تحریر:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی گڈاوی دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
گذشتہ کچھ دنوں پہلے، حالیہ سرکارکی مسلکی تفرقہ بازی کی سیاست کے دام فریب میں گرفتار مسلمانوں کے کچھ افراد نے مسلک و صوفیت کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی ایک گھناونی سازش شروع کردی تھی۔ جس سے ہندستان کی فضا کچھ اس طرح سے بننے لگی گویا کہ مسلمانوں کا موجودہ رہی سہی اتحاد بھی پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گا۔ایسے پریشان کن حالات میں جمعیۃ علماء ہند نے حالات کے دھارے کو موڑنے اور مسلمانوں کی مسلکی یک جہتی برقرار رکھنے کے لیے ۱۴؍ فروری ۲۰۱۶ ء کو میرٹھ میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی ، جس کے اسٹیج سے اس کے جنرل سکریٹری قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب نے تمام مسلکوں کو دعوت اتحاد دیتے ہوئے کہا کہ ہم مسلمانوں کو مسلک کے نام پر بانٹنے کو برداشت نہیں کریں گے ۔ اگر کوئی دیوبندی اور بریلوی کے نام پر اس ملک کے لوگوں کو لڑائے گا، ہم اس سے ٹکر لیں گے اور کسی قیمت پر ہم آپس میں لڑائی نہیں کریں گے۔ سارے مسلک کے افراد ہمارے اپنے ہیں، البتہ کسی کو اگر ہم سے غلط فہمی ہے ، تو ہم اس کی صفائی دینے کو تیار ہیں، ہمارے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اگر وہ قیادت چاہتے ہیں، تو ہم ان کی قیادت میں ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں ۔ اس دعوت اتحاد کا مثبت جواب یہ ملا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے جناب مولانا توقیر رضا صاحب نے تمام اختلافات کو بھلاتے ہوئے ۹؍ مئی ۲۰۱۶ کو دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا ۔ ادھر مسلکی اتحاد اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے لیے کوشاں جمعیۃ علماء ہند نے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسرا مضبوط قدم یہ اٹھایا کہ اپنا تینتیسواں اجلاس عام خواجہ کی نگری کو خواجہ غریب نواز نگر کا نام دیتے ہوئے بتاریخ ۱۲، ۱۳؍ نومبر ۲۰۱۶ ء اجمیر شریف میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند کا ترجمان ہفت روزہ الجمعیۃ کا ایک خصوصی نمبر شائع کیا ، جس کا عنوان ’’خواجہ غریب نوازؒ و مشائخ چشت نمبر ‘‘ رکھا گیا۔
امت مسلمہ میں تفرقہ بازی اور فرقہ بندی کے لیے عوام الناس میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ علمائے دیوبند اور دیوبندی مکتب فکر کے افراد اولیا اللہ کو نہیں مانتے اور معاذ اللہ نیک بندگان الٰہی کے مزارات کی زیارت کو کفر خیال کرتے ہیں ۔ حالاں کہ تاریخ شاہد عدل ہے کہ یہ مکتب فکر جس قدر بزرگان دین کے تقدس و احترام کا قائل ہے ، اس قدر شاید ہی کوئی اور ہو۔ جمعیۃ علماء ہند کے یہ دونوں عمل: اجمیرشریف میں تینتیسواں اجلاس عام اور الجمعیۃ کا خواجہ غریب نواز نمبر اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے تیر بہدف ثابت ہوگی اور لوگوں کے سامنے یہ تاریخ آئے گی کہ علمائے دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کاحضرت خواجہؒ اور ان کی نگری اجمیر شریف سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ تعلق ظاہری اور تعلق باطنی دونوں تعلقات کی کڑیاں بہت مضبوط اور مستحکم رہی ہیں ۔ ایک طرف جہاں علمائے دیوبند نے اپنی روحانی تشنگی کو تسکین دینے کے لیے حضرت خواجہ ؒ کے سلسلہ چشتیہ کو گلے لگایا اور اس کو آگے بڑھایا ہے ، وہیں دربار خواجہ ؒ کی زیارت اور وہاں کے تقدس و احترام کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن جدوجہد کی ہے ۔ حضرات علماء دیوبند کی سلسلہ چشتیہ سے وابستگی کے متعلق یہ تاریخی شہادت ملاحظہ فرمائیے ۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سابق صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ دارالعلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں کہ
