10 Aug 2018

حج

حج
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
mediajahazi.blogspot.com
شریعت اسلامی میں مقررہ عبادتوں کی ہیئتوں پر غور کیا جائے، تو تین طرح کی عبادتیں نظر آتی ہیں: (۱) بدنی عبادت، جیسے کہ نماز، ورزہ، ذکر تلاوت وغیرہ۔ (۲) مالی عبادت، جیسے کہ زکوٰۃ، صدقات، فطرہ وغیرہ۔ (۳) بدنی و مالی عبادت، جیسے کہ حج۔ حج ایک ایسی عبادت ہے، جس میں اپنا وجود بھی لگانا پڑتا ہے اور اس میں مال بھی خرچ ہوتا ہے۔ حج کے ستر ایام ہیں، جس کی شروعات یکم شوال سے ہوتی ہے اور دس ذی الحجہ کو تکمیل پذیر ہوتا ہے۔ حج سن ۹ ؍ ہجری میں فرض ہوا ہے۔ اس کے فرض ہونے کی پانچ شرطیں ہیں: (۱) مسلمان ہونا۔ (۲) عقل مند ہونا۔ (۳) بالغ ہونا۔ (۴) آزاد ہونا۔ (۵) استطاعت ہونا۔ مرد و عورت دونوں کے لیے استطاعت میں چار چیزیں شامل ہیں: (۱) اخراجات سفر کا ہونا۔ (۲) تندرست ہونا۔ (۳) راستہ مامون ہونا۔ (۴) جانا ممکن ہونا۔ اور صرف عورتوں کے لیے دو چیزیں اور استطاعت میں شامل ہیں: (۱) محرم ساتھ میں ہونا۔ (۲) حالت عدت میں نہ ہونا۔ 
فضائل حج
حج کی فضیلتوں پر مشتمل احادیث کا خلاصہ کیا جائے، تو تقریبا آٹھ قسم کے فضائل سامنے آتے ہیں، جن میں : 
(۱)سابقہ تمام گناہ یک بیک معاف ہوجاتے ہیں۔ 
(۲) حج زندگی کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ 
(۳) حاجی کے تلبیہ میں دیگر مخلوق بھی ہم نوائی کرتی ہے۔ 
(۴) ایک حاجی کو چار سو لوگوں تک کی سفارش کا حق ملتا ہے۔ 
(۵) حج میں خرچ کرنے کا ثواب جہاد میں خرچ کرنے کے برابر ملتا ہے، یعنی ایک کا بدلہ سات سو ملتا ہے۔ 
(۶) حج کرنے والا کبھی غریب نہیں ہوسکتا۔ 
(۷) حج بوڑھے، کمزور اور عورتوں کے لیے جہاد ہے۔ 
(۸) حج و عمرہ کے لیے جاتے ہوئے راستے میں انتقال ہوجائے، تو بلاحساب جنت میں جائے گا۔ 
فضیلت نمبر(۱) 
ابنشماسہ مَہری فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرو ابن العاصؓ بستر مرگ پر تھے، تو میں عیادت کے لیے حاضر ہوا۔میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کیا ہوا ہے اور زارو قطار رو رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے بیٹے نے پوچھا کہ ابا جان! آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے ایسی ایسی خوش خبری نہیں دی ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارا سب سے افضل عمل تو یہ ہے کہ ہم نے گواہی دی کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ پھر فرمایا کہ میری زندگی کے تین حصے ہیں۔
پہلا حصہ تو یہ ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سخت نفرت کرتا تھا اور میری دلی تمنا تھی کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ مجھے مل جائیں، تو میں انھیں قتل کردوں۔ اگر ایسی حالت میں موت آجاتی، تو بالیقین میں جہنمی ہوتا۔ 
دوسرا حصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عظمت اور محبت کو میرے دل میں ڈال دیا۔ تومیں کاشانہ نبوی ﷺ پر حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھایا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ یہ دیکھ کر سرکار کائنات ﷺ نے فرمایا کہ عمرو کیا ہوا؟ تو میں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ نبی امی فداہ امی و ابی نے فرمایا کہ کیا شرط رکھنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کہ میرے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، تبھی میں اسلام قبول کروں گا۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
اما علمت یا عمرو! ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ، و ان الھجرۃ تھدم ماکان قبلھا، و ان الحج یھدم ماکان قبلہ۔ (شرح السنۃ،کتاب الایمان،باب من مات ولایشرک باللہ شیئا)
ائے عمرو کیا تمھیں پتہ نہیں ہے کہ اسلام پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، ہجرت بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردیتی ہے اور حج سے بھی سابقہ تمام گناہ ختم کردیے جاتے ہیں۔
چنانچہ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ جس وقت اسلام قبول کیا، تو میری نگاہ میں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی اور محبوب نہیں رہ گیا تھا۔ کلمہ پڑھتے ہی آپ ﷺ کی عظمت و جلال میرے وجود پر اس قدر چھا گیا کہ میرے اندر رسول اللہ ﷺ کو نگاہ بھر دیکھنے کی بھی سکت نہیں رہ گئی۔ اگر اس حالت میں مجھے موت آجاتی، تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔ 
میری زندگی کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں دی گئیں، جن کے ادا کرنے میں کوتاہیاں سرزد ہوئیں، اس لیے اب پتہ نہیں کہ میرا کیا ہوگا۔ 
پھر آپؓ نے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر مرجاؤں تو رونے والی اور آگ میرے جنازے کے ساتھ نہ ہو۔ اور دفن کے بعد میری قبر پر اتنی دیر ٹھہرنا، جتنی دیر میں ایک اونٹ کو ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کردیا جاتا ہے تاکہ تمھاری قربت سے مجھے انسیت ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ حج کرنے سے پچھلی زندگی کے سبھی گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ 
فضیلت نمبر (۲) 
عن ابی ھریرۃؓ قال: سمعتُ رسول اللّٰہ ﷺ یقول: من حج للّٰہ، فلم یرفث، ولم یفسق، رجع کیوم ولدتہ امہ۔ (بخاری، کتاب الحج، باب فضل حج مبرور)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کا ارشاد سنا کہ جو شخص صرف اللہ کے لیے حج کرے، جس میں نہ توفحش گوئی کرے اور نہ ہیلڑائی جھگڑا،تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ آج ہی پید اہوا ہو۔ جس طرح ایک دن کا بچہ کوئی گناہ نہیں کرسکتا، نہ ہاتھ سے ، نہ پیر سے اور نہ ہی جسم کے کسی دوسرے اعضا سے، اسی طرح حاجی کی زندگی معصومیت کا عکس بن جاتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حج کو درج بالا تینوں شرطوں کے ساتھ کیا ہو۔ اس حدیث کی تشبیہ پر غور کریں، تو یہ پہلو سامنے آتے ہیں کہ 
(۱) انسانی زندگی میں سب سے زیادہ مشکل کام زچگی کا عمل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج بھی تمام عبادتوں میں سب سے مشکل کام ہے۔ 
(۲) پیدائش کے وقت زچہ بچہ دونوں زندگی اور موت کے مرحلے سے گذرتے ہیں۔ اسی طرح حج کا بھی معاملہ ہے کہ کیا پتہ کہ بری، بحری اور فضائی سفر حادثہ سے مامون رہے گا یا نہیں، یا حج کو زندگی ملے گی یا نہیں، یعنی قبول ہوگا کہ نہیں۔ 
(۳) پیدائش کے بعد زچہ بچہ دونوں کی طرز زندگی بدل جاتی ہے۔ اسی طرح حج کے بعد ایک حاجی کی زندگی میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی، تبھی حج مقبول ہونے کی امید ہے۔ 
(۴) ایک دن کا بچہ اپنے کسی بھی عضو سے گناہ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ حاجی کی بھی شان یہی ہونی چاہیے کہ اسے گناہوں سے سخت نفرت ہوجائے۔ 
(۵) زچہ بچہ دونوں انتہائی نگہ داشت کے محتاج ہوتے ہیں۔ حاجی کو بھی اپنے حج کے تعلق سے قدم قدم پر محتاط اور ہر عمل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
(۶) زچہ بچہ کی سلامتی کے بعد ساتویں دن عقیقہ کیا جاتا ہے۔ حج سے لوٹنے کے بعد مقبول حج کی تین علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ مہمان نواز بن جاتا ہے۔
یہ تمام اشارات شاہد ہیں کہ حج انسانی زندگی کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ اور نقطہ انقلاب ہے، جہاں سے حاجی کی زندگی کی ایک نئی شروعات ہوتی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو گناہوں کی کثافت سے پاک و صاف ہو اور اس کی رحمت و برکت سے دوسرے لوگ بھی بہرہ مند ہوں۔ 
فضیلت نمبر (۳) 
جب ایک حاجی حج کے لیے تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں اینٹ پتھر درخت جو مخلوق بھی ہوتی ہے زمین کی آخری حد تک اس کے تلبیہ کی ہم نوائی کرتی ہے۔ حضرت سہل ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ 
ما من مسلم یُلبی الا لبّٰی من عن یمینیہ او عن شمالہ من حجراو شجر او مدر، حتیّٰ تنقطع الارض من ھٰھنا و ھٰھنا۔ (سنن الترمذی، باب ما جاء فی فضل التلبیۃ)
فضیلت نمبر(۴)
حاجیوں کو اپنی قوم کے چار سو لوگوں کی سفارش کا حق مل جاتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ 
الحاج یشفع فی اربع مءۃ من قومہ۔ (مصنف عبد الرزاق، ج؍۵، ص؍ ۷)
فضیلت نمبر(۵) حج میں خرچ کرنے کااتنا ہی ثواب ہے ، جتنا کہ جہاد میں خرچ کرنے کا ثواب ہے، یعنی ایک کا بدلہ سات سو گنا ملتا ہے۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ 
النفقۃ فی الحج، کالنفقۃ فی سبیل اللّٰہ بسبع مءۃ ضعف۔ (مسند احمد، حدیث بریدۃ الاسلمی)
اس سے معلوم ہوا کہ حج کے سفر میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اور اخراجات سے طبیعت پر گرانی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے کریم ہونے کے آثار میں سے یہ ہے کہ اس کے سفر کا توشہ عمدہ ہو یا سفر میں خرچ کرنے سے طبیعت پر بوجھ محسوس نہ ہو۔
فضیلت نمبر(۶)
حدیث میں وعدہ ہے کہ جو شخص حج کر لے گا وہ شخص کبھی بھی غریب نہیں ہوسکتا، اس لیے جمع پونجی کو سفر حج میں خرچ کرنے سے اس لیے گریز نہ کرے کہ یہ ختم ہوجائے گا ہم غریب ہوجائیں گے، بلکہ اس سفر میں حصول ثواب کے لیے خرچ اور بڑھا دینا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ
عن جابر بن عبدا للہ یرفعہ: ما امعر حاج قط، فقیل لجابر: ما الامعار؟ قال: ما افتقر۔ (شعب الایمان للبیہقی، باب ما امعر حاج قط)
فضیلت نمبر(۷) 
بوڑھوں ، کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج ہے۔ ان حضرات کو حج کرنے سے جہاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔ 
عن عائشۃؓ استاذنتُ النبی ﷺ فی الجھاد، فقال: جھادکن الحج۔ (بخاری، جہاد النساء)
فضیلت نمبر(۸)
حج کے لیے جارہا تھا کہ راستے میں ہی انتقال ہوگیا تو قیامت تک اس کے لیے حج کا اجر لکھا جائے گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ 
من خرج حاجا فمات، کتب لہ اجر الحاج الیٰ یوم القیامۃ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، قطعۃ من المفقود)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حج کی سعادت سے نوازے ، آمین۔ 

