3 Apr 2018

تقریر کا آغاز، تقریر کی اہمیت و افادیت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں مقرروں کا کردار


(قسط نمبر (2) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کا آغاز


تقریر و خطابت کاآغازکب ،کیسے ،کس سے اور کہاں سے ہوا؟ان حوالوں سے کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، کیوں کہ کسی چیز کی اصلیت و حقیقت کا ادراک اور اس کے آغاز و ارتقا سے بحث علم تاریخ کا موضوع ہے۔اور علم تاریخ کے وجود کا دارو مدار تحریر و کتابت پر ہے ،اور جس وقت تحریر کا فن وجود میں آیا ہے ،اس وقت فنِ خطابت عنفوان شباب پر تھا۔کیوں کہ یورپی ماہرینِ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق فن تحریر کا ایجاد ۳۰۰۰ ق م میں ہو اہے ۔فن تحریر کے ایجاد ہی کی وجہ اس سے پہلے کا زمانہ ’’ماقبل تاریخ انسانی ‘‘اور اس کے بعد کا زمانہ ’’مابعد تاریخ انسانی‘‘ کہلاتا ہے۔اور سائنسی نقطۂ نظر کے مطابق انسان کا وجود ؛بلکہ اس کا مکمل طبعی و فکری اور لسانی ارتقاما قبل تاریخ انسانی کے دور میں ہو چکا تھا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ خطابت کا آغاز ،فن تحریر کے ایجاد سے بہت پہلے ہوچکا تھا ۔عربوں کی ادبی تاریخ سے بھی اس کی تائید و توثیق ہوتی ہے ۔کیوں کہ اہل عرب ۔جو خطابت کے بے تاج بادشاہ اور دنیا کے سب سے بڑے زبان آور تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ غیروں کو عجمی (بے زبان ،گونگا )کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔فن تحریر سے بالکل نا آشنا تھے ،انھوں نے تحریر کا فن بہت بعد میں یمنیوں سے سیکھا تھا۔اس حوالے سے شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ:
’’خطابت کب شروع ہوئی؟مختصرا جب انسان نے بولنا شروع کیا ۔وہ شخص پہلا خطیب تھا، جس نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں سے خطاب کیا ۔یا انسانوں کا ایک مجمع جو اس کے گردو پیش تھا ، اس سے کلام کیا ۔ انسان اور خطابت ہم عمر ہیں ۔دونوں کا ارتقائی سفر یکساں ہے۔اس باب میں اختلاف رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ابلاغ عامہ کا آغاز تقریر سے ہوا اور تحریر سے کہیں زیادہ تقریر کی عمر ہے ، دو نوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔‘‘ (فنِ خطابت ،ص؍۱۵) 
تقریر کی اہمیت و افادیت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں مقرروں کا کردار
تقریر کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، بالخصوص عصر حاضر میں الیکٹرانک میڈیا کا سارا دارو مدار اسی پر ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت و افادیت دو چند ہوگئی ہے ۔انسانوں کی خدمت اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں جس طرح دگر جماعتوں اور گروہوں نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں،اسی طرح مقرروں نے بھی زبردست کردار ادا کیے ہیں ۔چنانچہ تاریخ شاہدِ عدل ہے کہ جب بھی کوئی قوم جنگ و حرب جیسی آفات نا گہانی میں مبتلا ہوئی ہے اور ان کے دلوں کو گرمانے اور دفاع کے لیے مقابلے کی ہمت وحوصلہ پید ا کرنے کی ضرورت پڑی ہے ، توخطیبوں نے اپنی شعلہ بیانی اور طوفانی تقریر سے ان کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے،پھر وہ بے خطر میدانِ کارزار میں کود پڑی ہے ۔اسی طرح جب کوئی قوم گناہوں اور برائیوں کے سمندر میں غرق آب ہوئی ہے اور فسق و فجور کے قعر مذلت میں افتادہ ہوئی ہے ،تو ایک مقرر ہی نے اپنی گویائی کے برقی کرشمے اوراپنی جادو بیانی سے برائیوں کو اچھائیوں میں ،گناہوں کو نیکیوں میں ، خطاؤں کو ثوابوں میں اور فسق و فجور کو تقوی و زہد میں تبدیل کردیا ہے ۔غرض ایک مقرر انسانوں کے خیالات و تصورات اور ان کے ارادوں پر جو اقتدار رکھتا ہے اور جس طرح اس کے لب ودہن کی ادنیٰ جنبش آن واحد میں سینکڑوں دلوں کو پھیر دیتی ہے اور ماحول کی کایا پلٹ دیتی ہے ،ایسا دنیا کا بڑا سے بڑا بہادر ،بڑا سے بڑاجادو گر ؛بلکہ بڑا سے بڑا فرماں روائے سلطنت بھی نہیں کر سکتا ۔یہ تو صرف ایک مقرر ہی کا کمال ہوتا ہے ۔اور اس کے اس جیسے بڑے بڑے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
’’خطابت آن واحد میں قرنوں کا سفر کرتی اور کہیں سے کہیں لے جاتی ہے ۔ایکا ایکی پلٹ دے کر ماضی میں پہنچا دیتی،ناگہانی فراٹے بھرتی ہوئی مستقبل کی طرف بڑھ جاتی ہے۔اس کے لیے گردشِ زمانہ نہیں۔وہ لیل ونہار کے طلوع و غروب سے آزاد ہے ۔وہ انسانی مجمعوں کو اکائی میں ڈھالتی اور آوازوں کی لہروں کے ساتھ ماضی ، حال اور مستقبل میں گھماتی پھراتی ہے۔خطابت کی سب سے بڑی خوبی تصور کی پرواز ہے ۔ہم خیالوں کے سیناوں پرچڑھ جاتے اور جذبات کے سمندروں کی تہہ تک اتر جاتے ہیں،بہ الفاظ دیگر خیالات کی پرواز کا نام خطابت ہے کہ ایک انسان کی آواز ان گنت انسانوں کا مافی الضمیر بن جاتی ہے ۔ خطابت لسانی اعجاز کا خمیر ہے ، اس کے ہیولیٰ میں شاعری،موسیقی اور سنگ تراشی کے جوہر ہیں ،اس کی روح ایٹمی توانائی سے کہیں بڑھ کر طاقت ور ہے۔ لارڈ سایسری نے غلط نہیں کہا تھا کہ ’دنیا آج بھی ان کے ساتھ ہے ،جو بول سکتے ہیں‘۔‘‘(فنِ خطابت،ص؍۲۰)

2 Apr 2018

انسان اور زبان


(قسط نمبر (۱) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)   
انسان اور زبان 
بسم اللہ ارحمٰن الرحیم


