4 Apr 2018

تقریر کی تیاری

(قسط نمبر (8) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کی تیاری 

جو چیز منظر عام پر آنے والی ہوتی ہے ،خواہ وہ معمولی ہو یا غیر معمولی،اسے منصۂ شہود پر لانے سے پہلے اس کے مثبت ومنفی دونوں پہلووں پر خوب گور وفکر کیا جاتا ہے اور مکمل تیاری کے بعد ہی اسے نمایاں کیا جاتا ہے ۔تقریر کا تعلق بھی انھیں چیزوں سے ہے،جو منظر عام پر نمود سے متعلق ہیں ۔اس لیے اسٹیج پرآنے سے پہلے جس عنوان پر جلسہ ہے یا جس موضوع پر تقریر کرنی ہے ،اس پر مکمل تیاری کر لینی ضروری ہے کیوں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جو لوگ بغیر کسی تیاری کے خالی خالی ذہن اسٹیج پر آجاتے ہیں ،انھیں بسااوقات خفت و ذلت کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے ۔اس لیے دانش مندی یہی ہے کہ مکمل تیاری کے بعد ہی اسٹیج پر آیا جائے ۔شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’ان خصائص کے علاوہ خطابت کے دوسرے لوازم بھی ہیں ،مثلاتیاری ۔یہ صحیح ہے کہ بعض تقریریں بلا تیاری کے بھی ہوجاتی ہیں ۔ان کا انحصار خطابت کے طویل تجربے اور مطالعے کی وسعت پر ہے ۔لیکن جامع تقریر کے لیے خطیب کا فرض ہے کہ اپنے موضوع و مضمون کی تیاری کرے ۔‘‘(ص؍۴۸)
تیاری کے طریقے
المختصر تقریرمیں جامعیت پیدا کرنے کے لیے تیاری ضروری ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ تیاری کس طرح کی جائے؟تو اس حوالے سے چند طریقے ،جو ماہرین فن کے مجرب و آزمودہ ہیں ،اختصار کے ساتھ لکھے جارہے ہیں ۔
(۱)’’تیاری دو طرح کی ہیں :ایک ذہنی کہ مطالعہ و فکر کے بعد دماغ میں وہ چیزیں لف ونشر کے طور پر محفوظ کرلی جائیں ،جو عوام سے کہنی ہیں ۔دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے موضوع کے متعلق پرزۂ کاغذات پر اشارات قلم بند کرلیے جائیں کہ اس ترتیب کے ساتھ فلاں فلاں بات کہنی ہے۔تیاری کے بغیر تقریر کے خطوط مکمل نہیں ہوتے۔‘‘ (ص؍۴۸) 
(۲)موضوع کا پہلے خاکہ تیار کرلیں،پھر اس خاکے پر اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے ،چلتے پھرتے ؛غرض ہمہ وقت غور وفکر کریں اور ملنے جلنے والے ہرایک آدمی سے اس پر تبادلۂ خیالات کریں ۔
(۳)اپنے موضوع پر مطالعے کے دوران جو اہم باتیں نظر سے گذریں ،جیسے قرآنی آیات کے نکات ، حدث شریف سے کوئی انوکھا استدلال،حکیمانہ اقوال ،زریں کہاوتیں ،عبرت انگیز واقعات وغیرہ وغیرہ۔ان سب چیزوں کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں اور انھیں موقع بہ موقع اپنی تقریر میں استعمال کریں ۔
(۴)رٹنا بھی ایک تیاری ہے ،لیکن عہدۂ خطابت پر فائز ہوجانے اور خطباکی فہرست میں اپنا نام درج کرالینے کے بعد یہ طریقہ غیر مستحسن سمجھا گیا ہے ۔البتہ کچھ مخصوص جملے ،جو انتہائی شیریں ،معنی خیز اورعبرت آگیں ہوں ،ان کو رٹ کر یاد رکھنے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
(۵)اپنے موضوع پر اولاََ بھر پور مطالعہ کریں،بعد ازاں تقریر کے اجزائے ترکیبی کے مطابق اس کا خلاصہ اور نچوڑ لکھ لیں اور تقریر سے پہلے اسی خلاصے کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں ۔ 
عناصر ترکیبی 
آپ خواہ مضمون لکھنا چاہتے ہوں یاپھر تقریر کرنے کا خواہاں ہوں ،دونوں میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہونے کے لیے آغاز سے لے کر اختتام تک ربط و تسلسل برقرار رکھنا ضروری ہے اور اس کے لیے ان کے اجزائے ترکیبی اور عناصر ترتیبی کو پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے ۔تقریر کے عناصر ترکیبی درج ذیل ہیں:(۱)تمہید یا ابتدائیہ (۲)دعویٰ (۳) اثبات مدعی ٰ(۴)مراجعت(۵)نتیجہ و خلاصہ ۔
ابتدائیہ
تقریر کی تمہید، آگے کی تقریر کے لیے پیش خیمہ اور سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس لیے آغاز جتنا پرکشش، دل کش اور خوب صورت ہوگا ،آگے کی تقریر بھی اتنی ہی پرلطف ،مقبول اور من موہ لینے والی ہوگی اور سامعین کی مکمل توجہ آپ کی طرف مبذول ہوجائے گی ۔ابتدائیہ کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے صاحبِ ’’فنِ خطابت ‘‘لکھتے ہیں کہ:
’’ایک دوسری چیز یہ ہے کہ تقریر کی ابتدا کیوں کر ہو ؟کیوں کہ خطابت کی ابتدا اس کاچہرہ نما ہے ۔ چہرہ دل کش ہوگا،تو کشش ہوگی ۔اس بارے میں مقررین کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ خطاب کا ابتدائیہ عوام کو متحرک کرتا ہے ۔ابتدائیہ کی حیثیت برات میں عقد کی طرح ہے ۔اس سے ایجابی تأثر پیدا ہوتا ہے اور تأثر کے معنی ہیں کہ آپ دوستوں کی التفات کو اپنی مٹھی میں کیوں کر لے سکتے ہیں ۔‘‘
(ص؍۴۸)
افتتاحیہ میں پوری تقریر کا اجمالی خاکہ بیا ن کیا جاتا ہے اور آگے آنے والے نکات و استدلال کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔ تقریر کے آغاز میں شہنشاہ خطابت اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نہایت لطیف اور سادۂ پیرایۂ بیان میں تقریر شروع کردیتے تھے اور تکلف و تصنع سے یکسر وریٰ ہوکر موضوع کا اجمالی خاکہ بیان کر دیتے تھے ۔اس کی مثال میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وہ تقریر پیش کی جاسکتی ہے ،جو انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد زمام خلافت اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائی تھی۔
’’ایہا الناس!انی ولیت علیکم ولست بخیرکم ۔فان رأتمونی علیٰ حق؛فأعینونی،و ان رأتمونی علیٰ باطل،فسددونی ۔أطیعونی ما اطعت اللہ فیکم ،فاذا عصیتہ ،فلا طاعۃ لی علیکم ۔ألا ان أقواکم عندی الضعیف حتٰی أخذالحق لہ و أضعفکم عندی القویٰ ،حتٰی أخذ الحق منہ ۔آقول قولی ہذاو استغفرا للہ لی ولکم۔‘‘ 
ترجمہ:اے لوگو !میں تمھارا حاکم مقرر کیا گیا ہوں ،حالاں کہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں ۔اگر تم مجھے حق پر چلتے ہوئے دیکھو ،تو تم میری مدد کرنا ۔اور اگر مجھے باطل پر چلتے ہوئے دیکھو ،تو تم مجھے روک دینا ۔تم اسی وقت تک میری اطاعت کرنا ،جب تک میں تمھارے بارے میں اللہ کی اطاعت کرتا رہوں ۔اور اگر میں اس کی نافرمانی کروں ،تو پھر تم پر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔آگاہ ہوجاؤ کہ تم میں سب سے زیادہ طاقت ور میرے نزدیک کمزور ہے ، جب تک میں اس کا حق نہ دلا دوں اور تم میں سے کمزور شخص میرے نزدیک طاقت ور ہے ،جب تک کہ میں اس کا حق پورا نہ کردوں ۔ انھیں چند باتوں کے بعد خدا سے اپنے لیے اور تمھارے لیے مغفرت کی دعا مانگتا ہوں ۔
تقریر کا آغاز کسی مزاحیہ جملے یا فرضی کہانیوں سے نہیں کرنی چاہیے ۔اس سے ممکن ہے کہ آپ کے متعلق شروع ہی سے یہ تأثر قائم کر لیا جائے کہ یہ کوئی باوقار خطیب نہیں ؛بلکہ اداکارمعلوم ہوتا ہے ۔اسی طرح کرسی خطابت پر بیٹھتے ہی اپنی احساس کمتری اور بے اعتمادی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔مثلا اس طرح کہ میں اس وقت تقریر کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔۔۔یا میرا تقریر کرنے کا موڈ نہیں ہے ۔۔۔اس موضوع پر میں نے کوئی تیاری نہیں کی ہے ۔۔۔میں کیاتقریر کروں مجھے تو تقریرکرنی ہی نہیں آتی ۔۔۔۔میرا کوئی تازہ مطالعہ نہیں ہے ،جو کچھ بھی کہوں گا وہ پرانی باتیں ہوں گی وغیرہ۔ اس طرح کے الفاظ سے سامعین میں غلط تأثر قائم ہوتا ہے اوران کی توجہ خطیب سے ہٹ جاتی ہے، جب کہ کامیابی اس میں ہے کہ آپ سامعین کی پوری توجہ اپنی جانب مبذول کرالیں اور انھیں اپنی تقریر سننے کے لیے جم کر بیٹھنے پر مجبور کردیں ۔اسی طرح تمہید کو تقریر کی مناسبت سے چھوٹی بڑی رکھیں ؛لیکن اسے اصل تقریر سے کبھی طول نہ دیں کہ آپ کا سارا وقت تمہید ہی بیان کرنے میں صرف ہوجائے ۔ 
دعویٰ
دعویٰ تقریر کا دوسرا حصہ ہے ۔اس میں اس اجمال کی تفصیل بیا ن کی جاتی ہے ،جس کا ذکر اجمالی طور پر تمہید میں کردیا گیا ہوتا ہے ،اس میں موضوع کے خدو خال کو مکمل طور پر نمایا ں کیا جاتا ہے ،ساتھ ہی اس کے لوازمات و شواہد پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔یہ حصہ تقریر کا بہت اہم ہوتا ہے ۔گویا یہی جز اس کا مغز اور گودا ہوتا ہے ،باقی دیگر اجزا اس کے لیے چھلکا اور کھال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اس لیے دعوے کا انداز ایسا ہونا چاہیے ،جو شیریں ہو ،سہل ہو ،الفاظ سلاست کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں ۔نہ بہت زیادہ گھن گرج اور برس کا لہجہ ہو اور نہ ہی بالکل سلو اور دھیما،جیسے یوں محسوس ہو کہ گلے میں اچھو لگ گیا ہے ،جس کی وجہ سے آواز اٹک اٹک کر نکل رہی ہے ؛بلکہ مناسب رفتار اختیار کیا جائے ۔ حسب موقع مدو جزر سے کام لیا جائے اور کہیں کہیں گھن گرج بھی دکھائی جائے۔
ایسا دعویٰ کبھی نہیں کرنا چاہیے ،جس کو آپ ثابت نہ کرسکیں یا اس پر آپ کی مکمل تیاری نہ ہو،اور نہ ہی بے شمار دعوے کریں ،جن سے تقریر طویل ہوتی چلی جائے ؛بلکہ دعویٰ مختصر ہونا چاہیے ،تاکہ تقریر مختصر ہوسکے ،افہام و تفہیم میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور سامعین اکتاہٹ بھی محسوس نہ کریں۔ 
اثبات مدعیٰ
دعوے کے بعد خطیب کو یہ فکر شدت کے ساتھ ستانے لگتی ہے کہ اس نے جو دعویٰ کیا ہے ،اس کو ثابت کرنے کے لیے کس طرح کے دلائل بیان کیے جائیں اور کس حسن و خوبی سے بیان کیے جائیں کہ دعویٰ بھی مکمل طور پر ثابت ہوجائے اور دلائل بھی اچھی طرح ذہن نشیں ہوتے چلے جائیں اور سامعین کے دلوں میں کسی قسم کاشک و شبہ بھی باقی نہ رہے ۔اس لیے ذیل کی سطروں میں دلائل اور اثبات مدعیٰ کے حوالے سے چند باتیں لکھی جارہی ہیں ۔
دلیلیں دو طرح کی ہوتی ہیں :(۱)قطعی (۲)ظنی۔خطیب اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کبھی دلیل قطعی کا سہارا لیتا ہے ،تو کبھی دلیل ظنی کا ۔اگر اثبات مدعیٰ کے لیے اس کے پاس قطعی دلائل ہیں ،تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔مسئلہ اس وقت ہوتا ہے ،جب کہ قطعی دلائل نہ ہوں ؛بلکہ صرف ظنی دلائل ہوں ۔ایسے موقعے پر خطیب اس طرح کاانداز بیان اختیار کرے کہ ظنی دلائل بھی قطعی دلائل محسوس ہوں اور سامعین کے دلوں میں کسی طرح کا شک و شبہ برقرار نہ رہے۔
دلائل نقلیہ
سب سے پہلے اپنے دعوے کو دلائل نقلیہ سے مدلل و مبر ہن کرنا چاہیے ۔ان میں بھی سب سے پہلے قرآن کا سہارا لینا چاہیے۔ اگر قرآن میں نہ ملے ،توپھر احادیث مبارکہ ،آثار صحابہؓاوراقوال تابعین وغیرہم سے نظائر و شواہد پیش کرنا چاہیے۔بعد ازاں دلائل عقلیہ سے اس کی مزید تائید وتوثیق کرنی چاہیے ۔ 
دلائل عقلیہ منطقیہ
اثبات مدعیٰ کے لیے منطقی دلائل وبراہین کا بھی سہارا لیاجاتا ہے ۔منطقی دلائل کی تین قسمیں ہیں:(۱)قیاس (۲)استقرا(۳)تمثیل۔پھر قیاس کی اولادو قسمیں ہیں :(۱)قیاس استثنائی(۲)قیاس اقترانی ۔پھر اقترانی کی دو قسمیں ہیں:(۱)حملی(۲)شرطی۔پھراستثنائی اوراقترانی کی مجموعی طور پر کئی اقسام ہیں،جیسے:قیاس ذوحدین،قیاس خلف، قیاس مرکب وغیرہ ۔پھر قیاس کی مادے کے اعتبار سے پانچ قسمیں ہیں :(۱)قیاس برہانی (۲)قیاس جدلی (۳)قیاس خطابی (۴)قیاس شعری (۵)قیاس سفسطی۔پھر قیاس برہانی کی دو قسمیں ہیں : (۱)قیاس برہانی انی(۲)قیاس برہانی لمی ۔ان تمام اقسام کے تفصیلی مطالعہ اور مکمل معلومات کے لیے تو آپ فن منطق کا مطالعہ کریں؛ البتہ ایک خطیب کو اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے جن جن دلائل کا زیادہ سہارا لینا پڑتا ہے ،ان کا اختصار کے ساتھ یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے ۔
قیاس
قیاس سے مراد یہ ہے اگر کوئی شخص ایک بات مان لے ،تو اس کے ماننے کی وجہ سے ایک دوسری بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی ،جیسے :آپ اپنے مدعیٰ کوثابت کرنے کے لیے اس بات کو منوالیں کہ ’مرنے کے بعد انسان کے تمام اعضا کا م کرنا چھوڑ دیتے ہیں ،پس وہ جس طرح حس و حرکت نہیں کر سکتا ،اسی طرح وہ دوسرے کام بھی نہیں کر سکتا ۔ تو اسے یقینی طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بعد المرگ انسان نہ تو کسی کی حاجت روائی کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی مشکل کشائی،نہ کسی کی فریاد رسی کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اولاد وغیرہ عطا کرسکتا ہے ۔کیوں کہ مردہ خود اتنا محتاج ہوتا ہے کہ اپنی ضروریات کی تکمیل ،مثلا نہانے اور اپنے گھر قبر تک جانے کے لیے زندوں کے کندھوں کاسہارا لیتا ہے ، تو پھر وہ دوسروں کی حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے ؟لہذا مردوں سے حاجت روائی کی عقیدہ رکھنے والایا تو مرفوع القلم ہوسکتا ہے یا حقیقت کا منکر ،ضدی اور ہٹ دھرم۔
قیاس ذوحدین
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ایسی دوصورتوں میں تقسیم کر کے بیان کیا جائے کہ بیچ میں کوئی تیسری صورت نہ نکل سکے ۔اور سامعین یا فریق مخالف کوئی اور صورت نکال کر آپ کے دعوے کی تردید نہ کرسکے ۔آپ کی وہ تقسیم اس قدر مستحکم اور یقینی ہو کہ کوئی اور صورت پیدا ہی نہ ہوسکے ،جس سے سامعین کے دلوں میں کسی قسم کا شک وشبہ پیدا ہونے کا خطرہ در پیش ہو ۔مثال ملا حظہ فرمائیے :انسان کے لیے دوہی راستے ہیں :یا تو وہ اللہ کی وحدانیت کی شہادت دے کر پورے لوازمات کے ساتھ مسلمان ہوجائے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کا حق دار ہوجائے یا پھر کفر و الحاد کا لبادہ اوڑھ کر سدا کے لیے جہنم کو اپنا مستقر بنا لے ۔ان کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ،جس پر چل کر وہ جنت و جہنم کے علاوہ کہیں اور اپنا ٹھکانہ بنا سکتا ہے ۔
قیاس خلف
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس مدعیٰ کو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں ،اس کو ایسی دو شقیں نکال کر ثابت کریں کہ اگر ان میں سے کسی ایک شق کو باطل کردیں ،تودوسری شق خود بخود ثابت ہوجائے ،مثلا :خدا کی محبت اور اس کی نافرمانی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ؛کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔اگر محبت ہوگی ،تو نفرت نہیں ہوسکتی ۔اگر نفرت ہوگی ،تو پھر محبت کا دعویٰ کھوکھلا ہوگا ،لہذاجو کوئی خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی محبت الٰہی کا مدعی ہو ،تو اس کا دعویٰ محض ایک فریب اور دھوکہ ہے ۔دیکھیے محمود الوراق نے کیا نکتہ آفرینی کی ہے کہ ؂
تعصی الالہ وانت تظہر حبہ
ہذالعمری فی القیاس بدیع
لوکان حبک صادقا لاطعتہ 
ان المحب لمن یحب یطیع
ترجمہ:خدا کی نافرمانی کرنے کے باوجود اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے ۔بخدا یہ ایک انتہائی تعجب خیز بات ہے ۔ اگر واقعی تمھاری محبت سچی ہوتی ،تو تم اس کی اطاعت کرتے ؛کیوں کہ عاشق ہمیشہ محبوب کی اطاعت کرتا ہے۔
قیاس مرکب
اس کا مطلب یہ کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے سلسہ وارکئی باتوں کو بیان کیا جائے اورایک کو دوسرے کا سبب بتایا جائے ۔مثلاََ اس طرح کہ :علم نجوم سیکھنے سے گریز کرنا چاہیے ؛کیوں کہ نجومیت فال گوئی تک پہنچاتی ہے، نجومی کاہن کی طرح ہے اور کاہن جادوگر کی مانند ہے اور جادو گر کافر کی طرح ہے اور کافر دوزخی ہے ،بس یہی انجام نجومی کا بھی ہے ۔۔۔۔دین میں کوئی ایسی چیز شامل کرنا ،جس کی کوئی اصل شریعت میں موجود نہ ہو ؛وہ بدعت ہے ۔ اور بدعت خواہ عملی ہو یا اعتقادی ؛دونوں مذموم ہیں اور ان سے بچنے کی شدید تاکید کی گئی ہے ،کیوں کہ ہر بدعت ضلالت و جہالت کا دروازہ کھولتی ہے اور ضلالت دوزخ میں جانے کا سبب بنتی ہے ۔
قیاس برہانی 
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل یقینیہ وقطعیہ پیش کریں ،جن میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو ،جیسے آپ کوئی بات بیان کرکے قرآن و حدیث سے اسے مدلل کریں یا قیاس و اجماع سے ثابت کریں ۔اس کی مثالیں واضح ہیں ۔
قیاس جدلی 
اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جو بات کہنا چاہتے ہیں اس کو ثابت کرنے کے لیے ان باتوں کو پیش کریں ،جو لوگوں میں مشہور ومعروف ہیں یا وہ ان کی عادات و رسوم کا حصہ ہیں یا پھر ان چیزوں سے استدلال کریں ،جو کسی خاص گروہ کے لوگ مانتے ہیں سب نہیں مانتے ،جیسے کہ’ :آج کل علما کو برا بھلا کہنا عام ہوتا جارہا ہے ،حالاں کہ یہ بہت بری بات ہے ۔عورتیں اپنے شوہروں کو نام لے کر نہیں پکارتیں ۔کیوں ؟اس لیے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اپنے سرتاجوں کو نام لے کر پکارنا ،ان کی بے ادبی اور ان کی شان میں گستاخی ہے اور ایک نیک صالح بیوی اپنے سرتاج کی بے ادبی نہیں کرسکتی ۔ علمائے کرام جو قوم کے مقتدیٰ،رہ نما اور روحانی سرتاج ہیں ،ان کی گستاخی کیسے برداشت کی جاسکتی ہے ۔‘یا جیسے ہندووں کا عقیدہ ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا ایک معصوم جان کوماردینا ہے اور کسی جان کو مارنا بہت بری بات ہے ۔اس عقید ے پر اس طرح کی تقریر کرسکتے ہیں کہ :’غیر مسلم اور ہندو یہ کہتے ہیں کہ مسلمان کیسے سخت دل اور وحشی ہیں کہ وہ جانوروں کا گلا کاٹ کر انھیں کھا جاتے ہیں ۔اسی لیے ہندو جانوروں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے چیونٹیوں کے بلوں میں آٹا ڈالتے ہیں ۔لیکن آج پوری دنیا میں فرقہ پرست عناصر اور غیر مسلم فسطائی طاقتیں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں ۔یہاں انھیں ہمدردی کا خیال نہیں آتا !!یہ کیسی ہمدردی ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا انھیں ظلم محسوس ہوتا ہے اور اپنے ہی ہم جنسوں اور اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانا ظلم نظرنہیں آتا ۔