’’حضرت اقدس قدس سرہ العزیز (مولانا گنگوہیؒ ) نے جب مجھے بیعت فرمایا، تو چاروں خانوادوں : چشتیہ، نقشبندیہ، قادریہ،سہروردیہ میں بیعت فرمایا۔ پھر مجھ سے فرمایا: میں نے چاروں میں بیعت اس لیے کیا ہے کہ لوگ جس طریقے میں بیعت ہوئے ہیں ، اسی کی تفصیل(بڑائی) اور ترجیح ؛ بلکہ غلو (زیادتی ) میں پڑجاتے ہیں اور دوسرے طریقے کو مجروح اور غیر اہم قرار دیتے اور گرانے میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (مکتوبات شیخ الاسلام ج؍ ۳ ، ص؍۶۲)
حضرت شیخ الاسلام ؒ اپنے مکتوب میں دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’واقعہ یہ ہے کہ حضرات چشتیہ رحمہم اللہ تعالیٰ جن کا طریقہ ہی ہمارے حضرات مشائخ حضرت حاجی امدادا للہ صاحب ؒ ، حضرت گنگوہیؒ ، حضرت نانوتویؒ ، حضرت شیخ الہند (حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ ) کا طریقہ اور اصلی اسلوب ہے ۔‘‘ (مکتوبات شیخ الاسلام ج؍۳، ص؍ ۱۵۸)
دارالعلوم دیوبند کے اولین صدر المدرسین حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۔جو عارف باللہ اور صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے اور کبھی کبھار ان پرمجذوبیت کی کیفیت کا غلبہ ہوجاتا تھا۔ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میری روحانی تکمیل ابھی نہیں ہوپائی ہے ، اس لیے یہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ بانی دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ سے بار بار کہتے کہ میری تکمیل کراو، میری تکمیل کراو۔ ان حضرات کا جواب ہوتا کہ آپ ناقص نہیں رہ گئے ہیں۔ آپ دارالعلوم دیوبند میں حدیث کا درس دیتے ہیں ، اگر کچھ کمی بھی رہ گئی ہوگی تو اسی درس سے تکمیل ہوجائے گی ، لیکن مولانا کی متجسس طبیعت اور تلاش و جستجو کے شوق کو تسکین نہ ہوئی اور ایک دن اچانک اجمیر کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند تحریرفرماتے ہیں کہ
’’اس لیے منصوبہ بنایا کہ میں اجمیرشریف حاضر ہوکر حضرت خواجہ قدس سرہٗ سے اپنی تکمیل کراؤں اور ان سے باطنی اکتساب کرکے حدِکمال کو پہنچوں۔ اس منصوبے کے تحت اسی مجذوبانہ انداز سے ایک شب میں بلااطلاع اور بلاکسی کو خبر کیے ہوئے اجمیرشریف کی راہ لی۔ دیوبند میں جب صبح کو مولانا کا کہیں پتہ نہ ملا تو لوگوں نے پریشان ہوکر گنگوہ اور نانوتہ آدمی دوڑائے کہ شاید وہاں چلے گئے ہوں، مگر کہیں پتہ نہ ملا۔ لوگ اِدھر پریشان تھے اور اُدھر مولانا نے روضۂ خواجہ کے قریب کی ایک پہاڑی پر ایک کٹی لگا کر اپنی جائے رہائش بنائی۔ درس سے دامن جھاڑ چکے تھے۔ ذکر و مراقبہ مشغلہ تھا۔ مزار شریف پر حاضر ہوکر بہت بہت دیر تک مراقب رہتے۔ اسی مراقبہ میں انکشاف ہوا، حضرت خواجہؒ کی طرف سے ارشاد ہورہا ہے کہ آپ کی تکمیل مدرسہ دیوبند میں حدیث پڑھانے ہی سے ہوگی۔ آپ وہیں جائیں اور ساتھ ہی حضرت خواجہؒ کا یہ مقولہ بھی منکشف ہوا کہ آپ کی عمر کے دس سال رہ گئے ہیں، اس میں یہ تکمیل ہوجائے گی۔اس لیے اگلے ہی دن اجمیر سے واپس ہوئے۔ ‘‘ (روزنامہ الجمعیۃ ، خواجہ نمبر ۲۵؍ اگست ۱۹۷۰ء، ص؍ ۵)
