2 Apr 2018

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ ؟

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ ؟
پسِ منظر
یہ مکالمہ دراصل دارالعلوم دیوبند کی ایک فعال اور سر گر م عربی انجمن ’’النادی العربی ‘‘ کے ششماہی پر وگرام کے لیے عربی میں لکھا گیا تھا ، جب اس مو ضوع کی تعیین کے ساتھ لکھنے کی ذمہ داری احقر کو دی گئی ، تو پلاٹ کی ترتیب کی نو عیت پر بہت غور وفکر کیا ، لیکن شر وع میں کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیسے تر تیب دیں ؟ کیوں کہ ایک طر ف تو مکالمے کے حوالے سے موضوع اتنا خشک تھا کہ اسے مکالمے کے رنگ میں رنگنا دشوار نظر آرہا تھا ، وہیں دوسری طرف یہ حکم بھی تھا کہ اسے مزاحیہ روپ دیا جائے ، بہر کیف تو فیق ایز دی اورنہایت عر ق افشانی کے بعد پلاٹ کی تر تیب دے دی گئی اور مزاحیہ بنانے کے لیے نفس مضمون کے مکالمات کے ساتھ ساتھ عملی وآلی رموز کے سہارے بھی لیے گئے ۔ اور چوں کہ مکالمے کاافتتاح او ر اختتام بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہو تا ہے اور اسے کسی بھی رنگ میں رنگنے کے لیے انھیں دونوں حصوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے بایں وجہ مزاحیہ روپ دینے کے لیے ان دونوں حصوں پر زیادہ تو جہ دی گئی ہے اور خارجی رموز بھی استعمال کی گئی ہیں ۔
جب یہ مکالمہ اسٹیج کیا گیا تو جہا ں طلبۂ کرام او ر سامعینِ عظام نے بے حد پسند کیا ، وہیں اساتذۂ کرام نے بھی تحسین و حو صلہ افزا کلمات سے نوازا، جن کی بدولت احقر کو ا س میدان میں آگے قدم بڑھانے میں بہت حو صلہ ملا اور قدم بڑھاتا چلا گیا ۔ ہذامن فضل ربی وللہ الحمد ۔ اب اسے اردو میں منتقل کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے ۔



تفصیلات 
افراد کردار
(۱)محمد نسیم مو ؤن 
(۲)محمد خالد ایک عام دیوبندی 
(۳)محمد منور ایک عام سلفی 
(۴)ہدایت اللہ سلفی عالم 
(۵)ثنا ء اللہ سلفی عالم 
(۶)محمد سعد دیوبندی عالم
(۷)نہال انور دیو بندی عالم 
محمد نسیم (موؤن ): (ہاتھ میں ایک مو ٹی سی تسبیح اور سر پہ پگڑی باندھے اسٹیج پر آتا ہے اور اسٹیج پر لگی گھڑی ۔جس میں عشا کی اذان کا وقت بجا ہو تا ہے ۔کو دیکھتے ہو ئے کہتا ہے کہ )
اوفوہ ! عشا کی اذان کا وقت ہو بھی گیا ۔ چلو پہلے اذان دے دیتے ہیں ، پھر چٹائی و ٹائی بچھائیں گے ۔
(پھر ا س طر ح اذان دیتا ہے )اللہ اکبر اللہ اکبر ۔اللہ اکبر اللہ ۔۔۔۔۔۔(یہاں پر اچانک آواز بند کر دیتا ہے جو اس با ت کی طر ف اشارہ ہو تا ہے کہ بجلی کٹ جانے کی وجہ سے آواز بند ہو گئی ہے ۔ پھر دس پندرہ سکنڈ کے وقفے کے بعد )۔۔۔ ۔۔۔الہ الا اللہ ۔(پھر گھڑی کو پچاس منٹ آگے کر کے اسٹیج سے باہر آجاتا ہے ۔ اس کے بعد دو آدمی اسٹیج کے دونوں کناروں سے چل کر بیچ میں آکر ملتے ہیں اورعلیک سلیک کے بعد )
محمد خالد(عام دیوبند ی) : بھا ئی صاحب ! اذان ہو چکی ہے ،چلیے عشااور تراویح کی نماز پڑھنے چلتے ہیں ۔
