پسِ منظر
یہ مکالمہ دراصل اس سے پہلے کے مکالمے کی بے پنا ہ مقبو لیت کی دَین ہے ، جس کی وجہ سے دو بارہ ’’ النا دی العربی ‘‘ کے اختتامی پر وگرام کے لیے لکھنے کا حکم دیا گیا، چنا نچہ حضرت الاستاذ جناب مولانا شو کت صاحب بستو ی مد ظلہ العالی جنرل سکریڑی رابطۂ مدارسِ اسلامیہ و مشر فِ عام انجمن النادی العربی و استاذ عر بی ادب دارالعلوم دیو بند کے حکم پر لکھا گیا اور ’’ النا دی العر بی ‘‘ کے اختتامی پروگرام میں اسٹیج کیا گیا ۔چو ں کہ اس کے مو ضو ع کی ہمہ گیر یت کی وجہ سے علمائے دیو بند کے کارنامو ں کا مکمل و مفصل احاطہ و تجزیہ پیش کر نا ، مکالمے کی نزاکت بر قرار رکھتے ہو ئے اور اس کے اسٹیج کیے جانے کے لیے مختص مختصروقت میں نا ممکن تھا ، اس لیے پلاٹ میں چند پہلو و ں کو ہی اور وہ بھی صرف ’ ’ مشتے نمونے از خروارے ‘‘ کے طو رپر پیش کیا گیاہے ۔ اسی وجہ سے مکالمہ اپنی تشنگی کا شکوہ کنا ں ہے ، تا ہم پہلے کی طرح اسے بھی محبو بیت کی نگاہ سے دیکھا او رسنا گیا، جس کا اردو تر جمہ پیش ہے ۔اس میں مقامات اورتاریخی ہستیوں کے نام تاریخی واقعے کی منظر کشی کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں۔
تفصیلات
افراد کر دار
(۱)محمد اکرم سکریڑی ملکہ وکٹوریہ
(۲)محمد مستقیم باللہ بر طانوی ممبر پارلیمنٹ
(۳)آفتاب عالم بر طانوی ممبر پارلیمنٹ
(۴)عبد الجلیل بر طانوی ممبر پارلیمنٹ
(۵)محمد مصطفی پادری فنڈر
(۶)محمد ازہر ایک عام مسلمان
(۷)حبیب اللہ مولا نا نانوتوی ؒ (دیوبند ی)
(۸)محمد زاہد پا دری محی الدین
(۹)محمد نظام الدین پادری اسکاٹ
(۱۰)محمد تفصیل پادری نو لس
(۱۱)محمد خلیق مولانا ابو المنصور (دیوبند ی )
(۱۲) عبد الواحد مولانا غلام دستگیر (بر یلوی )
(۱۳) محمد احمد مولوی حشمت علی (بر یلوی )
(۱۴) محمد خالد مولوی نعیم الدین (بر یلوی )
(۱۵)محمد شوکت مولوی سر دار علی خان (بر یلوی )
(۱۶)سراج الدین مولانا محمدمنظور نعمانی (دیو بندی )
(۱۷)محمد قاسم مولانا عبداللطیف (دیوبندی )
(بر طانوی پارلیمنٹ کی ہنگامی میٹنگ )
اکرم (سکریڑی ملکہ وکٹوریہ) : شر کا ئے میٹنگ !ہم سب کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبر ی ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم نے سلطنتِ مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر کے رنگون بھیج دیا ہے ، اب ہندستان پر ہمارا مکمل قبضہ ہوچکا ہے ،اس لیے آج ہم انتہا ئی فخر کے ساتھ یہ اعلان کر تے ہیں ،کہ ’’خلق اللہ کی، ملک بادشاہ کا اور حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی ‘‘ لیکن ہمیں ابھی تک یہ خدشہ ہے کہ کہیں مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر ہمارے خلاف علمِ بغاوت نہ بلند کردیں او رہمارا سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے ۔ اس لیے ہندستان پر دائمی قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کیا جائے ؟ اسی مسئلے پر غور کر نے کے لیے یہ ہنگامی میٹنگ بلائی گئی ہے ، تو اس میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟
مستقیم (بر طانوی ممبر پارلیمنٹ ):میری رائے یہ ہے کہ تمام ہندستانی مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنا دیا جائے او رجو بھی دینِ مسیحیت قبول کرنے سے انکار کرے ، اس کو یا تو قید کر دیا جائے یا پھر سر ہی قلم کر دیا جائے ۔ اسی طر ح وہاں کے ہندوں کوخصوصی مر اعات دے کر مسلمانو ں کے خلاف استعمال کیا جائے ۔
آفتاب عالم (ممبر پارلیمنٹ ):میں اپنے دوست کی رائے سے بالکل متفق ہو ں ،لیکن اس کا تعلق صر ف خارجی سازش سے ہے ، جس سے اپنے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی ملنے کی امید نہیں کی جاسکتی ، اس لیے اس کے ساتھ ساتھ داخلی سازش کا جال بچھانا بھی ضروری ہے اور اس کی صور ت یہ ہوگی کہ چو ں کہ ہندستانی،نفسیاتی طو رپر عقیدت کے محکو م اور اسلاف پر ست ہو تے ہیں، اس لیے انھیں اس جال میں بھی پھساناپڑ ے گا ، جیسے ہم مرزا غلام احمد قادیا نی کوجھوٹا نبی بنا کر کھڑاکر دیں گے ، اس کافائدہ کم از کم اتنا تو ضرور ہو گاکہ اگر مسیحیت قبو ل نہیں کر یں گے ، تو ا س ہمارے بھیجے ہو ئے نبی کے دامِ فریب میں ضرور آجائیں گے اور اس طرح وہ اپنے دین وایمان سے ہا تھ دھوبیٹھیں گے ۔
عبدالجلیل (ممبر پارلیمنٹ ):یہ تمام مشورے اپنی جگہ ٹھیک ہیں ؛ لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مزید دیگر فتنے بھی کھڑے کیے جائیں ،جیسے ، فتنۂ شیعیت ، فتنۂ بر یلویت ، غیر اسلامی رسم ورواج کا فر وغ وغیرہ وغیرہ ، کیو ں کہ اگر وہ ایک فتنے کے جھانسے میں نہیں آئیں گے ، تو دوسرے کسی میں ضرور آجائیں گے ۔نیز ہمیں یہ بات بھی فرامو ش نہیں کر نی چاہیے کہ ہندستانی مسلمان اپنے ملاؤں ، بالخصوص دیو بند ی علما کی باتو ں پر اپنی جان جاں آفریں کے سپر د کرنے میں ذرا بھی با ک محسوس نہیں کر تے ، اس لیے ان ملاؤں بطور خاص دیوبندیو ں سے یہاں کی عوام کو متنفر کرنا اپنے مقصد میں مکمل کام یا بی حاصل کر نے کے لیے ضروری ہے ۔
محمد اکرم (سکریڑی ملکہ وکٹوریہ):(تھوڑی دیرکچھ لکھنے کے بعد ) آج مؤرخہ ۔۔۔۔۔۔ برطانوی پارلیمنٹ کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی ،جس میں ہندستان میں اپنی حکمرانی بر قرار اور وہا ں کے مسلمانو ں کو عیسائی بنانے یا گمراہ کر نے کے حوالے سے غور و خوض کیا گیا ، تمام ممبر ان سے صلاح و مشورے کے بعد بہ اتفاق رائے درجہ ذیل تجاویز پا س کی گئیں :
تجویز(۱) :ہندستان میں خارجی فتنے پھیلائے جائیں ۔
تجویز(۲): داخلی فتنے بھی کھڑے کیے جائیں ۔
تجویز(۳):مسیحیت کی تبلیغ کے لیے بڑے بڑے پادریوں کو ہندستان روانہ کیا جائے۔
تجویز(۴) : حالات کے تقاضے کے مطابق دیگر سازشیں بھی رچی جائیں ۔
یہ میٹنگ آج یہیں اختتام پذیر ہو تی ہے ، لیکن جب جب اس مسئلے پرغور و فکر کی ضرورت پڑے گی ، ہم ہنگامی میٹنگ طلب کر یں گے ۔تمام ممبران کا شکریہ ۔
(یہاں میٹنگ ختم ہو جاتی ہے اور پادری ہندستان کے اسٹیج پر نمایا ں ہو جاتے ہیں او رساتھ میں ایک عام ہندستانی مسلمان بھی )
