فرائض وضو
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (4)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جو چیز قطعی دلیل سے ثابت ہواور اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو، اس کو فرض کہتے ہیں ۔ اس کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے ۔ فرض کی جمع فرائض ہے۔
وضو میں چار فرض ہیں:
(۱) ایک بار منھ کا دھونا، پیشانی کے بال کے اگنے کی جگہ سے تھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لوتک۔
(۲) کہنی سمیت دونوں ہاتھوں کا ایک بار دھونا۔
(۳) چوتھائی سر کا ایک مرتبہ مسح کرنا۔
(۴) ٹخنے سمیت دونوں پاؤں کا ایک ایک بار دھونا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَااَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلٰی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ أیْدِیَکُمْ اِلیٰ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَ أرْجُلَکُمْ اِلیٰ الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدۃ، آیۃ:۶ )
ائے ایمان والو! جب نماز کے لیے اٹھنے لگو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو اور پانے پیروں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ۔
جن اعضاکا دھونا فرض ہے ، ان میں کہیں ایک بال بھی سوکھا رہ جائے گا، تو وضو نہیں ہوگا۔
اگر داڑھی بہت گھنی ہو کہ جس سے نیچے کی کھال نظر نہ آتی ہو تو اس صورت میں بال کے نیچے کھال تک پانی پہنچانا فرض نہیں ہے ؛ بلکہ صرف چہرہ کے مقابل بال کا تر کردینا کافی ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں وہ بال بھی چہرہ میں داخل ہیں، اس لیے اس کا دھونا فرض ہوگا۔ مواجہت اسی بال سے ہوگی کھال سے نہیں ، اس لیے چہرہ میں چہرے کے مقابل داخل ہوں گے نہ کہ کھال۔ اسی طرح اور کوئی چیز جو وضو کے اعضا پر پانی پہنچانے سے مانع ہو تو اس کو دور کرکے جب تک وضو نہ کرے گا وضو نہ ہوگا۔
عن عبداللّٰہ بن عمروؓ قال: رجعنا مع رسول اللّٰہِ صلیٰ اللّٰہ علیہ وسلم من مکۃ إلیٰ المدینۃ حتّٰی إذا کنا بماء بالطریق، تعجل قومٌ عند العصر، فتوضؤا وھم عجال، فانتھینا إلیھم، وأعقابھم تلوح لم یمسھا الماءُ، فقال رسول اللّٰہِﷺ: ویلٌ للأعقابِ من النَّارِ،أسْبِغُوا الوضوءَ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الوضوء، باب سنن الوضوء)
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ لوٹے ، یہاں تک کہ ہم راستے میں پانی پر پہنچے توایک قوم نے عصر کے وقت جلدی کی اور انھوں نے جلدی میں وضو کیا۔ چنانچہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ان کی ایڑیوں میں پانی نہیں پہنچے ہیں۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایڑی والوں کے لیے دوزخ کے عذاب کی ہلاکت ہے۔
البتہ اگر داڑھی زیادہ گھنی نہ ہوتو کھال تک پانی پہنچانا فرض ہے ۔ (در مختار)
چہرے کے حدود سے جو بال نیچے لٹکے ہوئے ہیں ان کا دھونا فرض نہیں ہے ، کیوں کہ وہ چہرہ میں داخل نہیں ہے اور چہرہ دھونے کا حکم ہے۔
ہر عضو کا ایک ایک بار دھونا فرض ہے ۔ ایک سے زیادہ دھونا مسنون ۔ اور کمال سنن یہ ہے کہ عضو کو تین تین مرتبہ دھویا جائے ، اس سے زیادہ دھونا مکروہ ہے ۔
