4 Apr 2018

نقائصِ خطابت

(قسط نمبر (7) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

نقائصِ خطابت

نقائص سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ چیزیں خطیب کے میں پائی جاتی ہیں ،توممکن ہے کہ ان کی وجہ سے اسے کسی رسوائی کا سامنا کرنا پڑ جائے یا کم از کم اس کے متعلق سامعین چہ می گوئیاں کرنے لگیں۔چوں کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادہا ۔اس لیے مثبت پہلو (خصائص خطابت )کے تذکرے کے بعد اس کے منفی پہلو(نقائص خطابت )کے حوالے سے چند سطریں لکھی جارہی ہیں ۔
اسٹیج سے گھبراہٹ
تقریر اور اسٹیج دونوں تقریر کی ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں ۔اس لیے جب کبھی اسٹیج کا تصور کیا جائے گا،تو اس کے ساتھ تقریر کا تصور بھی ناگزیر ہوگا ۔اسی طرح جب جب بھی تقریر کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی ،تو ضرور بالضرور اسٹیج کے نقوش بھی ذہن میں ابھریں گے۔اسٹیج ہر مقرر کے لیے ایک امتحان اور آزمائش کی حیثیت رکھتا ہے ، جس سے خوف وہراس پیدا ہونا اور عقل حواس کا متأثر و مرعوب ہونا ایک فطری بات ہے ۔اس کی دو وجہ ہوتی ہیں :ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام سے گھبراہٹ اور مجمع سے خوف محسوس کرتا ہے ۔اور دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسٹیج پر جلوہ افروز مقررین حضرات سے مرعوب و متأثر ہوکر اپنی جرأت و خود اعتمادی کھوبیٹھتا ہے اور ان حضرات کے سامنے اپنے آپ کو ہیچ سے ہیچ تر سمجھنے لگتا ہے ۔اپنے تئیں اس کی یہ فکراس کے ذہن ودماغ پر اس قدر حاوی ہوجاتی ہے کہ وہ حواس باختہ ہوجاتا ہے جس سے اس کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے ،اور
’’اس ڈر سے کبھی اس کی آواز کانپتی ،کبھی دانت بجتے ،کبھی لہجہ پھسل جاتا ہے ۔حتیٰ کہ الفاظ گلے کی پھانس ہوجاتے اور خیالات چکنا چور ہونے لگتے ہیں ۔اس مرحلے میں صوت اور سکوت میں آویزش ہوتی ہے۔اِدھرآواز پر سکتہ طاری ہوتا ،اُدھر تلفظ میں سانس اکھڑجاتا ہے ۔اسی خوف سے کئی اضحوکے پیدا ہوجاتے ہیں،مثلا:آواز بے ہنگم ہوجاتی ہے۔واحد متکلم کی جگہ جمع متکلم اور تذکیر کی جگہ تانیث آجاتی ہے ۔تمام اجزائے دماغ بکھر جاتے ہیں،پاؤں ڈگمگاتے ،بدن پر کپکپی طاری ہوتی اور چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔‘‘ (ص؍۵۱)
جہاں تک پہلی صورت سے نجات پانے کا تعلق ہے ،تو اس سلسلے میں بڑے بڑے مقرروں کا آزمایا ہو ایہ نسخہ استعمال کیا جاسکتا ہے کہ جب تقریر کے لیے کھڑا ہو ا جائے ،تو اس وقت ذہن میں یہ تصور بیٹھا لیا جائے کہ سامعین بالکل جاہل ہیں ۔اس خیال کو اس طور پر ذہن میں راسخ کر سکتے ہیں کہ انسانی فطرت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ معلومات کو حاصل کرنے کے لیے جد وجہد نہیں کیا کرتا ؛کیوں کہ یہ تحصیل حاصل اور فعل عبث ہے ۔