نظامت کی مثال
بہ موقع افتتاحی پروگرام
محترم سامعین کرام! کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ
رشک کرتا ہے فلک ایسی زمیں پر اسعد
جس پہ دوچار گھڑی ذکرِ خدا ہوتاہے
میرے عزیز ساتھیو! آپ تمام حضرات کا اس رشک فلک بزم اور رشک ملائکہ کی محفل میں جوق در جوق تشریف لانا اور ہماری حقیر سی دعوت پر اپنی تمام اہم اور ضروری مصروفیات کو چھوڑ کر یہاں قدم رنجہ فرماکر اس محفل کی رونق میں اضافہ کرنا؛ یہ وہ چیزیں ہیں ، جن سے ہم بے حد ممنون و مشکور ہیں۔
دوستو! ویسے توآج کے اس پروگرام کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کسی انجمن کا افتتاحی پروگرام ہے، کسی بزم کا پہلا اجلاس ہے ، کسی ایک محفل کی شروعات ہورہی ہے اور کسی جلسے کا آغاز ہورہا ہے ؛ لیکن کسی شاعر نے کہا ہے کہ
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شئی کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
جی ہاں دوستو!جب ہم اس کو کسی اور پہلو سے دیکھتے ہیں، توہمیں کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔حقیقتِ شئی کی نظر سے دیکھتے ہیں ، تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ صرف کسی ایک انجمن کا افتتاحی پروگرام نہیں؛ بلکہ ہماری ایک نئی زندگی کی افتتاحی تقریب ہے۔ یہ صرف کسی ایک بزم کا اجلاس نہیں؛ بلکہ ہماری ایک نئی امنگ کے لیے جدو جہد کرنے کے عزم کا اعلان ہے۔ یہ صرف کسی ایک محفل کی شروعات نہیں؛ بلکہ ہماری ایک اور زندگی کی شروعات کا عندیہ ہے۔ یہ صرف کسی ایک جلسے کا آغاز نہیں؛ بلکہ یہ ہمارے ایک نئے مستقبل کا بھی آغاز ہے ۔ کیوں کہ آج کا یہ وقت وہ وقت ہے ، جس میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو کامیاب بنانا ہے کہ نہیں، اپنے ایک سنہرے مستقبل کو آواز دینا ہے یا نہیں اور آگے کچھ بن کر یا کچھ کر کے دکھانا ہے یا نہیں۔
وقت کی قلت دامن گیر ہے اس لیے اب ہم مزید کلپترہ گوئی اور سمع خراشی کے بجائے پروگرام کے آغاز کی طرف قدم بڑھاتے ہیں کہ
تصویر آج کھینچیں گے بہزاد بن کے ہم
یہ صحن چمن غارِ حرا ہم بنائیں گے
وہ چشمہ جو کہ منبعِ آبِ حیات ہے
اک جوئے شیر بزم میں اس سے بہائیں گے
وہ قند جس سے میٹھی ہے عذب البیانیاں
وہ آج سب کو مثلِ تبرک چکھائیں گے
وہ نور جس سے طور کی قسمت چمک گئی
ہم اس سے آج سرو چراغاں جلائیں گے
ہاں میرا ہاتھ شوخی تقریر چوم لے
ہم آج شان منزل وحدت دکھائیں گے
یہ سن کے آج تاب سماعت پھڑک اٹھی
اب خود بہ خود سمجھ لو کہ ہم کیا سنائیں گے
گر اب بھی نہ سمجھے کوئی میرے کلام کو
ہم لا کلام صورت قرآں دکھائیں گے
جی ہاں دوستو! وہ قرآن
وہ قرآں جو سراپا نور ہے رحمت ہے برکت ہے
پلاتا ہے جو اپنے عاشقوں کو جام عرفانی
وہ قرآں جو غذا بھی ہے ، دوا بھی ہے، شفا بھی ہے
مئے توحید کی جس سے ہوئی دنیا میں ارزانی
وہ قرآں جس کی برکت کا بیاں ہوہی نہیں سکتا
بناتا ہے جو اپنے ماننے والوں کو ربانی
وہ جس کا ایک نقطہ بھی نہ بدلے گا قیامت تک
وہ جس کی خود خدائے پاک کرتا ہے نگہہ بانی
اخوت کا سبق جس نے پڑھایا سارے عالم کو
غلاموں کو عطا جس نے کیا ہے تاج سلطانی
اسی قرآنِ کریم سے محفل کا آغاز کرنے کے لیے ہم دعوت دیتے ہیں، جناب مولانا قاری ۔۔۔ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو ، کہ وہ آئیں اور قرآن کریم کی تلاوت سے ہم لوگوں کے ایمان میں تازگی کی روح گھول دیں۔
محترم حضرات! یہ تھے جناب مولانا قاری ۔۔۔ صاحب ،جو اپنے مخصوص لب ولہجے میں تلاوت فرما رہے تھے اور آپ ایمان کی حلاوت محسوس کررہے تھے۔
ساتھیو! خالق دوجہاں اور مالکِ کن فکاں کے بعد اس طلسم کدہ ہزار شیوۂ رنگ میں کسی کا مقام و مرتبہ ہے اور ساری انسانیت پر؛ بلکہ پوری کائنات پر کسی کا احسان عظیم ہے ، تو وہ وہی ہستی ہے ، جن کا نام خود خدائے پاک کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
تکبیر میں کلمے میں نمازو اذان میں