انسان کی تخلیق کے نظریے
گذشتہ دو سو سالوں سے مغربی مؤرخین اور یورپی ماہرینِ آثار قدیمہ ،انسان کی تخلیق اور اس کی ابتدائی زندگی کے حوالے سے غور وخوض میں مصروف عمل ہیں۔ آثار قدیمہ کی مددسے معلومات اکٹھا کرکے کچھ تخمینی نظریات فراہم کیے ہیں ۔جن میں سے اٹھارویں صدی کے ایک یورپین مؤرخ مسٹر ڈارون کا نظریہ سب سے مقبول نظریہ مانا گیا ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ ’’سارے جان داروں کے ظہور میں آنے کے بعد ،یہاں تک اقلیم حیوانات کے طویل طبعی ارتقا کے بعدآخر میں انسان کا وجود عمل میں آیا ۔‘‘(سماجی علوم،ص؍۱۵)۔ عبدالصمد صاحب ڈارون کے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’انسان ترقی یافتہ بندر ہے۔‘‘(زبان وقلم،ص؍۱۰)
یورپین ماہرین کے اس مضحکہ خیز نظریے کے برخلاف دنیا کے تمام لوگوں کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق بندر سے نہیں ہوئی ؛بلکہ یہ خدائی قدرت کا مظہر ہے ،جسے خود قدرت کاملہ نے پیدا فرمایا ہے ۔البتہ بعض مذہبوں میں اتنا سا اختلاف پایا جاتا ہے کہ دستِ قدرت کا بنا یا ہوا سب سے پہلا انسان کون تھا؟
دنیا کا پہلا انسان
اس سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا انسان مرد حضرت آدم ؑ ہیں ،جن کو رب دوجہاں اور مالک کن فکاں نے عناصر اربعہ (آگ،مٹی،ہوا ،پانی)کے امتزاج سے پیدا فرمایا تھا ۔اور سب سے پہلی عورت حضرت حواؑ ہیں ،جنھیں حضرت آدم ؑ کی بائیں پسلی سے کوئی مادہ لے کر پید ا کیا گیا ہے ۔
اس بات کی تائید دنیا کی سب سے پرانی کتاب ’’توریت ‘‘سے بھی ہوتی ہے کہ ’’خدا نے انسانی پیدائش کا آغاز ایک جوڑے سے کیا ،مرد کا نام آدم اور عورت کا نام حوا تھا ‘‘(بحوالہ :زبان وقلم ص؍۱۸)۔عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی یہی نظریہ ہے ۔البتہ پارسی مذہب کے پیرو’’آباد ‘‘ کو سب سے پہلا انسان مانتے ہیں ۔اس کی داستان حیات اور حضرت آدم ؑ کی سیرت میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ہندووں کے یہاں سب سے پہلا انسان ’’برہما‘‘ تصور کیا جاتا ہے ۔ اس برہما اور حضرت آدم کے واقعات میں بے شمار مماثلت دکھائی دیتی ہے ۔ صاحبِ زبان و قلم لکھتے ہیں کہ ’’جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ حوا ؑ آدمؑ کے پہلو سے نکلیں،ہندووں میں روایت ہے کہ برہما کا سینہ چیرا ،تو ان کی زوجہ شرستی نکلی ۔آدم کے بیٹوں:ہابیل اور قابل کا جو واقعہ ہے ،وہی داستان برہموں کے بیٹوں:سندا اور سند کی ہے۔‘‘ (ص؍۱۹)۔ہندووں کی کی بعض روایتوں میں برہما کے بجائے پہلا انسان ’مہادیو‘اور اس کی بیوی ’پاربتی‘کو مانا گیا ہے۔لالہ رتن لعل نے لکھاہے کہ ’برہما‘،بشن،مہیش۔مہیش یعنی مہادیو کو آدم جانتے ہیں اور ان کی زوجہ جو پاربتی ہے ،وہ حوا ہے ۔(نگارستانِ کشمیر،ص؍۳۴۴،بحوالہ عمدۃ التاریخ،ص؍۱۹۔)
مذکورہ باتوں پر غائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ دنیا کے سب سے پہلے انسان حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ ہی ہیں ۔گردشِ ایام اور زمانے کے تصرفات کی وجہ سے دیگر مذاہب کی روایتوں میں تغیرات واقع ہوگئے ہیں ،جن کی وجہ سے اصل حقیقت گم ہوکر رہ گئی ہے ،تاہم اصلیت کی کچھ نہ کچھ جھلک ان میں اب بھی باقی ہے ،جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہادیو،برہما اور آباد سب کے مصداق حضرت آدم ؑ ہی ہیں زبانوں اور روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے نام میں اختلاف واقع ہوگیا ہے ۔
زبان کی ابتدا کے نظریے
انسانی تخلیق کی طرح ابتدائے زبان کے حوالے سے مغربی مؤرخین نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں ،جن میں ایک یہ ہے کہ اقلیم حیوانات کے طویل طبعی ارتقا کے بعد جب انسان کا وجود عمل میں آیا ،تو اس نے اولاً پہاڑوں کے غاروں اور صحرا و بیابانوں کو اپنا مسکن بنایا۔پھر جب اس کے اندرتہذیب وتمدن کا شعور بیدار ہوا ،تو پہاڑوں اور جنگلوں سے نکل کر ہموار زمین پر آباد ہوا ۔رفتہ رفتہ اس کی تعداد بڑھتی رہی ،جس سے ایک معاشرہ وجود میں آیا ۔ چوں کہ معاشرے میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی ،جس کے اظہار کے لیے پہلے پہل اشاروں سے کام لیا ہوگا ،جیسا کہ ایک گونگا آدمی اپنا کام نکالتا ہے ۔سب سے پہلی آواز وہ وجود میں آئی ہوگی ،جو شروع میں بچہ نکالتا ہے ۔اس طرح سے گویائی اشارات سے اصوات میں تبدیل ہوئی ہوگی ۔پھر انھیں اصوات سے حروف پیدا ہوئے ہوں گے ۔اور حروف سے جملے وجود میں آئے ہوں گے ،علاوہ ازیں پتوں کی سرسراہٹ، جان وروں کی کھڑکھڑاہٹ ، آب شاروں کی سیلانی اور موجوں کی طغیانی سے پیدا ہونے والی صوتی کیفیتوں سے الفاظ بنائے گئے ہوں گے ۔اور خود انسان نے اپنے طور پر ما فی الضمیرکی ادائیگی کے لیے کچھ آوازیں نکالی ہوں گی،جو تدریجی طور پر ترقی کرکے ایک مکمل زبان بن گئی ہوگی۔
زبان کے آغاز کے حوالے سے ڈکٹر گیان چند جین نے بہت طویل اور مفید بحثیں کی ہیں جن میں مزید کچھ نظریے درجِ ذیل ہیں :
(۱)الہامی نظریہ :یعنی زبان ایک الہامی چیز ہے ،جسے خدا نے الہام کے ذریعے انسان کو سکھائی ہے ۔
(۲)قدیم زبان کا نظریہ :یعنی چند افراد نے مل کر کسی زبان کے بارے میں’ازلی قدیم‘ ہونے کا فیصلہ کر دیااور اسی سے زبان کا وجود مان لیا گیا ۔
(۳)فطری نظریہ :شی اور اس کے نام میں فطری تعلق ہوتا ہے ،اس لیے شی کے وجود میں آنے کے ساتھ زبان بھی وجود میں آتی ہے ۔
(۴)معاہدے کا نظریہ :سب لوگوں نے رائے اور مشورے سے زبان بنائی اور چیزوں کے نام متعین کیے ۔ 
(۵)ڈِنگ ڈونگ نظریہ :جس طرح مختلف دھاتوں پر چوٹ لگانے سے الگ الگ طرح کی آوازیں نکلتی ہیں ، اسی طرح انسان کے دماغ پر مختلف بیرونی تأثرات نے مختلف چوٹیں دے کر آوازیں پیدا کیں ،جو رفتہ رفتہ ایک مکمل زبان بن گئی ۔
(۶)فجائی و نغمائی نظریہ :خوشی یا غمی کی شدت کی وجہ سے اضطراری اور بے اختیاری طور پر کچھ آوازیں نکلیں ،جو بعد میں چل کر زبان کا قالب اختیار کرگئیں ۔
(۷)ٹاٹا نظریہ :نادانستہ طور پر انسانی جسم کے اعضا سے کچھ آوازیں نکلیں (جیسے کہ کپڑا دھوتے وقت دھوبی کی زبان سے ایک مخصوص آواز نکلتی ہے )پھروہی آوازیں زبان بن گئیں ۔
(۸)تارا پور والے کا نظریہ :بندر انسان بننے تک جسمانی ارتقا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ زبانی ارتقا بھی حاصل کرتا رہا ،جیسا کہ بچہ جسمانی و زبانی ارتقا حاصل کرتا ہے ۔
(۹)آٹو موٹو پوٹنک نظریہ :انسان نے بعض طبعی آوازوں کو نقل کر کے الفاظ تجویز کیے ۔
(۱۰)باوواو نظریہ :باوواو کتے کی آواز کو کہتے ہیں ،یعنی جس طرح کتا یا کوئی اور جانور مخصوص آواز نکالتے ہیں،اسی طرح اول اول انسانوں نے آوازیں نکالیں ،چوں کہ انسان کے اعضا ئے صوتی زیادہ لچک دار تھے ،اس لیے اس کی زبان سے زیادہ اقسام کی آوازیں نکلیں ۔یہ آوازمختلف مفہوموں کے قائم مقام ہوکر الفاظ بن گئیں ۔ (تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے :لسانی مطالعے،ازص؍۳۳تاص؍۵۵اورزبان وقلم،ص؍۱۳)
مغربی مؤرخین کی یہ تھیوریاں حقیقت سے کس درجہ میل کھاتی ہیں ،یہ اظہر من الشمش ہے؛کیوں کہ ان تھیوریوں پر خود انھیں مفکرین کو کبھی کامل وثوق نہیں رہا ہے ،تابہ دیگر چہ رسد؟۔اور ’جتنے منھ ،اتنی باتیں‘کا مصداق بنی ہوئی ہیں۔
زبان کے آغاز کے حوالے سے اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ زبان ایک توفیقی امر ہے ،جسے خالق کائنات نے انسان کے جد امجد سیدنا حضرت آدم ؑ کوسکھائی تھی۔’’وَعَلم اٰدم الاسماء کلہا‘‘ (سورہ بقرہ،آیت ۳۱) حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ دنیا میں جس قدر انبیائے کرام مبعوث ہوئے ہیں ،ان پر ایک ایک کتاب نازل ہوئی ہے ۔ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ کو الف بے وغیرہ کا علم وحی کے ذریعے عطا کیاگیا ۔(لطائف الاشارات فی اسرارالحروف المعلومات،بحوالہ زبان وقلم،ص؍۲۲و۲۳)
اہل یورپ اور دنیا کے تمام لوگوں کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ زبان بذریعۂ الہام انسانوں کو سکھائی گئی ہے ؛لیکن نام نہاد مغربی مؤرخین نے اس عقیدے کو قائم رہنے نہیں دیا اور اس کے بجائے ایسے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز نظریے پیش کیے ،جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا ،کیوں کہ اشرف المخلوقات کی زبان کتوں اور بندروں کی رہینِ منت نہیں ہوسکتی۔
دنیا کی پہلی زبان
گذشتہ باتوں کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ زبان انسان کے ساتھ آئی ہے ،جس قادر مطلق نے اس کو پیدا کیا ہے ،اسی علیم وخبیر نے اس کو زبان بھی عطا فرمائی ہے ۔لیکن اس میں تین مذاہب کے محققین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی زبان کون سی ہے ۔ہندو محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کی پہلی زبان ’سنسکرت ‘ ہے ، جس میں وید او ر رامائن لکھی گئی ہیں ۔جب کہ بدھسٹوں کا دعویٰ ہے کہ پہلی زبان ’پراکرت ‘ ہے ؛ لیکن حقیقت یہ کہ اولیت کا فخر ’عربی زبان ‘ کو حاصل ہے ،کیوں کہ مؤرخین اور زبان کے ماہرین (جن مین میکس مولر پیش پیش ہیں ) دنیا کی تمام زبانوں کو درجِ ذیل تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:(۱)ایرین یعنی انڈو یورپین (۲)سمٹیک یعنی سامی زبانیں (۳)ٹیرین یعنی تورانی زبانیں۔اور ان تینوں کے مقسم پر لکھتے ہیں ’’ابتدائی گفتگو جو ناپید ہے ‘‘۔(علم الحروف، ج ؍۴ص ؍۲۹ ) 
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ دنیا کا پہلا انسان حضرت آدم ؑ ہیں اور اس بات کی بھی تحقیق ہوچکی ہے کہ زبان عطائے الٰہی ہے ،جو انسان کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے ۔اس لیے اگر اس امر سے پردہ اٹھ جاتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی زبان کیاتھی ،تودنیا کی پہلی زبان کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔چنانچہ اس سلسلے میں ایک روایت ہے کہ ’’جب قالب آدم ؑ میں روح پہنچی،تو سب سے پہلے ان کی زبان سے نکلا ’الحمد للہ رب العالمین‘یہ جملہ عربی زبان کاہے ۔‘‘ (اخبارالاول وآثارالاول،بحوالہ زبان و قلم،ص؍۲۲)۔قال سفیان الثوری :لم ینزل وحی الا باالعربیۃ،ثم ترجمہ کل نبی بلغتہ۔(روح المعانی ،ج؍۱۷،ص؍۱۶۷۳،بحوالہ زبان و قلم،ص؍۲۳)یعنی وحی صرف عربی زبان میں آئی ہے پھر ہر نبی نے اپنی اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کیا ہے ۔ ان روایتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی زبان عربی تھی ، لہذام الالسنہ عربی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک سنسکرت کی ام الالسنہ ہونے کی بات ہے تو زبان کے ماہرین اسے ایرین زبانوں کی ایک شاخ قرار دیتے ہیں ،اصل زبان ہی نہیں مانتے ۔پنڈت دیانند ’اپدیش فنجری ‘ میں نیستری اپنیشد کی عبارت لکھنے کے بعد دینا کی پیدائش کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ ’’ آدمی سرسی میں پانچ ورش چلتی رہی ۔پھر پرماتما نے منشوں کو وید کا گیان دیا۔یعنی دنیا کی پیدائش کو پانچ سال ہوگئی ۔تب جاکر وید کا الہام ہوا ایسا ہی ’سیتیارتھ پرکاش‘ میں بھی ہے ‘‘۔(مذہبی معلومات ، ص؍۴۳و۴۵،بحوالہ زبان و قلم ،ص؍۳۶)۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وید (جو سنسکر ت کی پہلی کتاب ہے) دنیا کی پیدائش کے پانچ سال بعد الہام ہوئی ہے ،تو ظاہر ہے کہ اس پانچ سال کی مدت میں انسان کوئی نہ کوئی زبان ضرور بولتا ہوگا ۔لہذا سنسکرت پہلی زبان نہیں ہوسکتی۔اور جہاں تک ’پراکرت ‘ کی بات ہے،تو اسے بھی پہلی زبان قرار نہیں دی جاسکتی ؛کیوں کہ مؤرخینِ السنہ کی تصریح کے مطابق پراکرت دراوڑیوں کی زبان تھی ۔یہ نسلی اعتبار سے افریقی تھے۔یہ لوگ غذا کی تلاش میں افریقہ کے گرم اور خشک علاقوں کو چھوڑ کر سندھ پہنچے اور یہاں کی شادابی اور زرخیزی کو دیکھ کر یہیں دریا کے کنارے آباد ہوگئے اور یہاں کی معاشرت و سماج میں اس طرح گھل مل گئے کہ اپنی شناخت ،تہذیب اور مادری زبان کو بھی فراموش کربیٹھے،جس کے نتیجے میں ایک نئی تہذیب کے ساتھ ساتھ ایک جدید زبان بھی وجود میں آئی ۔اسی زبان کا نام ’پراکرت‘ ہے ۔گویا پراکرت زبان دراڑیوں کے ہندستانی سماج سے اختلاط کے بعد وجود میں آئی ہے ۔لہذا اسے پہلی زبان کے طور پر کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ۔جب یہ دونوں حریف زبانیں ام الالسنہ نہیں بن سکتیں ،تو یقینی طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کی سب سے پہلی اور اصلی زبان ’عربی زبان‘ ہے۔ جیساکہ ڈاکٹر احمد حسن زیات کی تحقیق ہے کہ 