محمد منور (عام سلفی ):تعجب ہے ! ابھی تک آپ نے عشا کی بھی نماز نہیں پڑھی ہے ؟ حالاں کہ میں عشا تو کیا تراویح سے بھی فارغ ہو چکا ہو ں ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی) :انا للہ ! ابھی تو اذان ہو نے سے پچاس منٹ بھی نہیں گذرے ہیں ، پھر بھی آپ عشا اور تراویح دونوں سے فارغ ہو گئے ؟ کیوں کہ صر ف عشا ہی کی نماز سنن و نو افل کے ساتھ دس رکعات ہیں ، پھر تراویح کی بیس رکعات ہیں ، اس کے بعد تین رکعات وتر کی بھی ہیں ۔ اور آخر میں کم از کم دورکعت نفل بھی ہے اور یہ تمام مل کر ۳۵؍رکعات ہو جاتی ہیں، توآپ نے ۳۵؍ رکعات ۵۰؍منٹ کے اندر ہی اندر کیسے ادا کر لیے ؟ یہ تو بچوں والی نماز ہی ہو سکتی ہے ۔
محمد منور (عام سلفی) : ( تعجب خیز انداز میں )کیا کہا آپ نے تراویح کی بیس رکعات ہیں ؟ ارے بھا ئی ! تراویح توصر ف آٹھ ہی رکعات ہیں ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صر ف آٹھ ہی رکعات منقول ہے ، ا س لیے ہم سلفی نبی کا کامل اتباع کر تے ہو ئے صر ف آٹھ ہی رکعات پڑھتے ہیں ، ہم مانتے ہیں کہ کثر ت صلاۃ بذات خود ایک عبادت ہے ، لیکن اتنی ہی کثرت عبادت ہے ، جتنی کہ شر ع میں منقول ہے، اس سے زیادہ عبادت نہیں؛ بلکہ گناہ ہے، نیز ارشادِ خداوندی ہے کہ ( یُرِ یْدُ الْلّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ) اورآپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیس کے با لمقابل آٹھ رکعات مختصر ہیں او رآسان بھی ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی ): تعجب ہے آپ پر اور آپ کی عقل و فکر پر ’’ چوری بھی اور سینہ زو ری بھی ‘‘ خواہش نفسانی کا اتباع کر تے ہوئے صر ف آٹھ رکعات ہی پڑھتے ہیں اور اس پر قرآن و حدیث سے غلط استدلال بھی کرتے ہیں ، ہا ئے تعجب ، ہا ئے افسوس ۔
محمد منور (عام سلفی ):دیو بندی بھا ئی ! آپ کو اس عمل پر تعجب او رافسوس ہو رہا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور جس عمل کو کر نے کا حکم امیر المؤمنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے دیا ہے او ر جس عمل پر امت کا توارث چلا آرہا ہے ؟۔
محمد خالد (عام دیوبندی ): نہیں میرے بھا ئی نہیں ۔ میں اس عمل پر تعجب نہیں کر رہا ہو ں،جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے او رجس کو کرنے کا حکم خلیفۂ ثانی نے دیا ہے ، بلکہ آپ کے اس عمل پر تعجب کر رہا ہو ں ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے ، صحابہ کے عمل کے خلاف ہے ،جمہورِ امت کے عمل کے خلاف ہے اور اس دعوے پر تعجب کر رہا ہو ں، جو شریعت کے خلاف ہوتے ہوئے بھی کامل اتباع نبوی سمجھ رہے ہیں ۔
محمد منور (عام سلفی ): دیوبندی بھائی !اب آپ بالکل خاموش ہو جائیے او رمزید ایسی ہر زہ سرائی نہ کیجیے ، جس سے آپ کا ایمان و عقیدہ اکارت ہو جائے ۔اور میں بھی اب کچھ نہیں بو لوں گا ، جس سے آپ کی ہٹ دھر می میں اضافہ ہو جائے ، اس لیے میں ایک بڑے عالم کو بلاتاہوں ، جو آپ کو اچھی طرح سمجھادیں گے کہ تراویح صر ف آٹھ رکعات ہیں بیس رکعات نہیں ہیں ۔
محمد خالد (عام دیو بندی) :ٹھیک ہے بلائیے ۔