محمد مصطفی(پادری فنڈر): سامعینِ کرام !میری بات بالکل دھیان سے سنیے کہ اس روئے زمین پر اگر کو ئی سچ اور حق مذہب ہے ، تو صر ف اور صر ف عیسائیت ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور مذہب نہیں، حتی کہ مذہبِ اسلام بھی نہیں۔ اس لیے آپ حضرات کی بھلائی اسی میں ہے کہ گورنمنٹ کے مذہب میں داخل ہو جاؤ او رسب کے سب عیسائی بن جا ؤ ، ورنہ یاد رکھو ! اگر کسی نے ذرا بھی مخالفت کی کوشش کی، تو ا س کا وجود ہی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا ۔
محمد ازہر (عام مسلمان ): پادری صاحب ! آپ کا مجمعِ عام کے سامنے برملا اسلام کے خلاف زہر افشانی کر نا ٹھیک نہیں ہے ، کیو ں کہ اس کا انجا م بہت برُا ہو گا ، او رجس گور نمنٹ کے غرور میں آپ اس طرح بیان دے رہے ہیں، خود ا س کا وجود یہاں سے مٹ جائے گا ۔ویسے ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح اور حق ہونے کا دعوےٰ رہتاہے ، اس لیے آپ کامذہبِ عیسائی کے بارے میں یہ دعویٰ کر نا بھی اسی قبیل سے ہے۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر) : یہ لو گوں کی غلط فہمیاں ہیں کہ وہ اپنے مذہب کو سب سے زیادہ حق مانتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ صر ف عیسائیت ہی حق ہے اور باقی سب باطل ۔اب آپ ٹھہرے جاہل آدمی، میں آپ کو کیسے سمجھاؤں؟ اگر آپ کے بڑے بڑے علمائے کرام بھی میرے سامنے آجائیں،تو میں سب کو دلائل سے اپنے مذہب کے حق ہونے کا قائل کردوں گا۔
محمد ازہر (عام مسلمان ): اس کا مطلب ، آپ مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ، تو میں بھی مناظرے کے لیے تیار ہوں، اس لیے آپ اپنے پادریوں اور گروگھنڈالوں کو بلا لیجیے اور میں بھی اپنے علما ئے کرام کو بلاتا ہوں ، تاکہ آج بر ملا دودھ کا ددوھ اور پانی کاپانی ہو جائے ۔
(موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔۔۔۔۔۔حضرت ایک مصیبت آپڑی ہے ۔۔۔ ایک لحیم شحیم اورہڑ یا پیٹ والا پا دری بر سرِ عام اسلام کے خلاف تقریر کر کے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے اورمناظرے کا چیلنج کر رہا ہے ، اس لیے آپ سے در خواست ہے کہ جلد سے جلد تشریف لائیے ۔۔۔وعلیکم السلام ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر): (موبائل سے ) گڈ مو رننگ پادریو ۔۔۔تم لو گ مز ے کی نیند لے رہے ہو او ریہا ں میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں ۔۔۔ارے یار کیا بتاؤں ، میں مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج کر دیا ہوں اوروہ لوگ مکمل تیاری کے ساتھ آرہے ہیں ، ا س لیے اگر مسیحیت کو رسوا ہونے سے بچانا ہے ، تو جلدی سے میر ی مدد کے لیے آجاؤ،کو ئی سواری نہ ملے تو جگاڑہی پر بیٹھ کر آجاؤ ۔۔۔ورنہ سمجھ لو کہ ہندستان سے آج مسیحیت کا خاتمہ ہو گیا ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس ): (پر دے سے ) ارے یار ! تم سے مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج دے کر یہ بے وقوفی کرنے کے لیے کس نے کہا ؟
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): ارے یارمجھے او ر رسوا مت کر و ، جو ہونا تھا وہ ہوگیا ، اب آگے کیا ہوگا اس کی فکر کر و او ر تم لوگ تیاری کے ساتھ جلدی سے آجاؤ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس ): ٹھیک ہے ہم لوگ پہنچ رہے ہیں ۔