’’عربی ادب تمام ادبوں میں سب سے زیادہ وسیع ہے ،اس لیے کہ یہ انسان کی طفولیت ہی سے مخلوقِ خدا کی زبان رہی ہے ۔‘‘(تاریخ الادب العربی،ص؍۷) 
زبان کے اختلاف کے اسباب و وجوہات
زبان انسان کی ایک ضرورت ہے اور ضرورت میں تنوع،تبدیلی اور اختلاف کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے ،اس لیے زبان بھی زمانے اور ماحول کے اثرات کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ وروپ اور چولا بدلتی رہتی ہے جو آگے چل کر ہر روپ ایک مستقل زبان کی حیثیت اختیا ر کر لیتا ہے ۔چنانچہ شروع میں تمام انسانوں کی زبان ایک تھی ؛لیکن زمانے کے تقاضوں اور نئی نئی ضرورتوں کے پیشِ نظر نئی نئی زبانیں تشکیل پاتی رہیں ،جن کی مختلف لوگوں نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں ،ان میں چند درجِ ذیل ہیں ۔
(۱)ڈاکٹر سنویس نے لکھا ہے کہ طوفان (نوحؑ ) کے بعد لوگوں نے شہر بابل آباد کیا اور ایک برج تعمیر کیا،جس کو آسمان سے ملانے کا ارادہ تھا ۔خدا کو ان پر غصہ آیا ان کی زبان میں اختلاف پیدا کر دیا ۔وہ ایک دوسرے کی زبان سمجھنے سے معذور ہوگئے ،اس لیے وہا ں سے اطرافِ عالم میں پہنچ گئے۔
(تاریخ ملل قدیمہ، ص؍۱۱۸،بحوالہ زبان و قلم ،ص؍۲۸)
(۲)ڈاکٹر احمد حسن الزیات لکھتے ہیں کہ ’’جب حضرت آدمؑ کی اولاد کی تعداد بڑھی اور سب کا ایک جگہ رہنا دشوار ہوگیا ،تو وہ لوگ سہولت کے خاطر اللہ تعالیٰ کی وسیع و عریض زمین پر پھیل گئے اور مختلف مقامات پر جاکر آباد ہوگئے ، جہاں انھیں ایک نیا ماحول ملا اورنئی نئی ضرورتیں پیش آئیں ،جن کے لیے انھوں نے نئے نئے الفاظ وجود میں لائے ۔ اسی طرح بعد میں آنے والی نسلوں میں (اپنے باپ دادوں سے جدا ہونے اور اجنبی لوگوں سے ملنے جلنے کی وجہ سے ) نئے نئے لہجے ظہور پذیر ہوئے اور رفتہ رفتہ ہر لہجہ ایک مستقل زبان بن گیا ‘‘۔(تاریخ الادب العربی،ص؍۱۵)
(۳)علامہ بغویؒ نے ’معالم التنزیل ‘ میں [و علم اٰدم الاسماء کلہا] کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم ؑ کو تمام زبانوں کا علم عطا کیا تھا۔حضرت آدم ؑ اپنی ہر اولاد سے الگ الگ زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔جب ان کی اولاد مختلف خطوں میں پھیل گئی ،تو ہر ایک نے ایک ایک زبان اختیار کرلی ۔اس طرح سے مختلف زبانیں وجود میں آئیں ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
زبان و ادب کی تعریف و تشریح
قلبِ انسانی پر جب رنج و غم ،مسرت و خوشی ،کامیابی و کامرانی اور ناامیدی و نامرادی کے اثرات پڑتے ہیں ، یا جب انسان اپنے گرد و پیش کے خوش نما منظروں ،قوس و قزح کی رنگینیوں،آبشاروں کی غرغراہٹوں ،جھرنوں کی نغمہ ریزیوں ،بلبلوں کی ترانہ سنجیوں ،باغ وبہار کی رعنائیوں؛غرض مناظرِ قدرت کی دل فریبیوں کا مشاہدہ کرتا ہے ، تو وہ فطری طور پر ان کے اظہار کے لیے مضطرب وملتہب ہوتا ہے ۔جب اظہارِ جذبات اور ترسیلِ خیالات کے لیے باقاعدہ کوئی زبان نہ تھی اور دنیا تہذیب وتمدن سے نا آشنا تھی،تو انسان اپنی ان قلبی کیفیات کو مختلف اشاروں، کنایوں اور بے معنی آوازوں سے ظاہر کرتا تھا ۔لیکن جب اس کے اندر تہذیب وتمدن کا شعور بیدار ہونے لگا ،رفتہ رفتہ ترقی کے منازل طے کرنے لگا اور اشارے و کنایے ، اس کے جذبات کی مکمل ترجمانی سے عاجزی ظاہر کرنے لگے ،تو اس نے مصوری اور سنگ تراشی کا سہارا لیا۔ پھر جب زمانے نے اور ترقی کی اور عقل وفکر کے زاویے وسیع ہوتے گئے،انسانوں کی حسن پرستی اور ذوقِ جمالیات بڑھتا رہا ،تو ان کے احساسات کے اظہار کے لیے مصوری و سنگ تراشی بھی ناکافی ثابت ہونے لگیں،کیوں کہ اس میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مصوری میں جذباتِ انسانی کے ایک پہلو کا نقشہ تو کھینچا جاسکتا ہے؛ لیکن دوسرے پہلو تاریکی میں ہی رہ جاتے ہیں ۔وہ تمام کیفیات کو ایک تصویر میں نہیں سما سکتی۔جب انسان نے اس خامی کو محسوس کیا ،تو اپنے احساسات کے اظہار کے لیے موسیقی کا رخ کیا اور اس میں مختلف راگ راگنیوں ،سُروں اور تالوں کو نکال کر اپنی کیفیات ظاہر کرنے لگے ۔ اس طرح سے فن مصوری اور موسیقی کی بنیادیں پڑیں۔لیکن جب زمانہ اور آگے بڑھا اور موسیقی بھی مکمل طور پر ان کے ذوقِ جمالیات کی تسکین خاطر نہ کرسکی ،تو انھوں نے الفاظ و اصوات کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور مصوری وموسیقی کے لیے بھی الفاظ و اصوات سے کام لینے لگے۔۔۔نتیجہ یہ ہواکہ جذباتِ انسانی کے جتنے پہلو تھے،سب نمایاں ہوگئے۔اسی کا نام زبان اور ادب ہے۔ زبان و ادب کے اسی مفہوم کو مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔چنانچہ رکسن کہتا ہے کہ 
’’قدرت نے انسانی فطرت میں جن سرمدی اشیا کو ودیعت فرمائی ہے ،انھیں کے اظہار کو ادبِ لطیف کہتے ہیں ‘‘ ۔ (بروک انگلش لٹریچر،ص؍۵۰،بحوالہ خلاصہ روحِ تنقید،ص؍۱۰۔)
گوسائیں کا کہنا ہے کہ 
’’انسان جب کسی شی کو دیکھتا ہے ،تو اس کے متعلق اس کے دماغ میں مختلف خیالات پیدا ہوتے ہیں، انھیں خیالات کو اگر ہم مناسب الفاظ میں بیان کریں ،تو یہ ادب ہے‘‘۔(خلاصہ روح تنقید،ص؍۱۴)
ڈاکٹر احمد حسن زیات لکھتے ہیں کہ
’’اد ب اللغۃ ما اثر عن شعراۂا و کتابہا من بدیع القول المشتمل علی تصور الاخیلۃ الدقیقۃ و تصویر المعانی الرقیقۃمما یہذب النفس و یرقق الحس ویثقف اللسان‘‘۔
یعنی شاعروں اور نثر نگاروں کی ان انوکھی کاوشوں کا نام ادب ہے ،جو عمدہ افکار اور لطیف خیالات پر مشتمل ہوتی ہیں ، جن سے تہذیب و شائستگی،احساس میں لطا فت اور زبان میں استواری پیدا ہوتی ہے۔
(تاریخ الادبی العربی،ص؍۷)
کسی اور نے مختصراور جامع لفظوں میں ادب کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ 
’’الادب ہوالمجموع الجید من النظم والنثر‘‘۔یعنی ادب نظم و نثر کے انوکھے اور عمدہ مجموعوں کو کہا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ادب کی شکل میں نظر آنے والی ہر چیز پر ادب کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ، جب تک کہ اس کے اندر تخلیقی انفرادیت،مخصوص اسلوب نگارش، لطیف احساسات و خیالات ،سچے جذبات اور متاثر و مرعوب کرنے کی خوبیاں نہ پائی جاتی ہوں۔ادبی تحریروں کی یہی خصوصیات و امتیازات ،انھیں غیر ادبی تحریروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
ادب کی تقسیم
ادب کی مختلف حیثیتوں سے مختلف تقسیمیں کی گئی ہیں،مثلا:تنقید وتخلیق کے اعتبار سے۔ اسالیبِ بیان اور زبان کی حیثیت سے ۔موزونیت و موسیقیت کے لحاظ سے وغیر ہ وغیرہ۔لیکن عام طور پر اس کی دو قسمیں کی جاتی ہیں:
(۱)نثر (۲)نظم۔
نثر اس کو کہا جاتا ہے ،جس میں وزن اور قافیے کا التزام نہیں کیا جاتا ہے ۔اور نظم اس کوکہا جا تا ہے ،جس میں ان چیزوں کا التزام کیا جاتا ہے اور اس میں لطیف خیالات اور مؤثر مضامین بیان کیے جاتے ہیں۔
شلرازو کا قول ہے کہ 
’’الفاظ بہترین طور پر استعمال کرنا نثر ہے اور بہترین الفاظ کو بہترین طور پر استعمال کرنا نظم کہلاتا ہے۔‘‘ (خلاصہ روحِ تنقید،ص؍۲۳)
زبان وادب اور زندگی
زبان وادب عقل کا مظہر اورافکاروخیالات کا آئینہ ہے ۔انسان کے گرد و پیش کے حالات اور خود اس کی اپنی ضروریات کے اظہار اور دوسروں سے اپنے جذبات واحساسات بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔زبان وادب خدا تعالیٰ کی ایک ایسی بے بہاو بیش قیمت نعمت ہے کہ اس کے بغیر لطفِ زندگی کا حقیقی تصور بے معنی اور نظام کائنات ادھورا اور ناقص نظر آتا ہے۔کیوں کہ اگر زبان نہ ہوتی اور دانائے روز گار اس نعمت سے انسانوں کو بہرہ ور نہ کرتے ، توانسان جانورں اور ارذل ترین مخلوق کی زندگی جینے پر مجبور ہوتا اور ترقی کے اس اوج کمال پر پہنچنے اور ثریاپر کمندیں ڈالنے کے بجائے پستی و انحطاط اس کا مقدر ہوتا ۔اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان اپنے خیالات کا اظہا ر نہ کرپاتا اور نہ ہی وہ تہذیب و تمدن سے آشنا ہوپاتا۔اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان اپنے پیش رو اسلاف کے تجربات و مشاہدات اور ان کے کارناموں سے واقف نہ ہوپاتا۔نتیجۃََ ترقی کے مدارج کو طے کرنا تو دور ،وہ خودایک مجسمۂ جمود بن جاتا ۔آج زندگی کے ہر میدان میں جو ترقیاں بالخصوص سائنسی و ٹکنالوجی کے انقلابات دکھائی دے رہے ہیں ، ان کا وجود؛بلکہ ان کے وجود کا تصور تک نہ ہوتا ۔المختصر اگر زبان نہ ہوتی ،تو انسان کی تخلیق نامکمل معلوم ہوتی۔لہذا کہا جاسکتا ہے کہ زبان وادب زندگی کی روح ، زندگی کا اصلی جوہر اور زندگی کی اساس ہے ۔ترقی کا ذریعہ اور تہذیب وتمدن کی بنیاد ہے۔انسانوں اور حیوانوں میں تفریق وامتیاز پیدا کرنے کا معیار ہے ۔اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جن قوموں نے اپنی زبان وادب ،تاریخی روایات،اسلاف کے کارنامے اور اکابر کے علوم وفنون کی صیانت و حفاظت کی ہے ،آج وہ ترقی اور تہذیب وتمدن میں سب سے آگے اور نام ونمود میں شہرۂ آفاق ہیں۔اور جن قوموں نے اپنی زبان وادب اور تاریخی روایات کو بھلادیا ہے ، اور اپنے اسلاف کے علوم و فنون کو موروثی سمجھ کر ان سے بے اعتنائی و لاپرواہی برتی ہے،یا تو ان کا نام ونشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے اور وہ ایک قصۂ پارینہ بن کر رہ گئی ہے،یاپھر ذہنی و فکری غلامیت و محکومیت کی ذلت آمیز زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی ہے ،جو سیاسی غلامیت و عبدیت سے بھی زیادہ حقارت خیز زندگی ہے ؛کیوں کہ جسمانی غلامی ایک ایسی بیماری ہے ،جس کا علاج ممکن ہے اور اس سے شفا کی امید کی جاسکتی ہے ؛لیکن روح کی غلامی اور فکری و ذہنی محکومی ایک ایسی بیماری ہے،جو لا علاج ہے۔ کیوں کہ اس میں انسانیت اور ضمیر کی موت ہوجاتی ہے ۔اور دنیا کے ہسپتال میں کوئی ایسا ڈاکٹر اور یہاں کے میڈیکل میں کوئی ایسی دوا نہیں ہے ،جو موت کو حیات میں بدل دے۔اس لیے زبان و ادب کی حفاظت اور اس کی فروغ کاری قوم کا ایک واجبی فریضہ ہے۔
زبان و ادب کو برتنے کی صورتیں
زبان وادب انسانی زندگی کی ایک ضرورت ہے ۔اور انسانوں کی ضرورتوں میں زبردست اختلاف اور تنوع پایا جاتا ہے ۔اس لیے زبان و ادب کے استعمال میں اختلاف کا پایا جانا ایک فطری بات ہے ،جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:(۱)عام بول چال کی زبان (۲)تحریری و کتابی زبان(۳)تقریری و خطابی زبان۔
عام بول چال کی زبان
اس سے مراد وہ زبان ہے ،جسے عوام ،ناخواندہ اور جاہل طبقہ استعمال کرتا ہے اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اس کا سہارا لیتا ہے۔اس میں مہذب وغیر مہذب ،شائستہ و ناشائستہ ہر طرح کے الفاظ ہوتے ہیں ۔اسی طرح یہ زبان تصنع و تکلف ،پیچدہ تراکیب ،گنجلک اسالیب اور فلسفیانہ مضامین سے بالکل پاک ہوتی ہے۔پس جو کچھ کہنا اور بولنا ہوتا ہے ،سیدھے سادے انداز میں کہہ دیاجاتا ہے ۔کوئی مخصوص اسلوب یا لب و لہجے میں انفرادیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔اسے غیر ادبی زبان کہا جاتا ہے۔
تحریری و کتابی زبان
اس سے مراد وہ زبان ہوتی ہے،جوقلم کار حضرات ۔خواہ وہ نثر نگار ہوں یا نظم نگار۔اپنے ذہنی خاکوں اور قلبی کیفیتوں کو بیان کرنے کے لیے مخصوص اسلوب بیان اور منفرد انداز نگارش کے ساتھ استعما ل کرتے ہیں۔اس میں ایک عام فہم بات کو مختلف طریقوں اور دل چسپ پیرائیہ بیان میں بیان کیا جاتاہے۔اور الگ الگ صنائع و بدائع کا سہارا لے کر متنوع خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔المختصر اس میں وہ تمام خصوصیات ہو تی ہیں ،جو ایک ادبی تحریر کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
تقریری و خطابی زبان
زبان و ادب کے استعمال کا تیسرا طریقہ تقریرو خطابت ہے ۔اس کا تعلق بھی ادبی زبان ہے، البتہ دونوں میں صرف اتنا فرق پایاجاتا ہے کہ او ل الذکر کا تعلق زبانِ قلم سے ہے جب کہ آخر الذکرکا تعلق زبانِ لحم سے ہے۔
زبان و ادب کے استعمال کے صرف یہی تین طریقے ہیں ،جن میں سے حسبِ لیاقت کسی ایک کا سہارا لے کر انسان اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ان کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ اگر کوئی اور طریقہ مانا جاتا ہے ،تو درحقیقت وہ زبان ہے ہی نہیں،اس لیے اسے حسبِ واقعہ مثلا اشارات و کنایات وغیرہ کہنا زیادہ بہتر ہے۔

