6 Jun 2017

دہلی کی قدیم تاریخی مساجد کی موجودہ صورت حال


محمد یاسین قاسمی انچارج شعبہ مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند،
الحمد لاھلہ والصلاۃ لاھلھا اما بعد
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، بسم اللہ الرحمان الرحیم
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہُ وَ سَعَ فِیْ خَرَابِھَا (البقرۃ، آیۃ: ۱۱۴)
ترجمہ: اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگاجو خدا تعالیٰ کی مسجدوں میں ان کا ذکر کیے جانے سے بندش کرے اور ان کے ویران ہونے میں کوشش کرے۔
مساجد شعائر اللہ ہیں، ان کا تحفظ و احترام ہمارا دینی و اسلامی فریضہ ہے۔ اسی فریضے کے پیش نظر جمعیۃ علماء ہندروز اول سے ہی کوشاں رہی ہے کہ اوقاف کے تحفظ کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل متعین کیا جائے ، چنانچہ ایک تاریخی سلسلے پر نظر ڈالیں تو خلاصہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ ۵؍ دسمبر ۱۹۲۷ء کے اجلاس عام میں تحفظ اوقاف کی تجویز منظور کی۔۱۹۳۱ء میں صوبہ سرحد کے متولیان وقف کو اس جانب متوجہ کیا کہ اس کی حفاظت کے لیے مدارس دینیہ قائم کریں۔ ۱۹۳۲ء میں اوقاف کے تحفظ اور ان کی آمدنی کے جائز تصرفات پر زور دیا۔ ۱۹۳۴ کے ۱۴،۱۵،۱۶ مارچ کوبہادر وقف بل اور بمبئی وقف بل شرعی احکام کے خلاف ہونے کی وجہ سے ان کی سخت مخالفت کی۔اسی سال ۱۸،۱۹؍ اپریل کو نگینہ بجنور میں منعقد جلسہ مجلس مشاورت جمعیۃ علماء ہند میں یوپی اسمبلی میں پیش کردہ وقف بل میں شرعی مسائل کے تناظر میں ترمیمات کے بعدایک مسودہ پیش کیا گیا۔۱۹۵۲ میں زمین داری سسٹم ختم ہونے کے بعد محمد احمد کاظمی کے بنائے وقف بل کی مکمل حمایت و تائید کی۔ پھر ۱۹۵۳ء میں اس محمد احمد کاظمی کے مسودہ وقف بل کوپارلیمنٹ میں پاس کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ ۔ ۱۹۴۶ میں ۱۵،۱۶؍ اپریل کو جمعیۃ علماء ہندنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آزادیِ ملک، آزادیِ مذہب، کلچر، زبان، رسم الخط،مذہبی تعلیم و تبلیغ، مذہبی عقائد واعمال، عبادت گاہیں اور اوقاف جیسے مسلم پرسنل لاء کو بطور فنڈا منٹل رائٹس منظور کرے۔ ۱؍تا۳؍ فروری ۱۹۵۵ء کو کلکتہ میں اٹھارواں اجلاس عام میں اور لینڈ ایکوزیشن بل کو اوقاف اورمذہبی حقوق کے خلاف ہونے کے باعث اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ۱۹۶۸ء میں اس وقت کے اوقاف کے قانون پر بے اطمینانی کا اظہار کیا اور اس قانون میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۶۹ء میں اوقاف میں مداخلت کے باعث پبلک ٹرسٹ بل مسودہ کی زبردست مخالفت کی۔ ۱۹۷۳ میں ٹیکس لاء ترمیمی بل میں مسلم خیراتی اوقاف اور تعلیمی اداروں کو متثنیٰ قرار دینے والی ترمیم کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔فروری ۱۹۷۹ ء میں کل ہند اوقاف کانفرنس کا انعقادکیا۔۱۹۸۴ میں وقف ترمیمی بل ۱۹۸۴ء میں بہت ساری دفعات مضر ہونے کی وجہ سے اس میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔ ۲۰۱۱ میں دو روزہ حج و اوقاف کانفرنس کیا اور اوقاف کے مسائل پر بحث و گفتگو کی گئی۔ اس سے قبل مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی نور اللہ مرقدہ نے اوقاف کی بحالی، درستگی اور اصلاح کے لیے قانونی اقدامات کو آگے بڑھایااور پارلیامنٹ میںآواز اٹھائی ۔ حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ نے باربار اس مسئلے کو شدت کے ساتھ آگے بڑھایا، چنانچہ ایک مرتبہ شاعر ملت جناب قاری اسحاق صاحب سہارنپوری ہریانہ، پنجاب اور ہماچل کے وقف بورڈ کے کچھ ذمہ داران کے ساتھ فدائے ملت ؒ کے پاس آئے۔ فدائے ملتؒ نے وفد کے ساتھ محکمہ فلاح و بہبود کی وزیر راجندری کماری واجبپائی سے ملاقات کی ، جنھوں نے وفد کے مطالبات کو منظور کرتے ہوئے ضروری کاروائی کی۔ اسی طرح فدائے ملتؒ نے قبضہ مخالفانہ کے قانون سے اوقاف کو مستثنیٰ قرار دینے ، اوقاف کی جائداد کو رینٹ کنٹرول ایکٹ سے مستثنیٰ کرانے ، لمیٹیشن ایکٹ (Limitation Act) کے تحت قبضہ مخالفانہ ایکٹ کی میعاد کو ۳۰؍ سال تک کرنے، کسٹوڈین اویکیوی پراپرٹی (Custodian Evacuee Property) کے قبضہ میں اوقاف کی جائدادوں کو وقف بورڈ کو منتقل کرنے اور اوقاف کے معاملات کے نپٹارے کے لیے ٹریبونل(Tribunal) قائم کرنے جیسے اہم مسائل کو لے کر اس وقت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی سے بار بار ملاقاتیں کیں۔(تفصیلات کے لیے دیکھیں: ہفت روزہ الجمعیۃجمعیۃ علماء ہند نمبر ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۹۵، مرتب مولانا سالم صاحب جامعی)۔ اور پھرامیر الہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے اوقاف کے مسائل کو حل کرانے میں گہری دل چسپی دکھائی، چنانچہ ۱۶؍ مئی ۲۰۱۵ء کومنعقد ہونے والے اپنے بتیسویں اجلاس میں تحفظ اوقاف کے تعلق سے ایک تجویز پاس کی گئی، جس پر عمل درآمد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، کمیٹی کے افراد نے خود جاجاکر دہلی کی قدیم تاریخی مساجد کا معائنہ کیا ، معائنہ میں جو کچھ سامنے آیا،وہ حوالۂ قلم کیا جارہا ہے۔
(۱)مسجد و مدرسہ : خیر المنازل
کمیٹی کے افراد نے اپنے سفر کا آغاز اکبر کی دائی کی تعمیر کردہ مسجد و مدرسہ :’’ خیر المنازل‘‘ سے کیا، جو چڑیا گھرسے پچھم میں واقع ہے۔ اس میں وقف بورڈ کی جانب سے مولانا محمد الیاس صاحب میواتی امام اور ان کے صاحب زادے جناب محمد احمد صاحب مؤذن ہیں ۔ پرائیوٹ کمپنی کی طرف سے ایک گارڈ بھی مقرر ہے ، اس کا نام سیتا رام کمارہے۔یہاں شرکائے وفد نے جماعت کے ساتھ نماز ظہر ادا کی اور نمازیوں، مؤذن صاحب اور گارڈ سے گفتگو کے دوران جو حالات اور پوائنٹس سامنے آئے ، وہ یہ تھے کہ :
(الف) اس مسجد میں صرف تین وقت: ظہر، عصر اور مغرب کی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ عشا اور فجر میں تالا لگادیا جاتا ہے۔
(ب) ماہ مقدس: رمضان جیسے مہینے میں تراویح پڑھنے کی اجازت نہیں، مجبورا گیٹ کے باہر ہی چٹائی وغیرہ بچھا کر عشا اور تراویح ادا کی جاتی ہے۔اور یہ آج کل کا نہیں؛ بلکہ ۳۷؍ سالوں سے یہی معاملہ ہے۔
(ج) بجلی کنکشن کی اجازت نہیں ہے، جس کے نتیجے میں گرمی اور اندھیرے میں ہی نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔
(د) پانی کے انتظام کے لیے ایک قدیم کنواں ہے ، جس سے پانی نکالنا جوئے شیر لانے کے مرادف ہے ، پانی کا موٹر لگانے کی اجازت نہیں ہے، جس کے باعث پانی کی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
(ہ) قدیم زمانے کا ایک حوض ہے ، لیکن نہ تو اس میں پانی بھرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اس کی صاف صفائی کرنے دی جاتی ہے ، نتیجۃ بارش وغیرہ کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہورہی ہیں اور گندگی مزید پھیل رہی ہے۔
(و)یہاں چھوٹا بڑا کسی استنجا کا انتظام نہیں ہے، جس سے نمازیوں ، گیٹ کیپر اور سیاح افراد کو بھی بہت دقت ہوتی ہے اور یہ افراد اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے آس پاس کی جگہوں پر جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
(ز)عمارت کافی بڑی ہے ، اس اعتبار سے نگرانی کے لیے کئی افراد کی ضرورت ہے ۔ مناسب تعداد میں نگراں افراد نہ ہونے کی وجہ سے کونوں اور کنارے کنارے بنے کمروں میں نئی نسل کے جوڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ جواری اور جرائم پیشہ افراد بھی اپنے مشاغل انجام دیتے ہیں۔ اور حیرت کی انتہا تو یہ ہے کہ ان کمروں میں بول و براز بھی کردیتے ہیں۔ایک کمرہ کے کنارے تو باقاعدہ بول کے لیے قدمچہ بناہوا پایا گیا ، جس سے اس کے آس پاس کے حصے کافی متعفن ہوچکے ہیں۔
(ح) عمارت کافی بوسیدہ ہوچکی ہے۔مؤذن صاحب کے بیان کے مطابق پچاس سے زائد کمرے تھے، لیکن اب ٹوٹ کر بیس سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اس لیے مرمت کی سخت ضرورت ہے۔
(ط) گیٹ مین کی مناسب تعداد نہ ہونے کی وجہ سے سیاح جوتے اور چپل پہن کر ہی مسجد میں گھس آتے ہیں اور اس کی بے حرمتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
(۲) مسجد قلعۂ کہنہ پرانا قلعہ میں جمعیۃ کے وفدسے چوکیدار کی جھڑپ ۔کیمرہ اور موبائل چھیننے کی کوشش 
یہاں کے مکمل معائنے کے بعد یہ قافلہ’’ مسجد قلعۂ کہنہ‘‘ پہنچا جوپرانے قلعہ کے اندر شیر منڈل کے شمال پرگتی میدان کی جانب میں واقع ہے ۔ وہاں کا منظر کچھ اس طرح کا تھا کہ مردچوکیدار بے خبر تمباکو کھانے میں مشغول تھا اور کچھ عمر دراز عورتیں مسجد میں چٹائی بچھا کر لیٹی ہوئی تھیں۔ گھومنے پھرنے والے لوگ بلا روک ٹوک جوتے چپل پہن کر بے حرمتی میں مصروف تھے۔ سیلفی اور ویڈیو گرافی کا کام جاری تھا۔ ان سب ناجائز اور حرام کاموں پر کوئی ٹوک نہیں تھی، لیکن جو ں ہی قافلہ کے افراد نے اپنے رومال بچھا کر مسجد میں بیٹھنے کی کوشش کی ، تولیٹی ہوئی پژمردہ بڑھیا میں بلا کی جان پیدا ہوگئی اور بڑی تیزی سے ہم تک پہنچ کر بیٹھنے سے بھی روکنے لگی اور کہا کہ یہاں نہ نماز کی اجازت ہے اور نہ ہی بیٹھنے کی ۔ حالات کو وفد میں شریک جناب رہبر صاحب کیمرے میں قید کررہے تھے کہ ایک گارڈ نے آکر ہاتھا پائی شروع کردی اور کیمرہ چھیننے کی کوشش کرنے لگے ، جس کے نتیجے میں کافی شور شرابہ ہونے لگا ۔ سربراہ وفد نے وہاں تعینات گارڈ کو بلوایا اور اس سے کہا کہ جب آپ کی ڈیوٹی ہی یہی ہے کہ آپ کسی کو مسجد میں جوتے چپل پہن کر نہ آنے دیں ، تو پھر آپ روکتے کیوں نہیں، اس کا کہنا تھا کہ سبھی لوگ یہاں اسی طرح آتے ہیں، ان کو اس طرح آنے سے منع بھی کیا جاتا ہے ، لیکن لوگ بات ہی نہیں مانتے ، ہم کیا کریں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ہم دو رکعت نماز ادا کرسکتے ہیں ، تو اس نے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے آ پ کو ہمارے آفیسر سے بات کرنی پڑے گی، اس پر جناب مولانا نیاز احمد فاروقی صاحب رکن عاملہ جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ چلو آفیسر سے ملاقات کرتے ہیں، تو وہ لے جانے سے کتراتے نظر آئے اور تعصبانہ نظریے کا عملی طور پر اظہار کیا ، جس پر مولانا موصوف نے کہا کہ: ہم نے آج دیکھ لیا کہ اور لوگوں کے ساتھ آپ لوگوں کا کیا برتاؤ ہوتا ہے اور ایک داڑھی ٹوپی والے کے ساتھ کس طرح سے پیش آتے ہو اور یہ بات آگے تک جائے گی۔ یہ سننا تھا کہ ان افراد کے چودہ طبق روشن ہوتے نظر آئے اور خاموش تماشائی بن گئے۔
