4 Oct 2018

Gosol ka Bayan, Fariz-e- Gosol

غسل کا بیان

فرائض غسل
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (10) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
غسل میں تین چیزیں فرض ہیں: 
(۱) کلی کرنا۔ 
(۲) ناک میں پانی ڈالنا۔ 
(۳) ایک مرتبہ سارے بدن پر پانی بہانا۔ 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
و ان کنتم جنبا فاطھروا۔ (المائدہ: ۶)
اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارا بدن پاک کرو۔ 
اور سارے بدن میں منھ اور ناک بھی ہے، اس لیے غرغرہ کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی اس آیت سے فرض ہے۔ حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب جنابت میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول جاؤ تو اپنی نماز کو دوہراؤ۔ (مسند عبد الرزاق ، سعید بن منصور)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
المضمضۃ والاستنشاق للجنب فریضۃ۔ (رواہ الامام ابو برکۃ الخطیب من جھۃ الدار قطنی و لیس فیہ راو ضعیف، زجاجہ ۱۱۲)
کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈال کر سنکنا جنبی کے لیے فرض ہے۔ 
عن علیؓ قال رسول اللّٰہ ﷺ : من ترک موضع شعرہ من جنابۃلم یغسلھا فعل بھا کذا و کذا من النار، قال علیؓ: فمن ثم عادیت راسی فمن ثم عادیت راسی ثلاثا۔ (رواہ ابو داؤد و سکت عنہ ، و فی التلخیص الجیر اسنادہ صحیح) 
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے غسل جنابت میں بال بھر جگہ چھوڑ دی ، جس کو انھوں نہیں دھویا، تو اس کی وجہ سے اس کے ساتھ ایسا ایسا معاملہ آگ کا کیا جائے گا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں اپنے سر کا دشمن ہوں ، اسی وجہ سے میں اپنے سر کا دشمن ہوں ، تین بار فرمایا۔ 
حضرت علیؓ اسی وجہ سے سر میں زلف نہیں رکھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بال کی وجہ سے سر میں کوئی جگہ سوکھی رہ جائے اور پھر عذاب اور دوزخ میں مبتلا ہونا پڑے، اس لیے برابر سر کو منڈواتے رہتے تھے۔ یہی سر کے ساتھ ان کی دشمنی تھی۔ 
معلوم ہوا اگر بدن میں کہیں بھی بال کے برابر خشک جگہ رہ گئی ،تو اس کا غسل صحیح نہیں ہوگا، اس لیے ناف کے اندر انگلیوں کے درمیان ، تمام بالوں کا اور سر اور داڑھی اور مونچھ اور بھؤوں کے بالوں کے اندر کی کھال کو تر کرنا، غیر مختون کے لیے کھال کے نیچے اور فرج خارج تک پانی پہنچانا فرض ہوگا۔ اگر کان میں بالی اور ناک میں نتھ ہو تو ان کے سوراخوں کے اندر بھی پانی پہنچانا فرض ہے ۔ اگر انگوٹھی، چوڑی سخت ہو تو اس کو ہلاکر پانی پہنچانا ضروری ہے ۔ اگر ناخن میں آٹا یا کوئی ایسی چیز جو اندر پانی پہنچنے نہ دے ، تو اس کو چھڑا کر اس جگہ پانی پہنچانا ضروری ہے ، ورنہ غسل نہ ہوگا۔ یا بدن کے کسی حصہ میں کوئی ایسی چیز ہو جو اندر پانی نہ پہنچنے دیتا ہو، تو اس کو دور کرکے دھونا اور پانی پہنچانا ضروری ہے، اس لیے کہ یہ بھی بدن کے حصے ہیں ۔ اور تمام بدن کا دھونا فرض ہے ؛ البتہ عورتوں پر جب کہ بال گوندے ہوئے ہوں تو بالوں کا کھول کر تر کرنا ضروری نہیں، صرف بال کے جڑوں کا تر کرنا ہی کافی ہے۔ 
عن ام سلمۃؓ قالت: قلتُ یا رسولَ اللّٰہ ﷺ انی امرء ۃ اشد ضفرَ راسی افانقضہ لغسل الجنابۃ، فقال: لا انما یکفیک ان تحثی علیٰ راسک ثلاث حثیات ثم تفیضین علیکِ الماء فتطھرین۔ (رواہ مسلم) 
حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! میں اپنے سر کے بالوں کو گوند لیتی ہوں، کیا میں غسل جنابت کے لیے ان کو کھول لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں تجھ کو اپنے سر پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے ۔ پھر اپنے بدن پر پانی بہالو، پاک ہوجاؤ گی ۔ 
بدن پر تیل مالش کرکے غسل کرنا درست ہے۔
قسط نمبر (11) کے لیے کلک کریں

3 Oct 2018

Aqsaame Wazoo

اقسام وضو
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (9) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
وضو کی تین قسمیں ہیں: 
(۱) فرض : اگر وضو نہ ہوتو ہر قسم کی نماز اور سجدہ تلاوت اور قرآن مجید کو چھونے کے لیے خواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو، وضو کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ 
یاایھا الذین اٰمنوا اذا قمتم الیٰ الصلاۃ فاغسلوا (المائدہ، ۶)
ائے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو وضو کرو۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاتقبل صلاۃ بغیر طھور (مسلم)
بغیر طہارت کے نماز نہیں ہوتی۔ 
قرآن کے بارے میں فرمایا
لایمسہ الا المطھرون
بغیر پوری طہارت کے قرآن نہ چھوئے۔ 
(۲) واجب: خانہ کعبہ کے طواف کے لیے وضو کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
الطواف حول البیت مثل الصلاۃ (ترمذی)
نماز کی طرح بیت اللہ کا طواف کرنا ہے۔ 
یعنی نماز کی طرح بیت اللہ کے لیے طہارت شرط ہے ۔مگر چوں کہ خبر واحد سے ثابت ہورہا ہے، اس لیے وجوب کے قائل ہوئے۔ 
(۳) مستحب: سونے کے لیے، سوکر اٹھنے کے بعد، برابر باوضو رہنے کے لیے، وضو پر وضو کرنا، غیبت، جھوٹ، چغلی ؛ ہر قسم کے گناہ اور غزل پڑھنے کے بعد، خارج نماز میں کھل کھلاکر ہنسنے کے بعد، میت کو غسل دینے اور اس کو اٹھانے کے لیے ، ہر نماز کے وقت کے لیے، غسل جنابت سے پہلے، جنابت کی حالت میں کھانے، پینے، سونے اور وطی کرنے کے لیے، غصہ ہونے پر، قرآن وحدیث کے پڑھنے اور اس کی روایت کے لیے، دینی تعلیم دینے کے لیے ، اذان و اقامت اور خطبہ کے لیے، نبی کریم ﷺ کی زیارت کے لیے،وقوف عرفات کے لیے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کے لیے، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد اور علما کے اختلاف سے نکلنے کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔ (نور الایضاح)