محمد منور(عام سلفی ):(موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم ) : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ،کہو کیسے یاد فر مایا آپ نے ؟ کوئی خاص مسئلہ پیش آگیا ہے کیا ؟ 
محمد منور(عام سلفی ): جی حضرت، معاملہ کچھ ایسا ہی پیش آگیا ہے ، میرے ایک دیوبندی دوست ہے، جوا س بات پر بہ ضد ہے کہ ترا ویح بیس رکعات ہیں آٹھ نہیں ، میں نے اسے سمجھانے کی ہر ممکن کو شش کی، مگر یہ سمجھتا ہی نہیں، اس لیے آپ جلدی تشریف لے آئیے ، تاکہ ہم اپنے دوست کو دیوبندیت کی ضلالت سے سلفیت کی ہدایت پر لاسکیں ۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم) :ٹھیک ہے میں پہنچ رہا ہو ں، تم میرا انتظار کرو ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
محمد منور (عام سلفی ):وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ (دیو بندی کو مخاطب بنا کر ) وہ آرہے ہیں ، جو اچھی طرح آپ کو سمجھا دیں گے ۔
(اتنے میں دو سلفی عالم اسٹیج پر آجاتے ہیں )
مولانا ہدایت اللہ(سلفی عالم ) :حامداً و مصلیا امابعد! سب سے پہلے میں اس بات پر شکر یہ ادا کر وں گا کہ ایک دیو بندی کی اصلاح کے لیے مجھے بلایا گیا ، کیوں کہ اگر ایک دیو بندی کی اصلاح ہوجائے تو میں اسے سو ابلیس کو مسلمان بنانے سے زیادہ ثواب کاکا م سمجھتا ہو ں ، اس لیے کہ شیطان شیطانی کر تا ہے، تواس احساس کے ساتھ کر تا ہے کہ و ہ شیطانی کا م ہے ، جس کی اصلاح ممکن ہے ، لیکن ایک دیو بندی کو ئی غلط کام کر تا ہے تو اسے غلطی کا احساس نہیں ہو تا؛ بلکہ وہ اسے دین کاکام سمجھ کر کر تا ہے، او رایسوں کی اصلاح نا ممکن ہے ، انھیں غلط کاموں میں سے ایک، دیو بندی کا بیس رکعات تراویح پڑھنابھی ہے ،حالاں کہ بے شمار احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ مسئلہ مذکور ہے کہ تراویح صرف آٹھ رکعات ہیں ۔میں چند احادیث پیش کر تا ہوں۔
اِنَّ صَحَابِیًّا سَاألَ عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہٗ تَعَالیٰ عَنْہَا :کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُوْ لِ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ :مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہٖ عَلیٰ اِحْدَیٰ عَشْرَ ۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّی اأرْبَعًا ‘‘(بخاری شریف،ص،۱۵۴)۔
اس حدیث سے صاف پتہ چلتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں صرف گیارہ رکعات پڑھا کر تے تھے ، جن میں سے آٹھ تراویح کی ہو تی اور تین وتر کی ہوتی تھیں۔ اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مر وی ہے: 
صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ لَیْلَۃً ثَمَانَ رَکَعَاتٍ وَالْوِتْرَ۔
علاوہ ازیں خلیفہ ثانی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بھی آٹھ ہی رکعات پڑھنے کا حکم دیاہے ، جیسے کہ مو طا امام مالک میں ایک حدیث ہے :
