2 Apr 2018

شر ک و بدعت کے قلع قمع کر نے اور سوسائٹی کی اصلاح میں علمائے دیو بند کے کارنامے

پسِ منظر 
یہ مکالمہ دراصل اس سے پہلے کے مکالمے کی بے پنا ہ مقبو لیت کی دَین ہے ، جس کی وجہ سے دو بارہ ’’ النا دی العربی ‘‘ کے اختتامی پر وگرام کے لیے لکھنے کا حکم دیا گیا، چنا نچہ حضرت الاستاذ جناب مولانا شو کت صاحب بستو ی مد ظلہ العالی جنرل سکریڑی رابطۂ مدارسِ اسلامیہ و مشر فِ عام انجمن النادی العربی و استاذ عر بی ادب دارالعلوم دیو بند کے حکم پر لکھا گیا اور ’’ النا دی العر بی ‘‘ کے اختتامی پروگرام میں اسٹیج کیا گیا ۔چو ں کہ اس کے مو ضو ع کی ہمہ گیر یت کی وجہ سے علمائے دیو بند کے کارنامو ں کا مکمل و مفصل احاطہ و تجزیہ پیش کر نا ، مکالمے کی نزاکت بر قرار رکھتے ہو ئے اور اس کے اسٹیج کیے جانے کے لیے مختص مختصروقت میں نا ممکن تھا ، اس لیے پلاٹ میں چند پہلو و ں کو ہی اور وہ بھی صرف ’ ’ مشتے نمونے از خروارے ‘‘ کے طو رپر پیش کیا گیاہے ۔ اسی وجہ سے مکالمہ اپنی تشنگی کا شکوہ کنا ں ہے ، تا ہم پہلے کی طرح اسے بھی محبو بیت کی نگاہ سے دیکھا او رسنا گیا، جس کا اردو تر جمہ پیش ہے ۔اس میں مقامات اورتاریخی ہستیوں کے نام تاریخی واقعے کی منظر کشی کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں۔

تفصیلات 
افراد کر دار 
(۱)محمد اکرم سکریڑی ملکہ وکٹوریہ 
(۲)محمد مستقیم باللہ بر طانوی ممبر پارلیمنٹ 
(۳)آفتاب عالم بر طانوی ممبر پارلیمنٹ 
(۴)عبد الجلیل بر طانوی ممبر پارلیمنٹ 
(۵)محمد مصطفی پادری فنڈر 
(۶)محمد ازہر ایک عام مسلمان 
(۷)حبیب اللہ مولا نا نانوتوی ؒ (دیوبند ی) 
(۸)محمد زاہد پا دری محی الدین 
(۹)محمد نظام الدین پادری اسکاٹ 
(۱۰)محمد تفصیل پادری نو لس 
(۱۱)محمد خلیق مولانا ابو المنصور (دیوبند ی ) 
(۱۲) عبد الواحد مولانا غلام دستگیر (بر یلوی )
(۱۳) محمد احمد مولوی حشمت علی (بر یلوی ) 
(۱۴) محمد خالد مولوی نعیم الدین (بر یلوی )
(۱۵)محمد شوکت مولوی سر دار علی خان (بر یلوی )
(۱۶)سراج الدین مولانا محمدمنظور نعمانی (دیو بندی )
(۱۷)محمد قاسم مولانا عبداللطیف (دیوبندی ) 