2 Oct 2018

Nawaaqize Wazoo


نواقض وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (8) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جن چیزوں سے وضو باقی نہیں رہتا ہے اور دوبارہ وضو کرنا ہوتا ہے، اس کو ناقض وضو کہتے ہیں ۔ اس کی جمع نواقض آتی ہے ۔ حسب ذیل چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے: 
(۱) پیشاب کے راستے سے ہوا نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس کے علاوہ پیشاب اور پاخانہ کے راستے سے جتنی چیزیں نکلیں، ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا ینقض الوضوء الا ما خرج من قبل او دبر۔ (رواہ الدار قطنی عن ابن عمر، من طریق مالک، حاشیہ کنز، ص۷)
جو کچھ آگے اور پیچھے کی راہ سے نکلتا ہے، وہی وضو کو توڑتا ہے۔ 
معلوم ہوا کہ ان دونوں راستوں سے جو کچھ بھی نکلے گا، وہ وضو کو توڑ دے گا، جیسے پیشاب، پاخانہ، منی، مذی ، کیڑا، کنکر، خون اور ہوا۔ 
استنجے کے بارے میں تیمم کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
او جاءَ احد منکم من الغائط۔ (النساء، ۴۳)
یا تم سے کوئی استنجے سے آیا ہو۔ 
یعنی اس سے بھی وضو نہیں رہتا ہے، استنجے سے فارغ ہونے کے بعدپانی نہ ملے تو وضو کے بدلہ میں تیمم کرے۔ معلوم ہوا کہ استنجے سے (وضو)ٹوٹ جاتا ہے، جب ہی تو تیمم کی حاجت ہوئی۔ 
حدث کے بارے میں فرمایا: 
عن ابی ھریرۃؓ قال، قال رسول اللّٰہ ﷺ : لاتقبل صلاۃ من احدث حتیٰ یتوضأ۔ (متفق علیہ)
جس نے ہوا خارج کی، اس کی نماز مقبول نہیں، یہاں تک کہ وضو کرلے۔ 
مذی کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
عن علیؓ قال، کنتُ رجلا مذّا ء فکنتُ استحیی ان اسئل رسولَ اللّٰہ ﷺ لمکان ابنتہ فامرتُ المقداد بن الاسود فسئلہ، فقال: یغسل ذکرہ و یتوضأ (متفق علیہ)
ذکر کو دھولے اور ضو کرلے۔ 
(۲) ان دونوں مقام کے علاوہ اگر کہیں اور سے نجاست نکل کر بہہ جائے اور بہہ کر ایسی جگہ پہنچ جائے، جس کا وضو اور غسل میں دھونا ضروری ہو ، تواس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ، جیسے: خون، پیپ، زخم کا پانی وغیرہ۔ 
خون کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: 
الوضوء من کل دم سائلٍ۔ (رواہ الدار قطنی) 
بہتے ہوئے خون سے وضو ہے۔ 
فاطمہ بنت حبیشؓ نے آپ ﷺ سے استحاضہ کے بارے میں سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
توضئی لکل صلاۃٍ، حتیٰ یجئی ذالک الوقت۔ (بخاری) 
ہر نماز کے لیے وضو کرو، جب وقت آجائے۔ 
استحاضہ وہ خون ہے جو رگ کے پھٹنے سے نکلتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، خواہ کہیں سے نکلے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی نماز میں نکسیر پھوٹتی تو جاکر وضو کرتے اور اس نماز کو پوری کرتے اور کلام نہ کرتے۔ (موطا امام مالک، ص۱۴) ۔ 
اسی طرح دوسری نجاستوں کو سمجھو۔ اگر منھ سے خون نکلے اور تھوک کو رنگین کردے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ 
(۳) بھر منھ قے ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اگر ایک ہی متلی سے چند بار تھوڑی تھوڑی قے ہو، مگر مجموعہ بھر منھ کی مقدار ہوجائے تو وہ بھی ناقض وضو ہے ۔ 
عن حسین المعلم بسندہ الیٰ معدان بن ابی طلحۃ عن ابی الدرداء ان النبی ﷺ قاء، فتوضأ، قال: لقیت ثوبانَ فی مسجد دمشق فذکرتُ ذالک لہ، فقال: صدق، و انا صببتُ علیہ وضوۂ۔ (رواہ ابو داؤد، والترمذی، والنسائی)
حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قے کی پس وضو کیا۔ راوی کا بیان ہے کہ دمشق کی مسجد میں حضرت ثوبانؓ سے ملاقات کی اور میں نے اس کا تذکرہ ان سے کیا، تو حضرت ثوبانؓ نے فرمایا : سچ ہے، میں نے آپ ﷺ کو وضو کرایا ہے۔ 
خالص بلغم کی قے ہوتو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ بلکہ اس کے علاوہ جو کچھ قے ہو، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، جب کہ بھر منھ ہو، جیسے: کھانا، پانی ، پت وغیرہ۔ 
(۴) کروٹ یا چت یا کسی چیز سے سہارا لگا کر اس طرح بے خبر سونا کہ اگر اس کو ہٹا لیا جائے تو وہ گر جائے، اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ لیکن نیند حقیقت میں ناقض وضو نہیں ہے؛ بلکہ سونے کی وجہ سے مفاصل ڈھیلے ہوجاتے ہیں، جس سے ہوا خارج ہونے کا امکان رہتا ہے، اس وجہ سے نیند کو ناقض وضو کہا گیا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الوضوء علیٰ من نام مضطجعا، فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد عن بن عباس، زجاجہ ۷۸)
وضو کروٹ سونے والے پر ہے ، اس لیے کہ جب کروٹ سوتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے پڑجاتے ہیں ۔ (جس سے ہوا خارج ہوجایا کرتی ہے ۔ ) 
دوسری حدیث میں ہے کہ 
انما العینان وکاء السہ، فاذا نامت العین استطلق الوکاء (الدارمی) 
آنکھیں پاخانہ کے مقام کی ڈاٹیں ہیں، جب آنکھیں سوجاتی ہیں، تو ڈانٹیں کھل جاتی ہیں۔
اسی لیے اگر مفاصیل ڈھیلے نہ ہوں تو وضو نہیں ٹوٹتا، جیسے کہ کھڑے کھڑے سونا، چوتڑ کے بل بیٹھ کر سونا، سجدہ میں سونا، بیٹھے بیٹھے اونگھنا، نماز کی کسی حالت پر سونا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ 
لیس علیٰ المحتبی النائم و لا علیٰ القائم النائم ولا علیٰ الساجد النائم، حتیٰ یضطجع، فاذا اضطجع توضأ۔ (رواہ البیھقی فی المعرفۃ، و قال الحافظ فی التلخیص اسنادہ جید) 
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ چوتڑ زمین پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں سے پاؤں کا حلقہ باندھ کرسونے والے پر اور کھڑے کھڑے سونے والے پر اور سجد میں سونے والے پر وضو نہیں ہے ، یہاں تک کہ کروٹ لیٹ جائے ۔ جب لیٹ کر سو گیا، تو وضو کرے۔ 
ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ سجدہ میں سو کر خراٹے بھرنے لگے۔ پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے ۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ تو سو گئے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ 
ان الوضوء لایجب الا علیٰ من نام مضطجعا، فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ۔ (رواہ ابو داود والترمذی، زجاجہ، ص؍ ۷۷) 
وضو کروٹ سونے والے پر ہی واجب ہوتا ہے ، اس لیے کہ جب کروٹ سوتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ 
(۵) بیہوش ہوجانے سے ۔ (۶) پاگل ہوجانے سے ۔ (۷) نشہ میں ہوجانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس لیے کہ یہ حالات نیند سے بھی زیادہ بے خبری کے ہیں، اس لیے وضو اس سے بھی جاتا رہے گا۔ 
(۸) رکوع سجدہ والی نماز میں بالغ نمازی کا بیداری کی حالت میں ہنسنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
عن بن عمرؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من ضحک فی الصلاۃ قھقھۃ فلیعد الوضوءَ والصلاۃَ۔ (رواہ ابن عدی فی الکامل)
جو شخص نماز میں کھل کھلا کر ہنسے، وہ وضو اور نماز کو لوٹائے۔ 
معلوم ہوا کہ نماز میں ہنسنے سے وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جاتے ہیں ۔ چوں کہ یہ خلاف قیاس حکم ہوا ہے، اس لیے دوسری حالت کو اس پر قیاس نہیں کریں گے۔ اور یہ حکم آپ ﷺ نے اس وقت دیا، جب کہ آپ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے ، اتنے میں ایک شخص آیا ، جس کی بینائی میں کچھ خرابی تھی۔ مسجد میں ایک گڑھا تھا ، اس میں آگرا ، تو بہت سے لوگ نماز ہی میں ہنس پڑے۔ آں حضرت ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص ہنسا ہے وہ وضو اور نماز دونوں کو لوٹائیں۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر)
اسی لیے نماز سے باہر ہنسنے میں یا جنازہ کی نماز میں ہنسنے سے یا نابالغ بچوں کے ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اسی طرح مسکرانے اور آہستہ ہنسنے سے کہ دوسرا نہ سن سکے، وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اسی طرح اگر نماز میں ہیئت مسنون پر سوگیا اور خواب میں ہنس پڑا تو اس سے بھی وضو نہیں ٹوٹے گا۔ 
(۹) مباشرت فاحشہ سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ مباشر فاحشہ اس کو کہتے ہیں کہ مرد اپنی کھڑی قضیب کو بلا پردہ عورت کی شرم گاہ سے مس کرے اور اندر داخل نہ کرے۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو ایک اجنبی عورت سے ملتا ہے اور جماع کے علاوہ تمام فعل اس سے کر گذرتا ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے 
اقم الصلاۃ طرفی النھار و زلفا من اللیل ان الحسنات یذھبن السیئات ذالک ذکریٰ للذاکرین۔ 
نازل کیا۔ آپ ﷺ نے اس کو وضو کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت معاذؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ خاص حکم اسی کے لیے ہے یا عام ایمان والوں کے لیے ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: عام ایمان والوں کے لیے ہے ۔ 
رواہ الترمذی، قال صاحب البدائع: ھذا حدیث حسن فیہ دلیل علیٰ ان المباشرۃ الفاحشۃ تنقض الوضوء ، زجاجۃ ص۸۲)
چوں کہ اس نے جماع کے علاوہ سب ہی کچھ کرڈالا تھا ، اس لیے التقائے ختانین بھی ہوا۔ اس پر آپ ﷺ نے وضو اور نماز کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہو اکہ یہ ناقض وضو ہے ۔ اس کے سوا یہ بات بھی ہے کہ ایسی حالت میں خروج مذی بھی ہو ہی جاتی ہے ، اس لیے ناقض وضو کہا، اگرچہ مذی نہیں نکلی۔ جیسا کہ نیند میں ریاح خارج ہو ہی جاتی ہے ، اس لیے اس کو ناقض وضو کہا، اگرچہ ریاح خارج نہیں ہوئی۔ 
بلا پردہ ذکر کے چھونے اور عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ حضرت طلق بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی وضو کے بعد اپنا ذکر چھوئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: 
ھل ھو الا بضعۃ منہ۔ (ابو داؤد، والترمذی، والنسائی وابن حبان فی صحیحہ و محمد فی المؤطا و قال الترمذی: ھذا الحدیث احسن شئی یرویٰ فی ھذا الباب) 
وہ بھی تو اس کے بدن کا ایک ٹکڑا ہے ۔ جس طرح بدن کے دوسرے حصے کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اسی طرح اس کے چھونے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ 
حضرت ابن عباسؓ سے ذکر چھونے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ ناک نہ چھوا اس کو چھوا۔ (طحاوی، زجاجہ ، ؍۷۱) ۔ حضرت حذیفہؓ نے فرمایا کہ اس کا چھونا اور سر کا چھونا برابر ہے ۔ (محمد امام محمد، طحاوی، ابن ابی شیبہ، زجاجہ ۷۹) ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا : اسے کاٹ کیوں نہیں دیتے۔ پھر فرمایا: جیسے اور حصہ بدن ہے ، ویسا وہ بھی ہے ۔(موطا امام محمد، زجاجہ ۷۹)۔ حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ نے فرمایا کہ اگر تم اس کو نجس سمجھتے ہو تو کاٹ ڈالو۔ طبرانی فی الکبیر، زجاجہ، ص۷۹)۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ 
ان النبی ﷺ کان یقبل بعض نساۂ فلا یتوضأ۔ (رواہ البزار فی مسندہ باسناد حسن، کبیری ۱۴۲) 
نبی کریم ﷺ اپنی بعض عورتوں کا بوسہ لیتے تھے پھر وضو نہیں کرتے۔
بوسہ جیسے اہم معاملہ میں وضو نہیں کرتے تھے تو اور دوسری طرح چھونے سے وضو کیسے لازم ہوگا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے سامنے پیر پھیلاکر لیٹتی تھی اور میرے دونوں پیر حضور ﷺ کے قبلہ کی طرف ہوتے۔ جب حضور ﷺ سجدہ میں جاتے، تو میرا پاؤں چھوتے تو میں اپنا پیر سمیٹ لیتی اور جب کھڑے ہوتے، تو ان کو پھیلا دیتی۔ اور ان دنوں گھر میں چراغ نہیں تھا۔ 
(رواہ محی السنۃ و رویٰ البخاری و مسلم والنسائی نحوہ و قال الزیلعی : و اسناد النسائی علیٰ شرط الصحیح، زجاجہ، ۸۰)
اور بھی حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں حضورﷺ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی تومیں نے آپ ﷺ کو رات میں نہیں پایا تو میں نے آپ ﷺ کو دونوں ہاتھ سے چھوا تو میرا ہاتھ آپ ﷺ کے دونوں قدموں پر پڑے اور آپ ﷺ سجدہ میں تھے اور دعا کر رہے تھے ۔ (محی السنہ)
پہلی حدیث سے حضورﷺ کا چھونا اور دوسری حدیث سے حضرت عائشہؓ کا چھونا نماز کی حالت میں ہوا۔ اگر ناقض وضو ہوتا تو نماز ہی صحیح نہیں ہوتی۔معلوم ہوا عورت کا چھونا ناقض وضو نہیں ہے۔ اسی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ قرآن میں جو اولامستم النساء ہے، اس سے مراد جماع ہے ، ہاتھ سے چھونا نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ 
اللمس ھو الجماع ولکن اللّٰہ کنیٰ عنہ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ وابن جریر، زجاجہ ۸۰)
لمس سے مراد جماع ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماع کو لمس سے کنایہ کیا ۔ 
مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ عورت کا بوسہ لینا اور خوشبو سونگھنا برابر ہے ۔ (رواہ عبد الرزاق ) اور لامستم النساکے بارے میں فرمایا: اس سے مراد جماع ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و ابن جریر، زجاجہ ۸۰)۔
قسط نمبر (9) کے لیے کلک کریں