اسی دوران اراکین وفد نے بیرون ملک سے آئی ایک خاتون سیاح کو جب جوتے چپل پہن کر مسجد کے اندر جاتے دیکھا تو اسے مسجد کی حرمت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے جوتے اتار کر جانے کے لیے کہا ، تو اس خاتون نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگی اور جوتا ااتار کر اندر داخل ہوئی۔راقم کا تاثر یہ ہے کہ بیرونی لوگ تو اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے ہیں لیکن اپنے ہی ملک کے لوگ غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے لڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ مسجد کے اندر کی گندگی دیکھنے کے بعد ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اس کی صاف صفائی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ظلم تو یہ ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کی طرف سے اس میں نماز پر سخت پابندی ہے ، اس میں کوئی مسلم سیاح بھی نماز نہیں پڑھ سکتا ہے لیکن غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے
یہاں پر وفد نے جو چیز یں نوٹ کیں ، وہ یہ ہیں کہ :
(الف) مسجد کی عمارتیں رفتہ رفتہ مخدوش ہوتی جارہی ہیں، مرمت کی سخت ضرورت ہے۔
(ب)سارے گندے کاموں کی اجازت ہے ۔ اگر اجازت نہیں ہے ، تو صرف نماز کی نہیں ہے۔
(ج) سیکورٹی کے افراد بھی تعصب پسند ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اوپر سے خاموش ہدایت ہے کہ کسی بھی صورت میں نماز پڑھنے نہیں دینا ہے۔
(د) سکورٹی والے سیاح اورعام لوگوں کو جوتے چپل پہن کر آنے سے منع نہیں کرتے اور بے حرمتی والے کسی بھی کام پر روک ٹوک نہیں کرتے۔ 
(۳) محمدی مسجد سری فورٹ پراچیر
یہ مسجد لودھی دور 1451-1526کی تعمیر ہے، جو ایک لمبی دیوار کے باہری حصے میں واقع ہے۔ دیوار کے تعمیری ڈھانچے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ قلعے کا باہری حصہ ہوگا ۔ وہاں لگائے گئے کتبے میں تین مساجد کا تذکرہ ہے ، جن کے نام تحفہ والا گنبد، مخدوم صاحب مسجد اور محمد والی مسجد ہیں، لیکن دیوار کے آخری حصے تک پہنچ کر ان کے جائے وقوع تلاش کرنے کی کوشش کے باوجود نہیں ملی،ابھی صرف محمدوالی مسجد ہی موجود ہے ، جس کا نام سرکاری دستاویزوں میں محمدی مسجد ہے۔
یہ مسجد انتہائی خوب صورت ہے اور ابھی صحیح سالم موجود ہے۔ جناب مولانا ہارون رشید صاحب مہتم مدرسہ امہات المومنین للبنات مہرولی کے بیان کے مطابق کچھ دنوں پہلے انھوں نے جمعہ کی نماز شروع کی تھی، لیکن اس پر شرپسندوں نے تالا لگادیا اور نماز سے روک دیا ۔ غیور مسلمانوں نے تالا توڑ کر دوبارہ نماز شروع کردی، اس پر شرپسندوں نے مقدمہ قائم کردیا اور سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرکے پولیس اور فورس کا سہارا لے کر دوبارہ مسجد کو بند کروادیا۔ اور دباو ڈلواکر کیس بھی واپس لینے پر مجبور کردیا۔
فی الحال یہ مسجد آغا خان فاونڈیشن کی زیر نگرانی ہے ، اس کے متصل واقع پارک وغیرہ کی دیکھ ریکھ کے لیے پننے لال اور محمد اقبال بارہ بنکی ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان دونوں سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا یہاں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، تو ان کا جواب تھا کہ تنہا تنہا پڑھ سکتے ہیں ،جماعت کے ساتھ نماز کی بالکل اجازت نہیں ہے۔چنانچہ اتنی ہی سہی ؛ اس اجازت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وفد نے تحیۃ المسجد کی نماز ادا کی اور آباد ہونے کے تعلق سے دعا پر آمین کی آواز بلند کی۔اس مسجد کے حوالے سے اہم پوائنٹس یہ ہیں کہ:
(الف) مسجدکو آبادکرنے اور خرد برد سے بچانے کے لیے پنج وقتہ نماز کی اجازت کی ضرورت ہے۔
(ب) اس میں باہر پارک میں پانی کا انتظام ہے ، لیکن مسجد کے احاطہ میں نہ پانی ہے اور نہ ہی بجلی۔ ان دونوں کا انتظام ضروری ہے۔
(ج) سیاحوں کی بے حرمتی سے بچانے کے لیے مسجد کے لیے مخصوص گارڈ کی ضرورت ہے۔
(۴)درویش شاہ کی مسجد، گل مہر پارک
یہ مسجد لودھی دور کی یاد گار ہے، جب وفد یہاں پہنچا تو یہ معلوم ہوا کہ یہ مسجد ہر وقت تالابند رہتی ہے۔ وہاں پر سیکورٹی پر تعینات شخص سے جب اسے کھولنے کی بات چیت کی گئی ، انھوں نے اپنی ایجنسی کے مالک سے فون پر بات کرائی ۔مسٹر اشوک(موبائل نمبر:9958062392) مالک کا کہنا تھا کہ محکمۂ آثار قدیمہ کی طرف سے اسے چوبیس گھنٹے بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں وقف بورڈ کی طرف سے ایک امام بھی مقرر ہے۔ امام مسجد جناب قاری محمد شریف(موبائل: 9811996614) سے جب بات کی گئی ، تو انھوں نے صورت حال سے آگاہ کراتے ہوئے بتایا کہ اس مسجد کے تعلق سے ایک عرضی قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین وجاہت اللہ حبیب کو دی تھی ، انھوں نے معاملہ کا جائزہ لینے کے بعد نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن قبل اس کے کہ وہاں نماز ہوتی ، ڈی ڈی اے اور حق اطلاع قانون سے اطلاع مانگی گئی، جس پر اس محکمہ نے ۲۴؍ مارچ ۲۰۰۹ کو یہ اطلاع دی کہ یہ مسجد ہے اور جو کوئی اس میں نماز پڑھنا چاہے، اسے نماز پڑھنے سے نہ روکا جائے، اس کے بعد کافی دنوں تک یہاں نماز ہوتی رہی، لیکن پھر یہ ہوا کہ ایک دن ڈی ڈی اے والے آئے اور انھوں نے کہا کہ اس مسجد کی مرمت کا کام ہونا ہے ، یہ کہہ کر انھوں نے تالا لگا دیا ۔ مرمت کا کام تو آج تک شروع نہیں ہوا، البتہ جو نماز شروع ہوئی تھی وہ رک گئی اور آج تک اس پر پابندی ہے اور پابندی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ کوئی ٹوپی کرتا والے شخص کو اس کے سایے میں بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا۔امام مسجد نے مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی اس پر کیس چل رہا ہے اورہم لوگ تین وقت کی نماز باہر ہی ادا کرتے ہیں۔نماز عصر کا وقت ہورہا تھا ، لیکن امام صاحب وہاں موجود نہ تھے ، اس لیے یہ طے کیا گیا کہ کل اس مسجد کا دوبارہ دورہ کیا جائے گا اور یہاں نماز ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس مسجد کو قناتی مسجد بھی کہاجاتا ہے۔
فیصلے کے مطابق وفد دوبارہ یہاں پہنچا اور نماز ظہر ادا کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن پہلے دن کے دورے کے نتیجے میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آج لوگ مزاحمت اور لڑائی کی نیت سے پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہیں۔ چنانچہ وفد جب مسجد کی دیوار کے سایہ میں آکر کھڑا ہوا، تو سونو نامی گارڈ نے سختی سے منع کیا کہ آپ لوگ یہاں نہیں بیٹھ سکتے ۔ اگر بیٹھنا ہی ہے ، تو پارک میں جاکر بیٹھیے۔ اس پر راقم نے کہا کہ بھائی ہم لوگ دھوپ سے آئے ہیں ، تھوڑی دیر سایہ تو لینے دو، اس پر وہاں موجود ایک حوض خاص اپارٹمنٹس ویلفیر سوسائٹی کی ممبر خاتون نے سو نمبر پر فون لگا کر پولیس کو بلا لیا ۔ پولیس نے بھی انھیں لوگوں کا ساتھ دیا اور نماز ادا کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ مجبورا وفد نے باہر ہی پارک میں نماز ادا کی ۔ قابل غور باتیں یہ ہیں کہ:
(الف) کسی ٹوپی کرتے والے کو اس کے سایہ میں بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے ، جب کہ عاشق جوڑے کی مسجد کے بنے حجرے نما جگہوں میں حرام کاری پر اف بھی نہیں کرتے۔
(ب) مسجد کافی پرانی ہوچکی ہے ، جگہ جگہ سے دیواریں مخدوش ہوچکی ہیں۔
(ج) فرقہ پرستی کی تنگ نظری کی گہری چھاپ پڑچکی ہے ، اس لیے اس کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہے۔
(۵) نیلی مسجد حوض خاص
یہ مسجد وقف بورڈ کے زیر اہتمام ہے ۔ جناب مولانا خالد صاحب امام ہیں ، ان کا موبائل نمبر : 9999134818ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کافی جدوجہد اور مسلسل کوششوں کے بعد یہ مسجد کھولی گئی ہے۔ سترہ سال تک صرف جمعہ کی نماز ہوتی رہی۔ ابھی الحمدللہ پانچوں وقت کی نماز ہورہی ہے ، لیکن غیر مسلم برابر شرارت کرتے رہتے ہیں۔ یہاں مسجد کی دائیں طرف ایک بہت بڑا پیپل کا درخت ہے ، جس پر مورتیاں رکھ دیتے ہیں اور فساد برپاکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت کوششوں کے بعد بجلی ملی ہے ، لیکن پانی کے انتظام کی اب بھی اجازت نہیں ہے۔
(۶)مخدوم شاہ مسجد ،مئے فیر حوض خاص
ایک بڑے پارک کے بیچوں بیچ یہ مسجد واقع ہے۔ عصرکے وقت وفد اس مسجد میں پہنچا ،اندر داخل ہوتے ہی گارڈ ملا، ان کا نام جگدیش ہے۔مسجد کافی گندی تھی، حالات معلوم کرتے ہوئے جب ا ن سے یہ کہاگیا کہ جولوگ جوتا چپل پہن کر مسجد آجاتے ہیں ، آپ انھیں روکتے کیوں نہیں؟ ان کا جواب تھا کہ یہ پبلک پلیس ہے ، ہم کسی کو منع نہیں کرتے ۔ اس پر جب نماز پڑھنے کی بات کی گئی ، تو ان کا کہنا تھا کہ جی جناب یہ ہمارے پیٹ کا سوال ہے ، ہم قطعی نماز پڑھنے نہیں دیں گے۔ وفد نے بھی اصرار نہیں کیا ۔ وفد کے افراد نے چاروں طرف معائنہ شروع کیا، کئی اہم چیزوں کا انکشاف ہوا، لیکن یہ دیکھ کر تو وفد کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کہ مسجد کے کنارے واقع ایک درخت کے پاس بت نصب کردیا گیا ہے اور جس کو پوجنے کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس پر جب گارڈ کو ٹوکا گیا ، تو وہ بغلیں جھانکنے لگا اور وفد کے دباو میں آکر بادل ناخواستہ اسے خود باہر پھینکا۔ صرف اتنا ہی نہیں ؛ بلکہ اس مسجد کو رہائش گاہ اور منبر کو حمام کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ وفد نے جو پوائنٹس نوٹ کیے ، وہ درج ذیل ہیں:
(الف) مسجد بہت گندی ہے صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
(ب) جگہ جگہ لکھے اللہ اور قرآنی آیتوں کو کھرچ کر مٹانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ 
(ج) عمارت کافی خستہ ہوچکی ہے ، فرش ٹوٹا پڑا ہے، پلاستر جھڑ رہے ہیں۔مرمت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
(د) مسجد کے پوربی حصے میں قبریں ہیں۔ ان کی آڑ میں بت پوجا کی کوشش کی جارہی ہے۔
(ھ) سر شام ہی گارڈ کی غیر موجودگی میں مسجد کے صحن کو کرکیٹ کا میدان بنالیاجاتاہے۔