اب اگر سامعین اس کو سننے کے لیے آئے ہیں ،تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ مجہولات کی بابت ہی معرفت حا صل کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں ۔اس موقعے پر نفس یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا ہے کہ جو باتیں ہم بیان کر رہے ہیں ،ممکن ہے کہ سامعین میں سے کوئی ضرور واقف ہو ۔لہذا اگر کہیں غلطی ہوجاتی ہے ،تو ہم ضرور بالضرور تنقید وتعریض کے نشانے بنائے جائیں گے۔لیکن نفس کے اس بودے اور لچر پوچ بہانے سے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے ۔اس لیے کہ اس وقت آپ اپنے نفس پر اس یقین کا دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ باتیں سامعین میں کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ۔کیوں کہ اگر انھیں معلوم ہوتیں ،تو وہ یہاں آتے ہی نہیں ۔اس لیے کہ جلسے کے اشتہار یا ایجنڈے سے موضوع کا اعلان کیا جا چکا ہے ،اس کے باوجود اگر وہ یہاں آئے ہیں ،تو یہ اس بات پر غماز ہے کہ وہ اس موضوع سے بالکل نا آشنا ہیں۔اس حیلے سے سامعین کا خوف دل سے نکال سکتے ہیں اور اپنے اندر خود اعتمادی و جرأت پیدا کرسکتے ہیں ۔
دوسری صورت سے پیدا ہونے والے خوف وہراس کو اس طور پر ختم کیا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے ذہن میں اس بات کو مضبوطی کے ساتھ بیٹھا لیں کہ یہ رونق افروزان بزم اوراسٹیج پر تشریف فرمامقررین سبھی کچھ جانتے ہیں اور ہمہ گیر معلومات رکھتے ہیں ؛لیکن یہ کوئی پھاڑکھا نے والے درندے تو ہیں نہیں،جن سے ہم خوف کھائیں ۔بلکہ یہ بھی تو ہماری طرح ایک انسان ہیں ۔خطا اور نسیا ن سے مرکب ہیں۔غلطیاں تو ان سے بھی سرزد ہوسکتی ہیں ۔جب مذکورہ بالا دونوں تصورات کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے ہوں گے ،تو خوف وگھبراہٹ ختم ہوتی چلی جائے گی ۔آپ کے اندر جرأت وخود اعتمادی کی کیفیت پیدا ہوجائے گی اور آپ بہت جلد ایک بے باک اور نڈر مقرر بن جائیں گے ۔پھر خواہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر کی طرح انسانوں کی تعداد کیوں نہ ہو؛آپ بالکل خوف نہیں کھائیں گے ۔بلکہ انھیں دیکھ کر آپ کے اندر اور حوصلہ پیدا ہوگا اورآپ کی ہمت کو مزید تقویت ملے گی۔
اگر ان دونوں تھیوریوں سے بھی آپ کا نفس قابو میں نہ آئے ،تو اس کا سب سے آخری ،زود اثر اور پکا علاج یہ ہے کہ آپ مشق خطابت کو معمولاتِ زندگی کا جز بنا لیجیے۔اور جس طرح کھانے کے بغیر آپ ایک دن بھی نہیں گذارتے، اسی طرح جس دن مشق نہ کرلیں ،اس دن کھانا پینا ؛سب چیز ممنوع کر لیجیے۔بہر کیف آپ اس بات کو پلو میں باندھ لیجیے کہ پابندی اور تسلسل کے ساتھ مشق آپ کے اندر پوشیدہ جھجھک کو ختم کردے گی ۔پھر آپ بڑے سے بڑے مجمع کے سامنے برملاوبرجستہ تقریر کرنے پر قادر ہوجائیں گے۔مشق خطابت کے حوالے سے ایک مستقل عنوان آگے آئے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
غیر مہذب انداز بیان