کفاح علماء دیوبند فی قمع الشرک والبدع واصلاح المجتمع


کفاح علماء دیوبند فی قمع الشرک والبدع واصلاح المجتمع 
التقدیم
بمناسبۃ الاحتفال السنوی للنادی العربی الذی انعقد یو م الخمیس اِثْرَ صلاۃ العشاء فی احد وعشرین من جمادی الثانی عام سبعۃ وعشرین وأربع ماءۃٍ بعد الألف المصادف لأربعۃ آیام بقین من شہر جولائی سنۃ ست وعشرین ماءۃ فی قاعۃ الحدیث التحتانیۃ بدارالعلوم دیوبند۔


التوضیحات 
الممثلون دور
(۱)محمداکرم أمین الملکۃوکتوریہ 
(۲)مستقیم باللہ عضوالبرلمان الأول 
(۳)آفتاب عالم عضو البرلمان الثانی 
(۴)عبدالجلیل عضوالبرلمان الثالث 
(۵)محمد مصطفی الأب فندر
(۶)محمد أزھر المسلم العامی 
(۷)حبیب اللہ محمود الشیخ النانوتوی 
(۸) محمدزاہد الاب نولس 
(۹)محمد نظام الدین الأب محی الدین 
(۱۰) محمد سفیان الأسقف دیانند سرسوتی
(۱۱)محمد تفصیل المبلغ دیانند سرسوتی
(۱۲)محمد خلیق رجل عامی (من البر یلوی )
(۱۳)محمد احمد حشمت علی (البریلوی)
(۱۴)محمد خالد الشیخ نعیم الدین (البریلوی) 
(۱۵)محمد شوکت غلام دستغیر (البریلوی)
(۱۶)عبدالواحد رجل عامی (من البریلوی)
(۱۷)سراج الدین ا لشیخ سرد ا ر علی خان (الد یوبند ی )
(۱۸)آمان اللہ الشیخ النعمانی (الدیوبندی)
(۱۹)محمد قاسم الشیخ عبد اللطیف (الد یوبندی)
(۲۰)صغیر احمد الشیخ محمد امین (الدیوبندی ) 