(دونوں فریقین کے آجانے کے بعد )
محمدمصطفی(پادری فنڈر ): مسلمانو! آؤ پہلے شرائطِ منا ظرہ طے کر لو ۔
حبیب اللہ (مولانا قاسم نا نو تو ی ؒ ) : ہم تمھاری ہر شر ط اور ہر مو ضوع پر مناظرہ کر نے کے لیے تیار ہیں ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ):اگر آپ حضرات اس پر تیار ہیں، تو مناظرہ درج ذیل شر طو ں کے ساتھ ہو گا :
شرط (۱)مناظرہ پہلے عقیدۂ تثلیث پر او رپھر اس کے بعد ایمان کی حقیقت پر ہو گا۔
شرط(۲)دونوں فریقین کے صر ف چار چار اشخاص ہی شریک ہو سکتے ہیں ۔
شرط (۳)ہر فریق کے متکلم کو صر ف پانچ منٹ کا وقت دیا جائے گا ۔
شرط(۴)شکست خوردہ کو مجمعِ عام کے سامنے بلا پس و پیش فاتح کا مذہب قبول کر نا ہو گا ۔
حبیب اللہ (مولانا نا نوتویؒ ) : ہمیں تمام شرائط منظور ہیں، بلکہ تم نے توچار اشخاص تک کی اجازت لی ہے، تم رہوچار، ہم تمھارے لیے دو ہی کافی ہیں، لہذااب بلا تاخیرمنا ظرے کا آغاز کیاجائے ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): پہلے آپ ہی لوگ شر وع کر یں ۔
حبیب اللہ (مولانا نانو تو ی): الحمد لأھلہ والصلاۃ لأھلہا ،امابعد! عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا تین ہیں: (۱)الہ (۲)جبرائیل (۳)ابن اللہ اور یہ تینو ں ایک ہی ہیں ۔یہ کس قد ر مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک چیز تین بھی ہے اور ایک بھی ، فیا للعجب ویا للتحسر اتنی عام فہم بات بھی نہ سمجھنے والے کو کیسے سمجھاؤ ں ؟ اکبر الہ آبادی نے کیا خو ب کہا ہے کہ
تثلیث کے قائل نے خالق کو کہا ایک
سوئی تھی تین پر حیر ت سے بجا ایک
اسی طرح ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسؑ ی خدا بھی ہیں اور ابن خدا بھی ۔یہ کس درجہ بے حقیقت عقیدہ ہے ؟ کیوں کہ خدا اس کو کہاجاتاہے جو ہر طرح کی احتیاج و افتقار سے وریٰ ہو اور حضرت عیسیٰ توتمام انسانی ضرورتوں کے محتاج تھے ، لہذا حضرت عیسیٰ کو خدا ماننا درست نہیں، جب خدا ماننا درست نہیں، تو ابنِ خدا ماننابہ درجہ اولیٰ درست نہ ہو گا ، کیو ں کہ خدا کی شان یہ ہے کہ لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد۔اگربالفر ض مان بھی لیں کہ وہ ابن خدا تھے ، تو عیسائی ہمیں یہ بتائیں کہ ان کے دادا کو ن تھے ؟
معاذ اللہ فرزندِ خدا کہتے ہو عیسیٰ کو
تو دادا کو ن ہے ؟ اس کو بتا ئے جس کا جی چاہے
سامعین کرام !(مولانا کچھ بو لنا چاہتے ہیں ؛ لیکن پادری نو لس فو راً ٹو ک دیتاہے کہ )
محمد تفصیل (پادری نولس ): مولانا ! آپ کا وقت ختم ہو گیا ، اس لیے تشر یف رکھیں ۔
حبیب اللہ (مولانانانوتوی ): اگر آپ حضرات کو میرے بیان پر کوئی اعتراض ہو ، تو بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں ، ان شاء اللہ جواب دو ں گا ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس) : میرے دل میں کو ئی اعتراض نہیں ہے البتہ پادری فنڈر کو ئی اعتراض کرنا چاہیں، تو کر سکتے ہیں ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): میں کیا اعتراض کروں ؟ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے بیان پر کو ئی اعتراض نہیں کر سکتا اورنہ ہی کسی پادری کو ایسی حماقت کر نی چاہیے، ورنہ شکست ورسوائی ا س کا مقدر ہو گا اس لیے اس مو ضوع سے صر ف نظر کر تے ہوئے دوسرا موضوع : حقیقتِ نجات پر مناظرہ شر وع کرتے ہیں ، جس کے لیے ہم پا دری ا سکا ٹ سے درخواست کر تے ہیں کہ وہ آئیں او ردیو بندیو ں کے پر خچے اڑادیں ۔