بعض لوگ جب تقریر کرنے بیٹھتے ہیں ،تو شروع ہی سے ایسا غیر مہذب اسلوب اور ناشائستہ انداز تکلم اختیار کرتے ہیں کہ سامعین ناگواری محسوس کرنے لگتے ہیں اور مقرر کے متعلق چہ می گوئیاں کرنے لگتے ہیں ۔مثلا اس طرح کے الفاظ و القاب سے خطاب کرتے ہیں ،جو عام بول چال میں بھی نامناسب اور غیر مہذب سمجھے جاتے ہیں۔جیسے کہ اس طر ح کے الفاظ:ائے بدمعاشو!سنبھل جاؤ۔سامعین تمھیں بار بار بتلا یا جاتا ہے ،اس کے باوجود تمھارے گدھے پن میں کوئی فرق نہیں آتا ۔حاضرین!جانوروں کی طرح شور مت مچاؤوغیرہ وغیرہ۔اسی طرح بعض لوگوں کا انداز تخاطب کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ سامعین یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ذرا بھی نہیں چونکتے کہ خطیب موصوف اپنی علامیت جھاڑ رہے ہیں اور ان کی بات بات سے غرور و تکبر کی بو آرہی ہے ۔مثلا اس طرح کا انداز کہ’جہاں تک میرا مطالعہ کہتا ہے ‘۔جہاں تک میری علمی تحقیق شہادت دیتی ہے ۔جو بات میں بیا ن کر رہاہوں ،وہ تمھیں کوئی نہیں بتا پائے گا وغیرہ۔اسی طرح کسی ایسی محفل میں جہاں بڑے بڑے مقرر موجود ہوتے ہیں ،اور وہاں کسی چھوٹے اور غیر معروف مقرر کو موقع مل جاتا ہے ،تو اپنی صلاحیتِ خطابت کے اظہار،سامعین پر اپنا رعب و دبدبہ اور اثر ورسوخ قائم کرنے کے لیے خواہ مخواہ بلا ضرورت چیخنے چلانے لگتے ہیں اور بڑے مقرروں پر حاوی ہونے کی فکر میں اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ وہ تقریری نزاکت کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے ،جس سے بیان کی فطری و ترکیبی ترتیب قائم نہیں رہتی اور تقریر بے اثر ہوجاتی ہے ۔یاد رکھیے کہ ایسی کوئی بھی حرکت جس سے سامعین کسی منفی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ،مقرر کے لیے مضر ہے اور اسے گریز کرنالازم ہے۔
گھسا پٹا یا خشک موضوع
کچھ خطیب ،خطیب و مقررکہلانے کے شوق میں چند تقریریں رٹ لیتے ہیں یا رٹتے تو نہیں ہیں ؛البتہ ان کا مطالعہ اور معلومات اتنی محدود ہوتی ہیں کہ ہر جلسے میں باربار انھیں محدود معلومات کو دھراتے رہتے ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور موضوع پر نہیں بولتے یا بول ہی نہیں پاتے ۔اسی طرح بعض خطیب ہر پروگرام میں ایسے موضوع کو چھیڑتے ہیں ،جومیڈیا اور مبلغین کی زبانی بے پناہ چرچامیں رہنے کی وجہ سے عوام و خواص میں فرسودہ ہوچکا ہوتا ہے۔اسی طرح کچھ مقررصرف انھیں مسائل و موضوع پر خطاب کرتے ہیں ،جن سے ان کو ذاتی دل چسپی اور میلان ہوتا ہے یا کوئی خاص موضوع ان کی شناخت بن چکا ہوتا ہے۔ایسے مقرر اس بات کو بالکل مد نظر نہیں رکھتے کہ مجلس کس نوعیت کی ہے ۔ یہاں پر ہمیں کس موضوع پر تقریر کرنی چاہیے ؟ان چیزوں سے سامعین غلط تأثرلیتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ مقررموصوف بھی انگلی کٹا کر ؛بلکہ رنگا کر شہیدان خطابت کی فہرست میں اپنے نام کا اندراج کرانا چاہتے ہیں یا خریداران یوسف میں سے ایک بے بضاعت بڑھیا کا ہم منصب ہونا چاہتے ہیں۔ 
خود ستائی