دیوبندی مشائخ میں نہایت ممتاز اور بلند مقام رکھنے والے نابغہ روزگار حضرت شیخ الاسلام ؒ بذات خود سلطان المشائخ ، خواجگان خواجہ حضرت معین الدین سنجری چشتی نور اللہ مرقدہ سے بہت گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ حضرت خواجہ سے ان کی عشق و شیفتگی کو بیان کرتے ہوئے مولانا اخلاق حسین قاسمی ؒ رقم طراز ہیں کہ
’’ دیوبندی مسلک کے اسی مرد جلیل (حضرت مدنی) کو حضرت خواجہ بزرگ سے ایسی عقیدت تھی کہ مولانا حضرت خواجہ ؒ کے آستانہ عالیہ پر گھر سے نیت و اراد�ۂ زیارت کرکے تشریف لایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ حضرت سلطان الہند کی زیارت ضمنی طور پر کرنا ان کے مرتبہ عالیہ کی شایان شان نہیں ۔ آپ ؒ کی زیارت کے لیے مستقل سفر کرتا ہوں۔‘‘ ( روزنامہ الجمعیۃ ، خواجہ نمبر ۲۵؍ اگست ۱۹۷۰ء، ص؍ ۳۸)
سلسلہ چشت ہی کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں حضرت خواجہ صابر کلیری ؒ ،جن کا مزار روڑکی سے تقریبا دس کیلومیٹر شمال میں واقع ہے اور آج بھی وہ مرجع خلائق بنا ہوا ہے حضرت شیخ الاسلام ؒ نے ان سے تعلق و ربط اور روحانی فیض کے حصول کا ذکر کرتے ہوئے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا ہے کہ
’’یک بارگی یہ کیفیت پیش آئی کہ نماز میں بھی اور باہر بھی یہ تمام فضا بین السموت مجھے تنگ معلوم ہونے لگی ، حضرت رحمہ اللہ ( حضرت گنگوہی ؒ ) سے عرض کیا تو فرمایا کلیر شریف ہوآؤ۔حضرت قطب عالم حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ کو بھی جب قبض پیش آتا تھا تو ایسے مقامات پر تشریف لے جاتے تھے ، چنانچہ ہم دونوں کلیر شریف گئے (نقش حیات جلد؍ ۱، ص؍ ۱۳۲، مطبوعہ مکتبہ دینیہ دیوبند )
تبلیغی جماعت کے روح رواں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کلیر شریف کے مزار پر اکثرو بیشتر جایا کرتے تھے اور وہ جب بھی مرکز نظام الدین دہلی تشریف لاتے تھے تو بنگلہ والی مسجد سے پیدل ننگے پاوں حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دیتے تھے اور مزار کے چبوترے کے نیچے بیٹھ کر گھنٹوں گھنٹوں مراقب رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ واقعہ یہ ہوا کہ پاکستان سے بڑی تعداد میں علمائے کرام پر مشتمل ایک جماعت آئی ۔ وہ سب حضرت شیخ کے ہمراہ مزار پر حاضری کے لیے حاضر ہوئے ۔ حسب معمول حضرت شیخ چبوترے کے نیچے ہی بیٹھ گئے ۔ وہاں کے متولی نے اصرار کیا کہ حضرت آپ چبوترے کے اوپر تشریف رکھیں اور وہیں بیٹھ کر مراقبہ فرمائیں ، لیکن حضرت نے منع کیا ۔ جب متولی نے تیسری مرتبہ اصرار کیا ، تو حضرت شیخ نے اپنا رومال ان کے سر پر اوڑھا دیا ۔ رومال اوڑھنا تھا کہ وہ ایک دوسری ہی دنیا میں پہنچ گئے اور جس ظاہری آنکھ سے وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ چبوترا خالی ہے حضرت شیخ کو وہاں بیٹھنا چاہیے ، اب ان کو یہ نظر آرہا تھا کہ وہاں خلق خدا کی اتنی بھیڑ ہے کہ تل رکھنے کی جگہ نہیں ہے ۔ ( یہ واقعہ ایک زبانی روایت پر مبنی ہے ،اس کو حاجی اصغر صاحب ساکن بستی نظام الدین صاحب نے راقم کو سنایا )۔
سابق صدر جمعیۃ علماء ہند فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ بھی خواجہ غریب نواز کے گہرے عقیدت مندوں میں سے تھے ۔ انھوں نے الجمعیۃ کے خواجہ نمبر کی اشاعت کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ
’’ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، اسوہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے انھیں سلاسل طیبہ میں ہیں، جن کے نقش قدم کے فیوض و انوار سے زندگی میں تابندگی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ‘‘ (۲۵؍ اگست ۱۹۷۰ء ، ص؍ ۴)