بیہوش اور مریض وغیرہ کے احرام کا بیان

بیہوش اور مریض وغیرہ کے احرام کا بیان

قسط نمبر (20)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
احرام باندھنے کے وقت اگر کوئی شخص بیہوش ہوجائے، جیسا کہ جہاز میں ہوجاتا ہے، تو ساتھی کو چاہیے کہ اپنا احرام باندھ کر یا اس سے پہلے بیہوش کی طرف سے بھی احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لے ۔ جب ساتھی نے اس کی طرف سے احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لیا تو بیہوش کا احرام بندھ گیا۔ 
مسئلہ: بیہوش کی طرف سے احرام باندھنے کے لیے اس کے کپڑے نکالنا ضروری نہیں، کپڑے نکالے بغیر بھی احرام صحیح ہوجائے گا ؛ مگر اس کے کپڑے نکال لینا چاہیے تاکہ اس پر جزا لازم نہ آئے۔ 
مسئلہ: بیہوش کو جس کا احرام اس کے ساتھی نے باندھا ہے، جس وقت ہوش آجائے تو تعیین احرام کرکے باقی افعال حج خود ادا کرے۔ اور ممنوعات احرام سے بچے۔ اور اگر ہوش نہ آئے تو جس شخص نے اس کی طرف سے احرام کی نیت کی ہے ، وہ یا اور کوئی دوسرا شخص وقوف عرفہ اور طواف وغیرہ اس کی طرف سے نیت کرکے ادا کرے گاتو حج ہوجائے گا۔ بیہوش کو ساتھ لے جانا ضروری نہیں ؛ مگر بہتر یہ ہے کہ ساتھ لے جائے ۔ اور جو شخص ایسے بیہوش کی طرف سے طواف اور سعی کرے ، اس کو اپنا طواف اور سعی علاحدہ کرنی ہوگی۔ ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی دونوں کی طرف سے کافی نہ ہوگی۔ البتہ اگر بیہوش کو ساتھ اٹھا کر لے جائے اور اپنی اور اس کی دونوں کی نیت کرے تو اس صورت میں ایک ہی طواف اور سعی کافی ہوگی، اس لیے کہ جب بیہوش پیٹھ پر سوار ہے تو وہ خود طواف کر رہا ہے ، اسی طرح سعی میں شریک ہے۔ 
مسئلہ: اگر بیہوش سے کوئی فعل ممنوعات احرام میں سے ہوگیا ، اگرچہ بلا ارادہ اور بے خبری میں ہوا ہے، اس کی جزا بیہوش پر ہی لازم آئے گی ۔ اس پر لازم نہیں آئے گی جس نے اس کی طرف سے احرام باندھا ہے ۔ 
مسئلہ: جو شخص اپنا احرام باندھے اور بیہوش کی طرف سے بھی احرام باندھے، اگر وہ ممنوعات احرام کرے گا، تو صرف ایک ہی جزا اس پر واجب ہوگی ، اور وہ اپنے احرام کی ہوگی۔ 
مسئلہ: اگر احرام کے بعد کوئی شخص بیہوش ہوجائے، تو اس کو عرفات اور طواف وغیرہ میں ساتھ لے جانا ضروری ہے ، دوسرے شخص کی نیابت کافی نہ ہوگی۔ اور جب ایسے بیہوش کو کوئی دوسرا شخص طواف کرائے تو کرانے والے کے لیے طواف کی نیت کرنی شرط ہے ۔ 
مسئلہ: اگر بیہوش کو خود اٹھا کر طواف کرایا اور نیت طواف کی اپنی طرف سے کرلی تو دونوں کو ایک طواف کافی ہوجائے گا۔ 
مسئلہ: اگر اٹھانے والے حج کا طواف کرتا ہے اور بیہوش کو عمرہ وغیرہ کا طواف کراتا ہے تب بھی جائز ہے، نیت مختلف ہونے کا کچھ مضائقہ نہیں۔ 
مسئلہ: کوئی مریض بیہوش نہ ہواور وہ احرام کے وقت سو جائے اور کسی دوسرے کو احرام باندھنے کے لیے کہہ دے اور دوسرا اس کی طرف سے احرام باندھ لے تو احرام صحیح ہوجائے گا۔ جاگنے کے بعد باقی افعال حج خود ادا کرے اور ممنوعات احرام سے بچے ۔ اور اگر اس کے حکم کے بغیر دوسرے نے احرام باندھ لیا تو اس کا احرام صحیح نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر ایسے مریض کو کوئی دوسرا شخص طواف سونے کی حالت میں کرائے تو اس کے لیے بھی اس کا حکم اور فورا طواف کرانا شرط ہے ۔ اگر اس کے حکم کے بغیر یا کچھ دیر کے بعد طواف کرایا تو طواف نہ ہوگا۔ 
قسط نمبر(21) کے لیے کلک کریں