(بر طانوی پارلیمنٹ کی ہنگامی میٹنگ )
اکرم (سکریڑی ملکہ وکٹوریہ) : شر کا ئے میٹنگ !ہم سب کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبر ی ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم نے سلطنتِ مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر کے رنگون بھیج دیا ہے ، اب ہندستان پر ہمارا مکمل قبضہ ہوچکا ہے ،اس لیے آج ہم انتہا ئی فخر کے ساتھ یہ اعلان کر تے ہیں ،کہ ’’خلق اللہ کی، ملک بادشاہ کا اور حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی ‘‘ لیکن ہمیں ابھی تک یہ خدشہ ہے کہ کہیں مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر ہمارے خلاف علمِ بغاوت نہ بلند کردیں او رہمارا سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے ۔ اس لیے ہندستان پر دائمی قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کیا جائے ؟ اسی مسئلے پر غور کر نے کے لیے یہ ہنگامی میٹنگ بلائی گئی ہے ، تو اس میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟ 
مستقیم (بر طانوی ممبر پارلیمنٹ ):میری رائے یہ ہے کہ تمام ہندستانی مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنا دیا جائے او رجو بھی دینِ مسیحیت قبول کرنے سے انکار کرے ، اس کو یا تو قید کر دیا جائے یا پھر سر ہی قلم کر دیا جائے ۔ اسی طر ح وہاں کے ہندوں کوخصوصی مر اعات دے کر مسلمانو ں کے خلاف استعمال کیا جائے ۔ 
آفتاب عالم (ممبر پارلیمنٹ ):میں اپنے دوست کی رائے سے بالکل متفق ہو ں ،لیکن اس کا تعلق صر ف خارجی سازش سے ہے ، جس سے اپنے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی ملنے کی امید نہیں کی جاسکتی ، اس لیے اس کے ساتھ ساتھ داخلی سازش کا جال بچھانا بھی ضروری ہے اور اس کی صور ت یہ ہوگی کہ چو ں کہ ہندستانی،نفسیاتی طو رپر عقیدت کے محکو م اور اسلاف پر ست ہو تے ہیں، اس لیے انھیں اس جال میں بھی پھساناپڑ ے گا ، جیسے ہم مرزا غلام احمد قادیا نی کوجھوٹا نبی بنا کر کھڑاکر دیں گے ، اس کافائدہ کم از کم اتنا تو ضرور ہو گاکہ اگر مسیحیت قبو ل نہیں کر یں گے ، تو ا س ہمارے بھیجے ہو ئے نبی کے دامِ فریب میں ضرور آجائیں گے اور اس طرح وہ اپنے دین وایمان سے ہا تھ دھوبیٹھیں گے ۔
عبدالجلیل (ممبر پارلیمنٹ ):یہ تمام مشورے اپنی جگہ ٹھیک ہیں ؛ لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مزید دیگر فتنے بھی کھڑے کیے جائیں ،جیسے ، فتنۂ شیعیت ، فتنۂ بر یلویت ، غیر اسلامی رسم ورواج کا فر وغ وغیرہ وغیرہ ، کیو ں کہ اگر وہ ایک فتنے کے جھانسے میں نہیں آئیں گے ، تو دوسرے کسی میں ضرور آجائیں گے ۔نیز ہمیں یہ بات بھی فرامو ش نہیں کر نی چاہیے کہ ہندستانی مسلمان اپنے ملاؤں ، بالخصوص دیو بند ی علما کی باتو ں پر اپنی جان جاں آفریں کے سپر د کرنے میں ذرا بھی با ک محسوس نہیں کر تے ، اس لیے ان ملاؤں بطور خاص دیوبندیو ں سے یہاں کی عوام کو متنفر کرنا اپنے مقصد میں مکمل کام یا بی حاصل کر نے کے لیے ضروری ہے ۔
محمد اکرم (سکریڑی ملکہ وکٹوریہ):(تھوڑی دیرکچھ لکھنے کے بعد ) آج مؤرخہ ۔۔۔۔۔۔ برطانوی پارلیمنٹ کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی ،جس میں ہندستان میں اپنی حکمرانی بر قرار اور وہا ں کے مسلمانو ں کو عیسائی بنانے یا گمراہ کر نے کے حوالے سے غور و خوض کیا گیا ، تمام ممبر ان سے صلاح و مشورے کے بعد بہ اتفاق رائے درجہ ذیل تجاویز پا س کی گئیں :
تجویز(۱) :ہندستان میں خارجی فتنے پھیلائے جائیں ۔
تجویز(۲): داخلی فتنے بھی کھڑے کیے جائیں ۔
تجویز(۳):مسیحیت کی تبلیغ کے لیے بڑے بڑے پادریوں کو ہندستان روانہ کیا جائے۔
تجویز(۴) : حالات کے تقاضے کے مطابق دیگر سازشیں بھی رچی جائیں ۔
یہ میٹنگ آج یہیں اختتام پذیر ہو تی ہے ، لیکن جب جب اس مسئلے پرغور و فکر کی ضرورت پڑے گی ، ہم ہنگامی میٹنگ طلب کر یں گے ۔تمام ممبران کا شکریہ ۔
(یہاں میٹنگ ختم ہو جاتی ہے اور پادری ہندستان کے اسٹیج پر نمایا ں ہو جاتے ہیں او رساتھ میں ایک عام ہندستانی مسلمان بھی )
محمد مصطفی(پادری فنڈر): سامعینِ کرام !میری بات بالکل دھیان سے سنیے کہ اس روئے زمین پر اگر کو ئی سچ اور حق مذہب ہے ، تو صر ف اور صر ف عیسائیت ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور مذہب نہیں، حتی کہ مذہبِ اسلام بھی نہیں۔ اس لیے آپ حضرات کی بھلائی اسی میں ہے کہ گورنمنٹ کے مذہب میں داخل ہو جاؤ او رسب کے سب عیسائی بن جا ؤ ، ورنہ یاد رکھو ! اگر کسی نے ذرا بھی مخالفت کی کوشش کی، تو ا س کا وجود ہی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا ۔ 
محمد ازہر (عام مسلمان ): پادری صاحب ! آپ کا مجمعِ عام کے سامنے برملا اسلام کے خلاف زہر افشانی کر نا ٹھیک نہیں ہے ، کیو ں کہ اس کا انجا م بہت برُا ہو گا ، او رجس گور نمنٹ کے غرور میں آپ اس طرح بیان دے رہے ہیں، خود ا س کا وجود یہاں سے مٹ جائے گا ۔ویسے ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح اور حق ہونے کا دعوےٰ رہتاہے ، اس لیے آپ کامذہبِ عیسائی کے بارے میں یہ دعویٰ کر نا بھی اسی قبیل سے ہے۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر) : یہ لو گوں کی غلط فہمیاں ہیں کہ وہ اپنے مذہب کو سب سے زیادہ حق مانتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ صر ف عیسائیت ہی حق ہے اور باقی سب باطل ۔اب آپ ٹھہرے جاہل آدمی، میں آپ کو کیسے سمجھاؤں؟ اگر آپ کے بڑے بڑے علمائے کرام بھی میرے سامنے آجائیں،تو میں سب کو دلائل سے اپنے مذہب کے حق ہونے کا قائل کردوں گا۔
محمد ازہر (عام مسلمان ): اس کا مطلب ، آپ مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ، تو میں بھی مناظرے کے لیے تیار ہوں، اس لیے آپ اپنے پادریوں اور گروگھنڈالوں کو بلا لیجیے اور میں بھی اپنے علما ئے کرام کو بلاتا ہوں ، تاکہ آج بر ملا دودھ کا ددوھ اور پانی کاپانی ہو جائے ۔
(موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔۔۔۔۔۔حضرت ایک مصیبت آپڑی ہے ۔۔۔ ایک لحیم شحیم اورہڑ یا پیٹ والا پا دری بر سرِ عام اسلام کے خلاف تقریر کر کے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے اورمناظرے کا چیلنج کر رہا ہے ، اس لیے آپ سے در خواست ہے کہ جلد سے جلد تشریف لائیے ۔۔۔وعلیکم السلام ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر): (موبائل سے ) گڈ مو رننگ پادریو ۔۔۔تم لو گ مز ے کی نیند لے رہے ہو او ریہا ں میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں ۔۔۔ارے یار کیا بتاؤں ، میں مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج کر دیا ہوں اوروہ لوگ مکمل تیاری کے ساتھ آرہے ہیں ، ا س لیے اگر مسیحیت کو رسوا ہونے سے بچانا ہے ، تو جلدی سے میر ی مدد کے لیے آجاؤ،کو ئی سواری نہ ملے تو جگاڑہی پر بیٹھ کر آجاؤ ۔۔۔ورنہ سمجھ لو کہ ہندستان سے آج مسیحیت کا خاتمہ ہو گیا ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس ): (پر دے سے ) ارے یار ! تم سے مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج دے کر یہ بے وقوفی کرنے کے لیے کس نے کہا ؟ 
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): ارے یارمجھے او ر رسوا مت کر و ، جو ہونا تھا وہ ہوگیا ، اب آگے کیا ہوگا اس کی فکر کر و او ر تم لوگ تیاری کے ساتھ جلدی سے آجاؤ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس ): ٹھیک ہے ہم لوگ پہنچ رہے ہیں ۔
(دونوں فریقین کے آجانے کے بعد ) 
محمدمصطفی(پادری فنڈر ): مسلمانو! آؤ پہلے شرائطِ منا ظرہ طے کر لو ۔ 
حبیب اللہ (مولانا قاسم نا نو تو ی ؒ ) : ہم تمھاری ہر شر ط اور ہر مو ضوع پر مناظرہ کر نے کے لیے تیار ہیں ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ):اگر آپ حضرات اس پر تیار ہیں، تو مناظرہ درج ذیل شر طو ں کے ساتھ ہو گا :
شرط (۱)مناظرہ پہلے عقیدۂ تثلیث پر او رپھر اس کے بعد ایمان کی حقیقت پر ہو گا۔ 
شرط(۲)دونوں فریقین کے صر ف چار چار اشخاص ہی شریک ہو سکتے ہیں ۔
شرط (۳)ہر فریق کے متکلم کو صر ف پانچ منٹ کا وقت دیا جائے گا ۔
شرط(۴)شکست خوردہ کو مجمعِ عام کے سامنے بلا پس و پیش فاتح کا مذہب قبول کر نا ہو گا ۔
حبیب اللہ (مولانا نا نوتویؒ ) : ہمیں تمام شرائط منظور ہیں، بلکہ تم نے توچار اشخاص تک کی اجازت لی ہے، تم رہوچار، ہم تمھارے لیے دو ہی کافی ہیں، لہذااب بلا تاخیرمنا ظرے کا آغاز کیاجائے ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): پہلے آپ ہی لوگ شر وع کر یں ۔
حبیب اللہ (مولانا نانو تو ی): الحمد لأھلہ والصلاۃ لأھلہا ،امابعد! عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا تین ہیں: (۱)الہ (۲)جبرائیل (۳)ابن اللہ اور یہ تینو ں ایک ہی ہیں ۔یہ کس قد ر مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک چیز تین بھی ہے اور ایک بھی ، فیا للعجب ویا للتحسر اتنی عام فہم بات بھی نہ سمجھنے والے کو کیسے سمجھاؤ ں ؟ اکبر الہ آبادی نے کیا خو ب کہا ہے کہ ؂ 
تثلیث کے قائل نے خالق کو کہا ایک 
سوئی تھی تین پر حیر ت سے بجا ایک 
اسی طرح ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسؑ ی خدا بھی ہیں اور ابن خدا بھی ۔یہ کس درجہ بے حقیقت عقیدہ ہے ؟ کیوں کہ خدا اس کو کہاجاتاہے جو ہر طرح کی احتیاج و افتقار سے وریٰ ہو اور حضرت عیسیٰ توتمام انسانی ضرورتوں کے محتاج تھے ، لہذا حضرت عیسیٰ کو خدا ماننا درست نہیں، جب خدا ماننا درست نہیں، تو ابنِ خدا ماننابہ درجہ اولیٰ درست نہ ہو گا ، کیو ں کہ خدا کی شان یہ ہے کہ لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد۔اگربالفر ض مان بھی لیں کہ وہ ابن خدا تھے ، تو عیسائی ہمیں یہ بتائیں کہ ان کے دادا کو ن تھے ؟ ؂
معاذ اللہ فرزندِ خدا کہتے ہو عیسیٰ کو 
تو دادا کو ن ہے ؟ اس کو بتا ئے جس کا جی چاہے 
سامعین کرام !(مولانا کچھ بو لنا چاہتے ہیں ؛ لیکن پادری نو لس فو راً ٹو ک دیتاہے کہ )
محمد تفصیل (پادری نولس ): مولانا ! آپ کا وقت ختم ہو گیا ، اس لیے تشر یف رکھیں ۔