1 Oct 2018

Makroohate Wazoo

مکروہات وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (7) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
ناپسندیدہ فعل کو مکروہ کہتے ہیں ۔ اس کی دو قسمیں ہیں: تحریمی اور تنزیہی۔ 
مکروہ تحریمی: وہ ہے کہ جس کی ممانعت دلیل ظنی سے ثابت ہو۔ اس کا چھوڑنا واجب ہوتا ہے ۔ 
اور مکروہ تنزیہی : وہ ہے کہ جس کے دلیلوں میں تعارض ہو۔ اور اس کا چھوڑنا اولیٰ ہوتا ہے۔ 
وضو میں یہ چیزیں مکروہ ہیں: 
(۱) پانی میں اسراف کرنا، اگرچہ نہر کے کنارہ ہو ۔ یا حد سے زیادہ کمی کرنا کہ دھونے میں صرف دو چار قطرہ پانی ٹپکے، یہ مکروہ تحریمی ہے ۔ 
(۲) منھ پر زور سے پانی مارنا۔ 
(۳) بلاحاجت دنیا کی باتیں کرنا۔ 
(۴) وضو کرنے میں دوسرے سے مدد لینا۔ 
(۵) سر کا مسح تین بار کرنا اور ہر بار نیاپانی لینا۔ 
(۶) خلاف سنت وضو کرنا۔
قسط نمبر (8) کے لیے کلک کریں

29 Sept 2018

Mustahbbate Wazuu

مستحبات وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (6) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جس کو نبی کریم ﷺ نے دو ایک مرتبہ کیا ہو، مگر اس پر ہمیشگی نہ کی ہو، اس کے کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہ ہو، اس کو مستحب یا مندوب کہتے ہیں ۔ اور کبھی مستحبات کو آداب میں داخل کرتے ہیں ۔ وضو کے آداب میں یہ چیزیں ہیں: 
(۱) گردن کا مسح کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من توضأ و مسح یدیہ علیٰ عنقہِ امن من الغل یوم القیامۃ، (ابو نعیم)
جس نے وضو کیا اور دونوں ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا، قیامت کے دن وہ طوق سے مامون ہوگیا۔
وائل ابن حجر سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے سر کا پھر کانوں کا مسح تین بار کیا۔ پھر ظاہر گردن کا تین بار مسح کیا۔ اس کو ترمذی نے روایت کی ہے۔ (یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے مگر متعدد طریقوں سے روایت ہونے کی وجہ سے حدیث حسن لغیرہ ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍ ۲۳)
(۲) ڈھیلی انگوٹھی ہو تو اس کا حرکت دینا۔ ابو رافعؓ سے مروی ہے کہ 
کان رسول ﷺ اذا توضأ وضوء الصلاۃ حرک خاتمہ فی اصبعہ۔ (رواہ الدار قطنی و ابن ماجہ) 
رسول اللہ ﷺ جب نماز کا وضو کرتے تو اپنی انگلی میں انگوٹھی کو حرکت دیتے۔
اور انگوٹھی کا ہلانا اس وقت مستحب ہے جب انگوٹھی ڈھیلی ہو اور بغیر ہلائے پانی پہنچتا ہو۔ اگر انگوٹھی کو ہلائے بغیر پانی نہ پہنچتا ہو تو ہلاکر پانی پہنچانا واجب ہے، ورنہ وضو نہ ہوگا۔ اور یہ حکم چوڑی، نتھنی اور بے سرکا ہے ۔ 
(۳) اعضائے وضو کا ملنا۔ حضرت ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ 
کان رسول اللّٰہ ﷺ اذا توضأ عرک عارضیہ بعض العرک۔ (ابن ماجہ، زجاجہ ص۱۰۴)
رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو اپنے رخساروں کو کچھ ملتے ۔ 
(۴) غیر معذورین کے لیے وقت آنے سے پہلے وضو کرنا۔ 
(۵) قبلہ رخ وضو کے لیے بیٹھنا۔ اس لیے یہ عبادت ہے یا عبادت کا مقدمہ ہے، اس لیے قبلہ رخ بیٹھنا بہتر ہے۔ 
(۶) اونچی جگہ پر بیٹھنا ، تاکہ مستعمل پانی کی چھینٹ نہ پڑے۔ 
(۷) وضو کے درمیان بلا ضرورت دنیاوی باتیں نہ کرنا، تاکہ عمل دنیا کی باتوں سے خالص رہے۔ 
(۸) ہر عضو کو دھوتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا۔ 
(۹) مضمضہ اور استنشاق میں مبالغہ کرنا۔ 
بالغ فی الاستنشاق الا ان تکون صائما۔ (ابو داؤد وصححہ ابن خزیمہ) 
ناک سنکنے میں مبالغہ کر؛ مگر یہ کہ تو روزہ سے ہو۔
(۱۰) مسح کے وقت کان کے سوراخ میں انگلی کرنا۔ 
عن الربیع بنت معوذ ان النبی ﷺ توضأ فادخل اصبعہ فی جحری اذنیہ (رواہ ابو داؤد و احمد و ابن ماجہ) 
ربیع بنت معوذ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کیا ، پھر اپنی انگلی دونوں کانوں کے سوراخ میں کیا۔
(۱۱) اپنے پاؤں کی انگلیوں کا اپنی چھوٹی انگلی سے خلال کرنا ۔ پہلے دائیں پیر کی چھوٹی انگلی سے شروع اور انگوٹھے پر تمام کرے۔ پھر بائیں پیر کے انگوٹھے سے شروع کرے اور چھوٹی انگلی پر تمام کرے (کبیری) 
عن المستورد بن شداد قال: رأیت رسولَ اللّٰہ ﷺ اذا توضأ یدلک اصابع رجلیہ بخنصرہ۔ (رواہ الترمذی وابن داؤد وابن ماجہ، زجاجہ ص؍ ۱۰۴)
اپنے پاؤں کی انگلیوں کو اپنی چھوٹی انگلی سے ملتے تھے۔
عن لقیط بن صبرۃؓ قال: قلتُ یا رسولَ اللّٰہ! اخبرنی عن الوضوء، قال: اسبغ الوضوء و خلل بین الاصابع و بالغ فی الاستنشاق الا ان تکون صائما، (رواہ ابو داؤد والترمذی والنساء، زجاجہ ص؍۱۰۴، وصححہ ابن خزیمہ بلوغ المرام و قال الترمذی حدیث حسن صحیح، کبیری)
(۱۲) پانی میں اسراف نہ کرنا، اگرچہ نہر کے کنارے ہو۔ 
قال ماھٰذا السرف یاسعد قال:أ فی الوضوء سرف؟ قال: نعم، و ان کنت علیٰ نھر جار (رواہ احمد وابن ماجہ)
حضور ﷺ نے فرمایا: ائے سعد یہ کیا اسراف ہے۔ حضرت سعدؓ نے عرض کیا : کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں، اگرچہ تم نہر جاری کے اوپر ہو۔ 
(۱۳) وضو میں دوسرے کی مدد نہ لینا۔ 
لما روی انہ علیہ الصلاۃ والسلام قال: انا لانستعین فی وضوئی باحد۔ (مستملی) 
حضور ﷺ نے فرمایا: میں وضو میں کسی کی مدد نہیں لیتا ہوں۔ 
(۱۴) وضو کے بعد یہ دعا پڑھنا:
اشھدُ ان لا اِلٰہ الا اللّٰہُ وحدہ لاشریک لہ و اشھدُ ان محمدا عبدہ و رسولہ، اللّٰھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین۔ 
عن عمر بن الخطابؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ : ما منکم من احد یتوضأ فیُسبِغُ الوضوءَ ثم یقول: اشھدُ ان لا اِلٰہ الا اللّٰہُ وحدہ لاشریک لہ و اشھدُ ان محمدا عبدہ و رسولہ، الا فتحت لہ ابواب الجنۃ الثمانیۃ یدخل من ایھا شاء (رواہ مسلم و زاد الترمذی: اللّٰھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین۔(زجاجہ، ص؍ ۷۰)
حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں جو شخص بھی پورا وضو کرے، پھر کہے : اشھد ۔۔۔ پس اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں جس سے چاہے داخل ہوجائے۔ اس کو مسلم نے روایت کی ۔ اور ترمذی نے اتنا زائد کیا کہ اللھم ۔۔۔ ۔ 
اس لیے دونوں کو پڑھے۔ 
عن ابی موسیٰ اشعریؓ قال: اتیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ فتوضأ فسمعتہ یدعو: اللّٰھُم اغفرلی ذنبی ووسِّع لی فی داری و بارک لی فی رزقی۔ (رواہ النسائی وابن السنی باسناد صحیح)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا، پس آپ ﷺ نے وضو کیا، تو میں نے سنا کہ آپ ﷺ یہ دعا کر رہے تھے کہ اللھم۔۔۔۔ 
(۱۵) وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پینا۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ 
ویشرب فضل وضوۂ قائما۔ (رواہ النسائی والطحاوی، وابن جریر وصححہ، زجاجہ ص۱۰۶)
وضو کا بچا ہوا پانی حضور ﷺ کھڑے ہوکر پیتے تھے۔ 
عن ابی حیۃ قال: رأیتُ علیا توضأ فغسل کفیہ حتی انقاھما، ثم مضمض ثلاثا، و استنشق ثلاثا، و غسل وجھہ ثلاثا وذراعیہ ثلاثا، و مسح برأسہ مرۃ، ثم غسل قدمیہ الیٰ الکعبین، ثم قام، فاخذ فضل طھورہ فشربہ وھو قائم، ثم قال: احببتُ ان اریکم کیف کان طھور رسول اللّٰہ ﷺ ۔ (رواہ الترمذی والنسائی (زجاجہ ۱۰۶)
و اخرجہ ابو داؤد والنسائی والترمذی باسناد صحیح و قال الترمذی: انہ اصح شئی فی الباب، بلوغ المرام)
(۱۶) وضو پر وضو کرنا، جب کہ پہلے وضو سے کوئی نماز وغیرہ پڑھی ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
من توضأ علیٰ طھر کتب لہ عشر حسنات (رواہ الترمذی، زجاجہ ص؍ ۷۱) 
جو وضو پر وضو کرے، اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ 
حضرت عمرؓ نے فرمایا: 
سمعتُ رسول اللّٰہ ﷺ یقول: من توضأ علیٰ طھر کتب اللّٰہ لہ بذٰلک عشر حسنات، ففی ذالک رغبۃ یا ابن اخی۔ (رواہ الطحاوی، زجاجہ ص ۱۱۰)
عن انسؓ قال: کان رسول اللّٰہ ﷺ یتوضأ لکل صلاۃ و کان احدنا یکفیہ الوضوء مالم یحدث (رواہ الدارمی، زجاجہ ص۱۰۹)
وضو سے فارغ ہوکر رومال وغیرہ سے منھ ہاتھ پوچھنا جائز ہے ۔ 
عن معاذ بن جبلؓ قال: رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ اذا توضأ مسح وجھہ بطرف ثوبہ۔ (رواہ الترمذی)
(۱۷) وضو کے متصل دو رکعت تحیۃ الوضو پڑھنا۔ حضرت عقبہ ابن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ذمہ اونٹ چرانا تھا، تو جب میری باری آئی تو شام کے وقت میں واپس آیا، تو میں نے آں حضرت ﷺ کو کھڑے لوگوں سے باتے کرتے ہوئے پایا، تو میں نے آپ ﷺ کی بات سنی کہ 
ما من مسلم یتوضأ فیحسن الوضوء ثم یقوم فیصلی رکعتین مقبلا علیھما بقلبہ ووجھہ الا وجبت لہ الجنۃ۔ (رواہ مسلم، زجاجہ ص ۱۰۸)
کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہوکر دو رکعت اس شان سے ادا کرے کہ ہمہ تن اس کی طرف متوجہ رہے ؛ مگر یہ کہ اس کے لیے جنت واجب ہوگی۔
قسط نمبر (7) کے لیے کلک کریں