9 Aug 2018

تلبیہ کے مسائل


تلبیہ کے مسائل

قسط نمبر (19)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
تلبیہ یعنی لبیک کا زبان سے کہنا شرط ہے ، صرف دل سے کہنا کافی نہیں ہے۔ 
مسئلہ: گونگے کو زبانی ہلانی چاہیے اگرچہ الفاظ ادا نہ ہو۔ 
مسئلہ: ہر ایسا ذکر جس سے حق تعالیٰ کی تعظیم مقصود ہو، تلبیہ کے قائم مقام ہوسکتا ہے، جیسے لا الٰہ الا اللہ ۔ الحمد للہ۔ سبحان اللہ۔ اللہ اکبر وغیرہ۔ 
مسئلہ: تلبیہ اردو، فارسی، ترکی وغیرہ سب زبانوں میں جائز ہے۔ اگرچہ عربی میں بھی کہہ سکتا ہے ، مگر عربی میں کہنا افضل ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: تلبیہ کے خاص الفاظ جو پہلے بیان ہوئے ، ان کا کہنا سنت ہے شرط نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا ذکر احرام کے وقت کرے گا، تو احرام صحیح ہوجائے گا، لیکن تلبیہ کا چھوڑنا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: احرام باندھتے وقت تلبیہ یا تلبیہ کے قائم مقام کا ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے اور تکرار سنت۔ جب تلبیہ پڑھے ، تین مرتبہ پڑھے۔ 
مسئلہ: زمان و مکان اور حالات کے تغیر کے وقت تلبیہ پڑھنا مستحب ہے ، اس لیے صبح، شام، نماز کے بعد، کسی سے ملتے، جدا ہوتے وقت، اوپر نیچے ہوتے ہوئے، سوار ہوتے ہوئے، اترتے ہوئے تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ (ہدایہ)
حضرت سفید ابن زبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت احرام باندھا، تو آپﷺ کے تلبیہ کے بارے میں صحابہ کرام کے اختلاف سے حیران ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا میں اس کو سب سے اچھا جانتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے تو صرف ایک حج کیا ہے اور یہیں سے وہ لوگ مختلف ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ حج کے لیے نکلے ، جب ذوالحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی، تو آپ ﷺ نے اسی مجلس میں احرام باندھا۔ آپ ﷺجب دو رکعت سے فارغ ہوئے، تو آپ ﷺنے حج کا تلبیہ پڑھا، تو بہت سے لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے بھی اس کو یاد رکھا ۔ پھر آپ ﷺسوار ہوئے اور اونٹنی کھڑی ہوئی، تو پھر آپ ﷺنے تلبیہ پڑھا۔اور ایک قوم نے اس کو آپ ﷺ سے محفوظ کیا۔ اور یہ اس لیے کہ لوگ گروہ در گروہ آرہے تھے ، تو جب آپﷺ کو اونٹنی لے کر کھڑی ہوئی اور آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا،تو لوگوں نے سنا اور انھوں نے کہنا شروع کیا کہ جس وقت اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوئی، اس وقت آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ چلے۔ جب میدان کی بلندی پر چڑھے ،تو پھر آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا، اس کو ایک قوم نے آپ ﷺ سے سنا اور انھوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ﷺ نے احرام کا تلبیہ اس وقت پڑھا جب کہ میدان کی بلندی پر چڑھے۔ خدا کی قسم ! آپ ﷺ نے احرام کا تلبیہ تو نماز کی جگہ ہی پر پڑھا اور اس وقت بھی پڑھا جب کہ اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوئی۔ اور اس وقت بھی پڑھا جب میدان کی بلندی پر چڑھے، تو جس نے ابن عباسؓ کے قول کو لیا، تو اس نے مصلیٰ ہی پر احرام کا تلبیہ پڑھا، جب کہ دو رکعتوں سے فارغ ہوئے۔ (ابو داود ، حاکم)
مسئلہ: تلبیہ پڑھنے کے درمیان کسی نے سلام کیا، تو اس درمیان میں جواب دینا جائز ہے ، واجب نہیں ؛ مگر بہتر یہ ہے کہ تلبیہ ختم کرکے جواب دے ، بشرطیکہ سلام کرنے والا چلا نہ جائے۔ 
مسئلہ: فرض اور نفل نماز کے بعد بھی تلبیہ پڑھنا چاہیے ۔ ایام تشریق میں پہلے تکبیر تشریق کہے۔ پھر تلبیہ پڑھے۔ اگر تلبیہ پڑھا تو تکبیر ساقط ہوجائے گی ۔ مگر تلبیہ دسویں تاریخ کی رمی کے ساتھ ساقط ہوجاتا ہے ، اس لیے باقی ایام تشریق میں صرف تکبیر ہوگی۔ 
مسئلہ: اگر مسبوق امام کے ساتھ تلبیہ کہہ لے گاتو نماز فاسد ہوجائے گی ۔ 
مسئلہ: تلبیہ کی کثرت مستحب ہے۔ 
مسئلہ: اگر چند آدمی ساتھ ہوں تو ایک ساتھ مل کر تلبیہ نہ کہیں، علاحدہ علاحدہ کہیں۔ 
مسئلہ: تلبیہ میں آواز بلند کرنا مسنون ہے، لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ خود کو یا دوسرے نمازیوں اور سونے والوں کو نقصان پہنچے۔ 
قالَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ: أتانی جبرئیلُ فاَمَرَنی أن اٰمُرَ أصحابی أن یرفعوا أصواتَھُم بالاِھلالِ أو التلبیۃِ (رواہ مالک والترمذی و ابو داود والنسائی وابن ماجہ والدارمی و صححہ الترمذی وابن حبان)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے ، پس انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو حکم دوں کہ تلبیہ پڑھنے میں اپنی آواز کو بلند کریں۔ 
عنایہ میں ہے کہ ہمارے نزدیک دعا اور اذکار میں اخفا مستحب ہے، لیکن اگر اس کے اعلان میں دینی مقصد ہو، جیسے اذان ، خطبہ اور ان کے علاوہ ۔ تلبیہ سے بھی مقصد دین اسلام کی سربلندی کا اظہار ہے ، اس لیے زور سے پڑھنا مستحب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
افضلُ الحج والعمرۃ العَجُّ والثَّجُّ۔ (متفق علیہ)
بہترین حج بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا اور خون بہانا یعنی قربانی کرنا ہے۔ 
مسئلہ: مسجد حرام ، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں بھی تلبیہ پڑھو، لیکن مسجد میں زور سے نہ پڑھو۔ 
مسئلہ: طواف اور سعی میں تلبیہ نہ پڑھو۔
مسئلہ: تلبیہ کے الفاظ میں زیادتی کرنا مستحب ہے ، لیکن زیادہ درمیان میں نہ کریں؛ بلکہ بعد میں کریں۔ 
کانَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ یرکعُ بذی الحلیفۃَ اَھَلَّ بِھٰؤلاءِ الکلماتِ و یقولُ: لَبَّیْکَ ألْلّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرَ فِیْ یَدَیْکَ والرَّغْبِاءُ اِلَیکَ والْعَمَلُ۔ (متفق علیہ)
رسول اللہ ﷺ ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھتے اور 
لَبّیکَ أللّٰھُمَّ لَبّیکَ، لَبَّیکَ لا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ۔
کے ساتھ کہتے: 
لَبَّیْکَ ألْلّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرَ فِیْ یَدَیْکَ والرَّغْبِاءُ اِلَیکَ والْعَمَلُ۔
مسئلہ: تلبیہ کے الفاظ میں کمی کرنا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: جب کوئی عجیب چیز نظر آئے تو یہ کہے:
لَبَّیْکَ اِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْاٰخِرَۃُ۔ 
مسئلہ: عورت کو تلبیہ زور سے پڑھنا کہ اجنبی مرد سن لے، منع ہے ۔ 
مسئلہ: تلبیہ حج میں رمی کرنے کے وقت تک پڑھا جاتا ہے۔ دسویں ذی الحجہ کو جب جمرہ عقبیٰ کی رمی شروع کرے تو تلبیہ بند کردے، اس کے بعد نہ پڑھے۔ 
اِنَّ النبیَ ﷺ مازالَ یُلَبِّی حتّٰی رَمی جمرۃَ العَقْبَۃِ (متفق علیہ و زاد ابن ماجہ فلما رماھا قطع التلبیۃ) 
نبی کریم ﷺ ہمیشہ تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ کی رمی کی یہ تو بخاری مسلم میں ہے اور ابن ماجہ نے اتنا زیادہ کیا ہے کہ پھر جب اس کی رمی کی تو تلبیہ بند کردیا ۔ اور عمرہ میں طواف شروع کرنے تک پڑھا جاتا ہے۔ 
تلبیہ کی فضیلت کا بیان
تلبیہ پڑھنے کا بڑا ثواب ہے۔ حضرت سہل ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
ما مِنْ مُسْلِمٍ یُلبِّی اِلَّا لَبّٰی مَنْ عَنْ یَمِینِہِ و شِمالِہِ مِنْ حَجَرٍ وَ شَجَرٍ اوْ مَدَرٍ حَتّٰی تَنقِطِعُ الارضُ مِن۔ ھٰھُنا وَ ھٰھُنا۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجۃ)
جب کوئی مسلمان تلبیہ پڑھتا ہے ، پتھر یا درخت یا ڈھیلا جو بھی دائیں بائیں ہوتا ہے، وہ بھی تلبیہ پڑھتا ہے؛ یہاں تک کہ زمین ادھر سے ادھر منقطع ہوجاتی ہے ، یعنی تلبیہ کا سلسلہ دائیں سے بائیں زمین کی آخری حد کو پہنچ جاتی ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تلبیہ پڑھنے والے ، تکبیر کہنے والے جنتی ہیں ۔ جب کوئی بندہ حج میں تلبیہ پڑھتا ہے اور تکبیر کہتا ہے تو اس کو بشارت دی جاتی ہے ۔ کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا یہ بشارت جنت کی ہوتی ہے ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ، جنت کی۔ (طبرانی)
احرام کی نماز کا بیان
دو رکعت نفل احرام کی نیت سے ایسے وقت میں پڑھنا مسنون ہے کہ وقت مکروہ نہ ہو۔
مسئلہ: فرض نماز کے بعد اگر احرام کی نیت کرلی تو یہ بھی کافی ہے ؛ لیکن مستقل دو رکعت نفل پڑھنا افضل ہے۔ 
مسئلہ: جس میقات سے احرام باندھنا ہے، اگر اس جگہ کوئی مسجد ہے تو اس میں نماز پڑھ کر احرام باندھنا مستحب ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے ذوالحلیفہ کی مسجد میں نماز پڑھی تھی۔ 
مسئلہ: بغیر نماز پڑھے احرام باندھنا جائز ہے، لیکن مکروہ ہے ۔ اگر وقت مکروہ ہے تو پھر مکروہ نہیں ۔ بغیر نماز کے احرام باندھ لے۔ 
مسئلہ: عورت کو حیض و نفاس کی صورت میں غسل یا وضو کرکے قبلہ رو بیٹھ کر کے تلبیہ پڑھ لینا چاہیے، نماز نہ پڑھے۔ 
مسئلہ:احرام سے پہلے جو نماز احرام باندھنے کے لیے پڑھے، وہ کھلے سر نہ پڑھے؛ البتہ احرام باندھ کر جو نماز پڑھے، وہ کھلے سر پڑھے اور جب تک احرام رہے ، اسی طرح پڑھے۔ احرام کی حالت میں نماز میں بھی سر ڈھانکنا منع ہے۔ 

8 Aug 2018

जमीयत यूथ क्लब क्या और क्यों-?

जमीयत यूथ क्लब क्या और क्यों-?
मोहम्मद यासीन कासमी जहाज़ी [9871552408]
अनुवाद ; अनवार अहमद नूर [9811141899 ]




