صححہ الحاکم، بلوغ المرام، ص؍۲۸) 
بچہ جننے والی عورتیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بچہ جننے کے بعد چالیس دن بیٹھتی تھیں۔ اور ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو نفاس کی نماز کے قضا کا حکم نہیں کیا ہے ۔ 
یعنی حالت نفاس میں جو نماز چھوڑنی پڑتی ہے ، اس نماز کی پیچھے بھی قضا نہیں ہے ، وہ نماز بالکل معاف ہے ، البتہ روزہ کی قضا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : حائضہ کا کیا حال ہے کہ روزہ کی تو قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی ؟ حضرت عائشہؓ نے پوچھا: کیا تو حروریہ ہے؟ جواب دیا کہ نہیں، لیکن میں پوچھتی ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: زمانہ نبوت میں یہ بات پیش آتی تھی تو روزہ کی قضا کا حکم ہوتا تھا ، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہ ہوتا تھا۔ (بخاری ومسلم)
تیسرا: قرآن پڑھنااگرچہ ایک آیت ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ 
لاتقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن ۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
حیض والی عورتیں اور جنابت والے قرآن کا کوئی جزو نہ پڑھے۔ 
یعنی تلاوت کی نیت سے قرآن کا پڑھنا درست نہیں ہے۔ اگر نعمت کے شکریہ میں الحمد للہ رب العالمین کہے، یا بری خبر پر انا للہ و انا الیہ راجعون کہے تو درست ہے ۔ اسی طرح بسم اللہ کا پڑھنا درست ہے۔ 
چوتھا: قرآن کا چھونا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
لایمسہ الا المطھرون۔ (الواقعۃ، آیۃ)
نہ چھوئے قرآن کو مگر پوری طہارت والا۔ 
یعنی جس کے لیے نماز پڑھنا درست ہے ، اس کے لیے قرآن چھونا درست ہے ۔ اس سے کم پاکی والوں کے لیے قرآن کا چھونا درست نہیں ، لہذا حائض نہ چھوئے ، نہ جنب اور نہ بے وضو ؛ البتہ رومال وغیرہ کے ذریعہ سے پکڑ کر اٹھا سکتا ہے۔ 
پانچواں : مسجد میں داخل ہونا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
انی لا احل المسجد لحائض ولا جنب (ابو داؤد)
میں حیض اور جنابت والے کے لیے مسجد کو حلال نہیں کرتا ہوں۔ 
یعنی ناپاک کو مسجد میں گھسنا درست نہیں ، خواہ ناپاکی جنابت کی ہو یا حیض و نفاس کی۔ 
چھٹا: خانہ کعبہ کا طواف کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
افعلی مایفعل الحاج غیر ان لاتطوفی بالبیت حتّٰی تطھری (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آں حضرت ﷺ نے فرمایا: جو حاجی کرتے ہیں وہ تمام کام کر، مگر یہ کہ بیت اللہ کا طواف تو نہ کرے ،یہاں تک کہ تو پاک ہوجائے ۔
یعنی حیض کی حالت میں کعبہ کا طواف درست نہیں ہے، باقی تمام افعال حج کرسکتی ہے۔ 
ساتواں: جماع کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ (البقرۃ،۲۲۲)
حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔ 
یعنی اس سے صحبت درست نہیں ہے۔ 
آٹھواں : ناف کے نیچے سے گھٹنے تک کے عضو سے فائدہ اٹھانا بھی درست نہیں ہے۔ 
ایک شخص نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
لک فوق الازار۔ (ابو داؤد)
تیرے لیے ازار کے اوپر جائز ہے۔
ازار تہہ بند کو کہتے ہیں ۔ ناف گھٹنے تک کا عضو تہہ بند کے نیچے کا حصہ ہے اور اس کے علاوہ مافوق الازار ہے ۔ مطلب ہوا ناف سے گھٹنے تک تیرے لیے حلال نہیں، باقی حلال ہے۔
اور جنابت کی وجہ سے پانچ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں: 
اول: نماز۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
لاتقبل صلاۃ بغیر طھور۔ (مسلم)
پاکی کے بغیر نماز مقبول نہیں۔ 
یعنی ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا درست نہیں، خواہ ناپاکی حدث اصغر کی ہو یا حدث اکبر کی، یعنی بغیر وضو غسل کے نماز صحیح نہیں ہوتی۔ 
دوسرا: قرآن کا پڑھنا، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ 
تیسرا: قرآن کا چھونا، اگرچہ ایک آیت ہو، جیسا کہ حیض میں بیان ہوا۔ 
چوتھا: مسجد میں داخل ہونا۔
پانچواں : خانہ کعبہ کا طواف کرنا۔اس کا تذکرہ حیض میں ہوچکاہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
الطواف حول البیت مثل الصلاۃ ۔ (ترمذی وغیرہ)
بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح ہے ۔
اور نماز کے لیے طہارت شرط ہے ، لہذا طواف کے لیے بھی طہارت شرط ہوگی، اسی لیے جب حضرت عائشہؓ کو حیض آیا تو آپﷺ نے طواف سے منع فرمایا۔ 
اور وضو نہ رہنے کی وجہ سے تین چیزیں حرام ہیں: 
اول: نماز پڑھنا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لاتقبل صلاۃ من احدث حتیٰ یتوضأ۔ (بخاری و مسلم)
جس نے ہوا خارج کی اس کی نماز صحیح نہیں ، یہاں تک کہ وضو کرلے۔ 
یعنی ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور وضو ٹوٹنے پر نماز نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یاایھا الذین اٰمنوا اذا قمتم الیٰ الصلاۃ فاغسلوا، الخ(المائدہ، ۶)
ائے ایمان والو! جب نماز کا ارادہ کرو توو ضو کرو۔ (اپنے منھ، ہاتھ کو دھوؤ، سر کا مسح کرو، پاؤں کو دھوؤ۔
دوسرا: قرآن کا چھونا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لاتمس القرآن الا و انت طاھر۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک و قال صحیح الاسناد)
قرآن بغیر طہارت مت چھوؤ۔
یعنی وضو ہو تو قرآن چھوئے ، ورنہ نہ چھوئے۔آں حضرت ﷺ نے عمرع بن حزم کو لکھا: 
الَّا یمس القرآن الا طاھر۔ (مالک، ص۷۵)
قرآن کو پاک ہی آدمی چھوئے ۔
یعنی پوری طہارت والا جس کو وضو و غسل ہو وہی چھوئے۔ 
تیسرا: طواف کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
الطواف حول البیت مثل الصلاۃ۔ (ترمذی) 
کعبہ کا طواف جیسے کہ نماز۔
نماز بغیر وضو درست نہیں، اسی طرح طواف بے وضو درست نہیں۔ طواف کے لیے وضو کرنا واجب ہے ۔ نماز کے لیے وضو کی فرضیت قرآن سے ثابت ہے اور طواف کے لیے وضو کا ثبوت خبر آحاد سے ہے ، اس لیے فرض کے بجائے واجب ہوا۔

27 Oct 2018

Nifas Istihaza

نفاس

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (28) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
بچہ کے پیدا ہونے کے بعد جو خون رحم سے نکلتا ہے، اس کو نفاس کہتے ہیں۔ نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے اور کم کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بالکل خون نہ آئے ، یا دو ایک منٹ آکر بند ہوجائے۔ 
عن انسؓ ان النبی ﷺ وقت للنفساء اربعین یوما الا ان تریٰ الطھر قبل ذالک۔ (رواہ الدار قطنی و ابن ماجہ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نفاس والیوں کے لیے چالیس دن مقرر کیا ہے ، مگر یہ کہ اس سے پہلے پاکی دیکھے۔
یعنی چالیس دن پہلے پاک ہوسکتی ہے ، مگر اکثر مدت چالیس دن ہے ۔ اگر چالیس دن پورے ہونے پر بھی خون بند نہ ہوتو چالیس سے زائد استحاضہ کا خون ہوگا۔ چنانچہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
فان بلغت اربعین یوما ولم تر الطھر فلتغتسل وھی بمنزلۃ المستحاضۃ۔ (رواہ ابن عدی وا بن عساکر)
اگر چالیس روز پورے ہونے پر بھی خون بند نہ ہو تو عورت کو نہالینا چاہیے ، وہ استحاضہ والی سمجھی جائے گی۔ 
استحاضہ
وہ بیماری کا خون ہے جو رگ کے پھٹنے سے نکلتا ہے۔ حیض کے دنوں میں جو خون تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ آئے، یا ایام نفاس میں چالیس روز سے زیادہ آئے ، یا حالت حمل میں خون آئے ، وہ سب استحاضہ کا خون ہوگا۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: 
لاحیض دون ثلاثۃ ایام ولا حیض فوق عشرۃ ایام۔ (رواہ ابن عدی)
تین دن سے کم حیض نہیں اور دس دن سے اوپر حیض نہیں۔ 
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: 
ان اللّٰہ رفع الحیض عن الحبلیٰ و جعل الدم بما تغیض الارحام (ابن شاہین) 
اللہ تعالیٰ نے حاملہ عورت سے حیض اٹھالیا اور خون کو ایسا کردیا کہ رحم اس کو چوسنے لگا۔ 
اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: 
ان اللّٰہ رفع الدم عن الحبلیٰ و جعلہ رزقا للولد۔ (ابن شاہین)
اللہ نے حاملہ سے خون اٹھالیا اور اس کو پیٹ کے بچے کے خوراک بنادیا ۔ 
اور معتادہ کے لیے عادت سے زیادہ استحاضہ ہے ، جب کہ اکثر مدت سے زائد حیض یا نفاس ہو۔ اگر اکثر مدت پر رکا یا اس سے کم پر تو وہ حیض و نفاس ہے ، یوں سمجھا جائے گا کہ عادت بدل گئی ہے۔