حبیب اللہ (مولانانانوتوی ): اگر آپ حضرات کو میرے بیان پر کوئی اعتراض ہو ، تو بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں ، ان شاء اللہ جواب دو ں گا ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس) : میرے دل میں کو ئی اعتراض نہیں ہے البتہ پادری فنڈر کو ئی اعتراض کرنا چاہیں، تو کر سکتے ہیں ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): میں کیا اعتراض کروں ؟ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے بیان پر کو ئی اعتراض نہیں کر سکتا اورنہ ہی کسی پادری کو ایسی حماقت کر نی چاہیے، ورنہ شکست ورسوائی ا س کا مقدر ہو گا اس لیے اس مو ضوع سے صر ف نظر کر تے ہوئے دوسرا موضوع : حقیقتِ نجات پر مناظرہ شر وع کرتے ہیں ، جس کے لیے ہم پا دری ا سکا ٹ سے درخواست کر تے ہیں کہ وہ آئیں او ردیو بندیو ں کے پر خچے اڑادیں ۔
محمد نظام الدین (پادری اسکا ٹ) : گناہو ں سے بچنا ہی نجات کہلاتاہے ،لیکن جب خالقِ عالم نے یہ دیکھا کہ پوری دنیا گناہوں اوربداعمالیوں کے سمند ر میں ڈوبی ہو ئی ہے ، تو وہ حضرت عیسی کا روپ دھا ر کر زمین پر اتر آئے اور صلیب پر لٹک کر ساری دنیا کے لو گو ں کے گناہو ں کا کفارہ ادا کر کے چلے گئے ۔ اس لیے اب نجات ا س کی ہو گی جو صلیب کو مانتے ہیں او رصلیب کو ماننا ہی عیسائیت ہے ، لہذا عیسائیت ہی نجات ہو گی ۔ عیسائیت ہو گی، تو نجات ملے گی ۔ عیسائیت نہیں ہو گی، تو نجات بھی نہیں ملے گی ؛کیو ں کہ نجات کی حقیقت یہی ہے ۔
محمد خلیق (مولانا ابو المنصور قاسمی) : نجات کی حقیقت وہ نہیں ہے ، جو اسکاٹ نے ابھی بیان کیا، بلکہ نجات کی حقیقت یہ ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے تدابیر اختیار کی جائیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب کہ گناہوں سے بچا جائے ۔ایسا نہیں ہے کہ مسیحیت اختیار ،کر لی تو اب کوئی گناہ ہی نہیں ہو گا ، بلکہ گناہو ں سے بچنے کے لیے گناہوں کا تر ک ضرور ی ہے ،خواہ وہ مسیح ہی کیو ں نہ ہو ۔ اور۔۔۔
محمد زاہد (پادری محی الدین ): ( مولانا کی بات کاٹتے ہو ئے ) مولانا آپ کا وقت ختم ہو گیا اس لیے آپ بیٹھ جائیے اور ہمیں کچھ بولنے دیجیے ۔ 
محمدخلیق(مولانا ابو المنصور قاسمی) :(گھڑی دیکھتے ہو ئے )پادریو!ابھی تو پانچ میں تین منٹ باقی ہیں ،پھر بھی تم کہہ رہے ہو کہ وقت ختم ہو گیا۔اگر تم لوگ جواب نہیں دے سکوگے، تو کم ازکم میری تقریرتو سکون کے ساتھ سن لو،شاید تمھیں ہدایت نصیب ہو جائے ۔
محمدزاہد (پادری محی الدین): نہیں ،نہیں ،ہم لوگ اب کچھ نہیں سنیں گے۔ پادریو!نکل چلو یہاں سے، ورنہ پھنس گئے تو قوم کے جوتے بجنے سے تمھیں کو ئی نہیں بچا سکتا ۔اس لیے بھاگو ،جلدی بھاگو۔
(اسی کے ساتھ سب پادری اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں )
حبیب اللہ (مولانا نانوتوی) :اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ ہمیں فتح نصیب ہو ئی اور پادری بری طرح شکست کھاکر سرپہ پاؤں رکھ کے بھاگے۔جہاں تک میں دیکھ رہاہوں میدان بالکل خالی نظر آرہاہے،اس لیے چلیے ہم لوگ بھی لوٹ چلتے ہیں ۔
محمد خلیق (مولانا ابو المنصورقاسمی) :جب کو ئی رہاہی نہیں، تو ہمارے یہاں رہنے سے کیا فائدہ اب تو لو ٹنے ہی میں فائدہ ہے،چلیے چلتے ہیں ۔
(بعد ازاں چار بریلوی اسٹیج پر آتے ہیں اور مل کر یہ درود پڑھتے ہیں )
ایک:یانبی سلام علیک 
سب :یا نبی سلام علیک 
ایک :یارسول سلام علیک
سب:یا رسول سلام علیک 
ایک:یا حبیب سلام علیک
سب :یا حبیب سلام علیک
ایک : صلوات اللہ علیک 
سب :صلوات اللہ علیک
ایک: یا بابا صابر!یا راجہ صابر!یا دولہا صابر!مجھے ایک نیک لڑکادے دو،اگر تم نہیں دوگے،تو میں کبھی تمھیں اوڑھنے کے لیے چادر نہیں دوں گا۔یاغوث المد د !یا بابا المدد !
سراج الدین (مولانامحمد منظور نعمانی ):(پردے سے )یہ کیساشوروغل ہو رہاہے؟
محمد قاسم (مولانا عبد الطیف قاسمی): کچھ قبری لوگ مُردے سے کچھ مانگ رہے ہیں۔مُردہ تو رہا دینے سے، اس لیے یہ لوگ چِلاّ رہے ہیں ۔
سراج الدین (مو لانا نعمانی) : (متعجبانہ انداز میں )مردے سے مانگ رہاہے ؟یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ کو ئی مردمردوں سے اپنی مراد مانگ رہا ہے ،ایسا کام تو کوئی عقل وخردسے پیدل شخص ہی کرسکتا ہے ،اس لیے چلیے اسے بتا دیتے ہیں کہ اس طرح شور مچانے سے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔
(اسٹیج پر آنے کے بعد )
سراج الدین(مولانا نعمانی )ارے قبر یو!یہ تم لوگ کیا حماقت کررہے ہو ؟مرُدوں سے مرادیں مانگ رہے ہو اوریا رسول اللہ کہہ کر پکار رہے ہو ؟حالاں کہ لفظ ’’یا‘‘سے عربی میں صرف زندہ آدمی کو پکار اجاتا ہے۔اور کیا تم نہیں جانتے کہ صرف اللہ ہی سے مانگا جاتا ہے اور کسی سے نہیں۔
محمد احمد (مولوی حشمت علی بریلوی):میرے ساتھیو!یہ لوگ وہی وہابڑے ہیں جو رسول اللہ کے دشمن ہیں ، بزرگوں کی شان میں گستا خیاں کرنا ان کاشیوہ ہے،عرس مبارک اور میلاد شریف کے یہ سخت مخالف ہیں،قبروں پہ چراغاں جیسے متبرک کام سے انھیں نفرت ہے۔یہ لوگ کافر ہیں ،بلکہ جو شخص ان کے کافر ہو نے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے،اس لیے ان کافروں کی باتیں مت سنواور کانوں میں انگلیاں ٹھونس کے میرے ساتھ کہو: 
یا نبی سلام علیک۔
سب بریلوی :یا نبی سلام علیک
سراج الدین (مولانا نعمانی): قبر یو!تم لوگ ہمارے متعلق کیا بکواس کررہے ہو ؟کیا ہم لوگ کافر ہیں ؟حالاں کہ ہمارے عقائدصحابہ کے عقائد کی طرح ہیں ۔ہمارے عقائد تابعین کے عقائد کی طرح ہیں ۔ہمارے عقائد جملہ ائمۂ کرام ،فقہائے عظام اور کتاب وسنت کے عین مطابق ہیں ۔
عبدالواحد (مولوی غلام دستگیر بریلوی):نعمانی صاحب!صرف زبانی جمع خرچ کرنے سے کچھ نہیں ہو تا،اگر تمھیں اپنے عقائد کی درستگی پر اتنا ہی یقین ہے ،تو ہم تم دیو بندیوں کو مناظرے کا چیلنج کرتے ہیں ۔دم ہے تو آیئے اور مناظرے کا چیلنج قبول کیجیے ۔تا کہ آج علی الاعلان دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے ۔ 
محمد خالد (مو لوی نعیم الدین مرادآبادی): ارے میرے گروگھنڈالو!تم یہ کیا کہہ رہے ہو !تم جانتے بھی ہو کہ تم کس کو چیلنج کررہے ہو ؟تم دیوبندیوں کو چیلنج کررہے ہو ،اس لیے میں تمھارا ساتھ نہیں دے سکتا ،میں چلتا ہوں ۔
عبدالواحد(مولوی غلام دستگیر بریلوی):جب ہم قبریوں کے سرخیل آپ ہی نہیں رہیں گے، تو ہمارا پرخچے اڑنا یقینی ہے،اس لیے آپ کو رضاؔ کا واسطہ ،آپ کو قبروں کے چڑھاوے کا واسطہ ،خدا را آپ مت بھاگیے اور بریلویت کو رسوا مت کیجیے۔
محمد خالد(مولوی نعیم الدین مرادآبادی):ارے قبریو!میں توکیا ،میرا باپ رضاؔ بھی اگر قبرسے اٹھ کر آجائے تو ان دیو بندیوں سے مناظرہ جیت نہیں سکتا، اس لیے میں برسرِ عام رسواہو نا نہیں چاہتا ۔تم نے انھیں چیلنج کیا ہے ،تم جانو اور تمھارا کام،میں چلتا ہوں ۔خدا حافظ۔خواجہ تمھیں شکست سے بچائے ۔
(یہ کہہ کر فوراً اسٹیج سے نکل جاتے ہیں )
محمد شوکت (مولوی سردار علی خان):دیوبندیوں کو چوں کہ ہماری طرح قبری حلوے اور نذرانے کے مرغے نہیں ملتے، اس لیے یہ لوگ ہمارے رزق پر حسد کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی قسمت پر ماتم بھی،اس لیے یہ لوگ ہم لوگوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ،حالاں کہ وہابڑوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ رزق دینا اللہ کاکام ہے،وہ جس طرح چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے ویسے دیتا ہے۔بندے کا کام اسباب اختیارکرنا ہے،اس لیے وہابڑو!تم بھی قبرپر ستی شروع کردو،پھر ہماری طرح ہی مرغے اڑاؤگے اور ہماری ہی طرح خوش قسمت بن جاؤگے ۔
سراج الدین (مولانا نعمانی): بے شک تمھاری طرح ہمیں مرُدوں کے کھانے کے لیے دیے ہو ئے حلوے اور قبروں پر چڑھائے ہو ئے مرغے نہیں ملتے ،اس لیے تم اپنے آپ کو نیک بخت کہتے ہو اور ہم کو بدبخت ۔لیکن قبریو!جس طرح تم اپنے حلووں اور بھنے تلے مرغوں میں خوش ہو ،اسی طرح ہمیں اپنے فاقے اور بھوکے رہنے پر فخر ہے ،کیوں کہ ہمارے سردارمحمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم بھی فاقے کیا کرتے تھے ۔اے اللہ ہمارا حشر بھی انھیں کے ساتھ فرما۔
محمد شوکت (مولوی سردار علی خان) :نعمانی !تو بہ کرو تو بہ ،تم نے یہ کیا کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے رہاکرتے تھے ،نعوذ باللہ من ذلک۔تم مرتد ہو گئے،تم کافر ہو گئے ،تم مباح الد م اور واجب القتل ہو گئے ،کہو بریلویو!نعمانی کافر،نعمانی کافر۔(نعرے کے ساتھ )
سراج الدین (مولانا نعمانی) :ارے قبر یو!تمھاری یہ فطرت رہی ہے کہ جب تم ہارنے لگتے ہو،تو ہنگامہ کھڑا کرکے کسی طرح جان چھڑا نا چاہتے ہو اور یہاں بھی تم اسی لیے ہنگا مہ کررہے ہو،تا کہ بھا گنے کاکو ئی راستہ مل جائے۔ 
محمداحمد(مولوی حشمت علی): ہاں نعمانی صاحب!ٹھیک سمجھاآپ نے،جان بچی تولاکھوں پائے ،آج جان بچ جائے گی، تو کل سے حلوے پھراٹے پھر سے ملنے شروع ہو جائیں گے ۔اس لیے ہمیں برسرِ عام یوں رسوا کرکے ہمارے پیٹ پر لات مت ماریے اور ہمیں بھاگنے دیجیے ۔
سراج الدین (مولانا نعمانی) :جلدی سے پیچھے کے راستے سے بھاگ جاؤ ،ورنہ دیکھ رہے ہو !عوام کے جوتے چپل تمھارے سروں کو تاک رہی ہیں ،لگنا شروع ہو جائے گا ،تو تمام مرغے باہر آجائیں گے۔
عبدالواحد(مولوی غلام دستگیر):نعمانی صاحب!آپ کا بہت بہت شکریہ ،آپ نے ہمیں بھاگنے کا موقع دے کر رسوائی اور پٹائی دونوں سے بچالیے ،ورنہ آپ کے سوا آج جوتے سے کو ئی خواجہ نہیں بچاسکتا تھا،اس لیے آپ کا شکریہ ،شکریہ ،شکریہ۔(تمام بریلوی اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں )
سراج الدین (مولانا نعمانی) :خدا کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ ہم دیوبندیوں کو اپنی جگہ جمائے رکھا اور بریلوی بری طرح شکست کھاکر بھاگے اور بہت سارے لوگوں کوتوبے کی توفیق عنایت فرمائی ۔فالحمداللہ اولاًوآخراً۔
محمد قاسم (مولانا عبدالطیف ):میدان بالکل خالی نظرآرہا ہے اس لیے ہم لوگ لوٹ چلتے ہیں 
سراج الدین (مولانا نعمانی): ہا ں خداکا شکریہ اداکرتے ہوئے چلتے ہیں ۔

