(قسط نمبر (8) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)
تقریر کی تیاری
جو چیز منظر عام پر آنے والی ہوتی ہے ،خواہ وہ معمولی ہو یا غیر معمولی،اسے منصۂ شہود پر لانے سے پہلے اس کے مثبت ومنفی دونوں پہلووں پر خوب گور وفکر کیا جاتا ہے اور مکمل تیاری کے بعد ہی اسے نمایاں کیا جاتا ہے ۔تقریر کا تعلق بھی انھیں چیزوں سے ہے،جو منظر عام پر نمود سے متعلق ہیں ۔اس لیے اسٹیج پرآنے سے پہلے جس عنوان پر جلسہ ہے یا جس موضوع پر تقریر کرنی ہے ،اس پر مکمل تیاری کر لینی ضروری ہے کیوں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جو لوگ بغیر کسی تیاری کے خالی خالی ذہن اسٹیج پر آجاتے ہیں ،انھیں بسااوقات خفت و ذلت کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے ۔اس لیے دانش مندی یہی ہے کہ مکمل تیاری کے بعد ہی اسٹیج پر آیا جائے ۔شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’ان خصائص کے علاوہ خطابت کے دوسرے لوازم بھی ہیں ،مثلاتیاری ۔یہ صحیح ہے کہ بعض تقریریں بلا تیاری کے بھی ہوجاتی ہیں ۔ان کا انحصار خطابت کے طویل تجربے اور مطالعے کی وسعت پر ہے ۔لیکن جامع تقریر کے لیے خطیب کا فرض ہے کہ اپنے موضوع و مضمون کی تیاری کرے ۔‘‘(ص؍۴۸)
تیاری کے طریقے
المختصر تقریرمیں جامعیت پیدا کرنے کے لیے تیاری ضروری ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ تیاری کس طرح کی جائے؟تو اس حوالے سے چند طریقے ،جو ماہرین فن کے مجرب و آزمودہ ہیں ،اختصار کے ساتھ لکھے جارہے ہیں ۔
(۱)’’تیاری دو طرح کی ہیں :ایک ذہنی کہ مطالعہ و فکر کے بعد دماغ میں وہ چیزیں لف ونشر کے طور پر محفوظ کرلی جائیں ،جو عوام سے کہنی ہیں ۔دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے موضوع کے متعلق پرزۂ کاغذات پر اشارات قلم بند کرلیے جائیں کہ اس ترتیب کے ساتھ فلاں فلاں بات کہنی ہے۔تیاری کے بغیر تقریر کے خطوط مکمل نہیں ہوتے۔‘‘ (ص؍۴۸)
(۲)موضوع کا پہلے خاکہ تیار کرلیں،پھر اس خاکے پر اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے ،چلتے پھرتے ؛غرض ہمہ وقت غور وفکر کریں اور ملنے جلنے والے ہرایک آدمی سے اس پر تبادلۂ خیالات کریں ۔
(۳)اپنے موضوع پر مطالعے کے دوران جو اہم باتیں نظر سے گذریں ،جیسے قرآنی آیات کے نکات ، حدث شریف سے کوئی انوکھا استدلال،حکیمانہ اقوال ،زریں کہاوتیں ،عبرت انگیز واقعات وغیرہ وغیرہ۔ان سب چیزوں کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں اور انھیں موقع بہ موقع اپنی تقریر میں استعمال کریں ۔
(۴)رٹنا بھی ایک تیاری ہے ،لیکن عہدۂ خطابت پر فائز ہوجانے اور خطباکی فہرست میں اپنا نام درج کرالینے کے بعد یہ طریقہ غیر مستحسن سمجھا گیا ہے ۔البتہ کچھ مخصوص جملے ،جو انتہائی شیریں ،معنی خیز اورعبرت آگیں ہوں ،ان کو رٹ کر یاد رکھنے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
(۵)اپنے موضوع پر اولاََ بھر پور مطالعہ کریں،بعد ازاں تقریر کے اجزائے ترکیبی کے مطابق اس کا خلاصہ اور نچوڑ لکھ لیں اور تقریر سے پہلے اسی خلاصے کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں ۔
عناصر ترکیبی
آپ خواہ مضمون لکھنا چاہتے ہوں یاپھر تقریر کرنے کا خواہاں ہوں ،دونوں میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہونے کے لیے آغاز سے لے کر اختتام تک ربط و تسلسل برقرار رکھنا ضروری ہے اور اس کے لیے ان کے اجزائے ترکیبی اور عناصر ترتیبی کو پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے ۔تقریر کے عناصر ترکیبی درج ذیل ہیں:(۱)تمہید یا ابتدائیہ (۲)دعویٰ (۳) اثبات مدعی ٰ(۴)مراجعت(۵)نتیجہ و خلاصہ ۔
ابتدائیہ
تقریر کی تمہید، آگے کی تقریر کے لیے پیش خیمہ اور سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس لیے آغاز جتنا پرکشش، دل کش اور خوب صورت ہوگا ،آگے کی تقریر بھی اتنی ہی پرلطف ،مقبول اور من موہ لینے والی ہوگی اور سامعین کی مکمل توجہ آپ کی طرف مبذول ہوجائے گی ۔ابتدائیہ کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے صاحبِ ’’فنِ خطابت ‘‘لکھتے ہیں کہ:
’’ایک دوسری چیز یہ ہے کہ تقریر کی ابتدا کیوں کر ہو ؟کیوں کہ خطابت کی ابتدا اس کاچہرہ نما ہے ۔ چہرہ دل کش ہوگا،تو کشش ہوگی ۔اس بارے میں مقررین کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ خطاب کا ابتدائیہ عوام کو متحرک کرتا ہے ۔ابتدائیہ کی حیثیت برات میں عقد کی طرح ہے ۔اس سے ایجابی تأثر پیدا ہوتا ہے اور تأثر کے معنی ہیں کہ آپ دوستوں کی التفات کو اپنی مٹھی میں کیوں کر لے سکتے ہیں ۔‘‘
(ص؍۴۸)
افتتاحیہ میں پوری تقریر کا اجمالی خاکہ بیا ن کیا جاتا ہے اور آگے آنے والے نکات و استدلال کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔ تقریر کے آغاز میں شہنشاہ خطابت اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نہایت لطیف اور سادۂ پیرایۂ بیان میں تقریر شروع کردیتے تھے اور تکلف و تصنع سے یکسر وریٰ ہوکر موضوع کا اجمالی خاکہ بیان کر دیتے تھے ۔اس کی مثال میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وہ تقریر پیش کی جاسکتی ہے ،جو انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد زمام خلافت اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائی تھی۔
’’ایہا الناس!انی ولیت علیکم ولست بخیرکم ۔فان رأتمونی علیٰ حق؛فأعینونی،و ان رأتمونی علیٰ باطل،فسددونی ۔أطیعونی ما اطعت اللہ فیکم ،فاذا عصیتہ ،فلا طاعۃ لی علیکم ۔ألا ان أقواکم عندی الضعیف حتٰی أخذالحق لہ و أضعفکم عندی القویٰ ،حتٰی أخذ الحق منہ ۔آقول قولی ہذاو استغفرا للہ لی ولکم۔‘‘
ترجمہ:اے لوگو !میں تمھارا حاکم مقرر کیا گیا ہوں ،حالاں کہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں ۔اگر تم مجھے حق پر چلتے ہوئے دیکھو ،تو تم میری مدد کرنا ۔اور اگر مجھے باطل پر چلتے ہوئے دیکھو ،تو تم مجھے روک دینا ۔تم اسی وقت تک میری اطاعت کرنا ،جب تک میں تمھارے بارے میں اللہ کی اطاعت کرتا رہوں ۔اور اگر میں اس کی نافرمانی کروں ،تو پھر تم پر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔آگاہ ہوجاؤ کہ تم میں سب سے زیادہ طاقت ور میرے نزدیک کمزور ہے ، جب تک میں اس کا حق نہ دلا دوں اور تم میں سے کمزور شخص میرے نزدیک طاقت ور ہے ،جب تک کہ میں اس کا حق پورا نہ کردوں ۔ انھیں چند باتوں کے بعد خدا سے اپنے لیے اور تمھارے لیے مغفرت کی دعا مانگتا ہوں ۔
تقریر کا آغاز کسی مزاحیہ جملے یا فرضی کہانیوں سے نہیں کرنی چاہیے ۔اس سے ممکن ہے کہ آپ کے متعلق شروع ہی سے یہ تأثر قائم کر لیا جائے کہ یہ کوئی باوقار خطیب نہیں ؛بلکہ اداکارمعلوم ہوتا ہے ۔اسی طرح کرسی خطابت پر بیٹھتے ہی اپنی احساس کمتری اور بے اعتمادی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔مثلا اس طرح کہ میں اس وقت تقریر کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔۔۔یا میرا تقریر کرنے کا موڈ نہیں ہے ۔۔۔اس موضوع پر میں نے کوئی تیاری نہیں کی ہے ۔۔۔میں کیاتقریر کروں مجھے تو تقریرکرنی ہی نہیں آتی ۔۔۔۔میرا کوئی تازہ مطالعہ نہیں ہے ،جو کچھ بھی کہوں گا وہ پرانی باتیں ہوں گی وغیرہ۔ اس طرح کے الفاظ سے سامعین میں غلط تأثر قائم ہوتا ہے اوران کی توجہ خطیب سے ہٹ جاتی ہے، جب کہ کامیابی اس میں ہے کہ آپ سامعین کی پوری توجہ اپنی جانب مبذول کرالیں اور انھیں اپنی تقریر سننے کے لیے جم کر بیٹھنے پر مجبور کردیں ۔اسی طرح تمہید کو تقریر کی مناسبت سے چھوٹی بڑی رکھیں ؛لیکن اسے اصل تقریر سے کبھی طول نہ دیں کہ آپ کا سارا وقت تمہید ہی بیان کرنے میں صرف ہوجائے ۔
دعویٰ
دعویٰ تقریر کا دوسرا حصہ ہے ۔اس میں اس اجمال کی تفصیل بیا ن کی جاتی ہے ،جس کا ذکر اجمالی طور پر تمہید میں کردیا گیا ہوتا ہے ،اس میں موضوع کے خدو خال کو مکمل طور پر نمایا ں کیا جاتا ہے ،ساتھ ہی اس کے لوازمات و شواہد پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔یہ حصہ تقریر کا بہت اہم ہوتا ہے ۔گویا یہی جز اس کا مغز اور گودا ہوتا ہے ،باقی دیگر اجزا اس کے لیے چھلکا اور کھال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اس لیے دعوے کا انداز ایسا ہونا چاہیے ،جو شیریں ہو ،سہل ہو ،الفاظ سلاست کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں ۔نہ بہت زیادہ گھن گرج اور برس کا لہجہ ہو اور نہ ہی بالکل سلو اور دھیما،جیسے یوں محسوس ہو کہ گلے میں اچھو لگ گیا ہے ،جس کی وجہ سے آواز اٹک اٹک کر نکل رہی ہے ؛بلکہ مناسب رفتار اختیار کیا جائے ۔ حسب موقع مدو جزر سے کام لیا جائے اور کہیں کہیں گھن گرج بھی دکھائی جائے۔