जुलाई 2018 में 24 दिनांक दिन सोमवार को शहर देवबन्द में जमीयत उलमा ए हिन्द के नेत्रत्व में लगभग पिछले चार वर्षो से चल रहे भारत स्काउट एंड गाइड का एक कौशलता पूर्ण आयोजन हुआ और इसी प्रोग्राम में जमीयत यूथ क्लब को भी परिचित कराया गया ,कौशलता एवं प्रदर्शन वाले इस आयोजन में प्राथमिक सहायता [फ़र्स्ट ऐड ] और प्रभावितों को राहत देने का कार्य कैसे किया जाये और अपने अन्दर जनसेवा करने का भाव कैसे भरा जाये इसके उपायों पर प्रशिक्षण से भरा प्रदर्शन किया गया .प्रदर्शन की यह खबर मिडिया में जंगल में आग की तरह फैली और कुछ चैनलों ने सच्चाई से मुहं मोड़ते हुए प्रोग्राम को कुछ नकारात्मक भूमिका वाली संस्थाओं की गतिविधियों से जोड़ दिया .यह खबर वायरल हो जाने की वजह से लोगों में सच्चाई जानने की जिज्ञासा पैदा हुई यह लेख इसी जिज्ञासा की संतुष्टि के लिए एक प्रयास है
सबसे पहला प्रश्न यह है कि जमीयत यूथ क्लब क्या है ? यह तो आप जानते ही हैं कि विभिन्न राजनीतिक और अराजनीतिक संस्थाओं को कार्यशील रखने के लिए कैडर और वालंटियर की आवश्यकता होती है जो लगभग हर जीवित सरगर्म संगठनों और पार्टियों के पास होते हैं जमीयत भी इसी उद्देश्य से अपने वालंटियर को जोड़ने का कार्य कर रही है जिसको जमीयत यूथ क्लब का नाम दिया गया है इस सवाल का एक जवाब तो यह था और दूसरा जवाब यह है कि जमीयत यूथ लकब कोई नया मामला नहीं है बल्कि 20वा महाधिवेशन जो 9/10/11—1960 में स्वीक्रत जमीयत उलमा ए हिन्द के संविधान-नियमावली की धारा 93 में दर्ज खुद्दाम मिल्लत के गठन के तहत उसका मूल व संरचनात्मक ढांचा है जिसका नाम जमीयत यूथ क्लब रखा गया है यह क्लब बुज़ुर्गों के सपनों को साकार करने का सुनहरा शीर्षक है और समय की आवश्यकता है यह क्लब जमीयत उलमा हिन्द के अध्यक्ष हज़रत मौलाना क़ारी सय्यद मोहम्मद उस्मान मंसूरपुरी और हज़रत मौलाना सय्यद महमूद असद मदनी महासचिव जमीयत उलमा हिन्द की दूरदर्शिता का परिणाम है और भारत वर्ष में इस्लाम धर्म के स्वर्णिम भविष्य का संकेत भी है जैसा कि आप जानते हैं कि जमीयत उलमा ए हिन्द का हर कार्य क़ुरान व हदीसों के निर्देशों के अनुसार किया जाता है इसलिए इस क्लब के भी दो मूल उद्देश्य हैं जिनके हवाले हदीसों में मौजूद हैं 
1-शक्तिशाली मोमिन तैयार करना ,
इस उद्देश्य का स्रोत नबी करीम [सल्ल०] का यह फरमान है कि [अनुवाद ] ताकतवर मोमिन अल्लाह के नजदीक कमज़ोर मोमिन से ज़्यादा बेहतर और महबूब है 
2-मानवता का जन – सेवक बनाना 
यह इस नबवी फरमान का व्यवहारिक प्रमाण है कि [अनुवाद] यानि लोगों को लाभ पहुँचाने वाला सबसे अधिक बेहतर शख्स [व्यक्ति ]होता है 
इन दोनों उद्देश्यों की पूर्ती करते हुए जमीयत उलमा हिन्द के संविधान –बायलाज की धारा 93 सूची नम्बर -2 में कहा गया है कि जमीयत उलमा ए हिन्द के निर्देशों के अनुसार 
समाजी और जमाअती सेवाएं अंजाम देना 2 – बिना किसी धर्म –वर्ग के भेदभाव के असहायों की सहायता और जनसेवा करना 3 – शांति स्थापना देश सुरक्षा और देश की तरक्की के प्रोग्रामों में स्वयं और दूसरी संस्थाओं के साथ भाग लेना 
4 –मुसलमानों में दीनी रुझान पैदा करना 5 –स्काउटिंग के तरीक़े पर प्रशिक्षण प्राप्त करना
देवबन्द में आयोजित प्रोग्राम के अवसर पर इस क्लब के परिचय व कार्यशैली पर आधारित जो विवरणिका –पुस्तिका प्रस्तुत की गयी है उसमें लिखित उपरोक्त नियम व उद्देश्यों के अलावा प्रवेश –सदस्यता की शर्तें भी बताई गयी हैं जो संविधान –बायलाज की धारा 93 सूची न० -3 से ली गयी है संविधान का विवरण यह है कि-; 3 –प्रवेश की शर्तें -; इस संस्था में हर वह व्यस्क [बालिग़ ] और बुद्धिवान मुसलमान दाख़िल हो सकता है जो जमीयत उलमा हिन्द के उद्देश्यों और कार्यशैली से पूर्ण सहमत हो 
1-जमीयत उलमा हिन्द के निर्देशों का पालन करने और उसके प्रोग्रामों को सफ़ल बनाना 
2 –धर्म का सम्मान और जहाँ तक सम्भव हो शरीयत का पालन करना 
3 – नेक चलन रहने ,जनसेवा और हर एक के साथ सद्व्यवहार का प्रण करें 
4 – जमीयत उलमा ए हिन्द का पारित शपथ पत्र स्वीकार करें 
5 –उसकी उम्र कम से कम 18 वर्ष हो और शारीरिक ताकत के सम्बन्ध से स्वयं सेवक सेवाएं करने की योग्यता रखता हो 
पुस्तिका -विवरणिका में इसके अलावा क्लब का झंडा ,वर्दी और संस्था के संगठनात्मक विवरण पर भी प्रकाश डाला गया है इसलिए इसके अनुसार जमीयत उलमा ए हिन्द का झंडा ही इस क्लब का झंडा होगा इसके अलावा टोपी और पोशाक पर जमीयत का मोनोग्राम उसकी वर्दी का भाग होगा और इन सबके हवाले संविधान की धारा -93 की सूचियों में मौजूद हैं 
जमीयत यूथ क्लब का प्रस्तुत किया संविधान – बायलाज और कार्य प्रणाली के अनुसार इसके तीन प्रोसेस हैं इसमें शामिल होने वालों को सबसे पहले भारत स्काउट एंड गाइड की ट्रेनिंग दी जाएगी इसके बाद जमीयत यूथ क्लब में शामिल किया जायेगा और फिर उसमे से चयनित लोगों को खुद्दाम – ए –मिल्लत का मेम्बर बनाया जायेगा और यही लोग जमीयत उलमा ए हिन्द के असली खादिम और वालंटियर बनेगें 
इसकी ट्रेनिंग में दो प्रकार की ट्रेनिंग का वर्णन किया गया है जो दोनों इसके दोनों मूलभूत उद्देश्यों के द्रष्टिगत निर्धारित किये गये हैं पहला उद्देश्य ताकतवर मोमिन बनाने के लिए शारीरिक ट्रेनिंग को अनिवार्य किया गया है जिसमें स्काउट की ट्रेनिंग आवश्यक की गयी है और दूसरा उद्देश्य लाभदायक मोमिन बनाने के लिए मानसिक प्रशिक्षण को रखा गया है जिसके अनुसार दो एक्शन प्लान हैं लघु व दीर्घ अवधि वाले प्लान ! लघु अवधि प्लान में जनवरी 2019 तक दस हज़ार नौजवानों को क्लब का मेम्बर बनाने का टारगेट [ध्येय ] रखा गया है जबकि लम्बी अवधि वाले प्लान में दस वर्षीय प्लान पेश किया गया है इसके अनुसार आने वाले 2028 तक सवा करोड़ नौजवानों को इससे जोड़ा जायेगा इसका अर्थ यह हुआ कि हर साल बारह लाख पचास हज़ार लोगों को मेम्बर बनाया जायेगा 
संविधान – बायलाज में संस्था के संगठनात्मक ढांचे का विवरण भी दिया गया है जिससे छह पदों का वर्णन किया गया है सबसे छोटी यूनिट के ज़िम्मेदार का नाम मानीटर रखा गया है जो दस लोगों पर होगा इसके बाद दूसरा पद आर्गनाइज़र का है जो हर पांच मानीटर यानि पचास लोगों पर होगा तीसरा पद नकीब का है जो पांच ऑर्गनाइज़र यानि दो सौ पचास लोगों पर चयनित किया जायेगा नकीब के बाद राईद होगा जो पांच नकीब यानि एक हज़ार दो सौ पचास लोगों पर चयनित होगा फिर पांच राईद यानि छह हज़ार दो सौ पचास लोगों पर रियासती सालार होगा और सारे रियासती सालार राष्ट्रीय स्तर पर चयनित सालार ए मिल्लत के आधीन होंगे 
इस तरह खुद्दाम ए मिल्लत के पदाधिकारियों का विवरण भी दिया गया है जिनमें पांच पदों का सिलसिला है उच्च स्तर से केन्द्रीय ,राज्य ,ज़िला नाज़िम सेक्रेटरी आर्गनाइज़र,आर्गनाइजिंग मेम्बर और आम सदस्य हैं किसी भी अभियान –आन्दोलन के टारगेट का निर्धारण उसके उद्देश्यों से किया जाता है जमीयत यूथ क्लब के संविधान की पुस्तिका और जमीयत उलमा ए हिन्द के केन्द्रीय अध्यक्ष व सचिवों के बचाने की रोशनी में यह कहा जा सकता है कि भारतीय संविधान और कानून के अन्दर रहते हुए यहां के मुस्लिम नागरिकों को मुल्क व मिल्लत और इंसानियत के लिए कारगर –उपयोगी बनाने के लिए जमीयत यूथ क्लब का गठन है पीड़ितों ,असहायों की आह सुनना और जनसेवा के लिये सदैव तत्पर रहना इसके सदस्यों की विशेष पह्चान होगी इससे जुड़े लोग दीनी प्रभाव से इस तरह भरपूर होंगे कि उनकी ज़िन्दगी नबी की सीरत के नमूने बन जायेंगे और रहमतुल्ल आलमीन के उम्मती अपने अन्दर जनसेवा के भाव से भरे होंगे और जिस संस्था अभियान के यह उद्देश्य हों उसे किसी नकारात्मक भूमिका वाली संस्था से जोड़ना वास्तव में सच्चाई को मुहं चिढ़ाना होगा इसलिए जो लोग इसके ख़िलाफ़ गलत बयान से काम ले रहे हैं वह वास्तव में ईर्ष्या ,घ्रणा और नकारात्मक विचार –चरित्र के समर्थक –पालक हैं जिन्हें सच्चाई और इंसानी हमदर्दी से चिढ़ है आइये दुआ करें अल्लाह ताअला इस अभियान को घटिया सोच हरकतों एवं षड़यंत्रों से सुरक्षित रखे और उसे कौम व मिल्लत और भारत के लिए लाभकारी बनाये! आमीन!

احرام کا حکم

احرام کا حکم
قسط نمبر (18)  


تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جب احرام باندھ لیا، تو اس کا حکم یہ ہے کہ جس چیز کا احرام باندھا ہے اس کو پورا کرکے ہی احرام کھولے۔ اگر کوئی ایسا فعل بھی ہوجائے، جس سے احرام فاسد ہوجاتا ہے ، تب بھی تمام افعال حج کے ادا کرے اور اگر حج نہ ملے تو عمرہ کرکے حلال ہوجائے ۔ اور اگر کوئی روک دے ، تو قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد حلال ہو۔ 
مسائل احرام

نیت کے مسائل
مسئلہ: احرام کی نیت دل سے ہونا ضروری ہے۔ زبان سے کہنا صرف مستحسن ہے ، جس کا احرام باندھنا ہے دل میں اس کی نیت کرنی چاہیے کہ حج کا احرام باندھتا ہوں، یا حج اور عمرہ دونوں کا، یعنی قران کا، یا میقات سے عمرہ کا اور حرم سے عمرہ کے بعد حج کا یعنی تمتع کا ۔ اگر دل سے نیت کرلی اور زبان سے کچھ نہیں کہا تو نیت ہوجائے گی۔ 
مسئلہ: اگر کسی نے احرام باندھا اور حج یا عمرہ کسی کی نیت نہ کی، تو احرام صحیح ہوگیا۔ اب اس کو افعال حج یا عمرہ کے شروع کرنے سے پہلے تعیین کرلینا چاہیے ۔ اگر بلا تعینن افعال شروع کردیے؛ اگر عمرہ کے شروع کیے تو عمرہ کا احرام ہوا۔ یا حج کے افعال شروع کیے اور طواف سعی سے پہلے وقوف عرفہ کرلیا ،تو حج کا احرام ہوا۔
مسئلہ: حج کا احرام باندھا لیکن فرض یا نفل کی تعیین نہیں کی تو یہ احرام فرض کا ہوگا، اگر اس پر حج فرض ہے۔ اور اگرنذر یا نفل یا کسی دوسرے کی طرف سے حج کی نیت کرلی تو جیسی نیت کرے گا ویسا ہوگا۔ 
مسئلہ: کسی حج یا عمرہ یا قران کا احرام باندھا اور پھر بھول گیا یا شک ہوگیا کہ کس کا احرام باندھا تھا، تو ایسے شخص کو حج اور عمرہ دونوں کرنا چاہیے۔ اور عمرہ پہلے کرنا چاہیے جس طرح قارن کرتا ہے ؛ لیکن یہ شخص شرعا قارن نہ ہوگا، اس پر قران کی ہدی لازم نہ آئے گی۔ 
مسئلہ: اگر حج بدل ہے ، تو جس کی طرف سے حج کرنا ہے اس کی طرف سے نیت کرے اور زبان سے بھی کہے کہ فلاں کی طرف سے حج کی نیت کی اور اس کی طرف سے احرام باندھا۔