علمائے دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے اولیا اللہ اور ان کے مزارات کی زیارت و حاضری کا تذکرہ بس یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا ، اکثر اکابرین کے متعلق اس قسم کے شہادات موجود ہیں کہ مردگان اہل اللہ سے کسب فیض اورروحانی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مزارات پر آیا جایا کرتے تھے ؛، لیکن یہاں اختصار کے پیش نظر اب موضوع تحریر کو ظاہری تعلق کی طرف موڑتے ہیں۔ اس حوالے سے علمائے دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا تاریخی سلسلہ جمعیۃ کے روز تاسیس سے جاملتا ہے ۔ چنانچہ تاریخ کی گواہی کے مطابق ۳،۴،۵؍ مارچ ۱۹۲۲ ء کو اجمیر شریف میں جمعیۃ علماء ہند کے خصوصی اجلاس کا انعقا د کیا گیا اور حالات حاضرہ پر مختلف اہم تجاویز منظوری کی گئیں ۔ (تفصیل کے لیے مطالعہ کریں: جمعیۃ العلما کیا ہے، ج ؍ دوم ، ص؍ ۵۲)۔ ۲۰، ۲۱؍ ستمبر ۱۹۲۳ کو اجمیر کے برطانوی حکام نے ہندو مسلم کے درمیان فرقہ وارانہ منافرت پید اکرنے کے لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی درگاہ پر گولیاں چلائیں ، جس کی جمعیۃ علماء ہند نے سخت مذمت کی اور مسلمانان ہند سے خصوصی اپیل کی کہ پورے ہندستان کے مسلمان بیک آواز اس کے خلاف زبردست مظاہرہ کریں۔ چنانچہ اس احتجاج کا اثر یہ ہوا کہ انگریز مزارات کی طرف بری نظر سے دیکھنے میں خوف محسوس کرنے لگے اور پھر اس کے بعد اس طرح کی اوچھی حرکت کرنے کی انگریزوں کو جرات نہیں ہوئی ۔(مزید معلومات کے لیے پڑھیں: جمعیۃ العلما کیا ہے، ج؍ دوم، ص؍ ۶۶)۔ پھر جب ۱۹۴۹ء میں تقسیم وطن کے نتیجے میں حالات پرتشویش ہوئے اور پاکستان کے شرنارتھیوں نے قبضہ کرنے اور مقامی بدبخت لوگوں نے درگاہ کو بیچنے کی کوشش کی، تو جمعیۃ علماء ہند نے اس کے تحفظ کے اقدامات کرتے ہوئے حکومت ہند سے یہ مطالبہ کیا کہ اجمیر شریف درگاہ کی کمیٹی میں ارکان کی نصف تعداد جمعیۃ علماء ہند کے مقرر و منتخب کردہ افراد ہونے چاہیں۔ ( تفصیلات کے لیے دیکھیں : کاروائی مجلس عاملہ بمقام لکھنو ، ۵ تا ۸؍ اپریل ۱۹۴۹ء۔ اور ہفت روزہ الجمعیۃ ، جمعیۃ علماء نمبر، جلد نمبر ۸، شمارہ ۴۳، ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۹۵ء) ۔ ۲۵؍ اگست ۱۹۷۰ء میں روزنامہ الجمعیۃ نے ’’ خواجہ غریب نواز ؒ نمبر‘‘ شائع کیا تھا۔ اسے علمائے دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کی خواجۂ خواجگان ، سلطان الہند ، غریب نواز حضرت معین الدین چشتی سنجریؒ سے پرخلوص وابستگی اور خصوصی تعلق کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل ، جب ۱۹۴۷ میں تقسیم وطن کا دل خراش و جگر سوز واقعہ پیش آیا تو پاکستان کے پناہ گزینوں نے یہاں کے مزارات، خانقاہوں اور مدارس و مساجد میں اپنا ڈیرہ ڈالنا شروع کردیا ، جس کی زد میں جہاں بڑے بڑے اسلامی ادارے آگئے، وہیں سرہند میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا مزار اور ان کی خانقاہ، دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی قبراور اس کے متصل عمارتیں اور سلطان المشائخ حضرت حضرت خواجہ معین الدین صاحب اجمیری نور اللہ مرقدہ کا مزار مقدس بھی ان کے ناپاک اور جابرانہ قبضے سے محفوظ نہیں رہ سکے۔