پسِ منظر
حضر ت اورنگ زیب عالم گیر ؒ ،جس قدر عدل گستر ، انصاف پر ور ، انسانیت دوست ، صلح پسند اور ذات و مذہب کے تفر قے کے بغیر اپنے تمام رعایا کے در میا ن مساوات کے علم بر دارتھے ، متعصب ہندو مؤرخوں نے اتنا ہی ظالم، سفاک، خون آشام اور فرقہ پر ست ثابت کر نے کی کو ششیں کیں ، حضرت عالم گیر ؒ پر کیسی کیسی الزام تراشیا ں کی گئیں، انھیں بد نام کر نے کی سازشیں کن لو گوں نے رچیں، ان کے پیچھے ان کے کیا مقاصد کا ر فر ما تھے ؟ان تمام رازوں سے ہندوہی کے ایک حق گو مو ؤخ اکھلیش جائسوال نے مکمل پر دہ اٹھایا ہے، آپ وہاں تفصیلی مطالعہ کر سکتے ہیں ، اس مکالمے میں انھیں حوالوں سے ایک ادنیٰ جھلک پیش کی گئی ہے ،
کہا جاتا ہے کہ تنہائی انسان کو ایک سانپ کی طرح ڈستی ہے ، اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ انسان تنہا ئیو ں سے خوف و وحشت محسوس کر تا ہے اور ایسے یا رواحباب کو تلاش کر تا ہے، جن کے ساتھ کچھ ہنسی مذاق کر سکیں اور ایک دوسرے کے دکھ درداور جشن و مسر ت میں شریک ہو سکیں۔ایسے ہی احباب پر مشتمل دارالعلوم دیو بند میں ہماری ایک یو نین تھی، جو نہ صر ف اپنوں؛بلکہ دوسروں کے لیے بھی تفریحِ طبع کے سامان فراہم کر نے میں مصروفِ کار رہتی تھی ، جس میں مفتی محمد خلیق رحمانی ،مولانا احمد حسین محرم اورمولانا احسن اللہ احسن معمار کی حیثیت رکھتے تھے جب کہ راقم الحروف اس کا کنوینر تھا ، یہ یو نین دارالعلوم میں ’’ تحفظِ نامو س عشق‘‘سے مشہو ر تھی ۔ اس کا تا دمِ تحر یر دومر تبہ با ب الظاہر میں جلسہ بھی کیا گیا ، اس کے پہلے اجلاس میں ایک مکالمہ اسٹیج کیا گیا تھا ، جو بے حد پسند کیا گیا ،اسی مکالمے کو جزوی ترمیم کے بعد بز م سجاد میں پیش کیا گیا اور یہ بھی بے پنا ہ مقبول ہو ا ، اس کے ابتدائی وارتقائی حصے مولانا احمد حسین محرم کے لکھے ہو ئے ہیں ، اور اختتامی حصہ راقم الحروف کی تر تیب دی ہو ئی ہے ۔
تفصیلات
افراد کر دار
(۱) محمد منیر الدین ناعی (صداکار )
(۲) محمد احمد حسین بادشاہ ( اور نگ زیب ؒ )
(۳) محمد ذکر اللہ ا وزیر
(۴) عبدالواحد غیر مسلم (مدعی )
(۵) محمد جہاں گیر امام مسجد (ملزم)
(۶) منہاج العابدین مفتی (ملزم)
(۷) عبدا لرحمان سکریڑی مسجد(ملزم )
(۸) محمد یا سین جلاّد
(۹)محمد شاہد افسر شاہی
(۱۰) محمد زاہد افسر شاہی
(اولاًبادشاہ کے لیے شاہی کر سی لگا ئی جاتی ہے ،بعد از اں ا س کے جاہ وحشم تخت شاہی کے اردگر د کھڑے ہوتے ہیں ، پھر بادشاہ کی آمد سے قبل ایک ناعی بہ آواز بلند یہ آواز لگا تا ہے )
منیر الدین (ناعی ): خبر دار! ہو شیا ر ! حضرت الملک ،آقائے ہند، سلطان ابو المظفرمحی الدین محمداورنگ زیب عالم گیر ادام اللہ ظلہم تشریف لارہے ہیں ۔ (یہ جملہ تین مر تبہ بہ آواز بلند دہرایا جاتاہے ۔)
احمد:(بادشاہ آکر کر سی پر جلوہ افر وز ہو تا ہے ،پھر اپنے ساتھ آئے ہوئے خدام کو بیٹھنے کی اجازت دیتا ہے ۔)