7 Aug 2018

احرام کے صحیح ہونے کی شرطیں

احرام کے صحیح ہونے کی شرطیں

قسط نمبر (17)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
احرام کے صحیح ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں: 
(۱) اسلام یعنی احرام باندھنے والا مسلمان ہو۔
(۲) نیت اور تلبیہ یا تلبیہ کے قائم مقام کوئی ذکر اور ہدی کے گلے میں پٹہ ڈالنا اور اس کو چلانا بھی تلبیہ کے قائم مقام ہے۔ 
مسئلہ: صرف حج کی نیت کرنے سے احرام درست نہیں ہوتا؛ بلکہ تلبیہ یا اور کوئی ذکر جو اس کے قائم مقام ہو کرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح نیت کے بغیر صرف تلبیہ پڑھ لینے سے احرام صحیح نہیں ہوگا؛ بلکہ نیت کے ساتھ تلبیہ پڑھنے سے احرام درست ہوگا۔ (بحر الرائق)
مسئلہ: احرام کے صحیح ہونے کے لیے کسی خاص زمانہ یا کسی خاص مکان یا کوئی خاص ہیئت کی ضرورت نہیں ہے ، اگر کوئی موسم حج سے پہلے اور میقات آنے سے پہلے اپنے گھر ہی سے احرام باندھ لے ، تو درست ہے۔ 
اسی طرح اگر کسی نے سلہ ہوئے کپڑوں ہی میں احرام باندھ لیا ، وہ بھی صحیح ہے ، مگر سلے ہوئے کپڑوں میں احرام باندھنا مکروہ ہے ۔ اور اس کے بعد سلے ہوئے کپڑوں کے پہنے رکھنے سے جزا لازم آئے گی، صدقہ یا قربانی، جس کا بیان آگے آئے گا۔ 
واجبات احرام
احرام میں تین چیزیں واجب ہیں: 
(۱) میقات سے احرام باندھنا۔ 
(۲) ممنوعات احرام سے بچنا۔ 
(۳) ایک مرتبہ تلبیہ پڑھنا۔ 
احرام کی سنتیں
احرام باندھنے کے لیے نو سنتیں ہیں:
(۱) حج کے مہینوں میں احرام باندھنا۔ 
(۲) اپنے ملک کی میقات سے احرام باندھنا جب کہ اس سے گذرے۔ 
(۳) غسل یا وضو کرنا۔ 
(۴) چادر اور لنگی استعمال کرنا۔ 
(۵) دو رکعت نماز پڑھنا۔ 
(۶) تلبیہ پڑھنا۔ 
(۷) تین مرتبہ پڑھنا۔ 
(۸) بلند آواز سے پڑھنا۔ 
(۹) احرام سے پہلے خوشبو لگانا۔ 
احرام کے مستحبات
احرام کے لیے دس چیزیں مستحب ہیں: 
(۱) میل دور کرنا۔ 
(۲) ناخن کترنا۔ 
(۳) بغل صاف کرنا۔ 
(۴) زیر ناف کے بال دور کرنا۔
(۵) احرام کی نیت سے غسل کرنا۔ 
(۶) لنگی چادر نئی سفید یا دھلی ہوئی استعمال کرنا۔ 
(۷) چپل پہننا۔ 
(۸) زبان سے احرام کی نیت کرنا۔ 
(۹) نیت نماز کے بعد بیٹھ کر کرنا۔ 
(۱۰) میقات سے پہلے اپنے گھر ہی میں احرام باندھنا ۔ 

احرام کی قسمیں


احرام کی قسمیں

قسط نمبر (16)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
احرام کی چار قسمیں ہیں :
(۱) افراد یعنی صرف حج کا احرام باندھنا۔
(۲) تمتع یعنی اول عمرہ کا احرام باندھنا او رموسم حج میں عمرہ سے فراغت کے بعد حج کا احرام باندھنا۔ 
(۳) قرآن یعنی حج اور عمرہ کا ایک ہی ساتھ احرام باندھنا۔ 
(۴) صرف عمرہ کا احرام باندھنا، حج کے مہینوں کے علاوہ ، خواہ حج سے پہلے یا حج کے بعد یا بغیر حج کے صرف عمرہ کرنا۔ 
جو شخص صرف حج کا احرام باندھے، اس کو مفرد کہتے ہیں۔ اور جو تمتع کرے ، اس کو متمتع کہتے ہیں ۔ اور جو قران کرے، یعنی حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھے ،اس کو قارن کہتے ہیں۔ اور جو صرف عمرہ کرے ،اس کو معتمر کہتے ہیں۔ 
مسئلہ: حج کی تینوں قسمیں جائز ہیں ، لیکن حنفیہ کے نزدیک سب سے افضل قران ہے ، پھر تمتع ، پھر افراد ۔ (ہدایہ)۔
مسئلہ: آفاقی کے لیے تینوں قسمیں جائز ہیں ، لیکن مکہ والوں کے لیے قران اور تمتع ناجائز ہے۔ 
قسط نمبر(17) کے لیے کلک کریں

3 Aug 2018

جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟

جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟
محمد یاسین قاسمی جہازی
۲۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء پیر کے دن شہر علم دیوبند میں ، جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام تقریبا گذشتہ چار سال سے جاری بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کا مظاہرتی پیروگرام ہوا۔ اور اسی پروگرام میں جمعیۃ یوتھ کلب کو بھی متعارف کیا گیا۔ مظاہرتی پروگرام میں آفات و حادثات کے مواقع پر وسائل کے بغیرمتاثرین میں فرسٹ ایڈ اور راحت رسانی کا کام کیسے کیا جائے اور اپنے اندر انسانی خدمت کے جذبہ کے کیسے پیدا کیا جائے؛ اس قسم کے طریقوں پر مشتمل تربیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرہ کی یہ خبر بھارتی میڈیا میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور کچھ چینلوں نے حقیقت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ،پروگرام کو کچھ منفی کردار والی تنظیموں کی سرگرمیوں سے جوڑ دیا۔ یہ خبر ٹرینڈ ہوجانے کی وجہ سے لوگوں میں حقیقت جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ یہ تحریر اسی تجسس کی تسکین کی ایک کوشش ہے۔ 
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کو متحرک و فعال رکھنے کے لیے کیڈر اور والنٹیر کی ضرورت ہوتی ہے، جو تقریبا ہر زندہ تنظیموں اور پارٹیوں کے پاس ہوتے ہیں۔ جمعیۃ بھی اسی مقصد سے اپنے والٹنیر کو جوڑنے کا کام کر رہی ہے، جس کو جمعیۃ یوتھ کلب کا نام دیا گیا ہے۔ اس سوال کا ایک جواب تو یہ تھا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ جمعیۃ یوتھ کلب کوئی نیا معاملہ نہیں ہے؛ بلکہ 20 / واں اجلاس عام منعقدہ 9/10/11/ 1960 میں منظور کردہ دستور اساسی جمعیۃ علماء ہند کی دفعہ (93) میں مذکور خدام ملت کی تشکیل کے تحت اس کا بنیادی و ضمنی ڈھانچہ ہے، جس کا نام جمعیۃ یوتھ کلب رکھا گیا ہے۔ یہ کلب بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر کا حسین عنوان ہے اور وقت کے نبض کی صحیح تشخیص ہے۔ یہ کلب جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری حفظہ اللہ اور حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی دور رس نگاہوں کا پرتو جمیل ہے۔ اورہند میں ملت اسلامی کے سنہرے مستقبل کا اشاریہ بھی ہے۔ 
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کا ہر کام قرآن و احادیث کی ہدایات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کلب کے بھی دو بنیادی مقاصد ہیں، جن کے حوالے احادیث میں موجود ہیں۔
(۱) طاقت ور مومن تیار کرنا۔اس مقصد کا سرچشمہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ المومن القوی خیر و احب الیٰ اللہ من المومن الضعیف۔ یعنی طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے۔ 
(۲) انسانیت کا خدمت گار بنانا۔یہ اس نبوی فرمان کا عملی مظہر ہے کہ خیرکم من ینفع الناس۔یعنی لوگوں کو نفع پہنچانے والا سب سے زیادہ بہتر شخص ہوتا ہے۔ 
ان دونوں مقاصد کے دائرہ کارکا تعین کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی دستور اساسی کی دفعہ (۹۳) شق نمبر ۲ میں کہا گیا ہے کہ ’’جمعیۃ علماء ہند کی ہدایات کے بموجب:
(الف) سماجی اور جماعتی خدمات انجام دینا۔
(ب) بلا امتیاز مذہب و ملت مظلوموں کی امداد اور خلق خدا کی خدمت کرنا۔
(ج) قیام امن، حفاظت وطن اور ملک کے تعمیری پروگراموں میں تنہا یا دوسری جماعتوں کے ساتھ حصہ لینا۔
(د) مسلمانوں میں دینی رجحان پیدا کرنا۔
(ھ) اسکاؤٹنگ کے طریقے پر تربیت حاصل کرنا۔‘‘
دیوبند میں منعقد پروگرام کے موقع پر اس کلب کے تعارف و طریق کار پر مشتمل جو کتابچہ پیش کیا گیا ہے، اس میں درج بالا اغراض و مقاصد کے علاوہ شرائط داخلہ بھی بیان کیا گیا ہے، جو دستور اساسی کی دفعہ (۹۳) شق نمبر ۳ سے لیا گیا ہے۔ دستور کا متن یہ ہے کہ 
’’۳۔ شرائط داخلہ
اس تنظیم میں ہر وہ عاقل و بالغ مسلمان داخل ہوسکتا ہے ، جو جمعیۃ علماء ہند کے مقاصد اور طریقۂ کار سے پورا اتفاق رکھتا ہو۔
(الف) جمعیۃ علماء ہند کی ہدایا ت پر عمل کرنے اور اس کے پروگراموں کو کامیاب بنانے ۔
(ب) احترام مذاہب اور حتیٰ الامکان پابندیِ شریعت کرنے۔
(ج) نیک چلن رہنے ، خدمت خلق اور ہر ایک ساتھ اخلاق سے پیش آنے کا عہد کرے ۔
(د) جمعیۃ علماء ہند کا منظور کردہ عہد نامہ منظور کرے۔
(ہ) اس کی عمر کم سے کم ۱۸؍ سال ہو اور جسمانی قوت کے لحاظ سے رضا کارانہ خدمات انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔(دستوراساسی، ص؍ ۳۶؍۳۷۔ دستخط شدہ : محمود اسعد مدنی، ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، ۲۸،۲۹؍ مئی ۲۰۰۵ء ؁)
کتابچہ میں اس کے علاوہ کلب کا جھنڈا، وردی اور تنظیمی خاکہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، چنانچہ اس کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کا جھنڈا ہی اس کلب کا جھنڈا ہوگا، علاوہ ازیں جمعیۃ کے جھنڈے کلر کی ٹوپی اور لباس پر جمعیۃ کا مونو گرام اس کی وردی کا حصہ ہوگا۔ اور ان سب کے حوالے دستور کی دفعہ (۹۳) کی ذیلی شقوں میں موجود ہیں۔ 
جمعیۃ یوتھ کلب کا پیش کردہ دستور اور طریق عمل کے مطابق ،اس کے تین پروسیس ہیں: اس میں شامل ہونے والوں کو سب سے پہلے بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کی ٹریننگ دی جائے گی، بعد ازاں جمعیۃ یوتھ کلب میں شامل کیا جائے گا۔ اور پھر اس میں سے منتخب افراد کو خدام ملت کا ممبر بنایا جائے گا۔ اور یہی افراد جمعیۃ علماء ہند کے اصل خادم اور والنٹیر قرار پائیں گے۔ 
اس کی ٹریننگ میں دو قسم کی ٹریننگ کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو دونوں اس کے دونوں بنیادی مقاصد کے پیش نظر طے کیا گیا ہے۔پہلا مقصد طاقت ور مومن بنانے کے لیے جسمانی ٹریننگ کو لازم کیا گیاہے، جس میں اسکاؤٹ کی ٹریننگ لازمی کی گئی ہے ۔ اور دوسرا مقصد نافع بخش مومن بنانے کے لیے ذہنی تربیت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت اسوہ نبوی ﷺ پر عمل، دینی خدمات کی ترغیب اور خدمت خلق کا جذبہ و داعیہ پیدا کرنے کے لیے مختلف پروگرام کیے جائیں گے۔ 
جمعیۃ یوتھ کلب کا ایکشن پلان بھی پیش کیا گیا ہے، جس کے مطابق دو ایکشن پلان ہیں: قلیل مدتی اور طویل مدتی۔ قلیل مدتی میں جنوری ۲۰۱۹ء تک دس ہزار نوجوانوں کو کلب کا ممبر بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے ، جب کہ طویل مدتی پلان میں دس سالہ منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اس کے مطابق آنے والے ۲۰۲۸ء تک سوا کروڑ نوجوانوں کو اس سے جوڑ ا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سال بارہ لاکھ پچاس ہزار افراد کو ممبر بنایا جائے گا۔ 
دستور میں تنظیمی ڈھانچہ کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں، جس میں چھ عہدوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، سب سے چھوٹی یونٹ کے ذمہ دار کا نام مانیٹر رکھا گیا ہے، جو دس افراد پر ہوگا۔ اس کے بعد دوسرا عہدہ آرگنائزر کا ہے، جو ہر پانچ مانیٹر یعنی پچاس افراد پر ہوگا۔ تیسرا عہدہ نقیب کا ہے، جو پانچ آرگنائزر یعنی دو سو پچاس افراد پر منتخب کیا جائے گا۔ نقیب کے بعد رائد ہوگا، جو پانچ نقیب یعنی ایک ہزار دو سو پچاس افراد پر منتخب ہوگا۔ پھر پانچ رائد یعنی چھ ہزار دو سو پچاس افراد پر ریاستی سالار ہوگا۔ اور سارے ریاستی سالار قومی سطح پر منتخب سالار ملت کے ماتحت ہوں گے۔
اسی طرح خدام ملت کے عہدیداران کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں، جن میں پانچ عہدوں کا تسلسل ہے اعلی ترتیب سے مرکزی؍ریاستی؍ ضلعی ناظم،سکریٹری،آرگنائزر، آگنائزنگ ممبر اور عام ممبر ان ہیں۔ 
کسی بھی تحریک کے ہدف کا تعیین اس کے مقاصد سے کیا جاتا ہے۔ جمعیۃ یوتھ کلب کے دستوری کتابچہ اور جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی صدر و ناظم صاحبان کے بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی آئین و قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے یہاں کے مسلم شہریوں کو ملک و ملت اور انسانیت کے لیے کار آمد و فعال بنانے کے لیے جمعیۃ یوتھ کلب کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔مظلوموں اور مصیبت زدوں کی آہ سننا اور خدمت خلق کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا اس کے ممبران کی خصوصی شناخت ہوگی۔ اس سے وابستہ افراد دینی رجحانات سے اس طرح لبریز ہوں گے کہ ان کی زندگی نبوی سیرت کے عملی مجسمے بن جائیں گے۔اور رحمۃ اللعالمین کے امتی اپنے اندر بھی خلق خدا کے تئیں الفت و محبت کے جذبہ سے سرشار نظر آئیں گے۔ 
اور جس تحریک و تنظیم کے یہ مقاصد ہوں، اسے کسی منفی کردار والی تنظیموں سے جوڑنا ، یقیناًحقیقت کا منھ چڑھانا ہوگا، لہذا جو لوگ اس کے خلاف غلط بیان سے کام لے رہے ہیں، در حقیقت کالے دل اور منفی نظریات و کردار کے پرستار ہیں، جنھیں سچائی اور انسانی ہمدردی سے چڑھ ہے۔ 
آئیے دعا کریں اللہ تعالیٰ اس تحریک کو تمام شرور فتن سے محفوظ رکھے اور اسے قوم و ملت اور بھارت کے لیے نافع بنائے ، آمین۔ 