26 Oct 2018

Natural and Unnatural

نیچرل اور ان نیچرل۔۔۔؟
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
محمد یاسین جہازی
871552408



خالق کائنات نے مخلوقات کے توالد و افزائش کے لیے ایک ہی مخلوق کودو الگ الگ صنفوں میں تخلیق کیا ہے۔ ایک کو مذکر اور دوسری کو مونث کہاجاتا ہے۔توالد کے تسلسل کے لیے فطری سسٹم یہ ہے کہ مذکر و مونث ان اعضا کے باہمی ملاپ سے جنسی عمل کو انجام دے، جو ان دونوں کے درمیان جنسیت کی تفریق کرتے ہیں۔ اسے Heterosexualیعنی مرد اور عورت کا آپس میں ہمبستری کرنا کہاجاتا ہے۔ توالد و تناسل کے لیے یہی واحد طریقہ ہے اور اسی طریقے کو انجام دینے کے لیے خالق فطرت نے ایک ہی مخلوق کو دو الگ الگ صنفوں میں تقسیم کیا ہے۔اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے انسانوں کے تمام مذاہب میں شادی کا حکم یا رواج ہے۔ 
کائنات کی تمام مخلوقات اپنی صنفیت کے مقاصد کو حاصل کرنے لیے درج بالا طریقے سے ہی جنسی عمل کو انجام دیتی ہیں؛ البتہ انسان چوں کہ صاحب عقل و شعور ہے، اس لیے اس نے تسکین جنس کے لیے کئی اور ممکنہ طریقے بھی ایجاد کرلیے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
(۱) Masturbate، یعنی تنہا مرد کا ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ خود سے جنسی کام کرنا۔ اسے جلق لگانا، مشت زنی کرنا کہا جاتا ہے۔ 
(۲)Solo، یعنی انگشت زنی: یعنی تنہا عورت کا ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ جنسی کام کرنا۔ 
(۱) Homosexuality یعنی ہم جنسی ۔ اس کی دو صورتیں ہیں: 
(الف) Gayیعنی اجتماع متحرکین: دو مردوں کا آپس میں جنسی عمل انجام دینا۔
(ب) Lesbianیعنی اجتماع ساکنین: دو عورتوں کا آپس میں جنسی عمل کرنا۔
(۳) Analیعنی عورت کے فرج کے بجائے دبر میں جنسی عمل کرنا۔ 
(۴) Oral، یعنی منھ میں ، یا منھ سے سیکس کرنا۔ 
اگر آپ ابھی تک سلیم الفطرت ہیں اور یقیناًآپ ہیں، تو درج بالا تمام صورتوں کو پڑھ کر خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہ طریقے کتنے فطری اور کتنے غیر فطری ہیں۔ البتہ ان طریقوں میں کم از کم اتنی انسانیت تو باقی ہے کہ انسان خود اپنی ہی صنف سے جنسی ضرورت کی تکمیل کرتا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ طریقے فطرت سے متصادم ہیں؛ لیکن ایک طریقہ اور ہے جہاں انسان کی انسانیت تو کجا، حیوانیت بھی شرمسار ہوجاتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان، خواہ مرد ہو یا عورت اپنی خواہشات کی تکمیل جانور، مثلا کتے گھوڑے سے کرے کرائے ۔ اسے Animal Sexکہاجاتا ہے۔
شاید ہمارے سماج کی اسی ذہنیت کو دیکھتے ہوئے ۶؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس روہنگٹن ایف نریمن اور جسٹس اندو ملہوترا کی آئینی بنچ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 کے التزام کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کا مشترکہ طور پر تصفیہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی کہ ایل جی بی ٹی طبقہ(LGBT) یعنی وہ مرد، عورتیں اور ہجڑے جو ہم جنس ہیں، کو ہر وہ حق حاصل ہے، جو ملک میں کسی عام شہری کو حاصل ہے۔ عدالت کا کہنا تھا، دفعہ 377 کے کچھ التزام غیر منطقی اور من مانے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ ملک میں سب کو برابری کا حق ہے ، سماج کو سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعزیرات ہند کی یہ دفعہ ۱۵۸؍ سال پرانی تھی، جسے اس نئے فیصلے نے کالعدم کردیا۔
اس فیصلے سے پہلے درج بالا سبھی ساتوں صورتیں غیر فطری جنسی عمل شمار کی جاتی تھیں،کیوں کہ اس وقت کے لوگ اور سماج فطرت پسند تھے، جس کی وجہ سے وہ بہ خوبی واقف تھے کہ فطرت کیا چاہتی ہے اور فطری ہوتاکیا ہے؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر انسان سائنسی اعتبارے سے ترقی کرتا جارہا ہے ، اسی قدر اس کی زندگی فطرت سے دور ہوکر آرٹی فیشیل بنتی جارہی ہے ۔ چلو ہم اسے یہ سوچ کر تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہم میں بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جسے نیچرل اور ان نیچرل کا فرق معلوم نہیں ہے، کیوں کہ جہالت و ضلالت کے ہاتھوں وہ مجبور ہیں؛ لیکن جب سپریم کورٹ کے اعلیٰ فکر و دانش والے جج ایسا فیصلہ صادر کریں اور ہمیں یہ باور کرائیں کہ فطری جنسی عمل ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کے خلاف ہے۔ فطری جنسی عمل برابری کے حقوق کے منافی ہے اور ہمیں اپنی بیمار ذہنیت کو بدلنے کے بجائے فطرت کے اصول پر قائم سماج کی سوچ کو بدلنا ضروری ہے کہ وہ فطرت کو فطرت کیوں کہتا اور مانتا ہے، تو میرے عندیہ میں ایسی اعلیٰ فکری اور دانش مندی ، حماقت و بیوقوفی کا نیا جلی عنوان ہوگا؛ بلکہ ایسی سوچ انسان کے صاحب عقل و بصیرت ہونے کی صفت پر سوالیہ نشان ہوگی؛ کیوں کہ ایک سلیم الفطرت مؤرخ جب ان حالات کا تجزیہ کرے گا تو وہ بالیقین کنفیوژ ہوجائے گا کہ صاحب ادراک و شعور انسان ہے یا پھر جانور۔۔۔ ؟ اگر وہ خود کو انسان کے زمرہ میں سمجھ کر انسان کی حمایت کرے گا، تو اگلے سوال کا جواب اسے شاید نہ مل سکے کہ انسان خود اپنے وجود میں نیچرل ہے یا پھر ان نیچرل۔۔۔!!!!!؟؟؟؟۔