ذکر اللہ :(وزیر ) (سر جھکائے ہو ئے بادشاہ سلامت کے رو بر و ہو کر ان سے ملزموں کو حاضر کر نے کی اجازت طلب کر تے ہو ئے کہتا ہے کہ )
جہاں پناہ عالم ! کیا ملزموں کو حاضر کر نے کی اجازت ہے ؟ ۔
احمد(بادشاہ ) :(سر کو حر کت دیتے ہوئے موٹی آواز میں) ضرور حاضر کیا جائے ۔
ذکراللہ( وزیر ): جو حکم ہو آقا! ۔
(بادشاہ کے دو افسر ان( شاہد و زاہد)ذکر اللہ (وزیر) کے اشارے پر چار ملزموں (غیر مسلم مدعی : عبدالواحد ، امام مسجد : جہاں گیر سکریٹری مسجد : عبدالرحمان اور مفتی: منہاج) کو گر فتار کیے ہو ئے بادشاہ کے سامنے لاکر حاضرکرتے ہیں ۔)
( ملزمان سر جھکائے ہوئے بادشاہ کے سامنے جھک کر شاہی سلام بجالاتے ہیں ۔اوربادشاہ ناراضگی کا اظہار کر تے ہوئے اس غیر اسلامی سلام کر نے پر تنبیہ کر تے ہوئے کہتا ہے کہ )
تمھیں معلوم ہو نا چاہیے کہ خدا کے دربار کے علاوہ کہیں بھی سر خم کر نا جائز نہیں ۔
(وزیر سے مخاطب ہو کر ) آں جناب یاد رہے اس طرح غیر اسلامی سلام کرنے پر میرے دربار میں سخت پابندی ہے ،میر ے افسران اور دیگر آنے والے حضرات اس سلسلے میں محتاط رہیں۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): (آگے بڑھتا ہے ، اور بادشاہ سے اپنا قضیہ پیش کر نے کی اجازت طلب کرتے ہو ئے کہتا ہے کہ )بادشاہ سلامت ! اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آپ سچے پکے ایمان دار ، منصف مزاج ، صادق و عادل بادشاہ ہیں ، جس کا شہرہ بھارت کی ہر گلی کو چے میں ہے ،آں حضو ر ! ہمیں کہنے کی اجازت دی جائے ۔
احمد(بادشاہ ): (گر دن کو حر کت دیتے ہو ئے ) ٹھیک ہے تم اپنی بات کہہ سکتے ہو ۔
عبدالواحد (غیر مسلم ):جب سے آپ جیسے پاک پوتر مسلم بادشاہو ں کا اس بھارت جیسے غیر متمدن سر زمین پر سایہ پڑاہے ، ہم تمام باشندگانِ ہند ، سکون و عافیت کی زندگی گذار رہے ہیں ۔
احمد(بادشاہ ): خاموش ! تم بلا تمہید اپنا قضیہ پیش کر و ، ہم اس طرح کا مدحیہ قصیدہ ہر گز پسند نہیں کر تے ۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): حضور ! مگر آج یہ پہلا واقعہ ہے کہ لنڈھو ڑا بستی کے کچھ مسلمانوں نے اپنی مسجد تعمیر کر نے میں میری زمین کا کچھ حصہ غصب کر لیاہے ۔(یہاں ہندو خاموش ہو جاتا ہے )
احمد(بادشاہ): تم بلا خوف و تر دد اپنا بیان جاری رکھو ! تمھیں انصاف دیا جائے گا ۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): (ڈرتے ہو ئے) او ر جب میں نے اپنی زمین طلب کی، تو مسجد کے امام صاحب نے ہمیں یہ سمجھا یا کہ بادشاہ سلامت نے عام جگہو ں میں مسجد بنانے کی اجازت دے رکھی ہے۔
احمد(بادشاہ) :(غصے میں مفتی، امام مسجد اورسکریڑی سے مخاطب ہو کر کہتاہے )
کیا جو کچھ اس مدعی نے بیان دیا ہے وہ سچ ہے ؟
(ملزمان ): جی ہاں۔ (دبے لہجے میں بیک زبان ہو کر کہتے ہیں )
احمد(بادشاہ ):(امام صاحب سے مخاطب ہو کر ) اے بر خور دار مولوی! تم نے اس بات کی نسبتِ ناحق میری جانب کیو ں کی؟ صحیح صحیح جواب دو ۔
