6 Jun 2017

صدر جمعیۃ اور سکریٹری جمعیۃ کا بھاگلپور و گڈا کا تعزیتی و اصلاحی دورہ


تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
۱۳؍ ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۶ء بروز جمعہ امیر الہند رابع و صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند ، ضلع بھاگلپور بہار میں واقع کروڈیہہ تشریف لائے۔ یہ وہی گاوں ہے جو ۱۹۸۹ء کے بھاگلپور فساد میں جمعیۃ علماء ہند کا امدادی مرکز تھا اور فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ بارہا حالات کے جائزہ کے لیے تشریف لائے اور حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی تقریبا تین مہینے تک یہاں رہ کر ریلیف اور باز آباد کاری کا کام انجام دیتے رہے۔حضرت فدائے ملت ؒ کے میزبان حضرت قاری صالح صاحب نور اللہ مرقدہ ہوا کرتے تھے، جو حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے خلیفہ تھے۔جن کا گذشتہ ۵ ؍ اگست ۲۰۱۶ بروز جمعرات انتقال ہوگیا تھا۔ حضرات اکابرین کا یہ سفرحضرت قاری صالح صاحب نور اللہ مرقدہ کی تعزیت اور ان کے صاحب زادہ حضرت مولانا مصلح الدین صاحب استاذ مدرسہ حسینیہ لال دروازہ جونپور یوپی کی صاحب زادی کا نکاح پڑھانے کے لیے تھا۔حضرات اکابر کے یہاں قدم رنجہ فرماتے ہی اس سفر کے اصل میزبان حضرت قاری صاحب ؒ کے صاحب زادگان ؛ بطور خاص حضرت مولانا مصلح الدین صاحب دامت برکاتہم، حضرات مولانا فہیم الدین، مولانا بہا ء الدین، عظیم الدین اور حافظ حارث صاحبان نے ان کی شایان شان استقبال کیا۔
بندہ ناچیز کو جب اس علاقے میں ان حضرات کی آمد کی خبر معلوم ہوئی ، تو مسرت کی انتہا نہ رہی اور یہ طے کیا گیا کہ ان کی مبارک آمد کو یادگار بنایا جائے۔ چنانچہ اس کے لیے کوشش کی گئی اور راقم کے گاوں جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ میں ایک عظیم الشان استقبالیہ اجلاس عام کا اعلان کردیا گیا۔ اور اس کے لیے زور شور سے تیاری شروع کردی گئی ۔ جس میں علاقے کے سبھی مدارس کے ذمہ داران، ائمہ کرام اور موذنین حضرات کو خصوصی دعوت دی گئی ۔
ان دونوں معزز مہمانوں کی کروڈیہہ پہنچے کی اطلاع ملتے ہی دارالعلوم دیوبند کے صدر شعبہ خطاطی حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی، شاگرد شیخ الاسلام حضرت مولانا مظہر الحق صاحب قاسمی اور یہ ناچیز ان حضرات کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ نماز جمعہ کے فورا بعد کروڈیہہ کی جامع مسجد میں نکاح ہوا ۔ اس کے بعد ظہرانہ اور تھوڑی دیر کا قیلولہ ۔ بعد ازاں حضرت صدر محترم اور سکریٹری صاحبان سے اجلاس میں تشریف آوری کی درخواست پیش کی گئی ؛ لیکن حضرت صدر محترم کے ضعف و علالت کی بنیاد پر یہ طے پایا کہ حضرت یہی آرام کریں گے اور حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی جلسہ کی زینت میں اضافہ فرمائیں گے۔ 