(و) اس مسجد کی پیشانی پر اٹھارہ گول دائرے ہیں، جن میں سے بارہ میں لفظ اللہ اور چھ میں پھول بنے ہوئے ہیں، لیکن جن میں اللہ لکھا ہوا ہے ، انھیں مٹانے کی مذموم کوششیں کی گئی ہیں۔
مولانا غیور صاحب قاسمی کے بیان کے مطابق اس مسجد کے متولی مدرسہ باب العلوم جعفرآباد کے مہتمم مولانا داود صاحب ہیں۔ نا تو وقف بورڈ والے ہی اس مسجد پر کوئی توجہ دے رہے ہیں اور نہ متولی۔ حیرت کی بات ہے کہ مسجد جیسی مقدس جگہ میں ہر ناجائز کام کی تو اجازت ہے ؛ لیکن بھائی آپ سجدہ نہیں کرسکتے!!!۔
(۷) مسجد موٹھ، موٹھ ولیج ساؤتھ ایکسٹینشن پارٹ ۲۔ نئی دہلی۔ عدالت کے فیصلے کے باوجود نماز پر پابندی
یہ لب سڑک واقع ہے اور بہت بڑی مسجد ہے۔ اس کے آس پاس پاکستانی غیر مسلم شرنارتھی آباد ہیں۔ ۱۹۹۲ء سے پہلے نماز وغیرہ ہوتی تھی، لیکن ۱۹۹۲ء کے فساد کے نتیجے میں اس پر شرپسندوں نے تالا لگادیا۔ اس سے پہلے ۳؍ جولائی ۱۹۸۵ء میں مسلم سماج سدھار کمیٹی کی طرف سے کیس کیا گیا۔ ہائی کورٹ کے جج بھولا دت فرسٹ کلاس نے ۲۶؍ اگست ۱۹۸۵ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نماز کی اجازت دی، لیکن جب بھی مسلمان نماز پڑھنے آتے ہیں ، تو مقامی لوگ پتھراو شروع کردیتے ہیں اور نماز پڑھنے نہیں دیتے، جس کے نتیجے میں فی الحال مسجد بند ہے ۔ صبح گیارہ بجے سے پانچ بجے شام تک کھلی رہتی ہے۔ اس دوران سیاحوں اور مقامی افراد اس کی بے حرمتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور تعینات گارڈ کچھ بھی نہیں کہتا ۔ 
جب یہاں وفد پہنچا ، تو تقریبا چھے بج چکے تھے اور گارڈ تالا لگا کر جاچکا تھا، لیکن جب دروازے کے سوراخ سے جھانکنے کی کوشش کی گئی ، تو صحن میں غیر مسلم بچے کھیلتے کودتے نظر آئے۔ یہ بچے سیڑھیاں لگاکر دیوار پار کرتے ہیں اور پھر شام ہوتے ہی ناپاک حرکتوں میں لگ جاتے ہیں۔ 
مسجد کی وسعت اور جائے مقام کی اہمیت کی پیش نظر ضروری ہے کہ اس مسجد کو جلد از جلد واگزار کرائی جائے اور صدائے توحید بلند کی جائے۔
چوں کہ پہلے دن کے دورے میں مسجد بند پائی گئی تھی، اس لیے اگلے دن دوبارہ یہاں کا دورہ کیا گیا اور حالات کا جائزہ لیا گیا ، جس میں یہ پایا گیا کہ :
(الف) نماز شروع کرنے سے ہی اس کی صفائی ستھرائی قائم رہ سکتی ہے۔
(۲) مسجد کے اس کے مقاصد کے کاموں میں استعمال کیا جائے گا، جبھی خرد برد سے محفوظ رہ پائے گی۔
(۳) ہائی کورٹ سے اجازت کے باوجود پتھراؤ ہوتا ہے، اس لیے مذہبی اعمال کی انجام دہی کے وقت پولیس پروڈیکشن کی سخت ضروت ہے۔
(۸) بیگم پوری مسجد
بیگم پور گاوں سے ملحق مالویہ نگر میں واقع مسجد بیگم پور ہے،جب وفد یہاں پہنچا تو مسجد کی ایسی صورت حال دیکھنے کو ملی کہ جس کے بارے میں شاید کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ مسجد کے صدر دروازہ سے داخل ہوکر وفد نے جائزہ لینا شروع کیا تو یہ پایا کہ داہنی سمت محراب کو بیت الخلا بنالیا گیا ہے، اس کے تھوڑے فاصلے پر جگہ جگہ تاش کے پتے بکھریے ہوئے تھے۔وفد جب اوپری منزل پر پہنچا تو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا ، پوری بالائی منزل قضائے حاجت کا میدان بنی ہوئی تھی ، جس سے ہوش ربا تعفن پیدا ہورہا تھا۔ بدبو کا یہ عالم تھا کہ ایک منٹ ٹھہرنا بھی دشوار ہوگیا۔حوض کا معائنہ کیا گیا تو وہ کچروں اور شراب کی بوتلوں سے اٹا پڑا تھا۔ یہ سب دیکھ کر وہاں تعینات سکوریٹی گارڈ سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان چیزوں پر روک ٹوک کیوں نہیں کرتے ہو، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سب سرشام ہوتا ہے ، اس وقت میری ڈیوٹی ختم ہوجاتی ہے۔ وہاں پر موجود ایک مقامی شخص جے ویندر سے وفد نے حالات پر افسوس کا اظہار کیا تو، تو ان کا کہنا تھا کہ دن ڈھلتے ہی عیاشی و فحاشی شروع ہوجاتی ہے، جس میں پولیس والے بھی شریک ہوتے ہیں۔ مذہبی مقام کی یہ بے حرمتی دیکھ کرہمارا بھی دل بہت دکھتا ہے ، لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں۔وفد نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ مسجد میں ایک کتا بڑے اطمینان سے سورہا ہے ، جیسے اسے یہ پتہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے ، اسے یہاں سے کوئی نہیں بھگائے گا۔انسانوں کی طرح کتا بھی پیشاب و پاخانہ کرکے مسجد کو ناپاک کر رہا تھا۔ غورطلب بات یہ ہے کہ مسجد کے ٹھیک سامنے مقامی کونسلرستیش اپادھیائے کا گھر ہے، جنھیں اپنے گھر کے سامنے موجود ایک مذہبی مقام پر ہورہے غیر قانونی و غیر شرعی کام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کے کئی حصوں پر مقامی لوگوں نے قبضہ کرکے انھیں رہائش میں تبدیل کرلیا ہے۔حالات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے نشانات مٹاکر اس کی شناخت کو ختم کردیا جائے۔اسی لیے مسجد کی حفاظت اور بے حرمتی سے بچانے کے لیے کوئی معقول و غیر معقول انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ حصوں کی دیواریں اور چھت انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔ اس کی شناخت اور تحفظ کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔
(۹)مسجد کالو سرائے، حوض خاص۔ یہ مسجد پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ مسجد میں پلے خطرناک کتوں کا وفد پر حملہ
سیکڑوں سال قدیم مسجد کالوسرائے اس وقت پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ محکمۂ آثار قدیمہ کی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے مسجد پر تقریباً نصف درجن سے زائد لوگوں کے گھر آباد ہو چکے ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ یہاں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مسجد ہی نہیں ہے۔ جب ہماراوفد کالو سرائے مسجد کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کالو سرائے پہنچا تو باہر سے مسجد کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا ۔ چنانچہ معلوم کرتے کرتے ایک پتلی گلی سے ہوتے ہوئے وفد جب اندر داخل ہوا تو اسے نہایت بوسیدہ اور خستہ حالت میں مسجدکالو سرائے نظر آئی جس میں رہائش کے لئے کچھ غیر قانونی طور پر تعمیراتی کام نظر آیا۔حالانکہ کچھ سال پہلے تک یہاں اس قسم کی تعمیرات نہیں تھی لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے سبب ایسا ہوا ہے ۔مسجد کی خستہ حالی پر جمعیۃعلماء ہند کے وفدکے منہ سے بے ساختہ اللہ اکبر نکلا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جہاں ایک طرف اس میں نصف درجن لوگ آباد ہیں وہیں مسجد کے اندر ہی کچھ خطرنا ک قسم کے کتے بھی پلے ہوئے ہیں جو مسجد کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں ۔جب جمعیۃکا وفد مسجد کے قریب پہنچا تو ان کتوں نے وفد پر حملہ کر دیا۔وہاں موجود لوگوں نے کتوں کو پکڑا اور زنجیر سے باندھ دیا لیکن ان کے بھونکنے سے دہشت پیدا ہو رہی تھی ۔غور طلب ہے کہ مسجد کے احاطے میں ہی سابق ایم پی رمیشور سنگھ نے اپنا گھر بنا رکھا ہے اور اسی نے مسجد کے آس پاس لوگوں کو آباد کیا ہے ۔وفد جب مسجد کے اندر داخل ہوا تواس کی ملاقات مسجد میں رہائش پذیر روپ چندر نامی شخص سے ہوئی جس نے بتایا کہ وہ اور اس کے چار بھائی یہاں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں اوراب تک انہیں کسی نے یہاں رہنے سے نہیں روکا۔ روپ چند ر نے بتایا کہ اس سے پہلے ایک سکھ فیملی یہاں رہتی تھی جس کے سرپرست کا نام گروچرن سنگھ تھا ۔ وفد نے دیکھاکہ مسجد کے اندر روپ چندر نے فرنیچر کا کاروبار شروع کر رکھا ہے ۔ آثار قدیمہ ہونے کے باوجود مسجد کی حالت بدل دی گئی ہے لیکن اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔وفد نے جب مسجد کو اندر سے دیکھنے کا مطالبہ کیا تو روپ چندر نے اندر نہیں جانے دیا۔علاقائی لوگوں سے وفد نے اس علاقے میں ہوئے تعمیراتی کام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہاں جتنے بھی تعمیراتی کام ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر تین سے چار سال کے درمیان ہوئے ہیں۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت اور محکمۂ آثار قدیمہ نے وقت رہتے اقدامات نہیں کیے تو اس مسجد کا وجود پوری طرح سے ختم ہو جائے گا۔
اس کی شناخت ایک مسجد کے طور پر صرف اس کی پتھریلی دیوار سے ہوتی ہے، باقی کوئی علامت ایسی باقی نہیں بچی ہے، جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ کبھی یہاں نماز روزہ کیا جاتا تھا؛ علاوہ ازیں
(۱) محراب کو گھرکے دورازے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
(۲) استنجا خانہ مسجد کے اندرونی حصے میں تعمیرہے۔
(۳)مسجد کے دوسرے حصے کو لکڑیاں اور کوڑا کرکٹ رکھنے کا گودام بنالیا ہے۔
(۴)مسجد کے ایک دوسرے راستے کو کتوں کے’’کُھڑرا‘‘ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ 
(۵) کچھ ایسے حصے بھی ہیں، جہاں چھت نہیں ہیں، تاہم وہ بھی انھیں لوگوں کے استعمال میں ہیں۔
مختصر یہ کہ پوری مسجد قبضے میں آچکی ہے ، جووقف بورڈ اور مسلمانوں کی غیرت ایمانی پر ایک سوالیہ نشان ہے!!!۔
(۱۰)رضیہ سلطانہ مسجد، مہرولی
اس مسجد کے احاطے میں راجاؤں کی باولی موجود ہے ۔ منبرو محراب صحیح سالم حالت میں ہیں۔ دیواروں پر عجیب و غریب فن کاری کے نقشے اور قرآنی آیات تحریر ہیں۔ یہاں پہنچنے پر وفد نے پایا کہ :
(الف) لوگ مسجد کے اندرونی حصے میں تاش کھیل رہے ہیں۔
(ب) جواری، شرابی سوئے پڑے ہیں۔
(د) تقریبا پندرہ بیس سال پہلے اس میں آگ لگ گئی تھی، جس کے بنا پر کالی کالی ہوگئی ہے۔
(ہ)فقہا وغیرہ کی کندہ عربی عبارتوں کو رگڑ کر مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔
بنارس کے رہنے والے بہادر سنگھ واچ مین ہے ۔ ان کو ہدایت ہے کہ مذکورہ بالا کسی کام پر منع کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن چوکنا رہنا کہ کہیں کوئی خالق حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ نہ کرلے۔ 
(۱۱)جمالی کمالی مسجد مہرولی۔یہ مسجد ساجدین کی راہ تک رہی ہے
جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے قدیم اور تاریخی مسجد جمالی کمالی کا دورہ کیا ۔ اس مسجد کی تعمیر شیخ فضل اللہ عرف جلال خاں نے ۹۳۵ ؁ھ مطابق ۱۵۲۸ ؁ء میں کرائی تھی جو اپنی آرائش و زیبائش ،شان و شوکت، لطافت و نفاست کے لحاظ سے فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہے ۔جمعیۃ کے وفدنے مسجد کا جائزہ لینا شروع کیا تو مسجد میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے مسجد کا تقدس پامال ہو رہا ہو۔مسجد میں صفائی ستھرائی کے نظام سے جمعیۃ علماء ہند کا وفد مطمئن نظر آیا ۔ وفدنے مسجد میں نماز ادا کرنی چاہی تو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے تعینات چوکیدار نے نماز ادا کرنے سے روک دیا ۔ چوکیدار نے کہا کہ آپ اس مسجد کا جائزہ تو لے سکتے ہیں لیکن نماز نہیں ادا کر سکتے ۔وہاں پر موجود ایک سیاح نے بتایا کہ جب میں یہاں آیا تو نماز کا وقت ہو گیا تھا اور میں نے چاہا کہ نماز ادا کروں تومجھے یہ کہ کر روک دیا گیا کہ یہاں نماز ادا کرنا ممنوع ہے ۔ یہ یقیناًمحکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے مساجداور مسلمانوں پر ایک ظلم اور زیادتی ہے اور افسوس کی بات ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی زیادتی کی بنا پر نہ صرف جمالی کمالی مسجد بلکہ اس جیسی دیگر تاریخی اور قدیمی مساجد غیر آباد ہیں اور ساجدین کی منتظرہیں۔
اس مسجد کے ارد گرد بہت بڑی جگہ ہے ، جو تقریبا ویران اور خراب ہے ۔ پچھلے سال کچھ غیور مسلمانوں نے قانونی کارروائی کے بغیر کھول کر نماز پڑھنے کی کوشش کی، لیکن گورنمنٹ نے اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر اسے قفل بند کردیا ۔ ابھی اس میں نماز اذان کچھ بھی نہیں ہوتی۔ یہ مسجد مسلمانوں کے غیرت ایمانی کو للکار رہی ہے اور پکار رہی ہے کہ ہے کوئی ! جو مجھے آباد کرے اور ماضی کی طرح ذکر اللہ اور تذکرۂ رسول اللہ کی انجمن آراستہ کرے، ہے کوئی ، ارے بھائی ہے کوئی!!!۔
(۱۲) ماضی مسجد مہرولی
جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے مسجد جمالی کمالی سے نصف کلومیٹر جنوب میں واقع ماضی مسجد المعروف بہ جناتی مسجد کا دورہ کیا۔مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مقرر کردہ چوکیدار موجود تھا ۔ وفدنے اس سے دریافت کیا کہ یہاں نماز ہوتی ہے تو اس چوکیدار نے جواب دیا کہ یہاں محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے نماز ادا کرنے کی پابندی ہے ۔ جمعیۃ کے وفدنے مسجد کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا شروع کیا تودیکھا کہ مسجد کی ایک مینار محکمہ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب اپنا وجود کھو چکی ہے ۔ جمعیۃ علماء ضلع مہرولی کے سکریٹری مولانا ہارون رشید قاسمی نے بتایا کہ کچھ برس پہلے جب وہ اس مسجد کا دورہ کرنے آئے تھے تو یہ مینار خستہ حالت میں موجود تھی اگر اس وقت محکمہ آثار قدیمہ اس کی جانب ذرا سی بھی توجہ دیتا تو شاید اس مینار کا وجود باقی رہ سکتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اس مسجد میں پہلے عیدین کی نماز ہوتی تھیں لیکن اب وہ بھی نہیں ہوتی ۔نمازیوں سے مسجد آباد نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ گندی اور مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ صحن کے تہہ خانہ میں کوڑا کباڑ اور شراب کی بوتلیں ملیں۔ سیاح بے روک ٹوک جوتے چپل پہن کر ہی گھومتے پھرتے ہیں۔ راجیش کمار نامی گارڈ تعینات ہے ، لیکن یہ کسی کو بھی مسجد کی بے حرمتی سے منع نہیں کرتا، لیکن نماز سے ضرور روکتا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیے کہ اس نے تحفظ کے نام پرجو نماز کی پابندی عائد کر رکھی ہے، اسے ختم کرکے فوری طور پر مسجد مسلمانوں کو حوالے کرے۔
(۱۳)افسر نامہ گنبد والی مسجد، ہمایوں کا مقبرہ بستی حضرت نظام الدین
یہ مسجد ۱۵۶۶ء کی یادگار ہے ۔یہاں حفاظتی بندوبست پر مامور راجپال سے گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں صرف جمعہ کی نماز ہوتی ہے کسی اور نماز کی اجازت نہیں ہے۔ پوائنٹس کی باتیں درج ذیل ہیں:
(الف) عمارت کافی بوسیدہ ہوچکی ہے۔ مرمت کی سخت ضرورت ہے۔
(ب)اس کی بائیں جانب مقبرہ ہے، جس کا گارڈ اپنی ڈیوٹی سے غافل سویا ہوا ملا۔
(ج) مسجد کے پارک کی چہاردیواری کے اندر ناجائز جوڑے عشق فرمائی میں مصروف نظر آئے۔
(۱۴)عیسیٰ خان کا مقبرہ والی مسجد، ہمایوں کا مقبرہ بستی حضرت نظام الدین محکمہ آثار قدیمہ کی پابندی سے مسجدویران
وفد نے ہمایوں کے مقبرہ سے متصل مسجد عیسیٰ خاں کا دورہ کیا ۔ اس مسجد کی تعمیر عیسیٰ خاں نے ۹۵۴ ؁ھ مطابق ۱۵۴۷ ؁ء میں کرائی تھی ۔ اس مسجد میں بھی محکمہ آثار قدیمہ نے تحفظ کے نام پر نمازادا کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے ۔ مسجد کی حالت بیحد خستہ ہے ۔ مسجد کے باہر ایک کنواں ہے جس میں گندگی بھری پڑی ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ وہ کھلا ہے اور ایک بڑے حادثہ کو دعوت دے رہا ہے۔ اسی سے متصل عیسیٰ خان کی قبر ہے عیسیٰ خان شیر شاہ سوری کے کورٹ کا آدمی تھا، جن کے لیے زندگی میں ہی یہ مقبرہ اور مسجد تعمیر کرادی گئی تھی۔ تاریخ تعمیر ۱۵۴۷ ء ہے۔مسجد کے لیے کوئی گارڈ نہیں ہے؛ البتہ مقبرہ پر جتیندر یادونامی آدمی مقرر ہے۔ وفد نے دوگانہ نماز ادا کی۔یہ مسجد 
(الف) غیر آباد ہے۔ نماز پر پابندی ہے۔
(ب) مسجد انتہائی خوب صورت ہے، تاہم زمانے کے خرد برد کی شکار ہورہی ہے۔
(ج) صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
(د) اس کے لیے مخصوص سکورٹی فرد نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں اور گھومنے پھرنے والوں کی بے حرمتی کی شکار ہورہی ہے۔
(۱۵) مسجد عرب سرا جمعہ کی اجازت اور پنجہ وقت کی عدم اجازت کی وجہ پوچھ رہی ہے
وفد نے مقبرہ سے متصل ایک اور مسجد عرب سرا کا دورہ کیا۔ یہ مسجد بھی محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی ہے ۔اس مسجد کی بھی حالت بہتر نہیں ہے ۔ مسجد کی حفاظت کے لئے تعینات چوکیدار نے بتایا کہ یہاں صرف نماز جمعہ ہوتی ہے، نماز پنج گانہ کی اجازت نہیں ہے ۔وفد کوبیحد تعجب ہوا کہ مقبرہ سے متصل ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت تو ہے لیکن دوسری میں اجازت نہیں ہے یہ بھی تعجب خیز بات ہے کہ جب مسجد عرب سرا میں نماز جمعہ ہو سکتی ہے تونماز پنج گانہ کیوں نہیں ہوسکتی ۔ نمازیوں سے آباد نہ ہونے کہ وجہ سے عمارت مخدوش ہوتی جارہی ہے ، فوری توجہ کی سخت ضرورت ہے۔
(۱۶) مدرسہ صفدر جنگ 
یہاں نواب شجاع الدولہ نے اپنے والد محترم مرزامقیم عبدالمنصور خاں کی یاد میں بہت بڑی عمارت تعمیر کرائی تھی، جو آج کل تماشا گاہ عالم بنی ہوئی ہے۔ اسی کے احاطے میں پوربی دروازے سے متصل اوپری منزل پر ایک پرشکوہ مسجد ہے ۔وہاں موجود افراد سے گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ :
(الف) اس میں صرف جمعہ کی نماز کی اجازت ہے۔ اسی دن کھولی جاتی ہے باقی دنوں میں اسے دیکھنے پر بھی پابندی ہے۔
(ب) پوربی مین گیٹ بند کردیا گیا ہے، جمعہ کے نمازی چھوٹے دروازے سے ہی آمدو رفت کرپاتے ہیں۔
(ج) اس پر پنجوقتہ نماز کی اجازت کے لیے مقدمہ چل رہا ہے۔ مولانا نقش بندی صاحب اس کے امام ہیں۔ 
(د) مقبرہ صفدر جنگ میں سیاحت کے نام پرتمام غیر اخلاقی حرکتیں جاری ہیں، ان پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔
(ھ)مسجد کے باہر غیر قانونی طور پر مند ر تعمیر کیا گیا ہے اور محکمہ آثار قدیمہ خاموش ہے ۔
(۱۷) شیخ یوسف قتال کا مقبرہ و مسجد، مالویہ نگر
محکمۂ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب قدیم اور نایاب مساجد کا وجود خطرے میں ہے ۔ مساجد میں نماز پڑھنے پر تو پابندی عائد کر دی گئی ہے؛ لیکن دیگر غیر قانونی اور غیر شرعی امور محکمۂ آثار قدیمہ اور حکومت کو نظر نہیں آرہے ہیں۔ایسا ہی کچھ منظر جمعیۃ علماء ہند کے وفد کو کھڑکی گاؤں مالویہ نگر میں واقع مقبرہ و مسجدشیخ یوسف قتال میں دیکھنے کو ملا۔ وفدجب مسجد شیخ یوسف قتال پہنچا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ مسجد اور مقبرہ کے احاطے میں باقاعدہ طور پر ایک چھوٹا سا مندر بن چکا ہے، جس پر پھول وغیرہ چڑھائے گئے ہیں۔مسجد کے اندر مندر دیکھ کر وفد کا دل بیٹھ گیااورسا تھ ہی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جب لوگ مسجد کے باہر قبضہ کرنے کے لیے مندر بنالیتے ہیں تو اندر بھی قبضہ کرنا کیا مشکل ہے ۔ جائزہ کے دوران پایا گیا کہ ہر جگہ شراب کی بوتلیں نظر آرہی تھیں۔جب یہ وفد مسجد کے اندر داخل ہوا تو اندر سے چرس گانجے کی بدبو آرہی تھی کہ جیسے کوئی تھوڑی دیر پہلے یہاں پی کے گیا ہو۔ مسجد کے چاروں کونوں کو پان مسالے کی پیک سے رنگین کر دیا گیاتھا اور مسجدکے قریب میں ہی لوگوں نے پیشاب پاخانہ کر رکھا تھا جس کے تعفن سے وہاں ایک لمحہ بھی ٹھہرنا دشوار ہو رہا تھا ۔ وفد نے دیکھاکہ مسجد کی حفاظت کے لئے محکمۂ آثار قدیمہ کی طرف سے کوئی چوکیدار مقرر نہیں کیا گیا۔ اس مسجد میں وقف بورڈ کی جانب سے مولانا محمد الیاس کو امام مقرر کیا گیا تھا لیکن انہیںیہاں نماز پڑھنے او رپڑھانے کی اجازت نہیں ہے ۔ گو کہ مسجد میں تمام غیر شرعی اور غیر قانونی کام تو انجام دیئے جا سکتے ہیں لیکن نمازنہیں پڑھی جا سکتی ۔مسجدکی زمین پر قرب وجوار کے لوگوں نے قبضہ کر رکھاہے ۔ و اضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیر ۹۰۳ ؁ھ مطابق ۱۴۹۷ ؁ء میں بعہد سلطان سکندر شاہ بن سلطان بہلول لودھی ہو ئی ہے اور اس مسجد کو حضرت فرید شکرگنج کے نواسے شیخ علاء الدین نے بنوایاتھا ۔ حضرت شیخ یوسف قتال حضرت قاضی جلال الدین لاہوری کے مرید خاص اور صاحب نسبت بزرگوں میں سے تھے۔ 
(۱۸) ۸۲ گنبد اور ۱۰۰۰ ستون والی مسجد کھڑکی گاؤں بے توجہی کا شکار