2 Aug 2018

احرام باندھنے کا طریقہ

احرام باندھنے کا طریقہ
قسط نمبر (15)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جب بدن کی صفائی سے فراغت ہوجائے تو سلے ہوئے کپڑے اتار دے اور دو کپڑے نئے سفید بے سلے ایک چادر اور لنگی اوڑھ لے۔ بدن اور کپڑوں میں تیل ، خوشبو جو میسر ہو لگائے۔
عن زید بن ثابت انہ رأیٰ النبی ﷺ یجرد لِاھلالِہِ و غَسَلَ (رواہ الترمذی والدارمی)
زید ابن ثابت سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ احرام کے لیے سلے ہوئے کپڑوں سے خالی ہوئے اور غسل فرمایا۔ 
اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے ۔ سلام پھیر کر قبلہ ہی رو بیٹھے اور سر کھول کر اسی جگہ نیت کرے ، یعنی دل سے یہ ارادہ کرے کہ حج یا عمرہ یا دونوں کا ارادہ کرتا ہوں ۔ اگر زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہہ لے ، تو بہتر ہے ۔ اگر صرف عمرہ کی نیت ہو، تو کہے:
أللّٰھم انی ارید العمرۃ فیَسِّرْھا لی و تَقَبَّلْھَا مِنِّی۔ 
ائے اللہ ! میں نے عمرہ کا ارادہ کیا ہے تو اس کو میرے لیے آسان کر اور میری طرف سے قبول فرما۔
اور حج کا ارادہ ہو تو کہے: 
أللّٰھُمَّ انی اریدُ الحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِیْ و تَقَبَّلْہُ مِنّی۔
ائے اللہ! میں نے حج کا ارادہ کیا تو اس کو میرے لیے آسان کر اور میری طرف سے اس کو قبول فرما۔
اور اگر حج اور عمرہ دونوں کا ارادہ ہوتو کہے کہ: 
أللّٰھُمَّ انی اریدُ الحَج والعمرۃَ فَیَسِّرْہُما لِیْ و تَقَبَّلْھُما مِنِّی۔ 
الٰہی! میں حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتا ہوں ، تو ان دونوں کو میرے لیے آسان کردے اور تو ان دونوں کو میری طرف سے قبول فرما۔ 
اور اگر عربی میں نہ کہے تو اردو میں کہہ لے۔ اس کے بعد بلند آواز سے تین مرتبہ تلبیہ پڑھے۔ تلبیہ یہ ہے:
لَبّیکَ أللّٰھُمَّ لَبّیکَ، لَبَّیکَ لا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ۔ (ہدایہ)
اس کے بعد درود شریف پڑھے۔ اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔ یہ دعا مستحب ہے:
ألْلّٰھُمَّ اِنِّی أسْءَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّارِ۔ 
الٰہی! میں تجھ سے تیری رضا اور جنت چاہتا ہوں اور تیرے غضب اور دوزخ سے تیری پناہ ڈھونڈھتا ہوں۔ 
اِنَّ النبیَ ﷺ کانَ اذا فَرَغَ مِنْ تْلبِیَتِہِ سَءَلَ اللّٰہَ رِضْوانَہُ والجَنَّۃَ واسْتَعفَاہُ بِرَحْمَتِہِ مِنَ النَّارِ (رواہ الشافعی)
نبی کریم ﷺ جب تلبیہ سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے ان کی رضا مندی اور جنت اور اس کی رحمت سے دوزخ سے پناہ ڈھونڈتے۔ 
و فیِ رِوایۃ الدارمی والبیھقی اَنَّ النبیَ ﷺ کانَ یُصَلِّی علیٰ نَفْسِہِ بعدَ تلْبِیَتِہِ۔ 
نبی اکرم ﷺؑ تلبیہ کے بعد اپنے اوپر درود پڑھتے۔ 
و رویٰ ابو داود والدارقطنی عن القاسم بن محمد ﷺ أنَّہ قالَ یَستحِبُّ للرَّجُلِ الصلوٰۃ علیٰ النبی ﷺ بعدَ التلْبِیَۃِ ۔
تلبیہ کے بعد مستحب ہے کہ نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے۔ 
اگر پہلا حج ہو، تو فرض کی نیت خاص طور سے کرنا اور زبان سے کہہ لینا بہتر ہے ۔ نیت کرلینے اور تلبیہ پڑھ لینے کے بعد احرام بندھ گیا ۔ اب ان چیزوں سے بچے جس کا کرنا محرم کے لیے منع ہے۔ 
قسط نمبر (16) کے لیے کلک کریں

