لمحہ مسرت میں افسردگی
(زمانہ طالب علمی کی کچھ لاشعوری کاوشیں)
محمد یاسین قاسمی جمعیۃ علماء ہند
میری فکر پریشاں اور تصور حیراں کے فیصلے کا عجیب حال ہے کہ جو لمحہ دنیا کے لیے مسرت افگن اور سرور آمیز ہوتا ہے، وہی لمحہ میرے لیے باعث الم ہوتا ہے۔ دنیا جس گھڑی میں اپنی خوشیوں کے پھریرے اڑاتی ہے، وہی گھڑی میرے لیے اندوہ و غم کا سامان ڈھونڈھتی ہے ۔ جو وقت دنیا کو پیغام جاں فزا اورمژدہ روح افزا سناتا ہے، وہی وقت میرے لیے داستان بے ستون ، حکایت کوہ کن اور قصہ برق و خرمن کی سمع خراشی کرتا ہے؛ لیکن یہ کوئی اچمبھے کی بات نہیں ، کیوں کہ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ مثلا کوئی تلخ شراب پینے کا رسیا ہوتا ہے تو اس کو اس تلخی ہی میں اتنا لطف آتا ہے کہ جیسے اس کے لیے پوری کائنات کی لذتیں اس میں سماگئی ہیں۔
عید ہو یا بقرعید، چاند نظر آتے ہی لوگوں کی خوشیوں کی انتہا نہیں رہتی اور وہ مسرتوں سے پھولے نہیں سماتے۔ خوشی کے ایک ایک راگ کو چھیڑ کر مسرت کے ترانے گاتے ہیں ، غرض اتنا مسرور ہوتے ہیں کہ سرور میں چور چور ہوجاتے ہیں ؛ لیکن میرے دل کی کیفیت اس بیوہ کی سی ہوتی ہے ، جس کا شوہر عین عید کے دن زبردستی قتل کردیا گیا ہواور اس یتیم کی سی ہوتی ہے ، جس کے لیے عید ، عید نہیں ؛ بلکہ ایک وعید ہوتی ہے ۔ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جب لوگ اپنی خوشیوں کی تیاریوں میں منہمک ہوجاتے ہیں اور زرق و برق لباس پہنے اور مٹھائیاں لیے پھرتے ہیں ، تو مجھے ایک یتیم کی ہچکیاں اور بیوہ کی آہیں سنائی دینے لگتی ہیں اور ان کی وہ کیفیت سامنے آجاتی ہے کہ مسرت کے اس حسین موقع پر بھی ان کے چہرے پر خوشی کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کی حالت کو دیکھ کر میں بھی تار غم کو چھیڑتا ہوں تاکہ زہر غم کا وہ پیالہ ہمیں بھی نصیب ہو جس کی لذت سے قہقہ عیش لگانے والے اور عید میں خوشیوں کے پھریرے اڑانے والے ناآشنا و بے خبر ہیں ۔
ششماہی امتحان کا اعلان ہوا تو میرے دل نے خوشیوں کا بگل بجادیا ، ذہن نے فرحت اور دماغ نے مسرت کا احساس کیا کہ عنقریب چھ گھنٹے کے پابند سلاسل، ہوائے حریت سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ہیں ۔ وقت کے چھ قفس میں مقید تن کو آزادی ملنے والی ہے اور میں خود کو اب آزاد پاوں گا، لیکن میں نے دیکھا کہ اس اعلان سے دوسروں کے چہرے اتر گئے، ان کے ہونٹوں کی ہنسی چھن گئی ، مسرتوں سے وہ نا آشنا ہوگئے، ان کا دل غم سے لبریز ہوگیا، ان کے سینے فکر امتحان سے پھٹنے لگے، وہ سراپا غم و حسرت کا علم بردار بن گیا، ایسا لگنے لگا کہ گویا آسمان ان کے سروں پر گر پڑا ہے ، یا ان کی زندگی کی تمام عیش پامال کردیا گیا ہے یا پھر ان کے خاندان کو جڑو بن سے اکھاڑ دیا گیا ہے ۔ پھر جب امتحان کے بعد کچھ دنوں کے لیے چھٹی ہوئی ، تو سب کے چہرے کھل اٹھے، سب خوشیوں کے پھریرے اڑانے لگے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے موسم خزاں میں یکایک پھول کھل اٹھے ہوں ۔ مجھے بھی چھٹی ملی ۔ میں بھی اپنی خوشی کا متلاشی ہوا، لیکن پتہ چلا کہ جس کی تقدیر نے ایسے پرمسرت لمحوں میں افسردگی رقم کی ہو، حصول فرحت کے لیے چاہے وہ لاکھ ہاتھ پیر مارے، خوشی اس پر مہربان نہیں ہوسکتی ۔ سب نے اس چھٹی سے خوط لطف اندوزی کی، لیکن میرے نصیب میں جو دارالعلوم کی چہار دیواری مقدر تھی وہی رہی۔ بے بسی نے ہاتھ پیر مضبوط رسیوں سے یوں جکڑدیا کہ اس عقدہ مشکل کی کشود میں تمام قوتیں صرف کردیں؛ لیکن تمام کوششیں لاحاصل و بے سود ثابت ہوئیں۔ میں خوشی کی تلاش کے لیے حیران و سرگرداں رہا، لیکن دور دور تک نہیں ملی، اسے ہر سمت تلاش کیا ، لیکن کہیں نظر نہیں آئی ۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کہ اب دنیا سے مسرت ہی اٹھالی گئی ہو۔ جب انتہائی کوششوں کے بعد بھی خوشی میسر نہیں آئی تو بالآخر غذائے روح یعنی غم کا متلاشی ہوا اور تقدیر کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے افسردگی کا پرتپاک استقبال کیا اور پژمردگی کو رفیق حیات ٹھہرالیا۔
غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیا
جس کو ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
اس لیے دارالعلوم کی چہار دیواری کو اختیار کرکے دنیا کی تمام رنگینیوں سے منھ موڑلیا، تالمحہ فرصت اسی کی گود میں پھلنے پھولنے کا عزم کرلیا ، اب مجھ کو مادر علمی سے کوئی جدا نہیں کرسکتااور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت اس ماں کی محبت سے مجھے روک سکتی ہے۔ اور نہ ہی مجھے کبھی مادر علمی بھول سکتی ہے ، کیوں کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے اور آج تک ایسا ہوا ہی نہیں ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے کو بھول جائے ۔ گو کہ گردش ایام کی وجہ سے یہ طالبان علوم مجھے پہچاننے سے انکار کردیں ، لیکن یہ حسین درودیوار، یہ گنبد بیضا اور قال اللہ و قال الرسول کا حسین نغمہ ان شاء اللہ کبھی بھی نہیں بھولے گا، بلکہ مجھے ہمیشہ یاد رکھے گا۔
(زمانہ طالب علمی کی کچھ لاشعوری کاوشیں)
محمد یاسین قاسمی جمعیۃ علماء ہند
میری فکر پریشاں اور تصور حیراں کے فیصلے کا عجیب حال ہے کہ جو لمحہ دنیا کے لیے مسرت افگن اور سرور آمیز ہوتا ہے، وہی لمحہ میرے لیے باعث الم ہوتا ہے۔ دنیا جس گھڑی میں اپنی خوشیوں کے پھریرے اڑاتی ہے، وہی گھڑی میرے لیے اندوہ و غم کا سامان ڈھونڈھتی ہے ۔ جو وقت دنیا کو پیغام جاں فزا اورمژدہ روح افزا سناتا ہے، وہی وقت میرے لیے داستان بے ستون ، حکایت کوہ کن اور قصہ برق و خرمن کی سمع خراشی کرتا ہے؛ لیکن یہ کوئی اچمبھے کی بات نہیں ، کیوں کہ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ مثلا کوئی تلخ شراب پینے کا رسیا ہوتا ہے تو اس کو اس تلخی ہی میں اتنا لطف آتا ہے کہ جیسے اس کے لیے پوری کائنات کی لذتیں اس میں سماگئی ہیں۔
عید ہو یا بقرعید، چاند نظر آتے ہی لوگوں کی خوشیوں کی انتہا نہیں رہتی اور وہ مسرتوں سے پھولے نہیں سماتے۔ خوشی کے ایک ایک راگ کو چھیڑ کر مسرت کے ترانے گاتے ہیں ، غرض اتنا مسرور ہوتے ہیں کہ سرور میں چور چور ہوجاتے ہیں ؛ لیکن میرے دل کی کیفیت اس بیوہ کی سی ہوتی ہے ، جس کا شوہر عین عید کے دن زبردستی قتل کردیا گیا ہواور اس یتیم کی سی ہوتی ہے ، جس کے لیے عید ، عید نہیں ؛ بلکہ ایک وعید ہوتی ہے ۔ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جب لوگ اپنی خوشیوں کی تیاریوں میں منہمک ہوجاتے ہیں اور زرق و برق لباس پہنے اور مٹھائیاں لیے پھرتے ہیں ، تو مجھے ایک یتیم کی ہچکیاں اور بیوہ کی آہیں سنائی دینے لگتی ہیں اور ان کی وہ کیفیت سامنے آجاتی ہے کہ مسرت کے اس حسین موقع پر بھی ان کے چہرے پر خوشی کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کی حالت کو دیکھ کر میں بھی تار غم کو چھیڑتا ہوں تاکہ زہر غم کا وہ پیالہ ہمیں بھی نصیب ہو جس کی لذت سے قہقہ عیش لگانے والے اور عید میں خوشیوں کے پھریرے اڑانے والے ناآشنا و بے خبر ہیں ۔