عن ابن عمرؓ ان النبی ﷺ توضاء مرۃ مرۃ و قال: ھذا وضوء لایقبلُ اللّٰہُ الصَّلٰوۃ الَّا بِہِ۔ و توضَّا ءَ مرتین مرتین و قال: ھذا وضوء مَن یضاعفُ الاجر مرتین وَ توضاء ثلاثا ثلاثا و قال: ھذا وضوءُی و وضوءُ الانبیاءِ من قبلی۔ (رواہ الدار قطنی والبیھقی وابن حبان وابن ماجہ و احمد والطبرانی، زجاجہ، ص؍۱۰۳)
نبی کریم ﷺ نے اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا اور فرمایا: یہ ایسا وضو ہے کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز ہی قبول نہیں فرماتا۔ اور آپ ﷺ نے اعضا کو دو دو مرتبہ دھویا اور فرمایا: یہ ایسا وضو ہے کہ اس سے ثواب دوگنا ہوجاتا ہے۔ اور آپ ﷺ نے تین تین مرتبہ اعضا کو دھویا اور فرمایا: یہ میرا اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا وضو ہے۔
تین مرتبہ سے زیادہ دھونے کے بارے میں فرمایا:
فمنْ زادَ علیٰ ھٰذا فقدْ اَسَاءَ و تعدَّیٰ و ظلَمَ۔ (نسائی، ابن ماجہ)
جس نے اس پر زیادہ کیا ، اس نے برا کیا اور ظلم و زیادتی کی۔
چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔ اگر اس سے کم کیا تو وضو نہیں ہوگا۔
عن عطاء انَّ النبی ﷺ توضاء فحسر العمامۃ و مسح مقدم رأسِہِ او قال ناصیتہ۔ (رواہ البیھقی)
حضرت عطا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو فرمایا، پھر عمامہ کو کھولا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ کے سر پر قطریہ عمامہ تھا۔ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو عمامہ کے نیچے داخل کیا۔ پھر سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔
شمسی نے فرمایا کہ یہ تو معلوم ہے کہ سر کا اگلا حصہ سر کے چار حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے ، اگر چوتھائی سر کا مسح کافی نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس وقت اس پر بس نہ فرماتے ۔ اور اگر چوتھائی سر سے کم کا مسح کافی ہوتا تو عمر بھر میں کبھی تو جواز بتانے کے لیے کرکے دکھاتے ۔ خواہ ایک ہی بارہو ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس معلوم ہو اکہ چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح)
کسی عضو پر تر ہاتھ پھیرنے کو مسح کہتے ہیں ، خواہ یہ تری نیا پانی لے کر حاصل کی ہویا کسی عضو کے دھونے سے حاصل ہوئی ہو۔
کسی عضو پر اتنا پانی ڈالنا کہ عضو تر ہو کر کم از کم دو چار قطرے پانی بہہ جائے ، اس کو غسل اور دھونا کہتے ہیں ۔ (مراقی الفلاح)
عن عبد اللّٰہ بن زید ان النبی ﷺ توضاء و انہ مسح رأسہ بماء غیر من فضل یدیہ۔ (رواہ الترمذی، زجاجۃ، ص؍۱۰۱)
دونوں ہاتھ کے فاضل بقیہ پانی سے سر کا مسح کیا۔
اور ایک روایت میں غیر فضل یدیہ ہے۔ (ترمذی، مسلم، زوائد) ۔
ایک عضو کے مسح کے بعد بھی ہاتھ میں تری رہے تو اس تری سے دوسرے عضو کا مسح صحیح نہیں ہے، جیسے کہ سر کے مسح کے بعدموزہ کا مسح کرے، یا زخم کا مسح کرے، ناروا ہے۔ اسی طرح دوسرے دھوئے ہوئے عضو کی تری سے تری لے اور مسح کرے، ناجائز ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍۱۹)
اگر وضو کے بعد سر منڈوائے اور سر سے خون نکل کر نہ بہے تو دوبارہ وضو اور مسح کی حاجت نہیں؛ لیکن خون بہہ جانے پر خون کا دوبارہ دھونا اور دوبارہ وضو کرنا فرض ہوگا؛ کیوں کہ خون نکل کر بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ ناخن وغیرہ کٹوانے سے دوبارہ اس کا دھونا ضروری نہیں۔