ایسا دعویٰ کبھی نہیں کرنا چاہیے ،جس کو آپ ثابت نہ کرسکیں یا اس پر آپ کی مکمل تیاری نہ ہو،اور نہ ہی بے شمار دعوے کریں ،جن سے تقریر طویل ہوتی چلی جائے ؛بلکہ دعویٰ مختصر ہونا چاہیے ،تاکہ تقریر مختصر ہوسکے ،افہام و تفہیم میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور سامعین اکتاہٹ بھی محسوس نہ کریں۔
اثبات مدعیٰ
دعوے کے بعد خطیب کو یہ فکر شدت کے ساتھ ستانے لگتی ہے کہ اس نے جو دعویٰ کیا ہے ،اس کو ثابت کرنے کے لیے کس طرح کے دلائل بیان کیے جائیں اور کس حسن و خوبی سے بیان کیے جائیں کہ دعویٰ بھی مکمل طور پر ثابت ہوجائے اور دلائل بھی اچھی طرح ذہن نشیں ہوتے چلے جائیں اور سامعین کے دلوں میں کسی قسم کاشک و شبہ بھی باقی نہ رہے ۔اس لیے ذیل کی سطروں میں دلائل اور اثبات مدعیٰ کے حوالے سے چند باتیں لکھی جارہی ہیں ۔
دلیلیں دو طرح کی ہوتی ہیں :(۱)قطعی (۲)ظنی۔خطیب اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کبھی دلیل قطعی کا سہارا لیتا ہے ،تو کبھی دلیل ظنی کا ۔اگر اثبات مدعیٰ کے لیے اس کے پاس قطعی دلائل ہیں ،تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔مسئلہ اس وقت ہوتا ہے ،جب کہ قطعی دلائل نہ ہوں ؛بلکہ صرف ظنی دلائل ہوں ۔ایسے موقعے پر خطیب اس طرح کاانداز بیان اختیار کرے کہ ظنی دلائل بھی قطعی دلائل محسوس ہوں اور سامعین کے دلوں میں کسی طرح کا شک و شبہ برقرار نہ رہے۔
دلائل نقلیہ
سب سے پہلے اپنے دعوے کو دلائل نقلیہ سے مدلل و مبر ہن کرنا چاہیے ۔ان میں بھی سب سے پہلے قرآن کا سہارا لینا چاہیے۔ اگر قرآن میں نہ ملے ،توپھر احادیث مبارکہ ،آثار صحابہؓاوراقوال تابعین وغیرہم سے نظائر و شواہد پیش کرنا چاہیے۔بعد ازاں دلائل عقلیہ سے اس کی مزید تائید وتوثیق کرنی چاہیے ۔
دلائل عقلیہ منطقیہ
اثبات مدعیٰ کے لیے منطقی دلائل وبراہین کا بھی سہارا لیاجاتا ہے ۔منطقی دلائل کی تین قسمیں ہیں:(۱)قیاس (۲)استقرا(۳)تمثیل۔پھر قیاس کی اولادو قسمیں ہیں :(۱)قیاس استثنائی(۲)قیاس اقترانی ۔پھر اقترانی کی دو قسمیں ہیں:(۱)حملی(۲)شرطی۔پھراستثنائی اوراقترانی کی مجموعی طور پر کئی اقسام ہیں،جیسے:قیاس ذوحدین،قیاس خلف، قیاس مرکب وغیرہ ۔پھر قیاس کی مادے کے اعتبار سے پانچ قسمیں ہیں :(۱)قیاس برہانی (۲)قیاس جدلی (۳)قیاس خطابی (۴)قیاس شعری (۵)قیاس سفسطی۔پھر قیاس برہانی کی دو قسمیں ہیں : (۱)قیاس برہانی انی(۲)قیاس برہانی لمی ۔ان تمام اقسام کے تفصیلی مطالعہ اور مکمل معلومات کے لیے تو آپ فن منطق کا مطالعہ کریں؛ البتہ ایک خطیب کو اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے جن جن دلائل کا زیادہ سہارا لینا پڑتا ہے ،ان کا اختصار کے ساتھ یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے ۔
قیاس
قیاس سے مراد یہ ہے اگر کوئی شخص ایک بات مان لے ،تو اس کے ماننے کی وجہ سے ایک دوسری بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی ،جیسے :آپ اپنے مدعیٰ کوثابت کرنے کے لیے اس بات کو منوالیں کہ ’مرنے کے بعد انسان کے تمام اعضا کا م کرنا چھوڑ دیتے ہیں ،پس وہ جس طرح حس و حرکت نہیں کر سکتا ،اسی طرح وہ دوسرے کام بھی نہیں کر سکتا ۔ تو اسے یقینی طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بعد المرگ انسان نہ تو کسی کی حاجت روائی کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی مشکل کشائی،نہ کسی کی فریاد رسی کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اولاد وغیرہ عطا کرسکتا ہے ۔کیوں کہ مردہ خود اتنا محتاج ہوتا ہے کہ اپنی ضروریات کی تکمیل ،مثلا نہانے اور اپنے گھر قبر تک جانے کے لیے زندوں کے کندھوں کاسہارا لیتا ہے ، تو پھر وہ دوسروں کی حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے ؟لہذا مردوں سے حاجت روائی کی عقیدہ رکھنے والایا تو مرفوع القلم ہوسکتا ہے یا حقیقت کا منکر ،ضدی اور ہٹ دھرم۔