’’ اَمَرَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہٗ تَعَالیٰ عَنْہٗ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَ تَمِیْمًا اَلدَّارَمِیْ اَنْ یَقُوْمَ لِلنَّا سِِ اِحْدَیٰ عَشْرَ ۃَ رَکْعَۃً‘‘۔
ان تمام احادیث سے یہی ثابت ہو تا ہے کہ تراویح صر ف آٹھ رکعات ہیں، بیس رکعات نہیں ہیں ۔
دیوبندی جی !اب تو آپ کے دل میں آٹھ کے بارے میں کو ئی شبہ باقی نہیں ہوگا؟
محمد خالد(عا م دیوبندی ):مو لانا سلفی صاحب ! ابھی آپ نے جو احادیث مبارکہ پڑھ کر سنائیں ،وہ سر آنکھو ں پر ، لیکن میں ایک جاہل آدمی ہو ں ، میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتا ہو ں کہ آپ نے جو کہا وہی حق ہے ، یا پھر وہ جو ہمارے علمائے کر ام کہتے ہیں ، کیوں کہ وہ بھی تو احادیث ہی سے بیس رکعات ثابت کرتے ہیں ،اس لیے میں بھی اپنے علما کو بلا تا ہو ں ، تا کہ آج آمنے سامنے یہ فیصلہ ہو جائے کہ کون حق پر ہے او ر کو ن باطل پر ؟ 
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم) : میرے بھائی ! میں تو آپ کے سامنے احادیث سے مکمل صراحت کے ساتھ یہ ثابت کر دیاکہ تراویح آٹھ ہی رکعات ہیں ، اس لیے آپ کو اپنے علما کو بلانے کی کیا ضرورت ہے ۔ میری باتوں پرغور وفکر کر تے رہیے ، سب سمجھ میں آجائے گا ۔
محمد منور (عام سلفی ): میرا دوست ٹھیک کہہ رہا ہے، انھیں بھی اپنے علماکو بلانے دیجیے، اگر ہم حق پر ہیں، تو ڈر نے کی کیا بات ہے ، ان کے علماکے سامنے بھی حق واضح ہو جائے گا۔(دیو بند ی سے مخاطب ہو کر ) آپ اپنے علما کو بلایئے ۔
محمد خالد (عام دیو بندی ) : (موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
مولانا محمد سعد (دیو بندی عالم) :(اسٹیج کے پیچھے سے ) وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ، کہو کیسے یا د فر مایا آپ نے ؟ 
محمد خالد (عام دیوبندی) :اس وجہ سے زحمت دی آپ کو ، کہ ہمارے یہاں ایک سلفی عالم آئے ہو ئے ہیں ، جو یہ کہہ رہے ہیں کہ احادیث سے تراویح کی صرف آٹھ رکعات ہی ثابت ہیں اور مجھے سلفی بنانے کی ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں ، اس لیے آپ تشریف لے آئیں ، تو آپ کی مہر بانی ہو گی ۔
مولانا سعد (دیوبندی عالم) :ٹھیک ہے ، آپ اسے روکے رکھیے ، کہیں بھاگنے نہ پا ئے ، میں بہت جلد آرہا ہوں، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
محمد خالد (عام دیو بندی ): شکر یہ حضرت ، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔ 
مولانا ثناء اللہ( سلفی عالم):کیا وہ تشریف لا رہے ہیں ؟ 
محمد خالد (عام دیو بندی ):(موبائل جیب میں رکھ کر) ہا ں بس وہ پہنچنے ہی والے ہیں ۔
مولاناثناء اللہ (سلفی عالم) :(گھبراہٹ کے انداز میں ) بھا ئی ! میں چلتا ہوں،اس لیے کہ گھر میں بہت کام ہے ، پھر کبھی ملاقات ہوگی ، ان شاء اللہ ۔
محمد منور (عام سلفی ):رکیے مولانا رکیے !اتنی سخت سردی میں بھی آپ کی پیشانی پر پسینہ ؟ خیریت تو ہے ، مو لانا اگر ہم حق پر ہیں ، تو دیو بند ی علماکے نام سے گھبراکربھاگنے کی کیا ضرورت ہے ؟