بعض مقرروں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ بیٹھتے ہی حمد وثنا کے بعد قبل اس کے کہ موضوع کی اہمیت و فضائل پر روشنی ڈالیں؛اپنے ہی فضائل ومناقب بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔جیسے کہ :میں ایسی ویسی چھوٹی موٹی محفل میں شرکت نہیں کرتا ،یہ تو میری کسر نفسی مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ میں اس جلسے میں حاضر ہوتا ۔۔۔۔۔۔میرا یہاں آنا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں تھا ،کیوں کہ میرے اسفار پہلے ہی سے اتنے بک تھے کہ یہاں آنے کی کوئی تاریخ ہی خالی نہ تھی۔لیکن بمشکل تمام دیگر تاریخوں کو کینسل کرکے یہاں حاضر ہوا ہوں ۔۔۔۔یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ میں آپ کے درمیان حاضرہو ں اور میرے بیان سننے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ،ورنہ میری تقریر سننے کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔اس طرح کی باتیں خطیب یہ سمجھ کر کرتا ہے کہ ان سے میری اہمیت بڑھے گی اور سامعین یہ خیال کریں گے کہ حضرت کیا ہی مقبول بارگاہ الٰہی اور محبوب خدا وندی ہیں کہ خلق خدا پروانہ وارحضرت کے آستانے کا چکر لگاتی ہے اور ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب و بے چین رہتی ہے۔حالاں کہ وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ سامعین جس طرح خطیب کے مطیع ومنقاد ہوتے ہیں ،اسی طرح وہ ناظرو نقاد بھی ہوتے ہیں۔ 
حد سے زیادہ عاجزی کا اظہار
کچھ لوگ تقریر کا آغاز ہی ایسے جملوں سے کرتے ہیں ،جن سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ خاکساری وفروتنی اور توضع و انکساری کی کہیں کوئی عملی مثال ہے ،تو وہ حضرت خطیب ہی ہیں ،مثلا :حضرات!میں کیاتقریر کروں ،مجھے تو بولنا ہی نہیں آتا ۔۔۔اس موضوع پر میری کوئی تیاری ہے اور نہ ہی کچھ مطالعہ ؛لیکن جب تقریر کا حکم دے دیا گیا ہے ، تو چند باتیں سن لیجیے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔موصوف کی ماورائے اسٹیج زندگی کی کیا کیفیت ہے ،وہ تو ایک الگ موضوع ہے ۔ ان کے ان الفاظ سے سیدھے سادے لوگ اور بھولی بھالی عوام تو یہی سمجھے گی کہ اگر کچھ آتاہی نہیں ،تو تقریر کرنے کیوں بیٹھ گئے۔اور اگر کچھ آتا ہے اوراسی کی بنیاد پر مدعو بھی کیا گیا ہے ،تو ان جملوں سے منفی مدحت طلبی کے علاوہ اور کیامقصد ہوسکتا ہے ۔شہنشاہ خطابت جناب شورش کاشمیری تحریر فرماتے ہیں کہ 
’’اس سلسلے میں ایک چیز زبان و بیان سے متعلق مقرر کی انا(Ego) ہے ۔اگر وہ معذرت کالہجہ اختیار کرتا ہے ،تو اس کا مطلب ہے کہ اپنے بارے میں تذبذب کا شکار ہے ۔اور جب مقرر تذبذب کا شکار ہو،تو وہ اپنے ساتھ انصاف نہیں کرتا ۔اس کامجمع سے کسی تحسین یا انصاف کا توقع رکھنا واہمہ ہے ۔ ایک اچھا مقرر اپنے بارے میں کبھی انکسار نہیں کرتا ۔کسی خیال سے کبھی معافی نہیں چاہتا ۔کسی عنوان سے کسر نفسی کا شکار نہیں ہوتا اور نہ اپنے جوہر کو منحنی الفاظ سے پسپا کرتا ہے ۔وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے ،پورے استغنا و استقامت کے لہجے میں جماؤ سے بولتا ہے ۔ اس قسم کے فقرے :’حضرات!میں زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ ۔۔۔۔چند کلمات سماعت فرمائیے۔ ۔۔۔۔مجھے اپنی کوتاہ فکری کا احساس ہے۔۔ ۔۔۔۔میری غلطیوں سے چشم پوشی کیجیے ‘کسی خوبی کا اظہار نہیں ،بلکہ کمزوری کا اقرار ہے۔آپ اس لیے تقریر نہ کریں کہ آپ بولنا چاہتے ہیں یا آپ کو تقریر کا شوق ہے ۔آپ اس لیے تقریر کریں کہ لوگ اس کو سننا چاہتے ہیں اور آپ کی تقریر کو مجمع کی ضرورت ہے۔‘‘(ص؍۵۶)
المختصر حد سے زیادہ عاجزی وکم مائیگی کے اظہار کا لب ولہجہ خطیب کے لیے ایک نقص ہے ا وراس سے گریز ہی بہتر اور کامیابی کی دلیل ہے ۔ 
تکیۂ کلام
کچھ خطیب مخصوص جملے بلا تکلف اور انتہائی بر جستگی کے ساتھ بار بار بولتے رہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ بر محل واقع ہوتے ہیں ؛بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہیں ،جس کی بنا پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ الفاظ ان کی زبان سے خود بخود نکلتے رہتے ہیں ۔جیسے کہ ہر دوچار جملوں کے بعداس طرح کے الفاظ دہرانا کہ سامعین! سمجھے کہ نہیں سمجھے۔۔۔ہاں تو میںیہ عرض کررہا تھا ۔۔۔جو ہے کہ جوہے کہ ۔۔۔میرے بھائیو،بزرگو،دوستو!۔۔۔آپ سن رہے ہیں کہ نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ان جملوں سے جہاں ایک طرف تقریر کی شیرینی و شگفتگی جاتی رہتی ہے اور ان کے بار بار ضرب تکلم سے گوش سماعت مجروح ہوجاتا ہے ،وہیں دوسری طرف وہ جملے ان کی شخصیت کے لیے شناخت اور اضحوکہ بن جاتے ہیں ۔اس لیے مشق اور ہر ممکن کوشش کے ذریعے اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ 
ایکٹنگ اور مخصوص عادی حرکات 
بعض خطیبوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ تقریر کرنے کے ساتھ ساتھ ایکٹنگ بھی کرتے رہتے ہیں اور جوش خطابت میں اتنا زیادہ اچھلنے کودنے لگتے ہیں کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ خدشہ ہونے لگتا ہے کہ پائے اسٹیج کہیں دھڑام نہ ہوجائیں ۔یہ نامناسب حرکتیں ہیں ؛کیوں کہ 
’’خطابت اداکاری نہیں اور نہ مقرر کسی ناٹک یا کھیل کا ادا کار ہے ۔اپنے چہرے مہرے پہ اداکاری ، جلال وجمال پیدا کرتا ہے ،تو ممکن ہے مجمع کے جزو کل میں کوئی عارضی لہر پیدا ہو ؛لیکن ایک ڈرامائی کیفیت ہوگی کہ بگٹٹ آتی اوربگٹٹ چلی جاتی ہے۔یہ کہنا شاید نفس مضمون کی رعایت سے کسی حد تک صحیح ہو کہ خطیب میں اداکاری کی فنی خوبو کا پر توضرور ہوتا ہے ؛لیکن یہ لازمہ نہیں ۔اداکار تماشا ہوتا ،ناظرین تماشائی،خطیب راہ نما ہوتا ،سامعین راہ رو ۔ فی الجملہ اداکا رکا فن مسرت اور خطیب کا فن عزت ہے۔ظاہر ہے کہ اداکار کا فن اس کا پیشہ اور خطیب کا فن اس کا فرض ہے اور فرض کسی تصنع سے ادا نہیں ہوتا۔‘‘ (ص؍۷۰)