منہاج الدین (مفتی ) :جہاں پناہ عالم !میں نے حدیث میں پڑھا ہے کہ ’’ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ کُلُّہَا مَسَاجِدَ ‘‘کہ پوری روئے زمین کو اللہ نے امت محمدیہ کے لیے مسجد بنادی ہے ، لہذا اس کلیہ سے ہم نے یہ جزئی مسئلہ مستنبط کر لیا ۔ اور اس کی روشنی میں اس شخص کی زمین کو مسجد کے احاطے میں داخل کر لیا ۔
احمد(بادشاہ ):(مفتی صاحب سے مخاطب ہو کرکہتا ہے ) اے برخوردار ! زمان�ۂ طالب علمی میں ذر امحنت کر لیے ہو تے۔ مذکورہ حدیث میں جو پوری زمین کو مسجد بتائی گئی ہے ،وہ نفسِ نماز کی ادائیگی کے لیے ہے کہ جس جگہ بھی طہارت کی شر ط کے ساتھ نماز ادا کی جائے گی، نماز اس جگہ ہو جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ دوسروں کی زمین میں مسجد بنانے کی عام اجازت ہے، تف ہے تمھارے مبلغ علم پر!!
(بادشاہ اپنے وزیر سے ) آں جناب! آج ہی سے ا س ناقص العلم مفتی کا وظیفہ مو قوف کر دیا جائے ۔
ذکراللہ (وزیر ): ( سر تسلیم خم کر تے ہوئے ۔)جی حضور !
احمد (بادشاہ ):(ذرا مسکراتے ہو ئے سکریڑی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے) کہو میاں بہلول !تم نے کیا سوچا ہے؟۔
عبدالرحمان(سکریٹری):آقائے جہانِ ہند!جان کی معافی کا خواستگار ہو ں، دراصل بات یہ ہے کہ لنڈھو ڑا کے شیعہ حضرات نے بڑی شا ن داراور پر شکو ہ مسجد تعمیر کر وائی ہے اور ہم سنیوں کی مسجد ان کے سامنے بالکل پھیکی پڑ گئی ہے، تو دل نے چاہا کہ کیوں نہ ہماری مسجد ان سے بڑی اور اچھی ہو جائے، اسی لیے ہم نے تعمیرِ جدید کے پیشِ نظر رقبہ میں تو سیع کر دی تھی ۔
احمد( بادشاہ ):(سکریٹری سے) تمھیں معلوم ہو ناچاہیے کہ اسلام میں باہمی تفاخر ہر گز روانہیں ہے، اگر شیعہ حضرات نے شعائر اسلام کو بلند کیا ہے، تو اپنی زمین میں مسجد تعمیر کرکے ، مگر تم نے اپنے بر ادارنِ وطن کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا ہے۔
احمد(بادشاہ ): (مسجد کے سکریڑی سے ) بولو! میا ں بہلول ! ایسا کیوں ہوا ؟
عبدالرحمان(سکریٹری )بادشاہ سلامت ! میں نے یہ سوچا کہ حکومت اپنی ہے اور بادشاہ بھی بڑا دین دار مذہب پرست ہے ، ا س کا ر خیر کے لیے ضرور میر ی امداد کر یں گے اور اس اقدام پر میر ی ہمت افزائی بھی کریں گے ۔
احمد(بادشاہ سکریٹری سے)میا ں بہلول! یہ حکومت ہر گز ہماری یاتمھاری نہیں ہے، بادشاہت اور سلطنت خدا کی جانب سے بہت نازک اور لطیف امانت ہے ،حکومت میں ہر قوم و فر د کا یکساں حق ہو تاہے، تم نے یہ کیسے تصور کر لیا کہ حکومت تمھاری ہے ،تم جو چاہو گے وہی ہو گا، تم نے جو کیا وہ جر م ہے اور ا س جر م کی پاداش میں سخت سے سخت سزادی جائے گی، کیا تم نے فر مان خداوندی نہیں سنا؟ اَلْوِلَایَۃُ لِلّٰہِ الْحَقِّ کہ سلطنت و بادشاہت صر ف اورصر ف خدائے وحدہ لاشریک لہ کے لیے ہے ، یقیناًتم نے تعصبانہ نظریہ قائم کیا ہے ۔
(بادشاہ اپنے وزیر سے ) آں جناب بلا پس و پیش جلاد کو حاضر کیا جائے ۔
