تحریر:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
رابطہ: 9871552408
مسلمانوں کے ایک طبقہ کا عقیدہ یہ ہے کہ محرم الحرام غم کا مہینہ ہے ، کیوں کہ نواسہ رسول سردار نوجوانان جنت حضرت حسینؓ کو اسی مہینے کے عاشورہ کے دن بے دردی سے شہید کردیا گیا تھا۔ اس واقعہ کی بنیاد پر اس مہینے میں خوشی و مسرت پیدا کرنے والی کوئی بھی تقریب یا جشن منعقد کرنا اس کی حرمت کی پامالی تصور کرتے ہیں ؛ بالخصوص شادی بیاہ کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں ۔ حالاں کہ اسلام کی تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کا عمل اس عقیدے کی تردید کرتا ہے ؛ کیوں کہ خود سرکار دوجہاں ﷺ کے دو دو نکاح خود اسی مہینے میں ہوئے ہیں ۔ امہات المومنین حضرت ام سلمہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما کی شادی ماہ محرم الحرام میں ہی ہوئی ہے۔اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے اپنی سب سے چہیتی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ الزھرا کا نکاح بھی اسی مہینے کے سن ۲ ہجری میں کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے جگر کے ٹکڑے کا نکاح کس طرح فرمایا ہے۔
آں حضور ﷺ کے سامنے حضرت فاطمہؓ کے لیے کئی پیغامات آئے ؛ لیکن ہر پیغام پر آپ ﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی۔سب سے حضرت ابوبکر ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے اس سعادت کے حصول کی تمنا کی، لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انھیں دونوں صاحبان نے حضرت علی کو مشورہ دیا کہ وہ پیغام بھیجیں ۔ حضرت ام ایمن نے بھی اس کی تائید کی ۔ چنانچہ حضرت علی تیار ہوگئے اور شرماتے ہوئے کاشانہ نبوی پر حاضر ہوکراپنا مدعا عرض کیا ۔ حضور نے سن کر ارشاد فرمایا کہ اھلا و سھلا۔ لیکن ساتھ ہی حضور نے پوچھا کہ آپ کے پاس مہر میں دینے کے لیے کچھ ہے؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سرکار دو عالم نے پھر پوچھا کہ جنگ بدر میں جو زرہ ملی تھی وہ کہاں ہے؟ اس پر انھوں نے کہا کہ وہ تو موجود ہے۔ پھر سرکار نے فرمایا کہ وہی زرہ فاطمہ کو مہر میں دے دینا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ زرہ لے کر بازار گئے اور مدینہ نبوی کے مشہور و امین تاجر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے بازار میں آنے کی وجہ پوچھی ، تو حضرت علی نے جواب دیا کہ زرہ بیچنے آیا ہوں۔ حضرت عثمان غنیؓ نے پوچھا کتنے میں ؟ حضرت علی نے کہا ۴۸۰ درہم ۔ چنانچہ حضرت عثمان نے زرہ خرید لیا اور پیسہ ادا کردیے اور زرہ کو بھی شادی کے تحفہ کے طور پر حضرت علیؓکو واپس کردیا ۔ حضرت علیؓ پیسہ اور زرہ لے کر کاشانہ نبوت پر حاضر ہوئے اور دونوں چیزیں سرکار کی خدمت میں پیش کردیں۔اور حضرت عثمان کے اس حسن سلوک بھی تذکرہ کیا ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے حضرت عثمانؓ کو دعا دی اور رقم حضرت ابوبکرؓ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اور شادی کے سامان لے آؤ۔حضرت ابوبکرؓ نے ایک لحاف، ایک کھجور کی چھال بھرا ہوا گدا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو مٹی کے گھڑے لے آئے۔ جب تیاریاں مکمل ہوگئیں ، تو حضور ﷺ نے اپنے خادم حضرت انسؓ کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کے فلاں فلاں حضرات کو بلا لائیں۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں حضرات ابوبکر، عمر فاروق، عثمان غنی، سعد اور دیگر حضرات کو بلا لائے۔
مجلس نکاح منعقد ہوئی ۔ خود سرور کائنات نے بصیروت افروز خطبہ نکاح پڑھا اور ارشاد فرمایا کہ ائے علی! میں نے تمھارا نکاح فاطمہ بنت محمد سے چار سو مثقال حق مہر کے عوض کردیا ہے ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے منظور ہے۔پھر حضور ﷺ نے حضرات شیخین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ
انی اشھدکم انی زوجت فاطمۃ بعلی (کشف الغمہ ، ؍۱۵۴)
پھر زوجین کو دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
جمع اللہ شملکما و بارک علیکما و اخرج منکما کنزا طیبا (اصابہ)۔
ایجاب و قبول کے بعد کھجور سے بھری ایک پلیٹ منگوائی گئی اور مجلس میں تقسیم کردی گئی ۔
جب رخصتی کا وقت آیا تو حضرت علیؓ نے ایک مکان کرایہ پر لیا ۔ ادھر حضرت ام ایمن سیدہ کو لینے کے لیے آئیں۔ حضور نے امہات المومنین کو رخصتی کی تیاری کا حکم دیا ۔ رخصتی کی اس فرحت و غم کی ملی جلی کیفیت میں حضرت ام سلمہؓ نے کہا کہ ائے کاش اپنی بیٹی کی رخصتی کے وقت خدیجہ زندہ ہوتیں، یہ سننا تھا کہ فرط جذبہ محبت آنکھوں سے بہہ پڑا اور ارشاد فرمایا کہ خدیجۃ و این مثل خدیجہ صدقتنی وارزقتنی علی دین اللہ و اعانتنی علیہ بمالھا۔
ماں کی یاد نے حضرت سیدہ کو بھی بے چین کردیا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ۔ حضور نے تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یا فاطمۃ اللہ غنی و انتم الفقراء۔ پھر ارشاد فرمایا کہ فاطمۃ بضعۃ منی ۔ پھر پانی کا ایک پیالہ منگوایا ، اس میں اپنی کلی کا پانی ملاکر سیدہ کے جسم اطہر پر چھڑکا اور یہ دعا ارشاد فرمائی کہ
انی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطان الرجیم
حضرت سیدہ یہ دعا لے کر حضرت علی کے گھر رخصت ہوگئیں۔ یہ کرایہ کا مکان تھا ، جس پر حضرت فاطمہؓ نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ آپ حارثہ بن نعمان سے مکان مانگ لیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مجھے مانگنے میں عار محسوس ہورہی ہے۔ بعد میں جب یہ خبر حضرت حارثہ کو پہنچی ، تو وہ فورا خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور مکان کی پیش کش کی چنانچہ حضور نے برکت دعا دی اور پھر یہ دونوں اسی مکان میں منتقل ہوگئے۔