کچھ مقرر ایکٹنگ تو نہیں کرتے ،البتہ کچھ ایسی حرکتوں کے وہ عادی ہوتے ہیں کہ ناچاہتے ہوئے بھی لاشعوری طور پر وقوع پزیر ہوتی رہتی ہیں،جن کا احساس خود مقرر کو تو نہیں ہوتا ،البتہ سامعین وناظرین ان کو دیکھ کر ضرور اچنبھے میں پڑجاتے ہیں اور زیر لب مسکراتے ہوئے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ۔جیسے :بہت زیادہ ہاتھ اڑانا ۔ مسلسل سر کو مخصوص انداز پر حرکت دینا ۔بار بار سینے کو آگے پیچھے کرنا ۔دائیں بائیں زیادہ مائل ہوتے رہنا وغیرہ۔ 
بے تحاشا چیخ و پکار کرنا 
کچھ خطیب شروع ہی سے بے تحاشا چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں اور الفاظ کا جو فطری مدو جزر ،زیرو بم اور اتارچڑھاؤ ہوتا ہے ،اس کا بالکل بھی خیال نہیں کرتے ۔بس وہ جوش میں گرجتے اور برستے چلے جاتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ سامعین محظوظ ہورہے ہیں اور ہمیں دادو تحسین سے نواز رہے ہیں ۔حالاں کہ ہوتا یہ ہے کہ بے تحاشا چیخنے سے آواز متأثر ہوجاتی ہے ،لہجے میں کرختگی اور خشکی پیدا ہوجاتی ہے ،جس سے سامعین ناگواری محسوس کرتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ مقرر ان باتوں سے بخوبی واقف ہو کہ تقریر کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟کہاں پر کیسا لہجہ اور کس طرح کا انداز اختیار کرنا چاہیے ؟کہاں پر اتار اور کہاں پر چڑھاو ہونا چاہیے ؟ان تمام باتوں کے حوالے سے مفصل گفتگو آگے آئے گی۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
نقالی و تقلید
بعض حضرات ان لب ولہجے میں تقریر کرنا اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں، جو کسی بڑے خطیب کے ہوتے ہیں اور وہ انداز ان کی شناخت بن چکا ہوتا ہے ،جیسے مولانا ابو الکلام آزادؔ ؒ کا لہجہ ،قاری حنیف ؒ کا انداز بیان اور ان کے علاوہ دیگر مشہور ومعروف خطیبوں کے اسلوب ۔اس حوالے سے جناب شورش کاشمیری کا مشورہ یہ ہے کہ 
’’اس سلسلے کی بنیادی چیز یہ ہے کہ کسی مقرر کی نقل نہ کریں ۔اس کی کاپی نہ بنیں اور نہ تتبع یاتصنع سے کام لیں ۔نہ لوگوں کو بنائیں اور نہ خود بنیں ۔ممکن ہے اس طرح آپ فائدہ اٹھا لیں ؛لیکن یہ تمام چیزیں شعلۂ مستعمل ہیں ۔آپ اس طرح اپنے لیے کوئی مقام پیدا نہیں کرسکتے اورنہ اشہب کے سوار ہوسکتے ہیں۔ کسی خطیب یا مقرر میں ذاتی انفرادیت نہ ہو،تو عوام کے ذہنوں پر اس کی چھاپ لگنا مشکل ہے‘‘۔ (ص؍۶۹و۷۰)
کسی کی نقالی اس لیے بھی بے سود ہے کہ مجمع میں مختلف و متنوع طبائع کے لوگ ہوتے ہیں ۔ہر ایک کی پسند و نا پسند الگ الگ ہوتی ہے ۔کسی کے نزدیک مولانا ابو الکلام کا لہجہ ہی تقریر ہے ،توکسی کے نزدیک کسی اور کا اسلوب۔ اور ظاہر ہے کہ ایک ہی تقریر میں سب کا لہجہ اختیا ر کر نے کوشش کرنا ایک لایعنی عمل ہے ۔علاوہ ازیں مجمع آپ کے نام پر اکٹھا ہو اہے ،جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو سننے کے لیے حاضر ہوئے ہیں نہ کہ کسی اور کو ۔ اس لیے دوسروں کا اسلوب اختیار کرنا اور دوسروں کے لب ولہجے میں بولنا بے فائدہ اور لاحاصل ہوگا ۔