قیاس ذوحدین
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ایسی دوصورتوں میں تقسیم کر کے بیان کیا جائے کہ بیچ میں کوئی تیسری صورت نہ نکل سکے ۔اور سامعین یا فریق مخالف کوئی اور صورت نکال کر آپ کے دعوے کی تردید نہ کرسکے ۔آپ کی وہ تقسیم اس قدر مستحکم اور یقینی ہو کہ کوئی اور صورت پیدا ہی نہ ہوسکے ،جس سے سامعین کے دلوں میں کسی قسم کا شک وشبہ پیدا ہونے کا خطرہ در پیش ہو ۔مثال ملا حظہ فرمائیے :انسان کے لیے دوہی راستے ہیں :یا تو وہ اللہ کی وحدانیت کی شہادت دے کر پورے لوازمات کے ساتھ مسلمان ہوجائے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کا حق دار ہوجائے یا پھر کفر و الحاد کا لبادہ اوڑھ کر سدا کے لیے جہنم کو اپنا مستقر بنا لے ۔ان کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ،جس پر چل کر وہ جنت و جہنم کے علاوہ کہیں اور اپنا ٹھکانہ بنا سکتا ہے ۔
قیاس خلف
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس مدعیٰ کو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں ،اس کو ایسی دو شقیں نکال کر ثابت کریں کہ اگر ان میں سے کسی ایک شق کو باطل کردیں ،تودوسری شق خود بخود ثابت ہوجائے ،مثلا :خدا کی محبت اور اس کی نافرمانی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ؛کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔اگر محبت ہوگی ،تو نفرت نہیں ہوسکتی ۔اگر نفرت ہوگی ،تو پھر محبت کا دعویٰ کھوکھلا ہوگا ،لہذاجو کوئی خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی محبت الٰہی کا مدعی ہو ،تو اس کا دعویٰ محض ایک فریب اور دھوکہ ہے ۔دیکھیے محمود الوراق نے کیا نکتہ آفرینی کی ہے کہ
تعصی الالہ وانت تظہر حبہ
ہذالعمری فی القیاس بدیع
لوکان حبک صادقا لاطعتہ
ان المحب لمن یحب یطیع
ترجمہ:خدا کی نافرمانی کرنے کے باوجود اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے ۔بخدا یہ ایک انتہائی تعجب خیز بات ہے ۔ اگر واقعی تمھاری محبت سچی ہوتی ،تو تم اس کی اطاعت کرتے ؛کیوں کہ عاشق ہمیشہ محبوب کی اطاعت کرتا ہے۔
قیاس مرکب
اس کا مطلب یہ کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے سلسہ وارکئی باتوں کو بیان کیا جائے اورایک کو دوسرے کا سبب بتایا جائے ۔مثلاََ اس طرح کہ :علم نجوم سیکھنے سے گریز کرنا چاہیے ؛کیوں کہ نجومیت فال گوئی تک پہنچاتی ہے، نجومی کاہن کی طرح ہے اور کاہن جادوگر کی مانند ہے اور جادو گر کافر کی طرح ہے اور کافر دوزخی ہے ،بس یہی انجام نجومی کا بھی ہے ۔۔۔۔دین میں کوئی ایسی چیز شامل کرنا ،جس کی کوئی اصل شریعت میں موجود نہ ہو ؛وہ بدعت ہے ۔ اور بدعت خواہ عملی ہو یا اعتقادی ؛دونوں مذموم ہیں اور ان سے بچنے کی شدید تاکید کی گئی ہے ،کیوں کہ ہر بدعت ضلالت و جہالت کا دروازہ کھولتی ہے اور ضلالت دوزخ میں جانے کا سبب بنتی ہے ۔
قیاس برہانی
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل یقینیہ وقطعیہ پیش کریں ،جن میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو ،جیسے آپ کوئی بات بیان کرکے قرآن و حدیث سے اسے مدلل کریں یا قیاس و اجماع سے ثابت کریں ۔اس کی مثالیں واضح ہیں ۔
قیاس جدلی
اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جو بات کہنا چاہتے ہیں اس کو ثابت کرنے کے لیے ان باتوں کو پیش کریں ،جو لوگوں میں مشہور ومعروف ہیں یا وہ ان کی عادات و رسوم کا حصہ ہیں یا پھر ان چیزوں سے استدلال کریں ،جو کسی خاص گروہ کے لوگ مانتے ہیں سب نہیں مانتے ،جیسے کہ’ :آج کل علما کو برا بھلا کہنا عام ہوتا جارہا ہے ،حالاں کہ یہ بہت بری بات ہے ۔عورتیں اپنے شوہروں کو نام لے کر نہیں پکارتیں ۔کیوں ؟اس لیے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اپنے سرتاجوں کو نام لے کر پکارنا ،ان کی بے ادبی اور ان کی شان میں گستاخی ہے اور ایک نیک صالح بیوی اپنے سرتاج کی بے ادبی نہیں کرسکتی ۔ علمائے کرام جو قوم کے مقتدیٰ،رہ نما اور روحانی سرتاج ہیں ،ان کی گستاخی کیسے برداشت کی جاسکتی ہے ۔‘یا جیسے ہندووں کا عقیدہ ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا ایک معصوم جان کوماردینا ہے اور کسی جان کو مارنا بہت بری بات ہے ۔