قیاس خطابی
اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسے بزرگوں اور بڑی بڑی ہستیوں کے اقوال ، افعال اور ارشادات پیش کریں ،جن کے نام آتے ہی عقیدت و محبت سے گردنیں جھک جاتی ہیں ،جیسے کہ انبیائے کرام ؑ ہیں یا اولیا ئے عظام ؒ وغیرہ۔اس قیاس کا سہارا عموما وہاں لیا جاتا ہے ،جہاں سامعین کو کسی بات پر ترغیب یا ترہیب دینی مقصود ہوتی ہے یا پھر اپنی باتوں کی تائید وتوثیق مطمح نظر ہوتی ہے۔جیسے :’جودو سخاوت کا سب سے اعلیٰ معیار یہ ہے کہ اپنی جان عزیز کو بھی سخاوت میں پیش کردے ۔حاتم طائی دنیائے سخاوت میں سب سے زیادہ شہرت اسی وجہ سے رکھتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے اپنے سر کی سخاوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ،تو حاتم طائی نے بلا پس وپیش ایک تلوار نکال کر اسے دیا اور کہا کہ ابھی رات کی تاریکی باقی ہے ۔کوئی تمھیں پکڑ نہیں سکے گا،اس لیے جلدی کرو ،یہ تلوار لو اور میرا سر قلم کرلو۔
قیاس شعری 
اس کامطلب یہ ہے کہ مدعیٰ کے ثبوت کے لیے حقیقی یا فرضی خیالات پر مشتمل اشعار پیش کیے جائیں اور دلیل میں اشعار کو پیش کریں۔جیسے :’اس مرتبہ کے الیکشن میں ہم ہار گئے اور ہماری پارٹی شکست سے دوچار ہوگئی ،تو کیا ہوا؟ ہم صرف الیکشن ہارے ہیں ،حوصلے نہیں ہارے ہیں ۔ہمارے حوصلے ابھی تک اتنے ہی بلند ہیں ،جتنے پہلے بلند تھے ۔ ہم پھر دوبارہ الیکشن لڑیں گے اور اس وقت جیت ان شاء اللہ ہماری ہوگی ۔اس لیے ہم وقتی طور پر ہارجانے سے ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھنے والے نہیں ہیں ،کیوں کہ ؂
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں 
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
یا جیسے : 
عصر حاضر میں مسلمانوں کی ذلت و پستی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن اور اسلامی تعلیمات و احکام سے کوسوں دور ہوگیا ہے ۔آج بھی مسلمان اگر ذرا پیچھے کی طرف لوٹ جائیں اور قرآنی احکام اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے لگیں ، توان کی ذلت ونکبت عزت ومنزلت میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔ ؂
وہ معززتھے زمانے میں مسلماں ہوکر 
اور ہم خوار ہوئے تاریکِ قرآں ہوکر
قیاس سفسطی
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسی باتوں کا سہارا لیا جائے ،جو سراسر فرضی ،خیالی اور بے حقیقت ہو ں اور آپ کا مطمح نظر صرف سامعین یا جانب مخالف کو اپنی بات منوانی ہو ۔جیسے آپ کو اس موضوع پر اظہار خیال کرنا ہے کہ جو شخص محنت کرتا ہے ،آگے چل کر اس کو اس کا پھل ضرور ملتا ہے اور جو شخص محنت و مشقت سے جی چراتا ہے ،بعد میں اسے ناکامی اور محرومی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے ۔اس کو ذہن نشیں کرنے کے لیے مثلا اس فر ضی واقعے کو بیان کریں کہ:
’ایک مرغی تھی ،جس نے کہیں سے گیہوں کاایک دانہ لایا اور گھر کے ایک کونے میں تھوڑی سی جگہ کرید کر اسے بو دیا ۔جب پودا نکل آیا اور اسے پانی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ،تومر غی نے اپنے تمام سہیلیوں سے کہا کہ اس کی سینچائی کون کرے گی؟تو سب نے سستی اور کاہلی کی وجہ سے یہ جواب دیا کہ ہم اس کی سینچائی نہیں کرسکتیں ۔یہ جواب سن کر اس مرغی نے خود سے سینچائی کی ۔جب وہ پودا بڑا ہوگیا اور اس کی بالیاں پک گئیں اور کاٹنے کے لائق ہوگیا ، تواس نے پھر سبھی سہیلیوں سے کہا کہ اس کو کون کاٹ کر لاکے گاہے گی اور پیس کر ہمارے لیے روٹی بنائے گی ؟تو اس مرتبہ بھی سب نے اپنی کاہلی اور سستی کی وجہ سے یہی جواب دیا کہ یہ کام ہم سے نہیں ہوسکے گا ۔ بالآخر سب کام اسی مرغی نے کیے۔ جب روٹی پکا کر کھانے کے لیے دستر خوان پر رکھا ،تو اس نے سب سہیلیوں کا جواب سننے کے لیے کہا کہ ہمارے ساتھ کون کون کھائے گی ؟توسب مرغیوں نے یک بارگی جواب دیا کہ میں بھی کھاؤں گی ،میں بھی کھاؤں گی ۔اس پر اس مرغی نے جواب دیا کہ کام کے موقعے پر تم میں سے کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اب جب کہ کھانے کی باری آئی ، توتم سب تیار ہوگئیں ۔آج صرف میں کھاؤں گی اور تم سب میرا صرف منھ دیکھو گی؛کیوں کہ دستور ہے کہ جو محنت کرے گا ؛وہ پائے گا ۔میں نے محنت کی ،اس لیے مجھے پھل ملا ۔تم لوگ محنت سے جی چراتے رہے ، اس لیے آج تمھیں بھوکا رہنا پڑے گا ۔
قیاس استقرا 
ایسے قیاس کو قیاس استقرا کہتے ہیں ،جس میں اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ان چیزوں کوپیش کیاجائے، جن کے بارے میں تحقیق و جستجو سے یہ معلوم ہوگیا ہو کہ وہ چیزیں جب بھی اور جہاں بھی پائی جائیں گی ، اسی طرح پائی جائیں گی ۔جیسے:
’جو کوئی حضور قلب ،مکمل توجہ اور کامل رجوع الیٰ اللہ کے جذبے کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتا ،وہ شخص کبھی بھی خشوع وخضوع ،اخلاص وللٰہیت اور ک�أنک تریٰ کی کیفیت پیدا نہیں کر سکتا ؛کیوں کہ جو بھی اس جذبے سے خالی ہوکر محض فرض کو اپنے ذمے سے ساقط کرنے کے لیے نیت باندھ کرکھڑا ہوجاتا ہے،اس کا ذہن دنیاوی معاملات اور کاروباری خیالات میں منہمک ہوجاتا ہے ۔بسا اوقات انہماک اس قدر شدید ہوجاتا ہے کہ نماز میں ہونے کا خیال تک نہیں رہتا ۔‘ 
معاشرۂ یہود کا استقرا و مشاہدہ اور اس قوم کی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہ قوم فطری طور پر شرارتی اور فتنہ و فسادات مچانے والی واقع ہوئی ہے ۔یہ جس ملک میں بھی بسی ہے ،وہاں شرانگیزی کرتی رہی ہے ،معاشرے کا چین و سکون لوٹتی رہی ہے اور وہاں کے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔اس لیے اسے مسلم ممالک کے سویدائے قلب (اسرائیل) میں لاکر اس نیت سے لا بسانا کہ جب اسے ایک اپنا ملک مل جائے گا ،تو یہ چین وسکون سے رہے گی اور کسی قسم کا فتنہ و فساد برپا نہیں کرے گی،سیاست دانوں کی ایک ایسی تاریخی غلطی تھی کہ اس پر جتنا بھی تعجب وحسرت کا اظہار کیا جائے ،وہ کم ہے ؛ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ’’جبل گردد جبلت نہ گردد‘‘اس لیے جو بھی یہودیت سے منسوب ہوگا ،فتنہ و فساد مچانا اس کی فطرت ہوگا ۔ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ ایک آدمی یہودی بھی ہو اور شریف بھی ہو۔ 
قیاس تمثیل
اس کا مطلب یہ ہے کہ خطیب اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے تشبیہات و استعارات سے کام لیتا ہے ۔ اور اپنے مدعیٰ کو کسی مشابہ چیز سے تشبیہ دیتا ہے ۔جیسے آپ دنیا کی بے ثباتی کو قیاس تمثیل میں اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ:
’دنیا کی کیا حقیقت ہے ؟کلی پھول بنتی ہے اور مرجھا جاتی ہے ،گلاب میں چمک آتی ہے اور ماند پڑجاتی ہے ، چمیلی عطر بیزی شروع کرتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے ،کنول کھلتا ہے اور کمھلا جاتا ہے ،نرگس شہلا مسکراتی ہے اور خاموش ہوجاتی ہے، چمپا میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور پژمردگی چھا جاتی ہے ،بلبل شاخ گل پر چہکتی ہے اور اڑجاتی ہے ،نغمہ ہوا میں گونجتا ہے اور فنا ہوجاتا ہے ،چاندنی پھیلتی ہے اور سمٹ جاتی ہے ،سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوجاتا ہے ،دن رخصت ہوتا ہے اور رات کی تاریکی چھا جاتی ہے ،رات کافور ہوتی ہے اور دن نمودار ہوجاتا ہے ، صبح ہوتی ہے اور شام ہوجاتی ہے ،زندگی یوں ہی تمام ہو جاتی ہے۔ ؂
بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میں 
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اس قیاس کے ذریعے اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے بے شمار طریقے ہیں ،جن میں سے دو مشہور طریقے یہاں پر لکھے جا رہے ہیں :
(۱)دوران یا طرد وعکس 
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کوئی علت اور وجہ بیان کردیں ۔پھر وہ علت اور وجہ جہاں جہاں پائی جائے ، وہاں وہاں اپنے مدعیٰ کو ثابت کردیں ۔جیسے کہ بقا ئے ایما ن کی آپ نے یہ علت بیان کی کہ جس طرح قرآن کو ماننا ضروری ہے ،اسی طرح احادیث کو ماننا بھی ضروری ہے ؛کیوں کہ ایمان برقرار رکھنے کے لیے وحی الٰہی کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے ،خواہ وہ وحی متلو ہو یا وحی غیر متلو ۔قرآن وحی متلو ہے اور احادیث وحی غیر متلو ۔اب جو شخص بھی ان میں سے کسی کو ماننے سے انکا ر کردے گا وہ خارج از ایمان ہو جائے گا ۔
اس علت کی روشنی میں یہ حکم ہر اس جگہ لگا سکتے ہیں جہاں کوئی صرف قرآن کو مانتا ہے اور حدیث کو نہیں مانتا ، جیسا کہ اہل قرآن نامی فرقے کا نظریہ ہے ۔یا صرف احادیث کو قابل حجت مانتا ہے اور قرآن کے بارے میں خرد برد کا اعتقاد رکھتا ہے ،جیسا کہ اہل تشیع کہتے ہیں ۔ 
(۲)سِبر وتقسیم
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دعوے کوثابت کرنے کے لیے اس کی بہت ساری وجوہات نکالیں ،پھر ان میں سے جو صحیح وجہ ہو ،اس کی وضاحت کردیں ۔جیسے آپ کسی مدرسے کے سنگ بنیا د پر تقریر کرتے ہوئے کہیں کہ 
’آج کل جو گلی گلی اورکوچے کوچے میں مدارس قائم کیے جا رہے ہیں ،ان کے قیام کے بے شمار مقاصد ہو سکتے ہیں:ایک مقصد تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح ہم مہتمم بن جائیں گے اور ہمیں خود مختاری حاصل ہوجائے گی ۔ دوسرا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری قدرو منزلت میں اضافہ ہوجائے گا اور لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔تیسرا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری دنیاوی ومالی پوزیشن مضبوط اور مستحکم ہو جائے گی۔اگر چہ ان مقاصد کے لیے بھی مدرسے قائم کیے جارہے ہیں ؛لیکن یہ صحیح مقاصد نہیں ہیں۔صحیح مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے اسلام کی خدمت کا فریضہ انجام دیں گے اور شمع اسلام کی روشنی گھر گھر پہنچائیں گے ۔یہ مدرسہ بھی اسی مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ 
تقابل وموازنہ
تقابل وموازنہ سے بھی مدعیٰ کو مدلل ومستحکم کیا جاتا ہے ،کیوں کہ جب دو الگ الگ چیزوں کا باہم موازنہ و تقابل کیا جاتاہے ،تو دونوں کے مثبت ومنفی دونوں پہلو اجاگر ہوجاتے ہیں اور بات بالکل منقح ،واضح اور روشن ہوجاتی ہے،جیسے :
’’۔۔۔اللہ کے دربار میں ان دونوں میں زیادہ مقبول کون ہو سکتا ہے؟۔ اپنے دل میں خود سوچیے اور فیصلہ کیجیے کہ اللہ کے یہاں مقبولیت پیدا کرنے والی کون سی چیز ہو سکتی ہیں؟ پر تکلف لباس؟ لذیذ غذائیں؟ عمدہ کوٹھیاں؟ اعلیٰ سامان آرائش ؟ نمائشی چندے؟ رسمی جلسے؟ بناوٹی تقریریں اور تحریریں؟ یا اس کے برعکس زندگی کی سادگی؟ دل کی شکستگی؟ ایثار وخدمت گذاری؟ انکساری وخاکساری؟عاجزی وفروتنی؟ صبر وقناعت؟ زہد وعبادت؟ تقویٰ وطہارت؟ ‘۔ (مولاناعبدا لماجد دریا بادیؒ )
اثباتِ مدعیٰ کے مزید دیگر طریقے
اثبات مدعیٰ کے لیے بسااوقات خطیب کو اس مسئلے میں کسی فرقے کے خاص نظریے کی تردید کرنی پڑتی ہے ، اس کے کئی طریقے ہوتے ہیں :
(۱)کسی دلیل سے اس کے نظریے کی تردید کریں ۔
(۲)اس کے بعض پہلووں کو مان لیں اور بعض پر گرفت کر لیں ۔
(۳)س کے نظریے میں ہی کچھ ایسی خامیاں اجا گر کر دیں کہ وہ خود اس کی نگاہ میں باطل ہوجائے ۔
(۴)اس نظریے کے حامل افراد ۔جو آپ کے نظریے پر شک و شبہ قائم کیا ہوا ہے۔کے نظریے پر اسی طرح کے دوسرے شبہات وشکوک پیدا کردیں ،تاکہ ان کو خود اپنے نظریے میں تردد پیدا ہوجائے ۔
(۵)الزامی جواب دیں ،یعنی انھیں کے دلائل سے ان کی تردید کردیں۔
(۶)ان کے دلائل و شواہد کو مذاق کی نذر کردیں ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خطیب معقول دلیل پیش کرتا ہے ،لیکن کچھ نقاد سامعین اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس کی تردید کر بیٹھتے ہیں ۔ایسے موقعے پر جھنلانے یا پر پیچ منطقی دلائل دینے کے بجائے ایسی کھلی ہوئی اور واضح دلیل پیش کریں کہ اسے ہر کس و ناکس سمجھ سکے اور پھر اشکال کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ،جیسے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کے اعتراض پر دیا تھا ۔
یہاں یہ عرض کر دینا شاید بے محل نہ ہوگا کہ اثبات مدعیٰ کے حوالے سے اختصار کے باوجود بحث کافی لمبی ہوگئی؛ لیکن یہ وہ ناگزیر باتیں تھیں ،جن کا ایک خطیب کے لیے جاننا ضرور ی ہے ۔البتہ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ دلائل و شواہد عموماََانھیں مجلسوں میں بیان کرنا چاہیے ،جہاں صرف اہل علم اور پڑھے لکھے حضرات تشریف رکھتے ہوں ۔ ہرمحفل اور عوام کے اجتماع میں ان سے گریز ہی بہتر ہے ۔الا یہ کہ وہ ہر پر پیچ بحثوں اور فلسفیانہ دلیلوں کو عام فہم اور سادہ اندازمیں بیان کرنے کا فن جانتے ہوں اور مشکل سے مشکل مسئلے کو آسان بنانے کے گر سے اچھی طرح واقف ہو ۔ بعض خطیبوں کودیکھا گیا ہے کہ وہ عوامی جلسے میں بھی دقیق وپیچیدہ مسائل اور منطقی دلائل کی بحثیں چھیڑدیتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے لوگ میری علمی قابلیت کی شہادت دیں گے ،حالاں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اس کا سراسر الٹااثر ہوتا ہے ۔عوام مجلس سے اٹھ اٹھ کر بھاگنے لگتے ہیں ۔اس لیے تقریر مقتضائے حال کے مطابق ہی کرنی چاہیے ۔
مراجعت
یہ تقریر کا چوتھا جز ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریر کا آغاز جس منزل سے کیا گیا تھا اور تمہید کے حصے میں جو اجمالا بیان کیا گیا تھا ،پھر اسی منزل کی طرف لوٹ آیا جائے اورتمام اجزا میں ربط و تسلسل اور ہم آہنگی کی وضاحت کی جائے ۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ تقریر کے مختلف عناصر کی توضیح کے دوران اگر کسی کو بے ربطی کا احساس ہوا ہوتا ہے ،تواس سے وہ ختم ہوجاتا ہے ۔اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خلاصہ و نتیجہ بیان کرنے میںآسانی ہوجاتی ہے اورمراجعت و خلاصے کے قریبی مضامین سے تکرار کی وہ صورت پیدا ہوجاتی ہے ،جس کا فائدہ فان الذکریٰ تنفع المؤمنین میں بتلا یا گیا ہے ۔
خلاصہ و اختتام
تقریر کا آغاز جس طرح اہم ہوتا ہے ،اسی طرح اس کا اختتام بھی بہت اہم ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’ابتدائیہ کی طرح اختتامیہ بھی دل فریب ہو ،تو خطابت کی چھاپ گہری ہو جاتی ہے ۔ایک عمارت کا آغاز کتنا ہی پر شکوہ ہو ؛لیکن اختتام تصدیق نہ کرے ،شکوہ مؤثر نہیں ہوسکتا ؛بلکہ کوئی سا نقص ساری عمارت کا عیب ہوجاتا ہے ۔اختتامیہ خطابت کا توشہ ہے ،اس سے خطابت کی یکسانی کا احساس قائم رہتا اور اظہار میں کسی عنوان سے کوئی تشنگی محسوس نہیں ہوتی ۔اور یہی چیز خطابت میں حسن و کمال ہے ۔‘‘
(ص؍۴۸)
اس لیے تقریر ختم کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیا ل رکھنا چاہیے :
(۱)دوران تقریر اِدھر اُدھر کی مختلف باتیں بھی آجاتی ہیں ،اس لیے بسا اوقات سامعین مرکزی موضوع کو فراموش کرجاتے ہیں ۔اس لیے اختتام میں سرسری طور پر شروع سے آخر تک تمام باتوں کا خلاصہ بیان کر دینا چاہیے ،تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ مرکزی عنوان کیا تھا ۔
(۲)اچانک تقریر ختم نہیں کرنی چاہیے ،بلکہ کسی پر لطف جملے یا موقع ومحل کے اعتبار سے جو چیز مناسب ہو ، اس پر ختم کرنی چاہیے ۔جیسے کہ کسی شعر یا مزاحیہ فقرے یا پھر کسی نام ور خطیب کے ایسے انداز اور طریقۂ کار سے ،جو لوگوں کے مابین مشہور و متعارف ہو اوروہ دل چسپی سے لبریز ہو ۔ 
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں یہ عرض کردینا نامناسب نہ ہوگا کہ تقریر کے یہ پانچوں عناصر اس درجہ لازمی نہیں ہیں کہ اگر ان میں سے کسی کو برتنے میں کوئی جھول واقع ہوجائے یا کوئی عنصر چھوٹ جائے ،تو وہ تقریر کی حد سے ہی نکل جائے گی ؛بلکہ ان کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ ان کی رعایت کرنے سے تقریر کا حسن مزید نکھر جائے گا اور اس کی شیرینی،حلاوت ،چاشنی اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہو جائے گا ۔اس لیے خطیب کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ موقع ومحل کی مناسب سے ان عناصرمیں حذف واضافہ کرسکتا ہے ۔ 