اس بات پر تاریخ گواہ ہے کہ تقسیم وطن کے بعد پھوٹ پڑنے والے خونی فسادات میں جہاں انسان اپنے سایہ سے خوف کھا رہا تھا اور ہر طرف دہشت و خوف کی مہیب، زہریلی، طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں ، ایسے پرخطر حالات میں اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جمعیۃ علماء ہند اٹھی اور انسانیت کے تحفظ اور ان اسلامی ادارے کے تقدس کو برقرار کھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔ جمعیۃ علماء ہندکی فسادات میں انسانیت کی خدمت کا موضوع اتنا وسعت رکھتا ہے کہ کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں، لیکن سردست اس عنوان کی مناسبت سے اس کی خدمات پر ایک نظر دوڑائی جائے ، تو یہاں بھی بہت سے تاریخی حوالے موجود ہیں چنانچہ سید المت حضرت مولانا محمد میاں صاحب مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی نور اللہ مرقدہ سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے’’ قطب صاحب خواجہ غریب نوازاور حضرت مجد د صاحب کی درگاہیں‘‘ کے عنوان کے تحت جمعیۃ علماء ہند کے کارناموں کو بیان فرماتے ہیں کہ
’’اس سلسلہ کی کڑی وہ عظیم الشان خدمت ہے، جو ہندستان کی مرکزی خانقا ہوں اور درگاہوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انجام پذیر ہوئی۔عرس کے متعلق علمائے دیو بند کا مسلک کچھ بھی ہو، مگر اکابر اولیاء اللہ سے اُن کی عقیدت کسی سے کم نہیں ہے ؛بلکہ اُن کا دعویٰ یہ ہے کہ صحیح عقیدت علمائے دیوبند ہی کو ہے۔ بہر حال یہاں اس بحث کا موقع نہیں ہے۔ یہاں تو یہ عرض کرنا ہے کہ یہ تین درگاہیں(درگاہ خواجہ حضرت سرہندیؒ ، درگاہ خواجہ حضرت غریب نواز ؒ اور درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین کاکیؒ )، جو نہ صرف ہندستان ؛بلکہ پوری دنیائے اسلام کی نظر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں، اس دورِ پُر آشوب کی تباہ کاریوں کی زد میں آچکی تھیں۔(روزنامہ الجمعیۃ ،۲۶؍فروروی ۱۹۶۳ء ، مجاہد ملت نمبر ، ص؍ ۱۲۹)
اسی تحریر میں آگے رقم طراز ہیں کہ
’’پھر اگر چہ سر ہند اور بسی سے کلی طور پر مسلمانوں کا تخلیہ ہوگیا اور اجمیر شریف کے تمام مسلمان حالات کی شدت سے مجبور ہوکر منتشر ہوگئے۔ البتہ وہاں خدام صاحب نے فی الواقع بڑی ہمّت و جرأت کا ثبوت دیا کہ خطرات کے بے پناہ ہجوم کے وقت بھی ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نواز کے آستانہ کو نہیں چھوڑا اور یہ بھی درست ہے کہ حضرت مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے اثرور سوخ نے کافی دست گیری کی ، لیکن عوامی لیڈر کی حیثیت سے جس نے سجادہ نشین اور خدام صاحبان کی خبر گیری کی اور ہمتیں بندھائیں، وہ مجاہد ملّت ہی تھے۔ رحمہ‘ اللہ۔ سر ہند شریف تو حضرت مجاہد ملت اس دور میں تشریف نہیں لے گئے، وہاں کی حاضری تو احقر(سید الملت حضرت مولانا محمد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند) سے متعلق فرمائی تھی۔ مگر اجمیر شریف بار بار خود تشریف لے گئے۔ پھر درگاہ حضرت بل وغیرہ میں حضرات خدام کی کافی تر جمانی کی ۔بلکہ ایک عرصہ تک ایسا رہا کہ نظم کے ذمہ دار گویا مجاہد ملتؒ ہی تھے۔ اجمیر کے حضرات ‘مجاہد ملت ہی سے مطمئن تھے۔ ہرموقع پر مجاہد ملت سے مشورہ لیتے۔ ہدایت حاصل کرتے اور انھی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتے تھے‘‘۔ (روزنامہ الجمعیۃ ، ۲۶؍فروروی ۱۹۶۳ء ،مجاہد ملت نمبر ، ص؍ ۱۲۹)