اس عقید ے پر اس طرح کی تقریر کرسکتے ہیں کہ :’غیر مسلم اور ہندو یہ کہتے ہیں کہ مسلمان کیسے سخت دل اور وحشی ہیں کہ وہ جانوروں کا گلا کاٹ کر انھیں کھا جاتے ہیں ۔اسی لیے ہندو جانوروں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے چیونٹیوں کے بلوں میں آٹا ڈالتے ہیں ۔لیکن آج پوری دنیا میں فرقہ پرست عناصر اور غیر مسلم فسطائی طاقتیں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں ۔یہاں انھیں ہمدردی کا خیال نہیں آتا !!یہ کیسی ہمدردی ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا انھیں ظلم محسوس ہوتا ہے اور اپنے ہی ہم جنسوں اور اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانا ظلم نظرنہیں آتا ۔
قیاس خطابی
اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسے بزرگوں اور بڑی بڑی ہستیوں کے اقوال ، افعال اور ارشادات پیش کریں ،جن کے نام آتے ہی عقیدت و محبت سے گردنیں جھک جاتی ہیں ،جیسے کہ انبیائے کرام ؑ ہیں یا اولیا ئے عظام ؒ وغیرہ۔اس قیاس کا سہارا عموما وہاں لیا جاتا ہے ،جہاں سامعین کو کسی بات پر ترغیب یا ترہیب دینی مقصود ہوتی ہے یا پھر اپنی باتوں کی تائید وتوثیق مطمح نظر ہوتی ہے۔جیسے :’جودو سخاوت کا سب سے اعلیٰ معیار یہ ہے کہ اپنی جان عزیز کو بھی سخاوت میں پیش کردے ۔حاتم طائی دنیائے سخاوت میں سب سے زیادہ شہرت اسی وجہ سے رکھتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے اپنے سر کی سخاوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ،تو حاتم طائی نے بلا پس وپیش ایک تلوار نکال کر اسے دیا اور کہا کہ ابھی رات کی تاریکی باقی ہے ۔کوئی تمھیں پکڑ نہیں سکے گا،اس لیے جلدی کرو ،یہ تلوار لو اور میرا سر قلم کرلو۔
قیاس شعری
اس کامطلب یہ ہے کہ مدعیٰ کے ثبوت کے لیے حقیقی یا فرضی خیالات پر مشتمل اشعار پیش کیے جائیں اور دلیل میں اشعار کو پیش کریں۔جیسے :’اس مرتبہ کے الیکشن میں ہم ہار گئے اور ہماری پارٹی شکست سے دوچار ہوگئی ،تو کیا ہوا؟ ہم صرف الیکشن ہارے ہیں ،حوصلے نہیں ہارے ہیں ۔ہمارے حوصلے ابھی تک اتنے ہی بلند ہیں ،جتنے پہلے بلند تھے ۔ ہم پھر دوبارہ الیکشن لڑیں گے اور اس وقت جیت ان شاء اللہ ہماری ہوگی ۔اس لیے ہم وقتی طور پر ہارجانے سے ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھنے والے نہیں ہیں ،کیوں کہ
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
یا جیسے :
عصر حاضر میں مسلمانوں کی ذلت و پستی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن اور اسلامی تعلیمات و احکام سے کوسوں دور ہوگیا ہے ۔آج بھی مسلمان اگر ذرا پیچھے کی طرف لوٹ جائیں اور قرآنی احکام اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے لگیں ، توان کی ذلت ونکبت عزت ومنزلت میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔
وہ معززتھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تاریکِ قرآں ہوکر
قیاس سفسطی
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسی باتوں کا سہارا لیا جائے ،جو سراسر فرضی ،خیالی اور بے حقیقت ہو ں اور آپ کا مطمح نظر صرف سامعین یا جانب مخالف کو اپنی بات منوانی ہو ۔جیسے آپ کو اس موضوع پر اظہار خیال کرنا ہے کہ جو شخص محنت کرتا ہے ،آگے چل کر اس کو اس کا پھل ضرور ملتا ہے اور جو شخص محنت و مشقت سے جی چراتا ہے ،بعد میں اسے ناکامی اور محرومی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے ۔اس کو ذہن نشیں کرنے کے لیے مثلا اس فر ضی واقعے کو بیان کریں کہ:
’ایک مرغی تھی ،جس نے کہیں سے گیہوں کاایک دانہ لایا اور گھر کے ایک کونے میں تھوڑی سی جگہ کرید کر اسے بو دیا ۔جب پودا نکل آیا اور اسے پانی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ،تومر غی نے اپنے تمام سہیلیوں سے کہا کہ اس کی سینچائی کون کرے گی؟تو سب نے سستی اور کاہلی کی وجہ سے یہ جواب دیا کہ ہم اس کی سینچائی نہیں کرسکتیں ۔یہ جواب سن کر اس مرغی نے خود سے سینچائی کی ۔جب وہ پودا بڑا ہوگیا اور اس کی بالیاں پک گئیں اور کاٹنے کے لائق ہوگیا ، تواس نے پھر سبھی سہیلیوں سے کہا کہ اس کو کون کاٹ کر لاکے گاہے گی اور پیس کر ہمارے لیے روٹی بنائے گی ؟تو اس مرتبہ بھی سب نے اپنی کاہلی اور سستی کی وجہ سے یہی جواب دیا کہ یہ کام ہم سے نہیں ہوسکے گا ۔ بالآخر سب کام اسی مرغی نے کیے۔ جب روٹی پکا کر کھانے کے لیے دستر خوان پر رکھا ،تو اس نے سب سہیلیوں کا جواب سننے کے لیے کہا کہ ہمارے ساتھ کون کون کھائے گی ؟توسب مرغیوں نے یک بارگی جواب دیا کہ میں بھی کھاؤں گی ،میں بھی کھاؤں گی ۔اس پر اس مرغی نے جواب دیا کہ کام کے موقعے پر تم میں سے کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اب جب کہ کھانے کی باری آئی ، توتم سب تیار ہوگئیں ۔آج صرف میں کھاؤں گی اور تم سب میرا صرف منھ دیکھو گی؛کیوں کہ دستور ہے کہ جو محنت کرے گا ؛وہ پائے گا ۔میں نے محنت کی ،اس لیے مجھے پھل ملا ۔تم لوگ محنت سے جی چراتے رہے ، اس لیے آج تمھیں بھوکا رہنا پڑے گا ۔
قیاس استقرا
ایسے قیاس کو قیاس استقرا کہتے ہیں ،جس میں اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ان چیزوں کوپیش کیاجائے، جن کے بارے میں تحقیق و جستجو سے یہ معلوم ہوگیا ہو کہ وہ چیزیں جب بھی اور جہاں بھی پائی جائیں گی ، اسی طرح پائی جائیں گی ۔جیسے:
’جو کوئی حضور قلب ،مکمل توجہ اور کامل رجوع الیٰ اللہ کے جذبے کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتا ،وہ شخص کبھی بھی خشوع وخضوع ،اخلاص وللٰہیت اور ک�أنک تریٰ کی کیفیت پیدا نہیں کر سکتا ؛کیوں کہ جو بھی اس جذبے سے خالی ہوکر محض فرض کو اپنے ذمے سے ساقط کرنے کے لیے نیت باندھ کرکھڑا ہوجاتا ہے،اس کا ذہن دنیاوی معاملات اور کاروباری خیالات میں منہمک ہوجاتا ہے ۔بسا اوقات انہماک اس قدر شدید ہوجاتا ہے کہ نماز میں ہونے کا خیال تک نہیں رہتا ۔‘
معاشرۂ یہود کا استقرا و مشاہدہ اور اس قوم کی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہ قوم فطری طور پر شرارتی اور فتنہ و فسادات مچانے والی واقع ہوئی ہے ۔یہ جس ملک میں بھی بسی ہے ،وہاں شرانگیزی کرتی رہی ہے ،معاشرے کا چین و سکون لوٹتی رہی ہے اور وہاں کے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔اس لیے اسے مسلم ممالک کے سویدائے قلب (اسرائیل) میں لاکر اس نیت سے لا بسانا کہ جب اسے ایک اپنا ملک مل جائے گا ،تو یہ چین وسکون سے رہے گی اور کسی قسم کا فتنہ و فساد برپا نہیں کرے گی،سیاست دانوں کی ایک ایسی تاریخی غلطی تھی کہ اس پر جتنا بھی تعجب وحسرت کا اظہار کیا جائے ،وہ کم ہے ؛ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ’’جبل گردد جبلت نہ گردد‘‘اس لیے جو بھی یہودیت سے منسوب ہوگا ،فتنہ و فساد مچانا اس کی فطرت ہوگا ۔ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ ایک آدمی یہودی بھی ہو اور شریف بھی ہو۔
قیاس تمثیل
اس کا مطلب یہ ہے کہ خطیب اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے تشبیہات و استعارات سے کام لیتا ہے ۔ اور اپنے مدعیٰ کو کسی مشابہ چیز سے تشبیہ دیتا ہے ۔جیسے آپ دنیا کی بے ثباتی کو قیاس تمثیل میں اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ:
’دنیا کی کیا حقیقت ہے ؟کلی پھول بنتی ہے اور مرجھا جاتی ہے ،گلاب میں چمک آتی ہے اور ماند پڑجاتی ہے ، چمیلی عطر بیزی شروع کرتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے ،کنول کھلتا ہے اور کمھلا جاتا ہے ،نرگس شہلا مسکراتی ہے اور خاموش ہوجاتی ہے، چمپا میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور پژمردگی چھا جاتی ہے ،بلبل شاخ گل پر چہکتی ہے اور اڑجاتی ہے ،نغمہ ہوا میں گونجتا ہے اور فنا ہوجاتا ہے ،چاندنی پھیلتی ہے اور سمٹ جاتی ہے ،سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوجاتا ہے ،دن رخصت ہوتا ہے اور رات کی تاریکی چھا جاتی ہے ،رات کافور ہوتی ہے اور دن نمودار ہوجاتا ہے ، صبح ہوتی ہے اور شام ہوجاتی ہے ،زندگی یوں ہی تمام ہو جاتی ہے۔
بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اس قیاس کے ذریعے اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے بے شمار طریقے ہیں ،جن میں سے دو مشہور طریقے یہاں پر لکھے جا رہے ہیں :