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ ؟

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ ؟
پسِ منظر
یہ مکالمہ دراصل دارالعلوم دیوبند کی ایک فعال اور سر گر م عربی انجمن ’’النادی العربی ‘‘ کے ششماہی پر وگرام کے لیے عربی میں لکھا گیا تھا ، جب اس مو ضوع کی تعیین کے ساتھ لکھنے کی ذمہ داری احقر کو دی گئی ، تو پلاٹ کی ترتیب کی نو عیت پر بہت غور وفکر کیا ، لیکن شر وع میں کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیسے تر تیب دیں ؟ کیوں کہ ایک طر ف تو مکالمے کے حوالے سے موضوع اتنا خشک تھا کہ اسے مکالمے کے رنگ میں رنگنا دشوار نظر آرہا تھا ، وہیں دوسری طرف یہ حکم بھی تھا کہ اسے مزاحیہ روپ دیا جائے ، بہر کیف تو فیق ایز دی اورنہایت عر ق افشانی کے بعد پلاٹ کی تر تیب دے دی گئی اور مزاحیہ بنانے کے لیے نفس مضمون کے مکالمات کے ساتھ ساتھ عملی وآلی رموز کے سہارے بھی لیے گئے ۔ اور چوں کہ مکالمے کاافتتاح او ر اختتام بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہو تا ہے اور اسے کسی بھی رنگ میں رنگنے کے لیے انھیں دونوں حصوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے بایں وجہ مزاحیہ روپ دینے کے لیے ان دونوں حصوں پر زیادہ تو جہ دی گئی ہے اور خارجی رموز بھی استعمال کی گئی ہیں ۔
جب یہ مکالمہ اسٹیج کیا گیا تو جہا ں طلبۂ کرام او ر سامعینِ عظام نے بے حد پسند کیا ، وہیں اساتذۂ کرام نے بھی تحسین و حو صلہ افزا کلمات سے نوازا، جن کی بدولت احقر کو ا س میدان میں آگے قدم بڑھانے میں بہت حو صلہ ملا اور قدم بڑھاتا چلا گیا ۔ ہذامن فضل ربی وللہ الحمد ۔ اب اسے اردو میں منتقل کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے ۔