ذکر اللہ (وزیر ): جو حکم ہو جلالۃ الملک ! جلاد حاضر ہو ، جلاد حاضر ہو ، جلاد حاضر ہو ۔
محمد یاسین ( جلاد )( اپنی خاص ہیئت قضائی میں )کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ، فر ما ئیے جہاں پناہ! کیا حکم ہے ؟کس کا سر قلم کیا جائے ؟ کسے سولی پر چڑھایا جائے؟ اور کس کی پشت پر کو ڑے داغے جائیں ؟
احمد(بادشاہ ): ( جلاد سے ) ان تینوں مسلمانوں نے آج اپنی کج فہمی اور غلط اقدام کے ذریعے قر بِ الہی حاصل کر نا چاہا ، مگر خلائقِ خدا کو تکلیف پہونچا کر خو دکو اس کی ناراضگی اور عتاب کا ھدف بنایا ہے او ر سلطنتِ مغلیہ کے دامن کو داغ دار کیا ہے ، سکریٹری کو بر سرِ محفل حقوق تلفی کی سزا میں سو کوڑے لگائے جائیں اور امام چوں کہ ہمارے دینی پیشوا ہیں، اس لیے ان دونوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہو ئے وظیفہ نصف گھٹا دیا جائے اور حکم کی جلدی تعمیل کی جائے۔
(بادشاہ غیر مسلم سے ) اے برادروطن ! اسلام دنیا میں انسانوں کو ان کا حق دلانے کے لیے آیا ہے نہ کہ ان کے حقوق کو پا مال کر نے کے لیے، گذشتہ ہفتہ ہی ہم نے مر ہٹوں کو ا ن کی سر کشی او ران کے انسانیت کش منفی اقدام پر زبردست تادیب کی ہے او ران کی منصو بہ بند سازشوں پر ہمیشہ کے لیے بند باندھا ہے، یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ ان شر پسندوں نے جن جن مقامات کو حکومت کے خلاف سازش کر نے کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا تھا ، ہم نے ان کو زمین بو س کر دیا ہے ،خواہ وہ متھرا اوربنارس کی مندر ہو ں یا بیجہ پو ر اور گول کنڈہ کی مسجدیں ۔اسلام عبادت گاہو ں کے تقدس کی حفاظت کر تاہے اور شر انگیز عمارت خواہ کسی بھی شکل میں ہو، ڈھا دیتا ہے ۔
احمد(بادشاہ):(مفتی سے مخاطب ہو کر ) کیا عہد اسلام میں اس کی مثال موجود ہے ؟ ۔
منہاج(مفتی ): حضور میر ا مطالعہ زیادہ تو وسیع نہیں ہے، آپ خود عالم دین ہیں ۔
احمد(بادشاہ ):کچھ بھی یاد ہو تو بتاؤ، یہ تمھارا امتحان ہے ۔
منہاج(مفتی ) مجھے مسجد ضرار کا کچھ کچھ واقعہ یا دآرہا ہے ۔مسجد میں حکومت کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں ،تو اسلام نے اسے منہدم کر دیا ۔
احمد(بادشاہ ): ( وزیر سے ) بالکل صحیح کہا اس نے ۔ (غیر مسلم سے مخاطب ہو کر ) سنا تم نے اسلام کا یہ ایک گوشہ ہے جو اتنا روشن و تا بناک ہے؛ مگر اے برادر وطن ! تم سے یہ ادنیٰ درخو است ہے کہ جب مسجد کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، تو برا ئے کرم تم حکو مت سے اپنی زمین کا معاوضہ لے کر وہ زمین مسجد کو دے دو ۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): نہیں حضور! میں اس زر خیز زمین کو ہر گز فروخت نہیں کر سکتا ۔
احمد(بادشاہ ): تمھیں معلوم ہو گا کہ ہم الہ آباد ،بنارس ،چتر کو رٹ، گوہاٹی وغیرہ میں تمھارے جذبے کی قدر کرتے ہو ئے بے شمار منادر تعمیر کر وائے ہیں، ہم ہندستان سے قومی تفریق کو ختم کر نا چاہتے ہیں اور اپنی رعایا میں سے ہر ایک کو بلاتفریق مذہب و ملت یکساں نگاہ سے دیکھتے ہیں، اپنے ایشور کے واسطے یہ زمین انھیں مسجد کے واسطے دے دواور اس سے عمدہ زمین مجھ سے لے لو۔