( دورۃ البرلمان البریطانی)
الملک البریطانی:اخوانی الأجلاء! قد أتانی نبأ سارّ ان الملک المغولی النہائی ’’بہادر شاہ ظفر‘‘ قد أُلقِیَ القبضُ علیہ وسجنَ فی سجن’’رنگوں‘‘ مما أسفر عن استیلائنا علی الہند بشکل کامل۔ فالآن أنا أعلن بکل فخر: أن الخلق للہ، والملک للملک، والحکم للشرکۃ، ولکن أنا أخشی المسلین أن ینہضوا من النوم وأن یکافحوا أمارتنا واحتلالنا کالسابق، وہذا خطر عظیم لنظامنا، لذلک جمعتُکم لنُبحث تدبیر المؤامرات لتکریس الاحتلال واستقرارہ، فمارأیکم فی ہذا الأمر الخطیر؟
عضو البرلمان الأول: أری أن نجبر جمیع المسلمین الہنود علی التبشیر بالدین المسیحی،ومن انکر منہم فنحن نقضی علیہ أونحبسہ،ونکسب الہندوس أیضا الی صفنا ضدہم، 
عضو البرلمان الثانی:انا تَبْعٌ لما یہوی صدیقی، ولکن ہذا من المؤامرات الخارجیۃ، لعلہ لا ینال التاثیر الجدیر بہ، فاضف الی ذلک ان نفکک تفکیکاً داخلیا بین المسلمین، بأن نُبْعِثْ ونُقیم بینہم نبیا بصورۃ ’’مرزا غلام أحمد القادیانی‘‘ ففائدتہ علی الأقل ان لم یقوموا بالتبشیر أن یُفسدَ دینہم وایمانہم، وأیضا نُلہب الفتن الشیعیۃ والبریلویۃ وغیرہا من الفتن الداخلیۃ، حتی تحیط بہم الفتنُ من جمیع النواحی۔
عضو البرلمان الثالث: أنا أتفق معکم علی ہذہ الأمور، ولکن ان شئنا ان نحصل علی مرامنا غایۃ الحصول، فیجب علینا أن نفسد عقائد ہم بنشر الأفعال القبیحۃ غیر الا سلامیۃ کالسجدۃ علی الرموس و الاستغاثۃ منہم، فان لم یتأثروا بالفتن السابقۃ، یتطرق الیہم الضلال و الزیغ بہذا الشکل وہم لا یعلمون، ولن یکون الفلاح حلیفنا حتی نُنَفِّرَ الشعوب الہندیۃ الاسلامیۃ من العلماء، لاسیما من العلماء الدیوبندین، فانہم قد لعبوا دورا ملموسا فی اقامۃ الشعب الہندی ضد نظامنا، والیہم یرجع المسلمون فی أمورہم کلہا۔
الملک البریطانی: (بعد أن کتب شیئا) قد اتخذ المجلس البرلمانی قرارات فی شان تضلیل المسلین فی الہند واستقلال نظامنا فیہا، وہی: الأول: أن تدعم الفتن الخارجیۃ، الثانی: أن تلہب الفتن الدخلیۃ، الثالث: أن ترحل وأن تبعث طائفۃ من الأساقف الکبار الی الہند لتقوم بہا خیر قیام، الرابع: ان نختار سبلا أخری حیثما یقتضیہ المقام،(وعلی ہذاینتہی ہذا المجلس الیوم، ویعقد عند ما نضطر الیہ)
(قدوم الأساقف فی الہندای علیٰ المنصۃ)
الأب فندر:أیہا المستمعون الکرام! اسمعوا وعُوا؛ ان الدین المسیحی ہو الدین الحق ولا نجاۃ ولا فلاح الا بہ، فأبشروا بالدین المسیحی،واعلموا أن المرء لایأثم وان ارتکب الکبائر؛ لأن اللہ۔عزوجل۔ حینما رأی أن جمیع الانسان محاطون بالذنوب ومستغرقون فی بحر الآثام، فتَمَثَّلَ سیدنا عیسی ۔علیہ السلام۔ وشنق نفسہ علی المِشْنَقَۃِ وکَفَّرَ عن خطایا جمیع الناس، فلا ذنب فی المسیحیۃ۔
أما مذہب الاسلام فہو کبیر شاقٌ علی النفوس، لا یمکن اجتناب المعاصی فیہ بدون العقاب، ولا سبیل الی الغفران سوی التوبۃ، فعلیکم أن تبشروا بالمسیحیۃ واِلا ستُعذّبون عذابا شدیدا أو تُسْجنون۔
المسلم العامی: أیہا الاسقف! لا یناسب لک أن تُشَوِّہَ صورۃ الاسلام وأن تبالغ فی مدح المسیحیۃ، وکیف تنفث السموم ضد الاسلام وأبناۂ وأہلہ؟ مع ان الاسلام ہو الدین الحق الناسخ لجمیع الأدیان السابقۃ۔
الأب فندر: ان مذہبی حق صادق، ودینک الاسلام مزور باطل،لا صلۃ لہ بالحق، فأن شئتَ فادع علمائک لأباحث معہم عن ذلک۔
المسلم: نعم! أنا مستعد للمناقشۃ حول ہذا الموضوع، فادع أنت اساقفک الکبار، وأنا أدعو علمائی الدیوبندیین۔
(یتکلمان بالجوال)
المسلم: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،قدخطبنی أمر جسیم، بأن ہنا أسقفًا لحیمَ الجسیمِ، ضخیمَ البطنِ، یُصِرُّ علٰی المناظرۃ، فألتمس أن تتشرف بالقدوم مع صَفوتک فی أقرب وقت۔
سماحۃ الشیخ القاسمی: طیب، سنصل ہناک علی الفور۔
الأب فندر: غدمور ننغ، أیہا الأساقف! اسرعوا نصرتی، فانی تعرضتُ لمشکلۃ کبیرۃ بدعوۃ مسلم الی المبارزۃ۔ فاتوا وأنقذوا الدین المسیحی من الخذلان۔
احد الأساقف: لماذا تحدیت المسلم وتحمقت؟
الاب فندر: لا تفضحنی مزیدا من ذاک، فما کان مقدراحَدَثَ،والأن فَکِّرُوا فیما یأتی ونَمُرُّ علیہ، وساعدونی علی ہذا الأمر الخطیر۔
أساقف: اذاً ننصرکْ، فانتظر اننا ننتقل ہنا فورا۔
(بعد الحضور)
الأب فندر: أیہا المسلمون! تعالوا نقرر مواصفات المناظرۃ۔
المسلم: لکم سماحۃ تامۃ بالتعیین، ونحن نرضی بما تقررون من المواد والمیعاد والعدد للمساہمین۔
الاب فندر: شکرا لک، أقرأ ما قررت من المواصفات:الأول: تدور المبارزۃ أولا حول عقیدۃ التثلیث، وثانیا حول حقیقۃ النجاۃ، الثانی: یساہم فی البحث ثلاثۃ أشخاص من الفریقین، الثالث: یفسح المجال لکل من یحاور خمس دقائق فحسب۔ الرابع: یجب علی الطائفۃ المنہزمۃ أن یؤمنوا بدین الفاتح بعد أن یتوبوا جہاراً وعلنا۔ً
المسلم: قد تمت المواصفات، فلنبدأ ما اجتمعنا لأجلہ 
الأب نولس: ابد ؤاأنتم أولا۔
سماحۃ الشیخ النانوتوی:الحمد لأھلہ والصلاۃ لأھلہاوبعد،أیہا المستمعون الکرام ! ان عقیدۃ التثلیث مع عقیدۃ التوحید مثیر للسخریۃ؛لأن الشئی الواحد لایکون الاواحدا والثلاثۃ لاتکون الاثلاثۃ، فکیف یمکن للنصاریٰ أن یقولوا بالتثلیث والتوحید معا؟ کمایقول الشاعر الأردی :؂
تثلیث کے قائل نے خالق کو کہا ایک 
سوئی تھی تین پر حیرت سے بجا ایک 
وأما قولہم بأن عیسی علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام الہ وابنہ أیضا باطل ۔
أمابطلان کونہ الہا،فلأنہ کان محتاجا الی الطعام والشراب والبول والغائط،ومن کان فی شانہٖ احتیاج الی شئی لایکون الہا، وأما کونہ ابن اللہ فباطل عیانا؛لأن اللہ تعالٰی لم یلدولم یولد، وان سلمنا فمن ھوجدعیسیٰ علیہ السلام ؟ فبانتفاء ہذا ینتفی ذالک وللہ درما قال الشاعرالأردی :؂
معاذ اللہ فر زند خدا کہتے ہو عیسیٰ کو 
تو دادا کو ن ہے اس کو بتائے جس کا جی چاہے
أیہا االسادۃ ! ۔۔۔۔۔۔
ألأب نولس:أیہا الشیخ انتھی وقتک فاجلس ۔
الشیخ النانوتوی:ان کان فی خواطر کم اعتراض علی ماقلت فقدموا۔
ألأب فندر:أنا لاأتمکن من الاعتراض علی خطبۃ الشیخ أیہاألأب۔
ألأب نولس:أنا أیضا لاأستطیع الردعلی قولہ، فأمرغیری للاجابۃ 
الأب محی الدین : فی خاطری شبہۃ وہی ۔۔۔۔۔۔
ألاب فندر : اجلس یاأخی !لأننا لانجد مانردبہ علی الشیخ فلا تسئل شیئا لکیلا نتعرض للخذلان والخنوع، ولأن من صمت نجا ، والاٰن نأخذ فی الموضوع الثانی،وھوحقیقۃ النجاۃ ۔
الأسقف اسکات: النجاۃ ھی الاجتناب عن الاثم ، ولکن لایأثم الانسان بارتکاب معصیۃ ؛لأن اللہ تعالٰی لما رأیٰ العالم کلہ مُمَثلا بالذنوب، نزل الی الدنیاممتلاً بصورۃ عیسیٰ علیہ السلام وکَفَّرَعن جمیع الناس فشنق نفسہ ، فعلی الناس جمیعاً أن یومنوا بألوھیۃ عیسیٰ ویدخلوا فی المسیحیۃ ، فلانجاۃ بدونہا۔
الہندوکیۃ دیانند سرسوتی: النجاۃ ھی کماقال الأسقف اسکات، ولکن قولہ: ان اللہ قدتمثل وکفر عن ذنوب الانسان کلہا،معارض للحقیقۃ،کیف یمکن ھذا أن تجمع الذات التی لاحد لہا ولانہایۃ فی جسم رجل محدود؟
الشیخ أبو المنصور القاسمی:النجاۃ عبارۃ عن التورع عن عذاب اللہ وعقابہ فی الأخرۃ ویمکن التحرز من عذاب اللہ بالتجنب من المعاصی ، ولایحذرمنھا حتی یعلم الاثم۔ والأسقف والہند وکی لم یصرحا بہ ۔
الأسقف اسکات: قد انتہی میعاد المناظرۃ فلانسمع شیئا بل نرتحل الی أوطاننا 
الشیخ أبو المنصور: قفوابرہۃ ، قد یبقی من المیعاد خمس عشرۃ دقیقۃ فاِن لم تستطیعواعلی الاجابۃ فاستمعوا لخطبتی
الہندوکی: لا، لا نحن ، لانستمع الی شئی، أیہا الأساقف العظماء ! اخرجوا من ہنا مسرعین۔(یفرون تارکین کتابالہم )
الشیخ أبو المنصور: لماذا تہربون فزعین؛ ہذا کتابکم قد نسیتم وترکتم ، خذوہ واذھبوابہ۔(الأسقف اسکات یأخذہ ویشکر علیہ ، ویخرجون کلہم من القاعۃ )
الشیخ النانوتوی: نشکر اللہ تعالٰی أجزل الشکر علی أنہ أَیَّدَنَا فأصبحنا ظاہرین علی الأساقف والہنادکۃ، ویہزمہم ہزیمۃ فاحشۃ ، فغَلَبَ العلماء الدیوبندیون علی أعداء الاسلام والمسلمین ۔فلہ الحمد کلہ۔
(المناقشۃ بین الدیوبندیین والبر یلویین )
(أربعۃ من العلماء البریلویین یجلسون، وہنا رجل عامی، کلہم ینشدون)یانبی سلام علیک ، یارسول سلام علیک یاحبیب سلام علیک ۔۔۔۔۔۔ 
رجل عامی: یا بابا صابر! یاخواجہ صابر! أعطنی ولداصالحا، فان لم تعطنی فلاأرجع الی أھلی ولا أردیک رداء ، یاغوث ! المدد ، یابابا!المدد۔(من وراء البرنامج)
السیدالنعمانی القاسمی:من أین ہذا الصوت المنکر؟
السیدعبد اللطیف القاسمی :لعل قبریایستغیث من صاحب القبر المیت ۔
السید محمد امین القاسمی :سیدی ! أیستطلب طِلْبَتَہٗ من المیت ؟ ھذا قول عجیب وعمل معارض للشریعۃ الاسلامیۃ ۔
السیدالنعمانی: ھیأ ندھب الیہم،لنخبرہم بالحق،و نہدیہم الی صراط مستقیم 
السید عبداللطیف : نعم،نعم، نحن نمشی نحوہم۔
(مخاطبا للقبریین ) ماذا تصنعون؟ أتستغیثون من الموتیٰ؟ وتنادون بیا رسول اللہ من ہہنا بصیغۃ ’’یاء‘‘ التی لاینادیٰ بہا الاالقریب ؟ لِمَ تستنجدون من أصحاب القبور؟ ألم تعلمواأن المعطی ھو اللہ؟ فاسئلوامنہ ماتشاؤون دون أھل القبور ۔
السیدحشمت علی البریلوی:أیہا الحضور! ھؤلاء الوھابیون الذین یکسرون اأمثلۃ الأضرحۃ ،و یحدون عن الاستجابۃ من الأولیاء والصلحاء الکبار، ویمنعون عن الحضور العرسَ والمیلادَ، وعن اضاء ۃ المصابیح علی القبور، ھؤلاء کافرون ومن شک فی کفر ھم فھو أیضاً کافر۔
السید النعمانی : یا ھذا ! ماذا اتثرثر فینا ؟ أنحن کافرون؟مع أن عقائدنا کعقائد الصحابۃ والتابعین والأئمۃ المجتھدین، الموافقۃ بالکتاب والسنۃ۔ 
السید غلام دستغیر: ان أیقنتم علی سلامۃ عقائد م، فتعالوا نبارزکم ، لیظھرعلی رؤوس الأشھاد من ھو علی الحق ومن ھو علی الباطل ۔
محمد امین القاسمی:نحن نستعد للبحث، ولنناظرن لتستھد وا أنتم وھذا الشعب الی صراط مستقیم ۔
السیدنعیم الدین المرادآبادی: لی حاجۃ مُلِحَۃٌ ، ووصولی الی مدینۃ مرادآباد مُحَتَّمٌ، فسوف انتقل بالقطار لدی الثانیۃ عشرۃ ، فلاأقدر علی حضور المبارزۃ ۔
السیدغلام دستغیر:مولای!لاتذھب؛لأن ذھابک یأتی علینا بالھزیمۃ ضرورۃً 
السیدنعیم الدین المرادآبادی:لا،أنا لاأتمکن من المناظرۃ مع الدیوبندیین لأن أعلم جیداً أننا علی الباطل، والحق حلیفہم ، ولایفلح الباطل من حیث یأتی ، وأنا لاأریدأن افتضح علی رؤوس الأشھاد، فاسمح لی بالارتحال ۔(ثم یفر مسرعا)
السید سردارعلی خان:ان الد یوبند یین لایتیسر لہم الحلاوی القبریۃ و دواجن النذورمثلنا۔ومن لم یحصل علی ھذہ الأشیاء ،یکون سئی الحظ ، فہم کذلک لذلک یحسدون رزقارَزَقَنَا اللہٗ بدخل القبور والنذور۔
السیدالنعمانی:لاشک أن حلاویٰ ودواجین النذور لاتتوفرلنا مثلکم ، فنحن قلیل البخت وأنتم سعداء حظاًحسب قاعدتکم المخترعۃ ،فأنتم تغترون بالحلاویٰ والدواجن المشویۃ المحرمۃ، ونحن نفتخزبمجاعتنا؛ لأنہا سنۃ لنبینا ،صلی اللہ علیہ وسلم ۔فأناأجوع کماکان یجوع سیدنا ،صلی اللہ علیہ وسلم، اللھم ابعثنامعہ ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
السیدسردارعلی خان:أیھاالنعمانی القاسمی ! تب،تب قدارتددتَ وصِرتَ مباح الدم لأنک قلتَ:ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یجوع ، معاذ اللہ من ذالک۔
(جمیع العلماء البریلویین یر فعون أصواتہم ) ۔
السیدالنعمانی: أیھاالبریلویون ! من شعارکم أنکم اذاتکادون تنہزمون،جعلتم تثیرون الضوضاء، أنتم لاتریدون الہدایۃ الی الحق والاصلاح فیما بینکم،بل ترغبون فی الاضطرابات لتفروافراراًلِٰابِقٍ۔
السیدحشمت: نعم ! نحن نتفحص سبیل الھرب والفرار؛ لکیلا نخزیٰ فوق ذالک، فخلواسبیلنا۔
السیدالنعمانی:فروامسرعین حتی لایأخذکم الناس، فیضربواکم 
السیدغلام دستگیر:لکم منا وافرالشکروالثناء علی أنکم تَحْتُمُ لنا فرصۃ الفرار۔(ھنا یخرج الریلیون)۔
السیدالنعمانی: نشکر اللہ ،عزوجل ،شکراجزیلا علی أن یغلبنا علی الطائفۃ البریلویۃویوفق کثیرا من الناس للتوبۃ من الأعمال السیءۃ المشرکۃ ،بسعی العلماء الدیوبندیین، فالحمد للہ أولاواٰخرا۔