تفصیلات 
افراد کردار
(۱)محمد نسیم مو ؤن 
(۲)محمد خالد ایک عام دیوبندی 
(۳)محمد منور ایک عام سلفی 
(۴)ہدایت اللہ سلفی عالم 
(۵)ثنا ء اللہ سلفی عالم 
(۶)محمد سعد دیوبندی عالم
(۷)نہال انور دیو بندی عالم 
محمد نسیم (موؤن ): (ہاتھ میں ایک مو ٹی سی تسبیح اور سر پہ پگڑی باندھے اسٹیج پر آتا ہے اور اسٹیج پر لگی گھڑی ۔جس میں عشا کی اذان کا وقت بجا ہو تا ہے ۔کو دیکھتے ہو ئے کہتا ہے کہ )
اوفوہ ! عشا کی اذان کا وقت ہو بھی گیا ۔ چلو پہلے اذان دے دیتے ہیں ، پھر چٹائی و ٹائی بچھائیں گے ۔
(پھر ا س طر ح اذان دیتا ہے )اللہ اکبر اللہ اکبر ۔اللہ اکبر اللہ ۔۔۔۔۔۔(یہاں پر اچانک آواز بند کر دیتا ہے جو اس با ت کی طر ف اشارہ ہو تا ہے کہ بجلی کٹ جانے کی وجہ سے آواز بند ہو گئی ہے ۔ پھر دس پندرہ سکنڈ کے وقفے کے بعد )۔۔۔ ۔۔۔الہ الا اللہ ۔(پھر گھڑی کو پچاس منٹ آگے کر کے اسٹیج سے باہر آجاتا ہے ۔ اس کے بعد دو آدمی اسٹیج کے دونوں کناروں سے چل کر بیچ میں آکر ملتے ہیں اورعلیک سلیک کے بعد )
محمد خالد(عام دیوبند ی) : بھا ئی صاحب ! اذان ہو چکی ہے ،چلیے عشااور تراویح کی نماز پڑھنے چلتے ہیں ۔
محمد منور (عام سلفی ):تعجب ہے ! ابھی تک آپ نے عشا کی بھی نماز نہیں پڑھی ہے ؟ حالاں کہ میں عشا تو کیا تراویح سے بھی فارغ ہو چکا ہو ں ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی) :انا للہ ! ابھی تو اذان ہو نے سے پچاس منٹ بھی نہیں گذرے ہیں ، پھر بھی آپ عشا اور تراویح دونوں سے فارغ ہو گئے ؟ کیوں کہ صر ف عشا ہی کی نماز سنن و نو افل کے ساتھ دس رکعات ہیں ، پھر تراویح کی بیس رکعات ہیں ، اس کے بعد تین رکعات وتر کی بھی ہیں ۔ اور آخر میں کم از کم دورکعت نفل بھی ہے اور یہ تمام مل کر ۳۵؍رکعات ہو جاتی ہیں، توآپ نے ۳۵؍ رکعات ۵۰؍منٹ کے اندر ہی اندر کیسے ادا کر لیے ؟ یہ تو بچوں والی نماز ہی ہو سکتی ہے ۔
محمد منور (عام سلفی) : ( تعجب خیز انداز میں )کیا کہا آپ نے تراویح کی بیس رکعات ہیں ؟ ارے بھا ئی ! تراویح توصر ف آٹھ ہی رکعات ہیں ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صر ف آٹھ ہی رکعات منقول ہے ، ا س لیے ہم سلفی نبی کا کامل اتباع کر تے ہو ئے صر ف آٹھ ہی رکعات پڑھتے ہیں ، ہم مانتے ہیں کہ کثر ت صلاۃ بذات خود ایک عبادت ہے ، لیکن اتنی ہی کثرت عبادت ہے ، جتنی کہ شر ع میں منقول ہے، اس سے زیادہ عبادت نہیں؛ بلکہ گناہ ہے، نیز ارشادِ خداوندی ہے کہ ( یُرِ یْدُ الْلّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ) اورآپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیس کے با لمقابل آٹھ رکعات مختصر ہیں او رآسان بھی ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی ): تعجب ہے آپ پر اور آپ کی عقل و فکر پر ’’ چوری بھی اور سینہ زو ری بھی ‘‘ خواہش نفسانی کا اتباع کر تے ہوئے صر ف آٹھ رکعات ہی پڑھتے ہیں اور اس پر قرآن و حدیث سے غلط استدلال بھی کرتے ہیں ، ہا ئے تعجب ، ہا ئے افسوس ۔
محمد منور (عام سلفی ):دیو بندی بھا ئی ! آپ کو اس عمل پر تعجب او رافسوس ہو رہا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور جس عمل کو کر نے کا حکم امیر المؤمنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے دیا ہے او ر جس عمل پر امت کا توارث چلا آرہا ہے ؟۔
محمد خالد (عام دیوبندی ): نہیں میرے بھا ئی نہیں ۔ میں اس عمل پر تعجب نہیں کر رہا ہو ں،جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے او رجس کو کرنے کا حکم خلیفۂ ثانی نے دیا ہے ، بلکہ آپ کے اس عمل پر تعجب کر رہا ہو ں ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے ، صحابہ کے عمل کے خلاف ہے ،جمہورِ امت کے عمل کے خلاف ہے اور اس دعوے پر تعجب کر رہا ہو ں، جو شریعت کے خلاف ہوتے ہوئے بھی کامل اتباع نبوی سمجھ رہے ہیں ۔
محمد منور (عام سلفی ): دیوبندی بھائی !اب آپ بالکل خاموش ہو جائیے او رمزید ایسی ہر زہ سرائی نہ کیجیے ، جس سے آپ کا ایمان و عقیدہ اکارت ہو جائے ۔اور میں بھی اب کچھ نہیں بو لوں گا ، جس سے آپ کی ہٹ دھر می میں اضافہ ہو جائے ، اس لیے میں ایک بڑے عالم کو بلاتاہوں ، جو آپ کو اچھی طرح سمجھادیں گے کہ تراویح صر ف آٹھ رکعات ہیں بیس رکعات نہیں ہیں ۔
محمد خالد (عام دیو بندی) :ٹھیک ہے بلائیے ۔
محمد منور(عام سلفی ):(موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم ) : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ،کہو کیسے یاد فر مایا آپ نے ؟ کوئی خاص مسئلہ پیش آگیا ہے کیا ؟ 
محمد منور(عام سلفی ): جی حضرت، معاملہ کچھ ایسا ہی پیش آگیا ہے ، میرے ایک دیوبندی دوست ہے، جوا س بات پر بہ ضد ہے کہ ترا ویح بیس رکعات ہیں آٹھ نہیں ، میں نے اسے سمجھانے کی ہر ممکن کو شش کی، مگر یہ سمجھتا ہی نہیں، اس لیے آپ جلدی تشریف لے آئیے ، تاکہ ہم اپنے دوست کو دیوبندیت کی ضلالت سے سلفیت کی ہدایت پر لاسکیں ۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم) :ٹھیک ہے میں پہنچ رہا ہو ں، تم میرا انتظار کرو ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
محمد منور (عام سلفی ):وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ (دیو بندی کو مخاطب بنا کر ) وہ آرہے ہیں ، جو اچھی طرح آپ کو سمجھا دیں گے ۔
(اتنے میں دو سلفی عالم اسٹیج پر آجاتے ہیں )
مولانا ہدایت اللہ(سلفی عالم ) :حامداً و مصلیا امابعد! سب سے پہلے میں اس بات پر شکر یہ ادا کر وں گا کہ ایک دیو بندی کی اصلاح کے لیے مجھے بلایا گیا ، کیوں کہ اگر ایک دیو بندی کی اصلاح ہوجائے تو میں اسے سو ابلیس کو مسلمان بنانے سے زیادہ ثواب کاکا م سمجھتا ہو ں ، اس لیے کہ شیطان شیطانی کر تا ہے، تواس احساس کے ساتھ کر تا ہے کہ و ہ شیطانی کا م ہے ، جس کی اصلاح ممکن ہے ، لیکن ایک دیو بندی کو ئی غلط کام کر تا ہے تو اسے غلطی کا احساس نہیں ہو تا؛ بلکہ وہ اسے دین کاکام سمجھ کر کر تا ہے، او رایسوں کی اصلاح نا ممکن ہے ، انھیں غلط کاموں میں سے ایک، دیو بندی کا بیس رکعات تراویح پڑھنابھی ہے ،حالاں کہ بے شمار احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ مسئلہ مذکور ہے کہ تراویح صرف آٹھ رکعات ہیں ۔میں چند احادیث پیش کر تا ہوں۔
اِنَّ صَحَابِیًّا سَاألَ عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہٗ تَعَالیٰ عَنْہَا :کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُوْ لِ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ :مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہٖ عَلیٰ اِحْدَیٰ عَشْرَ ۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّی اأرْبَعًا ‘‘(بخاری شریف،ص،۱۵۴)۔
اس حدیث سے صاف پتہ چلتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں صرف گیارہ رکعات پڑھا کر تے تھے ، جن میں سے آٹھ تراویح کی ہو تی اور تین وتر کی ہوتی تھیں۔ اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مر وی ہے: 
صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ لَیْلَۃً ثَمَانَ رَکَعَاتٍ وَالْوِتْرَ۔
علاوہ ازیں خلیفہ ثانی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بھی آٹھ ہی رکعات پڑھنے کا حکم دیاہے ، جیسے کہ مو طا امام مالک میں ایک حدیث ہے :
’’ اَمَرَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہٗ تَعَالیٰ عَنْہٗ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَ تَمِیْمًا اَلدَّارَمِیْ اَنْ یَقُوْمَ لِلنَّا سِِ اِحْدَیٰ عَشْرَ ۃَ رَکْعَۃً‘‘۔
ان تمام احادیث سے یہی ثابت ہو تا ہے کہ تراویح صر ف آٹھ رکعات ہیں، بیس رکعات نہیں ہیں ۔
دیوبندی جی !اب تو آپ کے دل میں آٹھ کے بارے میں کو ئی شبہ باقی نہیں ہوگا؟
محمد خالد(عا م دیوبندی ):مو لانا سلفی صاحب ! ابھی آپ نے جو احادیث مبارکہ پڑھ کر سنائیں ،وہ سر آنکھو ں پر ، لیکن میں ایک جاہل آدمی ہو ں ، میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتا ہو ں کہ آپ نے جو کہا وہی حق ہے ، یا پھر وہ جو ہمارے علمائے کر ام کہتے ہیں ، کیوں کہ وہ بھی تو احادیث ہی سے بیس رکعات ثابت کرتے ہیں ،اس لیے میں بھی اپنے علما کو بلا تا ہو ں ، تا کہ آج آمنے سامنے یہ فیصلہ ہو جائے کہ کون حق پر ہے او ر کو ن باطل پر ؟ 
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم) : میرے بھائی ! میں تو آپ کے سامنے احادیث سے مکمل صراحت کے ساتھ یہ ثابت کر دیاکہ تراویح آٹھ ہی رکعات ہیں ، اس لیے آپ کو اپنے علما کو بلانے کی کیا ضرورت ہے ۔ میری باتوں پرغور وفکر کر تے رہیے ، سب سمجھ میں آجائے گا ۔
محمد منور (عام سلفی ): میرا دوست ٹھیک کہہ رہا ہے، انھیں بھی اپنے علماکو بلانے دیجیے، اگر ہم حق پر ہیں، تو ڈر نے کی کیا بات ہے ، ان کے علماکے سامنے بھی حق واضح ہو جائے گا۔(دیو بند ی سے مخاطب ہو کر ) آپ اپنے علما کو بلایئے ۔
محمد خالد (عام دیو بندی ) : (موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
مولانا محمد سعد (دیو بندی عالم) :(اسٹیج کے پیچھے سے ) وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ، کہو کیسے یا د فر مایا آپ نے ؟ 
محمد خالد (عام دیوبندی) :اس وجہ سے زحمت دی آپ کو ، کہ ہمارے یہاں ایک سلفی عالم آئے ہو ئے ہیں ، جو یہ کہہ رہے ہیں کہ احادیث سے تراویح کی صرف آٹھ رکعات ہی ثابت ہیں اور مجھے سلفی بنانے کی ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں ، اس لیے آپ تشریف لے آئیں ، تو آپ کی مہر بانی ہو گی ۔
مولانا سعد (دیوبندی عالم) :ٹھیک ہے ، آپ اسے روکے رکھیے ، کہیں بھاگنے نہ پا ئے ، میں بہت جلد آرہا ہوں، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
محمد خالد (عام دیو بندی ): شکر یہ حضرت ، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔ 
مولانا ثناء اللہ( سلفی عالم):کیا وہ تشریف لا رہے ہیں ؟ 
محمد خالد (عام دیو بندی ):(موبائل جیب میں رکھ کر) ہا ں بس وہ پہنچنے ہی والے ہیں ۔
مولاناثناء اللہ (سلفی عالم) :(گھبراہٹ کے انداز میں ) بھا ئی ! میں چلتا ہوں،اس لیے کہ گھر میں بہت کام ہے ، پھر کبھی ملاقات ہوگی ، ان شاء اللہ ۔
محمد منور (عام سلفی ):رکیے مولانا رکیے !اتنی سخت سردی میں بھی آپ کی پیشانی پر پسینہ ؟ خیریت تو ہے ، مو لانا اگر ہم حق پر ہیں ، تو دیو بند ی علماکے نام سے گھبراکربھاگنے کی کیا ضرورت ہے ؟
(اتنے میں دو دیو بندی عالم اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں او رعلیک سلیک کے بعد )
مولانامحمد سعد(دیوبندی عالم) :مجھے اطلاع ملی ہے کہ بیس رکعات تراویح کو آٹھ کر نے کے لیے آپ ایک جاہل آدمی سے مناظرہ کررہے ہیں ؟ 
مولاناثنا ء اللہ (سلفی عالم ):مولانا !چھوڑیے ان باتو ں کو اور خدا را ہمارے پیچھے مت پڑیے، ویسے بھی اس مو ضوع پر مناظرہ کرنے سے کچھ فائد ہ نہیں ، کیو ں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کے زمانے میں لوگ کس قدر سہولت پسند اور تن آساں ہو گئے ہیں اور تراویح کے حوالے سے آٹھ بیس دونوں طرح کی روایتیں ہیں ، اس لیے زمانے کے تقاضے کے مطابق جس روایت پر چاہیں عمل کر سکتے ہیں ، اس میں جھگڑ نے کی کو ئی بات ہی نہیں ہے ۔
مولانامحمد سعد(دیوبندی عالم ):سلفی عالم صاحب! مذہبِ اسلام کو ئی کھیل کی چیز نہیں کہ جو چاہے ، او رجس طرح چاہے ، اس سے کھیل کر ے ، اورآپ کایہ کہنا کہ ہم جس روایت پر چاہیں حسبِ خواہش عمل کر سکتے ہیں، یہ انتہائی غلط نقطۂ نظر او رگھنا ؤنی فکر کی عکاسی کر تا ہے ، اگر آپ سلفی حضرات ان جیسی چیزوں سے باز نہیں آئیں گے تو کوئی بعید نہیں کہ آپ حضرات اپنے ایمان سے ہا تھ دھو بیٹھیں۔ اس لیے آج میں احادیث کی روشنی میں یہ ثابت کر دکھاؤں گا کہ تراویح حقیقہً بیس رکعات ہیں ، آٹھ رکعات نہیں ۔
اس سلسلے میں بے شمار احادیث مر وی ہیں ، لیکن قلتِ وقت کی وجہ سے چند احادیث پیش کر تا ہو ں، علامہ شیخ نیمویؒ نے آثار السنن میں ایک حدیث ذکر کی ہے کہ 
’’ اِنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہٗ عَنْہٗ اَمَرَ رَجُلًا اَنْ یُصَلِّیَ بِہِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً ‘‘۔
تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ترا ویح میں بیس رکعات ہی پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عطا کاقول منقول ہے کہ
’’اَدْرَکْتُ النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً ‘‘
علاوہ ازیں چاروں امام بھی بیس رکعات ہی کے قائل تھے ۔ نیز عہد صحابہ سے لے کر با ر ھویں صدی تک پو ری امت کااجماع او رتوارث اسی پر چلا آرہا ہے کہ تراویح بیس رکعات ہیں ، چنانچہ امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ
’’ثُمَّ اسْتَقَرَّالأمْرُ عَلیٰ أَنَّ التَّرَاوِیْحَ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً ‘‘
حافظ ابن حجر بھی یہی کہتے ہیں کہ
’’ اِجْتَمَعَتِ الصَّحَابَۃُ عَلیٰ اَنَّ التَّرَاوِیْحِ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً ‘‘ 
امام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ
’’ہُوَ الَّذِیْ یَعْمَلُِ بہٖ اَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘۔
علاوہ ازیں دنیا کی تمام مسجدوں میں حتی کہ حر مین شریفین میں آج بھی بیس رکعات کی تراویح ہوتی ہے ، اگر حقیقت میں آٹھ ہی رکعات ہو تیں ،تو امت کے یہ جلیل القدر علما اس کی مخالفت نہ کر تے او رنہ ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد اس کے خلاف عمل پیرا ہوتی ۔لہذامعلوم ہو اکہ آٹھ رکعات نہ صرف احادیث کے خلاف ہیں، بلکہ تعاملِ صحابہ او راجماعِ امت کے بھی خلاف ہیں۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم):(متعجبانہ لہجے میں ) مولانا قاسمی صاحب، کیا کہا آ پ نے! آٹھ رکعات کا ثبوت احادیث کے خلاف ہے ، حالاں کہ اس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث مر وی ہے جو بخاری شریف میں مو جود ہے ، اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک حدیث مر وی ہے ، جس میں صراحت کے ساتھ آٹھ رکعت کا ذکر ہے ، اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ کا حکم بھی حدیث کی کتابوں میں مو جو د ہے ، کیا بخاری شر یف جھوٹی کتاب ہے ؟ کیا احادیث کا جو ذخیر ہ ہم تک پہونچا ہے، یہ سب جھوٹی باتو ں سے بھر ی ہو ئی ہے ، اگر یہ سب جھوٹ نہیں ہے اور یقیناًجھوٹ نہیں ہے، توان احادیث کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے اور آپ کے پاس ان کے کیا جوابات ہیں ؟ 
مولانا نہا ل انور (دیو بندی عالم) : مولانا سلفی صاحب ! ہمیں ان کے حدیث ہو نے کا انکار نہیں ہے ، البتہ جن احادیث کی طر ف آپ نے اشارہ کیاہے ، ان سے وہ مر اد نہیں ہے ، جو آپ حضرات سمجھ رہے ہیں؛ بلکہ ان کا صحیح مطلب وہ ہے ، جو میں بتلانے جارہا ہو ں ، جہاں تک حضرت عائشہ کی حدیث کی بات ہے ، تو اس سے تراویح نہیں، بلکہ تہجد کی نماز مراد ہے ؛ کیوں کہ اس حدیث میں ایک لفظ ’’ وَلَا فِیْ غَیْرِہِ ‘‘ہے، جو اس با ت پر صراحتاً دلالت کر تا ہے کہ حضرت عائشہؓ ؓؓؓؓؓؓ سے تہجد کے بارے میں سوال کیا گیا تھا ؛کیوں کہ غیر رمضان میں تہجد ہی پڑھی جاتی ہے ، تراویح نہیں ۔
اگر با لفر ض ہم یہ مان بھی لیں کہ تراویح ہی کے متعلق سوال کیا گیا تھا، تو بھی آٹھ کی تحدید درست نہ ہو گی؛ کیو ں کہ حضرت عائشہ سے پانچ طرح کی روایتیں مر وی ہیں ، جن میں یہ چار قوی اسانید سے ثابت ہیں ؛ (۱) گیارہ رکعات (۲) تیرہ رکعات (۳) اکیس رکعات (۴) تئیس رکعات، لہذا صرف آٹھ کی تحدید د رست نہیں ۔ اسی وجہ سے امام قر طبی ؒ حضرت عائشہ کی حدیثوں کے بارے میں یہ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اُشْکِلَتْ رِوَایَاتُ عَاءِشَۃَ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ اَہْلِ الْعِلْمِ حَتٰی نَسَبَ بَعْضُہُمْ حَدِیْثَہَا اِلٰی الِاضْطِرَابِ ‘‘ 
اورماشاء اللہ آپ عالم ہیں، جانتے ہی ہیں کہ حدیث مضطرب سے استدلال کر نا درست نہیں ہے ۔
مولانا ثناء اللہ(سلفی عالم ) :مولانا قاسمی صاحب ! چلو ہم یہ مان لیتے ہیں کہ حدیثِ عائشہ تہجد سے تعلق رکھتی ہے ، یا مضطر ب ہے ، لیکن حضرت جابرؓ کی حدیث میں تو صراحت کے ساتھ تراویح اور رمضان کاذکر ہے ۔ اس میں آپ یہ کہہ ہی نہیں سکتے ہیں کہ وہ تہجد سے متعلق ہے ، اسی طرح حدیث عمر بھی ہمارے ہی موقف پر دلالت کر تی ہے۔ ان کا کوئی جواب ہے آپ کے پا س ؟ 
مولانا نہا ل انور(دیو بندی عالم ) :ہمیں آپ کی یہ بات تسلیم ہے ، لیکن جس حدیث جابر کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، در اصل اس میں ایک راوی متہم بالکذ ب اور منکر الحدیث ہے ، او رمنکر کے بارے میں امام بخاری کا یہ فیصلہ ہے کہ
’’ اِنَّ مُنْکَرَ الْحَدِیْثِ وَصْفٌ فِی الرِّ جَالِ یَسْتَحِقُّ بِہٖ التَّرْ کَ‘‘
لہذا اس سے استدلال کر نا درست نہیں ۔
اور رہی بات حدیثِ عمر کی ، تو وہ سند اور متن دونو ں اعتبار سے مضطرب ہے ، اور مضطرب کے بارے میں ابھی آپ نے سنا کہ وہ قابلِ استدلال نہیں ۔ علاوہ ازیں اس کے خلاف حضرت عمر ہی کے متعلق ’’ بیہقی میں صحیح سند کے ساتھ سائب بن یزید سے ایک روایت مذکور ہے کہ 
’’ کَانُوْایَقُوْمُوْ نَ عَلیٰ عَہْدِ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِؓ فیِ شَھْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِ یْنَ رَکْعَۃً وَ کَذَ ا فِیْ عَہْدِ عُثْمَانَؓ ‘‘۔ 
المختصر تمام روایتوں پر غائرانہ نظر دوڑ انے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ تراویح آٹھ نہیں؛ بلکہ بیس رکعات ہیں ، جیسا کہ میں نے کچھ نمونہ آپ کے سامنے پیش کیا ، اب تو آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ تراویح بیس ہی رکعات ہیں ، یا اب بھی کوئی شبہ باقی ہے ؟اگر باقی ہے تو پیش کیجیے ان شاء اللہ اس کا بھی ازالہ ہو جائے گا ۔
مولانا ہدایت اللہ( سلفی عالم ) :میرے کر م فرما مولانا قاسمی صاحب! اب تک تو ہم سلفی یہی سمجھتے آرہے تھے کہ ا حادیث کو ہم سلفی کے علاوہ کو ئی اور صحیح طو ر پر سمجھتا ہی نہیں ہے ، لیکن آپ دونوں کی اس بلیغانہ ، عالمانہ اور محققانہ تقریر سے معلوم ہو ا کہ حقیقت بالکل ا س کے بر عکس ہے ۔آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری آنکھیں کھو ل دیں او رفریبِ علاّمیت سے نکال کر حق و صداقت کی راہیں دکھلائیں ۔فجزاکمااللہ احسن الجزاء۔
محمدمنور(عام سلفی ): میں بھی اپنے مولویوں کی غلط فہمیو ں کی وجہ سے اب تک دھو کے میں پڑا ہو ا تھا اور بچپن سے لے کر اس عمر تک آٹھ رکعات ہی پڑھا کر تا تھا ، جس کی وجہ سے بارہ رکعات کے ثواب سے محروم ہو تا رہا ، لیکن آج سے ان شاء اللہ بیس رکعات پڑھا کر وں گا ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی) : ( گھڑی دیکھتے ہو ئے ) مسجد میں تراویح ہو رہی ہے ، تو چلیے چلتے ہیں اور مکمل بیس رکعات پو ری کر کے آتے ہیں ۔
محمد منور(عالم سلفی ): ہا ں ہا ں جلدی چلیے کہیں کو ئی رکعت نہ نکل جائے اور پھر کفِ افسوس ملنا پڑ ے ۔(بعد ازاں تمام حضرات اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں اور موؤن آتاہے ، جو گھڑی میں سحر ی کا وقت بجا دیتا ہے ، پھر بہ آواز بلند یہ اعلان کر تا ہے ) 
محترم حضرات ! سحری کھانے کا وقت ہو گیا ہے ، اس لیے جلد سے جلد اپنی نیند کو تو ڑ یں اورسحری کھالیں (یہ اعلان دو مر تبہ کر تا ہے ، پھر گھڑی میں ختمِ سحری کا وقت بجا کر دو مر تبہ یہ اعلان کر تا ہے کہ )
محتر م حضرات ! سحری کا وقت ختم ہو گیاہے ، اس لیے جو حضرات سحری تناول فر ما رہے ہیں ، وہ کھانا بند کر دیں اور نمازِ فجر کی تیاری کریں ۔