25 Oct 2018

Haiz aur Istehaza ka Bayaan

حیض و نفاس اور استحاضہ کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (27) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
عورت کی شرم گاہ سے تین طرح کا خون نکلتا ہے : اول: حیض۔ دوسرا : نفاس۔ تیسرا: استحاضہ کہلاتا ہے۔ 
حیض
نو سے پچاس سال کی عمر کے اندر تندرستی کی حالت میں جب کہ حمل نہ ہو، رحم سے جو خون تین دن رات یا اس سے زیادہ دس دن دس رات تک آتا ہے ، اس کو حیض کہتے ہیں، بشرطیکہ دونوں خون کے درمیان کم از کم پندرہ دن کا فصل ہو۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اقل الحیض ثلاث و اکثرہ عشر، و اقل ما بین الحیضتین خمسۃ عشر یوما۔ (رواہ ابن الجوزی) 
حیض کی کم مدت تین دن اور اکثر دس دن ہے اور دو حیض کے درمیان پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ 
اگرچہ حیض کی مدت کی تعیین کے بارے میں جتنی حدیثیں مرفوع ہیں، سب ضعیف ہیں، لیکن متعدد طریقوں سے چھ صحابیوں سے منقول ہونے کی وجہ سے حدیث حسن لغیرہ ہوکر قابل احتجاج رہتی ہیں۔ (رد المحتار)۔ اور حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا: 
الحائض اذا جاوزت عشرۃ ایام فھی بمنزلۃ المستحاضۃ تغتسل و تصلی۔ (رواہ الدار قطنی، قال البیھقی ھذا الاثر لابأس باسنادہ)
ٰؑ یعنی حائضہ کا خون جب دس دن سے تجاوز کرجائے تو وہ مستحاضہ کے حکم میں ہے۔ غسل کرے اور نماز پڑھے۔ 
اور حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: 
ادنیٰ الحیض ثلاثۃ ایام۔ (رواہ الدار قطنی فی سننہ رجالہ رجال مسلم)
یعنی حیض کی اقل مدت تین دن ہے ۔ 
ان آثار اور احادیث کی بنا پر امام صاحب نے فرمایا: حیض کی کم سے کم مدت تین دن تین رات ہے ۔ اگر اس سے کم خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے؛ بلکہ استحاضہ ہے ۔ اسی طرح حیض کی اکثر مدت دس دن ہے ۔ اگر اس سے زیادہ آئے تو استحاضہ ہے۔ اور دو حیض کے درمیان پاکی کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اگر اس سے پہلے خون آجائے تو وہ حیض نہیں استحاضہ ہوگا۔ 
جس کی ماہواری کی ایک عادت ہو، مثلا ہر مہینہ میں سات روز خون آتا ہے ، اب اتفاق سے خون زیادہ آیا، یہاں تک کہ دس روز سے بھی زیادہ آیا تو عادت کے مطابق سات روز حیض ہوگا۔ اور باقی استحاضہ۔ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے حد سے زیادہ خون آتا تھا ، تو میں نبی کریم ﷺ سے دریافت کرنے آئی ، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ تو شیطان کی ٹھوکر ہے۔ (سو عادت کے مطابق) چھ یا سات روز حیض میں گذارو اور پھر نہاؤ۔ پس جب صاف ہوجاؤ تو چوبیس روز یا تئیس روز نماز پڑھو اور روزہ رکھو ، یہی تجھ کو کافی ہے ، پس جیسے عورتیں کرتی ہیں اسی طرح ہر مہینے میں کرو۔ (رواہ الخمسۃ الا النسائی و صححہ الترمذی و حسنہ البخاری)
اوراگر دس روز پر رکا، یا دس روز سے کم میں رکا، لیکن عادت سے زیادہ آیا، تو وہ کل حیض ہوگااور یوں سمجھا جائے گا کہ عادت بدل گئی۔ 
جس عورت کی کوئی عادت نہ ہواور اس کو دس روز سے زیادہ کسی ماہ میں خون آجائے، تو دس دن تک حیض ہے اور باقی استحاضہ۔ 
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک دن دو دن خون آیااور ایک دو روز کے لیے پھر بند ہوگیا ، پھر خون جاری ہوا، اگر دو خون کے درمیان پندرہ دن سے کم پاکی ہے تو عادت والی کے لیے عادت کے مطابق حیض ہے باقی استحاضہ ہے۔ اور جس کی عادت نہیں ہے تو اگر دس دن کے اندر یہ چھوڑ باڑ ہوا ہے تو کل حیض ہے ۔ اور اگر دس دن سے زیادہ ہوا ہے تو دس دن حیض ہے باقی استحاضہ ہے۔ 
حیض کے دنوں میں جس رنگ کا خون آئے وہ سب حیض ہی کا خون ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ڈبہ میں کرسف بند ہوکر آتا تھا ، جس میں حیض کی زردی ہوتی تھی ، تو حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں: 
لاتعجلن حتیٰ ترین القصۃ البیضاء۔ (مالک)
جلدی مت کرو، یہاں تک کہ دیکھ لو سفید چونا۔
یعنی سفید رطوبت کے علاوہ جس رنگ کا خون ہو ، وہ سب حیض میں داخل ہے ۔