محمد نظام الدین (پادری اسکا ٹ) : گناہو ں سے بچنا ہی نجات کہلاتاہے ،لیکن جب خالقِ عالم نے یہ دیکھا کہ پوری دنیا گناہوں اوربداعمالیوں کے سمند ر میں ڈوبی ہو ئی ہے ، تو وہ حضرت عیسی کا روپ دھا ر کر زمین پر اتر آئے اور صلیب پر لٹک کر ساری دنیا کے لو گو ں کے گناہو ں کا کفارہ ادا کر کے چلے گئے ۔ اس لیے اب نجات ا س کی ہو گی جو صلیب کو مانتے ہیں او رصلیب کو ماننا ہی عیسائیت ہے ، لہذا عیسائیت ہی نجات ہو گی ۔ عیسائیت ہو گی، تو نجات ملے گی ۔ عیسائیت نہیں ہو گی، تو نجات بھی نہیں ملے گی ؛کیو ں کہ نجات کی حقیقت یہی ہے ۔
محمد خلیق (مولانا ابو المنصور قاسمی) : نجات کی حقیقت وہ نہیں ہے ، جو اسکاٹ نے ابھی بیان کیا، بلکہ نجات کی حقیقت یہ ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے تدابیر اختیار کی جائیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب کہ گناہوں سے بچا جائے ۔ایسا نہیں ہے کہ مسیحیت اختیار ،کر لی تو اب کوئی گناہ ہی نہیں ہو گا ، بلکہ گناہو ں سے بچنے کے لیے گناہوں کا تر ک ضرور ی ہے ،خواہ وہ مسیح ہی کیو ں نہ ہو ۔ اور۔۔۔
محمد زاہد (پادری محی الدین ): ( مولانا کی بات کاٹتے ہو ئے ) مولانا آپ کا وقت ختم ہو گیا اس لیے آپ بیٹھ جائیے اور ہمیں کچھ بولنے دیجیے ۔
محمدخلیق(مولانا ابو المنصور قاسمی) :(گھڑی دیکھتے ہو ئے )پادریو!ابھی تو پانچ میں تین منٹ باقی ہیں ،پھر بھی تم کہہ رہے ہو کہ وقت ختم ہو گیا۔اگر تم لوگ جواب نہیں دے سکوگے، تو کم ازکم میری تقریرتو سکون کے ساتھ سن لو،شاید تمھیں ہدایت نصیب ہو جائے ۔
محمدزاہد (پادری محی الدین): نہیں ،نہیں ،ہم لوگ اب کچھ نہیں سنیں گے۔ پادریو!نکل چلو یہاں سے، ورنہ پھنس گئے تو قوم کے جوتے بجنے سے تمھیں کو ئی نہیں بچا سکتا ۔اس لیے بھاگو ،جلدی بھاگو۔
(اسی کے ساتھ سب پادری اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں )
حبیب اللہ (مولانا نانوتوی) :اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ ہمیں فتح نصیب ہو ئی اور پادری بری طرح شکست کھاکر سرپہ پاؤں رکھ کے بھاگے۔جہاں تک میں دیکھ رہاہوں میدان بالکل خالی نظر آرہاہے،اس لیے چلیے ہم لوگ بھی لوٹ چلتے ہیں ۔
محمد خلیق (مولانا ابو المنصورقاسمی) :جب کو ئی رہاہی نہیں، تو ہمارے یہاں رہنے سے کیا فائدہ اب تو لو ٹنے ہی میں فائدہ ہے،چلیے چلتے ہیں ۔
(بعد ازاں چار بریلوی اسٹیج پر آتے ہیں اور مل کر یہ درود پڑھتے ہیں )
ایک:یانبی سلام علیک
سب :یا نبی سلام علیک
ایک :یارسول سلام علیک
سب:یا رسول سلام علیک
ایک:یا حبیب سلام علیک
سب :یا حبیب سلام علیک
ایک : صلوات اللہ علیک
سب :صلوات اللہ علیک
ایک: یا بابا صابر!یا راجہ صابر!یا دولہا صابر!مجھے ایک نیک لڑکادے دو،اگر تم نہیں دوگے،تو میں کبھی تمھیں اوڑھنے کے لیے چادر نہیں دوں گا۔یاغوث المد د !یا بابا المدد !