نقائصِ خطابت

(قسط نمبر (7) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

نقائصِ خطابت

نقائص سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ چیزیں خطیب کے میں پائی جاتی ہیں ،توممکن ہے کہ ان کی وجہ سے اسے کسی رسوائی کا سامنا کرنا پڑ جائے یا کم از کم اس کے متعلق سامعین چہ می گوئیاں کرنے لگیں۔چوں کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادہا ۔اس لیے مثبت پہلو (خصائص خطابت )کے تذکرے کے بعد اس کے منفی پہلو(نقائص خطابت )کے حوالے سے چند سطریں لکھی جارہی ہیں ۔
اسٹیج سے گھبراہٹ
تقریر اور اسٹیج دونوں تقریر کی ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں ۔اس لیے جب کبھی اسٹیج کا تصور کیا جائے گا،تو اس کے ساتھ تقریر کا تصور بھی ناگزیر ہوگا ۔اسی طرح جب جب بھی تقریر کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی ،تو ضرور بالضرور اسٹیج کے نقوش بھی ذہن میں ابھریں گے۔اسٹیج ہر مقرر کے لیے ایک امتحان اور آزمائش کی حیثیت رکھتا ہے ، جس سے خوف وہراس پیدا ہونا اور عقل حواس کا متأثر و مرعوب ہونا ایک فطری بات ہے ۔اس کی دو وجہ ہوتی ہیں :ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام سے گھبراہٹ اور مجمع سے خوف محسوس کرتا ہے ۔اور دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسٹیج پر جلوہ افروز مقررین حضرات سے مرعوب و متأثر ہوکر اپنی جرأت و خود اعتمادی کھوبیٹھتا ہے اور ان حضرات کے سامنے اپنے آپ کو ہیچ سے ہیچ تر سمجھنے لگتا ہے ۔اپنے تئیں اس کی یہ فکراس کے ذہن ودماغ پر اس قدر حاوی ہوجاتی ہے کہ وہ حواس باختہ ہوجاتا ہے جس سے اس کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے ،اور
’’اس ڈر سے کبھی اس کی آواز کانپتی ،کبھی دانت بجتے ،کبھی لہجہ پھسل جاتا ہے ۔حتیٰ کہ الفاظ گلے کی پھانس ہوجاتے اور خیالات چکنا چور ہونے لگتے ہیں ۔اس مرحلے میں صوت اور سکوت میں آویزش ہوتی ہے۔اِدھرآواز پر سکتہ طاری ہوتا ،اُدھر تلفظ میں سانس اکھڑجاتا ہے ۔اسی خوف سے کئی اضحوکے پیدا ہوجاتے ہیں،مثلا:آواز بے ہنگم ہوجاتی ہے۔واحد متکلم کی جگہ جمع متکلم اور تذکیر کی جگہ تانیث آجاتی ہے ۔تمام اجزائے دماغ بکھر جاتے ہیں،پاؤں ڈگمگاتے ،بدن پر کپکپی طاری ہوتی اور چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔‘‘ (ص؍۵۱)
جہاں تک پہلی صورت سے نجات پانے کا تعلق ہے ،تو اس سلسلے میں بڑے بڑے مقرروں کا آزمایا ہو ایہ نسخہ استعمال کیا جاسکتا ہے کہ جب تقریر کے لیے کھڑا ہو ا جائے ،تو اس وقت ذہن میں یہ تصور بیٹھا لیا جائے کہ سامعین بالکل جاہل ہیں ۔اس خیال کو اس طور پر ذہن میں راسخ کر سکتے ہیں کہ انسانی فطرت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ معلومات کو حاصل کرنے کے لیے جد وجہد نہیں کیا کرتا ؛کیوں کہ یہ تحصیل حاصل اور فعل عبث ہے ۔اب اگر سامعین اس کو سننے کے لیے آئے ہیں ،تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ مجہولات کی بابت ہی معرفت حا صل کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں ۔اس موقعے پر نفس یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا ہے کہ جو باتیں ہم بیان کر رہے ہیں ،ممکن ہے کہ سامعین میں سے کوئی ضرور واقف ہو ۔لہذا اگر کہیں غلطی ہوجاتی ہے ،تو ہم ضرور بالضرور تنقید وتعریض کے نشانے بنائے جائیں گے۔لیکن نفس کے اس بودے اور لچر پوچ بہانے سے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے ۔اس لیے کہ اس وقت آپ اپنے نفس پر اس یقین کا دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ باتیں سامعین میں کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ۔کیوں کہ اگر انھیں معلوم ہوتیں ،تو وہ یہاں آتے ہی نہیں ۔اس لیے کہ جلسے کے اشتہار یا ایجنڈے سے موضوع کا اعلان کیا جا چکا ہے ،اس کے باوجود اگر وہ یہاں آئے ہیں ،تو یہ اس بات پر غماز ہے کہ وہ اس موضوع سے بالکل نا آشنا ہیں۔اس حیلے سے سامعین کا خوف دل سے نکال سکتے ہیں اور اپنے اندر خود اعتمادی و جرأت پیدا کرسکتے ہیں ۔
دوسری صورت سے پیدا ہونے والے خوف وہراس کو اس طور پر ختم کیا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے ذہن میں اس بات کو مضبوطی کے ساتھ بیٹھا لیں کہ یہ رونق افروزان بزم اوراسٹیج پر تشریف فرمامقررین سبھی کچھ جانتے ہیں اور ہمہ گیر معلومات رکھتے ہیں ؛لیکن یہ کوئی پھاڑکھا نے والے درندے تو ہیں نہیں،جن سے ہم خوف کھائیں ۔بلکہ یہ بھی تو ہماری طرح ایک انسان ہیں ۔خطا اور نسیا ن سے مرکب ہیں۔غلطیاں تو ان سے بھی سرزد ہوسکتی ہیں ۔جب مذکورہ بالا دونوں تصورات کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے ہوں گے ،تو خوف وگھبراہٹ ختم ہوتی چلی جائے گی ۔آپ کے اندر جرأت وخود اعتمادی کی کیفیت پیدا ہوجائے گی اور آپ بہت جلد ایک بے باک اور نڈر مقرر بن جائیں گے ۔پھر خواہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر کی طرح انسانوں کی تعداد کیوں نہ ہو؛آپ بالکل خوف نہیں کھائیں گے ۔بلکہ انھیں دیکھ کر آپ کے اندر اور حوصلہ پیدا ہوگا اورآپ کی ہمت کو مزید تقویت ملے گی۔
اگر ان دونوں تھیوریوں سے بھی آپ کا نفس قابو میں نہ آئے ،تو اس کا سب سے آخری ،زود اثر اور پکا علاج یہ ہے کہ آپ مشق خطابت کو معمولاتِ زندگی کا جز بنا لیجیے۔اور جس طرح کھانے کے بغیر آپ ایک دن بھی نہیں گذارتے، اسی طرح جس دن مشق نہ کرلیں ،اس دن کھانا پینا ؛سب چیز ممنوع کر لیجیے۔بہر کیف آپ اس بات کو پلو میں باندھ لیجیے کہ پابندی اور تسلسل کے ساتھ مشق آپ کے اندر پوشیدہ جھجھک کو ختم کردے گی ۔پھر آپ بڑے سے بڑے مجمع کے سامنے برملاوبرجستہ تقریر کرنے پر قادر ہوجائیں گے۔مشق خطابت کے حوالے سے ایک مستقل عنوان آگے آئے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
غیر مہذب انداز بیان
بعض لوگ جب تقریر کرنے بیٹھتے ہیں ،تو شروع ہی سے ایسا غیر مہذب اسلوب اور ناشائستہ انداز تکلم اختیار کرتے ہیں کہ سامعین ناگواری محسوس کرنے لگتے ہیں اور مقرر کے متعلق چہ می گوئیاں کرنے لگتے ہیں ۔مثلا اس طرح کے الفاظ و القاب سے خطاب کرتے ہیں ،جو عام بول چال میں بھی نامناسب اور غیر مہذب سمجھے جاتے ہیں۔جیسے کہ اس طر ح کے الفاظ:ائے بدمعاشو!سنبھل جاؤ۔سامعین تمھیں بار بار بتلا یا جاتا ہے ،اس کے باوجود تمھارے گدھے پن میں کوئی فرق نہیں آتا ۔حاضرین!جانوروں کی طرح شور مت مچاؤوغیرہ وغیرہ۔اسی طرح بعض لوگوں کا انداز تخاطب کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ سامعین یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ذرا بھی نہیں چونکتے کہ خطیب موصوف اپنی علامیت جھاڑ رہے ہیں اور ان کی بات بات سے غرور و تکبر کی بو آرہی ہے ۔مثلا اس طرح کا انداز کہ’جہاں تک میرا مطالعہ کہتا ہے ‘۔جہاں تک میری علمی تحقیق شہادت دیتی ہے ۔جو بات میں بیا ن کر رہاہوں ،وہ تمھیں کوئی نہیں بتا پائے گا وغیرہ۔اسی طرح کسی ایسی محفل میں جہاں بڑے بڑے مقرر موجود ہوتے ہیں ،اور وہاں کسی چھوٹے اور غیر معروف مقرر کو موقع مل جاتا ہے ،تو اپنی صلاحیتِ خطابت کے اظہار،سامعین پر اپنا رعب و دبدبہ اور اثر ورسوخ قائم کرنے کے لیے خواہ مخواہ بلا ضرورت چیخنے چلانے لگتے ہیں اور بڑے مقرروں پر حاوی ہونے کی فکر میں اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ وہ تقریری نزاکت کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے ،جس سے بیان کی فطری و ترکیبی ترتیب قائم نہیں رہتی اور تقریر بے اثر ہوجاتی ہے ۔یاد رکھیے کہ ایسی کوئی بھی حرکت جس سے سامعین کسی منفی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ،مقرر کے لیے مضر ہے اور اسے گریز کرنالازم ہے۔
گھسا پٹا یا خشک موضوع
کچھ خطیب ،خطیب و مقررکہلانے کے شوق میں چند تقریریں رٹ لیتے ہیں یا رٹتے تو نہیں ہیں ؛البتہ ان کا مطالعہ اور معلومات اتنی محدود ہوتی ہیں کہ ہر جلسے میں باربار انھیں محدود معلومات کو دھراتے رہتے ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور موضوع پر نہیں بولتے یا بول ہی نہیں پاتے ۔اسی طرح بعض خطیب ہر پروگرام میں ایسے موضوع کو چھیڑتے ہیں ،جومیڈیا اور مبلغین کی زبانی بے پناہ چرچامیں رہنے کی وجہ سے عوام و خواص میں فرسودہ ہوچکا ہوتا ہے۔اسی طرح کچھ مقررصرف انھیں مسائل و موضوع پر خطاب کرتے ہیں ،جن سے ان کو ذاتی دل چسپی اور میلان ہوتا ہے یا کوئی خاص موضوع ان کی شناخت بن چکا ہوتا ہے۔ایسے مقرر اس بات کو بالکل مد نظر نہیں رکھتے کہ مجلس کس نوعیت کی ہے ۔ یہاں پر ہمیں کس موضوع پر تقریر کرنی چاہیے ؟ان چیزوں سے سامعین غلط تأثرلیتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ مقررموصوف بھی انگلی کٹا کر ؛بلکہ رنگا کر شہیدان خطابت کی فہرست میں اپنے نام کا اندراج کرانا چاہتے ہیں یا خریداران یوسف میں سے ایک بے بضاعت بڑھیا کا ہم منصب ہونا چاہتے ہیں۔ 
خود ستائی
بعض مقرروں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ بیٹھتے ہی حمد وثنا کے بعد قبل اس کے کہ موضوع کی اہمیت و فضائل پر روشنی ڈالیں؛اپنے ہی فضائل ومناقب بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔جیسے کہ :میں ایسی ویسی چھوٹی موٹی محفل میں شرکت نہیں کرتا ،یہ تو میری کسر نفسی مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ میں اس جلسے میں حاضر ہوتا ۔۔۔۔۔۔میرا یہاں آنا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں تھا ،کیوں کہ میرے اسفار پہلے ہی سے اتنے بک تھے کہ یہاں آنے کی کوئی تاریخ ہی خالی نہ تھی۔لیکن بمشکل تمام دیگر تاریخوں کو کینسل کرکے یہاں حاضر ہوا ہوں ۔۔۔۔یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ میں آپ کے درمیان حاضرہو ں اور میرے بیان سننے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ،ورنہ میری تقریر سننے کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔اس طرح کی باتیں خطیب یہ سمجھ کر کرتا ہے کہ ان سے میری اہمیت بڑھے گی اور سامعین یہ خیال کریں گے کہ حضرت کیا ہی مقبول بارگاہ الٰہی اور محبوب خدا وندی ہیں کہ خلق خدا پروانہ وارحضرت کے آستانے کا چکر لگاتی ہے اور ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب و بے چین رہتی ہے۔حالاں کہ وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ سامعین جس طرح خطیب کے مطیع ومنقاد ہوتے ہیں ،اسی طرح وہ ناظرو نقاد بھی ہوتے ہیں۔ 
حد سے زیادہ عاجزی کا اظہار
کچھ لوگ تقریر کا آغاز ہی ایسے جملوں سے کرتے ہیں ،جن سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ خاکساری وفروتنی اور توضع و انکساری کی کہیں کوئی عملی مثال ہے ،تو وہ حضرت خطیب ہی ہیں ،مثلا :حضرات!میں کیاتقریر کروں ،مجھے تو بولنا ہی نہیں آتا ۔۔۔اس موضوع پر میری کوئی تیاری ہے اور نہ ہی کچھ مطالعہ ؛لیکن جب تقریر کا حکم دے دیا گیا ہے ، تو چند باتیں سن لیجیے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔موصوف کی ماورائے اسٹیج زندگی کی کیا کیفیت ہے ،وہ تو ایک الگ موضوع ہے ۔ ان کے ان الفاظ سے سیدھے سادے لوگ اور بھولی بھالی عوام تو یہی سمجھے گی کہ اگر کچھ آتاہی نہیں ،تو تقریر کرنے کیوں بیٹھ گئے۔اور اگر کچھ آتا ہے اوراسی کی بنیاد پر مدعو بھی کیا گیا ہے ،تو ان جملوں سے منفی مدحت طلبی کے علاوہ اور کیامقصد ہوسکتا ہے ۔شہنشاہ خطابت جناب شورش کاشمیری تحریر فرماتے ہیں کہ 