23 Oct 2018

Peshab ke Aadab

پیشاب پاخانہ کے آداب


پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (26) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
پیشاب کے لیے جب بیٹھے تو پہلے بسم اللہ پڑھے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: جب پاخانہ جائے ، تو جن کی آنکھوں سے پردہ انسان کی شرمگاہ کے لیے بسم اللہ ہے۔ 
(ھذا حدیث غریب اسنادہ لیس بقوی قال علی القاری: و مع ھذا بہ فی فضائل الاعمال سیما ، و قد رواہ احمد والنسائی عنہ، و رویٰ الطبرانی عن انس نحوہ)
یعنی بسم اللہ پڑھ کر ستر کھولا جائے تو انسان کی بے ستری جنوں کو نظر نہیں آتی ہے ، اس لیے جب پیشاب پاخانہ کے لیے بیٹھے تو بسم اللہ پڑھ لے۔بلا ضرورت پیشاب کھڑے کھڑے کرنا مکروہ تنزیہی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جو شخص یہ بیان کرے کہ نبی کریم ﷺ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے تو تم اس کی بات کو نہ مانو۔ آپ ﷺ ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔ 
رواہ احمد و الترمذی والنسائی و اسنادہ حسن جید قال الترمذی: حدیث عائشۃ احسن شئی فی ھذا الباب و اصح)
البتہ ضرورت سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ 
اتیٰ النبی ﷺ سباطۃ قوم فبال قائما۔ (بخاری و مسلم)
نبی کریم ﷺ قوم کی کوڑی پر آئے اور کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔
اور یہ آپﷺ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ضرورت ہی کی وجہ سے تھا ، ورنہ آپ ﷺ کا معمول وہی تھا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا۔ علمائے کرام نے مختلف عذر آں حضرت ﷺ کا بیان کیاہے۔ 
پیشاب پاخانہ کے لیے جب بیٹھے تو قبلہ رخ نہ بیٹھے، نہ قبلہ کی طرف پیٹھ کرے ۔ پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منھ کرنا یا پیٹھ کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اذا ذھب احدکم الیٰ الغائط او البول فلایستقبل القبلۃ ولایستدبرھا (رواہ النسائی)
جب تم سے کوئی پاخانے پیشاب کو جائے تو قبلہ کی طرف منھ نہ کرے اور نہ پیٹھ کرے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا اتیتم الغائط فلاتستقبلوا القبلۃ ولا تستدبرواھا۔ (بخاری و مسلم)
جب تم پاخانہ کو آؤ تو تم قبلہ کی طرف منھ نہ کرو اور نہ پیٹھ کرو۔ 
اسی طرح مسجد کی دیوار کے پاس مسجد کے رخ میں پیشاب نہ کرے ، ایسا کرنا مکروہ ہے۔
نھیٰ رسول اللّٰہ ﷺ ان یبال فی قبلۃ المسجد۔ (رواہ ابو داؤد فی مراسلہ مرسلا)
آں حضرت ﷺ نے مسجد کے رخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ 
پیشاب کرتے وقت ذکر کو دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے، بلکہ بائیں ہاتھ سے پکڑے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
لایمسکن احدکم ذکرہ بیمینہ وھو یبول۔ (مسلم)
پیشاب کرتے وقت تم میں سے کوئی اپنے ذکر کو دائیں ہاتھ سے ہرگز نہ پکڑے۔
حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیے، تو چاہیے کہ برتن میں سانس نہ لے ۔ اور جب پاخانہ جائے تو اپنی شرم گاہ کو اپنے داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجا کرے۔ (بخاری ، کتاب الوضو، ص؍ ۵۱)
پیشاب نرم زمین میں کرے تاکہ چھینٹیں نہ اڑے۔ 
عن ابی موسیٰ قال: کنتُ مع النبی ﷺ ذات یوم، فاراد ان یبول فاتیٰ دمثا فی اصل جدار فبال ثم قال: اذا اراد احدکم ان یبول فلیرتد لبولہ۔ (رواہ ابو داؤد) 
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا تو آپ ﷺ نے پیشاب کرنے کا ارادہ کیا، تو آپ ﷺ دیوار کی جڑ میں ایک نرم زمین کے پاس آئے اور آپ ﷺ نے پیشاب کیا، پھر فرمایا: جب تم میں سے کوئی پیشاب کا ارادہ کرے تو پیشاب کے لیے ایسی جگہ تلاش کرے۔ 
پیشاب غسل خانہ میں نہ کرے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لایبولن فی مستحمہ۔ (ابو داؤد)
ہرگز کوئی غسل خانہ میں پیشاب نہ کرے اور اس میں نہائے۔ 
اسی طرح سوراخ میں پیشاب نہ کرے ، ممکن ہے کوئی جانور موذی ہو ، وہ نکل کر ڈس لے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لایبولن احدکم الیٰ جحر۔ (ابو داؤد)
ہرگز کوئی سوراخ میں پیشاب نہ کرے۔ 
پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد ڈھیلے سے استنجا کرے اور اتنا چہل قدمی کرے کہ پیشاب کے اترنے کا سلسلہ بند ہوجائے ۔ پیشاب کے بعد صرف پانی سے دھولینا یا مٹی ڈھیلے سے پوچھ لینا اگرچہ درست ہے ۔ 
عن مولیٰ عمر یسار بن نمیر قال: کان عمر اذا بال قال ناولنی شئیا استنجی بہ فاناولہ العود او الحجر او یاتی حائطا یمسح بہ او یمسہ الارض ولم یغسلہ۔ (رواہ البیھقی و قال انہ اصح ما فی الباب نقلہ فی رسائل الارکان و کذا نقل الشیخ عبدالحق) 
حضرت عمرؓ کا غلام یسار ابن نمیر کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر پیشاب کرتے تو فرماتے کہ کوئی چیز لاؤ کہ استنجا کروں تو میں آپ ﷺ کو لکڑی یا پتھر دیتا یا دیوار میں آکر پوچھ لیتے، یا زمین سے رگڑ لیتے اور اس کونہیں دھوتے بھی۔ 
لیکن چوں کہ اس زمانہ میں عموما لوگوں کے مثانے کمزور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے دیر تک پیشاب کے اترنے کا سلسلہ رہتا ہے ، اس لیے ممکن ہے پانی سے دھونے کے بعد یا ڈھیلے سے پونچھنے کے بعد پیشاب کا قطرہ آجائے ، اس صورت میں اگر پہلے وضو کیا ہے تو وضو صحیح نہیں ہوگا، ورنہ کم از کم کپڑا نجس ضرور ہوگا، جس کی وجہ سے نماز صحیح نہ ہوگی ، اسی لیے آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اکثر عذاب القبر من البول۔ (رواہ ابن ماجہ و آخرون و صححہ الدار قطنی والحاکم)
زیادہ تر عذاب قبر پیشاب ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 
پاخانے کے لیے ایسی جگہ بیٹھے جہاں پردہ ہو۔ سب سے بہتر بیت الخلا ہے ۔ اگر بیت الخلا نہ ہوتو پھر پردہ کی جگہ تلاش کرے۔ اگر نزدیک میسر نہ ہو تو دور نکل جائے ۔ لوگوں کی نگاہوں کے سامنے نہ بیٹھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب پاخانہ کا ارادہ فرماتے تو آپ ﷺ اتنادور نکل جاتے کہ کوئی آپ ﷺ کو نہ دیکھتا۔ (ابو داؤد) اور آپ ﷺ نے فرمایا:
من اتیٰ الغائط فلیستتر (ابو داؤد) 
جو پاخانہ میں آئے، اس کو چھپنا چاہیے۔ 
اور جب پاخانہ کے لیے بیٹھے تو کپڑا اس وقت اٹھائے جب کہ زمین سے قریب ہوجائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو کپڑا اس وقت اٹھاتے جب زمین سے قریب ہوجاتے۔ (ترمذی، ابو داؤد، دارمی) ۔ 
پاخانہ پھیرتے ہوئے دوسرے سے باتیں نہ کرے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایاکہ شرم گاہ کھول کر جب پاخانہ کر رہا ہو تو اس حالت میں دو شخص آپس میں باتیں نہ کرے، اس پر اللہ تعالیٰ بڑا ناراض ہوتا ہے۔ (احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ)
پاخانہ میں گھسنے سے پہلے اور میدان میں ستر کھولنے سے پہلے یہ دعا پڑھے: 
اللّٰھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث۔ (بخاری، کتاب الوضو)
جب پاخانہ سے فارغ ہوجائے تو اس کے بعد ڈھیلے سے استنجا کرے ۔ ڈھیلے سے استنجا کرنا سنت ہے، خواہ جتنے ڈھیلے سے مخرج صاف ہوجائے۔ تین یا پانچ یا سات ڈھیلوں کا استعمال کرنا مستحب ہے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
من استجمر فلیوتر، من فعل فقد احسن ومن لا، فلا حرج۔ (رواہ ابو داؤد، وابن ماجہ، والدارمی، وابن حبان فی صحیحہ وھو حدیث حسن) 
جو شخص ڈھیلے سے استنجا کرے تو چاہیے کہ بے جوڑ ڈھیلے استعمال کرے، جس نے ایسا کیا بڑا اچھا کیا اور جس نے نہیں کیا تو کچھ حرج نہیں کیا۔ 
استنجا بائیں ہاتھ سے کرے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
یستنج بشمالہ۔ (ابن ماجہ) 
استنجا بائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے۔ 
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
لایتمسح من الخلاء بیمینہ۔ (مسلم) 
پاخانہ سے فارغ ہونے کے بعد دائیں ہاتھ سے نہ پونچھے۔ 
اگر نجاست مخرج سے آگے نہیں بڑھا ہے تو پانی سے استنجا کرنا مستحب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ بیت الخلا میں داخل ہوتے تو میں اور میری طرح ایک لڑکا پانی کا برتن اور چھوٹا نیزہ اٹھاتے اور آپ ﷺ پانی سے استنجا کرتے۔ (بخاری و مسلم) 
اگر نجاست مخرج سے آگے بڑھا ہے ، مگر ایک درم سے مقدار میں کم ہے تو پانی سے استنجا کرنا سنت ہے ۔ اور اگر مقدار درم تک تجاوز کرگیا ہے تو پھر دھونا واجب ہے ۔ اور اگر اس سے بھی زیادہ لگ گیا ہے تو دھونا فرض ہے ۔ (کبیری) 
جب پانی سے دھوکر فارغ ہوجائے تو ہاتھ کو مٹی سے دھوئے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ بیت الخلاتشریف لے جاتے تو میں آپ ﷺ کے لیے لکڑی یا چمڑے کے برتن میں پانی لاتا تو آپ ﷺ استنجا کرتے ۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑتے۔ پھر دوسرے برتن میں پانی لاتا اور آپ ﷺ وضو کرتے ۔ (ابو داؤد، دارمی، نسائی)
گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنا مکروہ ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا اور آپ ﷺ اپنی حاجت (رفع کرنے) کے لیے نکلے تھے اور آپ ﷺ (کی عادت تھی) ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے تو میں آپ ﷺ سے قریب ہوگیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے پتھر تلاش کردو، تاکہ میں اس سے پاکی حاصل کروں۔ (پارس کے مثل کوئی لفظ فرمایا) اور ہڈی میرے پاس نہ لانا اور نہ گوبر ۔ (بخاری، کتاب الوضو؍۵۲)۔

22 Oct 2018

Deoband min sad sala ejlas se pahle jamiat ulama godda karegi azeemush shan ejlas aam

دیوبند میں صد سالہ اجلاس سے پہلے جمعیۃ علماء گڈا کرے گی عظیم الشان اجلاس عام 
مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی شرکت متوقع
پریس ریلیز ، گڈا

مؤرخہ ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو مدرسہ بدرالعلوم مہگاما گڈا (جھارکھنڈ ) میں جمعیۃ علماء گڈا کی اہم میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں ضلعی و بلاک سطح کے ذمہ داران جمعیۃ کے علاوہ جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے ناظم اعلیٰ مولانا ابوبکر اور نائب صدر مولانا نعمت اللہ صاحبان نے شرکت کی۔ میٹنگ میں مکمل دس ایجنڈوں پر غور و خوض کرتے ہوئے ملک و ملت کے حق میں بہت اہم اہم فیصلے لیے گئے۔ ایجنڈہ نمبر ایک کے تحت گذشتہ کارروائی کی توثیق کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا کہ جمعیۃ علماء گڈا ہر تین ماہ پر ایک میٹنگ کرے گی ، جس کی ایک رپورٹ صوبائی جمعیۃ کو بھی بھیجی جائے گی۔ ایجنڈہ نمبر ۲ پر بحث و گفتگو کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا کہ آئندہ سال ماہ فروری میں ہونے والے جمعیۃ علماء ہند کے صد سالہ اجلاس کی جنگی پیمانے پر تیاریاں کی جائیں گی اور اس کے لیے بلاک، پنچایت اور گاؤں کی سطح پر سلسلہ وار میٹنگیں کی جائیں گی جن میں عوام الناس کو اجلاس کے مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے اس کی ضرورت و اہمیت سے روشناس کرایا جائے گا۔ ایجنڈہ نمبر ۳ کے تحت یہ طے کیا گیا کہ مرکزکی ہدایات کے مطابق جمعیۃ علماء ضلع گڈا زمینی سطح پر کام کرنے کا عہد کرتی ہے ۔ اسی طرح مرکز کی طرف سے ممبرسازی کے فیصلے کے بعد گڈا میں سو فیصد ممبرسازی کی کوشش کی جائے گی۔ ایجنڈہ نمبر ۴؍میں یہ کہا گیا کہ مرکزی جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے جو بھی سرکلر اور ہدایات موصول ہوں گی، سبھی ممبران کو اس سے آگاہ کیا جائے گا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مشترکہ جدوجہدکی جائے گی۔ ایجنڈہ نمبر ۵؍ کے تحت چل رہے مکاتب کا جائزہ لیا گیا اور انھیں مزید فعال بنانے اور تعداد کے اضافہ پر غور کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا کہ ان کی رپورٹ مرکزی دینی تعلیمی بورڈ کو پابندی سے بھیجی جائے۔ ایجنڈہ نمبر ۶؍ پر یہ بات طے پائی کہ رانچی میں ایک صوبائی سطح کا اجلاس کیا جائے گا ، جس میں پورے صوبہ کے سبھی اضلاع سے نمائندگی اور عوام کی شرکت کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ایجنڈا نمبر ۷ ؍ کے تحت یہ طے پایا کہ جمعیۃ علماء ضلع گڈا کے تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط اور فعال بنانے کی ہر ممکن کی کوشش کی جائے گی۔ ایجنڈہ نمبر۸؍ کے تحت یہ فیصلہ لیا گیا کہ اصلاح معاشرہ کے لیے اپنے گھروں ، محلوں اور نشستوں میں ہر طرح کے اصلاحی کام کرتے رہیں گے اور وقتا فوقتا جلسوں کے ذریعے عامۃ المسلمین کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی ۔ ایجنڈہ نمبر ۹؍ پر یہ فیصلہ لیا گیا کہ مہگاماں میں ضلع گڈا کا ایک عظیم الشان اجلاس کیا جائے گا، 