مساجد کے تئیں حکومت اور محکمۂ آثار قدیمہ کی بے توجہی ہندوستان کی تاریخی اور غیر معمولی اہمیت کی حامل مساجد کے وجود کو ختم کرنے پر آمادہ ہے ۔ ان مساجد میں سے ایک ساکیت روڈ سے ملحق کھڑکی گاؤں میں واقع ۸۲گنبد اور ۱۰۰۰ ستون والی مسجد کھڑکی گاؤں ہے جو عہد فیروزشاہی کی نشانی اور استحکام و مضبوطی میں لاثانی ہے ۔جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے دیکھا کہ مسجد کی اطراف میں لوگوں نے قبضہ کر رکھاہے اور مسجد کی چہاردیواری سے سٹا کر اپنے گھر تعمیرکرلیے ہیں جب کہ آثار قدیمہ کی کسی بھی عمارت کے سو میٹر کے دائرے میں کوئی تعمیراتی کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔ مسجد کے باہر ہی ایک مندر بنا ہوا ہے جس میں قدیم مندر لکھا ہوا ہے ۔ جب وفد نے مسجد کے قریب رہنے والے قاضی عبدالباسط سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ مسجد کے باہر جو مندرہے اس کی تعمیر ابھی تین چار سال پہلے ہی ہوئی ہے اس سے پہلے یہاں ایک مورتی رکھ دی گئی تھی اور دیکھتے دیکھتے یہاں مکمل مندر کھڑا ہو گیا۔ عبدا لباسط نے بتایا کہ مسجد کے اندر شرابیوں،جواریوں ،اور چرسیوں کی محفلیں سجتی ہیں ،چوکیدار بھی اس میں شامل رہتا ہے ۔ عبدالباسط نے بتایاکہ یہاں تقریباً بیس سال پہلے بہار سے ایک جماعت آئی تھی جس نے یہاں نماز قائم کی تھی لیکن حوض رانی والوں نے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے مسجد میں نماز بند ہو گئی اور اس کے بعد نماز پڑھنے کی کوشش کی گئی تو محکمہ آثار قدیمہ نے نماز پر روک لگا دی۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ یہاں نماز پڑھنا چاہتے ہیں لیکن نماز پڑھنے نہیں دی جاتی ۔قاضی عبدالباسط نے مسجد کی خصوصیت بتاتے ہوئے کہا کہ اس مسجد کی محراب میں کھڑے ہو کر جب نماز پڑھی جاتی تھی تواس کی آواز پورے بیاسی گنبدوں تک صاف سنائی دیتی تھی ۔مسجدمیں آئے ایک اور علاقائی شخص نے بتایا کہ اس مسجد میں تقریبا سات سال پہلے مرمت کا کام شروع ہوا تھا لیکن وہ بند کر دیا گیا ۔ تب سے آج تک نہ تو یہاں ہم نے صاف صفائی دیکھی اور نہ ہی مرمت کا کام۔جب یہ وفد مسجد میں داخل ہوا تو مسجد کے اندر کتے سو رہے تھے۔ مسجد میں بیحد گندگی تھی جیسے سالوں سے یہاں صفائی نہ کی گئی ہو ۔ واضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیر ۷۸۹ ؁ھ مطابق ۱۳۸۷ ؁ء میں اعظم خان جہاں جونانشہ نے کرائی تھی جو چونے اور پتھروں کی بنی ہوئی ہے ۔مسجدکھڑکی کی نمایا ں خصوصیت یہ ہے کہ یہ جتنی لمبی ہے اتنی ہی چوڑی بھی ہے ۔ اب یہ مسجد نہایت ہی مخدوش حالت میں ہے مشرقی دروازہ کے شمال میں چھت شہید ہو گئی ہے اور اس حصے کے نو گنبدوں میں سے پانچ گنبد بھی شہید ہو گئے ہیں اور چار گنبد نیم شکستہ حالت میں ہیں۔وفداس عالیشان مسجد کی ایسی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا اور اپنے ضمیر سے سوال کیا کہ کیا اسی طرح مسجد کا تحفظ کیا جاتا ہے کہ مسجد میں نماز کی پابندی لگا دی جائے اور نہ تو اس کی صاف صفائی پہ دھیان دیا جائے اور نہ ہی اس کی مرمت پر ۔ مسجد کے اندراور باہر غیر قانونی اورغیر شرعی امور انجام دیے جا رہے ہیں اور حکومت و محکمۂ آثار قدیمہ ان سب باتوں سے بے خبر ہے ۔ مسجد کی حفاظت کے لئے سیکورٹی گارڈ اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے نہیں بجالاتا اور وہ غیر حاضر رہتا ہے ، علاوہ ازیں:
(الف) پوری مسجد پرندوں اور جانوروں کی گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہے۔
(ب)جگہ جگہ گانجہ، چرس اور افیم کی تھیلیاں پڑی ہوئی ہیں۔
(ج) مسجد میں بنے کچھ کمروں پرقبضہ کرلیا گیا ہے، جب کہ دوسرے کچھ کمرے بول وبراز کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کچھ کمروں کو کوڑا گھر بنالیا گیا ہے۔
(د) شرافت سے گری ہوئی حرکتوں کے لیے بھی اس مسجد کو اڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
(ہ) شام ہوتے ہی ناجائز عناصر کی پناہ گاہ بن جاتی ہے۔
(و) وفد کو وہاں کوئی گارڈ تعینات نہیں ملا۔
حالات کے مطابق اگر فی الفور اس مسجد پر کوئی توجہ اور قانونی کارروائی نہیں کی گئی ،تو جس طرح راستے میں مندر بنادیا گیا ہے، اس سے یہ خدشہ بیجا نہیں ہے کہ کہیں اس کا حال بابری مسجد جیسا نہ ہوجائے ۔ 
(۱۹) شاہ عالم کا مقبرہ والی مسجد ، وزیرآباد
یہاں فیروز شاہ تغلق نے ۱۳۸۸۔۱۳۵۱ء میں ایک پل تعمیر کرایا تھا ، اسی پل سے متصل بائیں جناب شاہ عالم کا مقبرہ اور ایک مسجد ہے۔ سیکورٹی گارڈ کا نام نظام الدین ہے۔ اب تک کے دورے میں یہ پہلا مسلمان گارڈ ملا۔ ان کے بیان کے مطابق ۱۹۸۱ء میں مسلمانوں نے نماز پڑھنے کی کوشش کی، تو شرپسند عناصر اپنے مذہبی جھنڈوں کو لے کر ہنگامہ کرتے ہوئے مسجد کی چھت اور گنبد پر چڑھ گئے اور مسلمان بھی نماز کی ادائیگی پر بضد ہوگئے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ پولیس نے اپنی کارروئی کرتے ہوئے پہلے ہندووں کو نیچے اتارا اور مسلمانوں کو کہا کہ آج وضو کرکے نماز پڑھ لو اور یہاں سے نکل جاؤ ۔آئندہ پھر کبھی ادھر نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا۔ اس دن سے لے کر آج تک یہ مسجد تالا بند ہے۔نظام الدین صاحب کے بیان کے مطابق حالیہ کچھ سالوں پہلے مصطفی آباد کے مسلمانوں نے اشتہار چھپوا کر نماز جمعہ ادا کرنے کی کوشش کی، لیکن میرے سمجھانے پر وہ لوگ باز آگئے اور حالات خراب نہیں ہوئے۔ نیک مشورہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے آباد کرنے کی فکر کو لے کر کئی لوگ آئے ، سب کو جو مشورہ میں نے دیا وہی مشورہ میں آپ لوگوں کو دینا چاہتا ہوں کہ جب بھی ہاتھ ڈالیں، تو مضبوط ہاتھ ڈالیں ، اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا ۔ نظام الدین بھائی نے اپنا موبائل نمبر : 9560740503دیتے ہوئے کہا کہ ہماری دلی تمنا ہے کہ یہ مسجد آباد ہو اور پھر اس کی بہاریں لوٹ آئیں، جس کے لیے بندہ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار رہے گا۔ مشاہدے سے جو چیزیں نوٹ کرنے کی قابل نظر آئیں ، وہ درج ذیل ہیں:
(الف) مسلمان گارڈ ہونے کی وجہ سے مسجد میں صفائی ستھرائی ہے، لہذا ہر مسجد میں مسجد کا احترام جاننے والا مسلمان گارڈ ہی ہوناچاہیے۔
(ب)مسجد لب سڑک ہے۔ اگر نماز کی اجازت ہوجائے گی تو علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسافروں کے لیے بھی آسانی ہوگی۔
(ج) گارڈ کے تجربے کے مطابق کوئی بھی مسجد صرف قانونی کارروائی ہی کے ذریعے آباد کرائی جاسکتی ہے۔
(د) گارڈ نے مسجد میں غیر شرعی عمل کو روکنے کے لیے پولیس میں بھی اپلی کیشن دے رکھا ہے۔
(ہ) مرمت کا کام انتہائی سست ہے، جس کے باعث مسجد کے اندرونی حصے میں رکھے کنسٹرکشن کے سامان بھی مرمت کے محتاج ہوگئے ہیں۔
(۲۰) سلطان غاری مسجد، مہی پال پور وسنت کنج دہلی
اس مسجد کے چاروں طرف وسیع و عریض میدان ہے ۔ آبادی یہاں سے کافی دور ہے۔ کافی بڑی مسجد ہے۔ پرتاپ سنگھ واچ مین کا نام ہے۔ اس کے امام مولانا نصرالدین امینی ہیں، جو وقف بورڈ کی جانب سے ۱۹۹۷ سے تنخواہ یاب امام ہیں۔جمیلہ خاتون نام کی ایک خاتون بھی یہاں آتی جاتی ہے، جو مسجد کو صاف صفائی کرتی ہے۔ یہ مسجد شمس الدین التمش کی تعمیر ہے ۔ اس کے صحن میں التمش کے بیٹے سلطان ناصر الدین محمود کا مقبرہ ہے ۔یہاں پہنچنے پر درج ذیل حالات معلوم ہوئے:
(الف) واچ مین کا کہنا ہے کہ یہاں نماز پر پابندی ہے۔ باقی سب حرکتیں کرسکتے ہیں۔
(ب) مقبرہ کی دیوار پر ہندوانہ علامت بنائی ہوئی ملی اور اندر قبر کے پاس شیو لنک کا پتھر ملا، ان چیزوں پر واچ مین کو ٹوکنے پر ان کا کہنا تھا کہ یہاں ہر مذہب اور فرقے کے لوگ عقیدت کی بنیاد پر آتے ہیں، اسی لیے ہم کسی کو منع نہیں کرتے، اس پر جب یہ پوچھا گیا کہ پھر نماز کی کیوں اجازت نہیں ہے، تو بد تمیزی پر اتر آیا اور کہا کہ یہاں کتنے آئے اور چلے گئے ، آپ لوگ کیا کرلیں گے وغیرہ وغیرہ۔
واضح ہو کہ یہاں کی قبروں کی پوجا بریلوی طرز کے بجائے ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق کی جارہی ہے، جس سے وفد کا یہ ماننا ہے کہ یہ اس مقبرے اور مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی تدریجی کوشش کا ایک حصہ ہے۔
(ج) امام صاحب کے بیان کے مطابق تین وقتوں کی نماز کی اجازت ہے، لیکن جب ہم نماز پڑھانے گئے ، تو پولیس نے ہمیں روک دیا۔ حتیٰ کہ جمعہ کی نماز بھی ادا کرنے نہیں دی جارہی ہے ۔
(د) امام صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم چٹائی وغیرہ رکھتے ہیں، تو وہاں موجود واچ مین غائب کروا دیتا ہے۔ حتی کہ پانی کی صراحی تک پھینک دیتا ہے۔
(ہ) اس میں داخل ہونے کے لیے پانچ روپیے کا ٹکٹ لگتا ہے، لیکن جمعرات کو ٹکٹ نہیں لگتا ۔اس دن کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ اور قبر کے اندر جانے کے لیے نذرانہ دینا ضروری ہے۔ یہ نذرانہ واچ مین اصول کرتا ہے۔ ایک جمعرات کا نذرانہ تقریبا چھ سات ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسجد میں کسی کو آنے دینا نہیں چاہتا تاکہ اس کا دھندہ کہیں ختم نہ ہوجائے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نذرانہ کی کچھ رقم محکمہ آثار قدیمہ کے افسران تک بھی جاتی ہے، جس کی وجہ سے گارڈ کے حوصلے اتنے بلند ہیں۔امام صاحب کا کہنا ہے کہ واچ مین غیر مسلموں سے تو ٹکٹ نہیں مانگتا ، لیکن مسلمانوں کو بغیر ٹکٹ کے اور کبھی کبھار مجھے بھی بغیر ٹکٹ کے اندر داخل ہونے نہیں دیتا، حالاں کہ میں اسی مسجد کا امام ہوں۔ جمعرات کو لگنے والے زائرین کی بھیڑ اور ان لوگوں کے غیر اسلامی رسوم کا جائزہ یہی اشارہ دیتا ہے کہ عبادت کے بجائے پوجا کا طریقہ رائج کرکے اسے مندر بنانے کی مہم جاری ہے۔
مزید کسی بھی معلومات کے لیے امام صاحب نے اپنا نمبر دیا نمبر ہے: 9999048492

(۲۱) مسجد۔۔۔
مسجد سالار غاری سے تھوڑے فاصلے پر پورب کی جانب جھاڑی میں ایک اور مسجد ہے، جس کی صرف دیواریں باقی رہ گئی ہیں اور وہ بھی آدھی ادھوری ہی بچی ہیں۔ وہاں لگا بورڈ سے صرف اتنا پتہ چل پایا کہ یہ مسجد فیروز شاہ تغلق کی تعمیر ہے، جو ۸۸۔۱۳۵۱ء مین بنائی گئی ہے۔ اس کی دیوار سے متصل بیت الخلا کے قدمچے بنے ہوئے ملے اور جگہ جگہ گندگی کے انبار نظر آئے۔ اس کے لیے کوئی گارڈ متعین نہیں ہے اور نہ ہی حفاظت کے لیے کوئی اور انتظام کیا گیا ہے۔
ان دونوں مسجدوں کے اطراف کی لمبی چوڑی زمینوں پر آہستہ آہستہ قبضہ کیا جارہا ہے۔ اور مسجد کے راستے میں ایک بہت بڑے حصے پر گاو شالہ بنالیا گیا ہے۔
(۲۲) تین برجی مسجد محمد پور دہلی
یہ بہت بڑی مسجد ہے۔ اس کے چاروں طرف بڑی بڑی عمارتیں بنالی گئی ہیں، یہاں تک کہ مسجد کی دیوارکو ہی لوگوں نے اپنے مکان کا حصہ بنالیا ہے، جو کہ محکمہ آثار قدیمہ کے قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔یہ مسجد لودھی عہد ۱۵۲۶۔۱۴۵۱ء کی یادگار ہے۔اس میں لگے کتبے پر یہ وضاحت ہے کہ یہ دراصل قبر ہے ، لیکن اس کی بناوٹ سے لگتا ہے کہ یہ مسجد کے مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہوگا۔ لیکن وفد کا ماننا ہے کہ یہ مسجد ہی ہے، کیوں کہ اس کی درودیوار مسجد کی خصوصیات کا ہی اعلان کرتی نظر آتی ہے۔ وفد کا جائزہ کہتا ہے کہ :