(اتنے میں دو دیو بندی عالم اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں او رعلیک سلیک کے بعد )
مولانامحمد سعد(دیوبندی عالم) :مجھے اطلاع ملی ہے کہ بیس رکعات تراویح کو آٹھ کر نے کے لیے آپ ایک جاہل آدمی سے مناظرہ کررہے ہیں ؟ 
مولاناثنا ء اللہ (سلفی عالم ):مولانا !چھوڑیے ان باتو ں کو اور خدا را ہمارے پیچھے مت پڑیے، ویسے بھی اس مو ضوع پر مناظرہ کرنے سے کچھ فائد ہ نہیں ، کیو ں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کے زمانے میں لوگ کس قدر سہولت پسند اور تن آساں ہو گئے ہیں اور تراویح کے حوالے سے آٹھ بیس دونوں طرح کی روایتیں ہیں ، اس لیے زمانے کے تقاضے کے مطابق جس روایت پر چاہیں عمل کر سکتے ہیں ، اس میں جھگڑ نے کی کو ئی بات ہی نہیں ہے ۔
مولانامحمد سعد(دیوبندی عالم ):سلفی عالم صاحب! مذہبِ اسلام کو ئی کھیل کی چیز نہیں کہ جو چاہے ، او رجس طرح چاہے ، اس سے کھیل کر ے ، اورآپ کایہ کہنا کہ ہم جس روایت پر چاہیں حسبِ خواہش عمل کر سکتے ہیں، یہ انتہائی غلط نقطۂ نظر او رگھنا ؤنی فکر کی عکاسی کر تا ہے ، اگر آپ سلفی حضرات ان جیسی چیزوں سے باز نہیں آئیں گے تو کوئی بعید نہیں کہ آپ حضرات اپنے ایمان سے ہا تھ دھو بیٹھیں۔ اس لیے آج میں احادیث کی روشنی میں یہ ثابت کر دکھاؤں گا کہ تراویح حقیقہً بیس رکعات ہیں ، آٹھ رکعات نہیں ۔
اس سلسلے میں بے شمار احادیث مر وی ہیں ، لیکن قلتِ وقت کی وجہ سے چند احادیث پیش کر تا ہو ں، علامہ شیخ نیمویؒ نے آثار السنن میں ایک حدیث ذکر کی ہے کہ 
’’ اِنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہٗ عَنْہٗ اَمَرَ رَجُلًا اَنْ یُصَلِّیَ بِہِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً ‘‘۔
تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ترا ویح میں بیس رکعات ہی پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عطا کاقول منقول ہے کہ
’’اَدْرَکْتُ النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً ‘‘
علاوہ ازیں چاروں امام بھی بیس رکعات ہی کے قائل تھے ۔ نیز عہد صحابہ سے لے کر با ر ھویں صدی تک پو ری امت کااجماع او رتوارث اسی پر چلا آرہا ہے کہ تراویح بیس رکعات ہیں ، چنانچہ امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ
’’ثُمَّ اسْتَقَرَّالأمْرُ عَلیٰ أَنَّ التَّرَاوِیْحَ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً ‘‘
حافظ ابن حجر بھی یہی کہتے ہیں کہ
’’ اِجْتَمَعَتِ الصَّحَابَۃُ عَلیٰ اَنَّ التَّرَاوِیْحِ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً ‘‘ 
امام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ
’’ہُوَ الَّذِیْ یَعْمَلُِ بہٖ اَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘۔
علاوہ ازیں دنیا کی تمام مسجدوں میں حتی کہ حر مین شریفین میں آج بھی بیس رکعات کی تراویح ہوتی ہے ، اگر حقیقت میں آٹھ ہی رکعات ہو تیں ،تو امت کے یہ جلیل القدر علما اس کی مخالفت نہ کر تے او رنہ ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد اس کے خلاف عمل پیرا ہوتی ۔لہذامعلوم ہو اکہ آٹھ رکعات نہ صرف احادیث کے خلاف ہیں، بلکہ تعاملِ صحابہ او راجماعِ امت کے بھی خلاف ہیں۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم):(متعجبانہ لہجے میں ) مولانا قاسمی صاحب، کیا کہا آ پ نے! آٹھ رکعات کا ثبوت احادیث کے خلاف ہے ، حالاں کہ اس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث مر وی ہے جو بخاری شریف میں مو جود ہے ، اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک حدیث مر وی ہے ، جس میں صراحت کے ساتھ آٹھ رکعت کا ذکر ہے ، اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ کا حکم بھی حدیث کی کتابوں میں مو جو د ہے ، کیا بخاری شر یف جھوٹی کتاب ہے ؟ کیا احادیث کا جو ذخیر ہ ہم تک پہونچا ہے، یہ سب جھوٹی باتو ں سے بھر ی ہو ئی ہے ، اگر یہ سب جھوٹ نہیں ہے اور یقیناًجھوٹ نہیں ہے، توان احادیث کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے اور آپ کے پاس ان کے کیا جوابات ہیں ؟ 
مولانا نہا ل انور (دیو بندی عالم) : مولانا سلفی صاحب ! ہمیں ان کے حدیث ہو نے کا انکار نہیں ہے ، البتہ جن احادیث کی طر ف آپ نے اشارہ کیاہے ، ان سے وہ مر اد نہیں ہے ، جو آپ حضرات سمجھ رہے ہیں؛ بلکہ ان کا صحیح مطلب وہ ہے ، جو میں بتلانے جارہا ہو ں ، جہاں تک حضرت عائشہ کی حدیث کی بات ہے ، تو اس سے تراویح نہیں، بلکہ تہجد کی نماز مراد ہے ؛ کیوں کہ اس حدیث میں ایک لفظ ’’ وَلَا فِیْ غَیْرِہِ ‘‘ہے، جو اس با ت پر صراحتاً دلالت کر تا ہے کہ حضرت عائشہؓ ؓؓؓؓؓؓ سے تہجد کے بارے میں سوال کیا گیا تھا ؛کیوں کہ غیر رمضان میں تہجد ہی پڑھی جاتی ہے ، تراویح نہیں ۔
اگر با لفر ض ہم یہ مان بھی لیں کہ تراویح ہی کے متعلق سوال کیا گیا تھا، تو بھی آٹھ کی تحدید درست نہ ہو گی؛ کیو ں کہ حضرت عائشہ سے پانچ طرح کی روایتیں مر وی ہیں ، جن میں یہ چار قوی اسانید سے ثابت ہیں ؛ (۱) گیارہ رکعات (۲) تیرہ رکعات (۳) اکیس رکعات (۴) تئیس رکعات، لہذا صرف آٹھ کی تحدید د رست نہیں ۔ اسی وجہ سے امام قر طبی ؒ حضرت عائشہ کی حدیثوں کے بارے میں یہ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اُشْکِلَتْ رِوَایَاتُ عَاءِشَۃَ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ اَہْلِ الْعِلْمِ حَتٰی نَسَبَ بَعْضُہُمْ حَدِیْثَہَا اِلٰی الِاضْطِرَابِ ‘‘ 
اورماشاء اللہ آپ عالم ہیں، جانتے ہی ہیں کہ حدیث مضطرب سے استدلال کر نا درست نہیں ہے ۔
مولانا ثناء اللہ(سلفی عالم ) :مولانا قاسمی صاحب ! چلو ہم یہ مان لیتے ہیں کہ حدیثِ عائشہ تہجد سے تعلق رکھتی ہے ، یا مضطر ب ہے ، لیکن حضرت جابرؓ کی حدیث میں تو صراحت کے ساتھ تراویح اور رمضان کاذکر ہے ۔ اس میں آپ یہ کہہ ہی نہیں سکتے ہیں کہ وہ تہجد سے متعلق ہے ، اسی طرح حدیث عمر بھی ہمارے ہی موقف پر دلالت کر تی ہے۔ ان کا کوئی جواب ہے آپ کے پا س ؟ 
مولانا نہا ل انور(دیو بندی عالم ) :ہمیں آپ کی یہ بات تسلیم ہے ، لیکن جس حدیث جابر کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، در اصل اس میں ایک راوی متہم بالکذ ب اور منکر الحدیث ہے ، او رمنکر کے بارے میں امام بخاری کا یہ فیصلہ ہے کہ