مکالمہ نگاری اصول و امثال


مکالمے کی تعریف وتشریح 
یہ لفظ عربی کے بابِ مفاعلت کا مصدر ہے ، اس کے لغو ی معنی ہیں :با ہم دیگر گفتگو کر نا ، آپس میں با ت چیت کر نا ،ایک شخص کا دو سرے شخص کے سا تھ ہم کلا م ہو نا ۔ اردو اد ب کی اصطلا ح میں مکا لمہ ایک ایسی مخصو ص نثر ی صنفِ سخن کو کہا جا تا ہے جس میں چند افر اد و اشخا ص کا تصو ر کر کے ،ان کے اوصاف و احو ال کے منا سب کر دا ر اور اقو ال ان کی زبا ن سے ادا کر ائے جا تے ہیں ۔ ہر مکا لمہ تین اہم عنا صرِ تر کیبی پر مشتمل ہو تا ہے :(۱)مو ضو ع (۲)پلا ٹ (۳)کر دا ر ۔
موضوع
یہ مکالمہ نگا ری کا سب سے پہلا مر حلہ ہو تا ہے ، جب تک کو ئی مو ضو ع پیشِ نظر نہیں ہو گا ، اس وقت تک آگے کی منزل کی طر ف قد م بڑھا نا نا ممکن ہے ،اس لیے مکا لمہ نگا ری شرو ع کر نے سے پہلے ضروری ہے کہ کو ئی مو ضو ع متعین کر لیا جا ئے ،بعد ازاں اسے واقعا تی اور مکا لما تی ر وپ دیا جا ئے ۔
مکا لمے کے لیے کسی مو ضو ع کی قید نہیں ہو تی ، کا ئنا ت کی چھو ٹی سے چھو ٹی اور بڑی سے بڑی چیز پر مکالمہ لکھا جاسکتا ہے بشر طیکہ مکالمہ نگار اسے مکالمے کے رنگ میں رنگنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، اس کے لیے یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس کا کوئی پسِ منظر پہلے سے موجود ہو تبھی مکالماتی قالب میں ڈھا لا جاسکتا ہے ، بلکہ مکالمہ نگار کے زورِ قلم سے فر ضی خیا لات اور اختراعی افکار بھی مکالمے کا پیکر اختیار کر سکتے ہیں،المختصر مو ضوع کے حوالے سے سب کچھ مکالمہ نگار کی قوتِ نگارش پر منحصرہے ، البتہ حقیقی زندگی سے اٹیچ احوال و واقعات اور انسانی مسائل کو موضوع بنا نے سے اس کی اثرانگیزی میں چار چاند لگ جاتا ہے ، قلم کاغذ ہاتھ میں لینے سے پہلے مو ضوع کے ہر پہلو پر غور و فکر کر نے کے بعد ایک ذہنی خاکہ بنا لینا چاہیے ، بعد از اں اسے کاغذ پر منتقل کر نا چاہیے۔
پلاٹ
مو ضوع کے حوالے سے مکالماتی روپ دیے ہو ئے جملوں اور گفتگو وں کو افرادو اشخاص کے طریقِ اظہار کے ساتھ مخصوص انداز میں تر تیب دینے کا نام ’’پلاٹ ‘‘ہے ۔پلاٹ مکالمہ کا ایسا مر حلہ ہے جہا ں مکالمہ نگار کو لکھتے وقت بہت ساری چیزوں کاخیال رکھنا پڑتاہے ، مثلاًیہ کہ ادیبا نہ اسلوب زیادہ بہتر ہو گا یا عوامی بول چال کی زبا ن ؟ کن اشخاص کے لیے کون سی زبان زیادہ مو زوں ہو گی ؟ کس مقام پر مختصر کلام کیا جائے گا اور کس جگہ تفصیلی کلام مناسب ہوگا ؟ متصور اشخاص کی نفسیات کہاں پر کیسا انداز اور کس اسٹائل کا تقاضا کر تی ہیں ؟ کہا ں پر نر می اور ملا ئمت کااظہار ہو گا اور کہا ں پر غصیلہ لہجہ راس آئے گا ؟ کس جملے کے ساتھ حر کات و اشارات لابدی ہو ں گے اور کن الفاظ پر مہر سکوت و مجسمۂ جمود بننا پڑے گا ؟ کس کردار کے ساتھ رنگ روپ اختیار کر نا زیب دے گا اور کس کے ساتھ زیب نہیں دے گا ؟ پلاٹ کی تر تیب کیسی ہو نی چاہیے کہ کہیں سے بے ربطی نہ جھلکے اور سامعین و ناظر ین کو بے لطفی کا احساس نہ ہونے پائے ؟ وغیر ہ وغیر ہ۔
مکالمے کے حسن وقبح ، پسندیدگی و نا پسندیدگی اور معیار ی و غیر معیار ی کا دار و مدار اسی پلاٹ کی تر تیب پر ہے ، گویا’’پلاٹ ‘‘مکالمے کے لیے ایک آزمائش کن خار دار وادی ہے ، اگروہ اس وادی پرخار سے صحیح وسالم گذر جاتا ہے ، تو گویا وہ اپنے مقصد میں ننا نوے فیصد کا میا ب ہے، اور اگر وہ اس مقام پر لغزش کھا جاتا ہے ، تو وہ تقر یباً نا کام ہے ، اس لیے اس وادی سے صحیح سا لم گذر جانے کے لیے پلاٹ کے ان تمام تقاضوں سے واقف ہو نا ضروری ہے جو اس میں در کار ہو تے ہیں ، جن میں سے ادبی لیا قت اور سائیکالو جی پر اتنی معلومات رکھنا ۔جن سے کر دا ر کا روں کی نفسیا ت پر کھنے کی صلا حیت پید ا ہو جا ئے اور ان کے مطا بق مکا لما تی جملے فٹ کر سکیں ۔سر فہر ست ہیں، علا وہ ازیں بار بار مکا لمو ں کا مشاہدہ و مطا لعہ ، متصو ر اشخا ص سے تبا دلۂ خیا لا ت اور جنر ل مطا لعہ با لخصو ص تا ریخ اور جغرا فیہ کا مطا لعہ نہایت ضروری ہے ۔
کر دا ر 
کر دا ر سے مر اد متصو ر اشخا ص وافر اد کا وہ عمل اور رول ہے ، جس کے لیے انھیں متصو ر کیا گیا ہے ۔یہ کر دا ر ڈرا مے میں بھی ہو تا ہے ۔ ڈر ا مے کا کارندہ اور رو لر کلا می تأ ثر اور صد ا کا ری کے سا تھ ساتھ جسما نی ایکٹنگ بھی کر تا ہے اور کر دا ر کے منا سب رو پ بھی دھا ر تا ہے ، لیکن مکا لمے کا کا ر ند ہ کسی حد تک صد ا کا ری تو کر تا ہے ، لیکن جسما نی ایکٹنگ با لکل نہیں کر تا ، کیو ں کہ یہ جس طر ح ڈرا مے کے لیے ایک کما ل اور فنی مہا رت تصو ر کیا جا تا ہے ،اسی طر ح یہ مکا لمے کی رو ح کے منا فی اور معیو ب سمجھا جاتا ہے ، اس لیے کہ ڈرا مے کا بنیا دی مقصد تفر یحِ طبع ہو تا ہے اور اس کا سا را دا رو مدا ر ایکٹنگ او ر مضحکہ خیز رو پ اختیار کر نے پر ہے ، جب کہ مکا لمے کا اصل مقصد اصلا ح ہو تا ہے ۔ اصلاح انسان کا فر ض ہے اور فر ض کسی تصنع سے ادا نہیں ہو تا، اوریہی چیز ایک مکا لمے کو ڈرا مے سے ممتا ز کر تی ہے ۔ لہذا مکالمے کے کر دا ر کا رو ں او ر کا ر ند و ں کے لیے ضرو ری ہے کہ وہ کو ئی رو پ دھا ر نے یا کسی طر ح کی ایکٹنگ کر نے سے بالکلیہ اجتنا ب کر یں ۔ ورنہ مکا لمہ اپنے بنیا دی مقصد کی اثر انگیزی سے عا ری ہو جائے گا اور وہ ایک تھیڑ بن جائے گا ۔
کو ئی روپ دھارنے اور کسی طرح کی ایکٹنگ سے با لکلیہ اجتناب کر نے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ با لکل ا س کی ضد کی شکل اختیار کر لے یا ایک بے جان لاش بن جائے ، بلکہ اس سے مر اد یہ ہے کہ نہ تو اس میں اِ فراط سے کام لیا جائے اور نہ تفریط سے ، بلکہ معتدل اور میانہ رو ی اختیار کیا جائے ۔ جہاں تک سادگی کے ساتھ نقل ممکن ہو ، وہیں تک نقالی کی جائے ۔ اس حد سے تجاوز کر کے بالکلیہ اصلی روپ میں متمثل ہو نے کے لیے بے جا تکلفات کرنا اور سنجیدگی اور وقار کے دائر ے سے نکل کر سراپا ایکٹربن جانا انتہائی نا زیبا اور نا مناسب ہے ۔
تسلسل
مکالمے میں واقعاتی اور مکالما تی تسلسل کا پایا جانا ضروری ہے ، اس کے بغیر مکالمہ کرکرا ، بے لطف اور بد وضع ہو جاتا ہے ، اگر مکالمہ نگار اپنے خیالات کو درجِ ذیل خانوں میں تقسیم کر کے مکالمہ نگاری کرے ،تو بہ آسانی تسلسل قائم کیا جاسکتاہے:
(۱)ابتدا:اس حصے میں وہ چیز یں بیان کی جاتی ہیں جو یا تو آگے کی کہانی سمجھانے کے لیے ضروری تمہید ہو تی ہیں یا پھر مکالمے کے اصل واقعے کا آغاز ہوتی ہیں۔
(۲)ارتقا: اس مر حلے میں وہ باتیں درج کی جاتی ہیں، جو مکالمے کو آگے بڑ ھاتی ہیں اور موضوع کا اصل مدعا ہوتی ہیں۔
(۳)انتہا: ا س خانے میں مذکورہ با لا دونوں حصوں کی روشنی میں کہانی اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے اور اسی پر مکالمہ مکمل ہوجاتاہے ۔
مکالمہ اور اسٹیج
چوں کہ مکالمہ تماشائیوں کے سامنے اسٹیج کی جانے والی صنف ادب ہے، اس لیے مکالمے کے لیے اسٹیج کا تصور جز وِ لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے ، لہذامکالمہ نگار کے لیے مکالمے پیش کیے جانے والے اسٹیج کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے ، مثلاً مکالمہ ریڈیو کے اسٹیج سے پیش کیا جائے ، تو چو ں کہ اس میں مشاہد ہ نہیں ہو تا ،اس لیے اس اسٹیج کے تقاضے کے پیشِ نظر ہر کردارکی ادائیگی کے لیے صوتی تأ ثر اور صداکاری کا سہارا لیا جائے ، یا مثلاً مکالمہ بہ راہِ راست سامعین و ناظرین کے رو بر و کسی اسٹیج سے پیش کیا جائے، تو وہا ں صدا کاری کے ساتھ ساتھ کچھ تھوڑا بہت عملی کر دار بھی پیش کیا جائے ۔
اب ڈرامے کی طرح مکالمے کے تماشائی بھی سننے اور اصلاح کا درس لینے سے زیادہ دیکھنے میں دل چسپی کا مظاہرہ کر نے لگے ہیں ، اسی وجہ سے مکالمات سے زیادہ عملی پیش کش اہمیت اختیار کر تی جارہی ہے ، اس صورتِ حال میں مکالمے کو کامیاب بنانے کے لیے دو طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں: (الف )مکالمات سے زیادہ عمل اور کردار کااضافہ کر دیا جائے۔ (ب)مکالمات کو مزاحیہ بنادیاجائے۔
جہا ں تک اول الذکر صورت کی بات ہے ، تو اس سلسلے میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ زیادہ کر دار مکالمے کی روح کے منا فی اور اس کے لیے سخت معیوب ہے ، اس لیے ا س سے گریز نا گزیر ہے۔البتہ آخرالذکر صورت سب سے عمدہ اور بہتر صورت ہے ، کیوں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اصلاح وارشاد کے لیے طنز و مز اح جس قدر اثر انگیز ہے ، اتنا کو ئی اور شی نہیں ، اس لیے مزاحیہ انداز سے جہاں عملیت کو تر جیح دینے والے حضرات کے لیے بھی دل چسپی کا باعث بنے گا ، وہیں ان کے دلوں میں اصلاح کی فکر بھی انگڑائیا ں لینے لگے گی ۔راقم الحروف نے بار بار تجر بے سے اسی صورت کو سب سے مفید ،سود مند اور کار گر پایا ہے ۔مکالمے کے مکالمات کو مختلف طریقوں سے مزاحیہ بنایا جاسکتا ہے ، ذیل میں چند طریقے در ج ہیں :
(۱) طنز و مزاح نگاری کے اصولوں کو مدِ نظر رکھا جائے اور ان کی روشنی میں مکالمہ نگاری کی جائے ۔
(۲)مکالمات کی پر وڈی(۱) کر دی جائے ۔
(۳)غیر محسوسات کو محسوسات کے پیکر میں ڈھال دیا جائے ۔
(۴)غیر موجود کو موجود فر ض کر لیا جائے ، او راسے بطور رولر پیش کیا جائے ۔
(۵)غیر ذوی العقول اشیا کو ایکٹر بنا دیا جائے ۔
(۶)غیر اہم کر دار کو اہم کر دار کی شکل دے دی جائے ۔
(۷) موضوع کے مر کزی قصے سے چھوٹے موٹے ضمنی قصے بھی جو ڑ دیے جائیں ، لیکن یہ ملحوظِ خاطر رہے کہ ان جز وی قصوں کی کثر ت نہ ہو نے پائے کہ مر کز ی قصہ ان میں فنا ہو جائے ۔
(۸)یہ کوئی حتمی و قطعی طریقے نہیں ہیں ، بلکہ راقم الحروف کے تجر با تی و استقرائی طریقے ہیں ، جن میں شکست و تعطل اور حذف و اضافہ عین ممکن ہے ، کیو ں کہ مکالمہ ایک نفسیاتی فن ہے اور تمام لو گ نفسیات و طبعیات کے اعتبار سے مختلف واقع ہو ئے ہیں ،اس لیے زمان، مکان اور ماحول کے اعتبار سے الگ الگ نفسیات کے حامل حضرات اور کردار ادا کنندگان کی عمر ، عملی قابلیت ، سامعین کی قوتِ فہم اور ان جیسے ضروری پہلووں پر مدِ نظر رکھتے ہو ئے کسی طریقے سے مزاح پیدا کیا جاسکتاہے ، لیکن یہ خیال رہے کہ حد سے زیادہ مزاح بھی پیدا نہ ہو نے پائے ، ورنہ مکالمہ ، مکالمہ نہیں رہے گا ، بلکہ وہ ایک تھیڑاور پھکڑبن جائے گا ۔
رموز
ہر واقعہ چو ں کہ کسی نہ کسی زمان و مکان سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا کوئی نہ کوئی پسِ منظر ہو تا ہے ، اس لیے ان کی وضاحت یا ان کی طر ف اشارے کرنے کے لیے کچھ عملی وغیر عملی رموز کے سہارے لیے جاتے ہیں ، جیسے : کوئی خاص وقت بتانے کے لیے گھڑی استعمال کی جائے ، جگہ مثلاً مسجد کی تعیین کے لیے اذان دی جائے ، میٹنگ کی صورت نمایاں کر نے کے لیے کر سیا ں سجائی جائیں ، المختصر مکالمہ ڈائریکٹر مکالمے کی نوعیت ، کر دار اور پلاٹ کے تقاضے کے مطابق کسی بھی چیز کو رموزِ مکالمہ بنا سکتا ہے ۔ ان رموز کی وضاحت ، لکھتے وقت اندرونِ سطو ر بریکٹ لگا کر بھی کی جاسکتی ہے اور مشق و تمر ین کے دوران عملی ہدایات کے ذریعے بھی ۔
مشق
کسی بھی علم وفن میں مہارت و لیا قت پیدا کر نے اور فنی چابک دستی بڑھانے کے لیے مشق و تمرین ضروری ہے ، اس لیے خواہ مکالمہ نگاری کی جائے یا اسٹیج کرنے کی تیاری ، دونوں صورتوں میں جودت و حسن اور فن کاری پیدا کرنے کے لیے مشق ضروری ہے ، لکھنے کی مشق تو بار بار لکھنے سے ہی ہو سکتی ہے۔علاوہ ازیں باربار مشاہدے سے بھی مشق ہو جاتی ہے اور تیاری کے لیے ہدایت کا ر جو بھی صورت تجویز کرے، وہ مشق کے لیے مفید ہو گی ۔
اقسام 
مکالمے کے لیے چوں کہ نہ توکسی مو ضوع کی قید ہو تی ہے اور نہ کسی زمان و مکان کی، ہر موضوع پرمکالمہ لکھا جاسکتا ہے اور ہر زمان ومکان میں اسٹیج کیا جاسکتا ہے ، اس لیے نئے نئے احوال وواقعات اور موضوعات کے اعتبار سے اس کی درجنوں قسمیں ہو سکتی ہیں ، جیسے :تعلیمی مکالمہ،سیاسی مکالمہ ، سماجی مکالمہ ، تہذیبی وثقافتی مکالمہ ، اصلاحی مکالمہ ، مذہبی مکالمہ ، تاریخی مکالمہ ، مزاحیہ مکالمہ ،علمی مکالمہ، سائنسی مکالمہ ، مناظراتی مکالمہ وغیرہ وغیرہ ۔