جس میں قائد جمعیۃ مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ کے مطابق تاریخ طے کی جائے گی تاکہ حضرت کی شرکت یقینی ہوسکے۔ایجنڈا نمبر ۱۰: دیگر امور بہ اجازت صدر محترم کے تحت یہ طے کیا گیا کہ ووٹر لسٹ نئے ناموں کا اندراج اور غلط اندراجات کی اصلاح کی تحریک کو مزید فعال کیا جائے تاکہ رہتے وقت کے اندر پورے ضلع میں کام کو مکمل کیا جاسکے۔ 
میٹنگ میں قرب و جوار کی بڑی اہم اہم شخصیات نے شرکت کی ، جن میں مہمانان خصوصی مولانا ابوبکر صاحب ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء جھارکھنڈ اور مولانا نعمت اللہ صاحب نائب صدر جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے علاوہ مولانا محسن اعظم قاسمی آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، جناب عبد الحسیب بکوا چک ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء ضلع گڈا، مولانا محمد یاسین مصباحی ، مولانا عبد العزیز مدرسہ حسنیہ ملکی، مولانا محمد اقبال قاسمی، قاری محمد خورشید جناب محمد اسماعیل، جناب محمد قاسم، جناب محمد معین الدین ، جناب محمد مبارک، جناب محمد شفیع الدین، جناب محمد ولی الدین ، جناب محمد نظام الدین ، جناب محمد رضوان، جناب محمد سمیع اللہ ،جناب محمد شوکت علی ، جناب محمد شفیق احمد اور دیگرحضرات کے نام قابل ذکر ہیں۔ صدارت ڈاکٹر تمیز الدین صاحب صدر جمعیۃ علماء گڈا نے کی۔ 

Kuwen ka Bayan

کنویں کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (25) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
اگر کنویں کا پانی جاری نہیں ہے اور وہ دس ہاتھ لمبا چوڑا نہیں ہے تو وہ پانی نجاست کے گرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، مگر اس کے پاک کرنے کے مختلف احکام ہیں ، اس لیے یہاں اس کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔ 
گوبر، لید، مینگنی کے علاوہ، اگر کنویں میں کوئی نجس چیز گر جائے، خواہ وہ ایک قطرہ خون ہی کیو ں نہ ہو۔ اسی طرح سور کے گرنے سے گرچہ زندہ نکل آئے ، کیوں کہ اس کا بال نجس العین ہے ۔ کتا اور بکری اور آدمی یا اس کے برابر یا اس سے بڑا جانور گر کر مرجانے سے ، اسی طرح چوہا وغیرہ ، یا اس سے بڑا جانور کنویں میں پھول پھٹ جانے سے کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا۔ جیسا کہ حبشی کے مرجانے سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے زمزم کے پانی کو صاف کرایا ۔ اگر تمام پانی صاف کرنے سے عاجز ہو تو تقریبا دو سو تین سو ڈول پانی نکال لیا جائے ، جیساکہ عبداللہ ابن زبیرؓ نے فرمایا: حسبکم، تم کو اتنا ہی کافی ہے ۔ یہ دونوں حدیثیں اوپر بیان ہوچکی ہیں۔ 
اگر کوئی حرام جانور سور کے کے علاوہ کنویں میں گرجائے اور زندہ نکل آئے اور اس کا منھ پانی میں نہ پڑے تو کنواں ناپاک نہ ہوگا۔ اور اگر کنویں میں اس کا منھ جا پڑا تو اس کے لعاب کی نجاست کی وجہ سے سارا کنواں نجس ہوگا اور سب پانی نکالا جائے گا۔ اور اگر آدمی یا حلال گوشت جانور کنواں میں گرے اور زندہ نکل آئے تو پانی ناپاک نہ ہوگا، اگرچہ منھ پانی میں پڑے، کیوں کہ ان کا جھوٹ پاک ہے۔ 
اگر کنویں میں مرغی یا بلی یا اتنا بڑا کوئی دوسرا جانور گر کر مرجائے تو چالیس ڈول پانی نکالا جائے اور ساٹھ ڈول نکالنا مستحب ہوگا۔ 
عن الشعبی فی الطیر والسنور و نحوھما یقع فی البئر قال: ینزح منھا اربعون دلوا۔ (رواہ الطحاوی و قال الامام بن الھمام سندہ صحیح) 
شعبی سے مروی ہے کہ پرندہ اور بلی اور اس جیسا کوئی جانور کنواں میں پڑے تو فرمایا اس کنواں سے چالیس ڈول نکالا جائے۔ 
اور اگر چوہا یا چڑیایا اس کے برابر کوئی دوسرا جانور گر کر مرجائے تو بیس ڈول پانی نکالے۔ تیس ڈول نکالنا مستحب ہوگا۔ 
عن انس رضی اللّٰہ عنہ انہ قال فی الفارۃ اذا ماتت فی البئر و اخرجت من ساعتھا نزح منھا عشرون دلوا او ثلاثون۔ (طحاوی من طرق غیر شرح الاثار)
حضرت انسؓ نے چوہے کے بارے میں جب کہ کنویں میں مرجائے اور فورا نکال لیا جائے فرمایا: بیس ڈول یا تیس ڈول اس سے پانی نکالا جائے۔ 
اور ڈول سے مراد اوسط ڈول ہے جو کنویں پر پڑا رہتا ہے ، اسی لحاظ سے پانی نکالا جائے۔ پانی نکالنے کے بعد کنواں ، رسی ، ڈول کھینچنے والے کا ہاتھ سب خود بخود پاک ہوجاتا ہے، کسی چیز کے دھونے کی حاجت نہیں۔ 
جس جانورمیں بہتا خون نہ ہو وہ کنویں میں گر کر مرجائے یا وہ پانی کا جانور ہو اور کنویں میں مرجائے تو اس سے کنواں ناپاک نہ ہوگا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
یاسلمان! کل طعام و شراب وقعت فیہ دابۃ لیس لھا دم فماتت فیہ فھو حلال اکلہ و شربہ و وضوۂ۔ (رواہ الدار قطنی، زجاجہ ۱۲۶)
ائے سلمان! جس کھانے پینے میں ایسا جانور پڑجائے جس میں خون نہیں ہے ، اس میں پھر مرجائے تو اس کا کھانا پینا حلال ہے اور اس سے وضو کرنا جائز ہے ۔ 
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فان فی احد جناحیہ داء و فی الاخریٰ شفاء۔ (بخاری، بلوغ المرام)
جب تم میں سے کسی کے پینے کی چیز میں مکھی پڑ جائے تو اس کو ڈبودینا چاہیے ، پھر نکالنا چاہیے ، اس لیے کہ اس کے دونوں پروں میں سے ایک میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں علاج ہوتا ہے ۔ 
معلوم ہوا کہ پانی میں مکھی پڑجانے سے پانی نجس نہیں ہوتا ہے ۔ اور مکھی میں خون نہیں ہے ، پس بے خون کے جانور کا یہی حکم ہوگا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: دو مردے اور دو خون ہمارے لیے حلال ہیں ، دو مردے مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں۔ (احمد)۔ اس سے مری ہوئی مچھلی اور ٹڈی کا پاک ہونا ثابت ہوا۔ اور پاک چیز پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ 
اگر کنویں میں مرا ہوا جانور ہو اور ابھی پھولا پھٹا نہ ہو اور گرنے کا حال معلوم نہ ہو کہ کب گرا ہے ، تو ایک دن رات قبل سے کنواں نجس سمجھا جائے گا اور چوبیس گھنٹے کی نماز دوہرانی ہوگی ، جب کہ اس پانی سے وضو کیا ہے یا کپڑا دھویا ہے ۔ اور پھولنے پھٹنے کی صورت میں تین دن رات کی نماز لوٹانی ہوگی۔