(الف) اس میں نقلی قبریں بنوادی گئی ہیں، اور نقلیت کی شہادت خود ان کی جدید تعمیر ہے۔اور یہ اس مسجد کی شناخت کو مٹانے کی مذموم کوشش کا حصہ ہے۔
(ب) مسجد کے گیٹ پر ہمہ وقت تالا لگا رہتا ہے۔
(ج) وہاں پر موجود بگڑے قسم کے نوجوان سے پوچھ گچھ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہاں ایک سکورٹی گارڈ بھی تعینات ہے، لیکن فی الحال گاؤں گیا ہوا ہے۔
(د)جگہ جگہ مسجد کی دیواروں پر پمفلیٹ اور پوسٹر لگے ہوئے ہیں جو کہ آثار قدیمہ کے قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔مسجد کے قریب رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ شام کو نشہ کرنے والے مسجد میں دروازہ پھاند کر داخل ہو جاتے ہیں اور شراب و دیگر نشہ کرتے ہیں۔
(۲۳) محمد پور اندر گلی کی ایک مکمل مقبوضہ مسجد
وفد کے مقامی رہبر مولانا نصرالدین امینی صاحب نے بتایا کہ کچھ عمارتیں آبادی کے اندر بھی ہیں۔ چنانچہ ان کی رہ نمائی میں وفد انھیں دیکھنے کے لیے گیا۔ تنگ اور پتلی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک جگہ پر پہنچے جہاں صرف گنبد کا ہی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ اس کے چاروں طرف بڑے بڑے مکانات تعمیر ہوچکے ہیں۔ حتی کہ راستہ بھی اتنا تنگ ہوگیا ہے کہ بمشکل تمام صرف ایک آدمی ہی آواگون کرسکتا ہے۔ وفد نے دیکھا کہ یہاں محکمہ آثار قدیمہ کا بورڈ لگا ہوا ہے ، جس میں اس کا قانون درج ہے کہ اس کے اطراف میں دو سو میٹر تک کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے باوجود معاملہ یہ ہے کہ دو گز زمین بھی راستہ تک کے لیے باقی نہیں رکھی گئی ہے۔ اس کے ہر چہار سو غیر مسلم کی آبادی ہے۔ مقامی لوگ اسلامی شان و وضع کے افراد کو دیکھ کرگھبراہٹ کے شکار نظر آئے اور انھیں خدشہ ہوا کہ ہم لوگ قبضہ کی غرض سے آئے ہیں، اس لیے ہمیں دیکھ کر انھوں نے گالم گلوچ اور نازیبا الفاظ کہے۔ اور جتنی بری سے بری باتیں ہوسکتی تھیں، سب سناڈالا؛ حتی کہ یہ بھی کہا کہ اگر تم لوگ یہاں سے نہیں گئے تو تمہاری لاشیں یہاں سے جائیں گی. لیکن قائد وفد کی ہدایت پر کسی نے بھی جواب دینا مصلحت کے خلاف جانا اور خاموشی کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کی مکی زندگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔
(۲۴)شاہی مسجدقدسیہ باغ، نزد کشمیری گیٹ بس اڈہ
مسجد کی تعمیر نماز پڑھنے کے لیے ہوتی ہے اس لیے اگر یہاں کوئی نماز پڑھتا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ قائم کرنا غلط ہے ۔یہاں کے امام مولانا سید شکیل صاحب ہیں، ان کی عدم موجودگی میں نائب امام سے ملاقات ہوئی انھوں نے بتایا کہ ابھی اس میں پانچوں وقتوں کی نماز ہورہی ہے ، لیکن محکمہ نے نماز پر پابندی لگانے کے لیے مقدمہ کردیا ہے ،قدسیہ باغ مسجد پر چل رہے مقدمہ کو غلط قرار دیتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ کو جن کے خلاف مقدمہ کرنا چاہئے ان کے تئیں خاموش ہے اور جن کو تحفظ دینا چاہئے ان کے خلاف مقدمہ بازی کر رہا ہے ۔یہاں جس وقت وفد پہنچا ، اس وقت مسجد میں محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے صفائی ستھرائی کا کام جاری تھا ۔جمعیۃ کے وفد کو اس بات پر خوشی حاصل ہوئی کہ مسجد کے باہر گیٹ پر لکھا گیا تھا کہ یہ عام راستہ نہیں ہے ، یہ مسجد کا راستہ ہے ۔علاوہ ازیں جمعیۃ علماء ہند نے مسجدکے گرد و پیش کا بھی جائزہ لیا جس میں پایا کی مسجد کے بالکل سامنے رنگ روڈ پر مسجد سے متصل ایک جدید ہنومان مندر کی تعمیر کی گئی ہے ۔مندر دیکھ کر جمعیۃ کے وفد کو اس لیے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اکثر قدیم مسجدوں کے سامنے مندروں کی تعمیر کی گئی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی مہربانی سے مسجدیں ویران ہیں اور جدید مندر پوری طرح سے آباد ہو رہے ہیں ۔ آثار قدیمہ قانون کے مطابق ۱۰۰؍ میٹر تک کوئی جدید تعمیراتی کام نہیں ہو سکتا ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ قدیم مسجد میں عبادت کے لیے پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ قانونی اعتبار سے مسجد میں نماز کی پابندی نہیں ہو سکتی لیکن جدید مندر میں پوجا پاٹھ کا کام زور و شور سے ہو رہا ہے اور محکمہ آثار قدیمہ آنکھ بند کیے ہوئے ہے۔اسے محکمہ آثار قدیمہ کے اس رویہ کے سوااور کیا کہاجاسکتا ہے کہ وہ تعصب سے کام لے رہا ہے ۔ واضح رہے کہ مسجد قدسیہ مغل فن تعمیر کاشاہکار نمونہ ہے ۔مسجد کافی خوبصورت تھی لیکن اس وقت یہ کافی خستہ حال ہے ۔دلی گزٹ ۱۹۷۰؍ میں مسجد قدسیہ باغ کا انداراج ہے ۔ریکارڈ کے مطابق دلی گزٹ میں عام طور پر تاریخ غلط درج کی گئی ہے پھر بھی یہی گزٹ حکومت کی نظر میں معتبر اور مستند ہوتا ہے اور سرکاری عدالتوں میں اسی کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔گزٹ کے مطابق ۱۷۴۸؍ میں حاکم محمد شاہ کی اہلیہ نواب قدسیہ بیگم نے مسجد قدسیہ باغ کو وقف کیاتھا ۔مزید معلومات کے لیے امام صاحب کا رابطہ نمبر حاضر ہے: 9810355762. 9873039918۔
(۲۵) چوبرجی مسجد ، جھولا پارک،کملا نہرو ریج
یہ مسجد جھولا پارک میں واقع ہے۔ آس پاس صفائی ستھرائی ہے۔ وفد کے پہنچنے پر مسجد بند ملی، وہاں موجود دوسرے حضرات سے پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ نماز کی اجازت نہیں ہے۔غلط حرکتوں سے مسجد کو پاک رکھنے کے لیے اس میں تالا لگا دیا گیا ہے۔ باہر سے دیکھنے پر اندازہ ہوا کہ اندرونی حصے میں بندروں نے اپنا رین بسیرا بنا رکھا ہے ۔ مسجد کے پوربی دیوار پر ناریل پھوڑنے او راگربتی کے آثار نظرآئے، جس سے وفد کا ماننا ہے کہ اس مسجد کو بھگواکرن کرنے کی ایک سازش ہوسکتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر سلطان فیروز شاہ نے کرائی تھی ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کے چار برج اور اتنے ہی گنبد تھے، لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کی وجہ سے صرف ایک گنبد باقی رہ گیا ہے ، مسجد کے سبھی چھوٹے بڑے مینارے بھی منہدم ہوگئے ہیں۔لاپرواہی کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں ، جب اس مسجد کا نام و نشان بھی اس عالم سے ختم ہوجائے گا۔
(۲۶)مسجد پیٹھان والی، مال روڈ چوک
یہ مسجد جھولا پارک کی دوسری سمت میں کافی اونچائی پر واقع ہے۔ یہاں کے امام مولانا حبیب الرحمان صاحب ہیں ۔ ان کی تفصیلات فراہم کرنے کے مطابق :
(الف) یہ مسجد پہلے اسمیک مسجد کے نام سے مشہور تھی، جس پر گانجہ ،افیم اور چرس وغیرہ کا دھندہ کرنے والے مسلمانوں ہی کا قبضہ تھا۔ سولہ سال تک کیس لڑنے کے بعد اسے آزاد کرایا گیا ہے۔
(ب) اگرچہ وقف بورڈ کی جانب سے امام کی تنخواہ مقرر نہیں ہے، تاہم وقف بورڈ نے نماز کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہاں سبھی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔
مزید کسی معلومات کے لیے امام صاحب کا نمبر ہے: 9868425315. 9871446513۔
(۲۷)بڑا لاو کا گنبداور مسجد بارادری، وسنت کنج دہلی
یہاں کا واچ مین رام راج یادو ہے۔ ان کے بیان کے مطابق اس گنبد پر ایک ہندو جاٹ نے قبضہ کرلیا تھا، جو ابھی آزاد ہے۔ یہ جگہ دہلی سرکار کے قبضے میں ہے، جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی وقفی حیثیت کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس سے متصل ایک اور چھوٹی مسجد ہے ، جس کی چھت گرچکی ہے اور دہلی سرکار مرمت کرارہی ہے۔ چاروں طرف پارک ہے۔ صاف صفائی ہے۔ غیر شرعی عناصرکی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔نماز پر مکمل پابندی ہے۔
(۲۸)عید گاہ مسجد یامسجد وال، آرکے پورم، سیکٹر۵
یہ مسجد لودھی زمانے کی تعمیر ہے۔ جامعہ محمدیہ آر کے پورم سیکٹر ۴ کے بانی و مہتمم جناب مولانا عبدالرشید صاحب کے بیان کے مطابق یہ قبرستان ہے، جب کہ مولانا نصرالدین امین صاحب کے قول کے مطابق یہ عیدگاہ ہے۔ بہر کیف اس کے پچھم میں اس کے دیوار سے متصل گردوارا اور پورب دیوار سے متصل ایک بڑا مندر بنادیا گیا ہے۔ پورب کا ایک گنبد رہاشی گھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ دکھن کی طرف ایک بڑی جگہ پر قبضہ کرکے ایک اسکول قائم کردیا گیا ہے۔ مہتمم صاحب کے بیان کے مطابق مولانا قاسم صاحب نے اس میں نماز شروع کرانے کی کوشش کی تھی، لیکن پولیس نے روک لگادی ۔ اس کے گنبدوں میں چڑیوں اور انسانی چمگادڑوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔یہاں ایک گارڈ بھی تعینات ہے ، لیکن وفد کے پہنچنے کے وقت وہ ندارد تھا۔
(۲۹) بجری خان کا مقبرہ آر۔کے۔ پورم سیکٹر ۳
یہاں بجری خان کے مقبرے پر گنبد نما بہت بڑی عمارت ہے اور اس کے دکھن کنارے ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ بناوٹ سے اندازہ لگایا جائے تو چلہ کشی کے لیے ا س کی تعمیر ہوئی ہوگی۔ اس کے پوربی حصے پر قبضہ کرکے ایک مندر بنا لیا گیا ہے۔ اگر فی الفور توجہ نہیں دی گئی، تو ہوسکتا ہے کہ بچی کھچی جگہ بھی ہاتھ سے چلی جائے گی۔ یہاں مقرر واچ مین کا نام دنیش ہے۔
(۳۰)مسجد بھول بھلیاں پر غیر قانونی طور پر قبضہ
جمعیۃ کے وفد نے مسجد بھول بھلیاں کا دورہ کیا ۔ یہ بھول بھلیاں بادشاہ اکبر کے رضاعی بھائی اوہم خاں اور رضاعی ماں ماہم بیگم کا مقبرہ ہے ۔اس مقبرہ کے احاطے میں تقریباً 200 فٹ کے فاصلے پر جنوب میں سڑک کے دوسری طرف ایک پتلی گلی ہے اسی گلی سے ہوکر جانے پر مسجد میں جانے کا راستہ ہے ۔ اسی راستے میں ایک ٹائپنگ سینٹرہے اور اس سے متصل مسجد میں جانے کے لئے در ہے ۔اس درسے صرف وہ لوگ ہی اندر جا سکتے ہیں جن کا قبضہ مسجد پر ہے ۔مسجد کو چاروں طرف سے قبضہ کر لیا گیا ہے اور اس میں کئی لوگوں کی رہائش ہے ۔ جمعیۃ کے وفد نے جب مسجد کی موجودہ صورتحال جاننے کے لئے اندر جانے کی کوشش کی تو ٹائپنگ سینٹر کے مالک اور دیگر افراد آ گئے جنہوں نے جمعیۃ کے وفدسے چلے جانے کے لئے کہا اوردوبارہ نہ آنے کی ہدایت بھی کر دی ۔مسجد پر قابض افراد نے جمعیۃ کے وفد سے کہا کہ یہ مسجد نہیں ہے یہ ہمارا گھر ہے اور ہمارے گھر میں ہماری اجازت کے بغیر آپ نہیں آ سکتے ۔