’’اس سلسلے میں ایک چیز زبان و بیان سے متعلق مقرر کی انا(Ego) ہے ۔اگر وہ معذرت کالہجہ اختیار کرتا ہے ،تو اس کا مطلب ہے کہ اپنے بارے میں تذبذب کا شکار ہے ۔اور جب مقرر تذبذب کا شکار ہو،تو وہ اپنے ساتھ انصاف نہیں کرتا ۔اس کامجمع سے کسی تحسین یا انصاف کا توقع رکھنا واہمہ ہے ۔ ایک اچھا مقرر اپنے بارے میں کبھی انکسار نہیں کرتا ۔کسی خیال سے کبھی معافی نہیں چاہتا ۔کسی عنوان سے کسر نفسی کا شکار نہیں ہوتا اور نہ اپنے جوہر کو منحنی الفاظ سے پسپا کرتا ہے ۔وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے ،پورے استغنا و استقامت کے لہجے میں جماؤ سے بولتا ہے ۔ اس قسم کے فقرے :’حضرات!میں زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ ۔۔۔۔چند کلمات سماعت فرمائیے۔ ۔۔۔۔مجھے اپنی کوتاہ فکری کا احساس ہے۔۔ ۔۔۔۔میری غلطیوں سے چشم پوشی کیجیے ‘کسی خوبی کا اظہار نہیں ،بلکہ کمزوری کا اقرار ہے۔آپ اس لیے تقریر نہ کریں کہ آپ بولنا چاہتے ہیں یا آپ کو تقریر کا شوق ہے ۔آپ اس لیے تقریر کریں کہ لوگ اس کو سننا چاہتے ہیں اور آپ کی تقریر کو مجمع کی ضرورت ہے۔‘‘(ص؍۵۶)
المختصر حد سے زیادہ عاجزی وکم مائیگی کے اظہار کا لب ولہجہ خطیب کے لیے ایک نقص ہے ا وراس سے گریز ہی بہتر اور کامیابی کی دلیل ہے ۔ 
تکیۂ کلام
کچھ خطیب مخصوص جملے بلا تکلف اور انتہائی بر جستگی کے ساتھ بار بار بولتے رہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ بر محل واقع ہوتے ہیں ؛بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہیں ،جس کی بنا پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ الفاظ ان کی زبان سے خود بخود نکلتے رہتے ہیں ۔جیسے کہ ہر دوچار جملوں کے بعداس طرح کے الفاظ دہرانا کہ سامعین! سمجھے کہ نہیں سمجھے۔۔۔ہاں تو میںیہ عرض کررہا تھا ۔۔۔جو ہے کہ جوہے کہ ۔۔۔میرے بھائیو،بزرگو،دوستو!۔۔۔آپ سن رہے ہیں کہ نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ان جملوں سے جہاں ایک طرف تقریر کی شیرینی و شگفتگی جاتی رہتی ہے اور ان کے بار بار ضرب تکلم سے گوش سماعت مجروح ہوجاتا ہے ،وہیں دوسری طرف وہ جملے ان کی شخصیت کے لیے شناخت اور اضحوکہ بن جاتے ہیں ۔اس لیے مشق اور ہر ممکن کوشش کے ذریعے اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ 
ایکٹنگ اور مخصوص عادی حرکات 
بعض خطیبوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ تقریر کرنے کے ساتھ ساتھ ایکٹنگ بھی کرتے رہتے ہیں اور جوش خطابت میں اتنا زیادہ اچھلنے کودنے لگتے ہیں کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ خدشہ ہونے لگتا ہے کہ پائے اسٹیج کہیں دھڑام نہ ہوجائیں ۔یہ نامناسب حرکتیں ہیں ؛کیوں کہ 
’’خطابت اداکاری نہیں اور نہ مقرر کسی ناٹک یا کھیل کا ادا کار ہے ۔اپنے چہرے مہرے پہ اداکاری ، جلال وجمال پیدا کرتا ہے ،تو ممکن ہے مجمع کے جزو کل میں کوئی عارضی لہر پیدا ہو ؛لیکن ایک ڈرامائی کیفیت ہوگی کہ بگٹٹ آتی اوربگٹٹ چلی جاتی ہے۔یہ کہنا شاید نفس مضمون کی رعایت سے کسی حد تک صحیح ہو کہ خطیب میں اداکاری کی فنی خوبو کا پر توضرور ہوتا ہے ؛لیکن یہ لازمہ نہیں ۔اداکار تماشا ہوتا ،ناظرین تماشائی،خطیب راہ نما ہوتا ،سامعین راہ رو ۔ فی الجملہ اداکا رکا فن مسرت اور خطیب کا فن عزت ہے۔ظاہر ہے کہ اداکار کا فن اس کا پیشہ اور خطیب کا فن اس کا فرض ہے اور فرض کسی تصنع سے ادا نہیں ہوتا۔‘‘ (ص؍۷۰)
کچھ مقرر ایکٹنگ تو نہیں کرتے ،البتہ کچھ ایسی حرکتوں کے وہ عادی ہوتے ہیں کہ ناچاہتے ہوئے بھی لاشعوری طور پر وقوع پزیر ہوتی رہتی ہیں،جن کا احساس خود مقرر کو تو نہیں ہوتا ،البتہ سامعین وناظرین ان کو دیکھ کر ضرور اچنبھے میں پڑجاتے ہیں اور زیر لب مسکراتے ہوئے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ۔جیسے :بہت زیادہ ہاتھ اڑانا ۔ مسلسل سر کو مخصوص انداز پر حرکت دینا ۔بار بار سینے کو آگے پیچھے کرنا ۔دائیں بائیں زیادہ مائل ہوتے رہنا وغیرہ۔ 
بے تحاشا چیخ و پکار کرنا 
کچھ خطیب شروع ہی سے بے تحاشا چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں اور الفاظ کا جو فطری مدو جزر ،زیرو بم اور اتارچڑھاؤ ہوتا ہے ،اس کا بالکل بھی خیال نہیں کرتے ۔بس وہ جوش میں گرجتے اور برستے چلے جاتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ سامعین محظوظ ہورہے ہیں اور ہمیں دادو تحسین سے نواز رہے ہیں ۔حالاں کہ ہوتا یہ ہے کہ بے تحاشا چیخنے سے آواز متأثر ہوجاتی ہے ،لہجے میں کرختگی اور خشکی پیدا ہوجاتی ہے ،جس سے سامعین ناگواری محسوس کرتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ مقرر ان باتوں سے بخوبی واقف ہو کہ تقریر کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟کہاں پر کیسا لہجہ اور کس طرح کا انداز اختیار کرنا چاہیے ؟کہاں پر اتار اور کہاں پر چڑھاو ہونا چاہیے ؟ان تمام باتوں کے حوالے سے مفصل گفتگو آگے آئے گی۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
نقالی و تقلید
بعض حضرات ان لب ولہجے میں تقریر کرنا اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں، جو کسی بڑے خطیب کے ہوتے ہیں اور وہ انداز ان کی شناخت بن چکا ہوتا ہے ،جیسے مولانا ابو الکلام آزادؔ ؒ کا لہجہ ،قاری حنیف ؒ کا انداز بیان اور ان کے علاوہ دیگر مشہور ومعروف خطیبوں کے اسلوب ۔اس حوالے سے جناب شورش کاشمیری کا مشورہ یہ ہے کہ 
’’اس سلسلے کی بنیادی چیز یہ ہے کہ کسی مقرر کی نقل نہ کریں ۔اس کی کاپی نہ بنیں اور نہ تتبع یاتصنع سے کام لیں ۔نہ لوگوں کو بنائیں اور نہ خود بنیں ۔ممکن ہے اس طرح آپ فائدہ اٹھا لیں ؛لیکن یہ تمام چیزیں شعلۂ مستعمل ہیں ۔آپ اس طرح اپنے لیے کوئی مقام پیدا نہیں کرسکتے اورنہ اشہب کے سوار ہوسکتے ہیں۔ کسی خطیب یا مقرر میں ذاتی انفرادیت نہ ہو،تو عوام کے ذہنوں پر اس کی چھاپ لگنا مشکل ہے‘‘۔ (ص؍۶۹و۷۰)
کسی کی نقالی اس لیے بھی بے سود ہے کہ مجمع میں مختلف و متنوع طبائع کے لوگ ہوتے ہیں ۔ہر ایک کی پسند و نا پسند الگ الگ ہوتی ہے ۔کسی کے نزدیک مولانا ابو الکلام کا لہجہ ہی تقریر ہے ،توکسی کے نزدیک کسی اور کا اسلوب۔ اور ظاہر ہے کہ ایک ہی تقریر میں سب کا لہجہ اختیا ر کر نے کوشش کرنا ایک لایعنی عمل ہے ۔علاوہ ازیں مجمع آپ کے نام پر اکٹھا ہو اہے ،جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو سننے کے لیے حاضر ہوئے ہیں نہ کہ کسی اور کو ۔ اس لیے دوسروں کا اسلوب اختیار کرنا اور دوسروں کے لب ولہجے میں بولنا بے فائدہ اور لاحاصل ہوگا ۔
سب بات بیان کرنے کی خواہش
بعض خطیبوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو تقریر کا موقع مل جاتا ہے ،تو وہ کرسیِ خطابت سے اس وقت تک نہیں اترنا نہیں چاہتے ،جب تک کہ سب باتیں نہ بیان کرلیں ،جس کی وجہ سے تقریر بے موضوع ،بد مزہ اور اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ سامعین اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور دل ہی دل میں یہ تمنا کرنے لگتے ہیں کہ جلدی سے وہ گھڑی آجائے ،جب کہ خطیب موصوف یہ جملہ کہیں کہ وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین ۔یاد رکھیے کہ وہی تقریر کامیاب ، زود اثر ،مؤثراور دل نشیں ہوتی ہے ،جو سامعین کی من پسند ہو ۔اس لیے ایک مقرر کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقریر سے پہلے ان باتوں پر غور کرلے کہ اس وقت طول طویل تقریر کار گر ہوگی یا مختصر بیان ہی زیادہ مفید ہوگا ۔ اس بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ:
’’بعض مقرروں میں شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ نقص ہوتا ہے کہ جس موضوع پر جلسہ ہورہا ہے ،وہ اس کے متعلق سبھی کچھ کہہ دینا چاہتے ہیں اور ساتھی مقرروں کے لیے شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ چھوڑنا نہیں چاہتے یا کچھ مقرراپنے سے بہتر مقرر کی موجودگی سے مرعوب ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں غلط ہیں ۔اپنے حدود میں رہیے ۔عوام کے لیے بار نہ بنیے ۔وہ دوسرے مقرروں کوبھی سننا چاہتے ہیں ۔جب ایک جلسے میں کئی مقرر ہوں،تومجمع فرد واحد کے لیے نہیں،سب کے لیے ہوتا ہے اور ان سب کے نام پر اکٹھا ہوا ہے ۔‘‘ (ص؍۵۳) 
اسی لیے جب کئی مقرر موجود ہوں ،تو ایجاز و اختصار ہی سے کام لینا چاہیے اور طول طویل تقریر سے عوام کے چہرے پر بے زاری کی شکن پیدا نہ ہونے دینا چاہیے ۔
خود نمائی اور بے جا تکلفات
صفائی ستھرائی اور طہارت و نظافت پر جتنا زور اسلام نے دیا ہے ،اتنا زور کسی اور مذہب نے نہیں دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے ۔ایک خطیب کی ذات اور زندگی صرف اسی کی ذات اور زندگی تک محدود نہیں رہتی ؛بلکہ اس کی ذات اور زندگی دونوں لوگوں کے لیے آئدیل لائف ہوتی ہیں ۔اس لیے کسی خطیب کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات پر کسی قسم کا کوئی دھبہ یا بٹہ لگا لے اور اپنی زندگی کو کسی بھی اعتبار سے مجروح اور قابل لعن طعن بنالے ۔اعلیٰ سے اعلیٰ ڈرائی کلینر میں دھلے ہوئے کپڑے ،پریس دار ،کرچ دار ،کلف دار اور حسب ذوق نیل دار کرتے ،قیمتی سے قیمتی جوڑے ،بیوٹیڈ چہرے ،سلیقہ مند بال،حسن ذوق اور صفائی ستھرائی کے اعلیٰ معیار ہیں ؛لیکن ان چیزوں میں حد سے زیادہ غلو ،مثلاگل و بوٹے سے مزین زری کاری کرتے ،چمکیلے ،بھڑکیلے اور رنگیلے عبا و قبا ،نمایاں کرم پوتے چہرے ،فیشن کٹ بال اور ایسا اسمارٹ بننے کی کوشش کہ اسٹیج پر آتے ہی سب لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے ؛ایک خطیب کو بالکل زیب نہیں دیتا ۔
بعض حضرات اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی پُر وقار اور نستعلیق دکھانے کے لیے لباس کی طرح سفر وغیرہ کے حوالے سے بھی بہت زیادہ نزاکت کا اظہار کرتے ہیں ۔چنانچہ بعضوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب تک ان کے لیے اے۔سی کے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ بک نہیں کرالیا جاتا ہے ،اس وقت تک وہ سفر کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ۔اسی طرح جب تک ان کے من پسند کھانے پینے کے بارے میں انھیں مکمل طور پر مطمئن نہیں کر دیا جاتا ہے ،اس وقت تک وہ اپنی تاریخ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔بعض حضرات کی حیثیت تو اس اہتمام کی متقاضی ہوتی ہے ،جن کے لیے ایک حدتک ان باتوں کو روا رکھا جاسکتا ہے ۔لیکن بعضے اس لیے ایسا کرتے ہیں تاکہ منتظمین ان کے اعلیٰ ذوق کے حامل ، انتہائی نازک مزاج اور بہت زیادہ پر وقار ہونے کی شہادت دے سکیں ۔حالاں کہ ان چیزوں کی وجہ سے لوگ انھیں پروقار اور نستعلیق سمجھنے کے بجائے اجڈپن، اکھڑ مزاج اور تکلف پسند سمجھتے ہیں اور اپنے پروگرام میں بلانے سے ہچکچاتے ہیں ۔
فیس بازی
نبی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق تبلیغ و خطابت واجب اور فرض ہے ۔فرض نہ تو کسی طرح کے ڈھونگ سے ادا ہوتا ہے اور نہ ہی اجرت و معاوضہ لے کر یہ کام کرنے سے ۔لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کچھ مقرروں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی ان کے پاس دین کی باتیں سننے کی غرض سے پروگرام کی تاریخ لینے آتا ہے ،تو اول وہلہ میں اپنی متعینہ فیس کا مطالبہ کر ڈالتے ہیں اور اس کے فیصلے کے بغیر آگے کچھ بات ہی کرنا نہیں چاہتے۔وہ اس بات کابھی خیال نہیں رکھتے کہ اس لین دین کی گفتگو سے میرے متعلق کیا تأثر لیا جائے گا۔
اگر چہ یہاں پر معاملہ ایسا ہے کہ ’’کچھ سونا کھوٹا ،کچھ سنار کھوٹا ‘‘کیوں کہ ایسا معاملہ بھی سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے پروگرام میں مدعو کرلیتے ہیں اور سفر کے اخراجا ت تک نہیں دیتے ۔ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں مجبورا زبان تو کھولنی ہی پڑے گی ؛لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ داعی کی انتظامی پوزیشن کی پرواہ کیے بغیر جب تک دس بیس ہزار کی خطیر رقم پہلے ہی طے نہ ہوجائے اور زر ضمانت کے طور کچھ جمع نہ کردے ،تب تک آگے کچھ بات ہی نہ کرے ۔یہ جہاں اخلاقی غیرت کے منافی ہیں ،وہیں دینی حمیت بھی اس کی ابا کرتی ہے ۔ یہ نہ صحابۂ کرام کا اسوہ تھا اور نہ ہی اکابر و اسلاف کا وطیرہ ؛بلکہ یہ عصر حاضر کی زر طلبی کی ہوس اور مادیت پرستی کا جنوں ہے، جو ایک مقررکو مجبوری کے نام پر زیور اخلاص سے معطل کر دیتی ہے ۔

خصائصِ خطابت یارازہائے مقبولیت

(قسط نمبر (6) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)