عبدالواحد (غیر مسلم ): نہیں جہاں پناہ نہیں ؛کیوں کہ میر ے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، اور ایک بو ڑھی بیوی ہے، میرے گھر میں کو ئی کمانے والا نہیں ہے ، بس جو کچھ ذریعہ ہے، وہ صر ف یہی زمین ہے ، اس لیے یہ زمین ہم آپ کو نہیں دے سکتے ۔
احمد( بادشاہ ):اگرچہ میں اس سے بہتر زمین اور زیادہ پیداوار کی صلاحیت والی زمین تمھیں دینے کا ارادہ ہے؛ لیکن جب تم نہیں ما ن رہے ہو، تو چلو کو ئی بات نہیں؛ کیو ں کہ وہ زمین تمھاری ملکیت میں ہے جس پر میرا کو ئی اختیار نہیں چل سکتا۔ اس لیے سکریڑی ! میں تمھیں حکم دیتاہو ں کہ تم اس کی زمین ا س کے حوالے کر دو۔اور وزیر ! شاہی خزانے سے اس غریب کے روز مر ہ کے اخراجات کے حساب سے وظیفے جاری کر دو اورسکریٹری کو سو کو ڑ ے لگا ؤ ۔
ذکر اللہ(وزیر )! جیسا حکم ہو آقا ۔
محمد یاسین (جلاد) : ( کوڑے لگاتے ہو ئے ) دس ، بیس ، تیس ، چالیس ، پچاس ، ساٹھ ، ستر ، اناسی ، اسی ،سو ۔
جہاں گیر(امام): جہاں پناہ !مہنگائی روز بر وز بڑھتی جارہی ہے اور بال بچے کی طرح اخراجات بھی روزانہ بڑھ رہے ہیں، اس لیے ہمارے وظیفے نہ گھٹائے جائیں،بلکہ کم از کم سابقہ مقدارباقی رکھی جائے ۔امید ہے کہ آں حضور اپنے فیض سے ہماری درخواست قبو ل فر مائیں گے ۔
احمد(بادشاہ) : چلو ہم تمھاری ضرورت کے پیشِ نظر اپنا سابقہ حکم منسوخ کرتے ہیں ، لیکن عدل و انصاف کو بر قرار رکھنا ہمارا دینی فریضہ ہے ، اس لیے تمھیں کوئی سزا ضرور بھگتنی پڑے گی ۔ ا س لیے کم از کم تین مہینے کاتمھارا وظیفہ مو قوف کیا جاتا ہے ۔
(بادشاہ غیر مسلم سے ) اب تو تمھیں مکمل انصاف مل گیا ۔اب تو کسی قسم کی کوئی شکایت باقی نہیں ؟
عبدالواحد(غیر مسلم ): حضور ! میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک مسلم بادشاہ غیر مسلم کو اتنا انصاف دے سکتا ہے ، اتنا تو ہمارا کوئی غیر مسلم بادشاہ بھی انصاف نہ دلاتا ۔ جہاں پناہ ! ہم آپ کے فیصلے سے پر سن ہوئے ، آپ کا بہت بہت دھن واد ، شکریہ ، تھینکیو۔
احمد(بادشاہ) : یہ اسلامی عدالت ہے ، یہاں قرآن و حدیث کے فیصلے کو بالادستی حاصل ہے ، اس لیے مجر م خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو ، ا س کو ا س کے ظلم کی سزا ضرور ملے گی ، اس سلسلے میں ذات پات اور مذہب و اعتقاد نہ سفارش کر سکتے ہیں اور نہ ہی جان بخشی ، ہمارے دربار میں سب برابر ہیں۔
آج یہ دربار یہی ختم کیا جاتاہے ، لیکن یہ یا در ہے کہ یہ دربار روز سجے گا اور روز مظلومو ں کی فریا د رسی کی جائے گی۔
منیر الدین (ناعی ): ہو شیا ر ! خبر دار! ہو ش باش ! بادشا ہِ سلامت ، حضرت الملک ، آقائے ہند، سلطان ابوالمظفرمحی الدین محمد اورنگ زیب عالم گیر ادام ظلہ واپس تشریف لے جارہے ہیں ۔