20 Oct 2018

Jhoot ka Bayaan

جھوٹ کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (24) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
کھانے پینے کے بعد جو تھوڑی چیز بچ جاتی ہے، وہ جھوٹ کہلاتی ہے۔ کثیر پانی سے کوئی جانور پی لے تو اس کو جھوٹ نہیں کہتے۔ بہرحال جھوٹ چار طرح کا ہوتا ہے : 
اول: طاہر مطہر غیر مکروہ، یعنی بلاکراہت پاک کرنے والا۔ اور وہ آدمی کا جھوٹ ہے ، خواہ کسی مذہب اور ذات سے تعلق رکھتا ہو، خواہ وہ پاک ہو یا ناپاک ہو۔ جب اس کے منھ میں نجاست نہیں ہے تو اس کا جھوٹ پاک بلاکراہت پاک کرنے والا ہے ۔ اسی طرح تمام حلال گوشت جانور کا جھوٹ ، جیسے گائے، بھینس، بکری، اونٹ، چڑیا، مینا وغیرہ۔ اسی طرح گھوڑے کا جھوٹ پاک ہے، کیوں کہ گھوڑا حلال ہے، اس کے گوشت میں کراہت کرامت کی وجہ سے ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ 
نھیٰ النبی ﷺ یوم خیبر عن لحوم الحمر و رخص فی لحوم الخیل۔ 
نبی کریم ﷺ نے خیبر کی جنگ میں گدھے کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت میں اجازت دی۔
لعاب کی نجاست کی وجہ سے جھوٹ نجس ہوتا ہے اور لعاب گوشت کی نجاست کی وجہ سے نجس ہوتا ہے ، کیوں کہ لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے ۔ جب گوشت نجس نہیں ہے تو لعاب نجس ہوگا نہ جھوٹ نجس ہوگا اور ان تمام چیزوں کا گوشت پاک ہے، اس لیے لعاب اور جھوٹ سب پاک ہوگا۔ 
دوسرا: نجس :اور وہ حرام گوشت چوپایا کا جھوٹ ہے ، جیسے کتا، سور ، شیر، لومڑی، گیدڑ وغیرہ۔ کتے کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
طھور اناء احدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولھن بالتراب۔ (مسلم)
جب برتن میں کتا منھ ڈال دے، تو اس کو سات مرتبہ دھوئے، پہلی مرتبہ مٹی سے ہو۔ 
معلوم ہوا کہ کتے کا جھوٹ نجس ہے جب ہی تو سات مرتبہ دھونے کا حکم ہوا۔ اور کتا حرام ہے، اس لیے باقی حرام گوشت جانوروں کے جھوٹ کا حکم وہی ہوگا جو کتے کے جھوٹ کا حکم ہوا۔ کیوں کہ لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے ، اس لیے لعاب کا وہی حکم ہوگا جو گوشت کا حکم ہوگا، لہذا حرام گوشت جانور کا جھوٹ نجس ہوگا۔ 
تیسرا: طاہر مطہر مکروہ، یعنی کراہت کے ساتھ پاک کرنے والا۔ اوروہ بلی، کھلی ہوئی مرغی ، حرام گوشت پرندہ اور زمین میں رہنے والے جانور یعنی چوہا، نیولا، گھوس، گرگٹ وغیرہ کا جھوٹا ہے ۔ مرغی کے جھوٹ میں کراہت اس وجہ سے ہے کہ وہ نجاست میں منہ ڈالتی ہے ۔ اگر نجاست میں منھ نہ ڈالے تو پھر کوئی کراہت نہیں ہے ۔ اور بلی وغیرہ کے جھوٹ کے مکروہ ہونے کی دلیل اوپر گذر چکی ہے ، اس لیے لوٹائی نہیں جائے گی۔ اگر دوسرا پانی ہو تو اس کو استعمال نہ کرے ، ورنہ پھر اسی پانی سے وضو غسل کرے ۔ آں حضرت ﷺ نے بلی کے جھوٹ سے وضو کیا ہے ۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں ہیں کہ 
انی رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یتوضأ بفضلھا۔ (رواہ ابو داؤد، و قال النیموی اسنادہ حسن) 
میں نے آں حضرت ﷺ کو بلی کے جھوٹ سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ 
چوتھا : مشکوک ہے ۔ اور وہ گدھے اور خچر کا جھوٹ ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔

19 Oct 2018

Bhart Scout & guide Aur Jamiat Youth Club

بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈاور جمعیۃ یوتھ کلب
محمد یاسین جہازی (جہاز قطعہ)
9871552408