28 Sept 2018

Is Tajjub par taajjob hi

اس تعجب پر تعجب ہے!!

بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ مال مفت دلے بے رحم کے نظریہ پر مبنی ہے
محمد یاسین جہازی
9871552408

مورخہ ۲۷؍ ستمبر۲۰۱۸، جمعرات کو بھارت کی سب سے بڑی عدالت :سپریم کورٹ نے ایڈلٹری معاملہ میں تعزیرات ہند کی دفعہ 497 (ایڈلٹری) کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس دیپک مشرا کی زیر صدارت پانچ رکنی بینچ نییہ فیصلہ سنایا کہ غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنا اب جرم نہیں ہے۔ ایڈلٹری کو شادی سے الگ ہونے کی بنیاد تو بنائی جا سکتی ہے؛ لیکن اسے جرم نہیں مانا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے فیصلہ پڑھتے ہوئییہ بھی کہا کہ ’’جمہوریت کی خوبصورتی ہے میں، تم اور ہم‘‘۔اس فیصلہ کے جواز پر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ’’تعزیرات ہند کی دفعہ 497 خواتین کے احترام کے خلاف ہے جبکہ انھیں ہمیشہ مساوی حقوق ملنے چاہییں‘‘۔
دفعہ 497 صرف اس مرد کو مجرم مانتی ہے جو کسی اور کی بیوی سے تعلق رکھتا ہے۔ بیوی کو اس میں مجرم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ مرد کو پانچ سال تک جیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص کسی شادی شدہ خاتون کے ساتھ اس کی رضامندی سے جسمانی تعلق بناتا ہے، لیکن اس کے شوہرکی رضامندی نہیں لیتا ہے تو اسے پانچ برس تک جیل کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ لیکن جب شوہر کسی دوسری عورت کے ساتھ تعلق بناتا ہے تو اس کی بیوی کی رضامندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
قانونی عبارت کے بجائے آسان لفظوں میں اس طرح خلاصہ کیا جاسکتا ہے کہ شادی کے بعد بھی مرد و عورت دونوں کسی بھی غیر عورت و مرد سے جسمانی تعلقات قائم کرسکتے ہیں ۔ مردوں کو تو پہلے سے اجازت تھی، لیکن اب اس نئے فیصلے نے مساوات کے تصور کی وجہ سے عورت کو بھی اس کی اجازت دے دی ہے کہ شادی کے بعد وہ اپنے بوائے فرینڈ یا کسی کے بھی بستر کو گرم کرسکتی ہے۔ کیوں کہ عورت کوئی وستو (چیز) نہیں ہے کہ ایک مرد نے شادی کرکے اس پر قبضہ جمالیا تو اب کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا، آخر وہ بھی مرد کی طرح انسان ہی ہے، لہذا اس پر کسی ایک ہی مرد کا مالکانہ قبضہ حاصل کیوں ہوگا۔ عورت خود اپنی ذات کی مالک ہوگی اور وہ جہاں چاہے گی ، جسے چاہے گی ، استعمال کرے گی اور کرائے گی، تبھی تو جمہوریت کی خوب صورتی ’’ میں، تم اور ہم‘‘ نکھر کر سامنے آئے گی۔ 
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آنے کے بعد مختلف لوگوں نے اپنے رد عمل اور تعجبات کا اظہار کیا۔ کسی نے لکھا کہ گرل پاور کا صحیح مظاہرہ یہ ہے کہ ایک عورت صرف اپنے شوہر کو ہی نہیں؛ بلکہ پورے محلے کو خوش رکھنے کی صلاحیت کا اظہار کرسکتی ہے۔کچھ لوگوں نے پچھلے فیصلوں کو بھی سامنے رکھتے ہوئے لکھا کہ’’ دو مرد آپس میں، دو عورتیں آپس میں،ایک شوہر دوسری کی بیوی کے ساتھ، کسی کی بیوی دوسرے مرد کے ساتھ، کنورے کنواریوں کے ساتھ (ریلیشن شپ) جنسی تعلقات بناسکتے ہیں، یہ قانوناجرم نہیں ہیں؛ لیکن بیوی کو بیوی بناکر اور ایک سے زائد نکاح کرکے اس کے حقوق ادا کرنا ظلم ہے، یہ کیسا فیصلہ ہے!!!۔ 
حیادار اور پاکدامن معاشرے میں یہ باتیں بالیقین تعجب انگیز ہیں، لیکن اگر فیصلہ کرنے والوں کے مذہبی اور فکری مبلغ کا مطالعہ کرلیا جائے تو یہ تعجب ہی تعجب خیز ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کے مذہب میں ’’نیوگ‘‘ کو ایک مقدس و مطہر عمل سمجھا جاتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا عورتوں کے بارے میں نظریہ یہ ہے کہ ’’بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں‘‘، اس لیے یہ حضرات نکاح کے بجائے انھیں دان کردیتے ہیں اور قاعدہ ہے کہ مال مفت دلے بے رحم، تو ان کے یہاں حیا، پاکدامنی، شرافت اور ان جیسے عزت و شرف عطا کرنے والی صفات کو تلاش کرنا ، پھر ان سے انھیں چیزوں کی توقع رکھنا یقیناًباعث تعجب ہوگا۔ 
اسی طرح جن کے یہاں نکاح کا تصور یہ ہو کہ ’’ نکاح سماجی سوسائٹی کا ایک باہمی معاہدہ اور آپسی سمجھوتہ ہے اور کچھ نہیں، اس لیے نکاح و طلاق کے سارے اختیارات تنہا شوہر کو بنا دینا سماج دشمنی اور عورتوں کی آزادی و مساوات کے خلاف ہے‘‘، ان کے یہاں نکاح جیسے مقدس رشتے کی عظمت تلاش کرنا بالیقین تعجب بالائے تعجب ہوگا!!!!!۔ 

27 Sept 2018

Mohammade Arabi se hi Alame Arabi

محمد عربی سے ہے عالم عربی
پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں کرنے کا نایاب فارمولہ
محمد یاسین جہازی
9871552408