یوں تو تقریر کے اسٹیج پر سینکڑوں مقرر آتے ہیں اوراپنی اپنی باتیں بیان کر کے چلے جاتے ہیں ۔ان میں کچھ خطیب ایسے ہو تے ہیں، جن کی کہی ہوئی باتوں کا سامعین پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔وہ ایک کان سے سن لیتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اور پوری تقریر صدا بہ صحرا ہوجاتی ہے۔لیکن بعض ایسے مقرر بھی ہوتے ہیں، جن کا نام آتے ہی سامعین میں کہرام مچ جاتا ہے ،سونے والوں کی نیندیں کافور ہوجاتی ہیں اور ان کی باتوں کو سننے لیے ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں ؛بلکہ دیر گئے رات تک جلسے میں اسی لیے بیٹھے رہتے ہیں کہ ان کو سنے بغیر نہیں جانا ہے۔آخر وہ کیا راز ہیں ،جن کی بناپراول الذکر خطیبوں کی تقریریں صدا بہ صحرا ہوجاتی ہیں ،جب کہ آخر الذکر مقرروں کے ہرہر قول موتی کے تول کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ؟وہ راز یہ ہیں کہ ثانی الذکر مقرروں میں کچھ ایسی خصوصیات وامتیازات پائی جاتی ہیں ،جن سے اول الذکر حضرات عاری اور خالی ہوتے ہیں ۔وہ خصوصیات و اوصاف درجِ ذیل ہیں ۔
صاف وشفاف سیرت
حسنِ سیرت ایک مقرر کی مقبولیت کی اولین شرط اور اس کی پسندیدگی کا بنیادی گر ہے ۔اس صفت کے بغیر ۔خواہ مقرر فن تقریر میں کتنی ہی مہارت کا حامل ہو اور خواہ کتنے ہی جوش وہنگامے بپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔نہ تو اس کی باتیں اثر انگیز ہوسکتی ہیں اور نہ ہی سامعین دل جمعی کے ساتھ سن سکتے ہیں ؛بلکہ ایک داغ دار سیرت مقرر کا نام اناؤنس ہوتے ہی سامعین میں چہ می گوئیاں ہونے لگتی ہیں۔ بعض سامعین تو سخت و سست کہے بغیر نہیں چھوڑتے اور مجلس سے اٹھ کر بھی چلے جاتے ہیں ۔ایک خطیب کے لیے حسن سیرت جتنی اہمیت رکھتا ہے ،اتنی اہمیت کوئی اور چیز نہیں رکھتی ۔ اس حوالے سے شورش کاشمیری رقم طراز ہیں کہ :
’’خطابت کی اصل بنیاد خطیب کی سیرت ہے ۔اگر ایک خطیب کے دامن پر کوئی دھبہ ہے یا وہ اخلاق کی ابدی قدروں میں سے کسی قدر سے محروم ہے ،تو وہ عزت مند نہیں ہوسکتا اور ایک خطیب کے لیے عزت مندی ہی قبول عامہ کی اساس ہے ۔اس اعتبار سے خطابت ایک خاردار وادی ہے ،جس سے صحت مند قدم ہی گزرسکتے ہیں۔اکثر شاعر لہو ولعب کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ہمارے زمانے میں دو چار شاعروں کو چھوڑ کر اکثر شاعروں نے ناؤنوش کی زندگی بسر کی اور بعض نے اس پر فخر کیا ؛لیکن عوام نے کبھی ان سے تعرض نہیں کیا۔اسی طرح مصور و موسیقار اور ادیب انھیں راستوں کے مسافر رہے ہیں ۔انھوں نے معصیت کے لمحوں کو اپنی کلاہِ افتخار میں ٹانکا ہے ؛ لیکن خطیب یا مقرر کسی معصیت یا گناہ کا تصور بھی کریں اور ان کا ذائقہ چکھنا چاہیں اور عوام کے علم میں ہو ،تو وہ عوام میں ایک آدھ پھیر ڈال سکتے ہیں؛لیکن عوام میں ٹھہر نہیں سکتے ۔ان کی شخصیت کا ڈھلنا خارج از امکان اور قبول عامہ کا حصول نا ممکن ہے ۔خطیب کی سیرت اس کی دولت اور اس کا کیریکٹر اس کا خزانہ ہے ۔جو خطیب ومقرر اس سے محروم ہوئے،وہ دماغوں اور دلوں پر کوئی نقش نہیں جما سکے ۔ان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ اس خوش آواز گداگر کی ہوتی ہے ،جو مکانوں کی چوکھٹ پر صدا دیتا اور نا کام لوٹتا ہے یاپھروہ اس ڈھولک کی تھاپ ہے ،جو بالا خانوں پر بجتی ہے اور رات کی چمک دمک گذرنے بعد تماشائی کے لیے منتشر و مضمحل صبح لے کر طلوع ہوتی ہے۔خطابت بدن ہے ، تو سیرت اس کی روح ہے ۔خوب صورت روح ہی تندرست بدن قائم رکھتی ہے ۔کسی فن میں سیرت اس شدت سے معیوب نہیں ہو تی ،جس شدت سے خطابت میں اس کی پرکھ ہوتی ہے اورایک خطیب کے اعمال پر عوام کی نگاہ رہتی ہے ۔اگر کوئی خطیب یا مقرر پبلک لائف بسر کرنا چاہتا ہے ،تو لازم ہے کہ بے داغ کیریکٹر رکھتا ہو اور اس کی سیرت لہو ولعب کے چھینٹوں سے محفوظ۔ ایک خطیب اپنے لیے یہ کلیہ قائم نہیں کر سکتا کہ عوام کی زندگی اور نجی زندگی میں فرق ہے ۔‘‘
(ص؍۳۱و۳۲)
اخلاص وللہیت
مقرر کی مقبولیت کا دوسرا راز ’’اخلاص وللہیت ‘‘ہے ۔گرچہ یہ ایک باطنی اور روحانی چیز ہے ،جس کا مشاہدہ نا ممکن ہے ،تاہم اس کا مقرر کی ذات سے ایک ایسا روحانی اورمعنوی تعلق ہے ،جو غائب از نظر ہونے کے باوجود لوگوں کو نظر آجاتی ہے اور سامعین تقریر سن کر ہی یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ حضرت خطیب کتنے سوزودرد اور خلوص وللہیت کے ساتھ تقریر فرمارہے ہیں ۔چنانچہ مشاہدہ شاہدعدل ہے کہ جو حضرات محض للہی جذبے کے ساتھ تقریر کرتے ہیں ،ہر چند کہ ان کی آواززیادہ شیریں نہیں ہوتی اور نہ ہی بہت زیادہ طلاقت وسلاست کے ساتھ بول پاتے ہیں ،پھر بھی ان کی باتیں دل ودماغ میں اترتی چلی جاتی ہیں اور ان پر عمل کرنے کا فطری جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے ۔اور جوحضرات اس وصف سے عاری ہوکر محض دکھاوے کے لیے صرف اس مقصد سے تقریر کرتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق یہ نظریہ قائم کریں کہ کیا خوب لچھے دار تقریر کرتے ہیں ۔ہر چند کہ وہ انتہائی جوش و ہنگامے کے ساتھ بولتے ہیں اور اپنے زور بیان سے مائک کا گلا پھاڑ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ،ان حضرات کی تقریروں سے وقتی طور پر توسامعین مرعوب ہوجاتے ہیں،اوروہ اس قدر تأثربھی لے لیتے ہیں کہ مقرر موصوف نے کیاخوب تقریر فرمائی۔لیکن تقریر کا جو اصل مقصد ہے ،وہ حاصل نہیں ہوتا۔کیوں کہ ان کی تقریر سے نہ تو سامعین کے اندر عمل کاجذبہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے؛بلکہ وہ ایک کا ن سے سنتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے کان سے نکال بھی دیتے ہیں ۔اور اس کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کے اندراخلاص کی خمیر نہیں ہوتی ۔اس لیے خطیب کو اپنی مقبولیت کا جوہر حاصل کرنے کے لیے اخلاص کا جوہر پیدا کرنا ضروری ہے ۔
’’۔۔۔اس کی اساس عشق و اخلاص پر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عوام مقرر کے اخلاص پر جان چھڑکتے ہیں ۔ اور اخلاص ایک بے میل سچائی کا نام ہے ۔خطابت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مقرر سے لے کر تقریر تک سب کچھ غیر مصنوعی ہو۔کسی پہلو سے کوئی چیزمصنوعی ہوگی ،تو حشو وزوائد ہوگی ۔کسی پبلک جلسے میں عوام تماشہ دیکھنے کے لیے نہیں ؛بلکہ کچھ پانے کے لیے آتے ہیں اور ہمیشہ اخلاص سے مسخر ہوتے ہیں ‘‘۔ (ص؍۷۱)
شخصی وجاہت
کہا جاتا ہے کہ شخصیت کی چھاپ فن کی چھاپ سے زیادہ گہری ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ خواہ کسی قسم کا اسٹیج ہو ،لوگ سب سے پہلے فن کار کا نام دیکھتے ہیں ۔اور فن سے زیادہ فن کار کے قدر داں ہوتے ہیں ۔تقریر کے متعلق بھی لوگوں کی یہی عادت ہے ۔’’تقریر کیسی ہے ؟‘‘ کے بجائے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہیں کہ ’’کس کی تقریر ہے؟‘‘ اس لیے میدان خطابت میں منظورِ نظر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی شخصیت کو استوار کریں ، بنائیں اور سنواریں ۔
شخصی وجاہت سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کے ظاہری حسن و جمال قابل توجہ ہو ں اور پُر تکلف لباس و پوشاک جاذب نظر ؛بلکہ شخصیت سے مراد یہ ہے کہ آپ اخلاقِ حسنہ اور کردارِ عالیہ سے متصف ہوں ،آپ کا اخلاقی برتاؤ ، حسن معاملہ ،حسن سلوک ،حسن عمل اور گفتار وکردار ایسا مسحور کن ہو کہ جو کوئی آپ کو دیکھے ،آپ کو سنے ،آپ سے ملے ؛ وہ آپ کا ہوکر رہ جائے،اور آپ کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگے ۔
بے عیب و شیریں آواز
مقرر کی مقبولیت میں اس کی آواز کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے ۔چنانچہ مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ جس کی آواز شیریں اور بے عیب ہوتی ہے ،سامعین بصد رغبت و شوق اورانتہائی دل جمعی کے ساتھ اس کی تقریر کو سنتے ہیں ۔اور جس کی آواز صاف نہیں ہوتی ہے ،بولتے کچھ ہیں اور سامعین کی سمجھ میں کچھ اور آتا ہے ۔اسی طرح دورانِ خطابت کبھی کھنکھارنے لگتے ہیں ،کبھی گلا کھینچتے ہیں ،کبھی تھکتھکا تے ہیں ،تو ہر چند کہ وہ قیمتی سے قیمتی باتیں بیان کرتے ہیں؛ لیکن ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے سامعین اپنی توجہ ہٹالیتے ہیں ۔بلکہ وہ جب تک کرسیِ خطابت پر بیٹھے رہتے ہیں ، عوام ان گھڑیوں کو مصیبت کی گھڑیاں سمجھتے ہیں اوریہ تمنا کرتے رہتے ہیں کہ یہ صاحب اب جائیں ،تب جائیں ۔ اس لیے آپ ہمیشہ اپنا گلا اور اپنی آوازصاف وشفاف رکھیں ۔ 
دل کش اندازِبیان
مقبولیت کاایک گُر دل کش اور عمدہ انداز بیان بھی ہے ۔بعض لوگوں کا انداز بیان اس قدر شیریں اورعمدہ ہوتا ہے کہ بات ا گرچہ معمولی اور گھسی پٹی ہوتی ہے ،تاہم وہ اپنے حسن بیان سے غیر معمولی بنادیتے ہیں ۔اور مشکل سے مشکل مسئلے کو ا س قدر سہل اور آسان بنا دیتے ہیں کہ انھیں ہر کس وناکس سمجھتا چلاجا تا ہے ۔اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انھیں بیان کی جائیں ،تو سامعین ناگواری محسوس کرسکتے ہیں ؛لیکن ایک دل کش انداز بیان کا حامل مقرر اس سلیقے اور تہذیب کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ سامعین ذرابھی ناگواری محسوس نہیں کرتے ۔بلکہ اگر ان باتوں کا تعلق اصلاح وغیرہ سے ہوتا ہے ،تو انھیں اصلاح کی فکر ہونے لگتی ہے ۔مثال کے طور پر ایک بات یوں کہی جاسکتی ہے کہ’’ مجھے پانی پلائیے ،مہربانی ہوگی‘‘ ۔اسے اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ’’ میرے لیے پانی لاؤ‘‘۔اور اس طرح بھی بول سکتے ہیں کہ’’ ابے او، سنو! جلدی سے پانی لاؤ ‘‘۔یہ سب جملے ایک ہی مفہوم کوا دا کر رہے ہیں ۔لیکن ہر ایک جملے کا انداز بیان ایک دوسرے سے مختلف ہے ،جن میں سے پہلا جملہ سب سے زیادہ پُر کشش ہے ۔اگر کوئی اس انداز سے کہے گا ، تودوست تو دوست ؛دشمن بھی پانی لانے کو ترس جائے گا ؛لیکن اگر آخری جملے کے لہجے سے کہے گا ،تو دشمن تو رہا دشمن ؛ دوست بھی پانی لانے کو تیار نہیں ہوگا ۔اسی لیے اپنی شخصیت کو مسحو رکن اور قابل التفات بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بات کو اچھے نداز میں کہنے کا سلیقہ پیدا کریں ۔
فطری لب ولہجہ(انفرادیت)
فطری لب ولہجے سے مراد یہ ہے کہ آپ ایسی زبان میں تقریر کریں ،جو عوام الناس اور عام بول چال کی زبان ہو۔اور جو آپ کو کار خاأہ قدرت کی طرف سے ملی ہو ۔اسی طرح آپ کا انداز بیان بھی خود اپنا ہو ۔نہ تو زبان میں کسی کی نقل ہو اور نہ ہی انداز بیان میں کسی کی تقلید ۔یہی چیز ایک مقرر کی انفرادیت ہے۔
بعض لوگ اپنی وہبی اور فطر ی انداز سے پہلو تہی کرتے ہیں اور دوسروں کی زبان و بیان کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ،جیسے کہ کچھ لوگ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی اردوئے معلیٰ کو رٹ لیتے ہیں اور انھیں کے اندازبیان میں تقریر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حالاں کہ مولانا آزاد جس زبان میں تقریر کیا کرتے تھے ،وہ ان کی فطری اور روز مرہ کی زبان ہوتی تھی۔اس لیے وہ الفاظ جب ان کی زبان سے ادا ہوتے تھے ،تو اچھے لگتے تھے اور سامعین مبہوت ومرعوب ہوجاتے تھے ؛لیکن وہ الفاظ جب دوسروں کی زبان و بیان سے ادا ہوتے ہیں ،تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کوا بلبل کی بولی بولنے کی کوشش کر رہاہو۔کسی کی نقالی اور تقلید سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں :ایک خرابی تو یہ لازم آتی ہے کہ اس کا فطری لب ولہجہ اور ذاتی انفرادیت متأثر ہوتی ہے ،جس سے نہ توفطری انداز اپنی اصلی حالت پر برقرار رہ پاتا ہے اور نہ ہی اس کے مکسوبی اور نقلی انداز میں کوئی کشش پیدا ہوپاتی ہے ۔دوسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ اس کی تقریر میں اثر انگیزی باقی نہیں رہتی ۔وہ جو کچھ کہتا ہے ،وہ صدا بہ صحرا ہوجاتا ہے ۔اور تیسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ سامعین اس کے متعلق یہ نظریہ قائم کرلیتے ہیں کہ منجملہ جوکروں میں سے ایک جوکر یہ بھی ہے جو دوسرے کی نقالی کر نے کوشش کر رہا ہے ،پرنقالی میں نا کام نظر آرہا ہے ۔
ہم بڑے خطیبوں کو آئڈیل تو بنا سکتے ہیں ،لیکن ان کی ہو بہو نقل نہیں اتار سکتے۔کیوں کہ جس طرح لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے کسی ایک کی شکل وصورت دوسرے سے نہیں ملتی ،اسی طرح ہر خطیب کا لب ولہجہ بھی ایک دوسرے سے مختلف اور جدا ہوتاہے ،جس کی نقل نا ممکن ہے ۔بہ قول شیخ سعدی ؒ ع 
ہرگلے را رنگ و بو ئے دیگر است
’’جس طرح کسی شاعر یا ادیب کی جگہ لینا مشکل ہے ۔غالب غالب تھے ۔اقبال اقبال تھے۔اسی طرح کسی خطیب کی جگہ لینا ممکن نہیں ۔ابوالکلامؒ ،عطاء اللہ شاہ ؒ ،ظفر علی خاں ؒ اور ابوالا علیٰ ؒ سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔لیکن ان کی جگہ نہیں لے سکتے ؛کیوں کہ ہر شمشیر بکف سکندر اعظم نہیں اور نہ ہر صحرانورد کو مجنوں کہ سکتے ہیں ۔‘‘ (ص؍۹۶)
مترادفات کا استعمال
دورانِ تقریر ایک ہی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی تکرار اور بار بار بکثرت مترادف الفاظ کے استعمال کرنے سے بھی اظہار واسلوب میں رونق پیدا ہوتی ہے ،تقریر کا حسن نکھرتا ہے اور اس کی مقبولیت دوچند ہوجاتی ہے۔
’’ایک مقرر وخطیب کے لیے مترادفات (ہم معنی الفاظ )شعلہ نوائی کا ایندھن ہیں۔چند الفاظ ملاحظہ فرمائیے:اچھا ،برا ۔حسن وقبیح ۔خیرو شر۔زیست وخوب۔بہتر و بد تر۔یہ معنوی تفاوت کی باریکی کے استعمال میں انشا و بیان کا فاصلہ ہے ۔اور یہی فاصلہ ان کی معنویت کے یکساں خطوط کوایک دوسرے سے ممیز کرتا ہے ۔اور ایک خطیب وادیب ان کے معنوی استعمال ہی سے منفرد وممتاز ہوتا ہے ‘‘۔
(ص؍۶۳) 
موقع شناسی 
جوہر مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک مقررکو موقع شناس ہونا ضروری ہے ۔اس کے لیے باقاعدہ کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کرنا پڑتا ہے ؛بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے ،جو ایک حساس اور نباض خطیب جلسے کی نوعیت،گردو پیش کے حالات ،زمان ومکان کی خصوصیات ،عوام کی سماجی ومعاشی کیفیات ،عالمی سیاسی منظرنامے اور ان جیسی چیزوں سے خود بخود بھانپ لیتا ہے کہ اس وقت کیا موقع ہے ۔ایسے موقعوں پر کیسی تقریر مقبول ہوگی ؟ مجمع کتنی دیر میرا ساتھ دے سکتا ہے ؟کیسا اندازاور کس طرح کا اسلوب مناسب اور مؤثر ہوگا ۔مثلاََ ایک خطیب کو جلسۂ تعزیت میں مدعو کیا گیا ہے ،تو جلسے کی نوعیت اس بات کا متقاضی ہے کہ یہاں صرف وہی باتیں بیان کی جائیں گی،جو مرحوم کی حیات ،اس کی سوانح عمری ،خطیب کا اس کے ساتھ ذاتی تعلق وتأثر اور جامع تبصرے سے متعلق ہوں ۔اب اگر کوئی مقرر اس موقعے پر جشن بہاراں پر لیکچر دینے لگے اور موسم بہار کی پُر فریب مناظر کی منظر کشی کر نے لگے ،تو اس کے پسماند گان اور اہل مجلس خطیب کوکس مقبولیت سے نوازیں گے ،وہ بالکل عیاں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی مسئلہ میڈیا کے توسط سے خاص و عام کا موضوع بحث بنا ہوا ہو اور اس کاکوئی صحیح رخ واضح نہ ہو رہا ہو ،تو اس موضوع پر مکمل و مفصل روشنی ڈالنا ایک مقرر کے لیے وقت کا تقاضا ہوگا ۔یہ بھی موقع شناسی کے ضمن میں ہی آتا ہے کہ کسی پروگرام میں آپ کے حصے میں کونسا وقت آیا ہے ۔اگر شروع کا وقت ہے ،تو اجمال اور ابہام کے بجائے تفصیلی کلام کرنا زیادہ موزوں ہے ۔اوراگر آخر ی حصہ آیا ہے ،تو سامعین دیگر مقرروں کو سنتے سنتے چوں کہ بوجھل ہوچکے ہوتے ہیں ،ان پر غنودگی اور تھکان کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔وہ اونگھنے اور ٹوگھرنے لگتے ہیں ۔ سب اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اب دعا ہو ،تب دعا ہو ۔تو یہ چیزیں اس پر غماز ہیں کہ جتنی جلدی ہوسکے ،اتنی ہی جلدی تقریر ختم کردی جائے اور دعا کے ساتھ مجلس برخاست کر دی جائے ۔ ایسے موقعے پر تفصیلی کلام کرنا ۔خواہ وہ کتنا ہی اہم اور ضروری ہو۔بے سود اور لاحاصل ہوگا ۔اور سامعین اس سے اکتاہٹ بھی محسوس کریں گے۔اسی طرح یہ بھی موقع شناسی سے ہی متعلق ہے کہ آپ کے سامعین کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔اگر وہ عوام ہیں ،تو ان کے سامنے انتہائی سادہ ،سہل ،شیریں اور ان کی روز مرہ کی گفتگو میں خطاب کرنا ہوگا ۔ ان کے سامنے بوجھل الفاظ ، مشکل ترکیبیں ،پیچیدہ فقرے،گنجلک اسلوب اور دور دراز کی تشبیہات و استعارات استعمال کرنے سے گریز کرنا ہوگا ۔اسی طرح منطقی اسلوب ،فلسفیانہ مباحث اور عقائد و کلام کے مسائل چھیڑنے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
’’جب آپ عوام سے مخاطب ہیں ،تو آپ پر لازم ہے کہ بوجھل ،پیچیدہ ،نامانوس اوران گڑھ الفاظ سے پرہیز کریں ۔اور یہ چیزیں ذہن میں رکھیں کہ دور دراز کے استعارے ،پیچ وخم میں لتھری ہوئی تشبیہیں ،معمہ نما رمزیں،ملفوف کنائے اور محصور محاورے عوام کے لیے پہیلیاں ہیں ۔ان سے مجمع من حیث الکل متمتع نہیں ہوتا اور نہ ان کی معرفت عوام کے ذہنوں میں اترسکتے ہیں ۔‘‘(ص؍۷۳)
ایک مقرر کو عوام کی ذہنی استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے طور پر ضرور طے کر لینا چاہیے کہ وہ جس مجمع سے مخاطب ہے ،اس کو کتنی دیر لے کر ساتھ چل سکتا ہے اور جس اجتماع کا مقرر ہے ،اس کا وہی مقرر ہے یا دوسرے مقرربھی ہیں ۔اور ان کا مقام کیا ہے ۔اکثر مقرر مجمع سے زیادہ اپنے خیالات کو عزیز رکھتے ،عوام کی اکتاہٹ کو مطلقا محسوس نہیں کرتے ،داد کے روپ میں بے داد کا اندازہ نہیں کرپاتے اور کلمات ستائش کی منفی شکلوں کو بھانپ نہیں سکتے کہ ان پر تنقید وتعریض کے چھینٹیں اڑائے جارہے ہیں ،مقرر کا فرض ہے کہ مجمع کا تیور شناس ہو‘ ‘ (ص ؍۱ ۵و ۲ ۵ ) 
المختصر جیسا مجمع ہوگا ،تقریر بھی ویسی ہی کرنی ہوگی ۔
برجستہ گوئی
برجستہ گوئی سے مر اد یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر سابقہ اطلاع کے بغیر اچانک کوئی موضوع آپ کے لیے متعین کر دیا جائے ،تو آپ کسی جھجھک اور کسی خوف و ہراس کے بغیر اس طرح تسلی بخش بیان دے سکیں کہ عوام مبہوت ہوجائے اور اسٹیج پر جلوہ افروز مقررین اس بات کا اندازہ نہ لگا سکیں کہ آپ کا اس موضوع پر کوئی مطالعہ نہیں ہے ۔ اسی طرح آپ کی ہیئت جسمانی اور شکل و صورت سے نہ تو خوف وہراس نمایاں ہو اور نہ ہی آپ کی اعتمادی کیفیت سے بے اعتمادی کا اثر جھلکے ۔انداز خطابت ،لب ولہجہ ،اشارات و حرکات ؛غرض کسی بھی پہلو سے کم علمی اور عدم تیاری کی جھلک دکھائی نہ دے۔ بلکہ آپ اس طرح یقین اور اعتماد کے ساتھ بولیں کہ گویا اس موضوع پر آپ کا بہت گہرا مطالعہ ہے۔
نستعلیق اشارات
ترسیل خیالات کے لیے صرف زبان کا نہیں ؛بلکہ اشارات وحرکات کا بھی سہارا لیا جاتا ہے ۔اگر کوئی بات صرف زبانی طور پر کہہ دی جائے ،توگفتگو کا مطلب تو حاصل ہوجاتا ہے ۔لیکن اگر اس کے ساتھ اشارات بھی کیے جائیں ،تو بات اور اچھی طرح منقح ہوکر ذہن نشیں ہوجاتی ہے۔خطیب کی کامیابی کا بھی یہی راز ہے کہ سامعین اس کی باتوں کو اچھی طرح سمجھ لیں۔اس لیے خطیب کو موقع بہ موقع دوران تقریر اپنے ہاتھوں اور سرکو حرکت دینی چاہیے ۔بالکل بُت بن کر بیٹھے نہیں رہنا چاہیے ؛کیوں کہ 
’’اشارات:۔۔۔۔۔۔ان کی حیثیت خطابت کے ساتھ وہی ہے ،جو نطق کے ساتھ ہونٹوں کی،زبان کے ساتھ بیان کی اور پاؤں کے ساتھ چال کی ۔‘‘(ص؍۴۶)
بعض لوگ تقریر کے دوران اتنی حرکت کرتے ہیں کہ جیسے کوئی مقرر نہیں ؛بلکہ کوئی ایکٹر یا جوکر تماشا کر رہا ہے۔ ان حرکتوں کے باعث مقرر جہاں سامعین کے لیے محض ایک تماشا بن جاتا ہے ،وہیں اس کی شخصیت بھی متأثر ہوتی ہے ۔اس لیے نہ تو باکل جمود کا مجسمہ بن کر بیٹھے رہنا چاہیے اور نہ ہی سراپا حرکت کا نمونہ بن جاناچاہیے ۔ بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے بیچ کی یہ کیفیت اختیار کرنی چاہیے کہ جب اشارے کی ضرورت پڑے اور اس جگہ مقرر مناسب سمجھے ، وہاں پر اشارے کا سہارا لے ۔اور جہاں ضرورت محسوس نہ ،اس جگہ کسی قسم کی حرکت سے گریز کرے۔ 
موقع کے مناسب انداز خطاب 
خطابت کے لیے کوئی ایک انداز پائدار نہیں ہوتا ۔بعض حضرات کتاب پڑھنے کی طرح تسلسل کے ساتھ بولتے چلے جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خطاب کر رہے ہیں ۔حالاں کہ وہ خطاب نہیں ؛بلکہ مکالمت ہے ۔اسی طرح کچھ خطیب موضوع اور زبان و مکان کے تقاضے کو مد نظر نہیں رکھتے اور ایک طرز میں بیان کرتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے ۔صحیح یہ ہے کہ جیسا موضوع اور جس طرح کا ماحول ہو ،اسی کی مناسبت سے لب و لہجے میں نرمی گرمی ، آواز میں اتار چڑھاو،تکلم میں زیرو بم اور الفاظ میں مد وجزر پیدا کرنا چاہیے ۔اور یہی ایک مقرر کی کامیابی و کامرانی کا سربستہ راز ہے ۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’۔۔۔ہر موضوع کے لیے طریق اظہار مختلف ہوتا ہے ،حتیٰ کہ پبلک جلسوں میں بھی ہم موضوع کی رعایت سے طریق اظہار بدلتے ہیں۔مثلا فتح و شکست یا خوشی و غمی کے جلسوں میں اظہار مختلف ہوگا ۔نہ صرف لب و لہجے میں فرق ہوگا ؛بلکہ آوز کے اتار چڑھاو میں تفاوت ہوگا ۔ظاہر ہے کہ تعزیت کے جلسے میں سیرت کا لہجہ اختیار نہیں کرسکتے ۔اسی طرح عوام کے اجتماع اور خواص کی تقریب میں بھی اظہار کی نوعیت بدل جاتی ہے ‘‘۔ (ص؍۴۵)
مزید تفصیلات آگے آئے گی ۔ان شاء اللہ تعالیٰ،ھو الموفق والمعین۔