’’ اِنَّ مُنْکَرَ الْحَدِیْثِ وَصْفٌ فِی الرِّ جَالِ یَسْتَحِقُّ بِہٖ التَّرْ کَ‘‘
لہذا اس سے استدلال کر نا درست نہیں ۔
اور رہی بات حدیثِ عمر کی ، تو وہ سند اور متن دونو ں اعتبار سے مضطرب ہے ، اور مضطرب کے بارے میں ابھی آپ نے سنا کہ وہ قابلِ استدلال نہیں ۔ علاوہ ازیں اس کے خلاف حضرت عمر ہی کے متعلق ’’ بیہقی میں صحیح سند کے ساتھ سائب بن یزید سے ایک روایت مذکور ہے کہ 
’’ کَانُوْایَقُوْمُوْ نَ عَلیٰ عَہْدِ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِؓ فیِ شَھْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِ یْنَ رَکْعَۃً وَ کَذَ ا فِیْ عَہْدِ عُثْمَانَؓ ‘‘۔ 
المختصر تمام روایتوں پر غائرانہ نظر دوڑ انے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ تراویح آٹھ نہیں؛ بلکہ بیس رکعات ہیں ، جیسا کہ میں نے کچھ نمونہ آپ کے سامنے پیش کیا ، اب تو آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ تراویح بیس ہی رکعات ہیں ، یا اب بھی کوئی شبہ باقی ہے ؟اگر باقی ہے تو پیش کیجیے ان شاء اللہ اس کا بھی ازالہ ہو جائے گا ۔
مولانا ہدایت اللہ( سلفی عالم ) :میرے کر م فرما مولانا قاسمی صاحب! اب تک تو ہم سلفی یہی سمجھتے آرہے تھے کہ ا حادیث کو ہم سلفی کے علاوہ کو ئی اور صحیح طو ر پر سمجھتا ہی نہیں ہے ، لیکن آپ دونوں کی اس بلیغانہ ، عالمانہ اور محققانہ تقریر سے معلوم ہو ا کہ حقیقت بالکل ا س کے بر عکس ہے ۔آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری آنکھیں کھو ل دیں او رفریبِ علاّمیت سے نکال کر حق و صداقت کی راہیں دکھلائیں ۔فجزاکمااللہ احسن الجزاء۔
محمدمنور(عام سلفی ): میں بھی اپنے مولویوں کی غلط فہمیو ں کی وجہ سے اب تک دھو کے میں پڑا ہو ا تھا اور بچپن سے لے کر اس عمر تک آٹھ رکعات ہی پڑھا کر تا تھا ، جس کی وجہ سے بارہ رکعات کے ثواب سے محروم ہو تا رہا ، لیکن آج سے ان شاء اللہ بیس رکعات پڑھا کر وں گا ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی) : ( گھڑی دیکھتے ہو ئے ) مسجد میں تراویح ہو رہی ہے ، تو چلیے چلتے ہیں اور مکمل بیس رکعات پو ری کر کے آتے ہیں ۔
محمد منور(عالم سلفی ): ہا ں ہا ں جلدی چلیے کہیں کو ئی رکعت نہ نکل جائے اور پھر کفِ افسوس ملنا پڑ ے ۔(بعد ازاں تمام حضرات اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں اور موؤن آتاہے ، جو گھڑی میں سحر ی کا وقت بجا دیتا ہے ، پھر بہ آواز بلند یہ اعلان کر تا ہے ) 
محترم حضرات ! سحری کھانے کا وقت ہو گیا ہے ، اس لیے جلد سے جلد اپنی نیند کو تو ڑ یں اورسحری کھالیں (یہ اعلان دو مر تبہ کر تا ہے ، پھر گھڑی میں ختمِ سحری کا وقت بجا کر دو مر تبہ یہ اعلان کر تا ہے کہ )
محتر م حضرات ! سحری کا وقت ختم ہو گیاہے ، اس لیے جو حضرات سحری تناول فر ما رہے ہیں ، وہ کھانا بند کر دیں اور نمازِ فجر کی تیاری کریں ۔