۱۸۹۶ء ؁ میں سوئزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں ایک صہیونی رہنما تھیوڈور ہزژل کی صدارت میں ایک خفیہ کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں مخلتف شعبہ ہائے زندگی کے ۳۰۰ صہیونی رہنماؤں اور ۳۰ خفیہ اور عوامی یہودی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں انھوں نے تمام دنیا پر اپنی بالادستی مسلط کرنے کے لائحہ عمل پر غور کیا ۔ انھوں نے Zionist sages protocols کے نام سے ۲۴؍ نکاتی تجاویز منظور کیں۔ یہ تجاویز نہایت خفیہ طریقے سے ترتیب دی گئیں۔ اور کسی کو بھی جو کانفرنس میں شریک نہیں تھا، ان تجاویز کی ہوا نہیں لگنے دی گئی ۔ لیکن باسیل کانفرنس کے بعد ایک صہیونی لیڈر کے ساتھ ایک فرانسیسی عورت نے ایک میٹنگ میں رسائی حاصل کرلی۔ اس نے مذکورہ تجاویز کی دستاویز چراکر مشرقی روس کے ایک لیڈر تک پہنچا یا ، جس نے اپنے سائننس داں دوست نائلس (Nylus)کو وہ دستاویز فراہم کیں۔ نائلس مشرق و مغرب کو مغلوب کرنے کے یہودیوں کے اس سازشی منصوبہ کو دیکھ کر بہت زیادہ بے چین ہوگیا۔ اس نے اس خفیہ صہیونی منصوبہ کو ۱۹۰۱ء ؁ میں روسی زبان میں شائع کیا تو وہاں کی سیاسی دنیا میں بھونچال آگیا۔ (وثائق یہودیت، ص۱۰، ۱۱)
اس اقتباس کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج اگر پوری دنیا کے حالات پر غور کریں، تو معلوم ہوگا کہ مشرق و مغرب میں یہودیوں کے قبضہ کرنے کے جو سازشی منصوبے ہیں، اس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ چوبیس دفعات پر مشتمل اس منصوبے کی تکمیل کے لیے یہودیوں کے بنیادی طریقہ ہائے کار میں میڈیا اورو سائل زر پر قبضہ ،پولیٹکل اور لیگل طاقتوں پر خود کا کنٹرول شامل ہے۔ موجودہ عالمی حالات شاہدہیں کہ ان چاروں چیزوں پر یہودی اور یہودی فکر پوری طرح قابض ہوچکی ہے۔ 
مشرق و مغرب پر قبضہ کرنے کے اس صہیونی منصوبے سے جہاں دیگر مذاہب و ادیان کے دانشوران بے خبر یا مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں، وہیں امت مسلمہ کی قیادتیں بھی خاموش اور مہر بہ لب ہیں۔ البتہ کچھ مفکرین ملت اسلامیہ ایسے بھی ہیں، جو ان حالات سے بہت زیادہ فکر مند ہیں اور وہ ایسی راہیں تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں، جن سے پوری دنیا کی ملت مسلمہ کو یہودیوں کے خوف ناک منصوبے سے آگاہ کرکے اسے غلام بننے سے بچایا جاسکے اور اسلام کے مستقبل کو تابناک کرنے کے سلسلہ میں انقلابی کردار ادا کیا جاسکے۔ چنانچہ اس حوالے سے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب نے۱۲، ۱۳؍ فروری ۲۰۱۸ء کو پورے بھارت کے کونے کونے سے منتخب، ذمہ دار اور کریم علمائے کرام کا نئی دہلی میں واقع جمعیۃ علماء ہند کے دفتر میں ایک پروگرام کیا اور لیڈر شپ کے عالمی ٹرینر جناب شیخ مرزا یاور بیگ صاحب کو خطاب کے لیے مدعو کیا۔ یہ پروگرام دو دن تک چلا، جس میں عالمی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا کہ امت مسلمہ اگر ابھی نہیں کھڑی ہوگی، تو امت شاید مزید پچاس سال پیچھے چلی جائے اور انقلاب کی کوئی امید مستقبل قریب میں نظر نہیں آئے گی۔ اس پروگرام میں یہ بھی خلاصہ کیا گیا کہ عالمی حالات بدلنے کے لیے مسلمانوں کو سردست چار کام کرنے پڑیں گے:
(۱) سیاسی قوت حاصل کرنا پڑے گا۔اس کے بغیر ہم دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گئے ہیں ۔ اگر ہمیں دوسروں کو اپنے ماتحت کرنا ہے، تو اس کے لیے سیاسی قوت حاصل کرنا ضروری ہے؛ البتہ ہندستان جیسے کثیر پارٹیوں کے بیچ مسلمان اپنا مقام کیسے بنائیں، یہ بحث طلب موضوع ہے ، جس پر سبھی مذاہب کے رہنماوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگااور پھر کوئی مشترکہ فارمولہ تیار کرنا ہوگا۔ 
(۲) اپنی معیشت کو مضبوط کرنا پڑے گا۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اگر صرف بھارتی مسلمان یہ طے کرلیں کہ وہ جتنی رقم فضول رسموں اور غیر ضروری اداروں کو پیش کرتے ہیں، اگر اس کا اجتماعی نظم ہوجائے، تو معیشت کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہ جائے گا۔ 
(۳) لیگل قوت کے اعتبار سے بھی ہمیں خود کو مضبوط کرنا پڑے گا۔ اور اس کے لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم کچھ نو نہالوں کو بچپن سے ہی ان کی کفالت کرکے وکالت کی تیاری کرائیں اور انھیں امت مسلمہ کے لیے عالمی خادم بنائیں۔ 
(۴) میڈیا اور پریس پر کنٹرول۔ اگر کنٹرول سردست ممکن نہیں ہے تو کم از کم اپنا میڈیا ہاوس ہی بنالیں، جس سے ہم دنیا کو اپنے خیالات و افکار سے متاثر کریں اور یہودیوں کے خوف ناک منصوبوں سے دنیا والوں آگاہ کرتے ہوئے اس کے متبادل کے طور پر اسلامی نظریہ و فکر کی تبلیغ کریں۔ 
اسلامی نظریہ کے مطابق اسلام کسی بھی سرحد کی قید سے آزاد ہے۔ پوری دنیا اسلام کی جولان گاہ ہے اور ہرجگہ اپنے وجود و شناخت کے ساتھ زندگی گذارنا یہ انسان اور مسلمان کا فطری حق ہے۔ اور فطری حق کو کوئی چھین نہیں سکتا۔ اس لیے اسلام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آگے آئیں اور عالمی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لیں تاکہ یہ دنیا دوبارہ اسی طرح امن و امان اور صلح و آشتی کا گہوارہ بن سکے، جس طرح شارع اسلام محمد عربی ﷺ نے عملی طور پر کرکے دنیا کے سامنے مثال پیش کردی ہے۔ ؂
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا 
محمدؑ عربی سے ہے عالم عربی 
(علامہ اقبال) 
اگر بھارتی مسلمان بالخصوص اور بالعموم پوری دنیا کے مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ پوری دنیا ان کی مٹھی میں ہو تو ان چار پہلووں والا فارمولہ پر عمل کرنا ہوگا۔اور کسی عملی منصوبہ کے بغیر محض کھوکھلا دعویٰ کہ ’’اسلام غالب آئے گا‘‘صرف دیوانے کا ایک خواب ہوگا، جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ 