مقرر کے لیے درکار صلاحیتیں

(قسط نمبر (5) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)


جرأت وخود اعتمادی
ایک اچھا اور با کمال مقررکے لیے جو سب سے بنیا دی اور اولین شرط ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ جرأت مند ہو ، کم ہمت اور پست حوصلہ صفت نہ ہو۔اسی طرح پر اعتماد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر مکمل بھروسہ بھی رکھتا ہو۔ ایک خطیب کے اندر جب تک حد درجے کی جرأت مندی اور خود اعتمادی نہیں پائی جائے گی ،تب تک وہ کامیاب اور با کمال مقرر نہیں بن سکتا ۔جرأت وخود اعتمادی پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ایک ذرا سی کوشش،ہلکی سی توجہ ، تھوڑی سی مشق اور مطالعہ کی معمولی سی لگن سے یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے مزید گفتگو آگے آئے گی ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
باخبر ذہن
اسی طرح ایک با کمال خطیب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ با خبر ذہن کا مالک ہو ،حاضر ذہنی کی صلاحیت سے لیس ہو ،ایسا نہ ہو کہ اسٹیج پر آتے ہی اس پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا ہو ۔اس کا ذہن و دماغ ماؤف ہو جاتا ہو اور دورانِ تقریر اس کا حافظہ ساتھ چھوڑ دیتا ہو ؛کیوں کہ دورانِ تقریر اگر یہ کیفیتیں پیدا ہوجائیں گی ،تووہ مرصع اور مربوط تقریر نہیں کر سکے گا ۔ذہن کو حاضر جواب اور با خبر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کثرت سے مطالعہ کیا جائے ،اسٹیج پر آنے سے پہلے تقریر کی مکمل تیاری کر لی جائے اور مشقِ خطابت کے دوران غور و فکر کرنے کی بھی مشق کی جائے۔مشق خطابت کے عنوان سے مزید باتیں آگے آئیں گی ،ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مجمع کی نفسیات سے آگاہی
ایک خطیب کے اندر یہ صلاحیت بھی ہونی ضروری ہے کہ وہ تقریر کے اسٹیج پر بیٹھتے ہی یہ بھانپ سکے کہ پورا مجمع مجھ سے کس بات کو سننے کا خواہاں ہے ۔جلسے کی نوعیت اور حالاتِ حاضرہ کے اعتبار سے وہ کون سا موضوع اپنا یا جائے ، جس سے عوام قبضے میں آجائے ۔تقریر کا جو وقت ملا ہے وہ مجلس کے کس حصے کا ہے ،جس کی مناسبت سے کتنی دیر اور کس انداز سے تقریر کرنی چاہیے ؛غرض ایک مقرر کے لیے سامعین کی نفسیات سے مکمل طور پر واقف ہونا ضروری ہے ۔اور اس کے لیے علم النفسیات (سائکا لوجی )کا مطالعہ ،بڑے بڑے خطبا کی سماعت و مشاہدہ اور ان دونوں سے حاصل ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے ۔ 
وسیع المطالعہ
ایک اچھا مقرر کے لیے وسیع المطالعہ ہونابھی ضروری ہے؛کیوں کہ اگر وہ وسیع المطالعہ کا حامل نہ ہوگا،تووہ کوئی بھی بات مستحکم،ٹھوس اور پختگی کے ساتھ نہیں کہ سکے گا ۔بسا اوقات مقرر کوپہلے سے کسی اطلاع کے بغیر اچانک کوئی موضوع دے دیا جاتا ہے ،جس پر اس کو فی البدیہہ بولنا پڑتا ہے ۔ایسے موقعے پر اس کی عزت و آبرو اس کا وسیع المطالعہ ہونا اور ہمہ گیر معلومات ہی بچا سکتی ہیں۔ 
ذخیرۂ الفاظ
ایک کامیاب مقرر بننے کے لیے الفاظ کے ایک بڑے ذخیرے کا مالک ہونا بھی ضروری ہے ،کیوں کہ جب تک اس کے پاس الفاظ نہ ہوں گے اس وقت تک اس کے بیان میں ندرت ،بانکپن اور تنوع پیدا نہیں ہوگا ۔اس کے ذہن و دماغ میں خیالات ہوں گے ؛لیکن الفاظ ندارت کی وجہ سے وہ افہام و تفہیم پر قادر نہیں ہوگا ،اور نہ ہی وہ سامعین کی تسکین خاطر کر سکے گا ۔الفاظ کا ذخیرہ بڑھانے سے بڑھتا ہے ۔اس کے لیے شعر وادب کا مطالعہ کیجیے ۔ اور دوران مطالعہ آنے والے الفاظ ومعانی کو ذہن ودماغ میں بار بار دہرائیے۔اسی طرح جہاں کہیں نئے الفاظ نظر سے گذریں ،ان کو حافظے کے نہا خانے میں محفوظ کر لیجیے ۔اس طرح کرنے سے آپ کے پاس الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوجائے گا ۔اور ذخیرہ بڑھتا جائے گا ۔
سلاستِ لسانی
مقرر کے لازمی اوصاف میں سے ایک صفت طلاقتِ لسانی اور فصاحتِ بیانی بھی ہے۔ایک مقرر صحیح معنی میں اسی وقت مقرر کہلانے کا مستحق ہے ،جب کہ وہ اس وصف سے بھی متصف ہو ۔سلاست سے مراد یہ ہے کہ زبان میں طلاقت اور بیان میں روانی ہو ۔کسی جھجھک،اٹکاؤاور تتلاہٹ کے بغیر الفاظ اور جملوں کی ادائیگی اس طرح ہو کہ جو بات کہی جائے ،وہ دل کے ساتھ ساتھ دماغ میں بھی اتر تی چلی جائے،اور سامعین یہ محسوس کریں کہ وہ خطیب سے کچھ حاصل کر رہے ہیں اور اپنی تشنگی بجھا رہے ہیں ۔
’’سلاست :معنی ہیں :زبان کی روانی ۔ایک مربوط آہنگ میں کسی اٹکاؤ کے بغیر اس طرح بولنا کہ دل پر دستک پڑتی رہے اورکان محسوس کریں کہ اپنا دامن بھر رہے ہیں ۔فی الجملہ سلاست صبا کی موج ہے ،جو الفاظ کے غنچے چٹخاتی اور معانی کے پھول کھلاتی ہے ۔سلاست ہی میں نرم،آسان اور ہم وار خطابت کے جوہر ہیں ۔اسی طرح حاضر جوابی ،حاضر کلامی ،برجستہ گوئی اور دوٹوک لہجہ سلاست کا جھومر ہیں ‘‘۔
(فنِ خطابت ،ص؍۴۶)
جس مقررو خطیب میں سلاست و طلاقت اور اناقت و بداہت کا جوہرجس درجہ قوی ہوگا ،اسی درجہ اس کے اندر فصاحت و بلاغت ،بیان میں روانی ورعنائی او ر دل کشی پائی جائے گی ۔سلاست خطابت کا ایک ایسا عنصر ہے کہ اگر دوسرے عناصر میں کچھ کمی بھی ہے ،تو اس کمی کو اس سے چھپا یا جاسکتا ہے ۔لیکن اگر کوئی اسی صفت سے محروم ہے ، تو دوسرے عناصر بدرجۂ اتم پائے جانے کے باوجود پھیکے پڑسکتے ہیں ۔بسااوقات موقع ایسا آپڑتا ہے کہ مقرر کے پاس اس موضوع کے حوالے سے کوئی تیاری ،موادیا کچھ معلومات نہیں ہوتیں۔موقع یا مجمعے کے اصرار پر اس کو فی البدیہہ بولنا پڑجاتا ہے ۔ایسی صورتِ حال میں خطیب کی یہی صلاحیت ہوتی ہے ،جسے بروئے کا ر لاکر اپنی عزت بچاتاہے اور خطابت کی فضا پیدا کر کے سامعین کو مطمئن کردیتا ہے ۔
سلاست پیدا کرنے کے طریقے
سلاست کا ملکہ بعض کے اندر تو فطری ہوتا ہے ،جو وہ اپنی ماں کے پیٹ ہی سے لے کر آتا ہے۔اور بعض کے اندر تو فطری نہیں ہوتا ،البتہ وہ کد وکسب سے حاصل کر لیتا ہے ۔پھر وہ انتہائی شستگی اور روانگی کے ساتھ تقریر کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔اس لیے اگر کوئی فطری طور پر اس ملکہ سے عاری ہے ،تو اسے گھبرانے اور بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔وہ بھی مسلسل جدو جہد اور پیہم کوشش سے یہ ملکہ پیدا کرسکتا ہے اور با کمال مقرربن سکتا ہے ؛لیکن اس کے لیے درج ذیل باتوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا :
(۱)سلاست پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی آواز کو صاف و بے عیب رکھنے اور زبان کی لہروں پر قابو پانے کی کوشش کیجیے ؛کیوں کہ آواز کو خطابت کا لازمہ اور اس کی اساس قرار دی گئی ہے ،اسی لیے ایک مقرر کے اندر شیریں آواز اور صوتی حسن جس اعلیٰ درجے کا ہوگا ،اسی درجہ اس کی فنی مہارت اور چابک دستی بڑھے گی۔
(۲)کبھی چبا کر یا جھجھک کر نہ بولیے ۔بلکہ ہمیشہ ڈٹ کر اور جم کر بولیے ۔اور جو کچھ کہیے ،روانی کے ساتھ پُراعتماد لہجے میں کہیے ۔
(۳)ماہرینِ زبان کا کہنا ہے کہ روزمرہ کی گفتگو کے لیے کم از کم پانچ ہزار الفاظ اور انشاپردازی کے لیے کم از کم دس ہزار الفاظ درکا ر ہوتے ہیں ؛لیکن ایک مقرر کے لیے ان سے زیادہ الفاظ درکا ر ہوتے ہیں ؛کیوں کہ انشاپردازی خلوت میں انجام دیا جانے والا کام ہے ،جہاں پر بوقت ضرورت لغت کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ، لیکن تقریر کا تعلق جلوت اور مجمع عام سے ہے ،جہاں پر بر وقت لغت کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ۔اس لیے خزاأہ الفاظ بڑھاتے رہیے۔اس سے آپ کی قوتِ متخیلہ پروان چڑھے گی،افکارو مطالب کی نئی نئی راہیں کھلیں گی اور سلاست کی بھی جِلا ملے گی ۔
(۴)شعرا،ادبا اور خطبا کے کلام کو بکثرت پڑھیے بھی اور سنیے بھی ۔ان میں اگر کوئی اچھوتے فقرے ، پُرحکمت جملے ،شان دار تعبیرات ،زریں اقوال ،ضرب الامثال اور کہاوتیں نظر سے گذریں یا سننے کو ملیں ،تو انھیں خوب اچھی طرح یاد کر لیجیے اور اپنی تقریر میں استعمال کیجیے۔
(۵) تیزتیز بولنے کی عادت ڈالیے ۔جب بھی کسی سے ہم کلام ہویے ،تو کسی تکلف اور جھجھک کے بغیر رواں دواں کلام کیجیے ؛مگر تیز بولنے میں اس بات کا خاص دھیان رکھیے کہ الفاظ کٹ نہ جائیں اور اٹکاؤ یا تتلاہٹ کو راہ نہ مل سکیں ۔ورنہ فائدہ کے بجائے یہ طریقہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے ۔
(۶)مختلف نام ور مقرروں کی تقریروں کو بار بار سنیے ۔پھر ان کی نقالی اور تقلید کی بھر پور کوشش کیجیے ۔
(۷)بڑے بڑے خطبا کے تقریری مجموعے کو لے کر بیٹھ جائیے اور ان کو بآواز بلند تقریری انداز میں پڑھیے۔ ساتھ ہی الفاظ کے مد و جزر اور لہجے کے زیرو بم کو بھی مد نظر رکھیے ۔ 
(۸)اگر آپ کی زبان میں لکنت ہے اور بولتے بولتے تتلانے ،ہکلانے یا لڑکھڑانے لگتے ہیں ،تو ماہرین اطبا سے مشورہ کیجیے ۔علاوہ ازیں راقم السطور کے اس مجرب نسخے پر بھی ضرور عمل کیجیے کہ روزانہ پابندی کے ساتھ تازہ مسواک سے منھ دھوئیے اور بطور خاص زبان کی صفائی کیجیے ۔اپنی زبان کواندرونی حصے کی جانب اوپر کے تالو سے ملاکر موڑ لیجیے اور کچھ دیر دبائے رکھیے ۔یہ عمل گھڑی گھڑی کرتے رہیے ۔ان شاء اللہ ضرور بالضرور آپ کی لکنت دور ہوجائے گی اور آپ کی زبان بھی کھل جائے گی ۔
(۹)کسی آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر تقریر کی مشق کیجیے اور عکس میں اپنی زبان و دہن کی حرکت پر نگاہ رکھیے۔ غیرضروری اور لایعنی حرکتوں کو پکڑ کر ان سے بچنے کی کوشش کیجیے ۔اور عکسی تصویر کو مخاطب سمجھ کر نئے نئے انداز بیان اور مختلف طریقوں سے سمجھانے کی سعی کیجیے ۔
(۱۰)آوازقید کرنے والی مشینیں ،جیسے :ٹیپ ریکارڈ،موبائل اور ان جیسے دیگر آلات کے ذریعے اپنی تقریر ریکارڈ کر لیجیے اور پھر اسے بار بار سنیے۔ جہاں پر اصلاح کی ضرورت محسوس ہو یا کہیں پر انداز بدلنے کی ضرورت سمجھ میں آئے ، تو دوسری مرتبہ ان اصلاحات کے ساتھ تقریر کیجیے ۔اور مشق کا یہ طریقہ برابر جاری رکھیے ۔ان شاء اللہ ضرور ایک دن کامیابی قدم چومے گی۔ 