آخر کا ر وفدکے ایک رکن نے بھول بھلیاں کی دیوارپر چڑھ کر مسجد کی صورتحال دیکھنے کی کوشش کی ۔ وہاں سے مسجد کا گنبد صاف طور سے نظر آ رہا تھا جو مقبوضہ افراد کی قول کی تردید کر رہاتھا ۔ بھول بھلیاں کے چوکیدار نے وفد کو بتایا کہ اس مسجد کی زمین کے لئے مقدمہ چل رہاہے اور مقبوضہ افراد یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مسجد نہیں ہے جبکہ مسجد کا گنبد صاف طور پر مسجد کے وجود پر دلالت کرر ہا ہے ۔ اگر حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ نے آثار قدیمہ کی حفاظت کے لئے اقدامات کئے ہوتے توآج اس مسجد پر قبضہ نہ ہوا ہوتا۔
(۳۱)مسجد حوض خاص گاؤں پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل 
حوض خاص گاؤں میں واقع مسجد و مدرسہ حوض خاص کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وفد نے یہاں کا دورہ کیا ۔مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی جو منظر وفد کے اراکین نے دیکھا وہ بے حد حیرت انگیز تھا ۔ مسجد کو پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ مسجد کے محراب میں لوگ چارپائی اور بستر لگائے ہوئے سو رہے تھے ۔ مسجد میں اتنی گندگی پھیلی ہوئی تھی جسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ جمعیۃ کا وفد مسجد کا جائزہ لے ہی رہا تھاکہ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے متعین چوکیدار یہ کہتے ہوئے داخل ہوا کہ یہاں تعمیراتی کام چل رہا ہے جبکہ وہاں پرکوئی بھی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا تھا۔جمعیۃ کے وفد نے جب ان لوگوں سے بات کرنی چاہی تو چوکیدار نے وہ بھی نہیں کرنے دیایہاں تک کہ جب وفد کے ایک رکن نے مسجد کی تصویر لینے کی کوشش کی تو تصویر بھی نہیں لینے دی گئی ۔ انل نامی اس چوکیدار نے کہا کہ یہاں تصویر لینا منع ہے ۔ جمعیۃ کا وفد جو تصویر لے چکا تھا اسے چوکیدار نے فوری طور پر ڈلیٹ کرنے کو کہا ۔ جمعیۃ کے وفد کو اس بات سے بے حد حیرت ہوئی کے صرف مسجد کی تصویر لینے پر پابندی ہے اور مسجد کے باہر مقبرہ اور اس کے احاطے سیاحت کے نام پر جو لڑکے اور لڑکیاں عیاشی کر رہے ہیں اس پر پابندی نہیں ہے ۔ مسجد کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے اس پر روک نہیں لگائی جا رہی ہے ۔ مسجد کی موجودہ صورتحال بے حد تشویشناک ہے اور اس کا وجود ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مسجد کے تقدس کو باقی رکھنے کے لیے مسجد کو رہائش گاہ بنانے والے افراد کو بے دخل نہیں کیا گیاتو اس مسجد کا حال بھی کالو سرائے کی مسجد سے مختلف نہیں ہوگا۔
(۳۲) مسجد جہاز محل
مہرولی میں حوض شمسی کے کنارے ایک انتہائی شاندار اور خوبصورت مسجد ہے، اس کا نام مسجد جہاز محل ہے۔ ایک زمانہ بیت گیا ہے اس کے باجود اس کی بناوٹ و سجاوٹ اور آرائش و زیبائش کی دل کشی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، لیکن مسجد کی جو اصل تاج ہے ، اس سے دیگر تاریخی مساجد کی طرح یہ مسجد بھی محروم ہے۔ یہاں بھی نماز پر پابندی ہے۔ وفدنے مکمل معائنہ کے بعد یہ محسوس کیا کہ رفتہ رفتہ لوگ اس مسجد کو بھی عیاشی و فحاشی کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ مسجدکے مختلف کونوں میں پڑی ملی شراب کی بوتلیں اس کی بے حرمتی کی داستان جان کاہ بیان کر رہی تھیں۔اگر وقت رہتے اس پر توجہ نہیں دی گئی ، تو اس کی آبرو کے ساتھ ساتھ وجود بھی ختم ہوجائے گا۔
(۳۳)مسجد نیل گو کی حالت زار کا ذمہ دار کون ؟ 
جہاز محل کے بالکل سامنے ایک اور مسجد انتہائی مخدوش حالت میں ہے، جس کو وہا ں کے لوگ مسجد نیل گو کے نام سے جانتے ہیں ۔ مسجد کی موجودہ صوورتحال کو دیکھ کر ہر صاحب ایمان کی روح کانپ اٹھے گی ۔ مسجد اور مسجد کے باہر نجاست ہی نجاست پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کے قریب بھی کھڑا ہونا مشکل تھا ۔ مسجد کے اندر نجس جانورپناہ لئے ہوئے تھے اور باقی کی زمین پر علاقائی لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ مسجد کا وجود ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔مسجد کی حالت کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اگر وقت رہتے اس کی جانب توجہ نہ دی گئی تو اس کا نام و نشا ن تک مٹا دیا جائے گا ۔ محکمہ آثار قدیمہ جس طریقے سے قدیم مساجد کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔
(۳۴) مسجد راجوں کی بائیں بھی شرابیوں اور جواریوں کا اڈا بنی
محکمۂ آثار قدیمہ اور حکومت کی عدم توجہی کے سبب مساجد کے تقدس کی پامالی کی فہرست میں ایک اور اہم ترین اور خوب صورت مسجد کانام شامل ہے جس کا نام مسجدراجوں کی بائیں ہے ۔ مسجد کے اندر کھلے عام شراب پی جارہی تھی اور کھلے عام جوا کھیلا جارہا تھااور باہر کھڑا چوکیدار تماشائی بنا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وفد نے دیویندر اوردیپیندرنامی چوکیداروں سے جب یہ کہاکہ تمہارے ہوتے ہوئے ایسا کیسے ہو رہا ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے ان لوگوں کو کئی بار روکنے کی کوشش کی لیکن یہ لوگ نہیں مانتے اور ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اگر حکومت توجہ دے تو یہاں اس طرح کا کام نہیں ہو سکتا۔وفدنے مسجد میں جب نماز پڑھنے کی بات کی تو چوکیداروں نے نماز پڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ یہاں نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔اراکین وفد نے محکمۂ آثار قدیمہ کی اس زیادتی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں تحفظ کے نام پر نمازپر پابندی لگائی گئی ہے جو کہ قانوناً غلط ہے اور جن امور پر پابندی لگانی چاہیئے وہ سرعام ہو رہے ہیں۔ مسجد کے اندر باؤلی ہے جس میں گندگی کا انبار لگا ہوا ہے ۔باؤلی کے اندر گند ہ پانی بھرا ہوا ہے اور اس میں پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر اشیاء پڑی ہوئی ہیں۔واضح رہے کہ یہ مسجد مہرولی بس ٹرمینل سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر ۹۱۲ ؁ھ مطابق ۱۵۰۶ ؁ء میں دولت خاں نے بڑے خلوص و محبت کے ساتھ سرخ پتھر سے کرائی تھی جو سکندرشاہ لودھی کے عہد حکومت کا امیر تھا ۔المختصر محکمۂ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے سبب مسجد کے تقدس کو سر عام پامال کیا جا رہا ہے ۔ ان شرابیوں اور جواریوں کو کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔ 
(۳۵) قطب الدین بختیار کاکی کے آستانہ سے ملحق موتی مسجد ویران
محکمہ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب دہلی کی تاریخی اور قدیمی مساجد کا وجود خطرہ میں ہے ۔ مساجد میں نماز کی پابندی عائد کر کے محکمہ آثار قدیمہ یہ حوالہ دیتا ہے کہ ہم مسجد کے تحفظ کے لئے ایسا کر رہے ہیں لیکن مساجد کی صورتحال اس کے بر عکس ہے ۔ مساجد کا نہ تو تحفظ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ا س پر کو ئی توجہ دی جارہی ہے ۔جمعیۃ علماء ہندکے وفدنے جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی کے آستانہ سے ملحق موتی مسجد کا دورہ کیا تو دیکھا کہ سنگ مرمر سے بنی ایک خوبصورت اور عالیشان مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے نذر ہو چکی ہے۔مسجد میں صفائی ستھرائی نہ ہونے کے سبب گندگی پھیلی ہے جس کی وجہ سے موتی نما یہ مسجد پیلی ہوتی جا رہی ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت ہند کی جانب سے آثار قدیمہ کے تحفظ کے لئے بڑے پیمانے پر بجٹ جاری کیا جاتا ہے تاکہ ان کی تزئین کاری کی جا سکے لیکن دوسری جانب محکمہ آثار قدیمہ کی لاپرواہی سے موتی مسجد جیسے آثار قدیمہ دن بہ دن اپنی خوبصورتی کھوتے جا رہے ہیں ۔ مسجد میں نماز ادا کرنے کی ممانعت کی وجہ سے ہی مسجد کی حالت تشویشناک ہے ۔ صرف موتی مسجدہی نہیں جتنی بھی بند مساجد ہیں اگر ان میں نماز کی اجازت دے دی جائے تو مساجد صاف بھی رہیں گی اور ان کا تقدس بھی باقی رہے گا ۔واضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیرمحمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ اول نے ۱۱۲۱ ؁ھ مطابق ۱۷۰۹ ؁ ء میں کرائی تھی۔ یقیناًمحکمہ آثار قدیمہ ہی مسجد کی اس تشویشناک حالت کے لئے ذمہ دارہے اور محکمہ کو عملی طور پر مساجد کے تحفظ کے لئے قدم اٹھانا چاہیئے اور بند مساجدکو کھول کر نمازیوں کو نماز ادا کر نے کی اجازت دینی چاہیئے 
(۳۶)عظیم الشان مسجد قوۃ الاسلام کی تباہی کا ذمہ دار کون ؟
قومی راجدھانی دہلی میں سیکڑوں مسجدیں ایسی ہیں جن کا نام و نشان اب باقی نہیں رہا لیکن کچھ عظیم الشان تاریخی مساجد اب بھی موجود ہیں جو اپنی تباہی اور بربادی کی داستان خود بیاں کر رہی ہیں ۔ ایسے میں محکمہ آثار قدیمہ حکومت ہند سے یہ سوال لازمی ہو جاتا ہے کہ آخر ان تاریخی عبادت گاہوں کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے ؟ مہرولی میں واقع عظیم الشان مسجد قوۃ الاسلام میں لکھی قرآنی آیات آج بھی اپنی جاہ و جلال و شان وشوکت کی گواہ بنی ہوئی ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ اس سے بے فکر ہے ۔جمعیۃ علماء ہند کا وفد جب مہرولی میں واقع مسجد قوۃ الاسلام پہنچا تو دیکھا کہ محکمہ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب ایک عظیم الشان مسجد کاوجودآہستہ آہستہ مٹتا جا رہا ہے ۔ اب صرف اس مسجد کے آثار بچے ہیں جن پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ وہ مساجد جو عبادت گاہ تھیں وہ آج سیاح گاہ میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ مساجد میں سیاحوں کو اجازت ہے لیکن فرزندان توحید کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔دیگر مساجد کی طرح اس مسجد کا وجود بھی خطرہ میں ہے ۔ 
(۳۷) مسجد حنفیہ کوڑا گھر میں تبدیل