چنانچہ حسب مشورہ حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی کے ہمراہ استقبالیان کا وفد بعد نماز عصر جلسہ کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ میں استقبالیہ جلوس رکھا گیا تھا، جو تاخیر کے سبب ملتوی کردیا گیا ، البتہ مدرسے میں حضرت کا کچھ دیر کا دعائیہ قیام ہوا۔ یہاں پر حضرت مفتی محمد اسامہ اور حضرت مفتی خلیل صاحبان نے پرتپاک استقبال کیا ۔ یہاں سے فراغت کے بعد قافلہ آگے کے لیے روانہ ہوا اور دس کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع کرما میں دوسرے استقبالیہ جلوس سے استقبال کیا گیا ۔ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں افراد قطار در قطار کھڑے تھے اور جمعیۃ زندہ باد ، دارالعلوم دیوبند زندہ باد ، صدر محترم زندہ باد اور مولانا حکیم الدین قاسمی زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے تھے۔ یہاں سے جلسہ گاہ دس کیلو میٹر کے فاصلہ پر تھا، اس پورے دس کیلومیٹر کی سڑک پر بائک سواروں کا دو رویہ قطار اور مہمان مکرم کی گاڑی کے آگے پیچھے افراد ہاتھ میں جمعیۃ کا جھنڈا لہراتے نعرہ تحسین و آفرین بلند کرتے رہے۔ جب قافلہ استقبالیان گاوں پہنچا تو پھولوں کی بارش کی گئی ۔ گاڑی کے آگے سڑکے کے دونوں کنارے بچوں اور جوانوں کی صف بستہ دیوار بنائی گئی اور نعرہ ہائے استقبال بلند کرتے ہوئے قیام گاہ تک پہنچے۔
رات جلسے میں مہمان مکرم کی آمد پر اظہار مسرت کے لیے استقبالیہ کلمات پیش کیے گئے اور ایک نظم بھی پڑھی گئی ، جس کا ایک شعر یہ تھا کہ 
زہے نصیب کہ آئے ہیں جو حکیم الدین 
عوام ان پہ ہیں شیدا جہاز قطعہ میں
بعد ازاں مہمان گرامی قدر کا پرمغز خطاب ہوا۔جس میں انھوں نے علاقے میں رائج غیر اسلامی رسوم و رواج پرگفتگو فرمائی ۔ جمعیۃ کی خدمات کا تذکرہ کیا اور اس کی حالیہ سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اجمیر میں۱۳؍ نومبر کو ہورہے ۳۳ویں اجلاس عام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ جلسہ تا اذان فجر جاری رہا ۔ قرب و جوار کے عوام الناس کا جم غفیر جلسہ کی کامیابی کی ضمانت دے رہا تھا ۔
۱۷؍ ستمبر بعد نماز فجر مہمان شفیق حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی کا پروگرام جامع مسجد جہاز قطعہ میں تھا، جہاں انھوں نے نماز بعد مختصر مگر حکمت و معرفت سے لبریز خطاب کیا۔ پھر اس ناچیز کے غربت کدہ پر تشریف لاکر ہماری عزت افزائی فرمائی۔ یہاں سے فراغت کے بعد پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق علاقے کے مختلف مقامات پر دورہ کے لیے نکل پڑے ۔ سب سے پہلے جہاز قطعہ سے آٹھ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع جامعہ خدیجۃ الکبریٰ پہنچے اور دعائیہ مجلس سے فراغت کے بعد آگے کے لیے روانہ ہوگئے۔ بسنترائے ہوتے ہوئے بیلڈھیہ پہنچے۔ آج کا بڑا پروگرام نرینی میں تھا، لیکن اس راستے میں آنے والے اہل مدارس نے مہمان کے اعزاز و استقبال کے لیے چھوٹا موٹا پروگرام طے کیا ہوا تھا ۔ ان کے طے کردہ پروگرام کے مطابق اسی جگہ سے ہاتھ میں جھنڈا اور زبان پر نعرہ جمعیۃ لگاتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں بائک سوار افراد استقبالیہ جذبات پیش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ یہاں سے دس کیلو میٹر پر واقع کیتھہ ٹیکر کے مدرسے میں ایک مختصر پروگرام ہوا اور دعا کے فورا بعد آگے کے لیے نکل پڑے۔ یہاں سے تین کیلو میٹر کی دوری پر واقع ایک بڑا مدرسہ ہے جامعہ حسینیہ ملکی ۔ اس کے مہتمم مولانا عبدالعزیز صاحب منتظر راہ تھے ۔ انھوں نے اپنے طلبہ و اساتذہ اور معززین شہر کے ساتھ حضرت مہمان کا استقبال کیا اور جم کر نعرہ تحسین لگائے گئے۔ یہاں سے فراغت کے بعد نرینی کے لیے قافلہ نکل پڑا ۔ یہ قافلہ جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا استقبالیوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی ، یہاں تک کہ نرینی پہنچتے پہنتے آدمیوں کا میلہ لگ گیا ۔ یہاں کا منظر ہی کچھ عجیب نظر آیا۔ گاوں کے چھپروں پر، معصوم بچوں کے ہاتھوں میں اور نوجوانان کی گاڑیوں میں ہر جگہ جمعیۃ ہی کا جھنڈا نظر آرہا تھا ۔المختصر یہاں پہنچتے ہی معززین شہر کے ساتھ ساتھ وہاں کے ودھایک بھی استقبالیہ قطار میں تھے ۔ یہاں سب سے پہلے مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے مدرسہ نورالعلوم کے نام سے ایک مدرسے کا سنگ بنیاد رکھا ، بعد ازاں مختصر تلاوت و نعت کے بعد ودھایک کی مختصر تقریر ہوئی ۔پھر مہمان مکرم کی پندرہ بیس منٹ کا خطاب ہوا ۔ پروگرام ختم ہوتے ہی قافلہ بدلو چک کے لیے نکل پڑا، جہاں حضرت صدر محترم مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم موجود تھے اور شادی کا ایک پروگرام تھا۔یہاں حضرت صدر محترم نے مولانا ابو طلحہ صاحب قاسمی کا نکاح پڑھایااور ظہرانہ تناول کرنے کے بعد حضرت صدر محترم اور سکریٹری صاحبان کے ہمراہ تقریبا بیس آدمیوں کا قافلہ مولانا داود صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ جو حضرت فدائے ملت نور اللہ مرقدہ کے مجاز بیعت تھے کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے سنہولی آیا۔ یہاں ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے جانشین فدائے ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کا مکتوب تعزیت نامہ دیا گیا اور حمدو نعت کے بعد حضرت صدر محترم کا پر مغز خطاب ہوا۔ اس میں انھوں نے روح کی حقیقت ، موت کی صداقت اور اعمال کے حسن و قبح کی بنیاد پر مردگان کے ساتھ معاملہ پر جامع و سیر حاصل کلام کیا۔ حضرت کی تقریر کے دوران شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہو جس سے آنسو نہ چھلکے ہوں اور شاید ہی کوئی ایسا دل ہو جس پر بے قراری کی کیفیت طاری نہ ہوئی ہو۔ پھر یہاں سے یہ قافلہ چمپانگر بھاگلپورپہنچا ، جہاں حضرت صدر محترم کے ساتھی حضرت مولانا ظہیر صاحب کے یہاں قیام و طعام ہوا۔اگلے دن صبح یعنی ۱۸؍ ستمبر کو وکرم شلا سے دہلی کے لیے واپسی ہوگئی ۔اس پورے سفر میں رہبری و رہنمائی کا فریضہ مولانا فرید الدین اور مولانا بہاء الدین صاحب استاذ مدرسہ تعلیم الدین گجرات نے مشترکہ طور پر انجام دیا۔ گڈا کے سفر کے دوران مفتی نظام الدین صاحب قاسمی استاذ مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد ، مفتی زاہد صاحب قاسمی استاذ جامعہ خدیجۃ الکبریٰ اور یہ ناچیز مہمان مکرم کے ہم رکاب رہا۔
ہم اہل علاقہ ان دونوں بزرگوار کے ممنون و مشکور ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ ان حضرات اکابر کا سایہ دیر ہمارے سروں پر قائم و دائم فرما اور ان کی نیک توجہات و برکات سے اہل علاقہ شاداب رہیں ، آباد رہیں ۔ اللہم آمین ۔