جمعیۃ یوتھ کلب کے تعارف اور آغاز کیمقصد سے ۲۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء کو دیوبند میں منعقد پروگرام میں ،جمعیۃ علماء ہند کے زیر انتظام بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کے تربیت یافتہ کچھ بچوں اور نوجوانوں کا مظاہرہ پیش کیا گیا۔ اس سے جہاں نوجوانوں میں جمعیۃ یوتھ کلب سے جڑنے کا شعور و جذبہ بیدار ہوا، وہیں بھارتی میڈیا میں اس کی غلط اور منفی شبیہہ پیش کرنے کی خوب خوب کوشش کی گئی، جس سے ایک طرف جہاں کچھ نئے سوالات نے جنم لیے، تو وہیں دوسری طرف لوگوں میں جمعیۃ یوتھ کلب اور اسکاؤٹ کے بارے میں جان کاری حاصل کرنے کی تشنگی بڑھ گئی۔ یہ تحریر اسی پیاس کو بجھانے کی ایک کوشش ہے۔ 
بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کے بانی کا نام : رابرٹ اسٹیفینسن اسمتھ بیڈن پاویل (Robert Stephenson Smyth Baden-Powell) تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ساؤتھ افریقہ میں نیا گرا (Niagara Falls) نامی ایک جھیل ہے، جوموسم سرما میں برف میں تبدیل ہوجاتی ہے ، اور پھر لوگ شورٹ کٹ کی وجہ سے اس پر آمدو رفت کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مرتبہ میاں، بیوی اور بچہ اس راستہ سے گذر رہے تھے کہ اچانک برف پگھل کر درجنوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی اور یہ تینوں تین الگ الگ برف پر ہوگئے۔ جوں جوں برف پگھل رہی تھی توں توں پانی اور بہاؤ بڑھتا جارہا تھا۔ یہ منظر کچھ لوگوں نے دیکھا تو قریب کے گاؤں میں شور مچایا اور گاؤں والوں کو انھیں بچانے کے لیے بلایا۔ چنانچہ گاؤں والے رسی لے کر آئے اور انھیں رسی پکڑایا ، لیکن تینوں ٹھنڈ کی وجہ سے کافی کمزور ہوچکے تھے، اس لیے انھوں نے رسی توپکڑی ، لیکن جب رسی کو اوپر کھینچی گئی تو وہ اوپر تک نہ آسکے اور برفیلے پانی میں گر کر مرگئے۔اس علاقے میں یہ منفرد نوعیت کا حادثہ تھا، اس لیے زبان زد خاص و عام ہوگیا۔ پاویل بذریعہ ٹرین وہاں سے گذر رہا تھے ۔ وہاں سے سوار ہونے والے کچھ مسافر بیٹھ کر اس واقعہ پر چرچا کرنے لگے۔ جب پاویل نے سنا تو کہا کہ اگر حکمت عملی سے کام لیا جاتا تو تینوں کو آسانی سے بچایا جاسکتا تھا۔لوگوں نے حیرانی سے انھیں دیکھا اور کہا کہ جنھیں پورے گاؤں والے نہ بچا سکے، انھیں آپ کیسے بچا سکتے تھے؟ پاویل نے ایک رسی کے نیچے گانٹھ باندھ کر بتایا کہ اگر ایسا کرکے رسی لٹکائی جاتی، تو وہ تینوں اوپر تک آسکتے تھے۔ یہ دیکھ اور سن کر لوگوں نے پاویل کے خیال کی تائید کی اور گذارش کی کہ آپ ہمیں اور ہمارے بچوں کو ایسی ٹریننگ دیں۔ چنانچہ تبھی سے پاویل نے فیصلہ کیا کہ اگرایسی ہلکی پھلکی ٹریننگ دے دی جائے، جس سے کہ وہ یہ سیکھ سکیں کہ کسی سہارے اور آلات کے بغیر اچانک پیدا ہونے والے حالات سے کس طرح مقابلہ کیا جائے تو بہت سارے لوگ اپنی زندگی کا تحفظ خود کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس کا بنیادی خاکہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے ۱۸۹۹ء میں (Aids To Scouting) نامی کتاب لکھی۔ اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اسکاؤٹ کا پہلا کیمپ لندن میں ۱۹۰۷ء میں لگا۔ ۱۹۰۸ء میں (Scouting for Boys) نام کی کتاب لکھی ، جس سے باقاعدہ اسکاؤٹ کی شروعات ہوئی۔ بھارت میں اس کا باضابطہ آغاز ۱۹۰۹ء میں ہوا۔ ۷؍ نومبر ۱۹۵۰ میں بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ تنظیم کی نیو رکھی گئی۔ فی الحال یہ ۲۱۶ ممالک میں قائم ہے اور کروڑوں لوگ اس کے ممبر ہیں۔ 
اسکاؤٹنگ کیا ہے؟ 
اسکاؤٹ کے تین بنیادی مقاصد ہیں: 
(۱) اللہ تعالیٰ کے حقوق(Duty to God): انسان پراپنے خالق و مالک کے کیا حقوق و فرائض ہیں، ان کو جاننا اور اس پر عمل کرنا ؛ اسکاؤٹ کا بنیادی مقصد ہے۔ 
(۲) دوسروں کے حقوق کی ادائیگی(Duty to Others ): اسی طرح ہمارے اوپر دوسروں کے جوحقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں ، ان کو جاننا اور ان کی ادائیگی کی فکر کرنا اسکاؤٹ کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ 
(۳) خود کے تئیں خود کی ذمہ داری (Duty to Self): خود اپنے جسم و جاں کے تئیں خود کی کیا ذمہ داری ہے ، یہ بھی اسکاؤٹ میں سکھایا جاتا ہے۔ 
کائنات فطرت کے مطالعہ و مشاہدہ سے خود بھی سیکھنا اور سیکھنا، جسمانی اورذہنی تربیت کے ذریعہ سماجی، سیاسی اور مذہبی افکار و نظریات کو فروغ دینا، قوم و وطن کے تئیں وفاداررہنا اور فطرت سے عشق و محبت کے جذبات کی پرورش کرنااسکاؤٹ کا بنیادی نظریہ ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے، جس میں بچوں کی نفسیات کے مطابق کھیل کھیل میں اچھے اخلاق و کردار کی تعلیم دی جاتی ہے، تاکہ وہ جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے اچھے شہری بن سکیں۔ اسکاؤٹ نوجوانوں کی تحریک بھی مانی جاتی ہے، کیوں کہ انھیں اپنے اندر خود اعتمادی، لیڈر شپ کی قابلیت اور اللہ، دوسرے اور خود کے تئیں ذمہ داری و جوابدہی کے گر سکھائے جاتے ہیں۔ چوں کہ اسکاؤٹ فطرت سے محبت کا سبق دیتا ہے ، اس لیے جنگل و بیابان اور آبادی سے دور قدرتی ماحول میں کیمپ لگا کر تعلیم و تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس تحریک میں ذات، برادری، چھوا چھوت اور بھید بھاؤ کے بھاؤناؤں کو برا سمجھا جاتا ہے اور ہر شخص کی عزت اور احترام مذاہب کیتعلیم دی جاتی ہے۔ زندگی کو گل گلزار کیسے بناسکتے ہیں، یہ بھی اسکاؤٹ کی تعلیم کا حصہ ہے؛قصہ مختصر یہ ہے کہ اسلام نے جن اعلیٰ اخلاق و کردار کی تعلیم پر زور دیا ہے، قریب قریب ان کا مجموعی احاطہ اسکاؤٹ اینڈ گائڈ میں پایا جاتا ہے۔ 
اسکاؤٹ اینڈ گائڈ
اسکاؤٹ لڑکوں کے لیے اور گائڈ لڑکیوں کے لیے بولا جاتا ہے۔گویااس فن کو سیکھنے کے لیے صنف کی کوئی تفریق نہیں ہے۔دونوں صنفوں کی ٹریننگ کے لیے کئی مراحل متعین کیے گئے ہیں، جس میں عمر کا لحاظ کیا جاتا ہے۔جس کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں: 
بنی
اسکاؤٹ میں شرکت کرنے والے۳؍ سے ۶؍ سال کے بچوں اور بچیوں کے گروپ کو ’’بنی‘‘ کہاجاتا ہے۔اس میں ۲۴؍ بچے بچیوں کا ایک گروپ بنایا جاتا ہے، جس کو ’’ٹمٹولا‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس کے ٹیچر کو ’’بنی آنٹی‘‘بولا جاتا ہے۔ ۲۴؍ بچے بچیوں کو پھر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر ۱۲؍ افراد کی ٹولی کو ’’گروپ‘‘ کہتے ہیں۔ اس’’ گروپ‘‘ کا نام پھل اور سبزیوں کے ناموں پر رکھا جاتا ہے اور اس کے بیج کا رنگ میٹل بیج ہوتا ہے۔ 
اسکاؤٹ 
پانچ یا چھ سال کے لڑکوں کے لیے تین جماعتیں ہوتی ہیں، جن میں عمر کے اعتبار سے داخلہ دیا جاتا ہے، اس کی تفصیل اس طرح ہے: 
(۱) کب پیک
اس جماعت میں پانچ یا چھ سال سے دس سال کے لڑکوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس میں ۲۴؍لڑکوں کا ایک گروپ بنایا جاتا ہے، جس کو ’’کب پیک‘‘ کہاجاتا ہے۔ ہر ۲۴؍ لڑکوں پر مشتمل کب پیک کا نام کسی تاریخی شخصیات پر رکھا جاتا ہے۔ اس کے ٹیچر کو ’’کب ماسٹر‘‘بولا جاتا ہے۔ ہر ایک کب پیک میں ایک مانیٹر بھی ہوتا ہے، جسے ’’سینیر سکسر‘‘ کہاجاتا ہے۔ ۲۴؍لڑکوں کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر۶؍ افراد کی ٹولی کو ’’سکس‘‘ کہتے ہیں۔ سکس ٹولی کا بھی ایک لیڈر ہوتا ہے ، جسے ’’سکسر‘‘ کہاجاتا ہے ۔اس’’ سکس‘‘ کا نام رنگوں کے ناموں پر رکھا جاتا ہے اور اس کے بیج کا رنگ’’نیلا‘‘ہوتا ہے۔اسکاؤٹ کا جھنڈا پھہراتے وقت اسے گول دائرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ 
(۲) اسکاؤٹ ٹروپ
دس سے سترہ سال کے لڑکوں کی جماعت کو ’’اسکاؤٹ ٹروپ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس میں کم از کم۲۴؍اور زیادہ سے زیادہ ۳۲؍لڑکوں کا ایک گروپ بنایا جاتا ہے۔ہر۳۲؍ یا ۲۴؍ لڑکوں پر مشتمل اسکاؤٹ ٹروپ کا نام کسی تاریخی شخصیات پر رکھا جاتا ہے۔ اس کے ٹیچر کو ’’اسکاؤٹ ماسٹر‘‘بولا جاتا ہے۔ ہر ایک ٹروپ میں ایک مانیٹر بھی ہوتا ہے، جسے ’’ٹروپ لیڈر‘‘ کہاجاتا ہے۔ اسکاؤٹ ٹروپ کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر۸؍ یا۶؍ افراد کی ٹولی کو ’’پٹرول‘‘ کہتے ہیں۔ ہر ایک پٹرول گروپ میں بھی ایک لیڈر بنایا جاتا ہے، جس کو ’’پٹرول لیڈر‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس’’ پٹرول‘‘ کا نام جانوروں کے ناموں پر رکھا جاتا ہے اور اس کے بیج کا رنگ’’ہرا‘‘ہوتا ہے۔ اسکاؤٹ کا جھنڈا لہراتے وقت اسے گھوڑے کے نال کی شکل میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ 