Sunane Wazoo

سنن وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (5) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
دین کا وہ پسندیدہ طریقہ جو حضور پر نور ﷺ کے قول یا فعل سے ثابت ہو، مگر نہ وہ لازم ہو اور نہ چھوڑنے پر انکار ہو اور نہ حضورﷺ کے ساتھ مخصوص ہو، اس کو سنت کہتے ہیں ۔ سنت کی جمع سنن آتی ہے ۔ وضو کی سنتیں یہ ہیں: 
(۱) نیت کرنا: یعنی دل سے وضو کا ارادہ کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
انما الاعمال بالنیات۔ (متفق علیہ)
نیت ہی سے عمل کا اعتبار ہے اور اسی پر ثواب کا دارو مدار ہے۔ 
(۲) بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھنا۔
کانَ النبی ﷺ اذا بدء الوضوءَ سمّٰی (رواہ البزار)
نبی کریم ﷺ جب وضو شروع کرتے تو بسم اللہ پڑھتے۔(زجاجہ ص۹۸)
سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ 
منْ توضَّاءَ و ذکَرَ اسمَ اللّٰہِ فاِنَّہ یطْھُرُ جَسَدَہُ کلُّہُ، و من توضَّاءَ ولم یذکُرِاسمَ اللّٰہِ لم یطھر الا موضعَ الوضوءِ (رواہ دار قطنی، ا بو الشیخ نور الہدایہ، زجاجہ ص۹۷)
جو شخص اللہ کا نام لے کر وضو کرے تو اس کا پورا بدن پاک ہوتا ہے اور جو شخص وضو کرے اور اللہ کا نام نہ لے تو اس کا صرف دھونے کی جگہ پاک ہوتی ہے۔
یعنی بسم اللہ کے بغیر وضو ناقص رہتا ہے ۔ 
(۳) دونوں ہاتھوں کا کلائی تک تین بار دھونا۔
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہتھیلیوں کو تین بار دھویا۔ (بخاری و مسلم)
(۴) مسواک کرنا۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
السواکُ مِطْھَرَۃٌ للفم مرضاۃٌ للرب۔ (رواہ الشافعی و احمد والدارمی والنسائی و رواہ البخاری فی صحیحہ بلا اسناد)
مسواک منھ کی صفائی اور اللہ کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔ 
اور بھی حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
تفضل الصلوٰۃ التی یستاک لھا علیٰ الصلوٰۃ التی لا یستاک لھا سبعین ضعفا۔ (رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
جس نماز کے لیے مسواک کی جائے وہ نماز اس نماز پر جس کے لیے مسواک نہ کی جائے ستر درجہ فضیلت رکھتی ہے۔ 
کچھ لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ما أراکم قُلَّحاً اِسْتاکوا۔ (رواہ امامنا ابو حنیفۃ مرسلا)
میں تم کو پیلے دانتوں والا کیوں دیکھتا ہوں ؟ تم مسواک کیا کرو۔ 
کلی کرتے وقت مسواک کرے تاکہ منھ اچھی طرح صاف ہوجائے۔ اگر مسواک نہ ہوتو انگلی سے دانت کو ملے۔ (نور الہدایہ)
(۵) تین بار مضمضہ یعنی منھ میں پانی دے کر اس کو حرکت دے کر کلی کرنا مسنون ہے۔
عن ابی وائل شھدتُ علیا و عثمان توضا ثلاثا ثلاثا و افردا المضمضۃ من الاستنشاق ثم قالا: ھٰکذا رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ توضاء۔ (التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر، کتاب الطھارۃ، باب سنن الوضوء)
(۶) تین بار ناک میں پانی ڈالنا اور اس کو صاف کرنا۔ حضرت کعب بن عمرو الیمانی کا بیان ہے کہ 
کانَ النبی ﷺ توضا فمضمضَ ثلاثا، واستنشقَ ثلاثا یاخذ لکل واحد ماء ا جدیدا (رواہ الطبرانی)
نبی کریم ﷺ نے وضو کیا، پس تین بار کلی اور مضمضہ کیا، یعنی منھ میں پانی ڈال کر اس کو حرکت دی۔ تین بار ناک میں پانی ڈال کر چھڑکا۔ ہر ایک کے لیے نیا پانی لیتے تھے۔ 
ایک ہی چلو سے دونوں کام نہیں کرتے تھے اور یہی مسنون طریقہ ہے۔
(۷) ہر عضو کو تین تین بار دھونا مسنون ہے۔ 
ان النبی ﷺ توضاثلاثا ثلاثا و قال: ھٰکذا وضوئی و وضوء الانبیاء من قبلی۔ (رواہ الدارقطنی وغیرہ)
نبی کریم ﷺ ہر عضو کو تین تین بار دھوتے اور فرمایا: یہ میرا اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا وضو ہے۔ 
(۸) داڑھی کا خلال کرنا مسنون ہے ۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ 
کانَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ اذا توضاءَ اخذَ کفَّاً من ماءٍ ، فادخلہُ تحت حنکہِ فخلل بہ لحیتَہُ و قال: ھٰکذا امرَنی ربی۔ (رواہ ابو داود)
رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو ایک چلو پانی لے کر اپنے گلے کے نیچے داخل کرتے اور اس سے داڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے : اسی طرح میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے۔ 
داڑھی کا نیچے کی طرف سے خلال کرنا ہی مسنون طریقہ ہے ۔ 
(۹) ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا مسنون ہے ۔ 
لقیط ابن صبرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے وضو کی خبر دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: 
اسبغِ الوضوءَ و خلل بین الاصابع و بالغ فی الاستنشاق الا ان تکون صائما۔ (رواہ ابو داؤد و غیرہ و صححہ ابن خزیمہ)
وضو کامل کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو ۔ اگر روزہ کی حالت نہ ہوتو ناک میں پانی چڑھانے اور سنکنے میں مبالغہ کرو۔ 
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اذا توضاء فخلل اصابع یدیک و رجلیک۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ وقال الترمذی حسن غریب کبیری ص۲۴)
جب تو وضو کرے تو اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کر۔ 
(۱۰) ایک بار پورے سر کا مسح کرنا۔ مسح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کی شہادت اور انگوٹھے کو چھوڑ کر باقی انگلیوں کو ملا کر سر کے اگلے حصے پر اور ہتھیلی کو الگ رکھ کر پیچھے کی طرف کھینچ کر گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے لوٹائے ، اس طرح پر کہ دونوں ہتھیلیوں کو دونوں کنپٹیوں سے لگاتے ہوئے آگے کو لائے تاکہ پورے سر کا مسح ہوجائے۔ (محیط)
عن عبد اللّٰہ بن زید ان رسول اللّٰہ ﷺ مسحَ رأسَہُ بیدیہ فاقبل بھما و ادبر بدأ بمقدم رأسِہ ثم ذھب بھماالیٰ قفاہ ثم ردَّھما حتّٰی رجع الیٰ المکان الذی بدأ منہ ثم غسلَ رجلیہ۔ (رواہ الترمذی، و قال ھٰذا حدیث اصح شئی فی ھٰذا الباب و احسن، و رواہ البخاری مثلہ، زجاجہ ص۹۹)
حضرت عبد اللہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اگلے پچھلے حصہ کا مسح کیا، سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا، پھر دونوں کو گدی تک لے گئے ۔ پھر دونوں کو لوٹایا، یہاں تک کہ اس جگہ پہنچایا جہاں سے شروع کیا تھا، پھر دونوں پاؤں کو دھویا۔ 
(۱۱) دونوں کانوں کے اندر و باہر کا مسح کرنا۔ شہادت کی انگلیوں سے اندر کا اور انگوٹھوں سے اس کے باہر کا مسح کرے۔ 
حضرت عبدا للہ بن عمروؓ نے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: 
ثم مسح برأسہ و ادخلَ اصبعیہ السباحتین فی اذنیہ و مسح ابھامیہ فی ظاہر اذنیہ (اخرجہ ابو داؤد و النسائی و صححہ ابن خزیمہ، بلوغ المرام ص۹)
پھر آں حضرت ﷺ نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں کو دونوں کانوں میں داخل کیااور اپنے دونوں انگوٹھوں سے دونوں کانوں کے ظاہر کا مسح کیا۔ 
اور کان کے مسح کے لیے نیا پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے ، کیوں کہ کان بھی سر میں داخل ہے ۔ چنانچہ عبد اللہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ 
قال رسول اللّٰہ ﷺ الاذنان من الرأس۔ (رواہ ابن ماجہ و رویٰ الدار قطنی عن ابن عباس مثلہ قال ابن القطان اسنادہ صحیح لاتصالہ و ثقۃ رواتہ، زجاجہ، ص ۱۰۰)
(۱۲) داہنی طرف سے شروع کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا توضاتم فابدؤا بمیامنکم (اخرجہ الاربعۃ و صححہ ابن خزیمۃ، بلوغ المرام ص۱۰)
جب وضو کرو تو اپنے داہنے طرف سے شروع کرو۔ 
رسول اللہ ﷺ کوجوتا پہننے میں اور کنگھی کرنے میں اور طہارت کرنے میں (غرض) تمام کاموں میں داہنی جانب سے ابتدا کرنا اچھا معلوم ہوتا تھا۔ (بخاری، کتاب الوضوء )
(۱۳)ترتیب سے وضو کرنا، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وضو کا ذکر کیا ہے، اسی ترتیب سے وضو کرنامسنون ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حج کے بارے میں فرمایا: 
ابدؤا بما بدء اللّٰہُ بہِ (نسائی) 
جس طرح اللہ نے شروع کیا ہے، اسی طرح شروع کرو۔ 
آپ ﷺ کا وضو بھی اسی ترتیب سے ہوتا تھا۔ 
(۱۴) پے درپے وضو کو دھونا مسنون ہے، یعنی ایک عضو دھونے کے بعد دوسرا عضو دھونے لگ جائے ۔ دونوں کے درمیان اتنی تاخیر نہ کرے کہ پہلا عضو خشک ہوجائے۔ 
عن حمران قال: رأیت عثمان توضا فافرغ علیٰ یدیہ ثلاثا فغسلھا ثم مضمض ثلاثا واستنثر ثلاثا ثم غسل وجھہ ثلاثا، ثم غسل یدہ الیمنیٰ ثلاثا ثم الیسریٰ ثلاثا مثل ذالک ثم مسح رأسہ ثم غسل قدمیہ الیمنیٰ ثلاثا ثم الیسریٰ ثلاثا، ثم قال: رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یتوضاء من نحو وضوئی ھٰذا، ثم قال: من توضاء نحو وضوئی ھٰذا، و فی روایۃ مثل وضوئی ھٰذا ثم صلیّٰ رکعتین لایُحَدِّثُ فیھا نفسُہُ غُفِر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ (رواہ البخاری ومسلم و ابو داؤد والنسائی و احمد والدار قطنی وبن حبان وابن خزیمۃ، زجاجہ ص۱۰۷) 
حضرت عثمانؓ کے غلام حضرت حمران کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عثمان غنیؓ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ آپؓ نے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا اور اس کو دھویا۔ (کلائی تک) پھر تین بار کلی کی۔ پھر تین بار ناک میں پانی ڈال کر صاف کیا۔ پھر تین بار منھ دھویا۔ پھر تین بار داہنا ہاتھ دھویا۔ پھربایاں اسی طرح تین بار دھویا۔ پھر سر کا مسح کیا۔ پھر تین بار دایاں پاؤں دھویا۔ پھر تین بار بایاں دھویا۔ پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اس وضو کی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا: جو کوئی میرے اس وضو کی طرح وضو کرے ۔ پھر دو رکعت نماز پڑھے، جن میں اپنے دل سے کچھ بات نہ کرے، تو اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ 
اس حدیث سے حسب ذیل باتوں کا ثبوت ہوا: 
(۱) تین بار دونوں ہاتھوں کا کلائی تک دھونا۔ 
(۲) تین بار کلی کرنا۔ 
(۳) تین بار ناک میں پانی ڈالنا۔ 
(۴) تین بار ہر عضو کو دھونا۔
(۵) ایک مرتبہ سر کا مسح کرنا۔ 
(۶) قرآنی ترتیب سے وضو کرنا۔ 
(۷) پے درپے دھونا۔ 
(۸) ہر عضو کو دائیں طرف سے دھونا۔ 
(۹) تحیۃ الوضو کا پڑھنا۔
قسط نمبر (6) کے لیے کلک کریں