ہے نام الٰہی سے جڑا نام محمد
فرماتے تھے آدم کہ مجھے خلد بریں میں
لکھا ہوا طوبیٰ پہ ملا نام محمد
جی ہاں ! وہ آقائے دوجہاں، باعثِ کن فکاں ، محبوب رب کائنات،فخر موجودات، نبی امی، محمد عربی ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے ۔ جن کی شان یہ ہے کہ لَوْ لاکَ لَمَا خَلَقْتُ السَّمَوٰاتِ وَالأرْضَ ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کتابِ فطرت کے ہر ورق پر جو نام احمد رقم نہ ہوتا
تو نقشِ ہستی ابھر نہ سکتی، وجودِ لوح و قلم نہ ہوتا
تیرے غلاموں میں بھی نمایاں جو تیرا عکس کرم نہ ہوتا
تو بارگاہ ازل سے تیرا خطاب خیر الامم نہ ہوتا
نہ روئے حق سے نقاب اٹھتا، نہ ظلمتوں کا حجاب اٹھتا
فروغ بخش نگاہ عرفاں اگر چراغِ حرم نہ ہوتا
تو آئیے اسی محسنِ کائنات کی بارگاہ میں عقیدت و محبت اور عشق و شیفتگی کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور اس کے لیے آواز دیتے ہیں، شاعر خوش الحان جناب مولانا۔۔۔ کو ، کہ وہ آئیں اور اس عظیم ہستی کی مدحت و توصیف میں رطب اللسان ہوں۔ جناب مولانا ۔۔۔ مائک کے روبرو۔
سامعین با وقار! اگر یہ حقیقت ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع اور مشرق میں غروب نہیں ہوسکتا، مچھلی خشکی اور پرندے دریا میں زندہ نہیں رہ سکتے، نباتات پانی کے بغیر سرسبزوشاداب اورانسان زمین چھوڑ کر سمندروں کی تہہ میں آباد نہیں ہوسکتے اور ان سے واضح تر مثال میں کہ کوئی بھی گاڑی ڈرائیور کے بغیر نہیں چل سکتی، تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ کوئی بھی کارواں میر کارواں کے بغیر منزل کی جانب کشاں کشاں رواں دواں نہیں ہوسکتا۔
ممکن نہیں کہ کارواں منزل کوپاسکے
جب تک نہ کوئی راہبر معتبر ملے
اس لیے تحریک صدارت پیش کرنے کے لیے ہم دعوت دیتے ہیں ، جناب مولانا ۔۔۔ کو ،کہ وہ آئیں اور تحریک صدارت پیش کریں۔
تائیدی کلمات: جس عظیم ہستی کانام صدارت کے لیے پیش کیا گیا ہے میں اس کی اپنی طرف سے اور پورے مجمع کی طرف سے ترجمانی کرتے ہوئے پرزور تائید کرتاہوں، ان الفاظ کے ساتھ کہ
مدت سے کاروانِ خرد کو تلاش تھی
اک راہبر جنون ملے معتبر ملے
مدت پہ جستجوئے نظر کامراں ہوئی
مدت پہ اک قدر شناس گہر ملے
اب ایک دھوم قافلے والوں میں ہے کہ ہاں
ایسا ملے امیر کسی کو اگر ملے
اس حسن انتخاب اور اس کی پرزور تائید کے بعد پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ پروگرام مختصر؛ بلکہ مختصر تر ہے ؛ کیوں کہ اب خطبۂ استقبالیہ کے بعد صرف ایک تقریر ہوگی اور اس کے بعد حضرات اساتذۂکرام کی نصیحتوں اور دعاؤں پر پروگرام اختتام کو پہنچ جائے گا۔ پھر اس کے بعد آپ ہوں گے ، ہم ہوں گے، مٹھائیاں ہوں گی اور یارانہ مستی کا موحول۔
المختصر پروگرام کی ایک کڑی یعنی خطبۂ استقبالیہ پیش کرنے کے لیے ہم دعوت دیتے ہیں ، جناب مولانا۔۔۔ کو ،کہ وہ تشریف لائیں اور استقبالیہ کلمات پیش کریں۔
معزز سامعین ! آپ بہ خوبی جانتے ہیں کہ انسان اپنے مافی الضمیرکے اظہار کے لیے دو چیزوں کا سہارا لیتاہے ، جن میں سے ایک کو تقریر کہاجاتاہے اور دوسرے کو تحریر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور ان دونوں صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہماری مادرِ علمی میں مختلف انجمنیں قائم ہیں۔ تو آئیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری یہ انجمنیں اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہیں۔ تو اس کے لیے ہم آواز دیتے ہیں جناب مولوی ۔۔۔ صاحب کو، کہ وہ آئیں اور اپنی آتش بداماں تقریر سے اپنی انجمن کا نام روشن کریں۔جناب مولوی ۔۔۔ مائک پر۔