یہ مسجد نبی کریم کی اندرونی گلی میں واقع ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اس مسجد کے صحن میں سفید قبریں تھیں اسی وجہ سے یہ مسجد سفید قبر والی مسجد کے نام سے بھی مشہور ہے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ تمام قبروں کو ملبہ اور کوڑا سے دباکر غیر قانونی قبضہ کرکے مکانات تعمیر کر لیے گئے ہیں اور جو حصے باقی رہ گئے ہیں، ان کو کوڑا دان کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔جمعیۃ کے وفد کو یہ سب دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ۔ مسجد کے قریب میں رہنے والے بھائی اسلام الدین نے بتایا کہ دو سال پہلے اس مسجد میں نماز ہوتی تھی ، لیکن علاقے کے شرپسند عناصر نے پولیس کی مدد سے اس مسجد کو بند کرادیا ، ان لوگوں کی غنڈہ گردی کی انتہایہ ہے کہ اس سے متصل ایک چھوٹا مدرسہ جس کا رنگ ہرا تھا، ان فسطائیوں نے پولیس والوں سے کہہ کر رنگ بدلنے پر مجبور کیا۔جمعیۃ کا وفد مسجد میں پڑے قد آدم سے بھی زیادہ کوڑے کے ڈھیر پر چڑھ کر تصویریں اور ویڈیو بنا رہا تھا ، گرچہ مقامی تعصب پسند غیر مسلموں نے کچھ نہیں کہا تاہم ان کی آڑی ترچھی نگاہیں، ان کے دل کے حسد کو بخوبی ظاہر کررہا تھا ۔ اسلام الدین صاحب نے مزید بتایا کہ آے دن شرپسند عناصر یہاں آکر گالی گلوچ کرتے رہتے ہیں تاکہ کوئی فرقہ وارانہ جھگڑا ہوجائے اور ملک کے فضائے امن و امان کو مکدر کرنے کا موقع ہاتھ آجائے، لیکن مسلمان دفع شر کی بنیاد پر خاموش رہتے ہیں۔بہر کیف مسجد کی بے حرمتی کی انتہا اور کیا ہوگی کہ جس مقدس و پر عظمت جگہ پر انسان اپنی پیشانی کوخاک آلود کرنا باعث تقدیس روح و حیات سمجھتا ہے آج اسی مطہر و پاک جگہ کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے اور تعفن کا یہ عالم ہے کہ وہاں ایک منٹ ٹھہرنا بھی دشوار ہے۔
(۳۸) مسجد بڑا گنبد لودھی گارڈن
آثار قدیمہ کے تحفظ کے نام پر جہاں یہ محکمہ فرزندان توحید کی عبادت پر پابندی لگا رہا ہے ، وہیں دن بدن اس کے تقدس کو پامال کرنے میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو لوگ مسجد کی حفاطت پرمامور کیے گئے ہیں، بے حرمتی و پامالی میں سب سے زیادہ پیش پیش یہی لوگ رہتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ منظر جمعیۃ علماء ہند کے وفد کو اس وقت دیکھنے کو ملا، جب یہ وفد لودھی گارڈن میں واقع مسجد بڑا گنبد میں پہنچا، جہاں خود گارڈ جوتا پہنے ہوئے مسجد کی بے حرمتی میں مصروف تھا ، لیکن جوں ہی وفد مسجد میں داخل ہوا اور دوگانہ کے لیے رومال پھیلانے کی کوشش کرنے لگا تو امیش کمار نامی چوکیدار نے سختی سے منع کیا اور یہ کہا کہ یہاں نماز پڑھنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ وفد نے جب اس کے خود جوتا پہن کر مسجد میں گھومنے پر اعتراض کیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک قدیم عمارت ہے اور کچھ نہیں۔ باتوں باتوں میں وہ بد تمیزی پر اتر آیا ، یہاں تک کہ فوٹو لینے سے بھی منع کرنے لگا۔ 
یہ مسجد انتہائی خوب صورت ہے، لیکن کوئی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے بے رونق ہوتی جارہی ہے ، جگہ جگہ سے پلستر جھڑ رہے ہیں، اس کے گنبد کے کچھ حصے شہید ہوگئے ہیں۔ اگر معاملہ یوں ہی بے التفاتی کا رہا ، تو رفتہ رفتہ اس کا وجود بھی مٹ جائے گا۔
(۳۹)چھوٹی مسجد 
لودھی گارڈن میں ہی اس مسجد کے تھوڑے فاصلہ پر ایک اور مسجد ہے ، جس کا تاریخی نام تو معلوم نہ ہوسکا ، البتہ لوگ اسے چھوٹی مسجد کہتے ہیں۔ وفد جب اس کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ پارک کے سبھی چوکیدار اس کے باہری حصے میں بیٹھے ہیں اور اندر ان کی سائکلیں کھڑی ہیں۔ اور وہاں صاف صفائی کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے۔مسجد انتہائی خوب صورت ہے اور اب بھی صحیح سالم موجود ہے، لیکن اگر فوری توجہ نہیں دی گئی، تو اس کا حشر بھی دیگر مساجد سے مختلف نہیں ہوگا۔ 
(۴۰)مسجد محمد تغلق شاہ، جس میں گدھے چر رہے ہیں
یہ تغلق آباد میں واقع کھنڈرو ویران قلعے میں واقع ہے۔ جس طرح پورا قلعہ خستہ و خجستہ ہوچکا ہے،اسی طرح اس میں موجود مساجد بھی منہدم ہوچکے ہیں اور صرف ظاہری امتیازات کی بناپر ہی یہ نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ یہ کبھی ایسی پاک جگہ تھی، جہاں انسان اپنی جبین نیاز خم کیا کرتے تھے۔
تحقیق و معائنے سے انکشاف ہوا کہ یہاں چھوٹی بڑی تین مساجد تھیں اور اب تینوں ویران و کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ وفد نے یہ بھی دیکھا کہ چوکیدار وہاں پر موجود ہے، اس کے باوجود مسجد کے حصے میں گدھے چر رہے ہیں۔گویا یہ گدھے زبان حال سے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کی عملی پیمانہ پیش کر رہے تھے۔
(۴۱) موتی مسجد لال قلعہ
یہ مسجد احاطہ لال قلعہ کے اندر واقع ہے۔ مسجد انتہائی خوب صورت ہے، اس کی زیب وزینت کے لیے سفید سنگ مرمرکا استعمال کیا گیا ہے، لیکن روحانی رونق سے یہ مسجد بھی محروم ہے۔ جب وفد یہاں پہنچا تو دیکھا کہ تالا بند ہے۔ وفد نے متعین چوکیدار سے کھولنے کے لیے کہا تو اس کا جواب تھا کہ یہاں کی دوسری درودیوار کو دیکھنے کی اجازت ہے ، مسجد کی نہیں۔ المختصر وفد حسرت و مایوسی کی آخری نگاہ ڈالتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگیا۔
(۴۲) کوٹلہ فیروز شاہ مسجد
یہ مسجد دہلی گیٹ سے متصل خونی دروازے سے مشرق میں واقع ہے۔ وفد نے یہاں کے حالات کے جائزے کے بعد پایا کہ فی الحال ظہر ، عصر اور مغرب کی نماز کی اجازت ہے اور عشا و فجر کی اجازت نہیں ہے۔ مسجد کافی بڑے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے، تعمیراتی مرمت پر عدم توجہ کی بنیاد پر پوری چھت اور گنبد منہدم ہوگئی ہے، صرف صحن ہی باقی ہے۔ اس کے گرد ا گرد پارکوں میں روشنی بجلی کا انتظام ہے جب کہ مسجد میں لالٹین جلانے پر بھی پابندی ہے۔ یہاں کے موذن مولانا عبدالصمد صاحب گڈاوی کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق دیگر مساجد کی طرح یہاں بھی ناجائز عناصر گھومتے رہتے ہیں اور تہہ خانہ میں بنے کمروں کی حرمت پامال کرتے رہتے ہیں، لیکن چوکیدار ان تمام چیزوں سے باخبر ہونے کے باجود کچھ نہیں کہتا۔ جمعرات کے علاوہ سبھی دنوں میں دس روپیے کا ٹکٹ لگتا ہے، اس کے بغیر نمازی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے ان مساجد کے علاوہ بھی جیسے کلاں مسجد، مسجد شیر شاہ ، مسجد کھجور وغیرہ کا دورہ کیا ، تمام جگہوں پر مساجد کی موجودہ صورت حال کم و بیش یکساں ہے، ہر جگہ محکمہ آثار قدیمہ نے تحفظ کے نام پر نماز پر پابندی لگائی ہوئی ہے ، البتہ نماز کے علاوہ ہر غیر شرعی و غیر قانونی عمل کی کھلی اجازت ہے۔یہ مساجد منتظر ہیں کہ کوئی غیرت مند صاحب ایمان اٹھے اور انھیں بے حرمتی و پامالی سے تحفظ فراہم کرے۔
یہاں صرف انھیں مساجد کا تذکرہ کیا گیا ہے، جہاں پر راقم اور جمعیۃ علماء ہند کا وفد خود پہنچا اورمعائنہ کیا ہے۔ ورنہ دہلی اور نئی دہلی میں وقف بورڈ اور محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی مساجد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس حوالے سے مولانا عطاء الرحمان قاسمی’’پارلیمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق دہلی میں مقبوضہ مساجد کی تعداد‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ 
’’۱۹۹۲ء کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق دہلی میں دو ہزار مساجد ہیں، جن میں سے ۵۳؍ مساجد محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہیں اور پانچ سو مساجد دلی وقف بورڈ کے زیر انتظام ہیں اور بانوے مساجد پر ناجائز قبضہ ہے اور باقی مساجد مسلمانوں کے زیر اہتمام ہیں۔‘‘ (دلی کی تاریخی مساجد، ج؍اول،ص؍۳۱۸)
آگے انھوں نے بانوے مقبوضہ مساجد کی کی فہرست بھی دی ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے کردار پر ایک نظر
تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لیے انگریزوں نے محکمہ آثار قدیمہ قائم کیا تھا۔ گرچہ اس محکمہ سے کافی عمارتوں کو تحفظ ملا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ حالیہ دور میں محکمہ اپنے فرائض سے بالکل غافل ہے۔ بقول مولانا قاسمی کہ آج
’’ اس محکمہ کا سب سے بڑا کارنامہ کسی تاریخی عمارت کے دروازے پر ایک مخصوص قسم کا ہدایتی بورڈ لگانا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ عمارت محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہے‘‘۔(دلی کی تاریخی مساجد،ج؍۱،ص؍۲۳)
جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ جو مساجد مسلمانوں کے سجدوں اور اذان کی صداوں سے آباد ہونی چاہیے وہ شرابیوں ، جواریوں اور عیاشوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔حفاظت و نگہہ داشت کے نام پر ان کو برباد کرنے کی خاموش حکمت عملی جاری ہے۔اور مساجد کی حرمت و تقدس سے ناآشنا تعصب آمیز ذہنیت کے حامل چوکیداروں کا رویہ اس کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سیمینار ان حالات کے پیش نظر ایسی حکمت عملی اپنائے اور ایسا لائحہ عمل تیار کرے ، جس سے ان مساجد کی عظمت رفتہ، سابقہ تقدس و حرمت اور روحانیت واپس آجائے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے گھر کو مقدس و مطہر بنانے اور تحفظ فراہم کرانے میں کامیابی عطا فرمائے ۔ آمین ۔ثم آمین۔
اظہار تشکر
آخر میں اظہار تشکر کے طور پر ان حضرات کے نام پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو اس معائنے میں ساتھ رہے، ان میں پہلا نام مولانا نیاز احمد فاروقی صاحب رکن عاملہ جمعیۃ علماء ہندکا ہے، جنھوں نے اکثر و بیشتر وفد کی قیادت کی۔ اسی طرح مولانا غیور احمد قاسمی آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، حافظ بشیر احمد آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند،مفتی انیس احمدپرتاپ گڑھی،، مولانا ضیاء اللہ صاحب قاسمی، مولانا ہارون رشید صاحب مہرولی، مولانا محمد عرفان صاحب آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولانا کلیم الدین قاسمی صاحب آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند،قاری نوشاد عادل صاحب،مولانامحمد جمال قاسمی صاحب ، جناب حاجی اسعد میاں دہلی صاحب اورجناب حاجی محمد عارف صاحب شریک وفد رہے۔ کیمرہ مین کے طور پر جناب رہبر حسنین رضوی صاحب ساتھ رہے۔بعض بعض موقعوں پر علاقائی افراد نے بھی وفد کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ بندہ خاکسار ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اجر جزیل عطا فرمائے آمین۔