(۱)دوران یا طرد وعکس
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کوئی علت اور وجہ بیان کردیں ۔پھر وہ علت اور وجہ جہاں جہاں پائی جائے ، وہاں وہاں اپنے مدعیٰ کو ثابت کردیں ۔جیسے کہ بقا ئے ایما ن کی آپ نے یہ علت بیان کی کہ جس طرح قرآن کو ماننا ضروری ہے ،اسی طرح احادیث کو ماننا بھی ضروری ہے ؛کیوں کہ ایمان برقرار رکھنے کے لیے وحی الٰہی کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے ،خواہ وہ وحی متلو ہو یا وحی غیر متلو ۔قرآن وحی متلو ہے اور احادیث وحی غیر متلو ۔اب جو شخص بھی ان میں سے کسی کو ماننے سے انکا ر کردے گا وہ خارج از ایمان ہو جائے گا ۔
اس علت کی روشنی میں یہ حکم ہر اس جگہ لگا سکتے ہیں جہاں کوئی صرف قرآن کو مانتا ہے اور حدیث کو نہیں مانتا ، جیسا کہ اہل قرآن نامی فرقے کا نظریہ ہے ۔یا صرف احادیث کو قابل حجت مانتا ہے اور قرآن کے بارے میں خرد برد کا اعتقاد رکھتا ہے ،جیسا کہ اہل تشیع کہتے ہیں ۔
(۲)سِبر وتقسیم
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دعوے کوثابت کرنے کے لیے اس کی بہت ساری وجوہات نکالیں ،پھر ان میں سے جو صحیح وجہ ہو ،اس کی وضاحت کردیں ۔جیسے آپ کسی مدرسے کے سنگ بنیا د پر تقریر کرتے ہوئے کہیں کہ
’آج کل جو گلی گلی اورکوچے کوچے میں مدارس قائم کیے جا رہے ہیں ،ان کے قیام کے بے شمار مقاصد ہو سکتے ہیں:ایک مقصد تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح ہم مہتمم بن جائیں گے اور ہمیں خود مختاری حاصل ہوجائے گی ۔ دوسرا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری قدرو منزلت میں اضافہ ہوجائے گا اور لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔تیسرا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری دنیاوی ومالی پوزیشن مضبوط اور مستحکم ہو جائے گی۔اگر چہ ان مقاصد کے لیے بھی مدرسے قائم کیے جارہے ہیں ؛لیکن یہ صحیح مقاصد نہیں ہیں۔صحیح مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے اسلام کی خدمت کا فریضہ انجام دیں گے اور شمع اسلام کی روشنی گھر گھر پہنچائیں گے ۔یہ مدرسہ بھی اسی مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہے۔
تقابل وموازنہ
تقابل وموازنہ سے بھی مدعیٰ کو مدلل ومستحکم کیا جاتا ہے ،کیوں کہ جب دو الگ الگ چیزوں کا باہم موازنہ و تقابل کیا جاتاہے ،تو دونوں کے مثبت ومنفی دونوں پہلو اجاگر ہوجاتے ہیں اور بات بالکل منقح ،واضح اور روشن ہوجاتی ہے،جیسے :
’’۔۔۔اللہ کے دربار میں ان دونوں میں زیادہ مقبول کون ہو سکتا ہے؟۔ اپنے دل میں خود سوچیے اور فیصلہ کیجیے کہ اللہ کے یہاں مقبولیت پیدا کرنے والی کون سی چیز ہو سکتی ہیں؟ پر تکلف لباس؟ لذیذ غذائیں؟ عمدہ کوٹھیاں؟ اعلیٰ سامان آرائش ؟ نمائشی چندے؟ رسمی جلسے؟ بناوٹی تقریریں اور تحریریں؟ یا اس کے برعکس زندگی کی سادگی؟ دل کی شکستگی؟ ایثار وخدمت گذاری؟ انکساری وخاکساری؟عاجزی وفروتنی؟ صبر وقناعت؟ زہد وعبادت؟ تقویٰ وطہارت؟ ‘۔ (مولاناعبدا لماجد دریا بادیؒ )
اثباتِ مدعیٰ کے مزید دیگر طریقے
اثبات مدعیٰ کے لیے بسااوقات خطیب کو اس مسئلے میں کسی فرقے کے خاص نظریے کی تردید کرنی پڑتی ہے ، اس کے کئی طریقے ہوتے ہیں :
(۱)کسی دلیل سے اس کے نظریے کی تردید کریں ۔
(۲)اس کے بعض پہلووں کو مان لیں اور بعض پر گرفت کر لیں ۔
(۳)س کے نظریے میں ہی کچھ ایسی خامیاں اجا گر کر دیں کہ وہ خود اس کی نگاہ میں باطل ہوجائے ۔
(۴)اس نظریے کے حامل افراد ۔جو آپ کے نظریے پر شک و شبہ قائم کیا ہوا ہے۔کے نظریے پر اسی طرح کے دوسرے شبہات وشکوک پیدا کردیں ،تاکہ ان کو خود اپنے نظریے میں تردد پیدا ہوجائے ۔
(۵)الزامی جواب دیں ،یعنی انھیں کے دلائل سے ان کی تردید کردیں۔
(۶)ان کے دلائل و شواہد کو مذاق کی نذر کردیں ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خطیب معقول دلیل پیش کرتا ہے ،لیکن کچھ نقاد سامعین اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس کی تردید کر بیٹھتے ہیں ۔ایسے موقعے پر جھنلانے یا پر پیچ منطقی دلائل دینے کے بجائے ایسی کھلی ہوئی اور واضح دلیل پیش کریں کہ اسے ہر کس و ناکس سمجھ سکے اور پھر اشکال کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ،جیسے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کے اعتراض پر دیا تھا ۔