سب بات بیان کرنے کی خواہش
بعض خطیبوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو تقریر کا موقع مل جاتا ہے ،تو وہ کرسیِ خطابت سے اس وقت تک نہیں اترنا نہیں چاہتے ،جب تک کہ سب باتیں نہ بیان کرلیں ،جس کی وجہ سے تقریر بے موضوع ،بد مزہ اور اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ سامعین اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور دل ہی دل میں یہ تمنا کرنے لگتے ہیں کہ جلدی سے وہ گھڑی آجائے ،جب کہ خطیب موصوف یہ جملہ کہیں کہ وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین ۔یاد رکھیے کہ وہی تقریر کامیاب ، زود اثر ،مؤثراور دل نشیں ہوتی ہے ،جو سامعین کی من پسند ہو ۔اس لیے ایک مقرر کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقریر سے پہلے ان باتوں پر غور کرلے کہ اس وقت طول طویل تقریر کار گر ہوگی یا مختصر بیان ہی زیادہ مفید ہوگا ۔ اس بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ:
’’بعض مقرروں میں شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ نقص ہوتا ہے کہ جس موضوع پر جلسہ ہورہا ہے ،وہ اس کے متعلق سبھی کچھ کہہ دینا چاہتے ہیں اور ساتھی مقرروں کے لیے شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ چھوڑنا نہیں چاہتے یا کچھ مقرراپنے سے بہتر مقرر کی موجودگی سے مرعوب ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں غلط ہیں ۔اپنے حدود میں رہیے ۔عوام کے لیے بار نہ بنیے ۔وہ دوسرے مقرروں کوبھی سننا چاہتے ہیں ۔جب ایک جلسے میں کئی مقرر ہوں،تومجمع فرد واحد کے لیے نہیں،سب کے لیے ہوتا ہے اور ان سب کے نام پر اکٹھا ہوا ہے ۔‘‘ (ص؍۵۳) 
اسی لیے جب کئی مقرر موجود ہوں ،تو ایجاز و اختصار ہی سے کام لینا چاہیے اور طول طویل تقریر سے عوام کے چہرے پر بے زاری کی شکن پیدا نہ ہونے دینا چاہیے ۔
خود نمائی اور بے جا تکلفات
صفائی ستھرائی اور طہارت و نظافت پر جتنا زور اسلام نے دیا ہے ،اتنا زور کسی اور مذہب نے نہیں دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے ۔ایک خطیب کی ذات اور زندگی صرف اسی کی ذات اور زندگی تک محدود نہیں رہتی ؛بلکہ اس کی ذات اور زندگی دونوں لوگوں کے لیے آئدیل لائف ہوتی ہیں ۔اس لیے کسی خطیب کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات پر کسی قسم کا کوئی دھبہ یا بٹہ لگا لے اور اپنی زندگی کو کسی بھی اعتبار سے مجروح اور قابل لعن طعن بنالے ۔اعلیٰ سے اعلیٰ ڈرائی کلینر میں دھلے ہوئے کپڑے ،پریس دار ،کرچ دار ،کلف دار اور حسب ذوق نیل دار کرتے ،قیمتی سے قیمتی جوڑے ،بیوٹیڈ چہرے ،سلیقہ مند بال،حسن ذوق اور صفائی ستھرائی کے اعلیٰ معیار ہیں ؛لیکن ان چیزوں میں حد سے زیادہ غلو ،مثلاگل و بوٹے سے مزین زری کاری کرتے ،چمکیلے ،بھڑکیلے اور رنگیلے عبا و قبا ،نمایاں کرم پوتے چہرے ،فیشن کٹ بال اور ایسا اسمارٹ بننے کی کوشش کہ اسٹیج پر آتے ہی سب لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے ؛ایک خطیب کو بالکل زیب نہیں دیتا ۔