قسط (5) کے لیے کلک کریں
وضو میں چار فرض ہیں:
(۱) ایک بار منھ کا دھونا، پیشانی کے بال کے اگنے کی جگہ سے تھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لوتک۔
(۲) کہنی سمیت دونوں ہاتھوں کا ایک بار دھونا۔
(۳) چوتھائی سر کا ایک مرتبہ مسح کرنا۔
(۴) ٹخنے سمیت دونوں پاؤں کا ایک ایک بار دھونا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَااَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلٰی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ أیْدِیَکُمْ اِلیٰ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَ أرْجُلَکُمْ اِلیٰ الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدۃ، آیۃ:۶ )
ائے ایمان والو! جب نماز کے لیے اٹھنے لگو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو اور پانے پیروں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ۔
جن اعضاکا دھونا فرض ہے ، ان میں کہیں ایک بال بھی سوکھا رہ جائے گا، تو وضو نہیں ہوگا۔
اگر داڑھی بہت گھنی ہو کہ جس سے نیچے کی کھال نظر نہ آتی ہو تو اس صورت میں بال کے نیچے کھال تک پانی پہنچانا فرض نہیں ہے ؛ بلکہ صرف چہرہ کے مقابل بال کا تر کردینا کافی ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں وہ بال بھی چہرہ میں داخل ہیں، اس لیے اس کا دھونا فرض ہوگا۔ مواجہت اسی بال سے ہوگی کھال سے نہیں ، اس لیے چہرہ میں چہرے کے مقابل داخل ہوں گے نہ کہ کھال۔ اسی طرح اور کوئی چیز جو وضو کے اعضا پر پانی پہنچانے سے مانع ہو تو اس کو دور کرکے جب تک وضو نہ کرے گا وضو نہ ہوگا۔
عن عبداللّٰہ بن عمروؓ قال: رجعنا مع رسول اللّٰہِ صلیٰ اللّٰہ علیہ وسلم من مکۃ إلیٰ المدینۃ حتّٰی إذا کنا بماء بالطریق، تعجل قومٌ عند العصر، فتوضؤا وھم عجال، فانتھینا إلیھم، وأعقابھم تلوح لم یمسھا الماءُ، فقال رسول اللّٰہِﷺ: ویلٌ للأعقابِ من النَّارِ،أسْبِغُوا الوضوءَ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الوضوء، باب سنن الوضوء)
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ لوٹے ، یہاں تک کہ ہم راستے میں پانی پر پہنچے توایک قوم نے عصر کے وقت جلدی کی اور انھوں نے جلدی میں وضو کیا۔ چنانچہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ان کی ایڑیوں میں پانی نہیں پہنچے ہیں۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایڑی والوں کے لیے دوزخ کے عذاب کی ہلاکت ہے۔
البتہ اگر داڑھی زیادہ گھنی نہ ہوتو کھال تک پانی پہنچانا فرض ہے ۔ (در مختار)
چہرے کے حدود سے جو بال نیچے لٹکے ہوئے ہیں ان کا دھونا فرض نہیں ہے ، کیوں کہ وہ چہرہ میں داخل نہیں ہے اور چہرہ دھونے کا حکم ہے۔
ہر عضو کا ایک ایک بار دھونا فرض ہے ۔ ایک سے زیادہ دھونا مسنون ۔ اور کمال سنن یہ ہے کہ عضو کو تین تین مرتبہ دھویا جائے ، اس سے زیادہ دھونا مکروہ ہے ۔
عن ابن عمرؓ ان النبی ﷺ توضاء مرۃ مرۃ و قال: ھذا وضوء لایقبلُ اللّٰہُ الصَّلٰوۃ الَّا بِہِ۔ و توضَّا ءَ مرتین مرتین و قال: ھذا وضوء مَن یضاعفُ الاجر مرتین وَ توضاء ثلاثا ثلاثا و قال: ھذا وضوءُی و وضوءُ الانبیاءِ من قبلی۔ (رواہ الدار قطنی والبیھقی وابن حبان وابن ماجہ و احمد والطبرانی، زجاجہ، ص؍۱۰۳)