پھر آگے حضرت خواجہ قطب الدین صاحب کی درگاہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’ان تینوں درگاہوں میں قطب صاحب (یعنی درگاہ شریف حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ ) کی بارگاہ معلی کا معاملہ سب سے زیادہ پیچیدہ اور دشوار تھا۔ کیوں کہ خاص اس دور میں کہ پناہ گزینوں کا ٹڈی دل دہلی کی طرف بڑھ رہا تھا ،اس کو محفوظ رکھنے کا انتظام نہیں کیا گیا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہواکہ پوراقصبہ مہرولی۔ جہاں یہ درگاہ ہے۔ شرنارتھیوں کا شہر بن گیا تھا ۔کوئی ایک گھر بھی مسلمان کا نہیں رہا تھا۔ خانقاہ شریف کا کونا کوناشرنارتھیوں سے بھرا ہوا تھا ۔تقریباً ایک ہزار افراد خانقاہ میں رہتے تھے۔درگاہ کو خالی کرانے کی کوشش گویامہرولی میں بسنے والے ایک لاکھ شرنارتھیوں سے ٹکر لینی تھی۔سردار پٹیل کی ڈیوڑھی پرباربارحاضری دی گئی۔چیف کمشزاور ڈپٹی کمشز (رندھاوا)سے باربار التجائیں کی گئیں ۔مگر سب بے سود رہیں۔بالآخر مہاتماگاندھی کا دامن پکڑاگیا۔ غیر مناسب نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ ان کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی گئی اوراحقر کواس شہادت کے قلم بند کرنے میں بھی تأمل نہیں ہے کہ اس موقع پر سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ ( سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند )کی شیریں کلامی نے بڑا کام کیا۔ یہ پہلے گزر چکا ہے کہ گاندھی جی کے یہاں روزانہ صبح کو جاناان حضرات کا معمول تھا۔حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ اس حاضری کے وقت حضرت قطب صاحب کی کچھ باتیں ایسے انداز سے دیش کے باپو سے فرماتے تھے کہ مہاتماگاندھی کے دل میں اتر جاتی تھیں۔ چنانچہ گاندھی جی اتنے متأثر ہوچکے تھے کہ جب۹؍جنوری ۱۹۴۸ء سے گاندھی جی نے مرن برت رکھا، توبرت کھولنے کی آٹھ شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قطب صاحب رحمہ‘ اللہ کی خانقاہ مکمل طورپر خالی کرائی جائے۔ جب گاندھی جی کی شرط کامیاب ہوگئی اور خانقاہ خالی ہوگئی ۔‘‘ (روزنامہ الجمعیۃ ، ۲۶؍فروروی ۱۹۶۳ء ،مجاہد ملت نمبر ، ص؍۱۳۰)
اسی طرح جمعیۃ علماء ہند نے صرف مزارات کے تحفظ پر ہی زور نہیں دیا ؛ بلکہ خواجہ کی نگری میں واقع مدرسہ معینیہ کو بھی بحال کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، یہ مدرسہ خواجگان خواجہ ؒ کی یادگار اور انھیں کے نام گرامی پر اس کا نام معینیہ رکھا گیا ہے ۔ اس کے تعلق سے جمعیۃ کی کاردگی کا یہ تاریخی حوالہ ملاحظہ فرمائیے:
’’اجمیر کی بربادی کے بعد جہاں درگاہ معلّٰی حضرت خواجہ اجمیریؒ کے تحفظ اور اس کے انتظامات کی اصلاح کے لیے مولانا مرحوم (مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی ؒ سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند)نے بھرپور کوششیں کیں، وہاں مدرسہ معینیہ اجمیر کی نشأۃ ثانیہ بھی حضرت مرحوم کی مساعی جمیلہ کے سہارے عمل میں آئی۔ اس مدرسہ کا افتتاح بھی خود حضرت مولاناؒ نے ۲۱؍ مارچ ۱۹۵۲ء کو اپنے دست مبارک سے فرمایا اور پھر زندگی بھر اس کے معاملات و مسائل میں مدد فرماتے رہے۔(روزنامہ الجمعیۃ ،۲۶؍فروروی ۱۹۶۳ء ، مجاہد ملت نمبر ، ص؍ ۱۹۳)
تاریخ کے یہ حوالے اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ علمائے دیوبند اورجمعیۃ علماء ہند کی اجمیر شریف اور مزارات اولیا سے گہری عقیدت و محبت رہی ہے اوران کے مابین کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا ہے ۔ اگر کوئی مسلک و مشرب اس کے خلاف کوئی بات کہتا ہے ، تو وہ یقیناًتاریخ کے ان شواہدکو جھٹلانے کی جسارت کر رہا ہے ۔ اوراس کا مقصد تفرقہ بازی اور مسلکی تنافر کو ہوا دینے کی ایک مذموم کوشش ہے، جس کی بالکل بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