بعض حضرات اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی پُر وقار اور نستعلیق دکھانے کے لیے لباس کی طرح سفر وغیرہ کے حوالے سے بھی بہت زیادہ نزاکت کا اظہار کرتے ہیں ۔چنانچہ بعضوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب تک ان کے لیے اے۔سی کے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ بک نہیں کرالیا جاتا ہے ،اس وقت تک وہ سفر کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ۔اسی طرح جب تک ان کے من پسند کھانے پینے کے بارے میں انھیں مکمل طور پر مطمئن نہیں کر دیا جاتا ہے ،اس وقت تک وہ اپنی تاریخ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔بعض حضرات کی حیثیت تو اس اہتمام کی متقاضی ہوتی ہے ،جن کے لیے ایک حدتک ان باتوں کو روا رکھا جاسکتا ہے ۔لیکن بعضے اس لیے ایسا کرتے ہیں تاکہ منتظمین ان کے اعلیٰ ذوق کے حامل ، انتہائی نازک مزاج اور بہت زیادہ پر وقار ہونے کی شہادت دے سکیں ۔حالاں کہ ان چیزوں کی وجہ سے لوگ انھیں پروقار اور نستعلیق سمجھنے کے بجائے اجڈپن، اکھڑ مزاج اور تکلف پسند سمجھتے ہیں اور اپنے پروگرام میں بلانے سے ہچکچاتے ہیں ۔
فیس بازی
نبی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق تبلیغ و خطابت واجب اور فرض ہے ۔فرض نہ تو کسی طرح کے ڈھونگ سے ادا ہوتا ہے اور نہ ہی اجرت و معاوضہ لے کر یہ کام کرنے سے ۔لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کچھ مقرروں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی ان کے پاس دین کی باتیں سننے کی غرض سے پروگرام کی تاریخ لینے آتا ہے ،تو اول وہلہ میں اپنی متعینہ فیس کا مطالبہ کر ڈالتے ہیں اور اس کے فیصلے کے بغیر آگے کچھ بات ہی کرنا نہیں چاہتے۔وہ اس بات کابھی خیال نہیں رکھتے کہ اس لین دین کی گفتگو سے میرے متعلق کیا تأثر لیا جائے گا۔
اگر چہ یہاں پر معاملہ ایسا ہے کہ ’’کچھ سونا کھوٹا ،کچھ سنار کھوٹا ‘‘کیوں کہ ایسا معاملہ بھی سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے پروگرام میں مدعو کرلیتے ہیں اور سفر کے اخراجا ت تک نہیں دیتے ۔ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں مجبورا زبان تو کھولنی ہی پڑے گی ؛لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ داعی کی انتظامی پوزیشن کی پرواہ کیے بغیر جب تک دس بیس ہزار کی خطیر رقم پہلے ہی طے نہ ہوجائے اور زر ضمانت کے طور کچھ جمع نہ کردے ،تب تک آگے کچھ بات ہی نہ کرے ۔یہ جہاں اخلاقی غیرت کے منافی ہیں ،وہیں دینی حمیت بھی اس کی ابا کرتی ہے ۔ یہ نہ صحابۂ کرام کا اسوہ تھا اور نہ ہی اکابر و اسلاف کا وطیرہ ؛بلکہ یہ عصر حاضر کی زر طلبی کی ہوس اور مادیت پرستی کا جنوں ہے، جو ایک مقررکو مجبوری کے نام پر زیور اخلاص سے معطل کر دیتی ہے ۔