سامعین کرام!اس شعلۂ جوالہ نما خطابت سے آپ نے بہ خوبی اندازہ لگالیا ہوگا کہ ہماری یہ تحریک اپنے مقصد میں سو فی صد کامیاب ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ جب ہماری یہ انجمنیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوہی گئیں ،تو اب ہمیں مزید ان کی ضرورت نہیں رہی، لہذا آئیے اب ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؛ کیوں کہ ایسا کرنا گویا اپنی شکست کااعلان کرنا ہے ، حالاں کہ ایک طالب علم و فن کا نصب العین یہ ہے کہ
بلندی پر پہنچنا کوئی کمال نہیں
بلندی پر ٹھہرنا کمال ہوتاہے
اس لیے آئیے آج ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم نے انجمن کی شکل میں جوقافلہ تیار کیا ہے اور انجمن کی صورت میں جو کارواں مرتب کیا ہے اور تقریر و تحریر کا زادِ راہ لے کر طلب و جستجو کی جس راہ پر نکل چکے ہیں، اب ہم بیچ میں سستانے کے لیے تھوڑی دیر ٹھہر تو سکتے ہیں ؛ لیکن ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ نہیں سکتے اورجب تک ہم اپنے منزل مقصود کو نہ پالیں، اس وقت تک ہمارا یہ سفر جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
دوستو! ہم طلبہ کا پروگرام کادور تو ختم ہوگیا؛ لیکن پروگرام کا اصلی دور اور بزم کا اصلی حسن تواب نکھرنے والا ہے ، ہم طلبہ کے گلستانِ تمنا کے پھول تو اب کھلیں گے، ہماری چاہتوں کے غنچے تو اب چٹکیں گے؛ کیوں کہ ہمارے انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہوچکی ہیں اور وہ وقت آگیا ہے کہ اساتذۂ کرام کی قیمتی نصیحتوں سے ہم مستفیض ہوں گے، جو ہمارے پروگرام کا خلاصہ اور اصلی جوہر ہیں۔
توآئیے پروگرام کی اس کڑی کی شروعات کرتے ہوئے زحمت سخن دیتے ہیں ایک ایسی شخصیت کو ، جن کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ
تعارف کی قطعا ضرورت نہیں ہے
تمھیں جانتا ہے یہ سارا زمانہ
اور جن کا یہ اعلان ہے کہ
میرے ساتھ ساتھ چلے وہی جو خارِ راہ کو چوم لے
جسے کلفتوں سے گریز ہو وہ میرا شریک سفر نہ ہو
اور جن کا یہ مسلک ہے کہ
شریعت عشق کا ہے فتویٰ حرام راحت کی زندگی ہے
گریز پھر کشمکش سے کیوں ہو، ہمارا مسلک ہے عاشقانہ
اور جن کا یہ عزم ہے کہ
ہم اس مٹی کو اپنے خون سے زر خیز کردیں گے
ہمارے اس زمیں کے ساتھ کچھ رشتے انوکھے ہیں
اور جن کا یہ پیغام ہے
تیرے بال و پر کا مقصد ہے بلندیوں پہ جانا
نہ سکوں نہ سیر گلشن نہ تلاش آب و دانہ
اور جن کا یہ پیام ہے کہ
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اور جن کا یہ فرمان ہے کہ
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے
اور جن سے درخواست ہے کہ
آ بزم کی رونق کو بڑھانے کے لیے آ
ہم تشنہ لب کو جام پلانے کے لیے آ
اور
طوفانِ حوادث نے بھلادی میری منزل
گم گشتہ راہ کو راہ دکھانے کے لیے آ
ہم بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ درخواست کرتے ہیں نمونۂ اسلاف جناب حضرت مولانا ۔۔۔ صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے کہ آں حضور تشریف لائیں اور اپنی قیمتی نصیحتوں اور مفید مشوروں سے نوازیں ، جن کی روشنی میں ہم اپنی زندگی کی صحیح سمت متعین کرسکیں اور اپنی فکر وعمل کے دھارے کو مثبت موڑ دے سکیں۔
میرے عزیز ساتھیو! پروگرام کا دونوں دور بہ حسن و خوبی اختتام کو پہنچ گیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پروگرام کو کامیاب بنانے میں آپ سبھی حضرات کا تعاون شامل حال رہا ؛ورنہ اس شان دار انداز کے ساتھ یہاں تک پہنچنا ہمارے لیے ناممکن تھا ۔ آپ حضرات کا ہم دوبارہ شکریہ ادا کرتے ہیں اوراجازت لینے سے پہلے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ پھرجب اختتامی دور کا موسم بہار آئے گا، توپھر اسی طرح ہم یاران باصفا کی بزم طرب سجے گی ،پھر یہی محفل نشاط انگیز ہوگی اورجام ومینا کا یہی دور گردش کرے گا۔ یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔اب اجازت اس شعر کے ساتھ کہ
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
اور اب
مستیاں آپ کو آواز دیتی ہیں
مٹھائیاں آپ کو آواز دیتی ہیں
اب لیجیے مٹھائیوں کا لطف ۔