سراج الدین (مولانامحمد منظور نعمانی ):(پردے سے )یہ کیساشوروغل ہو رہاہے؟
محمد قاسم (مولانا عبد الطیف قاسمی): کچھ قبری لوگ مُردے سے کچھ مانگ رہے ہیں۔مُردہ تو رہا دینے سے، اس لیے یہ لوگ چِلاّ رہے ہیں ۔
سراج الدین (مو لانا نعمانی) : (متعجبانہ انداز میں )مردے سے مانگ رہاہے ؟یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ کو ئی مردمردوں سے اپنی مراد مانگ رہا ہے ،ایسا کام تو کوئی عقل وخردسے پیدل شخص ہی کرسکتا ہے ،اس لیے چلیے اسے بتا دیتے ہیں کہ اس طرح شور مچانے سے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔
(اسٹیج پر آنے کے بعد )
سراج الدین(مولانا نعمانی )ارے قبر یو!یہ تم لوگ کیا حماقت کررہے ہو ؟مرُدوں سے مرادیں مانگ رہے ہو اوریا رسول اللہ کہہ کر پکار رہے ہو ؟حالاں کہ لفظ ’’یا‘‘سے عربی میں صرف زندہ آدمی کو پکار اجاتا ہے۔اور کیا تم نہیں جانتے کہ صرف اللہ ہی سے مانگا جاتا ہے اور کسی سے نہیں۔
محمد احمد (مولوی حشمت علی بریلوی):میرے ساتھیو!یہ لوگ وہی وہابڑے ہیں جو رسول اللہ کے دشمن ہیں ، بزرگوں کی شان میں گستا خیاں کرنا ان کاشیوہ ہے،عرس مبارک اور میلاد شریف کے یہ سخت مخالف ہیں،قبروں پہ چراغاں جیسے متبرک کام سے انھیں نفرت ہے۔یہ لوگ کافر ہیں ،بلکہ جو شخص ان کے کافر ہو نے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے،اس لیے ان کافروں کی باتیں مت سنواور کانوں میں انگلیاں ٹھونس کے میرے ساتھ کہو:
یا نبی سلام علیک۔
سب بریلوی :یا نبی سلام علیک
سراج الدین (مولانا نعمانی): قبر یو!تم لوگ ہمارے متعلق کیا بکواس کررہے ہو ؟کیا ہم لوگ کافر ہیں ؟حالاں کہ ہمارے عقائدصحابہ کے عقائد کی طرح ہیں ۔ہمارے عقائد تابعین کے عقائد کی طرح ہیں ۔ہمارے عقائد جملہ ائمۂ کرام ،فقہائے عظام اور کتاب وسنت کے عین مطابق ہیں ۔
عبدالواحد (مولوی غلام دستگیر بریلوی):نعمانی صاحب!صرف زبانی جمع خرچ کرنے سے کچھ نہیں ہو تا،اگر تمھیں اپنے عقائد کی درستگی پر اتنا ہی یقین ہے ،تو ہم تم دیو بندیوں کو مناظرے کا چیلنج کرتے ہیں ۔دم ہے تو آیئے اور مناظرے کا چیلنج قبول کیجیے ۔تا کہ آج علی الاعلان دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے ۔
محمد خالد (مو لوی نعیم الدین مرادآبادی): ارے میرے گروگھنڈالو!تم یہ کیا کہہ رہے ہو !تم جانتے بھی ہو کہ تم کس کو چیلنج کررہے ہو ؟تم دیوبندیوں کو چیلنج کررہے ہو ،اس لیے میں تمھارا ساتھ نہیں دے سکتا ،میں چلتا ہوں ۔
عبدالواحد(مولوی غلام دستگیر بریلوی):جب ہم قبریوں کے سرخیل آپ ہی نہیں رہیں گے، تو ہمارا پرخچے اڑنا یقینی ہے،اس لیے آپ کو رضاؔ کا واسطہ ،آپ کو قبروں کے چڑھاوے کا واسطہ ،خدا را آپ مت بھاگیے اور بریلویت کو رسوا مت کیجیے۔
محمد خالد(مولوی نعیم الدین مرادآبادی):ارے قبریو!میں توکیا ،میرا باپ رضاؔ بھی اگر قبرسے اٹھ کر آجائے تو ان دیو بندیوں سے مناظرہ جیت نہیں سکتا، اس لیے میں برسرِ عام رسواہو نا نہیں چاہتا ۔تم نے انھیں چیلنج کیا ہے ،تم جانو اور تمھارا کام،میں چلتا ہوں ۔خدا حافظ۔خواجہ تمھیں شکست سے بچائے ۔
(یہ کہہ کر فوراً اسٹیج سے نکل جاتے ہیں )