یہاں یہ عرض کر دینا شاید بے محل نہ ہوگا کہ اثبات مدعیٰ کے حوالے سے اختصار کے باوجود بحث کافی لمبی ہوگئی؛ لیکن یہ وہ ناگزیر باتیں تھیں ،جن کا ایک خطیب کے لیے جاننا ضرور ی ہے ۔البتہ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ دلائل و شواہد عموماََانھیں مجلسوں میں بیان کرنا چاہیے ،جہاں صرف اہل علم اور پڑھے لکھے حضرات تشریف رکھتے ہوں ۔ ہرمحفل اور عوام کے اجتماع میں ان سے گریز ہی بہتر ہے ۔الا یہ کہ وہ ہر پر پیچ بحثوں اور فلسفیانہ دلیلوں کو عام فہم اور سادہ اندازمیں بیان کرنے کا فن جانتے ہوں اور مشکل سے مشکل مسئلے کو آسان بنانے کے گر سے اچھی طرح واقف ہو ۔ بعض خطیبوں کودیکھا گیا ہے کہ وہ عوامی جلسے میں بھی دقیق وپیچیدہ مسائل اور منطقی دلائل کی بحثیں چھیڑدیتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے لوگ میری علمی قابلیت کی شہادت دیں گے ،حالاں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اس کا سراسر الٹااثر ہوتا ہے ۔عوام مجلس سے اٹھ اٹھ کر بھاگنے لگتے ہیں ۔اس لیے تقریر مقتضائے حال کے مطابق ہی کرنی چاہیے ۔
مراجعت
یہ تقریر کا چوتھا جز ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریر کا آغاز جس منزل سے کیا گیا تھا اور تمہید کے حصے میں جو اجمالا بیان کیا گیا تھا ،پھر اسی منزل کی طرف لوٹ آیا جائے اورتمام اجزا میں ربط و تسلسل اور ہم آہنگی کی وضاحت کی جائے ۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ تقریر کے مختلف عناصر کی توضیح کے دوران اگر کسی کو بے ربطی کا احساس ہوا ہوتا ہے ،تواس سے وہ ختم ہوجاتا ہے ۔اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خلاصہ و نتیجہ بیان کرنے میںآسانی ہوجاتی ہے اورمراجعت و خلاصے کے قریبی مضامین سے تکرار کی وہ صورت پیدا ہوجاتی ہے ،جس کا فائدہ فان الذکریٰ تنفع المؤمنین میں بتلا یا گیا ہے ۔
خلاصہ و اختتام
تقریر کا آغاز جس طرح اہم ہوتا ہے ،اسی طرح اس کا اختتام بھی بہت اہم ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’ابتدائیہ کی طرح اختتامیہ بھی دل فریب ہو ،تو خطابت کی چھاپ گہری ہو جاتی ہے ۔ایک عمارت کا آغاز کتنا ہی پر شکوہ ہو ؛لیکن اختتام تصدیق نہ کرے ،شکوہ مؤثر نہیں ہوسکتا ؛بلکہ کوئی سا نقص ساری عمارت کا عیب ہوجاتا ہے ۔اختتامیہ خطابت کا توشہ ہے ،اس سے خطابت کی یکسانی کا احساس قائم رہتا اور اظہار میں کسی عنوان سے کوئی تشنگی محسوس نہیں ہوتی ۔اور یہی چیز خطابت میں حسن و کمال ہے ۔‘‘
(ص؍۴۸)
اس لیے تقریر ختم کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیا ل رکھنا چاہیے :
(۱)دوران تقریر اِدھر اُدھر کی مختلف باتیں بھی آجاتی ہیں ،اس لیے بسا اوقات سامعین مرکزی موضوع کو فراموش کرجاتے ہیں ۔اس لیے اختتام میں سرسری طور پر شروع سے آخر تک تمام باتوں کا خلاصہ بیان کر دینا چاہیے ،تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ مرکزی عنوان کیا تھا ۔
(۲)اچانک تقریر ختم نہیں کرنی چاہیے ،بلکہ کسی پر لطف جملے یا موقع ومحل کے اعتبار سے جو چیز مناسب ہو ، اس پر ختم کرنی چاہیے ۔جیسے کہ کسی شعر یا مزاحیہ فقرے یا پھر کسی نام ور خطیب کے ایسے انداز اور طریقۂ کار سے ،جو لوگوں کے مابین مشہور و متعارف ہو اوروہ دل چسپی سے لبریز ہو ۔
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں یہ عرض کردینا نامناسب نہ ہوگا کہ تقریر کے یہ پانچوں عناصر اس درجہ لازمی نہیں ہیں کہ اگر ان میں سے کسی کو برتنے میں کوئی جھول واقع ہوجائے یا کوئی عنصر چھوٹ جائے ،تو وہ تقریر کی حد سے ہی نکل جائے گی ؛بلکہ ان کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ ان کی رعایت کرنے سے تقریر کا حسن مزید نکھر جائے گا اور اس کی شیرینی،حلاوت ،چاشنی اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہو جائے گا ۔اس لیے خطیب کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ موقع ومحل کی مناسب سے ان عناصرمیں حذف واضافہ کرسکتا ہے ۔