خطیب اور مطالعہ


(قسط نمبر (4) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)
محمد یاسین جہازی

کسی بھی علم و فن کو حاصل کرنے کے لیے مطالعہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جس طرح ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے انسان کسی قابل نہیں رہتااور ہر طرح سے دوسروں کے سہارے کا محتاج ہوجاتا ہے ،اسی طرح مطالعے کے بغیر کسی علم وفن کا حصول نا ممکن ہے ،کیوں کہ 
’’یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی علم وفن کا دار ومدارسرا سر مطالعے پر ہے۔اسی وجہ سے کہاگیا ہے کہ’’مطالعہ روح علم کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔(رہ نمائے اردو ادب،ص؍ ۱۱۲)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 
’’مطالعہ سے انسان کا ذہن نشو و نما پاتا اور اس کی فکر کو جلا دیتا ہے ،مطالعہ کے بغیر انسان ایک ریگ زار کی طرح ہے ،اس میں مشاہدہ کی لو ہے تو سراب کی طرح ہے ۔مطالعہ ہی سے انسان کی ذہنی گمراہیاں ختم ہوتی ہیں اور مطالعہ وہ طاقت ہے جس سے انسان کو تہذیب کی توانائی ملتی ہے ۔اگر مطالعہ نہ ہوتا تو انسان دھات اور پتھر کی زندگی بسر کرتا ،وہ محسوس ہی نہ کرسکتا کہ وہ کیا ہے اور اس کی دماغی سر گذشت کیا ہے؟ انسان نے مطالعے ہی کی بدولت ایک دوسرے سے آگاہی حاصل کی اور مطالعہ ہی کے فیوض ہیں کہ ہم مطالعہ کی بدولت یہاں تک پہنچے ہیں۔ مابعد الطبعیاتی پر کمندیں ڈالیں اور انسان و کائنات کے وجوہ معلوم کیے ہیں‘‘۔(فنِ خطابت،ص؍۱۱۳)
اسی لیے مطالعے کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: 
’’مطالعے کی اہمیت و افادیت ہمیشہ اور ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی نقطۂ نظر یا مدرسۂ فکر کو کوئی اختلاف نہیں ، بلکہ مطالعہ ہی سے نقطہ ہائے نظر اور مدارس فکر کی شناخت ہوتی ہے ۔ اور مطالعہ ہی کی مدد سے ان کے روشن یا تاریک پہلو سامنے آتے ہیں ۔سماج یا معاشرہ کی تعمیر و تطہیر میں مطالعہ کا بڑا اہم اور واضح رول ہوتا ہے ۔دنیا کی تمام مخلوقات میں انسان کے شرف و تفوق کی بنیاد علم پر ہے، اور علم صرف مطالعہ ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس صورت میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مطالعہ انسا نی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اور مطالعہ کے بغیر انسان اپنی اس منزل کو نہیں پا سکتا ، جس کے لیے خالق کائنات نے اس کی تخلیق فرمائی ہے ۔ بعض دانش وروں کے نزدیک جو اہمیت انسانی زندگی کے لیے پانی، ہوا اور غذا کی ہے ، وہی اہمیت مطالعے کی بھی ہے۔ اس لیے کہ پانی ،ہوا اور غذا سے جسم انسانی کو نشو و نما ملتی ہے، اور مطالعہ سے ذہن و فکر میں گیرائی و بالیدگی اور روح میں تازگی و روشنی پیدا ہوتی ہے ‘‘
(میرا مطالعہ،ص؍۷)
فنِ خطابت کا حصول بھی مطالعے کے بغیر ممکن نہیں ۔کیوں کہ 
’’ایک خطیب کے لیے مطالعہ اس کی غذا ہے ۔اس کا فرض ہے کہ مطالعہ اس کا معمول ہو اور وہ جس طرح غذا اور پانی کے بغیر دن گذار نہیں سکتا ،اسی طرح مطالعہ کے بغیر یہ محسوس کرے کہ اس کا دماغ آج بھوکا رہا ہے۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۴)
خطیب کو کیا کیا مطالعہ کرنا چاہیے 
یہ سوال کہ ایک خطیب و مقررکو کیا کیا مطالعہ کرنا چاہیے ؟اس کا سیدھا جواب تو یہی ہے کہ جس موضوع پر تقریر کرنی ہو ،اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔لیکن اس کو صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ،کیوں کہ ایک خطیب کو مختلف طبیعتوں کے حامل افراد سے واسطہ پڑتا ہے اور مختلف حالات و مضامین پر تقریر کرنی پڑتی پے،اس لیے مقرر کو شروع میں ہر چیز کا مطالعہ بالعموم اور درج ذیل چیزوں کا مطالعہ بالخصوص کرنا چاہیے ۔
ادبیات کا مطالعہ
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ تقریری زبان ادبی زبان سے تعلق رکھتی ہے،اس لیے تقریر میں مہارت و کمال پیداکرنے کے لیے زبان وادب کو سیکھنا ضروری ہے۔زبان وادب سیکھنے کے لیے جہاں اس کے قواعد و ضوابط اور اصول کو جاننا ضروری ہے ،وہیں ماہرین ادب کے کلام مطالعہ کرنا بھی لابدی ہے ،اسی طرح زبان و ادب کی دونوں صنفوں : نظم و نثر کا مطالعہ بحیثیت حصولِ ادب ضروری ہے ،ان میں بطور خاص اشعار کا مطالعہ نہایت ناگزیر ہے،کیوں کہ شعرا کے کلام کا مطالعہ کئی حیثیتوں سے اہمیت کا حامل ہے ،مثلاََ ان سے زبان کی اصلاح ہوتی ہے،اسلوب کا رنگ نکھرتا ہے ، الفاظ کے صحیح استعمال کا طریقہ معلوم ہوتا ہے،جامع انداز میں کلام کرنے کا ڈھنگ آتاہے ،بیان میں سلاست و روانی پیدا ہوتی ہے،قوت استدلال کو جلا ملتی ہے ،اورنتائج و عبر کا خلاصہ کرنے میں مدد ملتی ہے ،حکمت و دانائی کی باتیں اور اکابر و اسلاف کے تجربات سامنے آتے ہیں،جن سے ذہن و دماغ کو روشنی ملتی ہے ،اور عقل و فکر کے دریچے کھلتے ہیں ۔
’’شاعری (نظم ونثر)کا مطالعہ ہر مقرر و خطیب کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جیسا کہ صحت کے لیے صبح کی سیر یا رات کے بعد صبح کا اجالا ۔اسی غرض سے شاعری کی ہر صنف کا مطالعہ ضروری ہے ۔حمد و نعت ،غزل و نظم،قصیدہ مرثیہ ،مسدس و مخمس،ہجو و ہزل کے مطالعے ۔ذوق اور حظ سے کئی چیزیں حاصل ہوتی ہیں ،مثلاََتلفظ کی صحت ،الفاظ کا استعمال ،مطالب کا عمق،فقروں کی آرائش ،لہجے کی رونق،بیان کی رنگینی ،احساس کی گہرائی ،تخیل کا علو اور ذہنوں پر فتح مندی کا سلیقہ،ایک بر جستہ شعر یا چند بر جستہ شعر کئی دفعہ پوری تقریر پر غالب آجاتے ہیں اور مجمع کے ذہنوں پہ نقش ہوکر دلوں میں تلاطم پیدا کرتے ہیں‘‘۔
(فنِ خطابت،ص؍۴۰و۴۱)
مذہبیات واسلامیات کا مطالعہ
ایک مقرر وخطیب کے لیے تمام مذاہب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے ،کیوں کہ ہر انسان طبعی اور فطری طور پر کسی نہ کسی مذہب کا پیرو ہوتا ہے اور اس کی زندگی پر اس کے مذہب کا راست اثرپڑتاہے۔بایں وجہ مذہبیات کے مطالعے سے لوگوں کے عقائد ،ان کی نفسیات اور طبعی احوال کا جس قدر اندازہ ہوتا ہے ،وہ کسی اور ذرائع سے ممکن نہیں ۔مذاہبِ عالم میں بطور خاص اسلامیات کا مطالعہ تو انتہائی ناگزیر ہے،اس لیے کہ جملہ ادیان و ملل میں اسلام ہی ایک ایسا منفرد اور جامع مذہب ہے ،جس نے حیات انسانی کے تمام گوشوں سے بحث کی ہے اورزندگی میں درپیش چھوٹے بڑے تمام مسائل کا صحیح اور مکمل حل پیش کیا ہے ۔چنانچہ انسانی زندگی کا ہر پہلو۔خواہ اس کا تعلق معاشرت سے ہو یا معاشیات سے ، اخلاق سے ہو یا کردار سے ،سیاسیات سے ہویا عمرانیات سے غرض انسانی زندگی کے ہر قدم پر پیش آنے والے مسائل کو چھیڑا ہے اور ان کی گتھی کو سلجھایا ہے۔
سب سے ضروری اور بنیادی علم،غیر متغیر اور منظم آفاقی اقدار کا سسٹم دینے والا اور اس کے مطابق نظام تہذیب و تمدن کو عملااستوار کرکے دنیا کے سامنے حیرت ناک مظاہرہ کرنے والا اسلام ہے۔اس لیے مطالعہ کا سب سے پہلا دائرہ یہ ہے ۔اس دائرے میں بنیادی طور پر قرآن ا ور حدیث اور ان سے متعلق علوم (علوم قرآن ،علوم حدیث)پر جس حد تک ممکن ہو ،نگاہ ہونی چاہیے ۔سارا قرآن اور پورا دفترحدیث پڑھ ،سمجھ جانے کے بعد بھی اس خزانہٗ اساسی برائے علم کا (جتنا ممکن ہو)مطالعہ ضروری ہے
(میرا مطالعہ،ص؍۹۲)
جغرافیہ کا مطالعہ 
ایک مقرر وخطیب کے لیے جغرافیہ کا مطالعہ بھی ضروری ہے ،کیوں کہ تاریخی واقعات کے زمان و مکان کا صحیح اندازہ اسی علم سے ہوسکتا ہے۔اسی طرح ہر علاقے اور ہرخطے کی آب و ہوا مختلف ہوتی ہے ،ہر جگہ کے لوگ الگ الگ خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں،ان کے طبعی احوال میں بھی زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں؛اس لیے لوگوں کی مختلف المزاجیت کو پرکھنا ،ان کی نفسیات سے با خبر ہونا ،ممالک کے جائے وقوع ،وہاں کی آب و ہوا اور سیاسی ،سماجی و اقتصادی خصوصیات کو سمجھنااورتاریخی واقعات کا صحیح تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت پیدا کرنا اسی علم پر موقوف ہے۔ اس لیے اس علم پر بھی سرسری نگاہ ضروری ہے۔
تاریخ کا مطالعہ 
اگرچہ واقعہ یہ ہے کہ ایک خطیب کے لیے سب سے زیادہ ان موضوعات و مضامین کا مطالعہ ضروری ہے ، جو اس کے پیش نظر ہیں اور جن سے اسے باربار سابقہ پڑتا ہے؛لیکن تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دگر کسی بھی موضوع پر مطالعہ ایک مخصوص ماحول اور ایک خاص مضمون سے تعلق رکھتا ہے،جو ضروری نہیں ہے کہ ہر ماحول اور تمام موضوعات کے لیے بھی کار آمد ثابت ہو ؛لیکن تاریخ اپنے دامن میں بہت وسعت رکھتی ہے۔ اس کے مطالعے کا دائرہ اثر کسی خاص وقت ،کسی ایک جلسہ اور کسی ایک ہی ماحول تک محدود نہیں رہتا ،بلکہ اس کا دائرہ اثر بڑھتا رہتا ہے اور اس کی روشنی میں نقد و نظر کے سلسلے دراز ہی ہوتے رہتے ہیں ۔اس کی افادیت کسی جگہ ماند نہیں پڑتی۔
’’ایک مقرر و خطیب کے لیے تاریخ کا مطالعہ بہت سی وسعتیں پیدا کرتا ہے ۔تاریخ خطابت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے ۔قرآن نے تاریخ کو ایام اللہ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کا نام انسانی حافظہ ہے ۔ گویا تاریخ ان سب کی ،سب سے بڑی میراث ہے،اس کی بدولت ہمیں وہ سب کچھ ملتا ہے ،جو کائنات کی تکوین سے لے کر کائنات کے اس سفر تک کی سر گذشت ہے ۔اس کی معرفت ہم قوموں کے عروج و زوال سے آگاہ ہوتے،انسان کے تجربوں کا علم حاصل کرتے،جہد للبقا کے اسرار و رموز پہچانتے ،فلاسفہ کی وادیوں کو قطع کرتے ،مذاہب کے مرغزاروں میں گھومتے ،عبر و بصائر کی راہوں سے نکلتے اور سوانح و افکار کے چمنستانوں میں گل گشت کرتے ہیں ۔ تاریخ ہمیں ہر دور میں لے جاتی ہے ،وہ پہاڑوں پہ چڑھاتی ،سمندروں میں گھماتی اور صحراؤں میں پھراتی ہے۔ہم تاریخ کے مطالعے سے فکر و نظر کی بصیرت حا صل کرتے اور شعور و ادراک کے معدنوں سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ اس کے مطالعے ہی سے تجزیہ و تحلیل کی ذہنی قوت پیدا ہوتی ہے اور کئی مقفل دروازے کھلتے ہیں ۔غرض تاریخ سے ہم سخن ہائے گفتنی میں استدلال پیدا کرتے ہیں ،خیالات کا وزن بڑھاتے اورنظائر و شواہد اور حکایات و تمثیلات سے کلام میں رونق پیدا کرتے ہیں۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۵و۳۶)
جنرل مطالعہ
عصر حاضر کی نت نئی دریافت ،حیرت ناک ایجادات و انکشافات،سائنسی و ٹکنالوجی کے زبردست انقلابات ، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے بے پناہ اثر و رسوخ کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر ایک کمرے میں تبدیل ہوگئی ہے اور کرۂ ارضی کی طنابیں کھِنچ کرایک عالمی معاشرہ بن گئی ہیں،جس کی وجہ سے انسانی مسائل اس قدر متنوع اور ہمہ گیر ہوچکے ہیں کہ ایک خطیب کے لیے ہر لمحہ اور ہر آن ایک نیا مضمون پیدا ہوتا ہے ۔ہر صبح کا ہر اخبار اتنے احوال لاتے ہیں کہ غور و فکر کے زاویے اور اظہار و بیان کے دائرے وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔بایں وجہ ایک مقرر کے لیے جنرل مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے ۔
’’آج کی دنیا مضامین و موضوعات سے لدی پھدی ہے ،یہی سبب ہے کہ ایک ہی مضمون میں عمر کھپ جاتی ہے اور کوئی انسان تمام موضوعات پر حاوی نہیں ہوسکتا ۔ایک خطیب ومقرر کا بنیادی فرض ہے کہ وہ تمام موضوعات سے ایک حد تک بہرہ یاب ہو اور سیاسی وعمرانی زندگی کے اہم مضامین سے آشنا رہے ۔ہر نوعی معلومات میں افزائش کا تسلسل ہی اظہار و اسلوب میں رونق پیدا کرتا ہے۔‘‘
(فنِ خطابت،ص؍۳۵)
اخبار و رسائل کا مطالعہ
روزنامہ یا ہفت روزہ شائع ہونے والے اخبار و رسائل کا مطالعہ بھی ضروری ہے ،کیوں کہ سائنسی اور ٹکنالوجی کی ترقیوں نے زمان و مکان کے فاصلوں کو یوں سمٹ دیا ہے کہ انسان مختلف جغرافیائی و لسانی اور قومی و وطنی حدود میں تقسیم ہوکر بھی ذہنی وحدت کا شہری ہے ۔آج کا انسان عالمی معلومات سے اتنی ہی دل چسپی لے رہا ہے ،جتنی دل چسپی وہ اپنے علاقائی اور ملکی معلومات سے لیتا ہے۔اور ویسے بھی اخبار و رسائل انسانی زندگی کے لیے ایساجزو لاینفک بن گئے ہیں کہ ان سے کٹ کر زندگی گزارنا اس اندھے کی مانند جینا ہے ،جو سخت تاریک رات میں بے مینڈھ کے کنویں کے پاس سے گذر رہا ہو۔علاوہ ازیں حالات سے سمجھوتہ اور گردو پیش کی سیاسی و سماجی فضا کی صحیح عکاسی اخبار کے مطالعے کے بغیر ناممکن ہے۔
’’مطالعہ ایک فقید المثال گلستاں ہے،اس میں لاتعداد روشیں اور بہت تختے ہیں،ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے ،لیکن ایک خطیب کے لیے ہر روش پہ ٹہلنا ضروری ہے ،جن مضامین کو زندگی میں خصوصیت حاصل ہے اور جو اس کے شب و روز سے مربوط ہوچکے ہیں،ان کا مطالعہ مقرر کی اساسی ضرورت ہے۔‘‘ (فنِ خطابت، ص؍ ۳۶ )
تسلسل مطالعہ 
مذکورہ بالا تمام مطالعوں کا سفر ہمیشہ اور برابر جاری رکھنا ضروری ہے؛کیوں کہ 
’’مطالعہ کے لیے کوئی خاتمہ نہیں ۔اس میں تسلسل ہے ۔جس طرح صبح وشام طلوع غروب ہوتے ہیں اور روزوشب ازل سے ابد کی طرح رواں ہیں ،اسی طرح مطالعہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ہر زمانے میں اس کی نوعیتیں بدل جاتی ہیں ؛لیکن اس کا سفر ختم نہیں ہوتا ۔اس کے لالہ زار میں استیعاب کے ساتھ شگوفے کھلتے اور پھول بنتے ہیں ۔‘‘(ص؍۱۱۴)
جو لوگ شروع میں تو مطالعہ کرتے ہیں ؛لیکن بعد میں چل کر مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں اور اس میں تسلسل برقرار نہیں رکھتے ہیں ،تو اس کی خطابت کی شگفتگی اور چاشنی رفتہ رفتہ معدوم ہوتی چلی جاتی ہے ۔
’’جو مقرر یا خطیب مطالعہ سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ،خواہ اس خیال سے کہ انھیں مطالعہ کی ضرورت نہیں رہی اور وہ خطابت کی معراج پر ہیں ،تو ممکن ہے کچھ عرصہ مطالعاتی خلا کا احساس نہ ہو؛لیکن وہ مطالعہ سے پچھڑ کر خیالات میں ضعف کا شکار ہوتے اور ان کی خطابت کو لونی لگ جاتی ہے ۔‘‘(ص؍۳۴) 
سماعت ومشاہدہ 
چوں کہ تقریر وخطابت قلم کی زبان نہیں ،اس لیے اس فن کو نہ تو تمام تر خصائص کے ساتھ لکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی مذکورہ بالا تمام لازمی علوم کی تکمیل اور جملہ مطالعوں کی وادیوں کو قطع کرکے اسے مکمل طور پر حاصل کیاجاسکتا ہے ؛ کیوں کہ جو چیز سمع سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سن کر ہی صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔اس لیے بڑے خطیبوں کی تقریریں سننا،ان سے زبان ولہجے کے اتار چڑھا و کے راز معلوم کرنا ،جلسے جلوسوں میں حاضر ہو کر ان کے انداز تخاطب ، اظہار و بیان کے طریقے سیکھنا اور ان کی حرکات و سکنات پر نگا ہ رکھنا ضروری ہے ۔
’’چوں کہ خطابت قلم کی نہیں ،زبان کی چیز ہے ،اس لیے اس کا تذکرہ وموازنہ ایک قاری کے ذہن میں صحیح تصور پیدا کرنے سے قاصر ہے ۔جو چیز سمع کی ہے ،وہ سامع ہی کو صحیح تأثر دے سکتی ہے ۔‘‘
(ص؍۲۹)
’’جن نام ور ہستیوں نے خطابت میں نام پیدا کیا ،ان کا مطالعہ ایک نو آموز مقرر اور نووارد خطیب کو فنی کمال تک پہنچانے میں ضرور معاون ہوتا ہے ۔اس کے بغیر فنِ خطابت کی ترتیب ادھوری رہ جاتی ہے۔جب تک دوسرے خطیبوں کو دیکھیں نہیں کہ وہ کیوں کر بولتے ہیں اور دماغوں کو جیتنے کے لیے کس طرح الفاظ ومعانی میں آہنگ پیدا کرتے ہیں ۔خطابت محض کتابوں کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ اس موضوع پر کوئی سی نئی کتاب استاد ہوسکتی ہے ۔اس بارے میں جتنا مطالعہ ضروری ہے ،اتنا مشاہدہ لازم ہے ۔اور مشاہدہ دوسرے مقرروں اور خطیبوں کے سننے ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔اس مشاہدہ کے بعد ہی ہم تجربہ کرسکتے ہیں ۔خطابت کا معمل یہ ہے خطیبوں کو مجمع میں دیکھیں کہ وہ کیوں کر خطاب کرتے ہیں ۔اس مشاہداتی سبق کے بغیر ملکۂ خطابت کاحصول ناممکن ہے ۔‘‘ (ص؍۴۹)
’’اسی طرح نام ور مقرروں کو ضرور سنیے ۔ان کی تقریر سے کئی چیزیں حاصل ہوں گی:نئے الفاظ،تلفظ کی صحت،فقروں کی ترتیب،خیالات کی بوقلمونی،استدلال کے زاویے اور مطالب ومعانی کے خفی و جلی پہلو۔اس کے علاوہ اشارات وحرکات کا مدوجزر معلوم ہوگا اوراظہارواسلوب سے آشنائی ہوگی کہ وہ کون سی چیز ہے ،جو ایک خطیب کے لیے عوام میں تجسس اور مقصد کے لیے جذبہ پیدا کرتی ہے ۔‘‘
(ص؍۶۴) 
سماعت ومشاہدے کی صورتیں
سماعت ومشاہدہ دوطرح سے کیا جاسکتا ہے :ایک تو اس طرح سے کہ علاقہ یا ملک میں جہاں کہیں نام ور مقرروں کے پروگرام کا اعلان ہو ،وہاں حاضر ہونے کی کوشش کی جائے اور جلسے میں شرکت کرکے بہ راہ راست انھیں سنا جائے اور ان کا مشاہدہ کیا جائے۔اور دوم اس طرح کہ ان خطبا کی جو جو کیسٹیں اور سییڈیاں دستیاب ہوں،انھیں حاصل کر کے ان کی سماعت و مشاہدہ کیاجائے ۔اسی طرح بعض بعض پروگرام بر وقت ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں،ان کو بھی سننے اور دیکھنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے ،اس کے بعد ان کی نقالی اور تقلید کی کوشش کرنی چاہیے ۔ 