عددُرکعاتِ التراویحِ : عشرون ام ثمانی؟



التقدیم 
فی فُر صۃِ الاحتفال النصف السنوی للنادی العر بی، المُنعقدِ بعد العشاء من یوم الخمیس احد وعشرین من جمادی الثانی عام سبعۃ وعشرین واربع ماءۃ بعد الالف من الہجرۃ النبویۃ المصادفۃلاربع لیال بقین من جولائی سنۃ ست والفین من المیلاد فی قاعۃ الحدیث التحتانیۃ بدارالعلوم بدیوبند۔ 
الخلفیۃ
المحادثۃ ھذہٖ والتی تتلو بعدھا کلتا ھما اللتان سبقتا فی الاردویۃ، ووُضِعتا ھنا للمُتَشَوِّقِیْنَ باللغۃ العر بیۃ نموذ جتین ۔
التوضیحات
الممثلون ادوار
(۱) محمدنسیم المؤذن 
(۲) عبدالرشید العامی الدیوبندی 
(۳) عبد الحمید العامی السلفی 
(۴) محمد نہال انور العالم السلفی 
(۵) محمد سہیل العالم السلفی 
(۶) محمد امان اللہ العالم الدیوبندی 
(۷) محمد اللہ العربی العالم الدیوبندی 
(أولا یطلع مؤ ذن علیٰ المنصۃ ویعلق الساعۃ التی معہ، بالمذیاع، یجعل الساعۃ تُنَبِّہٗ موعد الأ ذان للعشاء ثم یقول ناظراً الٰی الساعۃ)
محمد نسیم(المؤذن): قد حان مُوعدُ أذان العشاء فیناسب لی أ ن أ رفع صوتی بالأ ذان ۔
(ثم یذھب الٰی وراء القاعۃ وبدأ یؤذن ھنا، مخفیا عن المستعمین، علٰی ھذا النمط
المؤذن:اللہ اکبر اللہ أکبر ۔۔۔۔۔۔(ھنا یمتنع عن رفع الصوت مشیراالی انقطاع التیارالکھربائی،وبعد ھُنَیْہۃٍیقول)الہ الاللہ۔
(ثم یرجع الی المنصۃ ویُقَدِّمُ الساعۃَ خمسین دقیقۃ،ثم یستترویظہررجلان عامیان دیوبندی وسلفی،من ناحیتین یجری الحدیث بینہمابعد التحیۃ بالکلمات التالیۃ:) 
الدیوبندی : ھذا الشھرشہررمضان الذی أنزل فیہ القرآن، وقد اأذِّنَ للعشاء ، تعال،یاأخی! لنؤ دی صلوۃ العشا، والتراویح ۔
السلفی: عجبالک! أَمَاصلیتَ العشاء لحد الأ ن، فضلاعن التراویح؟وقد تَفرّغتُ من العشاء بالاضافۃالی التراویح ۔
الدیوبندی: یا صدیقی!کیف تَمکنتَ من تأدیۃ صلوۃ العشاء کلھا بعدمضی أقل من ساعۃ واحدۃ علٰی الأ ذان ؟ وکیف أمکن أن تؤدی فی مثل ھذا الوقت القصیر عشررکعات للعشاء مع السنن وعشرین للتراویح وثلاث للوتروختامارکعتین للنفل علٰی الأ قل،أی:خمسا وثلاثین رکعۃ بمجموعھا ؟ 
السلفی:(متعجباً) ماتقول یاصدیقی!أصلاۃ التراویح عشرون رکعۃ أم ثمان فحسب؟وقد أخبرنا شیخُنا الجلیل حفظہ اللہ،أن عدد الرکعات فی التراویح المنقول عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،ھو ثمان فقط، فلذا لانؤدی نحن السلفین اِ لَّا ثمان رکعات؛لأن الصلوٰۃ،وان کانت عبادۃً فی ذاتھا؛لکنھا یؤدی الٰی مخالفۃ الشریعۃ فیما لم ینقل فیہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ذالک الِا کْثَارَ۔
ھذا الٰی أن اللہ عزوجل،یقول:’’یرید اللہ بکم الیسرولا یرید بکم العسر‘‘وأنت تحیط علما بأ ن ثمانی رکعات أسہل وأیسر من العشرین ۔
الدیوبندی:عجبالک ولکم أحشفًا وسوءَ کیلۃ ؟ أنکم تَتَّبِعُونَ الأھواءَ وتُؤَدُّوْنَ ثمانی رکعات ثم تستدلون استدلالافاسداًبالقرآن الکریم،والأ فضح من ذالک أن قائدکم الدینی یُعَلِمُکُمْ ھذا،فیاللعجب والتحسر ۔
السلفی:أتعجب لعمل عمل بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأمربہ وجَمَعَ عَلَیْہٖ أمیرُ المؤ منین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ویتوارث الأمۃ ۔
الدیوبندی:یاصدیقی !لستُ بمتعجب لأ مر فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأمر بہ صاحب الجلیل سیدنا ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، بل یعجبنی ماتعملون بہ من مخالفۃ عمل الر سول صلی اللہ علیہ وسلم وقولہ، وعمل الصحابۃ والتابعین وجمھور الأمۃ والأ ئمۃ ، أنتم تفترون علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ ۔
السلفی: صہ!صہ! و اسْکُتْ یاصدیقی ! ولا تَقُلْ کلمۃ لاعلاقۃ لھا بأمر من أمور الدین ، وأخافُ أن یتخلل بعض الخلل بعقید تک فلا أقول قولا یزیدک اِصراراً علی ماتمیل الیہ، فتکون من الخاسرین ، بل أری أن أدعو لک عالماکبیراً یُفْہِمُکَ ما ہو الصواب فی ھذا الباب، ( ھنایتحدث باالجوال)۔
السلفی: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
العالم السلفی:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ما الذی حملک علی الأتصال معی بالجوال ؟ 
السلفی:سیدی! قددعانی خطب جسیم الی الحوارمعک وھو أن صدیقالی دیوبندیا یصر علیٰ أن رکعات التراویح ھی عشرون ماعدا الوتر،بعشر تسلیمات وخمس ترویحات ، وقد بذلتُ فی تفھیمہ کل ما أستطیع أن الرکعات للتراویح لاتزید علی الثمانی،ولکنہ لایسلم،فأرجوجنابکم المیمون أن تشرفونا بمقدمکم السعید؛لنتمکن من الحاق الدیوبندی بجماعتنا۔
العالم السلفی: طیب حسن الیکم،سأحضر ھنا علیٰ متنِ طائرۃ خاصۃ ، فانتظرونی الی اللقاء ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
السلفی:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (ثم یتوجہ الی الدیوبندی ویقول)ھو سیجئ فی أقرب وقتٍ ممکن ویُجِیْبُکَ باِجابۃ مُقْنِعَۃٍ ویبرد غلتک شافیا ۔
(ھنا یجئ العالم السلفی ویلقی ھذہٖ الخطبۃ بعد التحیۃ والتسلیم)۔
العالم السلفی الاول:حامدًاومصلیاً،امابعد!أولا أشکرکم علی أن دعوتمونی لِاصْلَاحٍ رجل یعتقد اعتقاد الدیوبندیین الضالین الذین ھم فی غفلۃ شدیدۃ منذ قرن ونصف؛فانھم یقولون بعشرین رکعۃ للتراویح مع انہ جاء فی الحدیث النبوی صلی اللہ علیہ وسلم أن صحابیا سأل عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا:کیف کانت صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،فی رمضان؟ فقالت: ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علٰی احدیٰ عشرۃ رکعۃ ،یصلی أربعا (رواہ الأمام البخاری فی جامعہ الصحیح علی صفحۃٍ ماءۃ وأربع وخمسین ) فعُلِمَ من ھذا الحدیث الشریف أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان اِحدیٰ عشرۃ رکعۃ فحسب، ثمان منھا للتراویح وثلاث للوتر ۔
وھکذا روی عن جابر رضی اللہ عنہ، وفیہ :’’صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان لیلۃ ثمان رکعات والوتر ‘‘ وأمر بالثمانی أمیرُالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کمافی الموطأ للامام مالک رحمہ اللہ ’’ أمر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ أبی بن کعب وتمیماً الدارمی أن یقوما للناس احدیٰ عشرۃ رکعۃ ‘‘۔
فثبت مما ألقیت أما مکم من الأحادیث النبویۃ ان التراویح ثمان رکعاتٍ دون عشرین۔فالآن ایہا الصدیق الدیوبندی!الم تبق فی خاطرک ایَّّ شبہۃضد عملنا ہذا ؟
الدیوبندی:ایہا السادۃ! ماقد مت الیی من الاحادیث النبویۃ فھی علیٰ الرأس والعین،ولکننی رجل عامیٌ،لاأتمکن أن أحکم أن ماقلتَہ حق أم مایقولہ شیخنا المکرم؟ لأنہ یثبت مانحن علیہ من أن عددالرکعات للتراویح عشرون فی ضوء الأحادیث الشریفۃ کماأنک تدعی أنہ ثمانی رکعات ، فأدعو شیخَنا جلیلا عبقریا،لہ باع طویل وقِدَمٌ راسخۃ ونظرۃ ناقبۃ فی مثل ھذا المسائل وھو شیخ الحدیث فی جامعۃ کبیرۃ عریقۃ لیحق الحق ویبطل الباطل ویکشف القِناع عن الحقیقۃ ۔
العالم السلفی الأول: یا أخی ! قدأوضحت أمامک کاملا بالأحادیث الشریفۃ أن التراویح ثمانی رکعات فقط ،فلاتتجشم دعوۃَ سیدِکم، بل فَکِّر فیما قلتُ تفکراً تَفْھَمْ 
السلفی العامی: صدیقی صادق فی قولہ فالجدیر أن تُتَاحَ لہ الفرصۃ أن یدعو عالمہ الدیوبندی ،لنسمع قولہ ایضا(ثم یقول لصدیقہ الدیوبندی) أدع سیدَکَ یاصدیقی۔
الدیوبندی العامی:متحدثابالجوالۃ )السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
العالم الدیندی:(من خلف المنصۃ)وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،لماذاا تصلت معی بالجوالۃ؟ 
الدیوبندی:قد تعرضتُ لمشکلۃ کبیرۃ أن ھناک عالماً سلفیاً یقول : ان التراویح ثمان رکعات فحسب ویستدل بالأحادیث ویحاول أن یُضِّلَنِی عن الصراط المستقیم ،فألتمس منک أن تسرع اِلَیَّ کی یتمیز الباطل۔
العالم الدیوبندی:طیبا،أنا سأصل ھناک فوراً، وألْقِ القبضَ علیہ،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الدیوبندی العامی:طیبا یاسیدی! وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
العالم السلفی الثانی:أیجئ ھناک ؟ 
الدیوبندی:(واضعاجوالتہ فی الجیب ) نعم ،وہو سیتشرف بالحضور وسیصل الینا بعد برھۃ لا تزید علیٰ دقائق ۔
العالم السلفی الثانی:(فزعاً)صدیقی الحمیم ! أنا أوُدُّ الذھابَ ، لأن الأفعال العدیدۃ تنتظر نی فی البیت ۔
الدیوبندی العامی: قف،لما ذا تفزع ولماذا بدأت تسعی الھرب؟ 
(العالم الدیوبندی مع صدیقہ یطلع علی المنصۃ فجأۃًویسلم، وھما یر دان علیہ، ثم یقول :)
العالم الدیوبندی الاول: قد نُبِّئتُ أنک تقول بأن التراویح ثمان رکعات لاعشرون ،وانک تستدل علیہ بالأحادیث المبارکۃ؟ 
العالم السلفی الثانی:أترُکْنا وشاننا ،لأن المباحثۃ حول ھذا الموضوع لاتجدی فتیلاً،فأن الناس کما أنت تعلم،أصبحوامولعین بالسھولۃ والسرعۃ فی العصر الراھن، وروایاتُ التراویح وردت علی عدۃ وجوہ، فیسوغ لنا أن نختار أحدھما علیٰ حسب مقتضیات العصر ۔
العالمالدیوبندی الأول:أیھا السید السلفی !ان دین الاسلام لیس بلُعْبَۃٍ یلعب بھا من یشاء کما یشاء ، قو لک ھذا من أخطأ أفکارک،وان لم تجتنبوامثل ھذہٖ الأفعال والأقوال الخطیرۃ،فلا تأمنواأن یخرج الایمان من قلوبکم وھا !أنا أصرح ھذہ المسئلۃ أن التراویح المسنونۃ ھی عشرون رکعۃ دون الثمانی،لأن الأحادیث النبویۃ تُنَبہٗ بیانا وافیاً ،واأدِّیَتْ التراویح وتُؤدیٰ علیٰ ھذا المنوال منذ القرن الاول حتی الآن کما فی آثار السنن لشیخ النیموی :’’ أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ أمر رجلا ان یصلی بھم عشرین رکعۃ ‘‘ وکذاالصحابۃ کلھم کانوالا یصلون التراویح الا عشرین رکعۃ ، ویدل علی ماقلتُ مارواہ ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ عن عطا ء’’ قال : أدرکتُ الناسَ وھم یصلون عشرین رکعۃ ‘‘ وما فی اٰثار السنن ’’عن سعید بن عبید أن علی بن ربیعۃ کان یصلی فی رمضان خمس ترویحات ویوتر بثلاث ، ھذا الی أن الأئمۃ الأربعۃ ، رحمہم اللہ لایقولون بأقل من عشرین رکعۃ۔
فعصارۃ القول أن مِنْ عھدِ البنی صلی اللہ علیہ وسلم والصحابۃ والتابعین الی حد الاٰن یجری تعامل جمیعھم والتوارث أن التراویح عشرون رکعۃ ،کما ینص علیہ الامام النووی الشافعیؒ ’’ثم استقر الأمر علی عشرین فأنہ المتوارث ’’ ویر قم الحافظ بن الحجر الشافعی ‘‘ اجتمعت الصحابۃ علیٰ أن التراویح عشرون رکعۃ ‘‘ ویقول الامام ابن التیمیۃ ’’ہوالذی یعمل بہ اکثر المسلمین ‘‘ فلووردت التراویح بالثمانی لَمَاخالفوہ ، وفی ھذا الأوان معظم المسلمین یعملون بالعشرین فی مساجدھم بالاضافۃ الی الحرمین الشریفین ،فعُلِمَ ان التراویح انما عشرون رکعۃ ، ومذھب القائلین بالثمانی یخالف الأحادیث وتعامل الصحابۃ وسائر المسلمین ۔
العالم السلفی الاول:یاسیدی !ماتقول(متعجبا )أقولُنَا بالثمانی مخالف للأحادیث؟ فما ظنک فیما ورد فی الحدیث الثمانی ؟ وماکان جوابک عن أمرسیدنا عمرا لفاروقؓ بثمانی رکعات ؟ أھذہ کلھا أکذوبۃ مخترعۃ ؟ ۔
العالم الدیوبندی الثانی: یاأخی السلفی !اِن الحدیث المروی عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ھو فی صلاۃ التھجد،لا صلۃ لہ بالتراویح ، تدل علیہ کلمۃ الحدیث ’’ولافی غیرہ‘‘ أنھا سُءِلَتْ عن التھجد لا التراویح؛ لأن التھجد ھو یُصلیٰ طوال السنۃ رمضان کان أو غیرہ ،أما التراویح فانما ھی تؤدیٰ فی شھر رمضان فقط،وان سُلِّمَ علیٰ الفرض أن المراد بالحدیث ھی التراویح، فأیضا لا یصح أن یحد د عددھا بالثمانی،لأنہ روی عن عائشۃ رضی اللہ عنھانفسھا حدیثا اٰخروفیہ ’’کان یصلی ثلاث عشرۃ رکعۃ ‘‘بل ان تُمْعِنَ النظر فی کتب الحدیث تجد أن الروایات علیٰ خمسۃ وجوہ أربعۃ منھا ترویٰ بالأسانید القویۃ،وھی: احدی عشرۃ رکعۃ ،ثلاث عشرۃ رکعۃ ،احدی وعشرون رکعۃ ثلاث وعشرون رکعۃ ،فکیف یصح التحدید بالمثانی ؟ بالاضافۃ الیٰ أن الامام القرطبی یقول فی حدیثھا: ’’أشکلت روایات عائشۃؓ علی کثیر من أھل العلم ،حتی نسب بعضہم حدیثھا الی الا ضطراب ‘‘فلا یصح الاستدلال بھذا الحدیث۔
العالم السلفی الثانی: لکن یاسیدی ! فی حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شرح مستفیض لقولنا ولا مساغ لک أن تقول ھو یتعلق بالتھجد،لأن فیہ ذکراواضحا للتراویح وشھر رمضان ،کذٰلک حدیث عمرؓ واضح دال علی موقفنا ۔
العالم الدیوبندی الثانی:نحن نسلم ھذا القول،ولکن فی اسناد حدیث جابرؓ راوٍ یتھم بمنکر الحدیث والمتروک عند أئمۃ الجرح والتعدیل ،وقد تقررت القاعدۃ لدی الامام البخاری ’’ أن منکر الحدیث وصف فی الرجل یستحق بہ الترک لحدیثہ فلا یصح الاستدلال بہ۔
وحدیث عمرؓ اشد اضطراباً فی السند والمتن فلذا لایجوز الا ستدلال بہ، وبالجملۃ عشرون رکعۃ من التراویح ھو قدر متفق علیہ الأمۃ والأئمۃ من غیر خلاف، وصح ذالک من روایۃ سائب بن یزید عن عمرؓ ،رواہ البیھقی بالاسناد الصحیح،وفیہ کانوا یقومون علیٰ عھد عمر بن الخطابؓ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ وکذا فی عھد عثمانؓ وھذا کالاجماع وسنۃ الخلفاء الراشدین ۔
أرجو أنک تبلغ بالغ الفھم فی ضوء ماطولتُ ان التراویح عشرون رکعۃ الکلام أن التراویح عشرون رکعۃ لاالثمانی۔
العالم السلفی الاول:أخی الکریم !قبل أن تُنَبِّھَنِی کنتُ فی غفلۃ وضلالۃ ولکن ھدانی کلامُک الطویل الی ما ھو الحق وانکشف الغطاء عن عینیی والان حصحص الحق أن التراویح ھی عشرون رکعۃ دون ثمان رکعات،أنا أشکرک علیٰ کشف القناع عن ھذہ الحقیقۃ فجزاک اللہ احسن الجزاء۔
العالم السلفی الثانی:أنا أیضا کنتُ علی خطاٍ کبیرٍ، لخطا سیدی ومولای ، وما زِلْتُ قائلا بثمان رکعات ولم أزل أحرم من ثواب اثنتی عشرۃ رکعۃ ،ولکن الأن علمتُ ماھو الحقیقۃ،وأعزم ان أودی کل یو م عشرین رکعۃ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
الدیوبندی العامی: (ناظراً الی الساعۃ )ھذا أوان التراویح فتعالوالنؤدی صلاۃ التراویح کاملۃ وفق السنۃ المطہرۃ۔ 
السلفی العامی:نعم ،نعم ،کلنا نتحرک لأداء التراویح عشرین رکعۃ کاملۃ ۔
(یخرج الجمیع من البر نامج)
ھنا یجئی المؤذن ویجعل أولا الساعۃ وقت السحر ،وثم یُعْلِنُ بصوت جھوری)
أیھا السادۃ !قد حان موعد تناول السحورواأزِفَ وقتُہ ،فاستیقظوامن منا مکم وبادرواالی السحور ۔(مرتین)