1 Aug 2018

احرام کا بیان

احرام کا بیان 
قسط نمبر (14)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جس طرح نماز کے لیے تحریمہ ہو تا ہے کہ نماز کے افعال وہیں سے شروع ہوتے ہیں اور تحریمہ کے بعد بہت سی جائز چیزیں، جو منافی نماز ہیں، ان کے لیے نا جائز ہوجاتی ہیں، اسی طرح احرام کے بعد سے افعال حج شروع ہوتے ہیں اور بہت سی جائز چیزیں اس کے لیے ناجائز ہوجاتی ہیں ۔ احرام کے معنی ہیں: حرام کرنا ۔
نماز کا تحریمہ نیت کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہنے سے بندھ جاتا ہے، اسی طرح حج کا احرام نیت کے ساتھ تلبیہ پڑھنے سے بندھ جاتا ہے۔احرام باندھنے سے پہلے حاجی کو پوری طہارت حاصل کرلینا مستحب ہے ۔( نور الایضاح ) 
پوری طہارت یہ ہے کہ زیر ناف اور بغل کا بال صاف کرے۔ ناخن کٹوائے۔ مونچھ کتروائے۔ بیوی ساتھ ہو، تو صحبت سے بھی سکون حاصل کرلے۔ سر منڈوالے یا سر کو صابون وغیرہ سے دھولے۔ بدن کا میل کچیل دور کرے۔ غسل سے فارغ ہونے کے بعد بدن اور سر میں تیل کی مالش کرلے۔ سر وغیرہ میں کنگھی کرلے اور بدن اور کپڑوں میں خوشبو مل لے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مروی ہے کہ 
کان رسولُ اللّٰہِ ﷺ اذا أرادَ أن یحرم غَسَلَ رأسَہُ بِخطمی و اشنان و دَھَنَہُ بِزیتٍ۔ (دار قطنی)
رسول اللہ ﷺ جب احرام کا ارادہ فرماتے، تو اپنے سر کو خطمی اور اشنان سے دھولیتے اور سر میں زیتون کا تیل لگاتے۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
قالت: کنتُ اطیبُ رسولَ اللّٰہِ ﷺ لِاِحرامِہِ قبلَ أن یحرمَ و لِحلہِ قبل أی یطوفَ بالبیتِ بطیبٍ فیہِ مسکٌ کأنی انظرُ الیٰ وبیض الطیبِ فی مفارقِ رسولِ اللّٰہِ ﷺ و وھو محرمٌ۔ (متفق علیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ احرام سے پہلے میں رسول اللہ ﷺ کو احرام کے لیے اور بیت اللہ کے طواف (زیارت) سے پہلے احرام کھولنے کے لیے ایسی خوشبو لگاتی ، جس میں مشک ہوتا تھا، گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں ، حالاں کہ آپﷺ محرم ہوتے۔ (بخاری و مسلم)
یعنی احرام کے بعد بھی اس خوشبو کا اثر ظاہر ہوتا، جو احرام سے قبل لگائی جاتی ۔
در مختار میں ہے کہ اگر اس کے پاس خوشبو ہو تو اپنے بدن میں لگائے اور ایسی خوشبو جس کا جسم باقی رہے اپنے کپڑوں میں نہ لگائے، یہی صحیح ہے۔
اور فتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ مستحب یہ ہے کہ سر کی چکٹ ، بدن کا میل کچیل، خطمی ، اشنان وغیرہ سے دھوکر دور کرے اور جونسا تیل چاہے لگائے، خوشبو دار ہو یا بے خوشبو۔ علمائے حنفیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ احرام سے پہلے ایسی خوشبو لگانا، جس کا عین باقی نہیں رہتا ہے جائز ہے، اگرچہ اس کی خوشبو احرام کے بعد باقی رہے۔اسی طرح ایسی خوشبو جس کا جسم احرام کے بعد باقی رہے، جیسے مشک اور غالیہ ، ہمارے نزدیک ظاہری روایت میں مکروہ نہیں ہے، اور یہی صحیح ہے ، اسی طرح محیط میں ہے ۔ اور ایسی خوشبو جس کا جسم احرام کے بعد باقی رہے، کپڑوں میں لگانا صاحبین کی دو روایتوں میں سے ایک روایت کی بنا پر کل کے قول پر جائز نہیں۔ (عالمگیری)
احرام کے لیے جو غسل مسنون ہے ، وہ محض صفائی کے لیے ہے، اس لیے وہ بھی غسل کرلے، جو غسل سے پاک نہ ہو، جیسے حیض ، نفاس والی عورت، جیسا کہ حضور ﷺ نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو فرمایا، جب کہ وہ نفاس میں تھیں:
اغتسِلی واستشفری بثوب و احرمی
تو نہالے اور لنگوٹ کس لے اور احرام باندھ لے (مسلم)
مسئلہ: اگر غسل نہ کرسکے، تو وضو کرے۔ بلا غسل اور وضو کے احرام باندھنا جائز ہے ؛ مگر مکروہ ہے ۔
مسئلہ: اگر پانی نہ ہو تو احرام کے لیے غسل کا تیمم مشروع نہیں ہے ، اس لیے کہ تیمم سے جسم کی صفائی نہیں ہوتی ہے ۔ البتہ نماز کے لیے غسل کا تیمم جائز ہے ۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔
مسئلہ: احرام کی چادر اتنی لمبی ہو کہ داہنے کندھے سے نکال کر بائیں کندھے پر سہولت سے آجائے اور تہہ بند اتنا ہو کہ ستر اچھی طرح سے چھپ جائے ۔
مسئلہ: احرام میں کرتہ پاجامہ، اچکن ، صدری، بنیان وغیرہ پہننا منع ہے ۔ جو کپڑا بدن کی ہیئت پر سلا ہوا ہو، اس کا پہننا احرام میں جائز نہیں۔ 
مسئلہ: چادر یا لنگی اگر بیچ میں سے سلی ہوئی ہو، تو جائز ہے ،مگر بہتر یہی ہے کہ احرام کا کپڑا بالکل سلا ہوا نہ ہو۔
مسئلہ: احرام کا کپڑا سفید ہونا افضل ہے۔ 
مسئلہ: کمبل ، لحاف، رزائی وغیرہ احرام میں اوڑھنا جائز ہے۔
مسئلہ: ایک کپڑا بھی احرام میں کافی ہے اور دو سے زائد بھی جائز ہے ۔ رنگین بھی جائز ہے ؛ لیکن کسم یا زعفران میں رنگا ہوا نہ ہو۔
قسط نمبر 15 کے لیے کلک کریں

31 Jul 2018

میقات سے بلا احرام باندھے گذرجانا

میقات سے بلا احرام باندھے گذرجانا

 قسط نمبر (13)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
کوئی آفاقی عاقل بالغ میقات سے بغیر احرام کے آگے گذر جائے، تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ کر پھر میقات پر آئے اور احرام باندھے۔ اگر میقات پر آکر احرام نہیں باندھا؛ بلکہ وہیں سے احرام باندھ لیا ،تو اس پر دم واجب ہوگا۔ لوٹ کر میقات سے احرام باندھنے میں کوئی دم نہیں ہے ۔
عن بن عباسؓ قال: اذا جاوز الوقت فلم یحرم حتی دخل مکۃ رجع الیٰ الوقت فاحرم وان خشی ان رجع الیٰ الوقت فانہ یحرم ویحریق لذلک دما ( رواہ اسحاق بن راھویہ فی مسندہ)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا: جب کوئی شخص میقات سے آگے بڑھ جائے اور احرام نہ باندھے، یہاں تک کہ مکہ آجائے، تو وہ میقات کی طرف لوٹے اور احرام باندھے۔ اور اگر میقات کی طرف لوٹنے میں ( حج فوت ہونے کا یا جان کا )ڈر ہو،تو وہیں احرام باندھ لے اور میقات پر احرام نہ باندھنے کی وجہ سے دم دے ۔
مسئلہ : میقات سے بلا احرام گذرا اور آگے جاکر احرام باندھا اور مکہ پہنچنے سے پہلے لوٹا اور میقات پر پہنچ کر تلبیہ پڑھ لیا، تو دم ساقط ہوگیا۔ اگر تلبیہ نہیں پڑھا ،تو دم ساقط نہیں ہوگا ۔
مسئلہ: میقات پر احرام نہیں باندھا اور آگے چل کر احرام باندھااور مکہ بھی پہنچ گیا، مگر افعال حج شروع نہیں کیا تھا کہ پھر لوٹ کر میقات پر آیا اور تلبیہ پڑھا، تو دم ساقط ہوجائے گا ۔
مسئلہ : میقات سے بغیر احرام کے گذرا اور آگے چل کر احرام باندھا، تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ کر میقات پر آئے ،ورنہ گنہگار ہوگا اور دم بھی واجب ہوگا ۔البتہ اگر واپس آنے میں جان ومال کا خطرہ یا حج کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو،یا بیماری کی وجہ سے نہیں آسکتا ہے، تو ایسی صورت میں واپس آناواجب نہیں؛ لیکن دم واجب ہوگا، جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ کے قول سے معلوم ہوا ۔
مسئلہ : اگر میقات سے گذر کر آگے احرام باندھا اور پھر میقات پر واپس نہیں آیا، یا کچھ افعال شروع کرنے کے بعد واپس آیا، تودم ساقط نہیں ہوگا، قربانی ہوگی ۔
مسئلہ :جو شخص کسی میقات سے بلا احرام کے گذرا ہے، اس پر یہ واجب نہیں کہ اسی میقات پر واپس آئے؛ بلکہ کسی میقات پر مواقیت مذکورہ میں سے آنا کافی ہے؛ ہاں افضل یہی ہے کہ اسی میقات پر واپس آئے، جس سے گذرا تھا ۔
مسئلہ: کوئی آفاقی میقات سے آگے جانا چاہتاہے، مگر ایسی جگہ جارہا ہے، جو حرم کے حددو کے اندر داخل نہیں ہے؛ بلکہ حل میں ہے ،تووہاں جانے کے لیے میقات سے احرام باندھنا واجب نہیں، بغیر احرام باندھے جاسکتاہے اور پھر وہاں سے حرم کے حدود میں،یا مکہ جانا چاہے ،تو بغیر احرام کے جاسکتا ہے ،اس پر کوئی دم نہیں، یعنی جب حل کسی غرض سے گیا، تو وہ حلی ہوگیا اور حلیوں کے لیے حرم میں بغیر احرام کے جانا درست ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے آفاقیوں ہی کو بغیر احرام کے میقات سے آگے بڑھنے سے منع کیا ہے اور حل میں پہنچ کر اگر وہاں سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنا چاہے ،تو حل سے احرام باندھ لے ۔
مسئلہ: میقات پر جو ارادہ ہے اسی کا اعتبار ہے ۔ اگر اس کے بعد ارادہ بدل دے، تو اس کا اعتبار نہیں ۔ میقات پر مکہ کا ،یا حج، یاعمرہ کاارادہ تھا، مگر میقات پر احرام نہیں باندھا، آگے چل کر حل کا ارادہ کیا، تو یہ ارادہ دم ساقط نہیں کرے گا، کیوں کہ بغیر احرام کے آگے بڑھا ہے؛ البتہ اگر میقات ہی کے اندر حل کا ارادہ تھا اور بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا، پھر مکہ کا ارادہ ہوگیا، تو اس پر کوئی دم نہیں؛ لیکن اس کو حل کے اندر احرام باندھ لینا چاہیے ۔
مسئلہ : آفاقی شخص اگر حرم میں، یا مکہ میں بلا احرام کے داخل ہوجائے، تو اس پر ایک حج، یا عمرہ کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔اگرکئی مرتبہ اسی طرح بلا احرام داخل ہوا،تو اتنا ہی مرتبہ اس پر حج ،یا عمرہ واجب ہوگا ۔
مسئلہ: مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونے کی وجہ سے جو حج یا عمرہ واجب ہواتھا، اس کے قائم مقام حج فرض، یا حج نذر، یا عمرہ نذر ہوجا ئے گا، اگر چہ اس کی نیت نہ کی ہو، بشرطیکہ اسی سال حج یا عمرہ کیا ہوجس سال داخل ہوا تھا۔ اگر یہ سال گذر گیا، تو پھر اس کے لیے مستقل حج یا عمرہ واجب ہوگا ۔
مسئلہ : جو لوگ میقات کے رہنے والے ہیں ،جیسے ذوالحلیفہ والے، یا میقات اور حرم کے درمیان رہتے ہیں، اگر وہ حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ جائیں ،تو ان پر حل کے اندر احرام باندھنا واجب ہے ۔(ہدایہ) اور اگر حج یا عمرہ کے ارادہ سے نہ جائیں، تو ان کے لیے احرام باندھ کر جانا واجب نہیں ہے، بلااحرام مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی وہ آفاقی، جو حل میں مقیم ہو گیا ،ان کو بھی جب حج ،یا عمرہ کا ارادہ نہ ہو،تو بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا جائز ہے۔(فتح القدیر )