ششماہی امتحان کا اعلان ہوا تو میرے دل نے خوشیوں کا بگل بجادیا ، ذہن نے فرحت اور دماغ نے مسرت کا احساس کیا کہ عنقریب چھ گھنٹے کے پابند سلاسل، ہوائے حریت سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ہیں ۔ وقت کے چھ قفس میں مقید تن کو آزادی ملنے والی ہے اور میں خود کو اب آزاد پاوں گا، لیکن میں نے دیکھا کہ اس اعلان سے دوسروں کے چہرے اتر گئے، ان کے ہونٹوں کی ہنسی چھن گئی ، مسرتوں سے وہ نا آشنا ہوگئے، ان کا دل غم سے لبریز ہوگیا، ان کے سینے فکر امتحان سے پھٹنے لگے، وہ سراپا غم و حسرت کا علم بردار بن گیا، ایسا لگنے لگا کہ گویا آسمان ان کے سروں پر گر پڑا ہے ، یا ان کی زندگی کی تمام عیش پامال کردیا گیا ہے یا پھر ان کے خاندان کو جڑو بن سے اکھاڑ دیا گیا ہے ۔ پھر جب امتحان کے بعد کچھ دنوں کے لیے چھٹی ہوئی ، تو سب کے چہرے کھل اٹھے، سب خوشیوں کے پھریرے اڑانے لگے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے موسم خزاں میں یکایک پھول کھل اٹھے ہوں ۔ مجھے بھی چھٹی ملی ۔ میں بھی اپنی خوشی کا متلاشی ہوا، لیکن پتہ چلا کہ جس کی تقدیر نے ایسے پرمسرت لمحوں میں افسردگی رقم کی ہو، حصول فرحت کے لیے چاہے وہ لاکھ ہاتھ پیر مارے، خوشی اس پر مہربان نہیں ہوسکتی ۔ سب نے اس چھٹی سے خوط لطف اندوزی کی، لیکن میرے نصیب میں جو دارالعلوم کی چہار دیواری مقدر تھی وہی رہی۔ بے بسی نے ہاتھ پیر مضبوط رسیوں سے یوں جکڑدیا کہ اس عقدہ مشکل کی کشود میں تمام قوتیں صرف کردیں؛ لیکن تمام کوششیں لاحاصل و بے سود ثابت ہوئیں۔ میں خوشی کی تلاش کے لیے حیران و سرگرداں رہا، لیکن دور دور تک نہیں ملی، اسے ہر سمت تلاش کیا ، لیکن کہیں نظر نہیں آئی ۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کہ اب دنیا سے مسرت ہی اٹھالی گئی ہو۔ جب انتہائی کوششوں کے بعد بھی خوشی میسر نہیں آئی تو بالآخر غذائے روح یعنی غم کا متلاشی ہوا اور تقدیر کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے افسردگی کا پرتپاک استقبال کیا اور پژمردگی کو رفیق حیات ٹھہرالیا۔
غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیا
جس کو ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
اس لیے دارالعلوم کی چہار دیواری کو اختیار کرکے دنیا کی تمام رنگینیوں سے منھ موڑلیا، تالمحہ فرصت اسی کی گود میں پھلنے پھولنے کا عزم کرلیا ، اب مجھ کو مادر علمی سے کوئی جدا نہیں کرسکتااور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت اس ماں کی محبت سے مجھے روک سکتی ہے۔ اور نہ ہی مجھے کبھی مادر علمی بھول سکتی ہے ، کیوں کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے اور آج تک ایسا ہوا ہی نہیں ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے کو بھول جائے ۔ گو کہ گردش ایام کی وجہ سے یہ طالبان علوم مجھے پہچاننے سے انکار کردیں ، لیکن یہ حسین درودیوار، یہ گنبد بیضا اور قال اللہ و قال الرسول کا حسین نغمہ ان شاء اللہ کبھی بھی نہیں بھولے گا، بلکہ مجھے ہمیشہ یاد رکھے گا۔