26 Sept 2018

Faraeze Wazoo

فرائض وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (4) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جو چیز قطعی دلیل سے ثابت ہواور اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو، اس کو فرض کہتے ہیں ۔ اس کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے ۔ فرض کی جمع فرائض ہے۔
وضو میں چار فرض ہیں:
(۱) ایک بار منھ کا دھونا، پیشانی کے بال کے اگنے کی جگہ سے تھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لوتک۔
(۲) کہنی سمیت دونوں ہاتھوں کا ایک بار دھونا۔
(۳) چوتھائی سر کا ایک مرتبہ مسح کرنا۔ 
(۴) ٹخنے سمیت دونوں پاؤں کا ایک ایک بار دھونا۔ 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یَااَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلٰی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ أیْدِیَکُمْ اِلیٰ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَ أرْجُلَکُمْ اِلیٰ الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدۃ، آیۃ:۶ )
ائے ایمان والو! جب نماز کے لیے اٹھنے لگو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو اور پانے پیروں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ۔ 
جن اعضاکا دھونا فرض ہے ، ان میں کہیں ایک بال بھی سوکھا رہ جائے گا، تو وضو نہیں ہوگا۔ 
اگر داڑھی بہت گھنی ہو کہ جس سے نیچے کی کھال نظر نہ آتی ہو تو اس صورت میں بال کے نیچے کھال تک پانی پہنچانا فرض نہیں ہے ؛ بلکہ صرف چہرہ کے مقابل بال کا تر کردینا کافی ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں وہ بال بھی چہرہ میں داخل ہیں، اس لیے اس کا دھونا فرض ہوگا۔ مواجہت اسی بال سے ہوگی کھال سے نہیں ، اس لیے چہرہ میں چہرے کے مقابل داخل ہوں گے نہ کہ کھال۔ اسی طرح اور کوئی چیز جو وضو کے اعضا پر پانی پہنچانے سے مانع ہو تو اس کو دور کرکے جب تک وضو نہ کرے گا وضو نہ ہوگا۔ 
عن عبداللّٰہ بن عمروؓ قال: رجعنا مع رسول اللّٰہِ صلیٰ اللّٰہ علیہ وسلم من مکۃ إلیٰ المدینۃ حتّٰی إذا کنا بماء بالطریق، تعجل قومٌ عند العصر، فتوضؤا وھم عجال، فانتھینا إلیھم، وأعقابھم تلوح لم یمسھا الماءُ، فقال رسول اللّٰہِﷺ: ویلٌ للأعقابِ من النَّارِ،أسْبِغُوا الوضوءَ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الوضوء، باب سنن الوضوء)
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ لوٹے ، یہاں تک کہ ہم راستے میں پانی پر پہنچے توایک قوم نے عصر کے وقت جلدی کی اور انھوں نے جلدی میں وضو کیا۔ چنانچہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ان کی ایڑیوں میں پانی نہیں پہنچے ہیں۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایڑی والوں کے لیے دوزخ کے عذاب کی ہلاکت ہے۔ 
البتہ اگر داڑھی زیادہ گھنی نہ ہوتو کھال تک پانی پہنچانا فرض ہے ۔ (در مختار)
چہرے کے حدود سے جو بال نیچے لٹکے ہوئے ہیں ان کا دھونا فرض نہیں ہے ، کیوں کہ وہ چہرہ میں داخل نہیں ہے اور چہرہ دھونے کا حکم ہے۔ 
ہر عضو کا ایک ایک بار دھونا فرض ہے ۔ ایک سے زیادہ دھونا مسنون ۔ اور کمال سنن یہ ہے کہ عضو کو تین تین مرتبہ دھویا جائے ، اس سے زیادہ دھونا مکروہ ہے ۔ 
عن ابن عمرؓ ان النبی ﷺ توضاء مرۃ مرۃ و قال: ھذا وضوء لایقبلُ اللّٰہُ الصَّلٰوۃ الَّا بِہِ۔ و توضَّا ءَ مرتین مرتین و قال: ھذا وضوء مَن یضاعفُ الاجر مرتین وَ توضاء ثلاثا ثلاثا و قال: ھذا وضوءُی و وضوءُ الانبیاءِ من قبلی۔ (رواہ الدار قطنی والبیھقی وابن حبان وابن ماجہ و احمد والطبرانی، زجاجہ، ص؍۱۰۳)
نبی کریم ﷺ نے اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا اور فرمایا: یہ ایسا وضو ہے کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز ہی قبول نہیں فرماتا۔ اور آپ ﷺ نے اعضا کو دو دو مرتبہ دھویا اور فرمایا: یہ ایسا وضو ہے کہ اس سے ثواب دوگنا ہوجاتا ہے۔ اور آپ ﷺ نے تین تین مرتبہ اعضا کو دھویا اور فرمایا: یہ میرا اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا وضو ہے۔ 
تین مرتبہ سے زیادہ دھونے کے بارے میں فرمایا: 
فمنْ زادَ علیٰ ھٰذا فقدْ اَسَاءَ و تعدَّیٰ و ظلَمَ۔ (نسائی، ابن ماجہ)
جس نے اس پر زیادہ کیا ، اس نے برا کیا اور ظلم و زیادتی کی۔ 
چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔ اگر اس سے کم کیا تو وضو نہیں ہوگا۔
عن عطاء انَّ النبی ﷺ توضاء فحسر العمامۃ و مسح مقدم رأسِہِ او قال ناصیتہ۔ (رواہ البیھقی)
حضرت عطا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو فرمایا، پھر عمامہ کو کھولا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔ 
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ کے سر پر قطریہ عمامہ تھا۔ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو عمامہ کے نیچے داخل کیا۔ پھر سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔ 
شمسی نے فرمایا کہ یہ تو معلوم ہے کہ سر کا اگلا حصہ سر کے چار حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے ، اگر چوتھائی سر کا مسح کافی نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس وقت اس پر بس نہ فرماتے ۔ اور اگر چوتھائی سر سے کم کا مسح کافی ہوتا تو عمر بھر میں کبھی تو جواز بتانے کے لیے کرکے دکھاتے ۔ خواہ ایک ہی بارہو ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس معلوم ہو اکہ چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح)
کسی عضو پر تر ہاتھ پھیرنے کو مسح کہتے ہیں ، خواہ یہ تری نیا پانی لے کر حاصل کی ہویا کسی عضو کے دھونے سے حاصل ہوئی ہو۔ 
کسی عضو پر اتنا پانی ڈالنا کہ عضو تر ہو کر کم از کم دو چار قطرے پانی بہہ جائے ، اس کو غسل اور دھونا کہتے ہیں ۔ (مراقی الفلاح)
عن عبد اللّٰہ بن زید ان النبی ﷺ توضاء و انہ مسح رأسہ بماء غیر من فضل یدیہ۔ (رواہ الترمذی، زجاجۃ، ص؍۱۰۱)
دونوں ہاتھ کے فاضل بقیہ پانی سے سر کا مسح کیا۔
اور ایک روایت میں غیر فضل یدیہ ہے۔ (ترمذی، مسلم، زوائد) ۔ 
ایک عضو کے مسح کے بعد بھی ہاتھ میں تری رہے تو اس تری سے دوسرے عضو کا مسح صحیح نہیں ہے، جیسے کہ سر کے مسح کے بعدموزہ کا مسح کرے، یا زخم کا مسح کرے، ناروا ہے۔ اسی طرح دوسرے دھوئے ہوئے عضو کی تری سے تری لے اور مسح کرے، ناجائز ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍۱۹) 
اگر وضو کے بعد سر منڈوائے اور سر سے خون نکل کر نہ بہے تو دوبارہ وضو اور مسح کی حاجت نہیں؛ لیکن خون بہہ جانے پر خون کا دوبارہ دھونا اور دوبارہ وضو کرنا فرض ہوگا؛ کیوں کہ خون نکل کر بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ ناخن وغیرہ کٹوانے سے دوبارہ اس کا دھونا ضروری نہیں۔
قسط (5) کے لیے کلک کریں

25 Sept 2018

Wazoo ka Bayan: Fazaele Wazoo

وضو کا بیان

فضائل وضو
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (3) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَوَضَّاَ فَاَحْسَنَ الْوَضُوْءَ خَرَجَتْ خَطَایَاہُ مِنْ جَسَدِہِ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ اَظْفَارِہِ (رواہ مسلم)
جو شخص اچھی طرح سے وضو کرتا ہے، تو اس کے بدن سے گناہ نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے ناخن کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی مسلم یا مومن بندہ وضو کرتا ہے ، پھر وہ منھ دھوتا ہے، تو چہرہ سے وہ تمام گناہیں جو آنکھ کے دیکھنے سے ہوئے تھے، پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دور ہوجاتے ہیں ۔ پھر جب دونوں ہاتھوں کو دھوتا ہے ، تو اس کے دونوں ہاتھوں سے جو پکڑنے کی وجہ سے گناہ ہوئے تھے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دور ہوجاتے ہیں۔ پھر جب دونوں پاؤں دھوتے ہیں تو پاؤں سے وہ تمام گناہ جو چلنے کی وجہ سے ہوئے تھے، پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے صاف نکل جاتا ہے۔ (مسلم شریف)
یعنی وضو کرنے سے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ بڑے بڑے گناہ معاف نہیں ہوتے، اس لیے کہ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ:
کانتْ کَفَّارۃٌ لِمَا قَبْلَھَا مِنَ الذُّنُوْبِ مَا لَمْ یُؤتِ کَبِیْرَۃ۔ 
ماقبل کے گناہوں کا کفارہ ہوگا جب کہ کبیرہ نہ کیا گیا ہو۔ 
لیکن یہی کیا تھوڑا ہے ، گناہ آخر گناہ ہے، خواہ چھوٹا ہی سہی۔ اگر خدا گرفت کرنے لگے تو انسان صغیرہ ہی کے اندر ہلاک ہوجائے، اسی لیے صحابہ کرامؓ معمولی گناہوں کو بھی مہلکات ہی سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ تھوڑی نافرمانی ایک عظیم الشان قہار کی ہو رہی ہے ، جس کے قہر کے سامنے کوئی دم نہیں مارسکتا ۔ اور حساب خشم ناک ہی حالت میں ہوگا جب کہ لمن الملک الیوم کا نعرہ خدا بلند کرتا ہوگا، اولیا تو اولیا ؛انبیا کے پتے بھی پانی ہوں گے ، اس لیے معمولی گناہ کی معافی کو معمولی نہ سمجھو ؛ بلکہ اس ذات وحدہ لاشریک کی بڑی مہربانی سمجھو کہ اس نے اتنا بوجھ ہلکا کردیا۔ 
فائدہ وضو کا یہ ہوگا کہ تم اس کی وجہ سے قیامت کے دن پہچانے جاؤگے کہ یہ شخص امت محمدیہ کا ایک فرد ہے، جس کی وجہ سے تمھاری شفاعت آسان ہوگی۔ آخر حضورﷺ کی شفاعت کے محتاج تو اس دن سب ہی ہوں گے، ان کے بغیر کسی کا بیڑا پار نہ ہوگا۔ سرکار دو عالم ﷺنے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو دیکھوں ، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ میرے اصحاب ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو دنیا میں ابھی نہیں آئے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! اپنی اس امت کو جو دنیا میں اب تک نہیں آئی ہے، کیسے پہچانیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: 
اَرَاَیْتَ لَوْ اَنَّ رَجُلَاً لَہُ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَۃٌ بَینَ ظَھْرَیْ خَیْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ اَلَایَعْرِفُ خَیْلَہُ؟ قَالُوْا: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ: فَاِنَّھُمْ یَأتُوْنَ غُرّاً مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوَضُوْءِ وَ أنَا فَرَطُھُمْ عَلٰی الْحَوْضِ (رواہ مسلم)
کیا تیری رائے ہے کہ کسی کا گھوڑا سفید پیشانی والا پچکلیان خوب کالے گھوڑوں کے درمیان میں رہے تو کیا وہ اپنے گھوڑے کو نہیں پہچانے گا ؟ سب نے عرض کیا: ضرور پہچانے گا یا رسول اللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو وہ لوگ بھی وضو کی وجہ سے روشن پیشانی اور روشن ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے اور میں حوض کوثر پر ان کے انتظام کے لیے پہلے سے موجود رہوں گا۔
قسط نمبر (4) کے لیے کلک کریں

24 Sept 2018

Najasate Haeeqia ke Aqsaam

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (2) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
نجاست حقیقیہ کے اقسام