مسلمانوں کی پستی کا علاج


مسلمانوں کی پستی کا علاج
حامدا و مصلیا امابعد 
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر 
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اور ؂
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
محترم سامعین کرام!دنیا پیاسی ہے ۔ 
لیکن کس کے خون کی ؟
مسلمانوں کے خون کی۔
ابتدائے آفرینش سے چمنستان نمو کس کے خون سے سیراب ہے؟ 
مسلمانوں کے خون سے۔
اس کائنات رنگ و بو کی رعنائی و زیبائی کس کے لہو کی دین ہے؟ 
مسلمانوں کے خون کی ۔
طرابلس اور بلقان کے میدان لالہ زار ہیں۔
مگر کس کے خون سے ؟
مسلمانوں کے خون سے۔ 
چیچنیا، بوسنیا اور الجزائر کی زمین کس کے خون سے رنگین ہے ؟
مسلمانوں کے خون سے۔
برما، بلغاریہ اور انڈونیشیا میں خوں چکاں داستانیں کس کی مدون ہوئیں؟
مسلمانوں کی ۔
افغانستان ، عراق اور فلسطین کی سطح نمو کی نیرنگیوں میں کس کا لہو شامل ہے ؟
مسلمانوں کا۔ 
بھاگلپور ، پٹنہ اور بکسر کی خونی واقعات کس کی ہیں؟
مسلمانوں کی۔
گجرات، امرتسراورممبئی کے فسادات میں کون شہید ہوئے ؟
مسلمان۔
خطۂ عالم کی تمام جنگوں میں انسانیت پاش توپوں ، ہلاکت بار ایٹموں اور جاں سوز ہتھیاروں نے کس کا خون چوسا؟
مسلمانوں کا۔
دنیا اپنے بوڑھاپے کی دہلیز پر بہت پہلے قدم رکھ چکی ہے ، پھر بھی وہ اتنی حسین و رنگین کیوں نظر آرہی ہے؟
اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے لہو میں شرابور ہے۔
المختصراس خانۂ خراب میں جب بھی اور جہاں بھی جنگیں ہوئیں اور حروب وقتال کے جتنے بھی معرکہ بپا ہوئے ، ان تمام میں صرف مسلمان ہی تہہ تیغ کیے گئے اور آج بھی اس مہذب دور میں کوئی ایسا مقتل نہیں ، جہاں مسلمانوں کی گردنیں نہ کاٹی گئی ہوں، آخر ایسا کیوں؟
اسلام عین سلامتی ہے اور مسلمان اس کی عملی مثال، اور اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسانوں کو انسانیت سکھاتااور دنیا کی تمام غلامیوں و ہر قسم کی محکومیوں سے آزادی کا درس دیتا ہے تاکہ وہ کسی کے ظلم و قہر اور استبدادو جبر کا نشانہ نہ بن پائے، پس اسلام آزاد ہے ، آزادی کا درس دیتاہے اور اسی میں امن و سلامتی کا راز مضمر ہے ، پھر جب حقیقت یہ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مجسم امن کو ہی مبداء نفرت و عداوت بتایاجارہاہے ؟ اور پھر ایسا کیوں کر ہے کہ زمین کی وسعت کو صرف امن و سلامتی کے پیکر پر تنگ کی جارہی ہے ؟ نیز دستور الٰہی ہے کہ لَاتَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ اُخْرَیٰ اور وَلِلْاِنْسَانِ مَاسَعَیٰکہ انسان صرف اپنے کیے کا ذمے دار اور صرف اپنی ہی غلطی کا سزایاب ہوگا اور شیاطین متحدہ (اقوام متحدہ ) کی بھی اک دستور یہی ہے کہ کسی جر م کی سزا صرف مجرم ہوگی اور اس کے سوا کسی کو مشق ستم نہیں بنایاجائے گا ، تووہ کون سا جرم ہے جو کسی ایک مسلمان سے صادر ہوا تھا اور تا قیامت آنے والے مسلمان اس کے سزا کے مستحق بنے؟ اور اس سے کیسا گناہ سرزد ہوا تھا ، جس کی تلافی سوائے ہلاکت و بربادی اور خوں ریزی کے کسی اور چیز سے نہیں کی جا سکتی؟
محترم سامعین کرام! دنیا کو جزا و سزا اس بات پردی جاتی ہے کہ وہ جرم کا ارتکاب کرتی ہے لیکن مسلمانوں کا قصور یہ ہے کہ وہ بے قصور ہیں، ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے گناہوں سے دامن چھڑالیا ، ان کی خطا یہ ہے کہ وہ واجب الوجود کے آستانے کے علاوہ کہیں اور اپنے سروں کو خم نہیں کرتا اور اس کے علاوہ کسی اورسے ڈرنانہیں جانتا، وہ اس لیے سزا کے مستحق ہیں کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّا اَنْ یُّؤمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۔
آپ جبل تاریخ کی بلند چوٹیوں پر چڑھ جائیے اور طراف عالم پر سرسری نگاہ دوڑائیے تو آپ کو ہر طرف مسلمانوں ہی کا خون بہتا نظر آئے گا، ہر سمت مسلمانوں ہی کی لاشیں تڑپتی دکھائی دیں گی، ہر جگہ مسلمانوں ہی کے خون کے فوارے جوش ماررہے ہوں گے ، زمین کاذرہ ذرہ مسلمانوں ہی کے خون سے لالہ زار ہوگا، ہر لمحہ صرف انھیں کی چیخ سنائی دے گی، قتل و ہلاکت کے میدان میں صرف انھیں کے کٹے سر ملیں گے اورداستان مظلومیت انھیں سے شروع ہوگی اور انھیں پر ختم ہوجائے گی۔
دوستو! یہ ہمارا کوئی زبانی دعویٰ نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو زمین کے ہر ذرے پر ، لہو کے ہر قطرے پر ، تلوار کی ہردھار پر، مظلومیت کی ہر دیوار پر اور تاریخ کے ہر ورق پر رقم ہے کہ
روسیوں نے چیچنیا میں مسلمانوں ہی کا قتل عام کیا ۔
سربی کوسوی قصابوں نے مسلمانوں ہی کے خون سے اپنی سفاکیت و وحشیت کی پیاس بجھائی
عیسائی بھیڑیوں نے نائجیریا کی زمین کو مسلمانوں ہی کے لہو سے لہو لہان کیا
انھیں درندوں نے بوسینیا کو مسلمانوں کا مقتل بنادیا
سربرانیکا میں مسلم دوشیزاوں کی چھاتیوں کو کاٹ ڈالا گیا
الجزائر میں مسلمان پہلے قیدی بناگئے ،پھر ان بے گناہوں پر تیزاب کی بارش کردی گئی
برما میں کتوں کی مہمان نوازی کے لیے مسلمانوں کے جسموں کا قیمہ بنایاگیا
بلغاریہ میں مسلم عورتیں عصمت دری کی شکاری ہوئیں
انڈونیشیا میں مسلمانوں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کا ہار بنایاگیا
چین میں مسلمانوں کو آروں سے چیر دیاگیا
سری لنکا میں معصوم بچوں، ضعیف و کمزور بوڑھوں اور نازک عورتوں کو زندہ دفن کردیا گیا
فلپائن میں حاملہ عورتوں کے پیٹوں کو چیر کر خنزیر کے بچے رکھ دیے گئے
البانیہ میں مسلمانوں کو بیدردی سے شہید کرکے لاشوں کو آگ لگادی گئی
صومالیہ میں باپ کو اپنے بیٹے اور بیٹے کو اپنے باپ کے عضو تناسل کاٹنے پر مجبور کیاگیا
یوگنڈا میں مسلمانوں کے سر ہتھوڑوں سے پھوڑے گئے 
کمبوڈیا میں کلہاڑی سے مسلمانوں کے تنوں کو پاش پاش کردیاگیا
کموچیا میں مسلمانوں کی آنتوں کو نکال کر دوڑنے پر مجبور کیا گیا
اوگاوین میں مسلمانوں کو ایک منزل میں جمع کرکے توپ سے بھون ڈالا گیا
افغانستان میں مسلم عورتوں کو عریاں کرکے ہیلی کاپٹر سے نیچے پھینک دیاگیا
ہندستان کے صوبہ امرتسر اور گجرات میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہادی گئیں
عراق میں ایندھن کی جگہ مسلمان جلائے گئے 
اور فلسطین میں یہودیوں کی ظلم وبربریت کی کہانی اخبار اور میڈیا کی زبانی آج بھی پوری دنیا دیکھ رہی ہے اورسن رہی ہے ۔
سامعین ! یہ جوکچھ بھی عرض کیا گیا، یہ مشتے نمونے ازخروے تھا، ورنہ مسلمانوں پر کیے گئے ظلم وستم کی داستان ، بے ستون اور لامحدود ہے ۔ان تاریخی حوالوں کو سناکر آپ کے زخموں پر نمک پاشی کرنا مقصود نہیں ہے ؛ بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اب تک جو کچھ ہونا تھا، وہ ہوچکا اور ابھی اور جتنی تباہی و بربادی اور مقدر ہے ، یہ مسلم قوم اپنی غفلت و نحوست سے ختم نہیں کرسکتی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ
یہ مظلوم ومقہور قوم کب تک ظلم و ستم کی چکی میں پستی رہے گی؟
مسلمان کب تک عیش حیا ت اور نشاط زندگی کو ختم کرنے والے توپوں اور بندوقوں سے لقمۂ اجل بنتے رہیں گے؟
کب تک خوں آشام تلواریں اور آبدار شمشیریں ان کا خون چوستی رہے گی؟
کب تک پیاسی زمین مسلمانوں کے خون سے سیراب ہوگی؟
کب تلک اللہ کی بسائی حسین و جمیل بستی آگ اور دھوئیں کی نذر ہوتی رہے گی؟
کیا امت مسلمہ پر یہ ظلم و ستم کا سلسلہ دائمی ہوگا؟ 
کیا اب عدل و عدالت کی بہار نہیں آئے گی؟
اور مسلمانوں کا وہ خدا جس کی شان لَایُظْلِمُوْنَ فَتِیْلاً ہے ، آخر کب تک اپنے محبوب بندے کو خون میں لتھڑادیکھتا رہے گا؟ اور کب وہ وقت آئے گا کہ اس کا زبردست ہاتھ اٹھے گا تاکہ ظالموں کے پنجووں کو مروڑ دے؟
معزز سامیعن !دنیا حیران ہے ، مسلمان پریشان ہیں اور غیر مسلم خنداں ہیں کہ آخر ان کا خدا انھیں کیوں بھول گیا؟ یا مسلمانوں کا کوئی خدا ہی نہیں ؟ اگر مسلمانوں کا کوئی خدا ہے توپھر ان کی حالت پر رحم کیوں نہیں کھاتا؟ اور ان کی مدد کیوں نہیں کرتا ؟ اور مسلمان بھی پشیمان ہیں اور دربار ایزدی میں فریاد کناں ہیں کہ ائے قوم ثمود و عاد کو ہلاک کرنے والے خدا، قوم لوط اور فرعونیوں کو غرق آب کرنے والے پروردگار ! آج ان کفاروں کو ، ظلم و ستم کے پرستاروں کو اور پتھروں کے پجاریوں کو نیست و نابود کیوں نہیں کرتااور میری فریاد کیوں نہیں سنتا؟
سامعین !ہاں اللہ تعالیٰ تمھاری فریاد کو نہیں سنے گا، وہ تمھاری مدد کو نہیں پہنچے گا، وہ کیوں کر تمھاری نصرت کو ہاتھ بڑھائے گا؟ جب کہ تم نے اس سے اپنا رشتہ توڑ لیا اور تم اسے یکسر بھول گئے ، لیکن اگر تم یہ چاہتے ہوکہ وہ تمھاری مدد کرے اور تمھاری حالت پر رحم کھائے ، تو تم اس کی طرف بڑھواور اس کی پائیگاہ ربانیت پر اپنی پیشانی رگڑواور گڑگڑا کر اس سے معافی مانگواور خوب توبہ کرواور اس وقت تک توبہ کرتے رہو،جب تک تمھیں اپنی معافی کا پروانہ نہ مل جائے ، تم نے ایک اللہ کے آستانے سے منھ موڑ کر اور غیروں سے اپنا رشتہ جوڑ کر دیکھ لیا کہ اس ایک سے سرکشی کرنے سے کس طرح ساری دنیا تم سے سرکش اور تمھارا دشمن بن گئی ، اس لیے آؤ اب صرف ایک سے جڑ جائیں ، تم نے معصیت سے دامن بھر لیے اور صدیوں اس کی کڑواہٹ چکھ لی ، آؤ اب اطاعتوں اور نیکیوں کا بھی مزہ چکھیں تاکہ پہلے کی طرح پھر ہمیں وہ تمام چیزیں لوٹا دے ، جو کبھی اس نے اپنے نیک اورمطیع بندوں کے لیے وقف کی تھی ، آئیے عہد کریں کہ اب ہم صرف اسی کی عبادت کریں گے اور صرف اسی کا کہا مانیں گے ۔ ؂
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

مساوات



الحمد للہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذی اصطفیٰ اما بعد، 
معزز سامعین، لائق صد احترام حاضرین حضرات اساتذۂ کرام وعزت مآب مہمان عظام ! اسلامی دائرۂ نظام سے ہٹ کر مساوات و برابری کے نام پر مختلف فرقوں، جماعتوں اور انجمنوں نے تحریکیں چلائیں، نعرے لگائے اور تجاویز پاس کیں؛ مگر ان میں خیر خواہی کا عنصر کم اور افساد و اضرار کا پہلو زیادہ غالب رہا؛ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مساوات کے نام پر چلائی جانے والی تحریکوں کا نسل انسانی پر الٹا اثر پڑا، کیوں کہ جب چینی کمیونزم نے مساوات کی تحریک چلائی ، تو پوری انسانیت کو الحاد و لادینیت اور خدا فراموشی و خدا ناشناسی کے قعر مذلت میں لاکھڑا کیا ، جب روسی کمیونزم نے مساوات کی تحریک چلائی تو کسانوں ، مزدوروں اور جفا کش انسانوں کو ظلم و ستم کی تپتی ہوئی بھٹی میں جھونک دیا، جب یوروپ نے مساوات کی تحریک چلائی تو باپ بھائی ، ماں بہن اور بیوی بیٹی کی عظمت و تقدس کو کند چھری سے ذبح کردیا، انسانیت کے سر سے شرم و حیا کی قبا چھین لی ، اسے آدمیت کے دائرے سے نکال کر حیوانیت و بہیمیت کے صف میں لا کھڑا کردیا، بے حیائی و بد کاری کو عام کیا، عریانیت و بے پردگی کو ہوا دیا، نفس پرستی اور ہوا پرستی کو بڑھاوادیا، زناکاری اور بد چلنی کو فروغ دیا، انسانی پاک بازی اور پاک دامنی کا جنازہ نکال دیا ، عالم ناسوت کے اس وسیع و عریض دہلیز پر شیطانیت وسرکشی کا جو کچھ بھی ڈراماہوا ، وہ صرف اس لیے ہوا کہ ان قوموں اور ان جماعتوں نے اسلامی نظریۂ مساوات سے ٹکر لی اور اسلامی تعلیمات کو ٹھکرادیا۔میں مغربی تہذیب کے پرستاروں اور مساوات و برابری کے علم برداروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا مساوت اسی کا نام ہے کہ پوری نسل انسانی ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہوکر بے حیائی و بد کاری کا ننگا ناچ ناچے؟کیا مساوات اسی کا نام ہے کہ انسانی برادری خالق کائنات کے خلاف بغاوت و سرکشی کا جھنڈا لہرائے؟کیا مساوات اسی کا نام ہے کہ پورا معاشرہ جنسی بے راہ روی اور ہوس پرستی کا شکار ہوجائے ؟نہیں نہیں ، ہرگز نہیں مساوات اس کا نام نہیں
بلکہ
مساوات نام ہے اونچ نیچ کی تفریق کو مٹا دینے کا
مساوات نام ہے رنگ و نسل کی تقسیم ختم کردینے کا 
مساوات نام ہے چھوت چھات کے اثرات کو نیست ونابود کردینے کا
مساوات نام ہے ذات پات کی دیوار گرادینے کا
مساوات نام ہے مال داری و غریبی کے امتیاز کو بھلا دینے کا
مساوات نام ہے آقائیت وغلامیت کی حد فاصل کو ڈھادینے کا ۔
دوستو! اسلام نے مساوات و برابری کے تمام پہلووں کو زندگی کے تمام شعبوں میں جس اکمل و احسن طریقے سے نافذ کیا ہے، دنیا کی تمام کونسلیں، تمام انجمنیں، تمام کمیٹیاں اور تمام پارٹیاں اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز و بے بس ہیں۔
یہ اسلام ہی ہے ، جس نے اونچ نیچ کی تفریق مٹاتے ہوئے ’’کُلُّ بَنِیْ آدَمَ اِخْوَۃٌ‘‘ کا درس دیا۔
یہ اسلام ہی توہے ،جس نے رنگ ونسل کی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے ’’ لَافَضْلَ لِعَرْبِیٍّ عَلَیٰ عَجَمِیٍّ‘‘ کا سبق سکھلایا۔
یہ اسلام ہی تو ہے ، جس نے چھوت چھات کے اثرات کو ختم کرکے’’ سُوؤرُ الْاَدْمِیٍّ طَاھِرٌ‘‘ کا فرمان جاری کیا۔
یہ اسلام ہی تو ہے ، جس نے ذات پات کی دیوار گراتے ہوئے ’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ‘‘ کا پیغام سنایا۔
یہ اسلام ہی تو ہے ، جس نے نسوانیت کو حق مساوات دیتے ہوئے ’’اَلنِّسَاءُ شَقَاءِقُ الرِّجَالِ‘‘ کا مژدہ سنایا۔
غرض یہ کہ اسلام نے نوع انسانی کے ہر صنف کو جو حق مساوات عطا کیا ہے ، دیگر قوموں اور مذہبوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اس لیے بجا طور پر مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ؂
لگایا تھا مالی نے ایک باغ ایسا
نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پودا
اور یہ باغ باغ اسلام ہے ، لہذا اگر دنیا مساوات و برابری قائم کرنا چاہتی ہے ، تو اسے یہ قیمتی فارمولہ مذہب اسلام ہی کے دامن میں مل سکتی ہے اور کہیں نہیں۔
وما علینا الا البلاغ