30 Jul 2018

حلی کی میقات

حلی کی میقات
قسط نمبر (12)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جو لوگ میقات میں، یا میقات اور حدود حرم کے درمیان میں رہتے ہیں، ان کے لیے کل زمین حل میقات ہے۔ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے جہاں چاہے احرام باندھ لے، لیکن گھر سے احرام باندھنا افضل ہے ۔(ہدایہ)
حرمی کی میقات 
حج کے لیے مکہ اور حدود حرم میں رہنے والے کے لیے حرم کی کل زمیں میقات ہے ، حدود حرم میں جہا ں چاہے احرام باندھ لے ۔ (ہدایہ)اور عمرہ کے لیے میقات حل ہے، جیسا کہ حضرت عائشہؓ کو آپ ﷺنے عمرہ کے احرام کے لیے تنعیم بھیجا ۔(بخاری و مسلم ) 
مسئلہ : آفاقیوں کے لیے جو میقات بیان کی گئی ہیں، یہ خاص ان ممالک والوں کے لیے بھی میقات ہیں اور جو لوگ دوسرے ممالک کے رہنے والے مکہ مکرمہ کو جاتے ہوئے ان میقاتوں سے گزرتے ہیں، ان کے لیے بھی یہ میقات ہیں ،جیسا کہ روایت سے واضح ہوا۔
مسئلہ : آفاقیوں کے لیے اگر وہ مکہ یا حرم کے ارادے سے سفر کرے، تو اس کو میقات پر پہنچ کر حج یا عمرہ کا احرام باندھنا واجب ہے، خواہ حج یا عمرہ کا ارادہ ہو یا نہ ہو ۔ (ہدایہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
لا یجاوز الوقت الا بالاحرام ( رواہ ابن ابی شیبہ)
احرام کے بغیر کوئی میقات سے آ گے نہ بڑھے ۔
مسئلہ : مکہ یا حرم میں حج یا عمرہ کے ارادہ سے جائے، یا تجارت و سیر کے لیے جائے، بہر صورت میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا واجب ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ : میقات پر آنے سے پہلے بھی احرام باندھنا جائز ہے، بلکہ افضل یہ ہے کہ اپنے گھرہی سے احرام باندھ لے، بشرطیکہ ممنوعات احرم میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو؛ ورنہ مکروہ ہے ۔ (ہدایہ) 
سئل علی رضی اللہ عنہ عن قولہ عز وجل: واتمو الحج والعمرۃ للّٰہ فقال: ان تحرم من دویرہ اھلک ( رواہ الحاکم فی تفسیرہ من المستدرک وقال: صحیح علی شرط شیخین)
حضرت علیؓ سے اللہ تعالیٰ کے قول و اتموا الحج والعمرۃ کے بارے میں سوال کیا گیا، آپؓ نے فرمایا: حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھو۔ 
مسئلہ: اگر کوئی شخص خشکی میں، یا سمند ر میں ایسے راستہ سے مکہ جارہا ہے کہ اس میں کوئی میقات مذکورہ بالا میقاتوں میں سے نہیں آئے گی، تو اس کو مذکورہ بالا میقات میں سے کسی میقات کی محاذات ( برابری ) سے احرام باندھنا واجب ہے ۔
مسئلہ : اگر ایسے راستہ سے جارہا ہے کہ جس میں میقات مقررہ کوئی نہیں آئے گی، تو اس کو محاذات معلوم کرکے احرام باندھنا چاہیے۔ اگر محاذات معلوم نہ ہو، تو تحری کرے، یعنی غورو فکر سے محاذات کا اندازہ لگائے اور جس جگہ محاذ کا ظن غالب ہو، وہاں سے احرام باندھ لے ۔
مسئلہ : تحری اور غورو فکر اس وقت کرنا چاہیے، جب کہ کوئی بتانے والا موجود نہ ہو، لیکن اگر محاذات کا واقف کا ر اگر موجود ہے، تو اس سے پوچھ لینا واجب ہے؛ لیکن اگر دونوں یکساں ناواقف ہوں اور دونوں کی رائے میں اختلاف ہوجائے، تو پھر اپنی اپنی رائے کے موافق محاذات پر احرام باندھ لے ،دوسرے کے قول کا اعتبار نہ کرے ۔
مسئلہ : اس بارے میں کافر کا قول معتبر نہیں، مثلا جہاز میں انگریز یا کافر بتائے کہ اس جگہ سے میقات کی محاذات ہے، تواس کا قول معتبر نہیں؛ البتہ جہاز کے ملازمین میں سے ایک مسلمان عادل شخص وہاں آمدورفت رکھنے ولا اورجاننے والابتادے ،تو اس کا قول معتبر ہے ۔
مسئلہ: اگرکسی کے راستے میں دو میقاتیں پڑتیں ہیں، تواس کو پہلی میقات سے احرام باندھنا افضل ہے اگر دوسری میقات تک مؤخر کیا، توجائز ہے۔ اسی طرح اگر دو میقاتوں کی محاذات پڑتی ہوں، تو پہلی میقات کی محاذات سے احرام باندھنا افضل ہے ۔
مسئلہ : اگر کسی کو محاذات میقات کا علم نہیں اور نہ کوئی جاننے والا ملا، تو ایسی صورت میں مکہ سے دو منزل پہلے احرام باندھنا واجب ہے، جیسے کوئی ہندستانی سمند ر میں سفر کر کے گیا اور میقات کی محاذات کا علم نہ ہوا ،اور کوئی بتانے والا بھی نہ ملا،تو جدہ سے احرام باندھنا ہوگا۔جدہ مکہ سے دو منزل پر ہے ۔
مسئلہ : راستے میں ایک میقات سے گذرتا ہے اور دوسری میقات کے محاذ (برابری) سے بھی گذر ہوگا، تو میقات سے احرام باندھنا واجب ہوگا، محاذ کااعتبار نہ ہوگا ۔
مسئلہ : مدینہ والوں کو یا جو مدینہ کی طرف سے آئے ،تو وہ ذوی الحلیفہ میں احرام باندھے ۔ جحفہ تک بغیر احرام کے آنا اور جحفہ سے احرام باندھنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ : جو آفاقی عمرہ سے فارغ ہو کر مکہ میں مقیم ہو، تووہ مکہ والوں کی طرح حج کا احرام حرم سے اور عمرہ کا احرام حل سے باندھے اور تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے ۔
مسئلہ: اگرمکی میقات سے باہر نکل آئے، تو واپسی میں اس پر بھی آفاقی کی طرح میقات سے احرام باندھنا واجب ہے ۔

28 Jul 2018

میقات مکانی کابیان

میقات مکانی کابیان 
قسط نمبر (11)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

وہ جگہ جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے اور احرام کے بغیر وہاں سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے، اس کی تین قسمیں ہیں : 
(۱) آفاقی کی میقات، یعنی جو لوگ میقات سے باہر رہتے ہیں ۔
(۲) حلی کی میقات یعنی جو لوگ حرم سے باہر رہتے ہیں اور میقات کے اندر کے ہیں، ان کی میقات ۔ 
(۳) حرمی کی میقات، یعنی جو لوگ حرم کے حدو دکے اندر رہتے ہیں، ان کی میقات۔ آفاقیوں کی میقات یہ ہیں : 
(۱) ذوالحلیفہ: یعنی بیر علی مدینہ کی طرف سے آنے والوں کے لیے۔
(۲) ذات عرق: عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ۔
(۳) جحفہ: شام اور مصر کی طرف سے آنے والوں کے لیے۔
(۴) قرن: نجد کی طرف سے آنے والوں کے لیے۔ 
(۵) یلملم: یمن اور ہندستان اور پاکستان وغیرہ سے آنے والوں کے لیے۔ (ہدایہ ) 
ان لوگوں کے لیے رسول ﷺ نے یہی میقاتیں مقرر کی ہیں، چنانچہ حدیث میں ہے:
وقَّتَ رسول ﷺلا ھل المدینۃ ذالحلیفۃ، و لا ھل الشام الجحفۃ، ولا ھل نجد قرن المنازل، ولا ھل الیمن یلملم، فمن لھم ولمن اتی علیھن من غیر اھلھن لمن کان یرید الحج والعمرۃ، فمن کان دونھن فمھلہ من اھلہ وکذاک وکذاک حتی اھل مکۃ یھلون منھا ( متفق علیہ) 
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لیے جحفہ اور نجد والو ں کے لیے قرن منازل اور یمن والوں کے لیے یلملم میقات مقررکی ہیں۔ یہ میقات ان میقات والوں کے لیے ہے اور ان کے علاوہ جو بھی ان راستوں سے گزرے ان کے لیے بھی یہی میقات ہے ،جو بھی حج اور عمرہ کے ارادہ سے آئے ۔ اور جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں، ان کی میقات اپنے اہل سے ہے۔ اسی طرح اور اسی طرح یہاں تک مکہ والے مکہ سے احرام باندھے ۔ (بخاری ومسلم ) 
یعنی جو لوگ میقات مقررہ کے اندر رہتے ہیں، ان کے لیے میقات اپنا گھر ہے۔ افضل یہی ہے کہ گھر سے احرام باندھے، ورنہ کم از کم حدود حرم سے باہر ضرور احرام باندھ لے۔ اور جولوگ حدود حرم میں رہتے ہیں، وہ بھی اپنے گھرسے احرام باندھے، یا حرم کے اندر جہاں سے چاہے ۔ اس حدیث سے تینوں قسم کی میقات معلوم ہوگئی اور آپ ﷺنے فرمایا: 
مھل اھل المدنیۃ من ذی الحلیفۃ والطریقۃ الا الجحفۃ ومھل اھل العراق من ذات عرق (رواہ مسلم ) 
مدینہ والوں کے لیے میقات ذوالحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے اور عراق والوں کی ذات عرق ہے ۔(مسلم)
جحفہ رابغ کے قریب مکہ سے تین منزل پر ایک مکان ہے، جو شام والوں کی میقات ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک میقات والے جب دوسری میقات پر پہنچے، تووہی دوسری میقات اس کی میقات ہے ،جیسے مدینہ والوں کے لیے میقات ذوالحلیفہ ہے، جو مدینہ سے تقریبا چھ میل دور ہے، جس کا نام آج کل بیر علی ہے۔ آ پﷺ نے مدینہ والو ں کے لیے جب کہ دوسرے راستے آئے، تو اس کے لیے وہی میقات بتائی، جو شام والوں تھی، یعنی جحفہ۔ ذات عرق ایک مقام کانا م ہے، جو آج کل ویران ہوگیا ہے۔ مکہ مکرمہ سے تقریبا تین روز کی مسافت پر ہے۔ عراق سے مکہ آنے والوں کے لیے آپ نے یہ میقات ٹھہرائی ہے ۔
قسط نمبر (12) کے لیے کلک کریں