حلی کی میقات
قسط نمبر (12)
تصنیف:
حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جو لوگ میقات میں، یا میقات اور حدود حرم کے درمیان میں رہتے ہیں، ان کے لیے کل زمین حل میقات ہے۔ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے جہاں چاہے احرام باندھ لے، لیکن گھر سے احرام باندھنا افضل ہے ۔(ہدایہ)
حرمی کی میقات
حج کے لیے مکہ اور حدود حرم میں رہنے والے کے لیے حرم کی کل زمیں میقات ہے ، حدود حرم میں جہا ں چاہے احرام باندھ لے ۔ (ہدایہ)اور عمرہ کے لیے میقات حل ہے، جیسا کہ حضرت عائشہؓ کو آپ ﷺنے عمرہ کے احرام کے لیے تنعیم بھیجا ۔(بخاری و مسلم )
مسئلہ : آفاقیوں کے لیے جو میقات بیان کی گئی ہیں، یہ خاص ان ممالک والوں کے لیے بھی میقات ہیں اور جو لوگ دوسرے ممالک کے رہنے والے مکہ مکرمہ کو جاتے ہوئے ان میقاتوں سے گزرتے ہیں، ان کے لیے بھی یہ میقات ہیں ،جیسا کہ روایت سے واضح ہوا۔
مسئلہ : آفاقیوں کے لیے اگر وہ مکہ یا حرم کے ارادے سے سفر کرے، تو اس کو میقات پر پہنچ کر حج یا عمرہ کا احرام باندھنا واجب ہے، خواہ حج یا عمرہ کا ارادہ ہو یا نہ ہو ۔ (ہدایہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا یجاوز الوقت الا بالاحرام ( رواہ ابن ابی شیبہ)
احرام کے بغیر کوئی میقات سے آ گے نہ بڑھے ۔
مسئلہ : مکہ یا حرم میں حج یا عمرہ کے ارادہ سے جائے، یا تجارت و سیر کے لیے جائے، بہر صورت میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا واجب ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ : میقات پر آنے سے پہلے بھی احرام باندھنا جائز ہے، بلکہ افضل یہ ہے کہ اپنے گھرہی سے احرام باندھ لے، بشرطیکہ ممنوعات احرم میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو؛ ورنہ مکروہ ہے ۔ (ہدایہ)
سئل علی رضی اللہ عنہ عن قولہ عز وجل: واتمو الحج والعمرۃ للّٰہ فقال: ان تحرم من دویرہ اھلک ( رواہ الحاکم فی تفسیرہ من المستدرک وقال: صحیح علی شرط شیخین)
حضرت علیؓ سے اللہ تعالیٰ کے قول و اتموا الحج والعمرۃ کے بارے میں سوال کیا گیا، آپؓ نے فرمایا: حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھو۔
مسئلہ: اگر کوئی شخص خشکی میں، یا سمند ر میں ایسے راستہ سے مکہ جارہا ہے کہ اس میں کوئی میقات مذکورہ بالا میقاتوں میں سے نہیں آئے گی، تو اس کو مذکورہ بالا میقات میں سے کسی میقات کی محاذات ( برابری ) سے احرام باندھنا واجب ہے ۔
مسئلہ : اگر ایسے راستہ سے جارہا ہے کہ جس میں میقات مقررہ کوئی نہیں آئے گی، تو اس کو محاذات معلوم کرکے احرام باندھنا چاہیے۔ اگر محاذات معلوم نہ ہو، تو تحری کرے، یعنی غورو فکر سے محاذات کا اندازہ لگائے اور جس جگہ محاذ کا ظن غالب ہو، وہاں سے احرام باندھ لے ۔
مسئلہ : تحری اور غورو فکر اس وقت کرنا چاہیے، جب کہ کوئی بتانے والا موجود نہ ہو، لیکن اگر محاذات کا واقف کا ر اگر موجود ہے، تو اس سے پوچھ لینا واجب ہے؛ لیکن اگر دونوں یکساں ناواقف ہوں اور دونوں کی رائے میں اختلاف ہوجائے، تو پھر اپنی اپنی رائے کے موافق محاذات پر احرام باندھ لے ،دوسرے کے قول کا اعتبار نہ کرے ۔
مسئلہ : اس بارے میں کافر کا قول معتبر نہیں، مثلا جہاز میں انگریز یا کافر بتائے کہ اس جگہ سے میقات کی محاذات ہے، تواس کا قول معتبر نہیں؛ البتہ جہاز کے ملازمین میں سے ایک مسلمان عادل شخص وہاں آمدورفت رکھنے ولا اورجاننے والابتادے ،تو اس کا قول معتبر ہے ۔
مسئلہ: اگرکسی کے راستے میں دو میقاتیں پڑتیں ہیں، تواس کو پہلی میقات سے احرام باندھنا افضل ہے اگر دوسری میقات تک مؤخر کیا، توجائز ہے۔ اسی طرح اگر دو میقاتوں کی محاذات پڑتی ہوں، تو پہلی میقات کی محاذات سے احرام باندھنا افضل ہے ۔
مسئلہ : اگر کسی کو محاذات میقات کا علم نہیں اور نہ کوئی جاننے والا ملا، تو ایسی صورت میں مکہ سے دو منزل پہلے احرام باندھنا واجب ہے، جیسے کوئی ہندستانی سمند ر میں سفر کر کے گیا اور میقات کی محاذات کا علم نہ ہوا ،اور کوئی بتانے والا بھی نہ ملا،تو جدہ سے احرام باندھنا ہوگا۔جدہ مکہ سے دو منزل پر ہے ۔
مسئلہ : راستے میں ایک میقات سے گذرتا ہے اور دوسری میقات کے محاذ (برابری) سے بھی گذر ہوگا، تو میقات سے احرام باندھنا واجب ہوگا، محاذ کااعتبار نہ ہوگا ۔
مسئلہ : مدینہ والوں کو یا جو مدینہ کی طرف سے آئے ،تو وہ ذوی الحلیفہ میں احرام باندھے ۔ جحفہ تک بغیر احرام کے آنا اور جحفہ سے احرام باندھنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ : جو آفاقی عمرہ سے فارغ ہو کر مکہ میں مقیم ہو، تووہ مکہ والوں کی طرح حج کا احرام حرم سے اور عمرہ کا احرام حل سے باندھے اور تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے ۔
مسئلہ: اگرمکی میقات سے باہر نکل آئے، تو واپسی میں اس پر بھی آفاقی کی طرح میقات سے احرام باندھنا واجب ہے ۔