محمد شوکت (مولوی سردار علی خان):دیوبندیوں کو چوں کہ ہماری طرح قبری حلوے اور نذرانے کے مرغے نہیں ملتے، اس لیے یہ لوگ ہمارے رزق پر حسد کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی قسمت پر ماتم بھی،اس لیے یہ لوگ ہم لوگوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ،حالاں کہ وہابڑوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ رزق دینا اللہ کاکام ہے،وہ جس طرح چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے ویسے دیتا ہے۔بندے کا کام اسباب اختیارکرنا ہے،اس لیے وہابڑو!تم بھی قبرپر ستی شروع کردو،پھر ہماری طرح ہی مرغے اڑاؤگے اور ہماری ہی طرح خوش قسمت بن جاؤگے ۔
سراج الدین (مولانا نعمانی): بے شک تمھاری طرح ہمیں مرُدوں کے کھانے کے لیے دیے ہو ئے حلوے اور قبروں پر چڑھائے ہو ئے مرغے نہیں ملتے ،اس لیے تم اپنے آپ کو نیک بخت کہتے ہو اور ہم کو بدبخت ۔لیکن قبریو!جس طرح تم اپنے حلووں اور بھنے تلے مرغوں میں خوش ہو ،اسی طرح ہمیں اپنے فاقے اور بھوکے رہنے پر فخر ہے ،کیوں کہ ہمارے سردارمحمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم بھی فاقے کیا کرتے تھے ۔اے اللہ ہمارا حشر بھی انھیں کے ساتھ فرما۔
محمد شوکت (مولوی سردار علی خان) :نعمانی !تو بہ کرو تو بہ ،تم نے یہ کیا کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے رہاکرتے تھے ،نعوذ باللہ من ذلک۔تم مرتد ہو گئے،تم کافر ہو گئے ،تم مباح الد م اور واجب القتل ہو گئے ،کہو بریلویو!نعمانی کافر،نعمانی کافر۔(نعرے کے ساتھ )
سراج الدین (مولانا نعمانی) :ارے قبر یو!تمھاری یہ فطرت رہی ہے کہ جب تم ہارنے لگتے ہو،تو ہنگامہ کھڑا کرکے کسی طرح جان چھڑا نا چاہتے ہو اور یہاں بھی تم اسی لیے ہنگا مہ کررہے ہو،تا کہ بھا گنے کاکو ئی راستہ مل جائے۔
محمداحمد(مولوی حشمت علی): ہاں نعمانی صاحب!ٹھیک سمجھاآپ نے،جان بچی تولاکھوں پائے ،آج جان بچ جائے گی، تو کل سے حلوے پھراٹے پھر سے ملنے شروع ہو جائیں گے ۔اس لیے ہمیں برسرِ عام یوں رسوا کرکے ہمارے پیٹ پر لات مت ماریے اور ہمیں بھاگنے دیجیے ۔
سراج الدین (مولانا نعمانی) :جلدی سے پیچھے کے راستے سے بھاگ جاؤ ،ورنہ دیکھ رہے ہو !عوام کے جوتے چپل تمھارے سروں کو تاک رہی ہیں ،لگنا شروع ہو جائے گا ،تو تمام مرغے باہر آجائیں گے۔
عبدالواحد(مولوی غلام دستگیر):نعمانی صاحب!آپ کا بہت بہت شکریہ ،آپ نے ہمیں بھاگنے کا موقع دے کر رسوائی اور پٹائی دونوں سے بچالیے ،ورنہ آپ کے سوا آج جوتے سے کو ئی خواجہ نہیں بچاسکتا تھا،اس لیے آپ کا شکریہ ،شکریہ ،شکریہ۔(تمام بریلوی اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں )
سراج الدین (مولانا نعمانی) :خدا کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ ہم دیوبندیوں کو اپنی جگہ جمائے رکھا اور بریلوی بری طرح شکست کھاکر بھاگے اور بہت سارے لوگوں کوتوبے کی توفیق عنایت فرمائی ۔فالحمداللہ اولاًوآخراً۔
محمد قاسم (مولانا عبدالطیف ):میدان بالکل خالی نظرآرہا ہے اس لیے ہم لوگ لوٹ چلتے ہیں
سراج الدین (مولانا نعمانی): ہا ں خداکا شکریہ اداکرتے ہوئے چلتے ہیں ۔