حضرت اور نگ زیبؒ اور ان کے عادلانہ و مساویانہ رویے

 پسِ منظر 
حضر ت اورنگ زیب عالم گیر ؒ ،جس قدر عدل گستر ، انصاف پر ور ، انسانیت دوست ، صلح پسند اور ذات و مذہب کے تفر قے کے بغیر اپنے تمام رعایا کے در میا ن مساوات کے علم بر دارتھے ، متعصب ہندو مؤرخوں نے اتنا ہی ظالم، سفاک، خون آشام اور فرقہ پر ست ثابت کر نے کی کو ششیں کیں ، حضرت عالم گیر ؒ پر کیسی کیسی الزام تراشیا ں کی گئیں، انھیں بد نام کر نے کی سازشیں کن لو گوں نے رچیں، ان کے پیچھے ان کے کیا مقاصد کا ر فر ما تھے ؟ان تمام رازوں سے ہندوہی کے ایک حق گو مو ؤخ اکھلیش جائسوال نے مکمل پر دہ اٹھایا ہے، آپ وہاں تفصیلی مطالعہ کر سکتے ہیں ، اس مکالمے میں انھیں حوالوں سے ایک ادنیٰ جھلک پیش کی گئی ہے ،
کہا جاتا ہے کہ تنہائی انسان کو ایک سانپ کی طرح ڈستی ہے ، اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ انسان تنہا ئیو ں سے خوف و وحشت محسوس کر تا ہے اور ایسے یا رواحباب کو تلاش کر تا ہے، جن کے ساتھ کچھ ہنسی مذاق کر سکیں اور ایک دوسرے کے دکھ درداور جشن و مسر ت میں شریک ہو سکیں۔ایسے ہی احباب پر مشتمل دارالعلوم دیو بند میں ہماری ایک یو نین تھی، جو نہ صر ف اپنوں؛بلکہ دوسروں کے لیے بھی تفریحِ طبع کے سامان فراہم کر نے میں مصروفِ کار رہتی تھی ، جس میں مفتی محمد خلیق رحمانی ،مولانا احمد حسین محرم اورمولانا احسن اللہ احسن معمار کی حیثیت رکھتے تھے جب کہ راقم الحروف اس کا کنوینر تھا ، یہ یو نین دارالعلوم میں ’’ تحفظِ نامو س عشق‘‘سے مشہو ر تھی ۔ اس کا تا دمِ تحر یر دومر تبہ با ب الظاہر میں جلسہ بھی کیا گیا ، اس کے پہلے اجلاس میں ایک مکالمہ اسٹیج کیا گیا تھا ، جو بے حد پسند کیا گیا ،اسی مکالمے کو جزوی ترمیم کے بعد بز م سجاد میں پیش کیا گیا اور یہ بھی بے پنا ہ مقبول ہو ا ، اس کے ابتدائی وارتقائی حصے مولانا احمد حسین محرم کے لکھے ہو ئے ہیں ، اور اختتامی حصہ راقم الحروف کی تر تیب دی ہو ئی ہے ۔


تفصیلات 
افراد کر دار 
(۱) محمد منیر الدین ناعی (صداکار )
(۲) محمد احمد حسین بادشاہ ( اور نگ زیب ؒ )
(۳) محمد ذکر اللہ ا وزیر 
(۴) عبدالواحد غیر مسلم (مدعی ) 
(۵) محمد جہاں گیر امام مسجد (ملزم)
(۶) منہاج العابدین مفتی (ملزم)
(۷) عبدا لرحمان سکریڑی مسجد(ملزم ) 
(۸) محمد یا سین جلاّد
(۹)محمد شاہد افسر شاہی 
(۱۰) محمد زاہد افسر شاہی 