تقریر و خطابت


(قسط نمبر (3) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)


تقریر وخطابت،دونوں عربی لفظ ہیں۔اول الذکر باب تفعیل کا مصدر ہے ،جس کے لغوی معنی ہیں:کسی معاملے کی وضاحت و تحقیق کرنا ۔اور آخر الذکرباب نصر کا مصدر ہے ،اس کے معنی ہیں :تقریر کرنا ،لیکچر دینا ،وعظ کہنا،بیان دینا ، گفتگو کرنا ،کسی سے ہم کلام ہونا ۔لیکن اب یہ دونوں لفظ اردو میں مترادف کے طور پر ایک مخصوص اصطلاحی معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں ،جس کی مختلف حضرات نے اپنے اپنے الفاظ میں الگ الگ تعریفیں کی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
علامہ ابن رشد تلخیصِ خطابت میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’و فی اصطلاح الحکماء ھی صناعۃ تتکلف الاقناع الممکن فی کل مقولۃ من المقولات۔‘‘
یعنی حکما کی اصطلاح میں خطابت ایسی صناعت کا نام ہے، جس کے ذریعے کسی بھی موضوع پر ممکنہ حد تک تسلی بخش کلام کرنے کی ذمے داری نبھائی جاتی ہے۔ (ص؍۲)
شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’عوام سے اجتماعا ہم کلام ہو نے کانام ’خطابت‘ ہے،اصطلاحا اس فن کا نام ہے، جس کا مقصود و مطمح نظر عوام سے خطاب کرنا اور ان کے دل ودماغ میں اپنی غایت و منشا اتارنا ہے ‘‘۔
(فنِ خطابت ،ص؍۱۵)
صاحبِ’خطابت وتقریر‘ رقم طراز ہیں کہ 
اصطلاح میں خطابت اس فن کو کہتے ہیں ،جس سے تمام اصناف گفتگو میں اپنی بات دوسروں سے منوائی جاسکے۔‘‘(ص؍۲)
منطقیوں کی اصطلاح میں
’’خطابت وہ قیاس ہے جو مقبول و مظنون باتوں سے مرکب ہے۔‘‘
موضوع
جس طرح علم ادب کے موضوع کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس علم کا کو ئی موضوع نہیں ہے ،اسی طرح ارسطو کی رائے یہ ہے کہ فنِ خطابت کا بھی کوئی موضوع نہیں ہے ۔کیوں کہ کوئی بھی علم و فن ہو، کسی بھی طرح کا مضمون ہو جس نوعیت کے بھی مسائل ہوں ؛خطابت کا زور ان سب پر چلتا ہے ۔اس کے موضوع کے دائرے سے کائنات کی کوئی بھی چیز خارج نہیں ہے ،ہر موضوع پر تقریر کی جاسکتی ہے اور ہر عنوان کو خطابت کا رنگ دیا جاسکتا ہے۔
غرض و غایت 
جب اس فن کا موضوع ہی اپنے دامن میں اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ پوری کائنات اس میں سما سکتی ہے ،تو ظاہر ہے کہ اس کی غرض و غایت بھی اسی قدر متنوع اور مختلف ہوگی ،تاہم عمومیت کے ساتھ اتنی سی حد بندی ضرور کی جاسکتی ہے کہ خطیب اپنی جادو بیانی اور سحر انگیزی سے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے اور سامعین کو اپنی باتوں کے ماننے پر مجبور کردے۔
فنِ خطابت کے لیے لازمی علوم 
کچھ علوم و فنون ایسے ہیں،جو موقوف و مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں ،اور ان کو اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے،جب تک کہ موقوف علیہ اور ان کے لیے مُعدِات کی حیثیت رکھنے والے علوم وفنون کو حاصل نہ کرلیا جائے،مثلا علم تفسیر اور علم فقہ کو اس وقت تک حاصل کرنا ناممکن ہے جب تک کہ ان کے لیے علوم مُعدِات :اصول تفسیر اور اصول فقہ میں مہارت نہ پیدا کرلی جائے ۔ فنِ خطابت کا تعلق ان علوم و فنون سے ہے ،جو موقوف اور مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لیے فنِ خطابت میں مہارت تامہ اس وقت تک پیدا نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس کے لیے آلے اور مُعدِات کی حیثیت رکھنے والے علوم وفنون میں کچھ شد بد نہ پیدا کرلی جائے ۔فنِ خطابت کے علوم آلیہ درج ذیل ہیں:(۱)علم ادب(۲)علم النفس(۳)علم منطق وفلسفہ۔
علم ادب
تقریری زبان ادبی زبان سے تعلق رکھتی ہے ،کیوں کہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے ترتیب انداز میں سامعین کے سامنے کوئی بات کہہ لینا ،اس کا نام تقریر نہیں ہے ؛بلکہ یہ ایک عوامی گفتگو اور مکالمت ہے ۔تقریر تو اصل یہ ہے کہ بات کو مؤثر اور دل کش پیرائیہ بیان میں بیان کیا جائے ،طرز ادا دل آویز اور مسحور کن ہو ،موقع بموقع ضرب الامثال ،کہاوتوں اور حکایتوں سے اس میں خوبیاں پیدا کی گئی ہوں ۔اور یہ سب خصوصیات ایک ادبی زبان کی ہوا کرتی ہیں ۔اس لیے فنِ خطابت میں مہارت پیداکرنے کے لیے قواعد زبان ،علم بدیع ،علم بیان،علم لغت اور ان تمام علوم سے واقفیت ضروری ہے جن کے مجموعے پر علم ادب کا اطلاق ہوتا ہے اور جن سے زبان و بیان کی اصلاح اور اظہار میں توانائی و استواری پیدا ہوتی ہے۔
’’سب سے پہلی چیز جومقرر کے لیے خطابت کی روح ہے اور جس سے اس کا جسم نمو پاتا ہے ،وہ زبان ہے ۔ایک خطیب و مقررکے لیے زبان کا حصول اسی طرح ضروری ہے ،جس طرح زندگی کے لیے سانس لینا ۔ جب تک زبان کے نشیب و فراز سے مقرر و خطیب آگاہ نہ ہوں اور اس کے قواعد وضوابط ان کے ذہنوں میں نقش نہ ہوں ،وہ اظہار و اسلوب کی نزاکتوں اور آوازو تلفظ کی نزہتوں سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔ان کے لیے حصول زبان کے بغیر مطالعہ ،مشاہدہ اور استعداد ؛سب بیکار ہیں۔ایک مقرر کے لیے زبان کو بطور زبان جاننا ضروری ہے۔ پہلے زبان پھر موضوع۔جس طرح موضوع کے بغیر زبان محض صدا ہے ،اسی طرح زبان کے بغیر موضوع کوئی چیز نہیں ۔ دونوں میں روح وبدن کا رشتہ ہے،روح بدن چاہتی اور بدن روح چاہتا ہے۔‘‘ (فنِ خطابت ،ص؍۳۵)
علم النفس(psychalogy)
ایک باکمال خطیب بننے کے لیے انسان کی نفسیاتی کیفیات اور لاشعوری احوال سے واقف ہونا ضروری ہے، جسے اصطلاحا علم النفس اور نفسیات سے تعبیر کرتے ہیں ؛کیوں کہ ماہرینِ فن نے ایک مقرر کی کامیابی کے لیے جن رازوں کا انکشاف کیا ہے ،ان میں انسانی طبائع کے ذہنی محرکات اور ان کی بوقلمونیوں سے آگاہی بھی شامل ہیں۔چنانچہ اس حوالے سے شہسوار خطابت جناب شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ
’’ایک مقرر کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ عوام کی نفسیات کیا ہیں؟وہی مقرر کامیاب ہو سکتا ہے ، جو عوام کی نفسیات جانتا اور انسانی طبائع کی بو قلمونیوں سے واقف ہے ،ہر وہ انسان جو مجمع میں شریک ہے،آپ سے کچھ حاصل کرنے آیا ہے ،ہر شخص چاہتا ہے ،اس کی ضرورت ہے ،وہ محسوس کرتا ہے ،اس کی پسند و نا پسند ہے ،بعض چیزوں سے محبت کرتا ۔بعض سے نفرت کرتا ہے،اس کے کچھ خوف ہیں ،کچھ جرأتیں ہیں،اس کی عادت مستمرہ تقلید ہے ،وہ باہم دگر مختلف ہیں ،وہ سوچتا ہے ،اس کے کچھ اعتقدات و معتقدات ہیں،وہ تغیرات کا دل دادہ ہے ، وہ رد وقبول کا جوہر رکھتا ہے ،وہ سیادت وقیادت کا احترام کرتا ہے ،اس کے کچھ تصورات ہیں،اس کا میلان و رجحان ہے،اس کا شعور و لا شعور ہے،ہر انسان کا مطالعہ بہ حیثیت انسان ایک خطیب کا لازمہ ہے۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۹۷و۹۸)
ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں
ایک ایسا شخص کبھی کامیاب مقرر نہیں ہوسکتا ،اگر عوام کی نفسیات کے علم سے محروم ہے ‘‘۔
(ایضا،ص؍۳۵)
چنانچہ جو لوگ عوام کی نفسیات کا خیال نہیں رکھتے اور کرسیِ خطابت پر بیٹھ کر بولے چلے جاتے ہیں ،ان کی تقریر کبھی بھی مقبولیت کے کانوں سے نہیں سنی جاتی ،بلکہ ہمیشہ صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے ۔
’’بعض مقرر عوام کی نفسیات سے اجتناب کرتے اور اپنے ہی خیالات کے ہوکے رہتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے ،لہذا فضا کا احساس کیے بغیر کہے جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اسٹیج پر قابو پانے سے وہ عوام پر قابو نہیں پاسکتے۔۔۔۔اکثر مقرر مجمع سے زیادہ اپنے خیالات کوعزیز رکھتے،عوام کی اکتاہٹ کو مطلقا محسوس نہیں کرتے ۔داد کے روپ میں بے داد کا اندازہ نہیں کرپاتے اور کلماتِ ستائش کی منفی پہلووں کو بھانپ نہیں سکتے کہ ان پر تنقید و تعریض کے چھینٹے اڑائے جارہے ہیں۔۔۔ایک مقررکو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کی خواہش کے خلاف بولے جانا بہت بڑی غلطی ہے ۔اس بے طلب خطابت ہی کا نتیجہ زبردست قہقہے اور تفریحی تالیاں ہوتا ہے ‘‘۔
(فنِ خطابت ، ص؍۵۱و۵۲)
علم منطق وفلسفہ
خطابت کے اجزائے ترکیبی میں دعویٰ اور اثباتِ مدعیٰ بھی ہے۔د عوے کی وضاحت کے بعد ایک مقرر کے لیے جو سب سے مشکل مسئلہ در پیش ہوتا ہے ،وہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعوے کو کس طرح ثابت کرے اور اس کو مدلل و مبرہن کر نے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے ؟منطق وفلسفہ ایسے علوم ہیں ،جن کے مطالعے سے استدلال کے نئے نئے طریقے اجاگر ہوتے ہیں،واقعات سے نتائج و عبر اخذ کرنے کے گر ہاتھ آتے ہیں ،دعووں کو مدلل ومبرہن کرنے کے اصول معلوم ہوتے ہیں ،تحلیل و تجزیہ کی ذہنی قوت پروان چڑھتی ہے،فکر ونظر کی بصیرت کو جلا ملتی ہے اور شعور و ادراک کے مقفل دروازے کھلتے ہیں ۔اس لیے ایک خطیب کے لیے منطق وفلسفہ سے واقفیت رکھنا ضروری ہے۔
’’اس سلسلے میں ایک مقرر کے لیے منطق و فلسفہ کا جاننا ضروری ہے اور یہ خطیب کے منطقی وفلسفی ہو نے کا سوال نہیں ،مطلب ہے کہ ان مضامین سے آشنائی خطیب کے اسلوب و استدلال کی طاقت ہوتی اور اس سے خطابت میں حسن و اہتزاز پیدا ہوتا ہے ۔‘‘ (فنِ خطابت،ص؍۳۶)۔
’’منطق وفلسفہ کی واقفیت بھی نہایت کار آمد اور مناظرہ کی صورت میں نہایت ضروری ہے۔پس اگر زیادہ نہیں ،تو ایک سرسری نظر ان علوم پر بھی ہونی چاہیے۔‘‘ (ایضا،ص؍۹)
یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ یہ تینوں علوم کسی بھی حیثیت سے بالکل علاحدہ علاحدہ نصاب نہیں ہیں کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ کسی کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا جائے ؛ بلکہ یہ تمام علوم مضبوط ارادے ،قلبی شغف، کثرتِ مطالعہ اور ماہرینِ فن سے استفادہ و استفسار سے خود بخود حاصل ہوجاتے ہیں۔کیوں کہ جب کوئی شخص مقرر بننے کا عزمِ مصمم کرلیتا ہے،تو یہ تمام راہیں از خود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ اپنی محنت و لگن اور مشق وتمرین سے منزل مقصود کو پالیتا ہے۔