نبی کریم ﷺ نے اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا اور فرمایا: یہ ایسا وضو ہے کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز ہی قبول نہیں فرماتا۔ اور آپ ﷺ نے اعضا کو دو دو مرتبہ دھویا اور فرمایا: یہ ایسا وضو ہے کہ اس سے ثواب دوگنا ہوجاتا ہے۔ اور آپ ﷺ نے تین تین مرتبہ اعضا کو دھویا اور فرمایا: یہ میرا اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا وضو ہے۔
تین مرتبہ سے زیادہ دھونے کے بارے میں فرمایا:
فمنْ زادَ علیٰ ھٰذا فقدْ اَسَاءَ و تعدَّیٰ و ظلَمَ۔ (نسائی، ابن ماجہ)
جس نے اس پر زیادہ کیا ، اس نے برا کیا اور ظلم و زیادتی کی۔
چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔ اگر اس سے کم کیا تو وضو نہیں ہوگا۔
عن عطاء انَّ النبی ﷺ توضاء فحسر العمامۃ و مسح مقدم رأسِہِ او قال ناصیتہ۔ (رواہ البیھقی)
حضرت عطا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو فرمایا، پھر عمامہ کو کھولا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ کے سر پر قطریہ عمامہ تھا۔ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو عمامہ کے نیچے داخل کیا۔ پھر سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔
شمسی نے فرمایا کہ یہ تو معلوم ہے کہ سر کا اگلا حصہ سر کے چار حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے ، اگر چوتھائی سر کا مسح کافی نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس وقت اس پر بس نہ فرماتے ۔ اور اگر چوتھائی سر سے کم کا مسح کافی ہوتا تو عمر بھر میں کبھی تو جواز بتانے کے لیے کرکے دکھاتے ۔ خواہ ایک ہی بارہو ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس معلوم ہو اکہ چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح)
کسی عضو پر تر ہاتھ پھیرنے کو مسح کہتے ہیں ، خواہ یہ تری نیا پانی لے کر حاصل کی ہویا کسی عضو کے دھونے سے حاصل ہوئی ہو۔
کسی عضو پر اتنا پانی ڈالنا کہ عضو تر ہو کر کم از کم دو چار قطرے پانی بہہ جائے ، اس کو غسل اور دھونا کہتے ہیں ۔ (مراقی الفلاح)
عن عبد اللّٰہ بن زید ان النبی ﷺ توضاء و انہ مسح رأسہ بماء غیر من فضل یدیہ۔ (رواہ الترمذی، زجاجۃ، ص؍۱۰۱)
دونوں ہاتھ کے فاضل بقیہ پانی سے سر کا مسح کیا۔
اور ایک روایت میں غیر فضل یدیہ ہے۔ (ترمذی، مسلم، زوائد) ۔
ایک عضو کے مسح کے بعد بھی ہاتھ میں تری رہے تو اس تری سے دوسرے عضو کا مسح صحیح نہیں ہے، جیسے کہ سر کے مسح کے بعدموزہ کا مسح کرے، یا زخم کا مسح کرے، ناروا ہے۔ اسی طرح دوسرے دھوئے ہوئے عضو کی تری سے تری لے اور مسح کرے، ناجائز ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍۱۹)
اگر وضو کے بعد سر منڈوائے اور سر سے خون نکل کر نہ بہے تو دوبارہ وضو اور مسح کی حاجت نہیں؛ لیکن خون بہہ جانے پر خون کا دوبارہ دھونا اور دوبارہ وضو کرنا فرض ہوگا؛ کیوں کہ خون نکل کر بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ ناخن وغیرہ کٹوانے سے دوبارہ اس کا دھونا ضروری نہیں۔
قسط (5) کے لیے کلک کریں