قرآن و حدیث کی بالادستی


قرآن و حدیث کی بالادستی
الحمد للہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذی اصطفیٰ اما بعد، فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، بسم اللہ الرحمان الرحیم،ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ، صَدَقَ اللَّہُ الْعَظِیْمُ۔
معزز سامعین ، لائق صد احترام حاضرین!آج انسانی دنیا عجیب کشمکش سے دوچار اور حیران کن مخمصے کا شکار نظر آرہی ہے، جس سمت نگاہ کیجیے، بے چینی،بے اطمینانی، بد عنوانی و بد امنی، قتل و غارت، چیخ و پکار اور آہ و بکاکا دور دورہ ہے، ہر طرف ظلم و ستم ، فتنہ و فساد ، خوف و دھشت اور حق تلفی و ناانصافی کا بازار گرم ہے، امن و سکون اور صلح و صفائی کا ایسا فقدان ہے کہ ہر شخص خوف و ہراس میں ڈوبا ہوا، جوروجفاکا مارا ہوا، بے کسی و بے بسی کی تصویر دکھائی دیتا ہے، یہاں زندگی زندگی سے پناہ مانگتی اور فریاد کرتی دکھائی دیتی ہے ، آدمی آدمیت کا قاتل اور انسان انسانیت کا دشمن نظر آتا ہے ، غرض کہ آج دنیا عالمی بدامنی و بد عنوانی اور بین الاقوامی کرپشن و بگاڑ سے ’’ظھر الفساد فی البر والبحر‘‘ کی صداقت پر عملی ثبوت پیش کر رہی ہے۔
حضرات گرامی!امن وامان کے اس عالمی بحران کو ختم کرنے کے لیے دنیا بھر میں قومی و ملکی ، علاقائی و جغرافیائی اور عالمی و بین الاقوامی ہر طریقے پر کوششیں کی گئیں ، ریزولیشن پاس کیے گئے ، دستاویزات مرتب کیے گئے، عہد نامے جاری کیے گئے، مذاکرات کیے گئے، طاقت آزمائے گئے، بم برسائے گئے، میزائل داغے گئے، آبادیاں ویران کی گئیں اور ملک در ملک تباہ کردیے گئے، مگر کرپشن وبگاڑ کا خاتمہ ایک خیال خام اور امن و امان کا قیام ایک خواب پریشاں ہی رہا، کاش ! مشرقی دانش ور، مغربی مفکرین، جارح حکومتیں اور اقوام متحدہ کے عہدہ نشیں امن و امان کے اس کم یاب لیلیٰ کو قرآنی محمل اور نبوی خیمے میں تلاش کرتے ، چشم تصور سے آج سے چودہ سو سال پہلے کے مکہ و مدینہ کی تاریخ پڑھتے، آقائے مدینہ اور تاج دار حرم ﷺ کے قائم کردہ اصول و ضوابط کا مطالعہ کرتے، اسلام کے دور اول کے بے مثال امن وامان کے زریں باب کی ورق گردانی کرتے اور قیام امن سے متعلق قرآنی احکامات اور نبوی تعلیمات کو تسلیم و رضا کے ہاتھوں سے قبول کرتے ؛ تو آج یہ دنیا امن و امان کا گہورہ اور صلح و آشتی کا سائبان بن جاتی۔
حضرات گرامی!قرآن و حدیث نے قیام امن سے متعلق جو فارمولے پیش کیے ہیں ، ان تمام کو معرض التوا میں رکھ کر اگر صرف ایک فارمولہ ’’احترام انسانیت‘‘ کو زیر عمل لایاجائے ، تو دنیا سے نقض امن اور وجود فتنہ کا یکسر خاتمہ ہوجائے ؛ کیوں کہ اگر دلوں میں احترام انسانیت کا جذبہ پیدا ہوجائے ، تو خود بخود انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوجائے ، نہ کوئی کسی کی جان کے درپے ہواور نہ کوئی کسی کے مال کے پیچھے پڑے ، نہ کوئی کسی کی عزت و آبرو پر حملہ آور ہواور نہ کوئی کسی کی آبرو سے کھیلے، بس ہر طرف سکون ، ہر طرف چین، ہر سمت امن اور ہر جہت اطمینان ہی اطمینان ہو۔
قرآن کریم اور حدیث نبوی نے دلوں میں احترام انسانیت بیٹھانے اور امن وامان کی فضا قائم کرنے کے لیے کہیں یوں ہدایت جاری فرمائی کہ
لَاتَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ 
اور کہیں پر یہ فرمان سنایا کہ
اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللَّہَ وَ رَسُوْلَہُ وَ یَسَعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَاداً اَنْ یُّقْتَلُوْا اَوْ یُصَلَّبُوْااَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیَھُمْ وَ اَرْجُلَھُمْ 
اور کہیں پر یہ وعید سنائی کہ
اِنَّ اللَّہَ لَایُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ 
اور کہیں پر یہ اعلان فرمایا کہ
اَلنَّاسُ مِنْ آدَمَ وَ آدَمُ مِنْ تُرابٍ ، لَافَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلَیٰ عَجَمِیٍّ،وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلَیٰ عَرَبِیٍّ، وَلَا لِأسْوَدَعَلَیٰ أحْمَرَ، وَلَا لِأحْمَرَ عَلَیٰ أسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّقْوَیٰ۔
حضرات ! یہ وہ قرآنی احکامات و نبوی ہدایات ہیں کہ اگر ان کی بالا دستی و حاکمیت کو تسلیم کرلی جائے ؛ تو دنیا بھر میں قیام امن و استحکام امن کا بول بالا ہوجائے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں


کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
الحمد لاھلہ والصلاۃ لاھلہا،اما بعد۔
مجھ سے ہی آنکھ مچولی ہے برق و باراں کی 
رہا ہوں میں تو حوادث میں ناخدا کی طرح
وہیں سے پھوٹے ہیں آب حیات کے چشمے
جہاں لہو میں نہائے ہیں کربلا کی طرح
بزرگان ملت اور عزیز دوستو!فتنے ہر دور میں ابھرے ہیں، تاریکیوں نے ہمیشہ اجالوں کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے ، بربریت کے منحوس پنجوں نے ہمیشہ انسانیت کا پیرہن نوچنے کی سعی کی ہے اور حوادث کے تھپیڑے سفینۂ انسانیت کو ستم کاریوں کا تختۂ مشق بناتے رہے ہیں؛ مگر آج جو فتنے ابھر رہے ہیں ،جو تاریکیاں فضا پر مسلط ہورہی ہیں، جیسی سرکش آندھیاں انسانیت کا خیمہ اکھاڑ رہی ہیں،اتنی بجلیاں خرمن عدل و مساوات کو خاکستر کرنے پر تلی ہوئی ہیں ، جیسے باد سموم کے جھونکے باغ آدم کو جھلسانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں اور جس کے نتیجے میں خدا کی زمین معصوموں کے خون سے لہو لہان ہے اور انسانیت کا مقتل بن گئی ہے، یہاں عصمتوں کی دھجیاں ہیں ، شرافت کا دریدہ پیرہن ہے، مظلوموں کی سسکیاں اور بیواؤں کی آہ و بکا ہے، یتیموں کی چیخیں اور بوڑھوں کے خاموش نالے ہیں، ایسا تاریک دور آنکھوں نے بہت کم دیکھاہے اور چشم فلک نے ایسے روح فرسا حالات کا مشاہدہ بہت کم کیاہے۔ 
آج پوری انسانیت ان فتنوں کی زد میں ہے ؛ مگر سب سے زیادہ حوادث کے شکار اسلام اور اس کے نام لیوا ہیں، آج اسلام اور مسلمان داخلی و خارجی فتنوں کی چکی میں پس رہے ہیں، ایک طرف اہل بدعت کی ناپاک سازشیں ہیں ، تو دوسری طرف نہاد اہل حدیث کی ریشہ دوانیاں ہیں، ایک طرف شیعیت کی فتنہ سرائیاں ہیں ، تو دوسری طرف قادیانیت کی شر انگیزیاں، ایک طرف مرعوبان مغرب سانپ بن کر ڈستے ہیں ، تو دوسری طرف استعماریت کے زَلّہ ربا اس کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، ایک طرف انھیں رجعت پسند اور دقیانوس کہاجارہا ہے ، تو دوسری طرف اس پر دھشت گردی کا لیبل لگایا جارہاہے، ایک طرف اگر تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلا جارہا ہے ، تو دوسری طرف ا س کی اقتصادیات کو کمزور کیا جارہا ہے، ایک طرف اسے بے حیائی اور اباحت کا سبق پڑھایا جارہاہے تو دوسری طرف اس کو ایمان فروشی کا درس دیاجارہاہے، ایک طرف ان کی مساجد شہید کی جارہی ہیں، تو دوسری طرف ان کے مدارس کو دھشت گردی کا اڈہ قرار دیا جارہاہے۔
الغرض آج مسلمانوں کے دین و مذہب پر، ان کی تہذیب و ثقافت پر، ان کے شعار پر، ان کے امتیازات و خصوصیات پر ، ان کے علوم وفنون پر ، ان کی انفرادی شان پر، ان کے مال و جان پرہر طرف سے فتنوں کی یلغار ہے، مسلمان جس نے دنیا کو عدل ومساوات کا درس دیا، آج مظلوم و مقہور ہے ، وہ مسلمان، جنھوں نے دنیا کو آئین جہاں بانی و جہاں گیری سکھلایا، وہی آج محکوم و مجبور ہے، وہ مسلمان ، جنھوں نے جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں علم کی شمع روشن کی ، آج تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہے، جس نے قدم قدم پر الفت و محبت کے چراغ جلائے ، آج نفرتوں میں گھرا ہوا ہے ، وہ مسلمان ، جس کی بدولت دنیا سے ظلم و عدوان اور کفرو شرک کی ظلمتیں چھٹ گئیں ، آج تاریکیاں اس کا مقدر بن گئی ہیں۔
اے درد مند انسانو!ذرا سوچو تو سہی، آج مسلمان لوح جہاں پر حرف مکرر کیوں بن گیا ہے؟ کس جرم کی پاداش میں اسے حرف غلط کی طرح مٹایا جارہا ہے ؟ عصمتیں فریاد کررہی ہیں، بیوگی ماتم کررہی ہے، یتیموں کی دل دوز چیخوں سے فضا لرز رہی ہے ؛ مگر آسمان پھٹ کیوں نہیں جاتا؟ زمین کا سینہ چاک کیوں نہیں ہوجاتا، دعائیں رائیگاں کیوں جاتی ہیں؟ یہ بے بسی کیوں دیکھنی پڑ رہی ہے؟ آخر یہ مظلومی ومقہوری کیوں؟ یہ محکومی و مجبوری کس لیے؟
میرے دوستو! معاف کرنا، میں نے غلط کہا کہ مسلمان مظلوم و مقہور ہے؛ مسلمان مظلوم نہیں؛ بلکہ ظالم ہے، مقہور نہیں جابر ہے، محکوم نہیں ؛ ستم گر ہے، مجبور نہیں ؛ مجرم ہے، ستم رسیدہ و الم گزیدہ نہیں ؛ بلکہ پیکر عصیاں اور خوگر طغیاں ہے۔
شیدائیان اسلام! ہماری عزت ،ہمارے رنگ و روپ کی رہینِ منت نہیں ، ہماری سربلندی کا راز قوم ونسل میں نہیں، ایمان و یقین میں ہے، ہماری قوت و اعتصام کسی سیاسی پارٹی کی چاپلوسی میں نہیں ؛ بلکہ اعتصام بحبل اللہ میں پنہاں ہے اور ہماری سر فرازی کی شرط اولیں ان کنتم مؤمنین ہے۔آج اگر ہم پر فتنوں کی یلغار ہے، حوادث کی دست درازیاں ہیں ، ہم دبائے جارہے ہیں، ہم ستائے جارہے ہیں، ہم ملامتوں کے شکار ہیں، دشنام طرازیوں میں گرفتار ہیں ، تو قصور ہماراہے ، مجرم ہم ہیں، غلطی ہم سے ہوئی ہے ؛ کیوں کہ جادۂ حق سے منحرف ہوکر، کتاب و سنت کو چھوڑ کر ، احکام الٰہی سے منھ موڑ کر، شرائط کی تعبیر، نتائج کی تمنا، فرائض کے بغیرحقوق کی خواہش دیوانے کا خواب ہے، سوچ کا فریب ہے اور عقل کا سراب ہے۔
میرے دوستو! ابھرتے فتنوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ، عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ہمیں اپنے ماضی کی طرف پلٹنا ہوگا، اللہ و رسول کے فرمان پر عمل پیر اہونا ہوگا، ان کنتم مؤمنین کو پیش نظر رکھنا ہوگا، ماضی کی روشنی سے مستقبل کو روشن کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی، فتنوں کو حلم و تدبر اور متانت و سنجیدگی سے دبانا ہوگا۔
لیکن اگر وہ ہمارے اس امن کا مذاق اڑائے، صلح کے پھول کو پاؤں تلے روندے، انسانیت کا گلاگھونٹے، تو پھر تلواروں کی چھاؤں میں بات کرنا ہوگی، نیزوں کی زبان میں گفتگو کی جائے گی، ہنگامۂ داروگیر بپا کرنا ہوگا، بغاوت پر آزادی کا ترانہ گانا ہوگااور بزور شمشیر فتنوں کو شکست دینا ہوگی، کیوں کہ ؂
وہیں سے پھوٹتے ہیں آب حیات کے چشمے
جہاں سے نہائے ہیں کربلا کی طرح
وما علینا الا البلاغ