(اولاًبادشاہ کے لیے شاہی کر سی لگا ئی جاتی ہے ،بعد از اں ا س کے جاہ وحشم تخت شاہی کے اردگر د کھڑے ہوتے ہیں ، پھر بادشاہ کی آمد سے قبل ایک ناعی بہ آواز بلند یہ آواز لگا تا ہے )
منیر الدین (ناعی ): خبر دار! ہو شیا ر ! حضرت الملک ،آقائے ہند، سلطان ابو المظفرمحی الدین محمداورنگ زیب عالم گیر ادام اللہ ظلہم تشریف لارہے ہیں ۔ (یہ جملہ تین مر تبہ بہ آواز بلند دہرایا جاتاہے ۔) 
احمد:(بادشاہ آکر کر سی پر جلوہ افر وز ہو تا ہے ،پھر اپنے ساتھ آئے ہوئے خدام کو بیٹھنے کی اجازت دیتا ہے ۔)
ذکر اللہ :(وزیر ) (سر جھکائے ہو ئے بادشاہ سلامت کے رو بر و ہو کر ان سے ملزموں کو حاضر کر نے کی اجازت طلب کر تے ہو ئے کہتا ہے کہ )
جہاں پناہ عالم ! کیا ملزموں کو حاضر کر نے کی اجازت ہے ؟ ۔
احمد(بادشاہ ) :(سر کو حر کت دیتے ہوئے موٹی آواز میں) ضرور حاضر کیا جائے ۔
ذکراللہ( وزیر ): جو حکم ہو آقا! ۔
(بادشاہ کے دو افسر ان( شاہد و زاہد)ذکر اللہ (وزیر) کے اشارے پر چار ملزموں (غیر مسلم مدعی : عبدالواحد ، امام مسجد : جہاں گیر سکریٹری مسجد : عبدالرحمان اور مفتی: منہاج) کو گر فتار کیے ہو ئے بادشاہ کے سامنے لاکر حاضرکرتے ہیں ۔) 
( ملزمان سر جھکائے ہوئے بادشاہ کے سامنے جھک کر شاہی سلام بجالاتے ہیں ۔اوربادشاہ ناراضگی کا اظہار کر تے ہوئے اس غیر اسلامی سلام کر نے پر تنبیہ کر تے ہوئے کہتا ہے کہ )
تمھیں معلوم ہو نا چاہیے کہ خدا کے دربار کے علاوہ کہیں بھی سر خم کر نا جائز نہیں ۔
(وزیر سے مخاطب ہو کر ) آں جناب یاد رہے اس طرح غیر اسلامی سلام کرنے پر میرے دربار میں سخت پابندی ہے ،میر ے افسران اور دیگر آنے والے حضرات اس سلسلے میں محتاط رہیں۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): (آگے بڑھتا ہے ، اور بادشاہ سے اپنا قضیہ پیش کر نے کی اجازت طلب کرتے ہو ئے کہتا ہے کہ )بادشاہ سلامت ! اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آپ سچے پکے ایمان دار ، منصف مزاج ، صادق و عادل بادشاہ ہیں ، جس کا شہرہ بھارت کی ہر گلی کو چے میں ہے ،آں حضو ر ! ہمیں کہنے کی اجازت دی جائے ۔
احمد(بادشاہ ): (گر دن کو حر کت دیتے ہو ئے ) ٹھیک ہے تم اپنی بات کہہ سکتے ہو ۔
عبدالواحد (غیر مسلم ):جب سے آپ جیسے پاک پوتر مسلم بادشاہو ں کا اس بھارت جیسے غیر متمدن سر زمین پر سایہ پڑاہے ، ہم تمام باشندگانِ ہند ، سکون و عافیت کی زندگی گذار رہے ہیں ۔
احمد(بادشاہ ): خاموش ! تم بلا تمہید اپنا قضیہ پیش کر و ، ہم اس طرح کا مدحیہ قصیدہ ہر گز پسند نہیں کر تے ۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): حضور ! مگر آج یہ پہلا واقعہ ہے کہ لنڈھو ڑا بستی کے کچھ مسلمانوں نے اپنی مسجد تعمیر کر نے میں میری زمین کا کچھ حصہ غصب کر لیاہے ۔(یہاں ہندو خاموش ہو جاتا ہے )
احمد(بادشاہ): تم بلا خوف و تر دد اپنا بیان جاری رکھو ! تمھیں انصاف دیا جائے گا ۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): (ڈرتے ہو ئے) او ر جب میں نے اپنی زمین طلب کی، تو مسجد کے امام صاحب نے ہمیں یہ سمجھا یا کہ بادشاہ سلامت نے عام جگہو ں میں مسجد بنانے کی اجازت دے رکھی ہے۔
احمد(بادشاہ) :(غصے میں مفتی، امام مسجد اورسکریڑی سے مخاطب ہو کر کہتاہے )
کیا جو کچھ اس مدعی نے بیان دیا ہے وہ سچ ہے ؟
(ملزمان ): جی ہاں۔ (دبے لہجے میں بیک زبان ہو کر کہتے ہیں ) 
احمد(بادشاہ ):(امام صاحب سے مخاطب ہو کر ) اے بر خور دار مولوی! تم نے اس بات کی نسبتِ ناحق میری جانب کیو ں کی؟ صحیح صحیح جواب دو ۔
منہاج الدین (مفتی ) :جہاں پناہ عالم !میں نے حدیث میں پڑھا ہے کہ ’’ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ کُلُّہَا مَسَاجِدَ ‘‘کہ پوری روئے زمین کو اللہ نے امت محمدیہ کے لیے مسجد بنادی ہے ، لہذا اس کلیہ سے ہم نے یہ جزئی مسئلہ مستنبط کر لیا ۔ اور اس کی روشنی میں اس شخص کی زمین کو مسجد کے احاطے میں داخل کر لیا ۔
احمد(بادشاہ ):(مفتی صاحب سے مخاطب ہو کرکہتا ہے ) اے برخوردار ! زمان�ۂ طالب علمی میں ذر امحنت کر لیے ہو تے۔ مذکورہ حدیث میں جو پوری زمین کو مسجد بتائی گئی ہے ،وہ نفسِ نماز کی ادائیگی کے لیے ہے کہ جس جگہ بھی طہارت کی شر ط کے ساتھ نماز ادا کی جائے گی، نماز اس جگہ ہو جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ دوسروں کی زمین میں مسجد بنانے کی عام اجازت ہے، تف ہے تمھارے مبلغ علم پر!!
(بادشاہ اپنے وزیر سے ) آں جناب! آج ہی سے ا س ناقص العلم مفتی کا وظیفہ مو قوف کر دیا جائے ۔
ذکراللہ (وزیر ): ( سر تسلیم خم کر تے ہوئے ۔)جی حضور ! 
احمد (بادشاہ ):(ذرا مسکراتے ہو ئے سکریڑی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے) کہو میاں بہلول !تم نے کیا سوچا ہے؟۔
عبدالرحمان(سکریٹری):آقائے جہانِ ہند!جان کی معافی کا خواستگار ہو ں، دراصل بات یہ ہے کہ لنڈھو ڑا کے شیعہ حضرات نے بڑی شا ن داراور پر شکو ہ مسجد تعمیر کر وائی ہے اور ہم سنیوں کی مسجد ان کے سامنے بالکل پھیکی پڑ گئی ہے، تو دل نے چاہا کہ کیوں نہ ہماری مسجد ان سے بڑی اور اچھی ہو جائے، اسی لیے ہم نے تعمیرِ جدید کے پیشِ نظر رقبہ میں تو سیع کر دی تھی ۔
احمد( بادشاہ ):(سکریٹری سے) تمھیں معلوم ہو ناچاہیے کہ اسلام میں باہمی تفاخر ہر گز روانہیں ہے، اگر شیعہ حضرات نے شعائر اسلام کو بلند کیا ہے، تو اپنی زمین میں مسجد تعمیر کرکے ، مگر تم نے اپنے بر ادارنِ وطن کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا ہے۔
احمد(بادشاہ ): (مسجد کے سکریڑی سے ) بولو! میا ں بہلول ! ایسا کیوں ہوا ؟
عبدالرحمان(سکریٹری )بادشاہ سلامت ! میں نے یہ سوچا کہ حکومت اپنی ہے اور بادشاہ بھی بڑا دین دار مذہب پرست ہے ، ا س کا ر خیر کے لیے ضرور میر ی امداد کر یں گے اور اس اقدام پر میر ی ہمت افزائی بھی کریں گے ۔
احمد(بادشاہ سکریٹری سے)میا ں بہلول! یہ حکومت ہر گز ہماری یاتمھاری نہیں ہے، بادشاہت اور سلطنت خدا کی جانب سے بہت نازک اور لطیف امانت ہے ،حکومت میں ہر قوم و فر د کا یکساں حق ہو تاہے، تم نے یہ کیسے تصور کر لیا کہ حکومت تمھاری ہے ،تم جو چاہو گے وہی ہو گا، تم نے جو کیا وہ جر م ہے اور ا س جر م کی پاداش میں سخت سے سخت سزادی جائے گی، کیا تم نے فر مان خداوندی نہیں سنا؟ اَلْوِلَایَۃُ لِلّٰہِ الْحَقِّ کہ سلطنت و بادشاہت صر ف اورصر ف خدائے وحدہ لاشریک لہ کے لیے ہے ، یقیناًتم نے تعصبانہ نظریہ قائم کیا ہے ۔
(بادشاہ اپنے وزیر سے ) آں جناب بلا پس و پیش جلاد کو حاضر کیا جائے ۔
ذکر اللہ (وزیر ): جو حکم ہو جلالۃ الملک ! جلاد حاضر ہو ، جلاد حاضر ہو ، جلاد حاضر ہو ۔ 
محمد یاسین ( جلاد )( اپنی خاص ہیئت قضائی میں )کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ، فر ما ئیے جہاں پناہ! کیا حکم ہے ؟کس کا سر قلم کیا جائے ؟ کسے سولی پر چڑھایا جائے؟ اور کس کی پشت پر کو ڑے داغے جائیں ؟
احمد(بادشاہ ): ( جلاد سے ) ان تینوں مسلمانوں نے آج اپنی کج فہمی اور غلط اقدام کے ذریعے قر بِ الہی حاصل کر نا چاہا ، مگر خلائقِ خدا کو تکلیف پہونچا کر خو دکو اس کی ناراضگی اور عتاب کا ھدف بنایا ہے او ر سلطنتِ مغلیہ کے دامن کو داغ دار کیا ہے ، سکریٹری کو بر سرِ محفل حقوق تلفی کی سزا میں سو کوڑے لگائے جائیں اور امام چوں کہ ہمارے دینی پیشوا ہیں، اس لیے ان دونوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہو ئے وظیفہ نصف گھٹا دیا جائے اور حکم کی جلدی تعمیل کی جائے۔
(بادشاہ غیر مسلم سے ) اے برادروطن ! اسلام دنیا میں انسانوں کو ان کا حق دلانے کے لیے آیا ہے نہ کہ ان کے حقوق کو پا مال کر نے کے لیے، گذشتہ ہفتہ ہی ہم نے مر ہٹوں کو ا ن کی سر کشی او ران کے انسانیت کش منفی اقدام پر زبردست تادیب کی ہے او ران کی منصو بہ بند سازشوں پر ہمیشہ کے لیے بند باندھا ہے، یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ ان شر پسندوں نے جن جن مقامات کو حکومت کے خلاف سازش کر نے کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا تھا ، ہم نے ان کو زمین بو س کر دیا ہے ،خواہ وہ متھرا اوربنارس کی مندر ہو ں یا بیجہ پو ر اور گول کنڈہ کی مسجدیں ۔اسلام عبادت گاہو ں کے تقدس کی حفاظت کر تاہے اور شر انگیز عمارت خواہ کسی بھی شکل میں ہو، ڈھا دیتا ہے ۔
احمد(بادشاہ):(مفتی سے مخاطب ہو کر ) کیا عہد اسلام میں اس کی مثال موجود ہے ؟ ۔
منہاج(مفتی ): حضور میر ا مطالعہ زیادہ تو وسیع نہیں ہے، آپ خود عالم دین ہیں ۔
احمد(بادشاہ ):کچھ بھی یاد ہو تو بتاؤ، یہ تمھارا امتحان ہے ۔
منہاج(مفتی ) مجھے مسجد ضرار کا کچھ کچھ واقعہ یا دآرہا ہے ۔مسجد میں حکومت کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں ،تو اسلام نے اسے منہدم کر دیا ۔
احمد(بادشاہ ): ( وزیر سے ) بالکل صحیح کہا اس نے ۔ (غیر مسلم سے مخاطب ہو کر ) سنا تم نے اسلام کا یہ ایک گوشہ ہے جو اتنا روشن و تا بناک ہے؛ مگر اے برادر وطن ! تم سے یہ ادنیٰ درخو است ہے کہ جب مسجد کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، تو برا ئے کرم تم حکو مت سے اپنی زمین کا معاوضہ لے کر وہ زمین مسجد کو دے دو ۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): نہیں حضور! میں اس زر خیز زمین کو ہر گز فروخت نہیں کر سکتا ۔
احمد(بادشاہ ): تمھیں معلوم ہو گا کہ ہم الہ آباد ،بنارس ،چتر کو رٹ، گوہاٹی وغیرہ میں تمھارے جذبے کی قدر کرتے ہو ئے بے شمار منادر تعمیر کر وائے ہیں، ہم ہندستان سے قومی تفریق کو ختم کر نا چاہتے ہیں اور اپنی رعایا میں سے ہر ایک کو بلاتفریق مذہب و ملت یکساں نگاہ سے دیکھتے ہیں، اپنے ایشور کے واسطے یہ زمین انھیں مسجد کے واسطے دے دواور اس سے عمدہ زمین مجھ سے لے لو۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): نہیں جہاں پناہ نہیں ؛کیوں کہ میر ے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، اور ایک بو ڑھی بیوی ہے، میرے گھر میں کو ئی کمانے والا نہیں ہے ، بس جو کچھ ذریعہ ہے، وہ صر ف یہی زمین ہے ، اس لیے یہ زمین ہم آپ کو نہیں دے سکتے ۔
احمد( بادشاہ ):اگرچہ میں اس سے بہتر زمین اور زیادہ پیداوار کی صلاحیت والی زمین تمھیں دینے کا ارادہ ہے؛ لیکن جب تم نہیں ما ن رہے ہو، تو چلو کو ئی بات نہیں؛ کیو ں کہ وہ زمین تمھاری ملکیت میں ہے جس پر میرا کو ئی اختیار نہیں چل سکتا۔ اس لیے سکریڑی ! میں تمھیں حکم دیتاہو ں کہ تم اس کی زمین ا س کے حوالے کر دو۔اور وزیر ! شاہی خزانے سے اس غریب کے روز مر ہ کے اخراجات کے حساب سے وظیفے جاری کر دو اورسکریٹری کو سو کو ڑ ے لگا ؤ ۔
ذکر اللہ(وزیر )! جیسا حکم ہو آقا ۔
محمد یاسین (جلاد) : ( کوڑے لگاتے ہو ئے ) دس ، بیس ، تیس ، چالیس ، پچاس ، ساٹھ ، ستر ، اناسی ، اسی ،سو ۔
جہاں گیر(امام): جہاں پناہ !مہنگائی روز بر وز بڑھتی جارہی ہے اور بال بچے کی طرح اخراجات بھی روزانہ بڑھ رہے ہیں، اس لیے ہمارے وظیفے نہ گھٹائے جائیں،بلکہ کم از کم سابقہ مقدارباقی رکھی جائے ۔امید ہے کہ آں حضور اپنے فیض سے ہماری درخواست قبو ل فر مائیں گے ۔
احمد(بادشاہ) : چلو ہم تمھاری ضرورت کے پیشِ نظر اپنا سابقہ حکم منسوخ کرتے ہیں ، لیکن عدل و انصاف کو بر قرار رکھنا ہمارا دینی فریضہ ہے ، اس لیے تمھیں کوئی سزا ضرور بھگتنی پڑے گی ۔ ا س لیے کم از کم تین مہینے کاتمھارا وظیفہ مو قوف کیا جاتا ہے ۔ 
(بادشاہ غیر مسلم سے ) اب تو تمھیں مکمل انصاف مل گیا ۔اب تو کسی قسم کی کوئی شکایت باقی نہیں ؟ 
عبدالواحد(غیر مسلم ): حضور ! میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک مسلم بادشاہ غیر مسلم کو اتنا انصاف دے سکتا ہے ، اتنا تو ہمارا کوئی غیر مسلم بادشاہ بھی انصاف نہ دلاتا ۔ جہاں پناہ ! ہم آپ کے فیصلے سے پر سن ہوئے ، آپ کا بہت بہت دھن واد ، شکریہ ، تھینکیو۔
احمد(بادشاہ) : یہ اسلامی عدالت ہے ، یہاں قرآن و حدیث کے فیصلے کو بالادستی حاصل ہے ، اس لیے مجر م خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو ، ا س کو ا س کے ظلم کی سزا ضرور ملے گی ، اس سلسلے میں ذات پات اور مذہب و اعتقاد نہ سفارش کر سکتے ہیں اور نہ ہی جان بخشی ، ہمارے دربار میں سب برابر ہیں۔
آج یہ دربار یہی ختم کیا جاتاہے ، لیکن یہ یا در ہے کہ یہ دربار روز سجے گا اور روز مظلومو ں کی فریا د رسی کی جائے گی۔
منیر الدین (ناعی ): ہو شیا ر ! خبر دار! ہو ش باش ! بادشا ہِ سلامت ، حضرت الملک ، آقائے ہند، سلطان ابوالمظفرمحی الدین محمد اورنگ زیب عالم گیر ادام ظلہ واپس تشریف لے جارہے ہیں ۔