نجاست حقیقیہ کی دو قسمیں ہیں:غلیظہ اور خفیفہ ۔
جس چیز کے پاک اور ناپاک ہونے میں نص کا ٹکراؤ ناہو، بلکہ نص سے صرف نجس ہونے کا ہی ثبوت ہوتاہو، تو اس کو نجاست غلیظہ کہتے ہیں۔
اور جس چیز کے پاک اور ناپاک ہونے میں نص کا ٹکراؤ ہو، یا ایک حدیث سے ناپاک ہونا ثابت ہوتا ہے اور دوسری آیت یا حدیث سے اس کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے؛ لیکن نجاست کا ثبوت راجح ہو تو اس کو نجاست خفیفہ کہتے ہیں۔(زیلعی)
نجاست غلیظہ میں یہ چیزیں داخل ہیں:شراب انگوری، مردار جانور کا گوشت، چربی اور اس کی کچی کھال،سور بتمامہا،مچھلی ،مچھر، پسو، کھٹمل کے سوا ہرقسم کے جانور کا بہتا ہوا خون۔
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابَ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ۔ (سورۃ المائدۃ: آیۃ)
بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرع کے تیر یہ سب گندی چیزیں ہیں۔ 
اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمَاً مَسْفُوْحَاً فَاِنَّہُ رِجْسٌ۔ (سورۃ الانعام، آیۃ: )
جن چوپاؤں کا گوشت کھانا حرام ہے ان کا پیشاب اور آدمی کا پیشاب خواہ دودھ پیتا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہرقسم کے چوپاؤں اور آدمی کا پاخانہ، مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ۔جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے، اس کا لعاب اور پسینہ؛ مگر گدھے، خچر کا پسینہ پاک ہے۔ ہر وہ چیز جو ناقض وضو یا موجب غسل ہو، جیسے منہ بھر قے ،زخم کا بہتا ہوا پانی،پیپ،کچہ لہو اور منی، مذی وغیرہ۔یہ سب نجاست خفیفہ میں داخل ہیں۔ جن جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے، ان کا پیشاب اور گھوڑے کا پیشاب، اور جن پرندوں کا گوشت کھانا حرام ہے، ان کی بیٹ اور جن پرندوں کاگوشت کھانا حلال ہے، مرغی اور بطخ اور مرغابی کے سوا سب کی بیٹ پاک ہے۔
نجاست غلیظہ اگر گاڑھی ہو تو ساڑھے چار ماشہ وزن تک معاف ہے۔ اور اگر پتلی ہو تو ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار معاف ہے، یعنی اگر اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھ لے، تو نماز ہوجائے گی؛ لیکن مکروہ تحریمی ہوگی۔اس لیے اس کا دھونا اس پر واجب ہوگا۔ اور اگر اس سے کم ہے تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی، اس لیے اس کا دھولینا مسنون ہوگا۔اور اگر مقدار عفو سے زائد ہو، تو نماز صحیح نہیں ہوگی۔(درمختار)
اور نجاست خفیفہ اگر کسی عضو پر ہوتو چوتھائی عضو اور کپڑے پر ہو، تو اس کپڑے کی چوتھائی سے کم اور اگر کسی چیز پر ہو تو اس چیز کی چوتھائی سے کم ہو ،تو معاف ہے، یعنی اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی۔ لیکن اگر نجاست خفیفہ پانی میں پڑجائے ،تو پانی کو نجس کردے گی۔پیشاب کی چھینٹ سوئی کی نوک کے برابر بدن یا کپڑے میں پڑے ،تو وہ معاف ہے۔
نجاست حکمیہ کے اقسام
جس طرح نجاست حقیقیہ کی دو قسمیں تھیں، اسی طرح نجاست حکمیہ کی بھی دو قسمیں ہیں: چھوٹی نجاست حکمیہ اور بڑی نجاست حکمیہ۔چھوٹی نجاست حکمیہ کو حدث اصغر اور بڑی نجاست حکمیہ کو حدث اکبر کہتے ہیں۔حدث اصغر کی صورت میں وضو اور حدث اکبر کی صورت میں غسل کرنا پڑتا ہے۔
یہاں تک ہر قسم کی نجاستوں کا بیان ہوا۔ اب آگے ان سے پاکی حاصل کرنے کی صورتوں کا بیان ہوگا۔ 
اول نجاست حکمیہ سے طہارت حاصل کرنے کی جو صورتیں ہیں، ان کو بیان کرتے ہیں۔ یہ پہلے لکھ چکے ہیں کہ چھوٹی نجاست حکمیہ وضو کرلینے سے دور ہوجاتی ہے اور بدن پاک ہوجاتا ہے ، اس لیے اول وضو کا بیان ہوتا ہے۔
قسط نمبر (3) کے لیے کلک کریں

21 Sept 2018

yeh kahen madhe yazeed wa qadhe Hussain to nahi

یہ کہیں مدح یزید و قدح حسین تو نہیں۔۔۔؟
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408


مشاہدات، مسموعات، یوٹیوب، فیس بک ،گوگل پلس،واٹس ایپ اور خبروں کے دیگر ذرائع سے حاصل جانکاریوں کے مطابق دس محرم یوم عاشورہ کے موقع پر سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ و دیگر اہل بیت نبوی کی مظلومانہ شہادت کی سیرتوں کی یادگار منانے اور ان کی ہو بہو نقل پیش کرنے کی ایکٹنگ کے مناظر کو دیکھ ، سن اور پڑھ کر کئی سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر اسلام کا یہی کردار ہے تو پھر کفریہ اعمال کی تشریح کیا ہوگی۔۔۔؟ ان میں سے کچھ سوالات درج ذیل ہیں: 
(۱) حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی مظلومیت کو یاد کرنے کے لیے اگر آگ پر چلنا، خود کو زخمی کرنااور حضرت حسینؓ جن حالات سے گذرے ہیں ، ان پر عمل کار ثواب ہے تو آپؓ کی سیرت پر عمل کرنا کتنا بڑا کار ثواب ہوگا ، تو پھر صرف خود کو زخمی کرنے تک سیرت پر عمل کیوں ، مکمل سیرت پر عمل کیوں نہیں، یعنی حضرت حسینؓ نے سر کی بھی قربانی دی ہے تو پھر حسینی ماتم کار اپنا سر کیوں نہیں کاٹ لیتے ۔۔۔؟
(۲) آج بھی، جہاں دین پر عمل کرنے والے اپنے اعمال کے اعتبار سے کافی کمزور ہوچکے ہیں، اس کے باوجود کسی بھی دینی کام کا افتتاح یا قیادت علمائے کرام کرتے ہیں یا کراتے ہیں؛ لیکن یہ ماتمی حرکات ہیہیں ، جہاں معاشرے کے اوباش اور بگڑے قسم کے افراد ہی قیادت کرتے ہیں، کیوں کہ میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ کسی حسینی اکھاڑے میں ڈھول کوئی مولوی یا ذاکر بجاتا ہو، یا طبلے کی تھاپر دستار و پگڑی والے علماناچ کر مجلس کے ثواب میں اضافہ کر رہے ہوں۔ 
(۳) اگر ڈھول، تاشے اور ناچ گانا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ماتمی محبت کی صحیح شکل ہے، تو اپنے رشتہ دار کی وفات پر بھنگڑے کرنے والے اور ناچ گانے والوں کو بلا کر کیوں نہیں ماتم منایا جاتا، ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی ہی کیوں کرائی جاتی ہے۔۔۔ ؟
(۴) اگر تعزیہ داری اور اس قسم کی دیگر شبیہات بنانا اور پرسہ دینا عین اسلام ہے ، تو پھر صرف کربلا کی تاریخ ہی کیوں، خوداہل بیت میں سے حضرات علی و حسن رضی اللہ عنہما بھی بڑی مظلومیت کے ساتھ شہید کے گئے ہیں، ان کی تعزیہ داری کیوں نہیں۔۔۔؟ 
(۵) اسلام کی جتنی بھی عیدیں ہیں، کبھی ان میں انسانوں کے جانی و مالی نقصان کی کوئی خبر نہیں آتی، کیوں کہ جس طرح اسلام پر امن مذہب ہے، وہیں اس کے سارے اعمال بھی امن و شانتی کے مظاہر ہیں، لیکن یہی ایک ایسا تہوار ہے، جہاں آدمی کبھی کبھار خود بھی زخم کھاتا ہے اور کبھی کبھار پورے معاشرے کو مجرم بنادیتا ہے، جیسا کہ حالیہ گڈا بسنت رائے کا واقعہ اس پر شاہد عدل ہے۔ 
(۶) قبل از اسلام اوراسلام میں بھی محرم حرمت و عظمت والا مہینہ کہلاتا ہے، جس میں وہ لوگ بھی جنگ، لڑائی اور خون ریزی سے باز رہتے تھے، جن کے لیے لڑائی کرنا معاشی، سماجی اور سیاسی ضرورت تھی، لیکن آج کے اسلام میں صرف اسی حرمت والے مہینے میں لڑائی کے یہ نمائشی جلوے کیوں دکھائے جاتے ہیں۔۔۔ ؟ 
(۷) اگر حسینی سیرت تعزیہ، شبیہ، علم وغیرہ وغیرہ عین اسلام ہے ، تو نبوی سیرت ان چیزوں کا زیادہ حق دار ہے، نبوی سیرت کا کوئی تہوار کیوں نہیں۔۔۔؟ 
سوالات اور بھی ہیں، لیکن درج بالا سوالوں ہی کی روشنی میں ہم اپنے کردار کو جانچیں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے، ہمارے یہ اعمال کسی بھی شکل میں حضرت حسین کی تعریف و توصیف کے لیے نہیں ہوسکتے، یہ سب یزیدی کردار ہیں، جن کا اسلام سے کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔ تو ان اعمال سے ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو تسکین نہیں پہنچا رہے ہیں، بلکہ یزیدیوں کے کردارکا جشن منارہے ہیں۔ ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم قدح حسین اور مدح یزید کر رہے ہیں، جو سراسر لعنتی اور واجب الترک عمل ہے۔ 
ہمیں ان لوگوں سے شکوہ نہیں ہے، جن کے ایمان و کردار کی ابتدا و انتہا واقعہ کربلا کے کردار سے ہوتا ہے؛اگر یہ اپنا ایمان سجھتے ہیں، تو یہ ان کا حق ہے، ہمیں ان کے حق پر کوئی اعتراض نہیں؛ ہمیں شکوہ ہے ان بھائیوں سے جو خود کو صحیح العقیدہ اہل سنت والجماعۃ کہلاتے ہیں اور پھر بھی ان تمام یزیدی کرداروں کو ادا کرنے کے لیے اپنی جان مال سب ضائع کرتے ہیں۔ خدارا ہوش کے ناخن لیجیے اور اس قسم کی حرکتوں سے اسلام کو بدنام مت کیجیے۔ اللہ ہمیں عقل سلیم دے اور اپنی مرضیات پر چلائے۔