(۳) رُو وَر کُرو
پندرہ سے پچیس سال کے جو لڑکے اس تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں، ان کی جو جماعت تشکیل دی جاتی ہے، اسے ’’ رُو وَر کُرو‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس میں ۲۴؍لڑکوں کا ایک گروپ بنایا جاتا ہے۔ہر ۲۴؍ لڑکوں پر مشتمل رُو وَر کُرو کا نام کسی تاریخی شخصیات پر رکھا جاتا ہے۔ اس کے ٹیچر کو ’’رُو وَر لیڈر‘‘بولا جاتا ہے۔ ہر ایککُرو میں ایک مانیٹر بھی ہوتا ہے، جسے ’’سینر رُووَر میٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔ رُو وَر کُرو کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر۶؍ افراد کی ٹولی کو ’’میٹ‘‘ کہتے ہیں۔ ہر ایکمیٹ گروپ میں بھی ایک لیڈر بنایا جاتا ہے، جس کو ’’رُووَر میٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس’’میٹ‘‘ کا نام تاریخی شخصیات کے ناموں پر رکھا جاتا ہے اور اس کے بیج کا رنگ’’لال‘‘ہوتا ہے۔ اسکاؤٹ کا جھنڈا لہراتے وقت اسے گھوڑے کے نال کی شکل میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ 
گائڈ 
پانچ یا چھ سال کی لڑکیوں کے لیے بھی تین جماعتیں ہوتی ہیں، جن کا نام بلبل فلاک،گائڈ کمپنی اور رینجر ٹیم ہوتا ہے۔ اس میں بھی عمر کے اعتبار سے داخلہ دیا جاتا ہے، اس کی تفصیل اس طرح ہے: 
(۱) بلبل فلاک
اس جماعت میں پانچ یا چھ سال سے دس سال کی لڑکیوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس میں ۲۴؍لڑکیوں کا ایک گروپ بنایا جاتا ہے، جس کو ’بلبل فلاک‘‘ کہاجاتا ہے۔ ہر ۲۴؍ لڑکیوں پر مشتمل بلبل فلاک کا نام کسی تاریخی عورت کے نام پر رکھا جاتا ہے۔ اس کی ٹیچر کو ’’فلاک لیڈر‘‘بولا جاتا ہے۔ ہر ایک بلبل فلاک میں ایک مانیٹر بھی ہوتی ہے، جسے ’’سینیر سکسر‘‘ کہاجاتا ہے۔ ۲۴؍لڑکیوں کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر۶؍ افراد کی ٹولی کو ’’سکس‘‘ کہتے ہیں۔ سکس ٹولی کی بھی ایک لیڈر ہوتی ہے ، جسے ’’سکسر‘‘ کہاجاتا ہے ۔اس ’’سکس‘‘ کا نام پرندوں کے ناموں پر رکھا جاتا ہے اور اس کے بیج کا رنگ’’نیلا‘‘ہوتا ہے۔ اسکاؤٹ کا جھنڈا پھہراتے وقت یہ گول دائرے کی شکل میں کھڑی ہوتی ہیں۔
(۲) گائڈ کمپنی
دس سے سترہ سال کی لڑکیوں کی جماعت کو ’’گائڈ کمپنی‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس میں کم از کم۲۴؍اور زیادہ سے زیادہ ۳۲؍لڑکیوں کا ایک گروپ بنایا جاتا ہے۔ہر۳۲؍ یا ۲۴؍ لڑکیوں پر مشتمل گائڈ کمپنی کا نام کسی تاریخیعورت کے نام پر رکھا جاتا ہے۔ اس کی ٹیچر کو ’’گائڈ کپٹین‘‘بولا جاتا ہے۔ ہر ایککمپنی میں ایک مانیٹر بھی ہوتی ہے، جسے ’’کمپنی لیڈر‘‘ کہاجاتا ہے۔ گائڈ کمپنی کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر۸؍ یا۶؍ افراد کی ٹولی کو ’’پٹرول‘‘ کہتے ہیں۔ ہر ایک پٹرول گروپ میں بھی ایک لیڈر بنائی جاتی ہے، جس کو ’’پٹرول لیڈر‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس ’’پٹرول‘‘ کا نام پرندوں اور پھولوں کے ناموں پر رکھا جاتا ہے اور اس کے بیج کا رنگ’’ہرا‘‘ہوتا ہے۔ اسکاؤٹ کا جھنڈا لہراتے وقت اسے گھوڑے کے نال کی شکل میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ 
(۳) رینجر ٹیم
پندرہ سے پچیس سال کی لڑکیوں کی جو جماعت تشکیل دی جاتی ہے، اسے ’’ رینجر ٹیم‘‘ کہاجاتا ہے۔ہر ۲۴؍ لڑکیوں پر مشتمل رینجر ٹیم کا نام کسی تاریخی عورت کے نام پر رکھا جاتا ہے۔ اس کی ٹیچر کو ’’رینجر لیڈر‘‘بولا جاتا ہے۔ ہر ایک ٹیم میں ایک مانیٹر بھی ہوتی ہے، جسے ’’سینر رینجر میٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔رینجر ٹیم کو پھر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں سے ہر۶؍ افراد کی ٹولی کو ’’میٹ‘‘ کہتے ہیں۔ ہر ایک میٹ گروپ میں بھی ایک لیڈر بنائی جاتی ہے، جس کو ’’رینجر میٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس’’میٹ‘‘ کا نام تاریخی عورت کے ناموں پر رکھا جاتا ہے اور اس کے بیج کا رنگ’’لال‘‘ہوتا ہے۔ اسکاؤٹ کا جھنڈا لہراتے وقت اسے انگریزی کے حرف وی(V) شکل میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ 
درج بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ اسکاؤٹ اینڈ گائڈ میں ذہنی و جسمانی دونوں طرح کی ایسی ٹریننگ دی جاتی ہے، جس سے جہاں بچے بچیاں اعلیٰ و اخلاق و کردار کی حامل ہوجاتی ہیں، وہیں قدرتی حادثات کے موقع پر کسی آلہ کے سہارے کے بغیر خود کے اور دوسروں کے تحفظ میں نمایاں کردارکرنے کے قابل بن جاتی ہیں۔ ایک طرف وہ طاقت و قوت سے لبریز ہوتے ہیں، تو دوسری طرف دوسروں کے لیے خیر اور نفع رسانی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ اور یہ ایسی چیز ہے، جسے اسلام میں پسند کیا گیا ہے اور ایسا بننے اور کرنے کے لیے ترغیب بھی دی گئی ہے ۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ 
الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ، خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیفِ، وَفِي کُلٍّ خَیْرٌ(صحیح مسلم، کتاب القدر، باب فی الامر بالقوۃ آہ)
طاقت ور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر اور زیادہ محبوب ہے کمزور مومن سے ۔ اور خیر ہر شخص میں ہے۔ 
ایک دوسری حدیث میں آقا کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ 
خیرالناس من ینفع الناس۔ (شعب الایمان،باب التعاون علیٰ البر والتقویٰ)
لوگوں کو نفع پہنچانے والا شخص سب سے بہتر شخص ہے۔
جمعیۃ علماء ہندنے ’’ جمعیۃ یوتھ کلب ‘‘ کی تشکیل بھی انھیں اغراض و مقاصد کے تحت کیا ہے ، چنانچہ اس کے دستوری کتابچہ میں’’اغراض و مقاصد‘‘ کے عنوان تحت کہا گیا ہے کہ 
(الف) سماجی اور جماعتی خدمات انجام دینا، نیز مصیبت زدگان اور مظلوموں کی مدد کرنا۔
(ب) بلا امتیاز مذہب و ملت مظلوموں اور خلق خدا کی خدمت کرنا۔
(ج) قیام امن، حفاظت وطن اور ملک کے تعمیری پروگراموں میں تنہا یا دوسری جماعتوں کے ساتھ حصہ لینا۔
(د) مسلمانوں میں دینی رجحان پیدا کرنا۔
(ھ) اسکاوٹنگ کی ٹریننگ حاصل کرنا۔
تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان کو انسان بنانے، اسے اعلیٰ اخلاق و کردار سے آراستہ کرنے، ملک و قوم کے سچے و پکے خادم بنانے اور خود اور دوسروں کے لیے نفع بخش بنانے کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے ’’جمعیۃ یوتھ کلب ‘‘ کی تشکیل ہے ، اور چوں کہ اسکاؤٹ اینڈ گائڈ اس قسم کی تربیت کے لیے ایک منظم طریق عمل ہے، اس لیے کلب میں شامل ہونے کے لیے پہلے اسکاؤٹ کی ٹریننگ لازمی کی گئی ہے۔
جمعیۃ یوتھ کلب، جمعیۃ علماء ہند کی کوئی نئی تحریک نہیں ہے؛ بلکہ ۲۰؍ اجلاس عام منعقدہ ۹،۱۰،۱۱؍ دسمبر ۱۹۶۰ میں منظور کردہ دستور اساسی کی دفعہ (۹۳) میں مذکور ’’خدام ملت ‘‘ کی تشکیل کے لیے ایک ذیلی ڈھانچہ ہے۔ جمعیۃ علماء ہند تقریبا گذشتہ چار سالوں سے بچوں اور نوجوانوں کو بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کی ٹریننگ دے رہی ہے تاکہ انھیں جمعیۃ یوتھ کلب میں شامل کیا جاسکے اورپھران میں سے منتخب افراد کو خدام ملت کا ممبر بنایا جائے۔ 
جمعیۃ یوتھ کلب کا بنیادی تصورہمارے بڑوں نے دیا تھا، جس کوعملی جامہ پہنانے کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری اور حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہندشب و روز فکرمند ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ اکابر نے جس مقصد سے اس نظام کا تصور دیا تھا، اسے حقیقت میں بدل کر دم لیں گے ؛ کیوں کہ یہ کلب بالیقین بھارت میں ملت اسلامی کے سنہرے مستقبل کا اشاریہ ہے۔ 
نوٹ: بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کی درج بالا معلومات جناب نوشاد علی صدیقی صاحب اسسٹنٹ اسٹیٹ آرگنائزنگ کمشنر علی گڑھ منڈل اور اسی عہدے سے ریٹائرڈ جناب ہدایت اللہ صاحب سے زبانی گفتگو پر مبنی ہیں، اور ان کے شکریہ کے ساتھ یہاں پیش کی گئی ہیں۔