اس تعجب پر تعجب ہے!!
بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ مال مفت دلے بے رحم کے نظریہ پر مبنی ہے
محمد یاسین جہازی9871552408

دفعہ 497 صرف اس مرد کو مجرم مانتی ہے جو کسی اور کی بیوی سے تعلق رکھتا ہے۔ بیوی کو اس میں مجرم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ مرد کو پانچ سال تک جیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص کسی شادی شدہ خاتون کے ساتھ اس کی رضامندی سے جسمانی تعلق بناتا ہے، لیکن اس کے شوہرکی رضامندی نہیں لیتا ہے تو اسے پانچ برس تک جیل کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ لیکن جب شوہر کسی دوسری عورت کے ساتھ تعلق بناتا ہے تو اس کی بیوی کی رضامندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
قانونی عبارت کے بجائے آسان لفظوں میں اس طرح خلاصہ کیا جاسکتا ہے کہ شادی کے بعد بھی مرد و عورت دونوں کسی بھی غیر عورت و مرد سے جسمانی تعلقات قائم کرسکتے ہیں ۔ مردوں کو تو پہلے سے اجازت تھی، لیکن اب اس نئے فیصلے نے مساوات کے تصور کی وجہ سے عورت کو بھی اس کی اجازت دے دی ہے کہ شادی کے بعد وہ اپنے بوائے فرینڈ یا کسی کے بھی بستر کو گرم کرسکتی ہے۔ کیوں کہ عورت کوئی وستو (چیز) نہیں ہے کہ ایک مرد نے شادی کرکے اس پر قبضہ جمالیا تو اب کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا، آخر وہ بھی مرد کی طرح انسان ہی ہے، لہذا اس پر کسی ایک ہی مرد کا مالکانہ قبضہ حاصل کیوں ہوگا۔ عورت خود اپنی ذات کی مالک ہوگی اور وہ جہاں چاہے گی ، جسے چاہے گی ، استعمال کرے گی اور کرائے گی، تبھی تو جمہوریت کی خوب صورتی ’’ میں، تم اور ہم‘‘ نکھر کر سامنے آئے گی۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آنے کے بعد مختلف لوگوں نے اپنے رد عمل اور تعجبات کا اظہار کیا۔ کسی نے لکھا کہ گرل پاور کا صحیح مظاہرہ یہ ہے کہ ایک عورت صرف اپنے شوہر کو ہی نہیں؛ بلکہ پورے محلے کو خوش رکھنے کی صلاحیت کا اظہار کرسکتی ہے۔کچھ لوگوں نے پچھلے فیصلوں کو بھی سامنے رکھتے ہوئے لکھا کہ’’ دو مرد آپس میں، دو عورتیں آپس میں،ایک شوہر دوسری کی بیوی کے ساتھ، کسی کی بیوی دوسرے مرد کے ساتھ، کنورے کنواریوں کے ساتھ (ریلیشن شپ) جنسی تعلقات بناسکتے ہیں، یہ قانوناجرم نہیں ہیں؛ لیکن بیوی کو بیوی بناکر اور ایک سے زائد نکاح کرکے اس کے حقوق ادا کرنا ظلم ہے، یہ کیسا فیصلہ ہے!!!۔
حیادار اور پاکدامن معاشرے میں یہ باتیں بالیقین تعجب انگیز ہیں، لیکن اگر فیصلہ کرنے والوں کے مذہبی اور فکری مبلغ کا مطالعہ کرلیا جائے تو یہ تعجب ہی تعجب خیز ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کے مذہب میں ’’نیوگ‘‘ کو ایک مقدس و مطہر عمل سمجھا جاتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا عورتوں کے بارے میں نظریہ یہ ہے کہ ’’بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں‘‘، اس لیے یہ حضرات نکاح کے بجائے انھیں دان کردیتے ہیں اور قاعدہ ہے کہ مال مفت دلے بے رحم، تو ان کے یہاں حیا، پاکدامنی، شرافت اور ان جیسے عزت و شرف عطا کرنے والی صفات کو تلاش کرنا ، پھر ان سے انھیں چیزوں کی توقع رکھنا یقیناًباعث تعجب ہوگا۔
اسی طرح جن کے یہاں نکاح کا تصور یہ ہو کہ ’’ نکاح سماجی سوسائٹی کا ایک باہمی معاہدہ اور آپسی سمجھوتہ ہے اور کچھ نہیں، اس لیے نکاح و طلاق کے سارے اختیارات تنہا شوہر کو بنا دینا سماج دشمنی اور عورتوں کی آزادی و مساوات کے خلاف ہے‘‘، ان کے یہاں نکاح جیسے مقدس رشتے کی عظمت تلاش کرنا بالیقین تعجب بالائے تعجب ہوگا!!!!!۔